سولہ جولائی 2019 کو شام کے وقت شائع ہونے والے پاکستانی اخبارت میں یہ الم ناک خبر شائع ہوئی کہ ممتاز پاکستانی شاعر حمایت علی شاعر خالق حقیقی سے جا ملے ۔ کاروانِ زیست کے ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار نے راہ گزار شعر کو چھوڑ کر ملک عدم کی جانب کوچ کیا ۔ اجل کے ہاتھوں اردو زبا ن و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔علم و ادب کاوہ آفتاب جو 14۔جولائی 1926کو اورنگ آباد ( بھارت)سے طلوع ہوا وہ 16۔جولائی 2019کوکینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔ٹورنٹو کی زمین نے اردو زبان و ادب ،فنون لطیفہ ،تاریخ ،علم بشریات ،تدریس ،ابلاغیات اور تر جمہ نگاری کے آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ سسکیاں لیتی ہوئی اداس فضاؤں میں ہر سمت ان کی یادیں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے اُن کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ چشمِ ارباب ِ وفااب خون کے آ نسو رو رہی ہے ۔ افکارپریشاں کی دیوار کے سائے میں بیٹھے دنیا بھر میں ان کے لاکھوں سوگوار مداح فرط ِ غم سے نڈھال ہیں۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں اپنے بچوں کے ہاں مقیم تھے ۔اللہ کریم نے حمایت علی شاعر کو ہفت اختر شخصیت سے نوازاتھا۔ وہ ایک دائرۃ المعارف ،اردو زبان و ادب اور فنون لطیفہ کا ایک عہد اوردبستا ن تھے۔ ایک فطین معلم ، محنتی براڈ کاسٹر،ذہین مورخ ،قادر الکلام شاعر ،باکمال نثر نگار،ہر دل عزیز نغمہ نگار ،کامیاب فلم ساز ،بلند پایہ ڈرامہ نگار ،محنتی محقق ، عظیم انسان ،جر ی نقاد ،فلم اور سٹیج کے با صلاحیت اداکاراور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔حبس کے ماحول میںجب طیوربھی اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے ہیں تو حمایت علی شاعر جیسے حریت فکر کے مجاہدضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردیتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر ختیارکر کے انسان رہزنوں سے تو بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکتاہے مگرجب رہبر ہی اس کو لوٹنے کے لیے گھیر لیں تو وہ کیاکرے ۔حالات کی اس ستم ظریفی کو دیکھ کر تڑپ اٹھنے والا حساس تخلیق کاردیکھتے ہی دیکھتے بزم ادب سے اُٹھ گیا اوردنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔عملی زندگی میںانھوں نے واضح کر دیا کہ بلند ہمت انسان اس لیے حق گوئی و بے باکی کو شعاربناتے ہیںکیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیںکہ ارفع تصورات سے دلوں کو مسخرکیا جا سکتاہے جب کہ جدید اسلحہ کے استعمال اور عسکری طاقت کے بل بوتے پرمحض کچھ علاقے پرقبضہ ممکن ہے ۔ حمایت علی شاعر جیسادلوں کو فتح کرنے والا تخلیق کار ہی فاتح ِ زمانہ کہلا سکتاہے ۔معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اُتر جانے والاحریت فکر و عمل کا مجاہد ہماری بزم ادب سے کیا اُٹھاکہ اس کے ہر مداح کا دِل بیٹھ گیا ۔ قزاقوں کے دشت سے گزرنے والے قافلے کو متنبہ کرتے ہوئے حمایت علی شاعر نے آندھیوں اور بگولوں کے خطرے کے باعث رات ہو یا دن جاگتے رہنے کا مشورہ دیا۔جبرکا ہرانداز مسترد کرتے ہوئے حریت ِضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ حسینؑ کوزادِ راہ بنانے والے اس جر ی تخلیق کار اور حریت فکر و عمل کے اس مجاہد نے یہ بات بر ملا کہی تھی :
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہا ں یارو
پھرہیں برق کی نظریں سوئے آشیاںیارو
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میرِ کارواں یارو میرِ کارواں یارو
پس نو آبادیاتی دور میں استعماری طاقتوں نے اپنی سابقہ نو آبادیات میں سیاسی انتشار پیدا کیا ۔ایک سازش کے تحت ترقی پذیر ممالک میں خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی گئی ۔حمایت علی شاعر نے سیاسی مقاصد کے لیے پیدا کی جانے والی اس بد امنی اور انتشار پر اپنی تشویش کا بر ملا اظہار کیا۔ وقت کے اس سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ منزلوں پر ان مفاد پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے جو شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔ تیسری دنیا کے ممالک میںمفاد پرست سیاست دانوں کی بے بصری کے نتیجے میں سلطانیٔ جمہور کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہو سکا۔حساس تخلیق کاراس تلخ حقیقت پر دل گرفتہ تھے کہ کاروان ِ حسین ؑکو صعوبتوں کا سفر درپیش ہے مگر یزید چین سے مشند نشین ہے ۔ سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی کے باعث قوم کو کٹھن حالات کا سا مناہے مگر وہ ٹس سے مس نہیںہوتے ۔ سیاست دانوں کی کورانہ تقلید کو وہ خود کشی سے تعبیر کرتے تھے ۔ان کی یہ نظم متعدد حقائق کی گرہ کشائی کرتی ہے :
یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے !
میں سمجھتا ہو ں میں بھی حق پر ہوں
تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو
میں تمھیں مار دو ں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہو ں شہید
میں ہوں یا ہو تم ، یہاں بہ فضلِ خدا
سب شہیدوں کی صف میںشامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میںشامل ہیں
حمایت علی شاعر کی عمر جب تین برس تھی تو ان کی والدہ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ان کے والد نے اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد گیارہ سال تک اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔اس کے بعد انھوں نے عقد ثانی کر لیا۔قیام پاکستان کے وقت ان کی سوتیلی والدہ نے اپنے بچوں اور خاندان کے ہمراہ بھارت میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا۔ حمایت علی شاعر نے جب پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا تو اس کے بعد انھیں جب بھی موقع ملا وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے کے لیے بھارت جاتے رہے ۔حمایت علی شاعر نے حیدرآباد دکن میں اپنے قیام کے دوران میںدکن کے مقامی اخبارات میں کام کیا ۔وہ حیدر آباد سے شائع ہونے و الے اخبارات جناح ،منزل اور ہمدرد میں کام کرتے رہے ۔ سال 1949میںان کی شادی معراج نسیم سے ہوئی۔یہ شادی بہت کامیاب رہی اورباون (52)برس میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے رہے ۔ معراج نسیم سال 2001میں انتقال کر گئیںوہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں آسودۂ خاک ہیں ۔
نو آبادیاتی دور میں حمایت علی شاعر دکن میں مقامی ریڈیو سے وابستہ تھے ۔ طویل عرصہ تک ( 1724-1857) حیدر آباد دکن کے حاکم نظام تھے جو بر صغیر میں مغل بادشاہوں کے نمائندہ تھے ۔نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعددکن پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تودکن ریڈیو کو آل انڈیا ریڈیو کا حصہ بنا دیاگیا۔ اس کے ساتھ ہی حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ حمایت علی شاعر کو سال 1950میںریڈیو کی ملازمت کو خیرباد کہناپڑا ۔ اب وہ بے روزگار تھے اور نہ توکوئی امید بر آئی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دی۔ایک ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے حمایت علی شاعر پس نو آبادیاتی دور میں سامراجی طاقتوں کے جبر کو نا پسند کیا ۔ اکثرترقی پسند ادیبوں کا خیال تھاکہ نو آبادیاتی دور میںعالمی سامراج نے محکوم اقوام کے مظلو م باشندوں کو اپنی نوآبادیات کے ایک قلعہ ٔ فراموشی میں محصور کر دیاتھا۔ قلعہ ٔ فراموشی کا تعلق پانچویں صدی عیسوی کے سب سے پہلے سوشلسٹ انقلابی مزد ک سے ہے ۔یہی وہ شخص ہے جس نے محنت کش طبقے کو جگا کر کاخِ امرا کے درودیوار ہلانے کی بات کی ۔ جنوب مغربی ایران کے صوبہ خوزستان کے دار الحکومت اہواز کے قریب قلعۂ فراموشی کے آثار ملتے ہیں ۔ قلعہ ٔ فراموشی میں ان بے بس قیدیوں کو پابند سلاسل رکھا جاتاتھا جن کی حق گوئی و بے باکی غاصب مقتدر طبقے پر گراں گزرتی ۔ انسانی حقوق کو پامال کرنے والے درندوں کے ہاتھوں مسلسل اذیتیں برداشت کرنے کے بعد اس عقوبت خانے کے اسیر اپنا نام ،اپنے قبیلے کے افراد کے نام اور رہائش کا مقام تک بھول جاتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے میں موت کا عفریت الم نصیب قیدیوں کی یادوں اور فریادوں کی صلاحیت سلب کر لیتا تھا ۔حریت فکر کے ایسے مجاہدوںکو حافظے کی صلاحیت سے محروم کر کے استبدادی قوتیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتیں کہ انھوں نے اپنے فسطائی جبر کے خلاف کلمہ ٔ حق ادا کرنے والوں کے لبِ اظہار پر تالے لگا کر تنقید کی سب راہیں مسدود کر دی ہیں ۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ حریت ضمیر سے جینے والے متاع لوح و قلم چھن جانے کے بعد خونِ دِل میںاُنگلیاں ڈبو کر اپنے دل کا حال زیبِ قرطاس کرتے رہتے ہیں ۔ حریت ِ فکر و عمل کے مجاہدوں کی زندگی کا ایک ہی اصول ہے کہ فسطائی جبر و استبدادکے ہاتھوں جا ن جاتی ہے تو شوق سے جائے مگر حق گوئی کو شعار بنانے والے کبھی جبر کے سامنے سپر انداز نہیں ہو سکتے ۔ حمایت علی شاعرنے زندگی بھرحق و صداقت کا علم بلند رکھا۔
پاکستان کی علاقائی زبانوںکے کلاسیکی ادب میں حمایت علی شاعر نے گہری دلچسپی لی اور ان زبانوں کے جدید ادب کا بھی مطالعہ کیا ۔انھیں عربی، اردو ،انگریزی ، بنگالی ،سندھی،برج،بلوچی،پنجابی ،پشتو اور فارسی زبان پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بسنے والے مجبور عوام کے مسائل،انسانیت کا وقار اور سر بلندی،حق گوئی و بے باکی، جنگ و جدال کے مسموم اثرات ، دشمنی اور عداوتوں کے تباہ کن اثرات ، تاریخ ،سیاست اور لوک ادب حمایت علی شاعرکے پسندیدہ موضوعات تھے ۔عالمی کلاسیک کی ترجمہ نگاری میں حمایت علی شاعر کی خداد اد صلاحیتوں کا ایک عالم معترف ہے۔
حمایت علی شاعرنے سال 1951میں پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیااورکراچی پہنچے ۔ یہاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے۔کچھ عرصہ بعد وہ حیدر آباد ریڈیو سٹیشن میں خدمات پر مامور ہو گئے۔انھوں نے پندرہ برس ریڈیو کی ملازمت کی ۔ حمایت علی شاعر نے ریڈیو پاکستا ن کے لیے ڈرامے ،گیتوں بھر ی کہانیاں ،ملی نغمے اور گیت لکھے ۔ انھوں نے سندھ یو نیورسٹی جام شورو سے سال 1964میںایم۔اے اردو کی ڈگر ی حاصل کی ۔فلم کے شعبہ میں بھی حمایت علی شاعر نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا اور پندر ہ سال اس شعبے کی خدمت میں صرف کیے ۔ حمایت علی شاعر کے معتمد ساتھی اور دیرینہ دوست شیخ ایا ز(1923-1997)اس زمانے میںسندھ یو نیورسٹی میں شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز تھے ۔ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حمایت علی شاعر نے جامعہ سندھ کے شعبہ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔جامعہ سندھ میںان کے قیام کاعرصہ گیارہ سال (1976-1987)تھا۔اردو زبان کی جنم بھومی کے موضوع پر حمایت علی شاعر کی وسعت نظر اورتحقیق کو ماہرین لسانیات نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ حافظ محمودد شیرانی ،عین الحق فرید کوٹی ،سید سلیما ن ندوی،شوکت سبزواری ،انعام الحق کوثر اور نصیر الدین ہاشمی کے نظریات کاانھوں نے عمیق مطالعہ کیا۔وہ نصیر الدین ہاشمی کے لسانی نظریات کو زیادہ قرین قیاس سمجھتے تھے ۔ جامعہ سندھ میں حمایت علی شاعر نے تخلیق ادب اور تنقید و تحقیق میں نوجوان طلبا و طالبات کی موثر رہنمائی کی ۔ان کی معجز نما رہنمائی نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا اوریہاں ذرے کوآفتاب بننے کے مواقع میسر آئے۔ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 27۔مارچ 2010کو جامعہ سندھ میں حمایت علی شاعرمسندکاقیام عمل میں لایا گیا۔حمایت علی شاعر کے اسلوب اور شخصیت پر ایم۔فل اور پی ایچ ۔ڈی سطح پرتحقیق کرنے والے پانچ طلبا و طالبات کے لیے پانچ ہزارروپے(Rs.5000/- ماہانہ وظیفہ کابھی اعلان کیا گیا۔
منظوم آپ بیتی
عالمی ادب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ادب میں سوانح نگاری قدیم زمانے سے مروّج و مقبول رہی ہے ۔عالمی ادب کی سب سے پہلی سوانح عمری یونان سے تعلق رکھنے والے سوانح نگار پلو ٹارک (Plutarch:B: c.Ad46,D.c.AD 120)نے لکھی ۔پلوٹارک نے دوسری صدی عیسوی میں لکھی گئی اپنی اس پہلی سوانح عمری (Parallel Lives)میںاہم رومن اور یونانی شخصیات کے بارے میںمتعدد حقائق کوپیش کیا ہے ۔کسی بھی شخصیت کی کتابِ زیست کے اوراقِ ناخواندہ کی تفہیم کے سلسلے میںمطا لعۂ احوال کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ محقق کے لیے شخصیت شناسی ایک کٹھن مر حلہ ہے جس کے لیے اہم ترین بنیادی مآخذ تک رسائی ،شخصیت سے متعلق تمام د ستاویزات کا حصول ،شخصیت کی علمی، ادبی ،سماجی اور معاشرتی فعالیتوں سے آ گاہی،شخصیت کے احباب ،رشتہ داروں اور معاصر ادیبوں سے روابط کے بارے میں ثقہ روایات ، مستند حوالے اور اس کے مشاغل کی تفصیلات کی احتیاج ہے ۔کسی ممتاز ادیب کی زندگی اور علمی و ادبی کمالات کا تحقیقی جائزہ لیتے وقت سائنسی اندازِ فکر ، قوتِ فیصلہ اور تحلیل نفسی کی اساس پر استوار تحقیقی و تنقیدی بصیرت کو زادِ راہ بنانا لازم ہے ۔قدیم زمانے میںشخصیت شناسی کے سلسلے میںاردو ادب میںتذکرہ نویسی کو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل تھی ۔قدیم تذکرہ نگاروں نے اپنے عہدکی ممتاز ادبی شخصیات اوران کی تخلیقی فعالیتوں کو تاریخِ ادب کے صفحات میں محفوظ کیا۔اُردو زبان کی کلاسیکی شاعری سے دلچسپی رکھنے والے آئینۂ حیرت ،گل رعنا ،خم خانہ ٔجاوید،مجموعۂ نغز،طبقات الشعرااور گلشنِ بے خار جیسے اہم تذکروں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔تذکرہ نویسی کے بعد خود نوشت کو اولین ماخذ کی بناپر بہت قدر کی نگا ہ سے دیکھا جاتا تھا۔
فن سوانح نگاری کے بارے میں حمایت علی شاعرکی سوچ نہایت واضح ہے ۔ سوانح نگاری میں کسی شخصیت کی حیات ،خدمات،تعلقات،کمالات اورتحفظات کے بارے میں سائنسی اندازِ فکر کی اسا س پر کی جانے والی تحقیق سے حاصل کی جانے والی تمام معلومات کوغیر جانب داری سے کام لیتے ہوئے یک جا کر دیا جاتا ہے ۔ شخصیت کے بارے میںکچھ ثابت کرنا ،کسی بات کایقین دلانا یا شخصیت پرنکتہ چینی کرنا سوانح نگار کے دائرۂ کارسے باہر ہے۔حمایت علی شاعر کے اسلوب میں سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ممتازادیب جیمز بو س ویل (James Boswell : 1740-1795) کی اس سوانح عمری کے کچھ پہلو ملتے ہیں لیتے جس میںاس محنتی سوانح نگار نے برطانیہ کے نابغۂ روزگار شاعر،مقبول ڈرامہ نگار،ادبی نقاد،سوانح نگار،مدیر ،لغت نویس ،ماہر لسانیات اور اخلاقیات کے علم بردار سیموئل جانسن (Samuel Johnson: 1709-1784 ) کے حالات زندگی پر قلم اُٹھایا تھا ۔ جیمز بو س ویل نے جب اپنی محبوب شخصیت( سیموئل جانسن)کے بارے میں اپنے خیالات لکھنے کا آغاز کیا تو اُس کے پاس اپنے ممدوح کی زندگی کے متعلق بہت کم مواد تھا ۔اس نے موضوع سے متعلق اہم بنیادی مآخذ تک رسائی میں جس محنت شاقہ سے کام لیا اس کا ایک عالم معترف ہے ۔ قارئین کو سیموئل جانسن کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنے میں اس نے سائنسی اندازِ فکر پر مبنی تحقیقی و تنقیدی اسلوب اپنا یا اور مضامینِ نو کے انبار لگ دئیے ۔اس نے ثابت کر دیا کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں مگر لفظ کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آ تی۔ حمایت علی شاعر کی اس منظوم سوانح نگاری کامطالعہ کر تے وقت سوانح نگاری کے فن اور اسلوب کے سلسلے میں اے۔ جے۔ اے۔ سائمنز ( A.J.A. Symons:1900-1941)کی اہم تصنیف ’’The Quest For Corvo:An Experiment in Biography) جواپنے موضوع کے اعتبارسے کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے کے معائر ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔مجموعی اعتبار سے ہمارا معاشرہ بہت زود رنج ہوتا چلاجا رہاہے ۔ عرصۂ ظلمت ِ حیات کے گمبھیر اثرات اور زنجیر حادثات کی اذیت و عقوبت کے غیر مختتم سلسلے دیکھ کر ثمر ِ آرزو کی تمنا مات کھا کر ر ہ جاتی ہے ۔ حمایت علی شاعرنے اس منظوم آپ بیتی میںعالمی ادب کے نئے رجحانات کوپیش نظر رکھا ہے ۔ اردو زبان و ادب کے باذوق قارئین نے اس منظوم آپ بیتی کے سخن سخن کی داد دی ہے ۔
اردو زبان کی پہلی منظوم آ پ بیتی ’’آئینہ در آ ئینہ ‘‘ حمایت علی شاعرکی تخلیق ہے۔یہ منظوم آ پ بیتی کراچی سے صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلہ ماہ نامہ ’’ افکار‘‘ میں قسط وار شائع ہوتی رہی ۔ یہ منظوم آ پ بیتی تین ہزار پانچ سو (3500) اشعار پر مشتمل ہے جب یہ کتابی صورت میںشائع ہوئی تواس کو چار سو (400 ) صفحات پرچھاپا گیا۔اس منظوم آ پ بیتی میں حمایت علی شاعر نے تحلیل نفسی اور احتسابِ ذات کو پیش نظر رکھا ہے ۔یہ آ پ بیتی ایک تہذیبی و ثقافتی روداد کی صورت میںاپنی حقیقت کا اثبات کرتی ہے اورقاری کے فکر و خیال کو مہمیز کرتی ہے ۔ منفرد اسلوب کی حامل اس آپ بیتی میںشاعر کے تخیل کی جو لانیاں ،ا لفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔اس آ پ بیتی کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں اُردو زبان کی کلاسیکی شاعری اور سوانح نگاری کی اقدار و روایات کی اسا س پر ایک عالی شان قصر شاعری تعمیر کیا گیا ہے ۔ آئینہ در آئینہ ( منظوم آ پ بیتی )میں حمایت علی شاعرنے تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کو پروان چڑھانے کی جو کوشش کی ہے وہ لائق ِ صد رشک و تحسین ہے ۔
آئینہ در آئینہ
اس بار وہ ملا تو عجب اس کارنگ تھا
الفاظ میں ترنگ نہ لہجہ دبنگ تھا
اک سوچ تھی کہ بکھری ہوئی خال و خد میںتھی
اک درد تھا کہ جس کا شہید انگ انگ تھا
اک آ گ تھی کہ راکھ میںپوشیدہ تھی کہیں
اک جسم تھا کہ روح سے مصروفِ جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تجھے کیا ہوا ہے یہ
اس نے کہا کہ عمر ِ رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمررواں تو سبھی کی ہے
اس نے کہا کہ فکر و نظر کی سزا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتارہتاتو میں بھی ہوں
اس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے یہ
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکس جلی تھا وہ
وہ شخص میں تھا اور حمایت علی تھا وہ
ڈاکٹر نثار احمد قریشی اور ڈاکٹر بشیر سیفی نے بتایا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعدکیپٹن سید جعفر طاہر (1917-1977)جب ریڈیو پاکستان راول پنڈی میں خدمات پر مامور تھے ،اس زمانے میں حمایت علی شاعر کے ساتھ ان کے نہایت قریبی تعلقات تھے ۔ اپنے عہد کے دونوں فعال اور مستعد ادیب ریڈیو پاکستان میں براڈ کاسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ریڈیو نشریات میںسید ذوالفقار علی بخاری (1904-1975)کی خدمات کے دونوں معترف تھے۔ راول پنڈی ،اسلام آباد ، پوٹھوہار اور نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سب ادیب سید ذوالفقار علی بخاری کی حسِ مزاح اور حاضر دماغی کے مداح تھے ۔ آزادی کے بعدوطنِ عزیز میں ریڈیو کی نشریات کو مقبول بنانے میںان ادیبوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں تھر سے تعلق رکھنے والے ایک غبی متشاعر گنوار الجھک نے بزمِ ادب کو تختۂ مشق بنا رکھا تھا ۔میزانِ ادب یتیم خانہ ٔ ادراک کے اس مسخرے کے صریح جھوٹ اور علم کی لُوٹ کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر تھی ۔شہر کی علمی و ادبی نشستوں میں شامل ہونے والے اکثر سامعین خیالِ اہلِ خرابات کومدِ نظر رکھتے ہوئے اس شخص کو منھ نہ لگاتے اور جبر وقت سہہ کر بھی حرف ِ شکایت لب پر نہ لاتے۔اس متشاعرکے چربے ،سرقے اور جہل کو دیکھ کر کاغذ تھرتھر کانپنے لگتااور صفحہ قرطاس پر درج الفاظ کی روشنائی کو پر لگ جاتے ۔ طلسمِ سراب کے رسیا متشاعر گنوار الجھک کو مرزااسداللہ خان غالبؔ کایہ شعر بہت پسند تھا :
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہوش و خرد سے تہی اپنی گنجی کھوپڑی پر جہالت کا خار زار تاج سجائے ،ذوقِ سلیم سے محروم خست و خجالت کا پیکر وہ متشاعر بار بار اصلاح کے باوجود غالب کا یہ شعر اپنے خاص انداز میں پڑھتا تھااور کسی طرح بھی اپنی غلطی کی اصلاح کرنے اور اپنی خُو بدلنے پر آمادہ نہ تھا۔ سید جعفر طاہر اس ابلہ متشاعر کی غلطیوں پر اکثر آگ بگولا ہو جاتے مگروہ چکنا گھڑا ٹس سے مس نہ ہوتا۔شرم اورآبروئے ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سادیت پسندی کا وہ مریض بات بات پر وہ آپے سے باہر ہو کر تلخ نوائی پر اُتر آ تا اور اہلِ کمال کے درپئے پندار رہتا۔ غبی متشاعر گنوار الجھک نہایٹ ڈھٹائی سے اضافت کو عطف میں بدل دیتا ۔غالبؔ کے شعرکی تمسیخ کے بعد وہ داد طلب نگاہوں سے حاضرین کی طرف دیکھتا تھا:
قید و حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
محفل کے شرکا نے جب اس بز اخفش متشاعر کی ڈھٹائی کی جانب سید ذوالفقار علی بخاری کی توجہ مبذول کرائی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا اس سے کوئی فر ق نہیں پڑتا ، شعر کے پہلے مصرعے میں دونوں کے بجائے چاروں کہنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔سید ذوالفقار علی بخاری کی گل افشانی ٔ گفتار سے حمایت علی شاعر اور سید جعفر طاہر سمیتسب سامعین اش اش کر اُٹھے ۔
کیپٹن سید جعفر طاہر کی نظم ’’ ایک سوسپاہی ‘‘ حمایت علی شاعر کوبہت پسند تھی ۔ کیپٹنسید جعفر طاہر نے حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے ملی نغموں کوقومی بیداری کا اہم وسیلہ قراردیا۔ کیپٹن سید جعفر طاہر اپنے احباب سے گفتگو کرتے وقت حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے ملی نغمے ’’ جاگ اُٹھاہے سار ا وطن ‘‘ کو منشور علم و آگہی سے مزین عروس ِ فکر مکرم سے تعبیر کرتے جس کے معجز نما اثر سے برق ِ طور کے جلوے اورشعور کے شعلے سفاک ظلمتوں کو کافور کر دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس ملی نغمے میں جن تلمیحات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اسلامی تاریخ کی عظمتوں کی امین اور چشم کشا صداقتوں کی مظہر ہیں ۔ تحریکِ پاکستان کے فعال کارکن ،جھنگ کے بزرگ شاعر ،مورخ اور ماہر تعلیم غلام علی خان چینؔ نے بتایا کہ ایک ادبی نشست میںسید جعفر طاہر کی نظم ’’ ایک سو سپاہی ‘‘ کایہ بندحمایت علی شاعر نے کئی بار سنا :
لاہور کی حفاطت مولا علی ؑ کرے گا
دشمن کرے بُرائی داتا بھلی کر ے گا
یہ صر صرِ اجل ہے یہ گردِ خانقاہی
یہ ایک سو سپاہی
یہ شیر دل الٰہی
تصنیف و تالیف
آگ میںپھول(1956)، آئینہ در آئینہ ( منظوم آ پ بیتی )، اردو نعتیہ شاعری کے سات سو سال (تحقیق ) ، پاکستان کی نعتیہ شاعری (50 سال تجھ کو معلوم نہیں ، تشنگی کاسفر، جاگ اُٹھا ہے سارا وطن،چاند کی دھوپ ، حرف حرف روشنی ،خوشبو کا سفر ( علاقائی زبانوں کے شعرا کی 500سال پر محیط اردوشاعری )، دُودِ چراغِ محفل ، سر گم (نغمے) ،شیخ ایاز شخص و شاعر، عقیدت کاسفر ( 700سال کی اردو نعتیہ شاعری )، غزل اس نے چھیڑی ( 700 سال کی اردو غزلیں )،کچھ پیش رو کچھ ہم سفر (خاکے)،کتاب چہرے(ڈرامے)،کھلتے کنول سے لوگ (مضامین)، کلیات شاعر ( سا ل اشا عت ،2007)لب آزاد( چالیس سال کی احتجاجی شاعری )، محبتوں کے سفیر (500سال کے عرصے میں سندھی شعرا کااردو کلام)، مٹی کا قرض ،میری دھرتی میرے خواب ،نشید حریت (جد وجہد آزادی میں اردو شعر اکا حصہ) ،ہارون کی آواز(علامہ اقبال ایوارڈ یافتہ تصنیف )۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ٹیلی ویژن کے لیے لکھے گئے حمایت علی شاعرکے سلسلہ وار تحقیقی پروگراموں (خوشبوکا سفر ،لب ِ آزاد،محبتوں کا سفر اور نشیدحریت) کو ٹیلی ویژن کے ناظرین کی طرف سے جو پزیرائی ملی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔ حمایت علی شاعرکی باقیات میں بیس کتب کے مسودات ہیں جو ابھی تک شائع نہیں ہو سکیں۔قیام پاکستان سے پہلے حمایت علی شاعر نے ہندوستانی فلموں کے اداکاراور موسیقار پریم دھون کے اصرا رپر کچھ بھجن بھی لکھے لیکن جلد ہی انھوں نے فلمی گیتوں کی تخلیق پر توجہ مرکوز کر دی ۔
فلمیں:
حمایت علی شاعر نے سال 1966میں فلم ’ لوری ‘ پروڈیوس کی جس میں محمد علی ،زیبااور سنتوش کمار نے اپنی اداکاری کے جو ہر دکھائے ۔ کراچی کے سنیماگھروں میں پیہم باون(52) ہفتے کا بزنس کرکے یہ فلم گولڈن جوبلی قرار پائی ۔ملک بھر میں اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے اور بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے ۔فلم ’’ لوری‘‘ میں شامل بچوں کے لیے حمایت علی شاعرکی لکھی ہوئی لوری ’’ چندا کے ہنڈولے میں اُڑن کھٹولے میں امی کا دلارا ‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔ حمایت علی شاعر کی درج ذیل فلمیں بہت پسند کی گئیں:
اور بھی غم ہیں (1960)، بنجارن (1962)،دال میںکالا ( 1962)،آنچل(1962)، جب سے دیکھا ہے تمھیں(1962)، شرارت (1963)، دامن( 1963)، تانگے والا ( 1963)، د ل نے تجھے مان لیا ، اک تیر اسہار ا (1963)، انسپکٹر ( 1964)،جھلک(1964)، خاموش رہو ( 1964)، کنیز(1965)،نائلہ (1965)،مجاہد ( 1965)،لوری ( 1966)، بدنام (1966)،حسن کا چور (1966)، پائل کی جھنکار (1966)، تصویر (1966)،ولی عہد ( 1968) ، آس پاس (1982)،کھلونا ،میرے محبوب
ایوارڈز:
علم و ادب او رفنون لطیفہ کے شعبوںمیں حمایت علی شاعرکی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں درج ذیل ایوارڈ ملے:
آدم جی ایوارڈ ، ثلاثی کے موجد کا ایوارڈ (شکاگو 1993)،صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی(2002) ، علامہ اقبال ایوارڈ ، لائف ٹائم ادبی خدمات ایوارڈ ،واشنگٹن(2001)، لائف ٹائم ادبی خدمات ایوارڈ(نیو جرسی، امریکہ 1994) ، مخدوم محی الدین عالمی ایوارڈ دہلی (1989)، نقوش ایوارڈ ،نگارایوارڈ ( فلم آنچل پر 1962میں اور فلم دامن پر 1963میں ملا)
فلمی شاعری :
فلم انڈسٹری کی ترقی میں متعدد عوامل کا حصہ ہے ۔کسی بھی فلم کی کامیابی میں اس فلم کے گیت کلیدی کردار اداکرتے ہیں ۔فلم کے ناظرین کواگر کسی فلم کے گیت پسند آ جائیں تو وہ ان گیتوں کی وجہ سے فلم ضروردیکھتے ہیں۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کی فلمی صنعت کی ترقی میں جن ممتاز نغمہ نگار وں نے اہم کردار ادا کیا ان میں جاں نثار اختر ، راجہ مہدی علی خان ، ساحر لدھیانوی ،شکیل بدایونی اور کیفی اعظمی شامل ہیں۔پس نو آبادیاتی دور میں بھی ان شعرا کے فلمی نغمے بھارت میں بہت مقبول تھے۔قیام پاکستا ن کے بعد وطن عزیز کے جن شعرا نے پاکستانی فلموں کے لیے گیت لکھے ان میں احمدفراز، بابا عالم سیاہ پوش، جوش ملیح آبادی،حبیب جالب، حزیں قادری ،حمایت علی شاعر، سیف الدین سیف ؔ، فیاض ہاشمی ،فیض احمد فیض ؔ،قتیل شفائی،مسرور انور اور منیر نیازی شامل ہیں۔آزادی کے بعد پاکستان میں بننے والی فلموںمیں سے تئیس ( 23 )فلموں کے لیے حمایت علی شاعر نے ایک سو تین( 103)گیت لکھے جو بہت مقبول ہو ئے ۔حمایت علی شاعر کے معاصرین،فلم سازو ں اور نقادو ں نے بھی ان کی فلمی شاعری کوبہ نظر تحسین دیکھا ۔ان کی نظم ’’ ان کہی‘‘جو فلم ’’ آ نچل ‘‘ میں شامل ہے منظر نگاری، سراپانگاری اور جذبات نگاری کی عمدہ مثال ہے ۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ محبت ایک مافوق الفطرت طاقت ہے جو آ نکھوں سے مستور ہے مگر اس کی بالا دستی کے ہر طرف چرچے ہیں ۔حمایت علی شاعر نے محبت کی قوت اوراس سے وابستہ ہر حکایت کی اس انداز سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ قاری جذبۂ محبت کی ہمہ گیرقوت ،گیرائی اور گہرائی کوچشم تصور سے دیکھ کر دنگ رہ جاتاہے ۔ ایک تخلیق کار کا اپنے دلی جذبات اوراحساسات کو اس قدرخلوص کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کرنا ایک منفرد انداز ہے جواسلوب کو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کرتا ہے ۔ناد رتشبیہات ،استعارات اور لفظی مرقع نگاری کے معجز نما اثر سے یہ نظم قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتی ہے ۔یہ سحر نگاری قاری کے صبر و قرار پر ایسی کاری ضرب لگاتی ہے کہ محبت کی تلاطم خیز موجیں سب کچھ بہا لے جاتی ہیں اور دلِ صد چاک میں ایک نئی لہر سی اُٹھتی ہے اور تازہ ہوا کے جھونکے قریۂ جاںکو معطر کر دیتے ہیں۔خلوص و دردمندی کے جذبات سے عاری ،بتانِ حرص و ہوس کے پجاری اپنی کور مغزی اور بے بصری کے باعث عہد و پیمان کو ایک بھاری پتھر بنا دیتے ہیں۔وفا کے آ ہو کے یہ شکاری ایسے مداری کے رُوپ میں سامنے آتے ہیںکہ بادِ بہاری کے جھونکے خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ ترکِ تعلق بلاشبہ ایک اداس اور تلخ تجربہ ہے مگر حسرت و یاس کے عالم میں اس بند اور بے صدا دریچے کو پیہم دیکھتے رہنا کہا ں کی دانش مندی ہے ۔ یہ نظم پڑھ کر قاری صفحۂ قرطاس کے آئینے پر نظر ڈال کر وہ سب منظر اور موسم دیکھ لیتا ہے جو شاعر کے دل پر اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ جس طر ح بحر ِ زخار کی تلاطم خیز موجوں کے احوال کے بارے میں صرف ملاح ہی کچھ بتا سکتا ہے اسی طرح محبت کی بلا خیزیوں کی حقیقی کیفیات اور ان کے مسائل و مضمرات عشاق کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ بصیرت جو حمایت علی شاعر کے اسلوب کاامتیازی وصف ہے اس کے سوتے انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت ہی سے پھوٹٹے ہیں۔ منفرد اسلوب کی حامل یہ نظم سن کر قاری حسن و رومان کی وادی کی حویلی میں کسی اور دروازے کے کھلنے کا انتظا کرتا ہے ۔ اس نظم میں شاعر نے عزیز و اقارب کے روپ میں موجود ہر عقرب اور لوٹ مار کرنے والے ہر مارِ آستین سے وابستہ ماضی کی تلخ یادوں کے مسموم ماحول سے نکل کر نفس ِ امارہ کو مار کر نئے تصورات کی دنیا بسائی ہے ۔ حمایت علی شاعرنے سنگِ ملامت سہنے کے بعد دل برداشتہ اہلِ محبت کو حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھنے کی ضرورت کا احساس دلایاہے ۔اس کا یہی پیغام ہے کہ بلا کشانِ محبت صبر کی روایت پر عمل کرتے ہوئے سب سنگ ملامت سمیٹ لیںاور ان کی اساس پر محبتوں میں اپنی ذات کو محوری حیثیت دیتے ہوئے ایک نئے تاج محل کی تعمیر کا آغاز کریں ان کے مشہور گیت ’’ تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم ‘‘ کی دُھن لاہور میںمقیم پاکستان کے مشاق موسیقار خلیل احمد(1936-1997) نے بنائی اورگلو کار سلیم رضا (1932-1983)نے اسے اپنے سروں سے یادگاربنا دیا ۔ تخلیق کارکا ذوقِ نظر گام گام پر قاری کے نہاں خانہ ٔ دِل پر دستک دیتا ہے ۔ قطرے میںدجلہ اور جزو میں کُل دکھانے کی صلاحیت سے متمتع اس با کمال شاعر کے اسلوب کو دیکھ کر قاری کو سب حقائق معلوم ہوجاتے ہیں اور وہ بے اختیار پکار اُٹھتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں صد آسماں بہ دامن اور صد کہکشاں بہ دوش پرورش لوح و قلم کرنے والا یہ جری ادیب صریر خامہ کو نوائے سروش کے مقام تک پہنچانے کی تمنا میںخون بن کے رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی میں کامیاب ہو گیاہے ۔ اب دھنک پر نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے عہد کی اس مقبول نظم کے چند اشعارپڑھیں اوراس با کمال صناع کی طلسمی مرقع نگاری کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے آ گے بڑھیں۔
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میری تخئیل کوکیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں ، تیری آنکھیں ،تیرے عارض ،تیرے ہونٹ
کیسی ان جانی سی معصوم خطاکرتے ہیں
تیرے قامت کالچکتا ہوا مخمور تناؤ
جیسے پھولوں سے لدی شاخ ہوا میں لہرائے
وہ چھلکتے ہوئے ساغر سی جوانی وہ بدن
جیسے شعلہ سا نگاہوں میں لپک کر رہ جائے
خلوت ِ بزم ہو یا جلوت تنہائی ہو
تیرا پیکر میری نظروں میں اُبھر آتا ہے
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تیرا حسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آ پ ٹھٹک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ کہیں تُو نے پکارا تو نہیں
گُم سی ہو جاتی ہی نظریں تو خیا ل آ تا ہے
اس میں پنہاں تیری آ نکھوں کا اشارہ تو نہیں
دُھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گریزاںجس دم
تیری زلفیں میرے شانوں پہ بِکھر جاتی ہیں
تھک کے جب سر کسی پتھر پہ ٹکادیتاہوں
تیری بانہیں میری گردن میںاُتر آ تی ہیں
آ نکھ لگتی ہے تو دِ ل کو یہ گماں ہوتاہے
سرِبالیں کوئی بیٹھاہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے اُلجھے ہوئے بِکھرے ہوئے بالوں میںکوئی
اُنگلیاں پھیر تا جاتاہے بڑے پیار کے ساتھ
جانے کیوں تجھ سے دِلِ زار کو اِتنی ہے لگن
کیسی کیسی نہ تمناؤں کی تمہید ہے تُو
دِ ل میں تُو اِک شبِ مہتاب ہے میری خاطر
سرد راتوں میں میرے واسطے خورشید ہے تُو
اپنی دیوانگی ٔ شوق پہ ہنستا بھی ہوں میں
اور پھر اپنے خیالات میں کھو جاتا ہوں
تجھ کو اپنانے کی ہمت ہے نہ کھو دینے کا ڈر
کبھی ہنستے کبھی روتے ہوئے سو جاتاہوں
کس کو معلوم میرے خوابوںکی تعبیر ہے کیا
کون جانے کہ میرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں اگر اس کو سمجھ لوں بھی محبت کا جنوں
تجھ کواس عشق ِ جنوں خیز سے نسبت کیا ہے
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو نہ ہوگا معلوم
حمایت علی شاعر کے اسلوب کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں محبت کومحوری حیثیت حاصل ہے ۔ بے لوث محبت کا جذبہ اس محیر العقول استعداد سے متمتع ہے جو خلوص ،دردمندی ،وفا اورایثارکو رو بہ عمل لاتے ہوئے اس آ گہی کو پروان چڑھاتاہے جو کسی محبوب شخصیت کے بارے میںحتمی رائے قائم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ یہ شاعری پڑھ کر قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے گردش حالات کے نتیجے میں اگر کبھی محبت میںسر د مہری کا گمان گزرے تو دل بر داشتہ ہو کر بدگمانی یا ترک تعلق کے بارے میں ہر گز نہیں سوچنا چاہیے ۔خلوص کا یہ تقاضا ہے کہ مزید محبت جاری رکھتے ہوئے جفا کے با وجود وفا کو شعار بنا یا جائے۔بے لوث محبت کو شعار بنانے والے یاس و ہراس سے دامن بچاتے ہوئے ان لوگوں کے پاس مر ہم بہ دست پہنچتے ہیںجنھیں ہوس کے اسیر عادی دروغ گو ،پیمان شکن اور ابن الوقت درندوںنے زندہ در گو کر دیا ہے ۔ اپنی فلمی شاعر ی میں حمایت علی شاعر نیقوت عشق کو ایک ارفع اور بر تر قوت کے طور پر پیش کیا ہے ۔حمایت علی شاعر کے اسلوب میںبہارا ور خزاں کے سیکڑوں مناظر کے مانند عشق بھی کئی صورتیں اختیار کر لیتا ہے ۔کبھی یہاں سوز و ساز رومی کی کیفیت ہے تو کبھی پیچ و تا ب رازی کا سماں ہے ۔کہیں روحانیت کا وجدان تو کہیں مادیت کاخلجان ایک طوفان اُٹھادیتاہے ۔اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مجازی عشق کا ناقابلِ یقین حدتک قوی اور تکمیل حیات پر قادر احساس ہی حمایت علی شاعرکے شعر ی اسلوب کی پہچان ہے ۔حسن و رومان کی وادی میںمستانہ وار گھومنے و الوں کے لیے عشق کے پر خلوص جذبات اور مسحور کن وجدانی کیفیات سے مزین یہ شاعری کیف و مستی اور بے خودی و سرشاری کی نوید لاتی ہے ۔ جب بے قراری ،بے تابی اور بے چینی کے باعث دل کے ارماں آنسوؤ ںمیں بہنے لگیں تو یہ شاعری صبر وقرار کا پیغام لاتی ہے ۔فلم آنچل (1962)کے ہدایت کارفرید احمد نے حمایت علی شاعر کی نظم ’’ ان کہی‘‘ کو بہت پسند کیا۔ فرید احمد کے والد وحیدالدین ضیا الدین احمد نے سال 1956میں فلم ’’ وعدہ ‘‘بنائی جسے بہت پسند کیا
گیا ۔ امریکہ میں فلم سازی کی تعلیم حاصل کرنے والے فرید احمد کا شمار اپنے عہد کے ذہین فلم سازوں میں ہوتا تھا۔ اس کی بنائی ہوئی فلم عندلیب (1969) بہت مقبول ہوئی ۔فلم سازفرید احمد کی تیار کی ہوئی باقی فلموں میںانگارے(1972) ،جان پہچان (1967) ، بندگی(1972) ،سہاگ (1972) ،خواب اور زندگی(1973) اورزیب النسا (1976) شامل ہیں۔حمایت علی شاعر کے اسلوب سے متاثر ہو کر فرید احمد نے فلم آنچل میں شامل کرنے کے لیے صرف حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے نغمات کا انتخاب کیا۔حمایت علی شاعر کا لکھا ہوا یہ گیت( کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو ) جسے پاکستان کے فلم انڈسٹری کے دورِ زریں(1959-1977) کے مقبو ل گلو کار احمد رشدی(1934-1983) نے گایا ۔اس گیت کو اپنے عہد کابہت پسندیدہ گیت سمجھا جاتا تھا اوراسی نغمے کو نگار ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا۔
کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو
خد اکرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
قیام پاکستان کے بعد دو عشروں (1950-1970)تک حمایت علی شاعر کے فلمی نغموں کی دھوم مچی رہی ۔حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے فلمی نغموں کا مجموعہ ’ تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم ‘شائع ہو چکا ہے ۔اس میںحمایت علی شاعرکے ایک سو ( 100) مقبول فلمی نغموں کاانتخاب شامل ہے ۔ان کی تخلیقی فعالیت اوراس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہوامیںگرہ لگانے اور خیالی پلاؤ پکانے والوں کی بے عملی کے سخت خلاف تھے ۔وہ سدا اس بات پر اصرار کرتے کہ فردو س ِگم گشتہ کی تلاش میں سر گرداں رہنے کے بجائے زندگی کے تلخ حقائق کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے ہوئے درپیش حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی دنیا آپ پیدا کرنے میں انہماک کا مظاہرہ کیا جائے ۔وہ سمجھتے تھے کہ معاشرتی زندگی میںپائی جانے والی قنوطیت ،یاس و ہراس ،بے عملی اور اضمحلال کی کیفیت قومی ترقی ، معاشرتی فلاح اور عوامی خوش حالی کی راہ میںسد سکندری بن کر حائل ہو گئی ہے ۔انھیںاس بات کاقلق تھا کہ معاشرتی زندگی پر بے عملی ،ہوس اور بے حسی کاعفریت منڈلا رہاہے ۔کارواں کے دل سے احساس زیاں کے عنقا ہونے کو وہ قومی اور ملی استحکام کے لیے ایک بہت برا شگون قرار دیتے تھے۔ ان کے اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ بتان ِوہم و گماں کے اسیر ریت سے بت بنانے والے شیخ چلی قماش کے مسخروں کی بے بصری اور کور مغزی نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ فریب خوردہ لوگ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں۔ان لر زہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں زندگی کے سب معائر پتھر کے زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ حمایت علی شاعر کے نغموں میںحسن و رومان ،پیمانِ وفا ،ہجر و وصال ، سراپا نگاری،وفا اور جفا ، پیمان شکنی ،مسائل و افکار ،حسن کی ہمہ گیر کیفیات ، ناز و انداز اور ہوس کی خست و خجالت کے مختلف رُوپ جب احساس و ادراک کی ہمہ گیری سے مزین ہوتے ہیں تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طار ی ہو جاتی ہے اور وہ ایک ایسے جہانِ تازہ میں پہنچ جاتے ہیں جہاں قوس قزح کی رنگینیاں دعوتِ نظار ہ دیتی ہے ۔ ان گیتوںکو سننے کے بعد یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ جب بے وفائی ،پیمان شکنی اور جفاکے صدمے سہنے کے بعد آ نکھوں سے جوئے خوں رواں ہو،روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہوجائے تو دِل سے نکلنے والی آہوں کادھواں درد و غم سے لبریز گیتوں میں ڈھل جاتا ہے ۔شادی و غم اس جہاں میں تو ام ہیںاس لیے یہ گیت کبھی غم کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں تو کبھی یہ خوشیوں کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ حمایت علی شاعر نے ہر قسم کے گیت لکھے ہیں جن میں شادی اور غم کے گیت اپنا جداگانہ رنگ پیش کرتے ہیں۔گیتوں کے سریلے بول زندگی کوانمول بنا دیتے ہیںاور یہ گیت سن کر ہجوم ِ یاس میں گھر انسان ایک گونہ عافیت اور بے خودی کے نشاط انگیز احساس سے سر شار ہوتا ہے ۔ زندگی کے تلخ حقائق جن میں حیات و ممات کے اسرار و رموز شامل ہیں ان گیتوں کا اہم موضوع ہیں۔یہ گیت اس خوش اسلوبی سے سامعین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتے ہیں کہ ان کی اثر آفرینی پر سب لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔گیت اوران کے پس منظر کی موسیقی فکر و خیال کومہمیز کرتی ہے اور سامعین کی سوچوں کونئی جہت نصیب ہوتی ہے ۔گیتوںکے سریلے بول حسن و رومان کی وادیٔ خیال میں مستانہ وارگھومنے اورخاک ِ راہ پر تنہا بیٹھ کر صفِ ماتم بچھانے کے بجائے نگاہ بلند رکھنے کا حوصلہ عطاکرتے ہیں۔ یہ گیت ایسی بلند پروازی پر آمادہ کرتے ہیں جو عشاق کو پرستان کی سیراور کسی گل بکاولی سے ملاقات کا وسیلہ بن سکے۔سچ تو یہ ہے کہ زندگی کی حرکت و حرات اورحقیقی معنویت حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے گیتوں میں پوری طرح رچ بس گئی ہے ۔ حمایت علی شاعرکے لکھے ہوئے کچھ سدا بہار فلمی نغمے درج ذیل ہیں :
میں نے تو پریت نبھائی
سانوریارے نکلاتُوہر جائی (فلم :خاموش رہو،1964)
میں خوشی سے کیو ںنہ گاؤں میرا دل بھی گا رہاہے
یہ فضا حسیں ہے اتنی کہ نشہ سا چھا رہا ہے
دُورویرانے میں اک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ ادھر آئے تو کچھ بات بنے ( فلم نائلہ :1965)
ہم نے تو تمھیں دل دے ہی دیااب تم یہ بتاؤ کیا لو گے
اس دل میں بسی ہے اک دنیا اب تم یہ بتاؤ کیا لو گے
نوازش ،کرم ،شکریہ، مہربانی
مجھے بخش دی آپ نے زندگانی
یہ دنیا راہ گزر ہے
ہم بھی مسافر تم بھی مسافر کون کسی کا ہووے
کاہے چُھپ چُھپ رووے
واللہ سر سے پاؤں تلک موجِ نور ہو
قدرت کا شاہ کارہو تم رشکِ حُور ہو
جب رات ڈھلی تم یاد آئے
ہم دُور نکل آئے
اس یاد کے سائے سائے ( فلم ’کنیز‘1965)
ہرقدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ ( فلم’ میرے محبوب‘ :1966)
نہ چھڑ ا سکو گے دامن نہ نظربچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیںنہ جا سکو گے ( فلم ’ دامن‘ :1963)
خداوندا یہ کیسی آگ ہے جو جلتی ہے سینے میں
تمناجو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں ( فلم ’’لوری ‘ 1966)
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
ملی نغمے
ارض وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت حمایت علی شاعرکے اسلوب کا نمایاں وصف ہے ۔وطن کی آزادی ،خود مختاری اور استحکام کے لیے وہ احساسِ ذمہ داری اورایثار کو نا گزیر سمجھتے تھے ۔ ارض ِ وطن کو وہ قوم کی رو ح اور جسم سے عبارت قرار دیتے تھے ۔ ان کے لہجے میں پائی جانے والی شائستگی ،وضع داری ،خلوص اور دردمندی دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ولولۂ تازہ بھی عطاکرتی ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ قوموں کی تقدیر افرادکے ہا تھوں میں ہوتی ہے جو بے لوث محبت ،خلوص اور دردمندی کو شعار بنا کر معاشرتی زندگی کو امن و عافیت اور سکون کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔جہاں تک دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والی اقوام کا تعلق ہے ان کے تعلقات کا انحصار ان کے باہمی مفادات کی نوعیت پر ہے ۔ان کی شاعری جذبہ ٔحب الوطنی کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے ایسے بحرِ بے کراں کا منظر پیش کرتی ہے جس کی طوفانی لہریںارضِ پاکستان کی طرف میلی نگاہیں ڈالنے والے شر پسندوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہیں۔ عشق کی یہی فقید المثال قوت جب ملی نغموں کی صورت میں الفاظ کے قالب میںڈھلتی ہے تو مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیتی ہے ۔ جذبہ ٔ حب الوطنی سے لبریزان ملی نغموں کی دھمک سما سے سمک تک گونجتی ہے تو جارحیت پسندوں کے دل دہل جاتے ہیں اور در اندازوں کا پِتا پانی ہوجاتاہے ۔ حمایت علی شاعرنے اپنے ملی نغموں نے قومی بیداری اور سرفروشی کے جذبات کو مہمیز کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے ۔یہ نغمے حب الوطنی کے موضوع پر اظہار و ابلاغ کو متعدد نئے امکانات سے آ شناکرتے ہیں۔احساس کی تمازت،اسلوب کی ندرت،جذبۂ شوق شہادت کی حدت،شجاعت کی شدت،تجربات کی ہمہ گیری اوراقدار و روایات کی سر بلندی کی تمنا نے ان ملی نغموں کو ابد آ شنا بنا دیاہے ۔ہر نغمہ ایسا عصا ہے جسے سن کر جذبہ ٔ شوق شہادت سے سرشار وطن عزیز کا ہر سپاہی اپنا پر چم بلند کر کے آگے بڑھتاہے اورطاقت کے نشے میں چُور ابلیس نژاد فراعنہ کے پھینکے ہوئے ہر ناگ کا سر کچلنے کا مصمم ارادہ کر لیتاہے ۔
ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن
آج مظلوم ظالم سے ٹکرائیں گے
اپنی طاقت زمانے سے منوائیں گے
سامراجی خداؤں پہ چھاجائیں گے
ساتھ ہے مرد و زن سر پہ باندھے کفن
ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن
جو بھی رستے میں آئے گاکٹ جائے گا
رن کا میدان لاشوں سے پٹ جائے گا
آج دشمن کا تختہ اُلٹ جائے گا
ہر جری صف شکن ہر جواں تیغ زن
ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن
دل میں قرآن ہونٹوں پہ تکبیر ہے
جوش عباس ؓ ہے عزم شبیر ؓ ہے
ہر مسلمان حیدرؑ کی شمشیر ہے
سر پہ سایہ فگن دستِ خیبر شکن
ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن (فلم مجاہد :1965)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کوئی قوم اپنی درخشاں اقدار و روایات کی پاس داری کو شعار بناتے ہوئے اہلِ عالم کے سامنے اپنے وقار اور کردار کی لائق صدر شک و تحسین مثال پیش کرتی ہے تو اس کا شمار دنیا کی ایسی اقوام میں ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح کو اپنا نصب العین بنا کرحق و صداقت کی علم بردار بن کر سامنے آ تی ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ حریت فکر و عمل کے مجاہد اپنے قومی پرچم کو ہمیشہ سر بلند رکھتے ہیں۔ حمایت علی شاعرپاکستان کے قومی پرچم کو ملی وقار ،آزادی ، سا لمیت ،ملکی استحکام اور قومی عزت و افتخارکی علامت قرار دیتے تھے ۔اسی لیے وہ قومی پرچم کو دل و جاں سے عزیزرکھتے تھے۔
اپنے پرچم تلے ہر سپاہی چلے
ہاں سپاہی ہیں ہم یوں بڑھائیں قدم
جیسے تاروں کی جھرمٹ میں چنداچلے
اپنے پرچم تلے ہر سپاہی چلے
حمایت علی شاعرنے زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنایا ۔ معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے علاقائی ،لسانی اور نسلی امتیازات کو وہ ملی استحکام کے لیے بہت بُر ا شگون سمجھتے تھے ۔وطن عزیز میںسلطانیٔ جمہور کے لیے انھوں نے بھر پور آواز بلند کی ۔ ان کی شاعری میں تخیل کی جو لانیاں صرف اشعار کی صورت میںصفحۂ قرطاس پر منتقل ہونے والے چند الفاظ تک محدود نہیںرہتیں بل کہ ان کادبنگ لہجہ تزکیہ ٔ نفس کی متعدد صورتیں سامنے لاتا ہے ۔ دکھی انسانیت کے ایک بے لوث مسیحا کی صورت میں وہ مرہم بہ دست پہنچتے ہیں اور عرض مضطرب کو پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ہر قسم کی عصبیت اور قدیم و جدید کے امتیازات سے بالا تر رہتے ہوئے حمایت علی شاعرنے کٹھن اور صبر آزما حالات میں پرورش لوح وقلم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ۔جو کچھ ان کے دل پر گزری وہ اسے عصر ی آگہی پروان چڑھانے کی خاطر زیب قرطاس کرتے چلے گئے ۔ان کے اسلوب میںندرت،تنوع،تازگی ، روح اورقلب کی اتھا ہ گہرائیوں میںاتر جانے والی اثرآفرینی ،شگفتہ پیرایۂ اظہار،لطافت،ایمائیت اور حریت فکر و عمل کاجادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔حمایت علی شاعر نے حسن بے پروا کے ناز و اندا ز،قوت عشق کی ہمہ گیر شدت اور حدت کوجس فنی مہارت سے پیرایۂ اظہار عطاکیا ہے و ہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔یہاں تک کہ جہاں معاملہ بندی کے سخت مقامات آتے ہیں وہاں بھی حمایت علی شاعر کی گل افشانی ٔ گفتار سے سماں بندھ جاتا ہے ۔
شبِ سیاہ میں چراغِ نظر تری آ نکھیں
رہِ حیات میں رختِ سفر تری آ نکھیں
تُو ساتھ ہو کہ نہ ہو زندگی کی راہوں میں
رہیں ہمیشہ میری ہم سفر تری آ نکھیں
طلوع ہو تیری پلکو ںکے سائے میں ہر صبح
جھکی رہیں میری ہر شام پر تری آ نکھیں
خدا کرے کہ میں بس جاؤں تیری آ نکھوں میں
کیے رہیں میری آ نکھوں میں گھر تری آ نکھیں
میری نگاہ میں رہ کر بھی جانے کیوں آ خر
میری نگاہ سے ہیں بے خبر تری آ نکھیں
وصل اور ہجر جیسے موضوعات پر ان کی شاعری میں نفاست اور نزاکت کو جس طرح ملحوظ رکھا گیاہے وہ قاری کے لیے تسکین کا وسیلہ ہے ۔ ان کی شاعری میں بے لوث محبت دبستان دل کی غزل کے روپ میں جلوہ گرہے ۔ محبت کے موضوع پر ان کے اشعار کاہر لفظ گنجینہ ٔ معانی کا ایسا طلسم بن جاتا ہے جس میں ہر لفظ کئی پرت رکھتا ہے ۔ دِل کے آئینے میں گِرد و پیش کے حالات ،مناظر فطرت،یادوں کی کیفیت اور جفا کی عقوبت کوجگہ دینے کے بعدفرصت کے لمحات میںآنکھیںبند کر کے ایام گزشتہ کی کتاب کا مطالعہ کرنے والے اس تخلیق کارکا اسلوب قاری کو وادیٔ خیال میں پہنچاکر یہ سوچنے پر مجبور کردیتاہے کہ صرف اپنے من کی غواصی کرنے سے ہی وہ گوہر ِ مراد مل سکتا ہے جو ہر مر حلہ ٔ زیست پرخضر ر اہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ روشن ضمیر لوگ جوسراغ زندگی پا لیتے ہیں وہ نہ صرف اپنے لیے بل کہ دوسروں کے لیے بھی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ حمایت علی شاعرکی تخلیقی فعالیت کا اہم پہلو ان کی وسعت نظر ہے جوقاری کو حرفِ صداقت کی ہمہ گیر اثر آفرینی سے روشناس کراتی ہے۔اگر کہیں ابہام کی صورت پیدا ہو تو اسے بھی ارادی نوعیت کا سمجھنا چاہیے جس سے تخلیق کار کا مقصد گزر گاہِ خیال کونیا آ ہنگ عطا کرنا مقصود ہوتا ہے ۔زمانے کی برق رفتاریوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہیں۔ زندگی
کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے حمایت علی شاعرنے لکھا ہے ۔
آتش کدہ دِل کو ہوا کیوں نہیں دیتے
پتھر تو نہیں لوگ صدا کیوں نہیں دیتے
بیٹھے ہو جو یوں جِسم کی قبروں میں سمٹ کر
کتبہ بھی سرِ قبر لگا کیوں نہیں دیتے
مدت کے بعد تم سے مِلا ہوں تو یہ کُھلا
یہ وقت اور فاصلہ دھوکا نظر کا تھا
چہرے پہ عمر بھر کی مسافت ر قم سہی
دِل کے لیے تمام سفر لمحہ بھر کا تھا
اِک جبرِ وقت ہے کہ سہے جا رہے ہیں ہم
اور اِ س کو زندگی بھی کہے جا رہے ہیں ہم
اِعجاز دیدنی ہے طلسمِ سراب کا
دریا رُکا ہوا ہے ، بہے جا رہے ہیں ہم
میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ مری بات
خوشبو کی طر ح اُڑ کے تر ے دِل میں اُتر جائے
حمایت علی شاعرکے دیرینہ رفیق، مداح اور جھنگ کے بزرگ شاعر غلام علی خان چینؔ کہاکرتے تھے کہ اگرچہ کسی شاعر کی کلیات میں سے کسی دنیاوی متاع بے بہا کی جستجوحیران کن ہے مگر اس سے بھی زیادہ محیر العقول بات یہ ہے کہ کوئی محقق دنیاوی مال و دولت ،رشتہ و پیونداور خاندانی میراث میں سے شعری آ ہنگ، رومان اوروجدان ،جذباتی موزونیت اورقلبی سکون کی تلاش میں جی کا زیاں کرنے میںخجل ہو۔حمایت علی شاعرکے اسلوب میںجذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کی شدت اُنھیں اپنے ما فی الضمیرکے بے ساختہ اظہار پر مائل کرتی ہے ۔ حمایت علی شاعر کے اسلوب کامطالعہ کرتے وقت یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ معاشرتی زندگی کے کئی ارتعاشات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کاجواب تخلیق کارکی دسترس میں نہیں ہوتا۔ اپنی دنیا آ پ پیدا کرنے اور ستیز کے راز سمجھنے کی اسی کشمکش میں تخلیق کار کے شب وروز گزرتے ہیں۔تخلیق کارکا ذاتی رنج و غم اور داخلی کرب اس کی تخلیقی فعالیت کے لیے مواد فراہم کرتا ہے ۔ حمایت علی شاعر کے شعری محرکات کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب میںآرزو، جستجو،ضبط ،صبر و تحمل اوراحتجاج کے امتزاج سے یاس و ہراس اور اضطراب کے خاتمے کی تدبیر کی ۔ان کا اسلوب ایسی شمع ِ فروزاں ہے جس کے اعجاز سے سفاک ظلمتوں کے پید اکردہ جمودکا خاتمہ ہوتا ہے اور قاری کو جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی کا حوصلہ نصیب ہوتا ہے ۔
اسلوب میںمرکبات ،تراکیب،تلمیحات اور صنائع بدائع کے برمحل استعمال سے حمایت علی شاعر نے اپنی شاعری کو موثر بنایا ہے ۔ یہ مرکبات ،تراکیب،تلمیحات اور صنائع بدائع تخلیق کار کی جدت پسند طبیعت کو سامنے لاتے ہیں۔ چند مثالیں قابل توجہ ہیں :
یتیم خانۂ ادراک،مٹی کے کھلونے ،تاجِ گُل ،جسم کے قفس،کا نٹوں کا تاج، کعبہ ٔ جاں، روزنِ در ،پسِ دیوار ،سنگ ِمنزل ،سنگِ مرقد ،خار و خس ،پیش و پس ،قبول و رد ،جزر و مد ، فکر و نظر ،خال و خد ،قزاقوں کے دشت ،آواز ِ جرس،اہلِ انجمن،اندازِجنوں،گرفتارِ خم ،دشتِ غربت ،مثلِ گرد باد ،نقشِ پا،درونِ دِل،زلفِ ایاز،نقشِ کفِ پا ،حاصل ِ غم ،غمِ حاصل،مشغلۂ دِل،عالمِ خاموش،شمعِ انجمن ،عمر ِ رواں،عکس ِجلی،اہلِ زنداں ،دیارِ کم نظراں ،پیرہنِ خاک ،فیض ِ جہلِ خرد،سایہ ٔ افلاک ،دیدہ ٔ نم ناک ۔
تلمیحات کا ایک جہان ہے جوحمایت علی شاعر کے اسلوب کو نکھار رہا ہے مثلاً صبر حسینؑ ،فکر بو ذر ؓ، شہر ِ علم ،بت شکن،کو ہ کن۔
میر تقی میر نے بھی اپنی شاعری صنعت تکرار کو برتا ہے جیسے’ کم کم ‘وغیرہ مثلاً:
کھلنا کم کم کلی نے سیکھاہے ،کم کم بادو باراں ہے۔
کلاسیکی شاعری کے مانند جدید دور میں بھی صنائع بدائع کا کثرت سے استعمال ہو رہا ہے ۔ صنعت تکرار کے استعمال سے حمایت علی شاعرنے اپنی شاعری کو خوب مزین کیا ہے مثلاً سائے سائے،شاخ شاخ ،نفس نفس ،آہٹ آ ہٹ ، بوجھل بوجھل ،اُمڈ اُمڈ ،سم سم،سائے سائے ،
اپنے اسلوب میںحمایت علی شاعر نے اس عالم ِ آ ب و گِل کے بارے میں اپنے تجربات ،احساسات ،اور مشاہدات کی نہایت موثر لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔اس رجحان ساز ادیب کا اسلوب اپنے عہدکی تاریخ کے نشیب و فراز کا آئینہ دار ہے ۔اس میں تہذیب و سیاست ،تمدن و معاشرت اور سماجی و عمرانی صورت ِ حال سے وابستہ تمام پہلوؤ ں کو پیشِ نظر رکھاگیا ہے ۔ کلاسیکی ادب کی روایات اور معاصر ادبی رجحانات کے بیان کا منفرد تجربہ حمایت علی شاعر کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ حمایت علی شاعرکا منفرد اسلوب قاری کے جذبات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ حمایت علی شاعر کے اسلوب کے استحسان کے لیے کچھ منتخب اشعاردرج ذیل ہیں:
اس کے غم کو غمِ ہستی تو میرے دل نہ بنا
زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
دل کے ہر کھیل میں ہوتاہے بہت جاں کا زیاں
عشق کو عشق سمجھ مشغلۂ دِل نہ بنا
تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی
کس طرح انتقام لیا اپنے آ پ سے
صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے
کچھ غم ِ محبت ہو کچھ غم جہاں یارو
اس دشت ِسخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دُھوپ تو جلنے لگے سائے
کب تک رہوں میںخوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آ پ سے
جو کچھ بھی گزرنا ہے مرے دل پہ گزر جائے
اترا ہو ا چہرہ مری دھرتی کا نکھر جائے
ایک درویش منش انسان کی حیثیت سے حمایت علی شاعر نے ایک شان استغنا اور قناعت کے ساتھ زندگی بسرکی ۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ ایسی عظیم شخصیات نے زندگی کا سفر کیسے طے کیا ۔ان نابغۂ روزگار ہستیوں کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ جاتاہے مگر آزمائش و ابتلا سے گزرنے اور صبر آزما حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کے بعدان کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ اپنی خود ی کے محافظ ان فرہادمنش قناعت پسندفقیروں نے اپناتیشہ رہن رکھ کر درِ خسرو پر دستک دینے کے بارے میں کبھی نہیںسوچا ۔وہ اس لیے درِ کسریٰ پر صدا دینے کے سخت خلاف رہے کہ وہ جانتے تھے اب ان کھنڈرات میں ملخ و مُور ، بوم و شپر اور زاغ و زغن کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ گزشتہ سات عشروں میںکراچی میں مقیم اس جری تخلیق کار نے تخلیق ادب میں اپنے متنوع فنی تجربات سے جمود کا خاتمہ کیا اورافکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے قلب و نظر کو تابانی عطا کی۔ حمایت علی شاعر کے اسلوب میں افکارِ تازہ سے مزین نئے تخلیقی تجربات قاری کو جہان ِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں۔تین مصرعوں پر مشتمل مختصر نظم ثلاثی کو ان کی طرزِ خاص سمجھا جاتا ہے ۔ ذیل میں حمایت علی شاعر کی لکھی ہوئی ثلاثی کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں :
کس طر ح تراش کر سجائیں
ان دیکھے خیال کے بدن پر
لفظوں کی سِلی ہوئی قبائیں
——————————————–
مرنا ہے تو دنیا میں تماشا کوئی کر جا
جینا ہے تو اِک گوشۂ تنہائی میں اے دِل
معنی کی طر ح لفظ کے سینے میں اُتر جا
———————————————
اپنی زمیں کا حسن تھا اپنی نظر سے دُور
دنیا کو مہتاب سے دیکھا تو یہ کُھلا
ہم ہوں اگر بلند تو یہ خاک بھی ہے نُور
———————————————–
سورج کا یہ اندا ز گواہی تو نہیںہے
آئینہ دکھاتا ہے اُجالا مجھے پیہم
سایہ میرے اندر کی سیاہی تو نہیں ہے
———————————————–
شب کو سُورج کہاں نکلتا ہے
اِس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی
روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے
———————————————–
سُورج تھا سر بلند تو محو نیاز تھے
سورج ڈھلا تو دِل کی سیاہی تھی دیدنی
کوتاہ قامتوں کے بھی سائے دراز تھے
فروغ علم وادب کے حوالے سے حمایت علی شاعر کی حیات اور قومی خدمات پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے ۔حمایت علی شاعر کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے جادہ طرازِ صحرا تھے جنھوں نے اپنی خود ی کوبلند رکھااور صحرا میں اذان دے کر حرفِ صداقت کو اسلوب زندگی سے تعبیر کرتے ہوئے حریت فکر کے مجاہد کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔اس منکسر المزاج ادیب کے زینۂ ہستی سے اُتر جانے کے بعد اردو زبان و ادب کو پہنچنے و الے نا قابل تلافی نقصان کے تصور سے کلیجہ منھ کو آتاہے ۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی کام کیا اسے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اپنے موضوع تحقیق سے متعلق مستند موادکی فراہمی بلا شبہ جان جوکھوں کا کام ہے ۔ کسی بھی عظیم شخصیت کی زندگی کی نئی جہات کی دریافت کوہ کنی اور جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ سر بہ فلک کوہساروں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی بر ف پوش
چوٹیوں تک رسائی کے آرزو مند اوربے آب و گیاہ ریگستان جہاں ہر طرف خارِ مغیلاں بکھرے ہیںوہاں صحرانوردی کرتے وقت یہ عظیم شخصیات حرف شکایت لب پر لائے بغیر صرف یہی کہتی ہیں کہ اس دشت جنوں کو چاہیے کہ ہر خار کی نوک کو تیز تر کر دے شاید ان کے بعد بھی کسی آ بلہ پا رہرو کا اس طرف سے گزر ہو۔
حمایت علی شاعرکے اسلوب میں علامت نگاری ایک سحر نگاری کا روپ دھر لیتی ہے ۔ہر علامت ایک ایسے نفسیاتی کُل کی صورت میں سامنے آ تی ہے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی تاب و تواں کو متشکل
کرنے میں مدد ملتی ہے ۔مثال کے طور پر آ نکھ ، آئینہ ،آ ہٹ، دیوار ،در ، ابابیل ،اصحاب فیل ،بدن، وقت ، ایمان ، یتیم خانہ ٔ ادراک ،جہل خرد ، پتھر ،روشنی ،سنگ منزل ،بہتا سمندر ،دشت، ابر، پوشاک ،جہالت ،برق،منزل ،رہ گزر ،پھول ،لاشیں ،مقتل ،آگ،موت،شمعیں،تربت ،رہزن ،دھواں،شہر،لوگ،پھول،دُھوپ،سائے پیرہن،الاؤ،راکھ ،قدم ،سانچے ،مدت،رنگ ،ٹھوکر گناہ گارجھوٹ اورخاک۔ جذبات و احساسات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت حمایت علی شاعرکی زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کاجادو سر چڑھ کر بولتاہے :
اِس دشت پہ احساںنہ کر اے ابرِ رواں اور
جب آگ ہو نم خوردہ تو اُٹھتا ہے دُھواں اور
یہ شہرِ رفیقاں ہے دِلِ زار سنبھل کے
مِلتے ہیں یہاں لوگ بہت رُوپ بدل کے
اِس دشتِ سخن میں کوئی کیاپھول کھلائے
چمکی جو ذر ا دُھوپ تو جلنے لگے سائے
بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
میرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
جھنگ میں حمایت علی شاعر کے سیکڑوں مداح موجود ہیں ان سب نے اس یگانۂ روزگار تخلیق کار کی وفات پر دلی رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے اسے ایک بہت بڑے ادبی سانحہ سے تعبیر کیا ۔ شہر کے ممتاز دانش وراورنقادپروفیسرغلام قاسم خان نے حمایت علی شاعر کی الم ناک وفات کو ایک عہد کا اختتام قراردیا۔یگانہ ٔ روزگا رمورخ و ماہر لسانیات ریاض ناصرنے اپنے جذبات حزیں کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں عنقا ہونے لگاہے ان کو معلوم نہیں کہ حمایت علی شاعر کے بعد اب پاکستانی زبانوں کی حمایت میں لکھنے والے کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔ ذہین فلسفی ابو ذر غفاری نے کہا کہ علم و ادب کے شعبوںمیں وطن عزیزکا نام روشن کرنے والی ایسی عظیم ہستیاں اب کہاں ملیں گی ۔ حمایت علی شاعرخاکِ وطن کے ہر ذرے کو دیوتاسمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز ان کی شاعری ایسی ساحری بن جاتی ہے جو اقلیم تاثرات کی تسخیر پر قادر ہے ۔ ملت اسلامیہ ،انسانیت، ارض وطن اور اہلِ وطن کی محبت ایک عشق کے مانند ان کی شاعر ی میںسما گئی ہے ۔ امریکہ میں مقیم اُردو کے ممتاز شاعر تنویر پھولؔ نے حمایت علی شاعر کی تاریخ وفات کی مناسبت سے یہ قطعہ لکھا:
محفل شعر سے اُٹھ گیا اور گیادر بہشت
پھول! اہلِ ادب اس کو رکھیں گے تا دیر یاد
شاعر ِبا ہنر داد پاتا رہا ہر جگہ
کہہ ’’ حمایت علی شاعر ذوقِ وجدان ِداد ‘‘ (2019عیسوی )