یورپی تاجروں کے ہندوستان کی پیداوار پر کنٹرول کا مطلب یہ تھا کہ یورپ کی اپنی نوزائیدہ صنعت خطرے میں تھی۔ آخر انگلش، فرنچ، ڈچ اور دوسرے ہندوستانی کپڑے کا مقابلہ کیسے کر سکتے تھے جبکہ اس کا معیار بہتر تھا اور قیمت کم۔ لیکن یورپ کی صنعت چلتی رہی۔ زیادہ درآمد کا مطلب یہ نکلا کہ اس کپڑے کی مانگ بھی یورپ میں زیادہ پیدا ہوئی۔
سترہویں صدی کے آخر میں جب کاٹن کی درآمدات زیادہ ہو رہی تھیں تو یورپ کی اون اور لنن سے وابستہ لوگ حکومت پر دباوٗ ڈال رہے تھے کہ ہندوستانی درآمدات کی یلغار سے انہیں بچایا جائے۔ اس نے یورپ کے قدیم پیشوں کو غیرمستحکم کر دیا تھا۔
لندن کی اون کے تاجروں نے کاٹن کے کپڑے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ پارلیمان میں 1623 میں بحث ہوئی کہ کیسے انڈیا سے آنی والی درآمدات کو روکا جائے۔ اگلی دہائیوں میں یہ ہنگامہ جاری رہا۔ برطانیہ تحریکیں چلیں جو بیرونی اثرات سے معاشرے کو لاحق خطرات کے بارے میں تھیں۔ “ایسٹ انڈیا کمپنی لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔ سب کو بے روزگار کر رہی ہے”۔ یہ 1708 میں ڈیفو ریویو اخبار کا اداریہ تھا۔
انگلیڈ نے عوامی دباوٗ کی وجہ سے 1685 میں ہندوستانی درآمدات پر دس فیصد ڈیوٹی لگا دی تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ 1690 میں اسے دگنا کر دیا گیا۔ 1701 میں پرنٹڈ کپڑے کی درآمد پر پابندی لگائی گئی۔ 1721 میں ہندوستانی چھینٹ کے سفید کپڑے پہننا جرم قرار پایا۔ 1774 میں پارلیمان نے ہندوستانی کپڑے پر پابندی لگا دی۔ سادہ ململ اور لٹھا قانونی تھے لیکن ان پر بھاری ٹیکس تھا۔ تاہم کسی اقدام سے بھی مقامی لنن اور اونی صنعت واپس نہیں آ سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس نے 1686 سے 1785 کے درمیان ہندوستانی کپڑے کی آمد روکنے کے لئے دس قوانین پاس کئے۔ ان کی خلاف ورزی پر پچاس ہزار لوگوں کو سزائیں ملیں۔
وینس نے 1700 میں ہندوستانی کاٹن پر پابندی لگائی۔ پروشیا میں فریڈرک ولہلم نے 1721 میں شاہی فرمان جاری کیا۔ سپین نے 1717 میں۔ عثمانی سلطان عبدالحمید اول نے اپنی عوام پر کئی ہندوستانی کپڑے پہننے پر اٹھارہویں صدی کے آخر میں پابندی لگائی۔
فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہنرمند جارج روکے نے 1678 میں کتاب لکھی کہ ہندوستانی وڈبلاک پرنٹنگ کیسے کی جاتی ہے جو انہوں نے احمد آباد میں سیکھی تھی۔ یہ فرانس میں مقبول ہوئی۔ پانڈی چری میں فرنچ کمپنی کے ملازمین نے چھینٹ کا کپڑا بنانے کی تکنیک سیکھی اور یورپ لائے۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں بھی ہندوستانی کپڑا یورپ میں اعلیٰ معیار کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ ڈی فلے نے 1807 میں لکھا کہ “فرانس میں روئی صاف کرنے کی تمام کنگھیاں ویسی بنائی جائیں، جیسی بنگال میں بنتی ہیں، ہمیں ان کے معیار تک پہنچنے کے لئے ان کی نقل کرنی ہے”۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی 1730 کی ڈائری سے، “افریقہ میں غلام بیچنے والے میڈ ان انڈیا کپڑے کا تقاضا کرتے ہیں”۔
جب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور مشینی طریقے سے پیداوار ہونے لگی تو یورپ کے پاس افریقہ اور امریکاز کی صورت میں برآمدات کی منڈیاں آسانی سے دستیاب تھیں۔
یہاں پر سوال یہ کہ آخر یورپی ہی کیوں اس میں اس قدر کامیاب ہوئے؟ تاجر محفوظ تھے۔ معیشت کے ثانوی حصے جیسے انشورنس، فائننس، جہازرانی، ڈویلپڈ تھے جو کاٹن کی صنعت کے لئے ضروری تھے۔ حکومت مستحکم تھی۔ سرکاری کریڈٹ، مالیاتی نظام اور قومی دفاع مضبوط تھا۔ اس وجہ سے صنعتی تکینک بنائی جا سکتی تھی اور کمرشل تجربات کئے جا سکتے تھے۔ ایجادات ممکن تھیں۔ اہم چیز اجناس کی پیداوار نہیں، اس پیچیدہ نظام کی تخلیق اور مضبوطی تھی۔
اور اگر سوال یہ کہ یہ سب کچھ یورپ میں ہی کیوں ہوا؟ اس کا جواب رومانوی نہیں لیکن دلچسپ ہے اور طویل ہے۔ اور اس سیریز کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
ابھی کے لئے ہم اس جگہ چلتے ہیں جہاں صنعتی انقلاب شروع ہوا۔ یہ مانچسٹر کے قریب ایک خاموش وادی تھی جس میں تیزرفتار ندی بہتی تھی۔
ساتھ لگی پہلی تصویر میں کرسی کی پوشش کے لئے چھینٹ کا کپڑا جو اٹھارہویں صدی میں ہندوستان میں تیار ہوا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کو یورپ برآمد کیا۔ آج یہ سویڈن میں نورڈک میوزیم میں نمائش کے لئے موجود ہے۔
دوسری تصویر میں ڈچ مارکیٹ کے لئے اٹھارہویں صدی میں ہندوستان میں تیار کردہ کپڑا جو متمول لوگوں کے لئے دیوار پر ٹانگنے کے لئے بنایا گیا۔