ڈاکٹر خلیق انجم(دہلی)
اگر آپ ایک مکمل فنکار یا مجسم فنون لطیفہ کو انسانی روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمت رائے شرما سے ملاقات کیجیے۔انگریزی،اردو،فارسی،ہندی،پنجابی،مراٹھی،گجراتی اور بنگالی پر غیر معمولی قدرت،صنائع لفظی،صنائع معنوی اور علم بیان کے ماہر۔ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پر پورا عبور۔بہترین مصور،اعلیٰ درجے کے افسانہ نگار،بہت اچھے شاعر۔ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور آرٹ ڈائریکٹر،گیت کار،اداکار،پلے بیک سنگر،مکالمہ نویس اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔دیکھیے تو ہمّت رائے شرما کے ذہن میں تخلیقی عمل نے کیا کیا روپ دھارن کیے ہیں۔وہ مختلف فنون کا سہارا لے کر فطرت کے اسرارورموز سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔نئی جہتوں اور نئی منزلوں کی تلاش میں ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔
دو تین سال قبل میں شرما صاحب کے نام سے واقف ضرور تھا ،گر مجھے ان کی ہمہ گیر شخصیت کے غیر معمولی پہلوؤں کا اندازہ نہیں تھا۔ان کے افسانوں کے مجموعے’’ہندو مسلمان‘‘کی رسمِ اجراء دہلی میں منعقد ہوئی۔افسانے پڑھنے کا اتفاق ہواتو محسوس ہوا کہ ایک دردمند اور انسان دوست کی آواز ہے جو زبان،علاقہ اور مذہب کی تمام ظاہری قیود سے بلند ہو کر انسان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔جو پوری انسانیت کو ناقابلِ تقسیم اکائی سمجھتا ہے۔جو انسان کو آلام و مصائب اور غم و درد سے نجات دلانے کی کوشش میں خالقِ حقیقی سے بھی الجھ جاتا ہے۔
شرما صاحب کا مجموعۂ کلام شائع ہو رہا ہے۔یہ اردو کا غالباََ پہلا مجموعہ کلام ہے جس میں’’انگلیوں اور خامہ خونچکاں‘‘ کے سہارے دردِ دل کی زیادہ سے زیادہ داستان کہی گئی ہے۔اس مجموعے میں وہ شرما صاحب بھی نظر آتے ہیں جو اردو کے بہت اچھے شاعر ہیں اور شرماجی بھی جو مصور ہیں۔شرما صاحب نے اپنے بعض اشعار کو مصور کیا ہے۔ان تصویروں کو بھی اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔اس طرح یہ مجموعہ خاصے کی چیز نظر آتی ہے۔
شاعری میں ان خلاقانہ اپج،دھیما دھیما نرم اور شائستہ لہجہ،تفکر اور جذبہ کا حسین امتزاج،وادیٔ گنگ و جمن کا حسن،خلوص اور دردمندی اپنی طرف متوجہ کیے بغیر نہیں رہتی۔ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
روتے روتے شام ہوئی ہر سمت اندھیرا چھانے لگا
ڈرتے ڈرتے پھر ہم نے امید کا دامن تھام لیا
وقت اک بپھرا ہوا سیلاب ہے ڈولتی ہے جس پہ ہر انساں کی ناؤ
وقت اک آندھی ہے اس کے سامنے نخل کے مانند سر اپنا جھکاؤ
وقت اک مرہم ہے جس سے دوستو! مندمل ہوتے ہیں اکثر دل کے گھاؤ
دلا بر خیزد بر پائے گدایاں خم شو لیک دامن بفشاں پیشِ سگانِ عالم
بھرے بازار میں بکتا ہوں کھلونا بن کر زندگی! روز ترا قرض چکانے کے لیے
پاوں سے لپٹی ہوئی ہے کوچۂ جاناں کی خاک جانے کب سے زیرِ پا منزل لیے پھرتا ہوں میں
اگر شرما ساحب کے تمام فنی کارناموں پر نظر کیجیے تو ان کی شخصیت ایسی منفرد اور ممتاز نظر آئے گی کہ کم سے کم اردو میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: شرما جی کا افسانوی مجموعہ ’’ہندو مسلمان ‘‘۱۹۸۰ء میں شائع ہوا تھا۔اور شعری مجموعہ ’’شہابِ ثاقب ‘ ‘ ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا تھا۔اس حوالے سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر خلیق انجم کی یہ تحریر ۱۹۸۳ء اور ۱۹۸۴ء کے دوران کسی وقت لکھی گئی ہو گی۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’شہابِ ثاقب ‘‘کا خالق محض یاس وحرماں کے نہیں گنگناتا’’آرزو مندی کے نغمے‘‘بھی گاتا ہے۔محض انسان کی بے بسی پر اظہارِ افسوس نہیں کرتا،اس کی فتح مندی پر رقص بھی کرتا ہے۔صرف پری جمال معشوق کے عشووں کا ستم کش نہیں ہوتا،محبوبِ خدا رسول اکرم ﷺکی ذات بابرکات کی مدح خوانی بھی کرتا ہے۔اُن کی عظمت کا قائل ہوتے ہوئے ان کے وسیلے سے طالبِ نجات ہوتا ہے۔۔۔۔فانوسِ خیال کی سی رنگا رنگی اس مجموعے کی کامیابی کی ضمانت ہے!
پروفیسر یونس اگاسکر۔بمبئی