مقدمہ کچہری میں چلنے لگا، ہندو بڑے مالدار، صاحب اقتدار اور حکام کے منہ چڑھے ہوئے تھے،لیکن پراتھرو صاحب کی کوشش اور امداد سے ہم لوگ بچ گئے ؛ میرے میرے خیالات اور سمجھ بوجھ کی کیفیت جو اب ہے، اگر اس وقت بھی یہی ہوتی تو میں بیل کے بجاے بکرے کی قربانی کو ترجیح دیتا اور صدہا آدمیوں کے دلوں کو نہ دکھاتا ؎
مباش در پے آزار و ہرچہ خواہی کن
کہ در شریعت ما غیر ازیں گناہے نیست
قربانی کے اس واقعہ کے بعد پورٹ بلیر کے سب ہندو آپس میں متفق ہوگئے کہ خواہ ہزاروں روپیہ خرچ ہو جائے ہم محمد جعفر کو سخت سزا دلا کر چھوڑیں گے، انہوں نے ساز باز کرکے مونگا لال محرر کو جو میرے ماتحت تھا، اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اسٹیشن کے حساب میں تغیرو تبدّل کرکے میرے خلاف چوری اور غبن کا دعوی دائر کردے؛ چنانچہ اس نے نیلام کے ایک حساب میں جو میری معرفت ہوا تھا، کمی بیشی کرکے سو روپیہ کا غبن میرے ذمہ لگا دیا، فارسی اور انگریزی دونوں حسابوں سے ان رقوم کی تصدیق کراکے بہت سے گواہ بھی بنا لیے، اگرچہ ضلع دار کو اس کی خفیہ رپورٹ ہو گئی تھی، مگر ابھی تک مجھے اس کارروائی کا قطعاً علم نہ تھا۔
آخر کار ایک دن اوورسیر نے میرے گھر اچانک چھاپا مارا اور سرکاری حساب کتاب سے متعلق تمام کتابیں اپنی گرفت میں لے لیں، میں نے سمجھا شاید میرے قتل کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جب مجھے صحیح صورت حال کا علم ہوا اور پتہ چلا کہ دوسرے دن اس کیس کی تحقیق بھی ہو رہی ہے، تو میں نے کسی نہ کسی طرح اپنی زیرِ حراست کتابوں کو ایک گھنٹہ کے لیے حاصل کرکے اور اس ایک گھنٹہ میں جعل سازی کی اس کارروائی کو ملیامیٹ کرکے جو ایک مہینہ میں تیار ہوئی تھی، اپنا حساب ٹھیک کردیا۔
دوسرے دن جزائر انڈمان کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پراتھرو صاحب کے زیر صدارت اجلاس میں تحقیقات شروع ہوئی، جب مدعیوں کی نشاندہی کے مطابق کتابوں میں حساب دیکھا گیا، تو وہ بالکل درست نکلا اور اس میں سر مو فرق نہ تھا، پراتھرو صاحب چونکہ چند روز پہلے قربانی کےمقدمہ میں ہمیں بری کر چکے تھے، اس لیے انہوں نے فوراً کہ دیا کہ یہ مقدمہ اس قربانی والے مقدمہ کے باعث محض عداوت اور دروغ گوئی پر مبنی ہے، اس نے مونگا لال کو چھ ماہ کی سخت قید اور ایک ہندو ریٹر کو ایک درجن کوڑوں کی سزادی اور مجھے بری کردیا۔
ہندو غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے، انہوں نے کورٹ میں کھڑے کھڑے مجھ پر ایک دوسرا الزام چوری کا بھی لگا دیا، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مونگالال نے سزا پانے کے بعد ہاتھ باندھ کر پراتھرو صاحب سے عرض کیا: “حضور کچھ میری عرض ہے”۔ صاحب نے کہا: “کہو! کیا ہے؟” اس نے کہا کہ حضور نے محمد جعفر کو بازار بنوانے کے لیے لکڑی کے جو سرخ تختے دیے تھے، اس نے انھیں اپنے گھر میں استعمال کر لیا ہےاور ان سے گھر کے دروازے، تخت پوش اور صندوق بنوالیے ہیں، اگر حضور اسی وقت تکلیف گوارا فرمائیں تو میں وہ سب چیزیں محمد جعفر کے گھر سے پکڑوا سکتا ہوں۔
مونگا جب یہ بیان دے رہا تھا تو میں سر جھکائے خداوند تعالی سے دعا کر رہا تھا کہ اس آفت سے بچانا بھی تیرا ہی کام ہے، وہ سب چیزیں مرے گھر میں موجود تھیں اور اگر حاکم مجھ سے پوچھتا تو اثبات میں سر ہلانے کے سوا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر اس مقلب القلوب کی قدرت کاملہ کرشمہ سازی بغور سننے کے قابل ہے کہ مونگا کے جواب میں پراتھرو نے کہا کہ وہ تختہ تو ہم نے اسے دیا ہے، تمھیں مخبری کرنے کا کیا حق ہے، نکل جاؤ کمبخت میری عدالت سے اور مجھ سے فرمایا کہ تم گھر جاؤ اور آئندہ کے لیے ہوشیار رہو!
۱۸۶۹ء کا ذکر ہے کہ میرے گھر میں ہدو اسٹیشن کے قیدیوں کی تنخواہ کا مبلغ پانچ سو روپیہ موجود تھا، ایک رات گھر کی کھڑکی توڑ کر ایک چور اندر گھس آیا، میرے پلنگ کے نیچے جلتی ہوئی بتی کو اس نے گل کر دیا، رقم ایک چھوٹے سے صندوقچہ میں تھی جو کہ میری پائینتی کے پاس رکھا ہوا تھا، میں گہری نیند سو رہا تھا، میرا نوکر مراد بھی ایک دوسری کوٹھڑی میں سو رہا تھا، الغرض چور کے راستہ میں کوئی چیز بھی مانع نہ تھی، وہ مال سمیٹ کر جانے کے لیے پر تول رہا تھاکہ اچانک میری آنکھ کھل گئی، میں نے اندھیرا دیکھ کر اور کچھ آہٹ پاکر اپنے خادم مراد کو آوازیں دینا شروع کر دیا، چور خالی ہاتھ اور نامراد ہو کر فوراً بھاگ گیا اور اللہ رب العزت نے میری عزت رکھ لی، اگرسرکاری روپیہ چوری ہو جاتا تو اس میں بظاہر سخت خرابی اور بربادی تھی۔
مارچ ۱۸۷۰ءمیں میں نے ایک صد پچاس روپے کی ایک ہنڈی مسڑاسٹراپ اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر کے طرف سے منشی غلام نبی کے نام کلکتہ بھیجی تھی، جس کے ذریعے میں اپنی شادی کے لیے بعض ضروری سامان منگوانا چاہتا تھا اور مال بھی ایک دوسرے تاجر کے نام سے منگوانا تجویز کیا تھا؛ کیونکہ میں سرکاری ملازم تھا، مجھے ہنڈی بھیجنے کا اختیار تھا، نہ مال منگوانے کا، یہ سب ناجائز کارروائی مخفی طور پر کی جا رہی تھی۔
جب میں نے خط مع ہنڈی ڈاک میں ڈالا تو میرے دشمن ہندؤوں کوبھی کسی ذریعہ سے اس کی خبر ہو گئی، انہوں نے کرنیل مین چیف کمشنرکو مخبری کرکے اس خط اور ہنڈی کو پکڑوا دیا اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ زرِ ہنڈی کی ضبطی کے علاوہ مجھےسزا بھی دلائی جائے، مجھے جب خط اور ہنڈی کے پکڑے جانے کا علم ہوا تو میں نے فوراً اپنے خدا کے دروازے پر دستک دی اور عرض کیا کہ اے اللہ! اس مشکل سے نجات بھی تو ہی دے سکتا ہے، دعا کے بعد پراتھرو صاحب کے پاس جا کر میں نے سارا حال کہ سنایا اور کہا کہ یہ بھی درحقیقت اسی قربانی والے واقعہ کی وجہ سے عداوت کا نتیجہ ہے، پراتھرو نے کہا: فکر نہ کرو میں کرنیل مین سے ملاقات کرکے صورت حال دریافت کروں گا، الغرض پراتھرو صاحب کرنیل مین کی کوٹھی پر گئےاور ان سے ملاقات کرکے میری ہنڈی اور خط دونوں واپس لے آئے اور مجھے دے دیے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہندو تمھارے دشمن ہیں، تم ہوشیار اور چوکنّا رہا کرو۔