پیچھلے کچھ عرصے سے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوچکے تھے وجہ مسٹر جناح کا بلا ببانگ دھل دو قومی نظریے کی بنیاد پر دوسرے ملک کامطالبہ کرنا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کو اس کمیشن کا سربراہ بنایا گیا تاکہ ہندو مسلم اکثریتی علاقوں کو بانٹ کر الگ کیا جاسکے اور برصیغر پاک وہند کے الگ کرنے کی دستاویز پر برطانیوی سرکار نے دستخط کر دیے تھے
مسٹر جناح کی کامیابی اور مسلم لیگ کی جیت کےچرچے ہندوستان کے طول عرض میں پھیل گئے جس نے دنگوں و فسادات کو مزید ہوا دی
فسادی سوچ رکھنے والے ہندوؤں کی پوری کوشش تھی کہ بٹوارہ نا ہو انگریز سرکار کے جاتےہی وہ حکمران بن جائیں اور اگر ہو بھی جائے تو مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے اسی سوچ کے زیر اثر انہوں نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو اپنی طرف جھکنے پر مجبور کیا تو سکھوں کو بھی مذہب اور غیرت کے اسباق پڑھاتے ہوئے ساتھ دینے پر تیار کیا پھر انہوں نے منصوبے کے تحت نچلی ذات والی ہندو برادری کے جان و مال پامال کرنا شروع کردیے جبکہ الزام مسلمانوں پر دھرا جانے لگا۔
یہ سب دیکھ کر جو ہندو مسلمانوں کے حق میں نرم جذبات رکھتے تھے اور سچے دل سے اپنے وطن کو ٹوٹتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے بھی انتقامی کاروائی کے لیے مسلمانوں کو مارنا شروع کردیا
“”ایک پکوڑا تیل میں سارے ہندو جیل میں””
“” ایک چونی چاندی کی مت ماری گئی گاندھی کی””
یہ اس وقت کے وہ نعرے تھے جو مسلم اکثریتی علاقوں کے ہر جلسے اور گلی کوچوں میں لڑکے بالے بڑی کثرت اور جوش وجذبے سے بلند کرتے تھے
جب ان نعروں کا شور بلند ہوتے ہوئے لاہور کراچی کی سرحدوں سے نکل کر ممبئی دہلی اور لکھنئو سے ہوتا ہوا انبالہ پہنچا تو اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا سارے ہندوستان میں کہرام مچ گیا
ہندو بنیےگٹھ جوڑ کرکے اپنی آبادی میں موجود مسلم گھرانوں کے مردوں کو مار انکی عورتوں کی عزتیں پامال کرنے لگے
ایسے میں امرتسر کا وہ گاؤں ہی تھا جہاں مخالفت اور نفرت کی فضاء ابھی نچی اڑان اڑ رہی تھی
بہت سے مسلم گھرانے چپ چاپ گاوں سے ہجرت کرکے جاچکے تھے لیکن چوہدری اب بھی بڑے ٹھاٹھ سے اپنی حویلی میں رہتے ہوئے روز مرہ کے کام کر رہے تھے وجہ تیجا سنگھ کی دوستی کے بعد شیر حیدر اور گرومیت کا پکا یارانہ تھا لیکن اس بار گرومیت کے دل میں گڑھی میخ نے اسے توڑ دیا تھا
وہ بلونت کی باتیں نا بھی سنتا تو اسے یقین تھا کہ شیر حیدر جان بوجھ کر ہارا ہے اسے میلے پر دبی دبی سرگوشیاں سننے کو ملی تھیں وہ اس سب کو دوستی سمجھا تھا لیکن بلونت کی بات سن کر اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی ازلی مردانہ غیرت جاگی تو بدلہ لینے کی غرض سے چپ چاپ گھر سے نکلا اور جاکر مخالف گروہ کی میٹنگ میں شامل ہوگیا جسکے لیے اسے کافی دن سے بلایا جا رہا تھے
جہاں آج دوپہر تک اسکا جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
میٹنگ میں چوہدریوں کی لڑکیوں کو زندہ اغواء کرنے کے بعد حویلی کو آگ لگانے کا منصوبہ اسکے سامنے رکھا گیا
اسی وقت شیر حیدر کے ساتھ بچپن کا گزرا وقت آنکھوں کے سامنے لہرایا تو میت کا دل بیٹھنے لگا تھا لیکن اگلے لمحے شیر حیدر کی بے وفائی یاد کرتے اسنے سوچنے کے لیے وقت مانگا اور کل اسی وقت اپنا فیصلہ سنانے کا کہہ کر چلا آیا
رات کافی ہوگئی تھی اسکے دوست روکتے رہے لیکن وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شیر حیدر سے ایک آخری ملاقات کرنا چاہتا تھا
واپسی پر اسکے قدموں کا رخ چوہدریوں کی حویلی کی بیک سائیڈ بنے اپنے ڈیرے کی طرف تھا۔
——————————-
وہ دیکھ نہیں پایا تھا کہ پیچھلے چھ ماہ سے خود کو سات پردوں میں چھپائے رہنے والی نے گھونگھٹ الٹا تھا جسکی آنکھوں میں درد کی سرخی تھی جسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا
جو گھونگھٹ اٹھا کر کسی انجانے سے دکھ پر درد سے بے حال دل کو سنبھالتے وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی ۔۔
پھر اسکے بعد دو تین دن گھر میں چپ چاپ سی خاموشی رہی جسے سوائے شیر حیدر کے کسی نے بھی محسوس نہیں کیا تھا
اس واقعے کے بعد دسواں دن تھا آج اسے آفیشل چھٹی تھی لیکن کچھ ضروری کام نبٹانے کے لیے وہ صبح بچوں کے ساتھ ہی گھر سے نکلا تھا
اور اب جب واپسی ہوئی تو گھڑی گیارہ بجا رہی تھی ۔
یہ سوچتے ہوئے کہ سعدیہ آرام کررہی ہوگی وہ اپنے پاس موجود چابی سےدروازہ کھول کر اندر آیا اور سیدھا کمرے میں چلا گیا
حیرت کی بات تھی کہ ابیہا اکیلی پرسکون نیند سو رہی تھی اور سعدیہ کا کوئی اتا پتا نہیں تھا
کچھ دیر باہر جاکر سعدیہ کو دیکھنے کا سوچتا رہا پھر اس کام کو بعد پر رکھ کر الماری سے کپڑے نکالے اور فریش ہونے کے لیے واش روم میں گھس گیا
کافی دیر ٹھنڈے پانی کی پھورا تلے کھڑے رہنے سے اسکی طبعیت پر کافی اچھا اثر پڑا
باہر آکر تولیہ صوفے پر پھینکا اور ابیہا کو پیار کرتے کمرے باہر نکل آیا اسے کچن سے سعدیہ کے ہنسنے کی آواز آرہی تھی
وہ مسکراتے ہوئے کچن کے دروازے پر پہنچا تھا جب اسکے قدم تھم سے گئے تھے
“تتلی ڈور پتنگ کے پیچھے پاگل ہے
دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے”
یہ آواز تو جانی پہچانی ہی تھی اسے پتا تھا یہ اماں نسائی ہے پر یہ شعر اور اسکے لفظ
((دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے))
آہاہ
مہراں
اسکے دل نے اپنے بچپن کے سنگ کو یاد کرتے ٹھنڈی آہ بھری تھی لیکن پھر اسے آہوں کا سلسلہ روکنا پڑا کیونکہ وہ اور بھی کچھ کہہ رہی تھی
دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے
کاغذ ، ڈور ، پتنگ کے پیچھے پاگل ہے
“یار !!! میں اتنی سانولی کیسے بھاوں تجھے
ہر کوئی گورے رنگ کے پیچھے پاگل ہے”
یہ شعر پڑھنے کے بعد نسائی چپ ہوئی تو سعدیہ کی اداس سی آواز گونجی
“شہزادی ، شہزادہ خوش اور بنجارہ
ٹوٹی ہوئی اک ”ونگ” کے پیچھے پاگل ہے”
“شہر- کبیر کی اک دوشیزہ ”ہیر” ہوئی
اور موءرخ جھنگ کے پیچھے پاگل ہے”
“میں ہوں جھلی اس کے عشق میں اور وہ شخص
آج بھی اپنی ”منگ” کے پیچھے پاگل ہے””
سعدیہ کے چپ ہوتے ہی مہراں بولی ارے واہ باجی آپکو بھی یہ غزل پسند ہے
بلکل کیونکہ اس ایک ہی غزل میں ہم دونوں کا دکھ پنہاں ہے
وہ ابھی بھی آپس میں باتیں کررہی تھیں لیکن شیر چپ چاپ دروازے سے لوٹ گیا تھا
————————
بلونت چپکے سے شیر حیدر کے پاس بیٹھ کر اسکے سر میں ہاتھ پھیرنے لگی تھی جبھی شیر نے کروٹ بدلی اور فطری جذبے کے تحت اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔
اسے شیر حیدر کی طرف سے ایسے کسی بھی اقدام کی امید نہیں تھی وہ چونکی ضرور تھی لیکن اگلے ہی پل دل میں جو زرا برابر ڈر یا کچھ غلط ہونے کا احساس تھا وہ جاتا رہا تھا
اسکے دل نے کہا تھا دیکھا
(( یہ مرد جتنے بھی پارساء بنیں مگر ہاتھ آئی مفت کی شیرینی کبھی نہیں چھوڑتے تمام مرد موقع کی مناسبت سے جلد یا بدیر اپنی پارسائی کا چولا الٹتے ہیں پھر چاہے دن کا اجلا ہو یا رات کی تاریکی کیا فرق پڑتا ہے )
وہ بغیر کسی تردد کے پکے پھل کی طرح اسکے پہلو میں آن گری تھی۔۔
ان دونوں کی کروٹ ایک دوسرے کے مخالف تھی اسے شیر حیدر کی گرم سانسیں اپنے کان کی لو پر محسوس ہورہی تھیں
وہ اپنی نفسانی خواہش میں ڈوبے محسوس نہیں کرپائی کہ اچانک اسکی کلائی چھوڑ دی گئی ہے اور اسکے گرد بازوؤں کا گھیرا کھل گیا ہے کچھ دیر پہلے محبت کے خوبصورت جذبوں سے لبریز لمس کی اس پرگرفت نہیں رہی اور جیسے کسی نے اپنی سانسیں جیسے روک لی ہیں
احساس ہوتے ہی اس نے پھر سے شیر کا ہاتھ پکڑنا چاہا اچانک شیر حیدر کے عقب سے روشنی سی پھوٹی تو اسکا ہاتھ ساکت ہوگیا
وہ روشنی برگد کے نیچے پھیلتے گناہ کے اندھیرے کو نیکی کے نور سے مات دینے جیسی تھی
ہر بار کی طرح ایک بار پھر سے خیر نے شر کو مات دی تھی۔
اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ روشنی شیر کہ عقب سے نہیں بلکہ اسکے وجود سے نکل رہی ہو یا اسکا وجود روشنی میں سے نکل رہا ہو اسے فوراً سے پہلے احساس ہوا کہ وہ چاہ کر بھی بری نیت کے زیر اثر شیر حیدر کو نہیں چھو سکتی وہ آہستہ سے دور ہوئی تھی
—————————
مہراں ہونٹوں پر مدھر سی مسکان دل میں امڈتی میٹھی میٹھی خواہشات کے زیر اثر برگد تک پہنچی تھی جب اسے احساس ہوا کہ شیر حیدر اکیلا نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ چارپائی پر کوئی اور بھی لیٹا ہے ذہن میں پہلا خیال گرومیت سنگھ کا آیا
لیکن اگر میت ویر یہاں آیا ہوتا توشیر جی کو گھر آجانا چاہئے تھا
چل مہراں بی بی واپس مڑ چل جئے کسی نے دیکھ لیا تو پورے پنڈ میں منہ کالا ہوجانا تیرا بھی اور شیر جی کا بھی؟؟
خود ہی اپنے خیال کی نفی کرتے منہ میں بدبداتے جانے کے لیے پلٹی تھی جب کسی کی کھنکتی چوڑیوں نے اسکے قدم زنجیر کیے اندر کی بیوی نے انگڑائی لی تو پل کے ہزارویں حصے میں پلٹتے ہوئے جھک کر برگد کے نیچے جا پہنچی
ٹھیک اسی وقت بلونت نے بھی شیر حیدر کے سینے کی اوٹ سے جھانکا تھا ہے
داز ایسا تھا جیسے شیر حیدر کے سینے میں منہ چھپائے ہوئے ہو ۔
بلونت کا چہرہ دیکھتے اسکے تن بدن میں آگ لگی تھی اس کے اندر کی بیوی پوری طرح بیدار ہوئی
بلنوتے نی چڑیل ڈائن بھی ایک گھر چھوڑ دیتی ہے حرافہ تجھے میرا ہی گھر والا ملا تھا منہ کالا کرنے کے لیے وہ اونچی آواز میں بڑبڑاتے چارپائی کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
شیر حیدر ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔
————————
اس نے زرا کی زرا گردن اٹھا کر دیکھا شیر حیدر کے پیچھے مہراں لالٹین ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی اسے ایکدم سے شرم اور خوف سے پسینہ آیا تھا ۔
لیکن مہراں کے منہ سے اپنے لیے
ڈائن چڑیل اور حرافہ کا نام سن کر اسکے اندر کی شرمندہ ہوتی ڈرتی جھجھکتی بلونت واقعی ڈائن چڑیل بن گئی اس نے سچ میں اپنا منہ کالا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے
پاؤں چارپائی سے نیچے لٹکایا اور سرھانے پڑے دوپہر والے برتن دور دھکیل دیے ۔۔
چھڈ دے شیر تجھے تیرے اللہ کا واسطہ چھڈ دے برتن پھینکنے کے بعد وہ دبی دبی آواز میں چیخی تھی شیر حیدر ایک جھٹکے سے اٹھ کر چارپائی سے دور ہوا بلونت کا دوپٹہ جو شاید اسکے کف کے بٹن میں اٹکا تھا ساتھ ہی الگ ہوتا گیا
مہراں جو جارہانہ تیور لیے انکی طرف بڑھی تھی شیر حیدر کے گھبراتے ہوئے اٹھ کر دور ہونے اور ساتھ ہی بلونت کا اترتا ڈوپٹہ دیکھ اسکے قدم زمین پر جم سے گئے تھے
( پتا نہیں کیوں جب کوئی عورت اپنے محبوب شوہر کو کسی پرائی عورت کے ساتھ دیکھتی ہے تو شوہر کی بے وفائی اور کرتوت نظر انداز کرتے ہوئے پہلا حملہ پرائی عورت پر کرتی ہے یہ سوچے بغیر کہ کسی بھی عورت کو اس مقام تک لانے والا مرد ہوتا ہے
پھر تو ایک بات ثابت ہوئی نا!! کہ عورت ہی عورت کی دشمن اس لیے ہوتی ہے کیونکہ عورت صرف عورت ہی کو اپنا دشمن سمجھتی حالانکہ ظالم اور مظلوم دونوں ہی معصوم یہ نہیں جانتیں کہ دراصل عورت کی دشمن عورت نہیں بلکہ خوبصورت نظر آنیوالا بدصورت مرد ہوتا ہے جو کسی کو اپنی مسکراہٹ میٹھی باتوں اپنی وجاہت کے دام میں لاکر تو کسی کو سچا کھرا محبوب بن کر لوٹتا ہے اپنی انگلیوں پر کٹھ پتلی کی طرح نچاتا ہے اور عورت؟؟
ہائے بیچاری عورت ہر بار دوسری عورت کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے مرد کے اشاروں پر ناچتی چلی جاتی ہے)
مہراں دکھ میں شیر حیدر حیرانی میں تو بلونت اگلا لائحہ عمل سوچنے میں تینوں اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے تھے
پھر اس خاموشی بلونت نےتوڑا تھا
وہ روتے چیختے ہوئے مہراں کی طرف بھاگی تھی
مہراں
ہائے مہراں
تو آگئی میری سوہنی دیکھ تیرے شیر نے کیا کیا بلونت نے اپنی قمیض کے گلے کی طرف اشارہ کیا تھا
مہراں تک آتے ہوئے وہ اپنی لپسٹک خراب کرچکی تھی اور اپنے ناخن گردن کے آس پاس گاڑتے خراشیں لگا چکی تھی
دیکھ تیری بلونت کو کسی جوگا نہیں چھوڑا تیرے شیر نے میں برباد ہوگئی
بلونت رذیل عورت تو یہ کیا بکواس کررہی ہے
مہراں یہ جھوٹ بول رہی ہے میں سمجھا کہ تم آئی ہو
میں نے دوپہر کو تمہیں بلایا تھا نا؟
بدکردار عورت میں تیری جان لے لوں گا
شیر حیدر جو کب سے حیران و پریشان بات سمجھنے کی کوشش کررہا تھا فوراً سے سمجھ گیا مہراں کو صفائی دیتے ہوئے غصے میں کھولتے ہوئے بلونت کی طرف بڑھا تھا
چٹاخ
چٹاخ
بلونت جو مہراں کے گلے لگے رو رہی تھی اس تک پہنچنے سے پہلے مہراں نے شیر حیدر کو یکے بعد دیگرے دو تھپڑ لگائے تھے
مہراں ں ں ں
شیر حیدر گال پر ہاتھ رکھے شدید ذلت اور دکھ کے احساس میں اتنا کہہ پایا تھا
تم بدکرادر ہو تم غلط ہو ہر مرد بدکرادر ہوتا ہے اماں سچ کہتی تھی مرد کی نیت دن کے پہروں کیطرح بدلتی ہے بدکرادر مرد سردیوں کے سورج جیسا ہوتا ہے جہاں زرا سی بدلی نظر آئی اپنی شان و شوکت کو پاسے رکھ اسی کے پلو پیچھے منہ چھپا لیتا ہے ۔۔
مہراں پر جنون کی حالت تھی وہ کسی زخمی ہرنی کیطرح درد سے روتے ہوئے بول رہی تھی
مہراں کے آنسو شیر حیدر کے کلیجے پر گر رہے تھے اپنی ذلت بھلائے وہ ایک بار پھر سے مہراں کیطرف بڑھا
نا نا
مہراں
یہ سب
مہری میری جا
شیر حیدر چوہدری
شیر کی بات پوری ہونے سے پہلے وہ اتنی زور سے چیخی تھی کہ برگد کی ٹہنیوں پر بسیرا کیے سوتے پرندے پھڑپھڑا گئے تھے
پھر اس چھوٹی سی لڑکی کے دکھ پر دکھی ہوتے دوبارہ سے سونا بھول گئے
چپ
چوہدری جی
ایک دم چپ
آئندہ کے بعد میرا نام مت لینا
مہراں شیر حیدر کو تنبیہ کرکے بلونت سے دور ہوتے ہوئے واپسی کے لیے پلٹی تو زمین پر پڑے ہل کی زنجیر کاکونا اسکے پاؤں میں چبھا تھا
آہ ہ ہ
اللہ
شیر جی
تکلیف کی شدت سے اسکے منہ سے اللہ کے بعد شیر حیدر کا نام نکلا تھا
مہراں کے درد پر شیر حیدر کو اپنا دل کٹتا ہوا محسوس ہوا تھا
اپنے نام کی صدا پر وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے اس کی طرف بھاگا تھا
شیر جی صدقے مہراں
شیر قربان مہرو
اس نے مہراں کے پاس بیٹھتے ہوئے بڑی محبت سے کہتے اسکا پاؤں دیکھنا چاہا تھا
وہ جو زخمی پاؤں کو زور سے دبائے بیٹھی تھی ایک دم سے دھاڑی
خبردار ہاتھ نہیں لگانا مجھے
کنوے میں کود کر مر جاؤں گی
مہراں تیرا پیر مہراں
خون نکل رہا میری سوہنی مجھے دیکھنے دے مہری
تجھے رب کا واسطہ دیکھنے دے
ذلت شرمندگی بے اعتباری اور سب سے بڑھ کر مہراں کی تکلیف کے احساس سے چھلنی ہوتی روح کے ساتھ شیر حیدر کے اپنے آنسو نکلنے کو بے تاب ہوئے تھے
وہ بےقراری میں اسکا پاؤں سہلاتا جارہا تھا پھر اس نے اپنی قمیض اتار کر مہراں کے پاؤں پر زور سے باندھی تھی
اماں
درد کی شدت سے اسکی دبی دبی چیخ نکلی تو
شیر نے اسکا پاؤں فوراً اپنی گود میں رکھ لیا
مہراں نے بند آنکھیں کھولیں تو شیر بنا قمیض کےا سکے سامنے بیٹھا تھا اوراسکے عقب میں ڈوپٹے سے بے نیاز روتی بسورتی بلونت کور کھڑی تھی
اس نے نفرت سے اپنے آنسو صاف کیے پھر اپنا پاؤں چھڑوایا قمیض کی گرہیں کھول کرشیر کے منہ پر ماری
شیر حیدر اس چھوٹی سی لڑکی کی نفرت کو دیکھتے ہوئے گنگ تھا
ایک ہی عورت سے تم مردوں کا دل کیوں نہیں بھرتا ؟؟؟
مہراں کے ٹہرے ہوئے حقارت بھرے لہجے میں نفرت تھی صرف نفرت
وہ لنگڑاتے ہوئے جا رہی تھی زمین رنگین ہونا شروع ہو چکی تھی
اسکے ہر اٹھتے قدم پر شیر حیدر کے دل سے ٹیسیں اٹھتی تھیں
اپنی پوری حیاتی میں تیرے سوا کسی کا خیال بھی دل میں لایا ہو
تو آگ لگے میری جوانی کو
مہراں کے پاؤں کانپے تھے لیکن وہ چلتی رہی
تیرے بغیر کسی کو آکھ اُٹھا کر بھی دیکھا ہو تو نہر میں بہہ جاوں سڑ کے مر جاؤں
مہراں کا دل کانپا تھا لیکن وہ چلتی رہی
یوں بے اعتباری کی موت مار کر نا جا
مہراں
سسو رب کی
میرے ساہ مک جانے ہیں
مرجانا تیرے شیر نے
بات کے اختتام تک شیر حیدر کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں
مہراں کی سوکھ چکی آنکھیں پھر سے بہنے لگیں
لیکن
وہ چلتی رہی تھی
رب سوہنا جانتا ہے تیرے سوا کسی کو ہاتھ لگایا ہو
کیڑے پڑ جائیں دوجا ساہ نا آئے
مجھے قبر تے کلمہ نصیب نا ہو
مہراں کو لگا اسکا دل بند ہوگیا ہے ساہ مک گئے لیکن وہ چلتی رہی تھی
————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...