شام کے پانچ بجے کے قریب ہم نے مہارانی انگبوٹ پر سوار ہو کر ایک جگہ ڈیرہ ڈال لیا، اس جہاز پر ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے رہائی حاصل کرنے والے مرد عورتیں، یوروپین اور ہندوستانی مسافر بھی سوار تھے،موسم نہایت خوشگوار اور سمندر پر سکون تھا، موجیں تھیں اور نہ تلاطم، اس دن محرم کی دس تاریخ تھی، چودہویں صدی شروع ہو گئی تھی، غروب آفتاب کے وقت جہاز نے لنگر اٹھایا اور چشم پرآب کے ساتھ ہم نے جزائر انڈمان کو خیر باد کہ کر پیچھے چھوڑنا شروع کردیا۔
اب را ت شروع ہو گئی تھی، چاندنی رات میں سمندر کی لہروں کا نظارہ بڑا فرحت بخش تھا، دوسرے دن جہاز جزیرۂ کوکو میں پہنچ گیا، دو دن بعد کچھ بارش بھی ہوئی جس سے مسافروں کو قدرے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، مگر جب جہاز تھوڑا سا اور آگے چلا گیا تو بارش تھم گئی اور تکلیف رفع ہو گئی۔
علی رضا نامی ایک مشہور تاجر نے جہاز پر ہماری خوب خاطر تواضع کی، دونوں وقت عمدہ کھانا، گوشت، مچھلی، چائے، کافی، برف، ہر قسم کے پھل اور مٹھائیاں ہمارے لیے لاتا، الغرض یہ سفر بڑے ہی راحت و آرام کے ساتھ طے ہوا۔
جب بارش کی وجہ سے سب مسافر تتّر بتّر کانپ رہے تھے، اس وقت رہائی پاکر جانے والے مسافر نور الدین کی عورت کو درد زہ شروع ہوا، اس حالت میں زچہ پانی کانپ رہی تھی، اس کے ہاں پلوٹھے بچے نے جنم لیا اور اس دن تو بیچاری کو مشکل سے دال بھات ملا ہوگا، مگر اسے یا اس کے بچے کو کوئی تکلیف نہ ہوئی، بلکہ دونوں صحیح سالم اور تندرست تھے۔
کلکتہ
جب جہاز کلکتہ بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا، اس نومولود بچے کی عمر صرف دو دن ہوگی، اس کی والدہ بچے سمیت دندناتی ہوئی جہاز سے اتری اور پھر اس کے خاوند نے کلکتہ سے لاہور کا ٹکٹ لیا اور زچہ و بچہ خوش و خرم لاہور روانہ ہوگئے، سمندر میں جنم لینے کی وجہ سے بچے کا نام بھی سمندر ہی رکھا گیا۔
چارد ن اور چار را ت کے سفر کے بعد اللہ کے فضل سے ہم ۱۳ نومبر ۱۸۸۳ء (۱۴ محرم ۱۳۰۱ھ) کو کلکتہ پہنچ گئےتھے، وہاں چینا باڑہ میں مولانا عبد الرحیم صاحب کے برادر مولانا عبد الرؤف صاحب کے گھر رہے، وہاں سے تیسری رات نو بجے ریل پر سوار ہوئے اور کلکتہ سے الہ آباد، کانپور، علی گڑھ اور سہارنپور کا منزل بہ منزل ٹکٹ لیتے ہوئے ۲۱ نومبر ۱۸۸۳ء کو بوقت ۹ بجے شب انبالہ کے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔
انبالہ
کلکتہ سے دو سپاہی اور ایک نائک ہمارے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کے لیے بطور اردلی انبالہ تک ہمارے ساتھ آئے تھے، انڈمان میں چونکہ ساراسال موسم معتدل رہتا تھا، اس لیے انہوں نے پہلے کبھی گرمی سردی کو نہ دیکھا تھا، ہم چونکہ نومبر کے آخر میں کلکتہ میں آئے تھے، اس لیے سردی سے انھیں قدرے تکلیف بھی ہوئی، لیکن پھر آہستہ آہستہ عادی ہو گئے۔
ہر موسم میں جگہ جگہ کا پانی اور طرح طرح کے پھل کھانے کی وجہ سے میرے بیوی بچوں کی طبیعت نہایت شاداں و فرحاں تھی، پورٹ بلیر سے انبالہ تک کا سفر نہایت خوشگوار رہا، ہر دن عید اور رات شب برات کی کیفیت رہی۔
ایک دن وہ تھا کہ ہم 2۲ فروری ۱۸۶۵ء کو انبالہ جیل سے زیور آہنی جوگیانہ لباس اور گلیم سیاہ سے آراستہ و پیراستہ ہوکر انبالہ پولیس کے زیر حراست مغرب کو روانہ ہوئے تھے، اور بڑے آلام و مصائب کا تختۂ مشق بنتے ہوئے گیارہ ماہ میں انبالہ سے کالاپانی پہنچے تھے اور ایک دن یہ ہے کہ ہم بڑے آرام و آسائش کے ساتھ دریائی سفر طے کرکے کلکتہ پہنچے اور وہاں سے ریل کے اسپیشل درجہ میں بلا شرکت غیرے اپنے ہی دس افراد پر مشتمل خاندان کو لے کر انبالہ آئے، نقد و جنس اور عمدہ لباس کو دیکھ کر ہم نواب معلوم ہوتے تھے، پورٹ بلیر سے ٹھیک گیارہ دن بعد انبالہ پہنچ گئے۔
میری اس کیفیت، شان، اولاد اور مال و منال کو دیکھ کر لوگ تعجب کا ظہار کرتے تھے، دوست خوش تھے اور دشمن ناخوش، راستہ میں جہاں بھی اترتا تو ہر شہر کے مسلمان میرا نام سن کر میری ملاقات کے لیے دیوانہ وار دوڑتے چلے آتے تھے اور میری کیفیت دیکھ کر کہتے تھے کہ اللہ جل جلالہ بڑا قادر ہے، وہ سب کچھ کر سکتا ہے، جو بھی میری حالت سے واقف تھا، وہ کہتا تھا کہ تمھارا اس ملک میں اس شا ن سے آنا مردے کے زندہ ہونے سے کم نہیں، جو اس کرامت کو دیکھ کر ایمان نہ لائے وہ دل اور آنکھوں دونوں کا اندھا ہے۔
ذرا غور فرمائیے! یہاں مجھ سے ایک بیوی چھوٹی تھی، کالاپانی میں دوبیویاں عنایت ہوئیں، یہاں دو بچے چھوٹے تھے وہاں آٹھ مرحمت ہوئے، اسی طرح مال و اسباب اور نقد و جنس ہر ایک کا اللہ تعالی نے مجھے نعم البدل عنایت فرمایا، جیساکہ حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے:
وَآتَینَاہ أَہلَه وَمِثْلَهمْ مَعَهمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِکرَى لِلْعَابِدِینَ [الأنبیاء: 84]
یہ آیت میرے اوپر بھی من و عن صادق آتی ہے مگر میرے اس قصہ سے جو آیات الٰہی میں سے ایک بڑی روشن آیت ہے، صرف عابدین و صالحین ہی کو عبرت ونصیحت ہو سکتی ہے، منکرین و منافقین کو نہیں۔
انبالہ
دوسرے دن فجر کے وقت ہم انبالہ شہر پہنچے اور وہاں کے حکام سے اجازت لے کر اپنے آقاے قدیم کپتان ٹمپل صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب میں کپتان ٹمپل کے بنگلہ پر گیا تو وہ دوڑ کر میرے ملنے کے لیے باہر آئے اور اندر لے جاکر مجھے موڑھے پر بٹھایا اور نہایت تسلّی و تشفّی کی اور فرمایا کہ آج سے بیس روپے ماہوار تنخواہ آپ کو اپنی جیب سے دیا کروں گا اور آپ کی ملازمت کے لیے بھی جلد ہی کوئی اچھا انتظام کروں گا۔
کپتان ٹمپل کی کوشش سے بہت سے انگریز مجھ سے پڑھا کرتے تھے، میرے یہاں پہنچنے سے سوا برس بعد تک کپتان نے پچاس روپیہ ماہوار کا میرے لیے انتظام کردیا تھا، اپریل ۱۸۸۶ء کو جب وہ یہاں سے گئے تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا؛ بلکہ پولیس نے میری نگرانی شروع کردی اور مجھ پر سختی بھی بڑھا دی گئی۔
انبالہ پہنچنے کے بعد جب میں نے اپنے اس بیس سالہ سفر کی ہندوستان کے نقشہ کی مدد سے پیمائش کی تو معلوم ہوا کہ انبالہ سے براستہ لاہور و بمبئی کالاپانی تک اور کالاپانی سے براستہ کلکتہ انبالہ تک سات ہزار میل مسافت بنتی ہے اور اس سفر میں ہندوستان کے بعض شمالی اضلاع کو چھوڑ کر تقریباً پورے ملک کا طواف ہو گیا، انبالہ کے صدر بازار میں میں نے ایک مکان کرایہ پر لے لیا اور اہل و عیال سمیت اس میں سکونت اختیار کر لی۔
دہلی
جب گھر کے لیے سب ضروری سامان خرید لیا تو ۱۱ دسمبر ۱۸۸۳ء کو ایک ہفتہ کی رخصت لے کر بذریعہ ریل دہلی گیا، وہاں ایک رات رہ کر دوسرے دن بذریعۂ یکّہ پانی پت پہنچا، اتفاق کی بات ہے پورے بیس برس قبل جب میں پانی پت سے دہلی کی طرف بھاگ گیا تھا تو اس وقت بھی دسمبر کی ۱۳ تاریخ تھی اور آج جب بیس برس بعد واپس آیا تو دسمبر کی ۱۳ تاریخ ہی تھی، وہی سڑک وہی موسم اور وہی تاریخ دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ میں آج صبح ہی بیوی بچوں کو چھوڑ کر دہلی گیا تھا اور آج ہی واپس آیا ہوں۔
پانی پت
مغرب کی نماز کے بعد پانی پت میں اپنے گھر پہنچا، میری بیوی اور لڑکے مجھے دیکھ کر باغ باغ ہو گئے، فرار کے دن جو بچہ چند دن کا تھا، اب بیس برس کا ہو چکا تھا، پانچ دن ٹھہرنے کے بعد براستۂ کرنال تھانیسر چلا گیا اور ایک رات اور چند گھنٹے تھانیسر میں قیام کرنے کے بعد پھر انبالہ لوٹ آیا۔
جس جس شہر میں بھی یہ عاجز گیا، ہزاروں خلقت میری آمد کی خبر سن کر میری ملاقات کے لیے آتی تھی، تھانیسر میں تو اس قدر اژدہام خلائق ہوا کہ میں اس رات سو بھی نہ سکا اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے بہت سے لوگ میری ملاقات سے محروم رہ گئے، انبالہ میں تو کئی مہینوں تک دور دراز سے آنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہا، لوگ میرے منہ کو دیکھ کر خدا کی قدرت پر تعجب کرتے تھے۔
تھانیسر
۱۳ دسمبر ۱8۶۳ء کو جب میں نے تھانیسر سے قدم اٹھایا، اس پر زوال شروع ہو گیا، بیس سال میں آبادی ساتویں حصہ سے بھی کم رہ گئی، مکانات منہدم ہو گئے، گلی کوچے مسدود ہوگئےاور انسانوں کے بجاے بندروں نے کھنڈرات کو اپنا مسکن بنانا شروع کردیا، لیکن خدا تعالی نے قرائن سے مجھے معلوم کرادیا کہ یہ شہر پھر دوبارہ نہایت دھوم دھام سے آباد ہوگا۔
تھانیسر میں میں نے اپنے مولد و مسکن پر جاکر مالک مکان سے جو اس وقت اس میں آباد تھا، منّت سماجت کرکے یہ اجازت چاہی کہ مستورات کو کسی ایک کمرہ میں الگ کردو اور مجھے مکان کے اندرونی قطعات کی زیارت کر لینے دو، مالک مکان نے مجھے پہچان لیا، نہایت اخلاق سے پیش آیا اور اس نے مجھے اندر آنے کی اجازت دے دی، اس جگہ بھی مجھے قدرت الٰہی یاد آئی کہ جس مکان کو میں نے ہزاروں روپے صرف کرکے تعمیر کیا تھا، اس میں اجازت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں رکھ سکتا، خدا سے امید ہے کہ وہ اس مکان کو قبول کرکے اس کے بجاے مجھے آخرت میں مکان عنایت فرمائے گا، اب اللہ تعالی کے چند انعامات کا تذکرہ کرکے بیس سالہ سرگذشت کو ختم کرتا ہوں۔