ڈاکٹر الیاس عشقی(حیدرآباد)
ایسا خیال پڑ تا ہے کہ کسی نے کبھی عبدا للہ جاوید صاحب کی شا عری کے پہلے مجمو عے ’’ موجِ صد رنگ ‘‘ کو بجا طور پر زندہ جاوید شا عری قرار دیا تھا۔میں اس میں تر میم وضاحت سے کر نا چا ہتا ہوں کہ ایک زندہ جاوید شا عر کی زندہ جاوید شا عری ہے۔اس لئے کہ شا عری شاعرسے اور شا عر شا عری سے زندہ رہتا اور پہچا نا جا تا ہے ۔
پہلی رائے میں مبالغہ کا شا ئبہ ہو تو ہو مگر میری رائے بے لاگ ہے او ر پوری ذ مہّ د ا ری کے سا تھ دی گئی ہے کہ اس کتاب کا ظاہر باطن کا اور باطن ظا ہر کا أئینہ دار ہے ۔لیکن عروس جمیل کے قامت پر لباس حریر تنگ پڑ گیا ہے۔ کتاب دیدہ زیب اور اس کے مندر جا ت لطیف اور خیال انگیز ہیں۔
دنیا میں شا عری کی بہت تعریفیں کی گئی ہیں مگر فن کو ئی تعریف قبول نہیں کرتا اور دائرہ امکان کو توڑ کر نکل جاتاہے۔عبداللہ جا وید صاحب نے بھی بڑے خلوص اور ہنر مندی سے اپنی شاعری اور معاصر ادب کے حوالے سے شا عری کی ایسی تعریف کی ہے جو تعریف معلوم نہیں ہو تی۔انکی تحریر میں جوتازگی اور ابتکار ہے۔اس سے انداز بیان پر ان کی قدرت ما فی ا لضمیر کو صاف اور سنہرے انداز میں بیان کرنے کا سلیقہ اور سادہ الفاظ کی معنویت پر انکی قدرتِاظہارکا اندازہ ہو تا ہے ۔انہوں نے شاعر سے زیادہ پڑھنے وا لے کے ذوق پربھروسہ کیا ہے او ر کہا ہے کہ وہ ان کے کلام کا ان سے بہتر تجزیہ اور انتخاب کر سکتا ہے۔یہ بات اپنی شاعری اور اس کے قاری کے متعلق انہوں نے ا پنے انداز میں کہی ہے ۔شعر کا معا ملہ عجیب ہے ۔اس سلسلے میں ایک عمر کے غورو خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شعر پڑھتے ہی اور سنتے ہی معلوم ہو جا تا ہے کہ یہ شاعری ہے۔شعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔درمیانی کو ئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی تامّل نہیں ہے کہ عبداللہ جا وید صا حب کا دوسرا مجمو عہ ’حصا رِ امکان‘ اچّھی شاعری کی کتاب ہے ان کے کلام کے شا عری ہونے میں توکوئی کلام نہیں لیکن کتنی بڑی شا عری ہے یہ فیصلہ تو وقت گزرنے کے بعد ہی تا ریخ کرے گی۔ابھی تو شاعر او راسکی شاعری ہماری آنکھوں کے اتنے قریب ہیں کہ آنکھیں پوری طرح ادراک نہیں کر سکتیں۔کبھی شعر شاعر سے تو کبھی شاعرشعر سے زیادہ بڑا نظر آتاہے۔یہ فاصلہ دونوں میں تواز ن پیدا کر دے گاتو حقیقت ابھر کر سامنے آجائیگی۔جہاں تک اس نا چیز کی رائے کا تعلق ہے تا ریخ کا فیصلہ ذوق اور عقل کے خلاف نہ ہوگا۔
جدید ترین تنقید نے جس میں بلا شک ایک حد تک فکری صدا قت بھی ہے یہ خیال ظا ہر کیا ہے کہ شاعر جب خارجی ماحول سے اثرات اخذ کر کے اپنے شعور اور تحت ا لشعور کے عمل سے گذر کراسے ایک بار پھرخارج کے حوالے کر تا ہے تو اس میں ذاتی عنصر سے انکا رنہیں کیا جا سکتا ۔ شاعر اپنی شا عری سے با لکل بے تعلق کیسے ہو سکتا ہے۔ فکرو جذ بات کا توازن اس قسم کی تقسیم کواور اس بے رحم عمل کو برداشت نہیں کر سکتا۔اس مختصر ریڈیائی جا ئزے میں اس طول کی گنجا ئش نہ تھی لیکن شا عر نے کچھ ایسے مسائل چھیڑے تھے کہ یہ با تیں نا گزیر معلو م ہوئیں۔ اس طول کلام کے بعد اصلی کتاب کے با رے میں گفتگو کا وقت کم رہ جا ئے گا اور اسکے ساتھ انصاف نہ ہو سکے گا۔
اس دور میں مختصر نظموں کا رواج ضرورت سے زیا دہ ہو گیا ہے۔جس میں دیسی اور بدیسی سانچے سب ہی ہیں ۔لیکن یہاں ہمارا موضوع دیسی سانچوں سے متعلق ہے۔ ہما رے دور کی مختصرریزہ چینی کی یہ مثالیں ایسی ہیں جن میں مفہوم کو خورد بین سے تلاش کر ناپڑتاہے۔اس سلسلے میں عبداللہ جا وید صا حب ایک منفرد فکر کے شا عر ہیں ۔ ان کی تقریباَ سب ہی مختصر نظمیں مرکزی خیال اور فکری عنصر کا ایک توازن پیش کر تی ہیں۔ یہ شاعر کی طبیعت کا توا زن ہے جس نے انکی اکثر چھوٹی نظموں کو ایک منفرد مقا م دے دیا ہے۔
انہوں نے مشرق اور مغرب کے جس فکری اور تیکنیکی توازن کا ذکر کیا ہے اور مشرقی اقدار کی جس پاسد اری کا ذکر کیا ہے وہ بھی ان کی چھو ٹی نظموں میں نظر آتی ہے۔چھوٹی نظموں کی بلا غت ا ور معنویت ایک جہاں معنی رکھتی ہے جو الگ ایک اظہارِ خیال چا ہتی ہے۔یہاں کچھ اور مختصر نظموں کاذکر کرنا ہے انہوں نے بہت طویل نظمیں تو لکھی ہی ہیں لیکن نسبتاَ طویل نظمیں بھی مختصر ہی ہیں جن میں بڑے موضوعا ت کو ’’ کوزے ‘‘ میں بند کیا ہے۔ یہ بھی ایک جدا گا نہ بیان چا ہتا ہے اور ہمیں سرِ دست مختصرنظموں سے تعلق ہے۔
’’ حصارِ امکان ‘‘ کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ایک لمحہ کو بھی گمان نہیں ہوتا کہ’ زوا لوجی‘ کی حقیقت بیان کر رہا ہے: سنڈی سے تتلی کے قالب میں آنا پھر سنڈی بن جانامر جاناتتلی بن کر اڑ جانا
دیکھئے کس طرح انہوں نے غاؔلب کے دشتِ امکان کو دائرہ امکان میں لا کر ایک فطری حقیقت کو کسی حد تک افشا کیا ہے۔نظم ’’ کیسی بلندی کیسی پستی ‘‘ ملا حظہ کیجئے۔
پانی با دل کا
اونچے سے اونچاجاتا بھی ہے
نیچے سے نیچےآتا بھی ہے
جو حقیقت ان سا دہ لفظوں میں بیان ہوئی ہے حیرت ہے سادہ لفظوں میں کیسے سما گئی۔ اگر آپ کو مایا کا روپ دیکھنا ہو تو اس دشوار فلسفے کو ان سا دہ سلیس لفظوں میں دیکھئے۔
صورت کے اندرصورت گر دیکھوںباہر سب دھو کاکیوں باہر دیکھوں
مایا کے مقا بلے میں کس خوبصورتی سے وجود کی تصدیق کی گئی ہے۔مجرد آزادی کے تصور اور اصل صورت حال کے احساس کی نزاکت دیکھئے۔
پنجرے کے باہر بھی
شاید
پنجرہ ہے
باہر کے باہر بھی شاید
پنجرہ ہے
احساس کی اس سطح پر شا عری کم ہوئی ہے ۔ جبرو اختیا ر کے الجھے ہوئے موضوع کو بھی اس انداز سے بیان کیا ہے تعجب ہوتا ہے کہ انہیں نا گزیر الفاظ کس آسانی سے مل جا تے ہیں
دریا میں رہنا بھی ہے
بہنا بھی ہے
پل پل کچھ کرنا بھی ہے
بھرنا بھی ہے
فصلِ غم بونا بھی ہے
ڈھو نا بھی ہے
مرنے سے ڈرنا بھی ہے
مرنا بھی ہی
غزل کا انداز بھی نرالا ہے مانوس مگر احساس کی سطح پر بلندی کو چھو تا ہوا
جس سے بھی دل لگا وہ بڑی دیر سے ملا جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا
فیصلہ تھا نہ مانگوں اس کو ہاتھ اٹھاتا تو دعا کیا کرتا
اپنی تخلیق کی اکا ئی میں ایک ہیں خلق اور خدا دونوں
مانگتے وقت ہوا کیا جا ویدؔ کس کی نیّت تھی کسے مانگ لیا
اپنی حسّیت میں جاوید صا حب سب سے جدا ہو تے ہوئے بھی سب کے ہم آواز نظر آ تے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے ۔ (ریڈیا ئی تبصرہ۔ریڈیوپاکستان حید رآبا د ‘ سندھ۔ ۷ ۲ مئی ۲۰۰۳ ۔وقت نشر۔ ۴ بج کر ۳۰ منٹ )