ہجر میں جَپ کر نام تمہارا سودائی نے رقص کیا
حجرۂ دل کی بزم میں کھل کر تنہائی نے رقص کیا
لا مذہب ہونے کی وضاحت اس سے بہتر کیا ہو گی
نعرہ مار کے بھیڑ کے اندر بلوائی نے رقص کیا
اُونچی قیمت دیکھ کے فوراً ہو گئیں میری آنکھیں نم
کھلی ہتھیلی پر میری پا ئی پائی نے رقص کیا
اک چھوٹی سی سوئی نے اوقات بتا دی ہے اپنی
بخئیے کے اُدھڑے سینے پر تُرپائی نے رقص کیا
بٹیا کو رخصت کر کے تو بلک کے روئی تھی وِدھوا
سہرا دیکھ کے اپنے لال کے سر، مائی نے رقص کیا
کیا کیا مانگ رہے تھے چیخ کے ساہوکار کے کارندے
اندر عزت روئی باہر شہنائی نے رقص کیا
برسوں کے اک پیاسے خواب کو اب جا کر تعبیر ملی
دریا کے میٹھے پانی پر صحرائی نے رقص کیا
مجھ کو ترکے میں بس آنسو سونپ کے کتنا خوش تھا وہ
جس دم میں گھر سے نکلا میرے بھائی نے رقص کیا
میری غزل میں قید ہوا دلشادؔ دریچے کا منظر
جسم کے اک اک لوچ کے بل پر انگڑائی نے رقص کیا