ستائیسویں تاریخ اپریل کی ناؤ پر سوار ہو کر آگے چلا۔ اس پر ایسا ہجوم آدمیوں کا تھا کہ جنبش کرنا محال ہوا۔ ہزار خرابی سے نو کوس بعد پنولی میں پہنچ کر اترا۔ وہاں سے ڈھرّہ پہاڑ کا تین کوس تھا۔ دوسرے دن پا پیادہ بارہ کوس راہ چل کر بڑگاوں تک آیا اور مقام کیا۔ تیسرے دن پھر بارہ کوس کی منزل طے کر کے پونا میں داخل ہوا۔ پنولی سے یہاں تک زمین اور پہاڑ سبزہ زار، سڑک وسیع اور صاف ہموار تھی۔ قرینے سے دریافت ہوتا کہ بگھی اس راہ سے آتی جاتی۔ یہ رستہ مانند راہ ولایت لندن کے تھا۔
میں نے پونا پہنچ کر ایک دن مقام کیا۔ یہ شہر پرانا ہندوؤں کا لبِ دریا ہے۔ ہر ایک مکان ہندوؤں کا رفیع الشان بنا ہے۔ چھاؤنی انگریزوں کی شہر سے باہر دو کوس کے فاصلے پر ہے۔ یہاں میں نے چاہا گھوڑا خرید کرنا مگر قابل سواری کے ہاتھ نہ لگا۔ لاچار وہاں سے پیدل روانہ ہوا۔ سات کوس طے کر کے موضع لونی میں پہنچا۔ بعد پونا کے راہ میں نشیب و فراز تھا۔ دو عورتیں مرہٹوں کی نوجوان گھوڑوں پر سوار ہتیار باندھے جاتیں۔ عجب عورتیں کہ جرأت و مردانگی میں مردوں سے سبقت لے گئیں۔ لونی سے گیارہ کوس چلا۔ کڑے گانو میں آ کر ٹھہرا۔ صبح اٹھ کر بعادت مقرری راہ چلتا تھا۔ وقت دوپہر اور شدت دھوپ کا ہوا۔ ہزار خرابی سے ریت کے جنگل میں قدم اٹھاتا تھا۔ ناگاہ ایک طرف غول آہوؤں کا نظر آیا۔ ایک ان میں سے سیاہ رنگ تھا۔ میں نے چاہا شکار کرنا اس کا۔ اس خیال سے اس طرف جا کر ایک گولی ماری، اس ہرن کے لگی مگر باوجود گولی کھانے اور زخمی ہونے کے بھاگا۔ میں نے یہ سمجھ کر کہ آخر کہیں گر پڑے گا، اس کا پیچھا کیا۔ یہاں تک کہ دوڑتے دوڑتے دور تک گیا۔ کوہستان اور ریگستان میں پہنچ کر تھک گیا۔ ہرن نظر سے غائب ہو گیا۔ دوڑنے اور دھوپ کی گرمی سے ایسا غلبہ پیاس کا ہوا کہ قریب ہلاکت پہنچا بلکہ مرنے میں کچھ باقی نہ رہا تھا۔ مگر صبر کر کے ایک درخت سایہ دار کے تلے لیٹا۔ لیٹنے کے ساتھ ہی بے ہوش ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش آیا، پانی کی تلاش میں چلا۔ دور سے ایک تالاب سا دیکھا، قریب اس کے جا کر سوکھا پایا۔ مگر جابجا کیچڑ چہلا تھا۔ گڑھوں میں ہاتھ پانوں ڈال کر پانی ڈھونڈنے لگا۔ حسب اتفاق ایک گڑھے میں کیچڑ ملا ہوا پانی تھوڑا سا ملا۔ جلدی سے اس میں مونھ میں ڈال کر گدلا پانی پیا، میرے نزدیک آب حیات سے بہتر تھا۔ گویا اس کے پینے سے دوبارہ زندہ ہوا۔ بعد اس کے اپنے تئیں اس گڑھے میں گرا کر سارا بدن تر کیا۔ پھر اس درخت کے سایہ میں آ کر لیٹا اور سویا۔ شام کو آگے چلنے کی نیت کی۔ مگر اعضا نے یارائے حرکت نہ دی۔ لاچار وہاں رہ گیا۔ رات کے کھانے کو دو میناؤں کا شکار کیا۔ آگ پتھر سے نکال کر گوشت ان کا کباب کر کے کھایا اور اسی گڑھے سے پانی پی کر رات کو وہیں سو رہا۔ ہر چند خوف جانورون درندہ سے نیند نہ آئی۔ مگر جوں توں کر کے رات بسر کی۔ صبح اٹھ کر راہ راست تلاش کرنے لگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے راستہ پر آ پہنچا۔ دوپہر کو سپا میں پہنچ کر ٹھہرا۔ دودھ دہی میٹھے کو جی چاہا۔ ہر چند تلاش کیا پر اس اجاڑ گانوں میں ہر گز میسر نہ آیا۔ فقط دال خشکے پر قناعت کی، رات وہاں کاٹی۔ علی الصباح اٹھ کر چلا۔ راہ میں قافلہ بنجاروں کا دیکھا۔ عورت لڑکے ملا کر قریب دو سو آدمیوں کے تھے۔ اناج شکر گھی اور اَور جنس بیلوں اور چھکڑوں پر لادے تھے۔ کئی گائے بکریاں اور کتے ہمراہ رکھتے۔ میں مدت سے جویائے صحبت اس قوم کا تھا۔ ملنا قافلہ کا غنیمت جان کر ان کے ساتھ ہوا اور کہا کہ میں ارادہ رکھتا ہوں تمھارے ساتھ چلنے کا۔ انھوں نے پہلو تہی کی کہ ہم آہستہ آہستہ منزل چلتے ہیں۔ آپ قطع مسافت میں تیز روی رکھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمارا تمھارا ساتھ نہ نبھے گا۔ میں ان کی پیروی پر راضی ہو کر ساتھ لگا۔ منزل بہ منزل جاتا تھا، یہاں تک کہ ہڑھے میں پہنچا۔ آخر صحبت برآر نہ ہوئی، دیکھنے حرکات بد ان کی تاب نہ آئی۔ تفصیل اس کی یہ کہ وہ بنجارے باوجود یہ کہ ہندو تھے مگر بیلوں چھکڑوں اور گون لدے ہوؤں کو کمال تکلیف دیتے۔ یعنی اگر بیل ساری منزل میں سے کہیں ٹھہر کر چلتے، وہ بے رحم اتنا پیٹتے کہ پیٹھ اور پیٹ بیلوں کے زخمی ہوتے، تو بھی وہ پیٹنے سے باز نہ آتے۔ جب مقام پر پہنچتے تھوڑا سا بھوسا دے کر چرنے کو چھوڑ دیتے۔ ہر گاہ وہ بیل تمام دن محنت بار برداری میں رہیں، شام کو دانہ چارہ آدھا پیٹ پاویں، کیوں کر زیادہ بوجھ اٹھاویں اور جنگل میں خاک چریں کہ قدم اٹھانے کی طاقت نہ رکھیں۔ آپ وہ بنجارے چھکڑے یا بیل پر سوار مقام تک پہنچتے۔ کھانے مزیدار مرغن پکا کر کھاتے اور گھی شکر ملا کر ناک تک بھر لیتے۔ رات کو بیبیاں اپنی گود میں لے کر سوتے۔ زندگی کے مزے اڑاتے۔ اس سے زیادہ کمبختی اور بے رحمی اور کیا ہے کہ بیلوں بےزبانوں باربرداروں کو بھوکا پیاسا رکھتے، آپ پیٹ بھر کھا کر جورو کے ساتھ سو رہتے۔ دوسرے دن پھر انھیں پر سوار ہو کر آگے چلتے اور تھوڑے توقف میں بہت سا مارتے۔ میں حال ان کا دیکھ کر سراپا حیرت ہوا۔ اگر ان کے مذہب میں بیل کا گوشت کھانا جائز ہوتا، نہیں معلوم کیا مفسدہ برپا کرتے اور بیلوں کو کس طرح ستاتے۔ گاؤ پرستی ان کے ہاں حکمِ شاستر ہے، اس پر یہ حالِ ابتر ہے۔ شاید اگر یہ حکم نہ ہوتا، ہر ایک بیلوں کے حق میں قسائی بنتا۔ یہ طرفہ ماجرا ہے اور قصہ نیا ہے کہ آپ ان بےزبانوں پر اتنا ظلم و ستم کرتے ہیں اور انگریزوں اور مسلمانوں کو گاؤ خوری پر طعنہ دیتے ہیں۔ جو کوئی بیل کو ذبح کرے بہتر اس سے کہ تمام عمر باربرداری اور محنت فاقہ کشی میں رکھے۔ انگریز کھانے نفیس بیلوں کو کھلا کر پالتے ہیں، بعد اس کے ایک جائے مقرر پر لے جا کر بیچ سے ایک پتھر ان کے سر پر دے مارتے ہیں۔ بیل فی الفور مر جاتا ہے، کچھ صدمہ اور رنج نہیں پاتا ہے۔ اس صورت میں کس کا ظلم زیادہ ہوتا ہے اور قصور کس کا بہت پایا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ میں بڑہی پہنچ کر تاب بے رحمی ان کی نہ لایا، وہاں سے ساتھ ان کا چھوڑ کر آگے چلا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...