ترتیب: نذیر فتح پوری
نذیر فتح پوری ایڈیٹر سہ ماہی اسباق پونہ ، ہندوستانی ماہیا نگاروں کا ایک انتخاب ترتیب دے رہے ہیں۔اس انتخاب سے ۲۰ماہیا نگاروں کے ماہیے انہوں نے بطور خاص جدید ادب کے اس شمارہ کے لئے عنایت کئے ہیں۔ سو یہ ماہیے ان کی ترتیب کے مطابق ان کے شکریہ کے ساتھ پیش کئے جا رہے ہیں۔
امید ہے کہ ان کی زیرِ اشاعت کتاب اردو ماہیے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی۔
ادارہ جدید ادب
ناوک حمزہ پوری
(گیا)
ہر جذبہ مشینی ہے
پیا رکی خوشبو کا
فقدان یقینی ہے
تشکیک کا ہے چکّر
پانو نہیں جمتے
اک مرکز و منزل پر
بزم گل و لالہ ہے
نور کے پیکر سے
ہر سمت اجالا ہے
تاریک دماغوں کی
چیخ یہ کہتی ہے
حاجت ہے چراغوں کی
پتھر بھی پگھلتا ہے
پیار کے روغن سے
جب دیپک جلتا ہے
کلیوں کے تبسم سے
باغ میں رونق ہے
پھولوں کے تکلم سے
فرحت قادری
(گیا)
کیا کچھ نہیں ملبے میں
ہوتی ہیں تعمیریں
تخریب کے پردے میں
دل باز نہیں اچھا
آپ تو اچھے ہیں
انداز نہیں اچھا
کیا رنگ ہے محفل کا
تیرے اشارے پر
بہتا ہے لہو دل کا
ہیں موت کے بیوپاری
دونوں برابر ہیں
نیتا ہوکہ پنساری
پانی ہے نہ روٹی ہے
’’امن کبوتر‘‘ کی
تقدیر ہی کھوٹی ہے
موجوں نے بغاوت کی
خیر نہیں فرحت
کشتیٔ محبت کی
رؤف خیر(حیدرآباد)
ناول ہوکہ افسانہ
کچھ تو کھلے پڑھ کر
کیا کہتا ہے دیوانہ
سرکاری مسلمانو !
خود سے ہونا واقف
ملت کو تو پہچانو
مفلوج اگر ہو بھی
چلنے کی کوشش کر
تو چل نہ سکے تو بھی
مصرعے جو مساوی ہوں
ماہیے پھر کیسے
شاعر کے ثلاثی ہوں
کچھ بھی نہ کہو ضِد میں
شکل میں مخبرکی
جاسوس ہیں مسجد میں
اظہا رکی آزادی
میرے لیے کب ہے
ہاں تیرے لیے ہوگی
شکیل گوالیاری
(گوالیار)
دن بھر جو سلگتا ہے
زخم وہ راتوں کو
سورج سا دمکتا ہے
ہر کام اب آساں ہے
ہاتھ بھی اپنے ہیں
اور اپنا گریباں ہے
للکار سے بادل کی
سرد نہیں ہوگی
یہ آگ ہے جنگل کی
ہر آج ہے کل جیسا
دیکھ رہا ہو ں میں
اک خواب غزل جیسا
کانٹوں میں ببولو ں کے
رہ نہ سکوگے تم
پابند اصولوں کے
جوگی ہے نہ بھوگی ہے
اس کو سمجھ دنیا
وہ پریم کا روگی ہے
ایس پی شرما تفتہ
بس اتنی ہے سچائی
صرف محمدؐ ہیں
ہوں جن کا میں شیدائی
کیا سحر بیانی کی
آپؐ کی کلمے سے
کنکر نے بھی خوانی کی
اپنا اسے سمجھا ہے
آپ نے اے آقاؐ
دشمن کو بھی بخشا ہے
قندیل مدینہ ہیں
ان کاہوں پروانہ
جو نور سراپا ہیں
تعظیم محمدؐ کی
پیا رکو سب سے
تعلیم محمدؐ کی
خوشیاں سبھی پاتا ہے
آپؐ کے روضے پر
اک با رجو جاتا ہے
مشتاق جوہر (کلکتہ)
لفظوں کی گواہی پر
شعر لکھو جوہرؔ
ذہنوں کی تباہی پر
بے باک بنادے گی
صبح کی بیداری
چالاک بنا دے گی
پھر نام کماتے ہیں
خونِ جگر اپنا
لفظوں کو پلاتے ہیں
یہ بات نہیں اچھی
کھاتے ہیں اردو کا
بچہ پڑھے انگریزی
کیا خوب تماشا ہے
آج میاں پیسہ
دنیا کو نچاتا ہے
حیران نہیں ہوں میں
تیری سیاست سے
انجان نہیں ہوں میں
امینِ حزیں(پونہ)
اے مولیٰ کرم کردے
اپنی عطا سے تو
دامن کو مِرے بھر دے
انداز عبادت کا
تیغ کے سائے میں
سجدہ ہے سعادت کا
یہ شمس و قمر سارے
اس کی نوازش سے
خادم ہیں مرے گھر کے
کیا عظمت آدم ہے
شان سے لہراتا
توحیدکا پرچم ہے
میں پیکر خاکی ہوں
تیری نوازش ہے
نوری ہوں نہ ناری ہوں
یہ علم کا درجہ ہے
حکم الٰہی کا
پیغام ہی اقراء ہے
عبدالاحد ساز(پونہ)
وہ آئی صدائے کن
حکم ہوا، لکّھو
مفعول مفاعیلن
جو کچھ بھی سناؤں گا
دھیان سے سنیئے تو
میں حمد ہی گاؤں گا
باطن کے حوالوں میں
کھوئے رہے شب بھر
ہم اپنے اُجالوں میں
خوشبو کے ترانے ہیں
لفظ مرے روشن
تسبیح کے دانے ہیں
یہ جسم تو چلمن ہے
دیکھ سکو گر تو
اُس پار بھی آنگن ہے
ملنے کے لیے آیا
وقتِ فراموشی
یادوں کا گھنا سایا
میرؔافضل(شولاپور)
ہے میری حقیقت کیا
ذاتِ خداوندی
بندہ میں ترا بندہ
قطر ہ بھی سمندر ہے
خاک نشیں پیکر
عالم کا مقدر ہے
کیایاد دلاتا ہے
ظلم کا مارا جو
زنجیر ہلاتا ہے
افلاس کے مارے ہیں
کوئی نہیں زندہ
اک قبر میں سارے ہیں
ہرگز نہ بھلا دینا
ماہیے کیسے ہیں
کوئی تو پتا دینا
کچھ اور لکھو بہتر
میرؔ کرو کوشش
کچھ اور کہو بہتر
شرون کمار ورما
(امرتسر)
اک درد اٹھا تازہ
خط یہ پرانا ہے
کانٹا سا چبھا تازہ
کیا پھول تھا سرسوں کا
توڑ دیا میں نے
یارانہ برسوں کا
سوئی ہوئی ہیروں کی
نیند اڑا دے گی
آواز فقیروں کی
من چا ندجو ڈوب گیا
جانے کیوں اپنا
من سب سے اوب گیا
یہ زہر نہیں چکھنا
دنیا سے کوئی
امید نہیں رکھنا
جواپنے اندر تھا
ریت نظر آیا
اترے تو سمندر تھا
ڈاکٹر شباب للت
(شملہ)
اس بُت پہ فدا ہوکر
کیا پایا ہم نے
پابندِ وفا ہو کر
جو بن تھا اُمنگیں تھیں
ڈور تھی آشا کی
سپنو ں کی پتنگیں تھیں
ہاتھ اس سے ملا آئے
دل کو سندرسا
اک روگ لگا آئے
پگ پگ ہے مجھ جھڑکا
تم نے سدا میرے
زخموں پہ نمک چھڑکا
کیا خوب بہانے ہیں
چابی ہے گم ورنہ
بھرپور خزانے ہیں
سچّے فنکاروں کو
کب اعزاز ملے
اصلی حقداروں کو
سیما فریدی
(بدایوں)
یہ بھی بڑی عظمت ہے
شہر بدایوں کی
کل دہر میں شہرت ہے
میراؔ کی لگن لے کر
شعر و سخن کو میں
اپناتی رہی اکثر
رادھا مرے گیتوں میں
بستی ہے آکر
تنہائی کے لمحوں میں
حالات سے کیا ڈرنا
آپ وہی کریئے
جو آپ کو ہے کرنا
خاموش اندھیروں میں
دیپ جلاتے تھے
ارمانو ں کی ڈیرو ں میں
آواز نذیرؔ آئی
ماہیے کہہ سیما!
جی اچھا ! مرے بھائی
ہاشم نعمانی
تاریخ کے پنّوں میں
آگ تعصب کی
محفوظ ہے ذہنو ں میں
کیا خوب کہانی ہے
ہونٹ ہمارے ہیں
او رپیاس تمہاری ہے
قدموں میں لپٹ جاتا
ماں جو مِری ہوتی
آنچل میں سمٹ جاتا
سوکھے ہوئے پتے ہیں
پیڑ کی شاخوں پر
مایوس پرندے ہیں
خوشبو ہے گلابوں میں
پاک محبت کے
چرچے ہیں کتابوں میں
پھولوں کی نگہہ داری
کون نہیں کرتا
بچّوں کی طرف داری
شمیم انجم وارثی
(گارولبہ،بنگال)
کہنے کو ہمارے ہیں
دل کے فسانے میں
سب رنگ تمہارے ہیں
صحرا میں دیا ڈھونڈے
گاؤں میں اک شہری
کولر کی ہوا ڈھونڈے
مہندی نہ لگا ساجن
جو نہ کبھی اترے
وہ رنگ چڑھا ساجن
کیسی مجبوری ہے
پاس ہو تم میرے
سو ہاتھ کی دوری ہے
تصویر مثالی ہے
گوری کے ہونٹوں پر
پنجاب کی لالی ہے
گُل دیکھ کے رجنی کا
یا دنہ کیوں آئے
چہرہ مجھے سجنی کا
شبیر فراز فتح پوری
(فتح پور)
آنکھوں میں جو پانی ہے
مول نہیں اس کا
یہ جھیل پرانی ہے
پلکوں پہ سجا لینا
قطرے ہیں یادوں کے
دل سے نہ بھلا دینا
ٹوٹا ہوا تارا ہے
چارہ گرد چھوڑو
یہ ہجرکا مارا ہے
پھر اُترا ہے چوری سے
چاند سمندر میں
ملنے کو چکوری سے
ہے میری بھی بینائی
مثل کلیم ان کے
جلوے کی تمنائی
پلکوں پہ جو موتی ہے
ہجر کے ماروں کی
پونجی یہی ہوتی ہے
علیم صبانویدی
(مدراس)
دشمن تھا سویرے کا
نور سے ملنے تک
شیدا تھا اندھیرے کا
پھر ایک سفر جاگا
راہ ہے نورانی
ادراک کا گھر جاگا
ہم آنکھ مچولی میں
دور نکل آئے
کچھ بھی نہ تھا جھولی میں
رس ات کا ہے تازہ
آس ہے چوکھٹ پر
اب کھول دو دروازہ
سورج سا ترا پھیرا
پھونس پہ چنگاری
شعلوں نے مجھے گھیرا
چاہت کاچمن رویا
دھوپ کے کھلنے تک
برفیلا بدن رویا
اقبال آصف(بیجاپور)
کہنے کو وہ دریا ہے
کوئی نہیں جانے
اک عمر سے پیاسا ہے
یہ دور بھی کیسا ہے
جس پہ نظر ڈالو
مرتا ہے نہ جیتا ہے
خود جاگتے پہلے تھے
لوگ تھے وہ کیسے
سورج کو جگاتے تھے
مشکل ہے دیوانے کو
دشت نہ صحرا ہے
اب خاک اڑانے کو
اپنے ہوں کہ بیگانے
دیپ جلاتے ہیں
ہم پیار کے دیوانے
پھر صبح سے کچھ ایسے
آنکھ پھڑکتی ہے
شاید کوئی آجائے
جاوید اشرف فیض اکبرآبادی(راؤرکیلا)
اللہ محبت دے
دہرکے انساں کے
ہر کا م میں برکت دے
میں ماہیے لکھتا ہوں
ناقدِ فن سن لے
اس واسطے زندہ ہوں
اب خوشیاں ملیں یا غم
لے کے قلم کاغذ
اشعار لکھیں گے ہم
ہر ساتھی چھوٹے گا
رشتہ کاغذ کا
اک روز تو ٹوٹے گا
جو درد بھرا ہوگا
گیت سنوگے تو
ہر زخم ہرا ہوگا
اے فیض یہیں ہے وہ
زیرِ فلک دیکھو
محبوب حسیں ہے وہ
حسنین عاقب
(پوسد)
اس دور جوانی میں
رکتا نہیں کچھ بھی
بہتے ہوئے پانی میں
قانون بنے ایسے
شرم سے منھ ڈھانپا
جنگل کے اصولوں نے
ہے جان ہتھیلی پر
عزم مصمّم ہے
شانوں پہ رہے نہ سر
نکلے ہیں پناہوں سے
سانپ جو لٹکے ہیں
تہذیب کی باہوں سے
جل سوکھ گیا کب سے
آنکھ میں پانی ہو
مانگو یہ دعا رب سے
اک آن میں رائی تھے
مرے ارادے تو
کاغذ کے سپاہی تھے
شاہین اجمیری
(بیکانیر)
شکوہ نہیں قسمت سے
رب نے نوازا ہے
افکار کی دولت سے
چھلنی مرا سینہ ہے
پھر بھی مجھے شاہیںؔ
ہر حال میں جینا ہے
وہ پست نہیں ہوتے
سخت گھڑی میں بھی
جو ہوش نہیں کھوتے
غرت نے ستایا ہے
پھر بھی میا ں ہم نے
ایمان بچا یاہے
جائز نہیں غدّاری
پیار کے رشتوں میں
لازم ہے وفاداری
قبضہ ہے غلاظت کا
دَور گیا شاہیںؔ
افسوس ، نفاست کا