حیدر قریشی(جرمنی)
’’ہندومسلمان‘‘ اور نکاتِ زباندانی‘‘ ہمت رائے شرما جی کی دو کتابیں ہیں۔پہلی کتاب ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے جب کہ دوسری کتاب میں وہ ایک ماہر لسانیات کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ یہاں ان دونوں کتابوں کا اختصار کے ساتھ تعارف کرانا مقصود ہے۔
ہمت رائے شرما جی بحیثیت افسانہ نگار راشد الخیری اور پریم چند جیسے انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک واضح مقصد ہوتاہے ۔افسانے کے واقعاتی تسلسل سے گزرتے ہوئے وہ اپنے مقصد کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ ہندو، مسلم اتحاد کو مستحکم کرنے کی کاوش ہی ان کا مقصد ہے۔ پہلے افسانے ’’ہندو مسلمان‘‘ کے آغاز میں ہی انہوں نے فریقین کی مخصوص الزام تراشیوں کی گرد صاف کر دی ہے۔ہندو، مسلمانوں کو بیرونی حملہ آور کہتے ہیں تو خود آریا لوگ بھی باہر سے ہی آئے تھے۔ اس سلسلے میں افسانے کے ایک کردار کے ذریعے شرما جی کہتے ہیں:
’’ میں نے اپنے بڑے بھائی کی کتاب میں پڑھا ہے کہ اصلی باشندے کول، دراوڑ اور بھیل ہیں۔ آریہ لوگ اور مسلمان بعد میں آئے۔‘‘
اس مجموعے میں چار طویل افسانے شامل ہیں۔’’ہندو مسلمان‘‘۔ ’’مرگ نینی‘‘، ’’دو چراغ ایک لو‘‘ اور ’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘‘، ’’ہندو مسلمان‘‘ جلیانوالہ باغ کے المیہ کے پس منظر سے ابھرنے والی ایک کہانی ہے ۔ اس میں ہندو اورمسلمان دونوں دوست وطن کی آزادی کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔آخری میں ایک لاش کی تدفین اور ایک کو جلانے کے مسئلہ پر تھوڑا سا سسپنس پیدا کرنے کے بعد شرما جی نے بڑے ڈرامائی انداز میں کہانی کا اختتام کیا ہے۔
’’مرگ نینی‘‘ انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے کی جانے والی ایک ناکام جدوجہد کی کہانی ہے۔ ایسی متعدد ناکامیوں کے بعد آخر کار برصغیر کے عوام انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس میں ایک عورت جدوجہد کی ناکامی کو مدِنظر رکھ کر اپنی شوہر کی جان بچانے کے لیے ایک مجبوری کے باعث از خود اپنی خوبصورت آنکھیں پھوڑ لیتی ہے۔یہ ایک جذباتی انداز کی کہانی ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد ہندوستان کو انگریزی حکومت کی غلامی سے آزاد کرانا ہے۔
’’وہ چراغ ایک لو‘‘ ایک برہمن پنڈت اور ایک مسلمان مولوی کی کہانی ہے۔ دونوں ہی متعصب اور تنگ دل ہیں لیکن پھر ایساہوتا ہے کہ برہمن کی جان بچانے کے لیے ہسپتال میں مولوی خون دیتا ہے اور برہمن پنڈت کے بھائی کے مرنے پر اس کی آنکھیں مسلمان مولوی کو روشنی عطا کر دیتی ہیں۔
’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘‘ ایک مہنت خاندان میں پلنے والے یتیم کی دردناک کہانی ہے۔ جسے حصے کے طور پر زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیا جاتاہے۔وہ اپنے سور گباشی باپ کے وعدے کی تکمیل کے لیے اور اپنی منہ بولی مسلمان بہن کے سسرال کی لاج رکھنے کے لیے زمین کا اپنا حصہ مسجد کے لیے دے دیتا ہے جس پر اس کا مہنت چچا اسے گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔تاہم وہ نوجوان مرنے سے پہلے اپنے لہو سے مٹی گوندھ کر مسجد کے سنگِ بنیاد کے لے اینٹ بناتا ہے اور مسجد میں نماز کا انتظام کرتا ہے۔ ’’اُدھر مؤذن نے اذان دی۔ اِدھر ’’کافر‘‘۔اللہ کو پیارا ہو گیا‘‘
ہمت رائے شرما جی کے ان افسانوں میں مقصد کو بے شک فوقیت حاصل ہے تاہم ان میں ادبی رنگ شامل ہے۔ کہیں کہیں انہوں نے طویل ڈائیلاگ کے ذریعے حصول مقصد کے لیے راہ ہموار کی ہے تو کہیں طنز ومزاح سے کام لے کر درد کی شدت کو کم کرنے کی کاوش کی ہے۔ مثلاً
راون کے دربار میں انگد اور راون کے درمیان تکرار شروع ہوئی اور گالی گلوچ تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ ویسے بھی پچھلے چند ماہ سے دونوں کا آپس میں جھگڑا چلا آرہا تھا۔ دونوں جوش میں آکر اپنے اپنے خود ساختہ اور خود نوشتہ مکالمے کے ساتھ ایک دوسرے کو کھلم کھلا گالیاں دینے لگے۔ انگد نے کہہ ہی دیا’’حرامی سالا ، لنکا کا راجہ بنا پھرتا ہے سالا۔ابھی تک سوا دو روپے جو ادھار لیے تھے وہ تو دے نہیں سکا۔ بے شرم ! غیرت ہے تو سونے کی لنکا کسی مارواڑی کے ہاں گروی رکھ دے‘‘۔۔۔۔ پردہ گرادیا گیا اور باقی ماندہ سین ملتوی کردینا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ انگد اور راون پر دے کے پیچھے گتھم گھتا ہو رہے ہیں۔‘‘
(ڈیڑھ اینٹ کی مسجد)
ان افسانوں میں ہمت رائے شرما جی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے الفاظ کے برتاؤ میں زبردست فنکاری دکھائی ہے۔اردو افسانے میں ایسی مثالیں موجود تو ہیں لیکن کم کم۔جب کہ ہمت رائے شرماجی کی 160 صفحات کی اس کتاب میں جابجا ایسی مثالیں ملتی ہیں:
٭ ’’باغ، خونِ شہیداں سے لالہ زار بنا ہوا تھا۔‘‘
٭ ’’شام سنگھ اپنے باپ حکیم رام سنگھ کی نبض دیکھ رہاتھاجو اب ساکت ہو چکی تھی۔‘‘
٭ ’’ایک اور محلے دار ملا جو الالٹین لیے مدھم سی روشنی میں اپنا نور نظر تلاش کر رہاتھا۔‘‘
٭ ’’دن ڈوب رہا تھا اورساتھ ہی نینی کا دل بھی‘‘۔
٭ ’’تنگ دل برہمن اکثر کھلے کپڑے پہنتے ہیں۔‘‘
٭ ’’پنڈت جی اور پنڈتانی جی دونوں ایسے ہندسے تھے جو ایک دوسرے پر پورے پورے تقسیم ہو جاتے ۔ ساری زندگی حساب یعنی جمع ، تفریق ، ضرب، تقسیم سے کام لینے والے پنڈت جی کے ہاں لے دے کے’’حاصل ضرب‘‘ بس ایک لڑکا تھا۔‘‘
٭ ’’مولوی محمد حسین جو بڑے متعصب قسم کے آدمی تھے نہایت کمینہ قسم کے انسان اور عجیب طرح کے ’’مسلمین‘‘ ۔ مسلم کم اور مِین زیادہ۔ وہ تنگ دلی میں پنڈت جی کے ہم پلہ تھے۔‘‘
٭ ’’ دیوالی آئی، چراغ جلے، بجھے ہوئے دل سے ’’ایشور‘‘ نے ساری حویلی میں چراغ روشن کیے۔‘‘
یہ زباندانی ،الفاظ کا یہ خوبصورت برتاؤ ہمت رائے شرما کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ الفاظ کے ساتھ ان کا یہ تعلق محض کاغذ اور قلم کا تعلق نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر الفاظ کی جادوگری کو سمجھنے کی کاوش کی ہے۔ لگ بھگ چالیس سال کی محنت کے بعد انہوں نے اپنی کتاب’’نکاتِ زباندانی‘‘ مکمل کی تھی، جو میرے پیش نظر ان کی دوسری کتا ب ہے۔
’’نکاتِ زباندانی ‘‘ کے پیش لفظ میں ہمت رائے شرما جی نے زبان کے اصول و ضوابط سے لے کر ’’قواعد کی قیود سے رہائی ‘‘تک کے مسائل پر مختصراً اظہارِ خیال کیا ہے۔ ’’اردو‘‘ کے زیرِ عنوان لکھے گئے حصہ میں اردو زبان کے آغاز کے سلسلے میں انہوں نے اپنا مؤقف واضح کیا ہے اور لشکری زبان میں دوسری زبانوں سے آملنے والے الفاظ کی متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔اس کے بعد حروف کا اصل مآخذ، مطلب اور اس کے بارے میں دیگر اہم معلومات درج کی گئی ہے۔ اس کے بعد ’’الفاظ متشابہ‘‘ درج کیے گئے ہیں۔ صرف دو مثالیں:
ابد: ہمیشہ عبد: بندہ
انیس:دوست اُنیس:۱۹ہندسہ
ان کے بعد تذکیر و تانیث ، محاورات، واحد جمع اور صحیح ، غلط کے تحت اہم الفاظ کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔ واحد، جمع کے حصہ میں بعض الفاظ تو میرے لیے انکشاف اور مزے کا موجب بنے ہیں۔ اپنے جیسے قارئین کے لیے ایسے چند الفاظ بھی یہاں بطور نمونہ پیش ہیں:
امجد: اماجد اسیر: اُسارائے
بندر:بنادر تاج: تیجان
جاسوس:جواسیس حوض:حیاض
دماغ: ادمغہ
کتاب کے دوسرے حصہ میں ’’اصول۔ قواعد‘‘ کے تحت تحقیق الفاظ و تلفظ پیش کی گئی ہے۔ پھر علم عروض کے بارے میں بنیادی نوعیت کی معلومات درج کی گئی ہے، شاعری کی گرامر آسان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ آخر میں ان ہندی الفاظ کی ایک فہرست دی گئی ہے جو اردو میں رائج ہیں۔
میں پوری ایمانداری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ’’نکات زباندانی‘‘ کے ذریعے مجھے ایسا لگا ہے کہ میں ہمت رائے شرما جی کے سامنے ایک شوخ شاگرد کی طرح بیٹھا ہوں اور وہ میری شوخیوں پر مجھے شاباش دیتے ہوئے اسی بہانے سے رموزِ زباندانی سمجھائے جا رہے ہیں۔ میں نے یہ کتاب اپنی فیروز اللغات کے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ میں اس کتاب سے مسلسل استفادہ کرتا رہوں گا۔
’’ہندو مسلمان‘‘ اور ’’نکاتِ زناندانی‘‘ دونوں کتابوں کے آغاز میں جناب ریاض آفندی کا تحریر کردہ ’’تعارف‘‘ شامل کیا گیا ہے۔ ریاض آفندی نے علمی بصیرت اور خلوص کے ساتھ کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ کتاب ’’ہندومسلمان‘‘ 160 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ ’’نکاتِ زباندانی‘‘ 240 صفحات پر محیط ہے۔ دونوں کتابیں موڈرن پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت ختم کر کے محبت کو فروغ دینے کی کاوش کرنے والے افسانہ نگار اور اردو زبان سے محبت رکھنے والے شاعر اور دانشور ہمت رائے شرما جی کی شناخت کا یہ بنیادی حوالہ اردو ادب میں ہمیشہ بنا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی دونوں کتابوں کو میں نے بڑے شوق سے پڑھا اور آپ کے لیے دل سے بے اختیار داد نکلی۔’’نکاتِ زباندانی‘‘آپ کی زباں دانی پر دال ہے۔آپ نے واقعی اردو کو بڑی کاوش اور عالمانہ تحقیقی جذبے کے ساتھ حاصل کیا ہے۔اس کے مطالعے سے بہت سے لوگ بلکہ بعض ایسے بھی جو زبان دانی کا دَم بھرتے ہوں،بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔اسے ہم اپنے ہاں Kings Englishکا جواب کہہ سکتے ہیں بلکہ اس کے موضوعات کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع ہے۔
’’ہندو مسلمان‘‘آپ کے سچے دیش بھگت اور مخلص،صلح کُل انسان ہونے کی دلیل ہے۔تعصبات جو تہذیبی گھٹیا پن کی دلیل ہوتے ہیں آپ کو چھو کر بھی نہیں گئے۔۔۔کاش دنیا میں آپ جیسے لوگ افراط سے پیدا ہوں تاکہ انسان کی تقدیر سدھر سکے اور دنیا میں امن، آشتی،رواداری کا دور دورہ ہو۔ شان الحق حقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ جیسے ادیبوں کی تحریریں ملک کی سالمیت اور فرقہ وارانی اتحاد کی ضامن ہیں۔۔۔’نکاتِ زباندانی‘اردو زبان سے آپ کے گہرے شغف اور اس کے اسول و ضوابط سے عالمانہ وابستگی کا جامع اظہار ہے۔اس طرح کی کتابیں عارف و عالی دونوں کے لیے کار آمد ہیں۔ مظہر امام