سلاخوں کے پیچھے کھڑے رانا صاحب دائیں سے بائیں چکر کاٹتے آگ بگولا ہورہے تھے۔
مینیجر کو اطلاع ملتے ہی وہ وکلاء کے ٹیم کو ساتھ لے کر رانا صاحب کے پاس آیا۔
“دو گھنٹوں میں تم سے ایک کام نہیں ہوا۔۔۔ جلدی سے میری بیل کراو۔” رانا صاحب نے سلاخوں سے ہاتھ نکال کر ایک وکیل کا گریبان جھکڑا جسے بر وقت باقی وکلاء اور مینیجر نے آذاد کروایا۔
ان کا طیش قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہ بار بار بے بسی سے سلاخوں کو بوٹ سے لات مارتے۔
“وہ D. I. G کو فون ملاو کہاں مر گیا ہے وہ۔” وہ اپنے سٹاف اور وکلاء پر چلا رہے تھے۔
“سر پلیز۔۔۔۔۔ آپ ریلکس ہوجائے۔۔۔۔۔ ہماری ٹیم پوری کوشش کر رہے ہے۔۔۔۔۔ ڈی آئی جی صاحب کو اطلاع کر دی ہے۔۔۔۔ وہ بس پہنچ رہے ہے۔” وکیل نے سہمے انداز میں ان کو تسلی کرنے کی کوشش کی۔
رانا صاحب کو کرن کے اس اقدام سے بہت صدمہ لگا تھا انہیں اپنی ناک کے نیچے کرن کے اتنے بڑے دھوکے سے بے خبری برداشت نہیں ہو پا رہی تھی۔
“نہیں۔۔۔۔۔۔ کرن یہ سب اکیلی نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی ملا ہوا تھا۔۔۔۔۔ اس نے کسی کے بل بوتے پر یہ کام کیا ہے۔” وہ کمر پر ہاتھ رکھے سوچتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
“معلوم کرو۔۔۔۔۔۔ پتا لگاو کون ملا ہوا ہے اس کے ساتھ۔۔۔۔۔ کس نے کیا ہے یہ سب۔۔۔۔۔ وہ لڑکا۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ آرین۔۔۔۔۔ پتا لگاو کہاں ہے وہ۔” انہوں نے رخ موڑ کر اپنے مینیجر کو غراتے ہوئے ہدایت دی وہ سر کو خم دیتا گھبرا کر باہر بھاگا۔
رانا صاحب اضطراب میں ڈی آئی جی کے انتظار میں سر جھکائے بیٹھے تھے جب بھاری بھرکم قدموں سے ڈی آئی جی کو دروازے سے اندر داخل ہوتے دیکھا۔ رانا مبشر اٹھے اور تیزی سے ڈی آئی جی کو لپکے۔
“یہ سب کیا چل رہا ہے اعجاز۔۔۔۔۔ تمہارے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ میری بیل منظور نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔ اس عورت نے دھوکے سے خلا لی ہے۔۔۔۔ میں نے کوئی کاغذات سائن نہیں کئے۔۔۔۔۔ ایک دفعہ میں باہر ہوجاو اس کو تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔” رانا مبشر نے غضب ناک آواز میں کہا۔
اعجاز قریشی رانا مبشر کا اچھا دوست رہا تھا دونوں ایک دوسرے کو بہت سپورٹ کرتے کبھی رانا کسی پھڈے میں پھنستا تو اعجاز مدد کو پہنچتا اور کبھی اعجاز کو پروموشن کے سلسلے میں مدد چاہیئے ہوتی تو رانا مبشر حاضر ہوتا۔
“حوصلہ رکھو رانا۔۔۔۔۔۔ اپنے فتور کو قابو کرو۔۔۔۔” اعجاز نے مبشر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر کچھ پُر سکون ہوا اور سرد سانس خارج کر کے بیٹھ گیا۔ اعجاز آگے آیا اور مبشر کے سامنے کھڑا ہوا۔
“تم میرے ڈیپارٹمنٹ پر کیوں چلا رہے ہو۔۔۔۔ وہ وہی کر رہی ہے جو ان کی ڈیوٹی ہے۔۔۔۔۔ جن کے احکامات جاری ہوئے ہو” اس نے ڈٹے آواز میں کہا۔
“اور اس دفعہ تو میں بھی تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے گرفتاری کے آرڈرز اوپر سے جاری ہوئے ہے۔۔۔۔۔ صوبائی عدالت سے خاص نوٹس آیا ہے۔۔۔۔۔” اعجاز نے کمر پر ہاتھ رکھتے بے بسی سے کہا۔
رانا مبشر خاموش تماشائی بنا ہاتھ مسلتا اضطراب کو قابو رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔
“اس بار تم نے خود کو بہت برا پھنسایا ہے رانا۔۔۔۔۔۔ کرن جمیل نے تمہارے اگلے پچلے سارے کرتوت عدالت میں شائع کیئے ہے۔۔۔۔۔۔ ہسپتال کے رپورٹ سے لے کر ملازمین کی گواہی تک سب فراہم کیئے ہے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے اہم ثبوت۔۔۔۔” اعجاز کچھ پل خاموش ہوا اور مڑ کر رانا مبشر کو دیکھا وہ دم سادھے شاکی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“اس نے گیارہ سال پہلے کی۔۔۔۔۔۔ تمہارے اور بیلا کے اختلافات اور اس کی سوسائیڈ کی ویڈیو بھی جج صاحب کے تحویل میں دی ہے۔” اعجاز نے ہاتھ اٹھا کر افسردگی سے لہرایا۔
رانا مبشر کے پیرو تلے زمین نکل گئی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔
“کرن کو کیسے پتا چلا بیلا کا۔۔۔۔۔” رانا مبشر کو ایک کے بعد دوسرا شاک مل رہا تھا۔
“کب کیسے اور کیوں پتا چلا۔۔۔۔۔ اب یہ سب معنی نہیں رکھتا رانا۔۔۔۔ بات صرف یہ ہے کہ اس نے اتنا مضبوط کیس بنا کر پیش کیا ہے کہ میں تو کیا تم کمشنر کے پاس یا ہائی کورٹ بھی چلے جاو تو بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔” اعجاز نے بے بسی سے سر کھجایا۔
“میں ہائی کورٹ میں تمہارے کیس کو چیلنج کرنے کی عرضی دیتا ہوں۔۔۔۔۔ دیکھتے ہے۔۔۔۔۔۔ کیا فیصلہ آتا ہے۔۔۔۔۔۔ پر بدقسمتی سے رانا۔۔۔۔۔۔ تب تک تمہیں جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔” اعجاز نے رانا مبشر کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
“اور پلیز۔۔۔۔۔۔ میرے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اپنا رویہ درست رکھو۔۔۔۔۔ یہ وہی کر رہی ہے جو قانون کے آرڈرز ہے” انہوں نے سنجیدگی سے سمجھایا اور جانے کے لیے باہر نکل گئے۔
رانا مبشر ڈی آئی جی کی باتوں پر کافی پریشان ہوگیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کرن میں اتنی ہمت کیسے آگئی اور اتنا سب ہوا پر ان کو بھنک تک کیسے نہ پڑی۔
اسی لمحے مینیجر واپس آیا تو رانا صاحب اٹھ کر اس کے سر پر جا پہنچے۔
“ہاں۔۔۔۔ کیا ہوا پتا چلا۔” انہوں نے تجسس میں پوچھا۔
مینیجر ہاتھ باندھے موودب انداز میں سر جھکائے کھڑا ہوا۔
“سر۔۔۔۔۔۔ آرین اسی دن اپنے گاؤں واپس چلا گیا تھا جس دن آپ نے اسے آفس سے نکالا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے فون contacts کے مطابق اس کا کرن میم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔” اس نے ترتیب سے معلومات بتانے شروع کئے۔
“یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ کچھ تو گڑبڑ ہے۔۔۔۔۔۔ کرن بغیر کسی کے مدد کے اتنا مظبوط کیس بنا ہی نہیں سکتی۔۔۔۔۔ یہ سب بہت سوچے سمجھے پلان سے کیا گیا ہے۔۔۔۔۔ اکیلے تو کرن ایسا کر ہی نہیں سکتی۔” رانا صاحب نے تنے ہوئے اعصاب سے کہا۔
“خلا کس دن سائن کیا ہوا ہے۔” انہوں نے ایک ترقیب سوچتے ہوئے کہا۔ پاس کھڑے وکیل نے فائل کھول کر تاریخ پڑھ کر بتائی۔
“اس دن میں نے گھر پر تو کسی دستاویز پر دستخط کئے ہی نہیں۔۔۔۔ بلکہ اس تاریخ کے آگے پیچے بھی کسی دن میں نے گھر میں کوئی پیپر سائن ہی نہیں کئے تھے۔” ان کو یاد آنے پر شاک لگا۔
“میرا لیپ ٹاپ لا کر دو” انہوں نے چلاتے ہوئے میجیجر کو ہدایت دی۔
“سر آپ کو کوئی بھی الیکٹرونک میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔” وکیل نے جیل کے قوانین سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
“بکواس مت کرو میرے سامنے” رانا صاحب اسے دھکیلتے ہوئے آگے ہوئے اور دوسرے وکیل کے ہاتھ میں پکڑا اس کا لیپ ٹاپ کھینچا۔ کچھ جھنجلاتے ہوئے انہوں نے خلا کی تاریخ کی گھر کی ویڈیو لگائی اور بغور مشاہدہ کی لیکن کچھ نہ ملا پھر اسی تاریخ میں آفس اور ایک دن پہلے اور بعد کی ویڈیو لگائی تو خلا دائر کرنے سے ایک دن پہلے کی وہ ویڈیو دیکھ کر رانا مبشر کی ہوائیاں اڑ گئی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی اور سانس رکنے لگا۔ انہوں نے وہ حصہ ڈیلیٹ کیا اور لیپ ٹاپ بند کر کے واپس وکیل کو پکڑایا۔
ان کا رنگ زرد پڑتا دیکھ کر وکلاء اور مینیجر کو فکر ہونے لگی لیکن رانا مبشر نے ان کے کسی بات کا جواب نہیں دیا اور ان کو باہر نکل جانے کا حکم دیا۔ انہوں نے پریشانی سے رانا مبشر کے بجھے بجھے چہرے کو دیکھا پھر ایک دوسرے کو اور سر جھکا کر باہر تشریف لے گئے۔
کچھ لمحے اور گزرے پھر روحان حوالات میں داخل ہوتا دکھائی دیا۔ وہ سدھ سادھے آیا اور رانا مبشر سے لپٹ گیا۔
“رانا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو زیادہ دیر یہاں رہنے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔ میری ہائی کورٹ کے جج سے بات ہوئی ہے۔۔۔۔۔ ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ تک جاو گا۔۔۔۔ لیکن بہت جلد آپ کو چھڑاو گا۔ ” روحان نے دل گرفتگی سے ہمدرد لہجے میں کہا
وہ مزید حوصلہ افزائی کرنے والا تھا پر رانا مبشر نے اس کے کلمات میں مداخلت کی۔
“تھینکیو روحان۔۔۔۔۔۔ کرن کو مجھ سے خُلا دلوانے کے لیے” انہوں نے سرد مہری سے کہا۔
ان کی یہ بات سن کر روحان کے آبرو پھیل گئے اسے رانا مبشر کے سچ تک اتنی جلدی رسائی کی توقع نہیں تھی۔ وہ تعجبی انداز میں ان سے الگ ہوا۔
“مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ کہ رانا مبشر کو شکست دینے کی ہمت صرف۔۔۔۔۔۔ اس کے اپنے خون میں ہے۔” انہوں نے داد دینے والے انداز میں روحان کا شانہ تھپتھپایا۔
روحان کو اپنے گلے میں آنسوؤں کا پھندا لگتا محسوس ہوا جتنا اس نے سوچا تھا یہ لمحہ اس سے کئی زیادہ گراں گزر تھا۔ وہ اضطراب میں لب کاٹنے لگا۔
“ورنہ کسی کی اوقات نہیں رانا مبشر سے ٹکر لینے کی۔” رانا مبشر نے استحزیہ ہنستے ہوئے کہا اور رخ موڑ لیا۔
روحان کو ان کے اس روئیے سے ٹھیس پہنچی وہ روہانسی ہوکر رانا مبشر کو وضاحتیں دینے لگا۔
“رانا بھائی۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔ آپ مجھ سے بہت ہرٹ ہوئے ہو۔۔۔۔۔ جتنا صدمہ آپ کو کرن کے اچانک seperation کا ہوا ہے اس سے کئی زیادہ مجھے اس کے ساتھ involve دیکھ کر ہوا ہے۔۔۔۔۔ لیکن میرا یقین کرے رانا بھائی۔۔۔۔۔ میں نے یہ سب آپ کے لیے کیا۔” اس نے بھر آئی آواز میں کہا۔
رانا مبشر اس کے بر عکس بلکل خاموش اور بے حس ہوگئے تھے۔ سچائی دیکھ لینے کے بعد کہ ان کے اپنے سگے بھائی جسے اولاد سے بڑھ کر چاہا اس نے ہی ان کا دل چور چور کر دیا تھا؛ اب ان کے پاس ردعمل کرنے کا جواز ہی نہیں رہا تھا۔
“رانا بھائی۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے سر بیلا بھابھی اور اس unborn (ناذائدہ) بچے کے ساتھ ساتھ کرن کا خون بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں رکھا جنون اور فتور میں۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں صفات ایک دن انسان کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔۔۔۔۔ ایک دن بیلا کی طرح کرن بھی آپ کے دہشت سے تنگ آکر جان دے دیتی۔۔۔۔ پھر کیا مل جاتا۔” روحان ہاتھ ہوا میں لہراتے ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
“میاں بیوی کا رشتہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔۔۔۔۔ ایک گاڑی کے دو پہیوں کی طرح۔۔۔۔ ایک چھوٹا ہوجائے یا دوسرا بڑا ہوجائے تو گاڑی کا موازنہ بگڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ہی آگر شوہر حد سے زیادہ جبر میں آجائے تو رشتہ ڈگمگانے لگتا ہے۔” روحان نے بے بسی سے رانا بھائی کو دیکھا وہ اسی طرز میں خاموش کھڑے تھے۔
“لیکن آپ فکر نہ کریں رانا بھائی۔۔۔۔۔۔ میں نے اپیل کی ہے کورٹ میں۔۔۔۔۔۔کہ آپ کو کم سے کم سزا سنائے” اس نے رانا بھائی کا بازو تھام کر آفسردگی سے دیکھا۔
رانا مبشر سر جھکائے مڑا اور بنا روحان سے نظریں ملائے اس کے شانے پر دباؤ دیا۔
“اپنا خیال رکھنا” رانا مبشر نے زخمی سانس خارج کرتے ہوئے کہا اور جیل کے کوریڈور میں آگے بڑھنے لگے۔
“رانا بھائی۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ try to understand ” روحان نے بھیگی آنکھوں سے ان کا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر التجا کرتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر بغیر کسی تاثرات کے، اپنا ہاتھ چھڑا کر لمبے ڈگ بھرتا روانہ ہوگئے۔ وہ روحان کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے اور نہ اسے اپنے آنسو دکھانا چاہتے تھے اس لیے روحان کے رو دینے سے پہلے اور اپنے کمزور پڑنے سے پہلے وہاں سے چلے گئے اور روحان اپنا دل کاٹتا وہی کھڑا رہا۔
****************&&&&****************
وہ رات روحان پر ہجر کی رات تھی۔ اسے امڑ امڑ کر رانا صاحب کی محبت اور ان کے ساتھ گزارے واقعات یاد آرہے تھے۔ وہ بغیر کھانا کھائے رانا مبشر کے کمرے کے فرش پر پیر دراز کئے بیٹھا سر بیڈ کے پاینتی سے ٹکائے بنا آواز آنسو بہا رہا تھا۔
اس نے وہ لمحہ یاد کیا جس میں اس نے کرن کی مدد کرنے کی ہامی بھری تھی۔
############# 4 ماہ قبل #############
کرن کے خلا کا فیصلہ سن کر وہ مایوس ہوگیا اور جانے لگا پر کمرے کے دروازے پر پہنچ کر روحان رک گیا اور رخ موڑ کر کرن کو پکارا۔ وہ سیڑھیوں کے سرے پر رک گئی اور حیرانگی سے پیچے مڑ کر دیکھا۔
“باقی کا لائحہ عمل میرے کمرے میں طے کرتے ہے۔” اس نے ان دونوں کو باری باری دیکھ کر کہا اور کمرے میں چلا گیا۔ نور اور کرن نے ایک دوسرے کو تعجبی نظروں سے دیکھا۔
“اب سے جو بھی پلاننگ کرے گے میرے کمرے میں کریں گے” روحان نے ان دونوں کو ہدایت کی۔
“وہ کیوں” نور نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ کرن بھی پوری توجہ سے روحان کے جانب متوجہ تھی۔
“کیونکہ۔۔۔۔۔۔ میرے کمرے کے علاوہ سارے گھر میں خفیہ کیمرے لگے ہیں۔۔۔۔۔ جس سے رانا بھائی ہر وقت آفس یا سفر میں ہوتے ہوئے بھی تم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔” روحان نے سنجیدگی سے کرن کو دیکھتے ہوئے کہا۔
کرن کے ساتھ ساتھ نور بھی شاک ہوگئی۔
“اب میں کیا کروں گی۔” کرن نے روہانسی ہو کر کہا۔
روحان سوچ میں پڑھ گیا اور تھیوری پر ہاتھ رکھے کمرے میں چکر کاٹنے لگا۔
“ایک بات تو صاف ہوگئی کہ تم گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔” روحان رک رک کر سوچ کر بول رہا تھا
“اور نکلی تو رانا بھائی کو پتہ چل جائے گا۔۔۔۔” نور نے روحان کا فقرہ مکمل کیا۔
“خود تو وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گے۔۔۔۔۔۔ اور میں اس گھر میں قید رہتے ہوئے خلا کی درخواست نہیں کر سکتی” کرن چلتے ہوئے بیڈ تک آئی اور اضطراب میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
روحان کو نا چاہتے ہوئے بھی کرن پر ترس آیا اور اپنے بھائی پر اس کی یہ حالت بنانے پر غصہ۔
“تو پھر ہمیں ایک ٹیم بن کر ساتھ میں یہ کاروائی سر انجام دینی پڑے گی۔” روحان نے ہتمی انداز میں فیصلہ سنایا۔
کرن نے سر اٹھا کر دیکھا وہ ہمدردی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“اپنے ہی بھائی کے خلاف آواز اٹھانا آسان بات نہیں ہے روحان۔۔۔۔۔۔ وہ بھی رانا مبشر جیسے بھائی۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہمت چاہیئے ہوگی۔” کرن نے اداس نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
روحان پھیکا کا مسکرایا اور سرد سانس خارج کر کے سر جھٹکا۔
“جب انسان کے پاس حد سے بڑھ کر طاقت آجائے۔۔۔۔۔۔ وہ زور حاکمیت میں ہو تو وہ فرعون بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو خدا ماننے لگتا ہے۔۔۔۔ اور پھر اس کا غرق ہونا طے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ رانا مبشر بھی اسی چوراہے پر آکھڑا ہے۔۔۔۔ اگر مجھے انہیں غرق ہونے سے بچانا ہے تو یہ سٹیپ اٹھانا لازمی ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے تکلیف تو سہنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی اور رانا بھائی کو بھی۔ ” روحان نے افسردگی سے سر جھکائے ہوئے کہا۔ نور اس کی حوصلہ افزائی کرنے لب مینچھے اس کا بازو تھپتھپا کر دلاسہ دینے لگی۔
“آپ کی یہ نیکی میں کبھی نہیں بھولوں گی” کرن نے آبدیدہ سی ہو کر کہا۔
روحان اپنے جذبات قابو کرتا ہوا اٹھا اور کمر پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگا۔
“تو۔۔۔۔۔ سب سے پہلا کام ہمیں یہ کرنا ہے کہ۔۔۔۔۔ قطعی طور پر رانا بھائی کو شک نہیں ہونے دینا۔۔۔۔۔۔ ہمیں ان کے سامنے نارمل رہنا ہے جیسے سب ٹھیک ہوگیا ہے۔” روحان کمرے میں چکر کاٹتا ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے ان کو پلان سمجھانے لگا۔
نور اور کرن غور سے اسے سن رہی تھی۔
“جب رانا بھائی اپنی مرضی سے divorce نہیں دینگے اور کرن گھر سے نکل نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔ تو ہمیں تھوڑی ہیر پھیر کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنا ان کو خبر کئے ان سے پیپر سائن کروانے ہونگے۔” روحان نے رخ موڑ کر دیکھا نور اور کرن دونوں سکتے میں چلی گئی تھی۔
“کرن۔۔۔۔۔ تمہیں خاص خیال رکھنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جہاں اتنا عرصہ برداشت کیا وہی تھوڑا اور صحیح۔” روحان نے ہاتھ باہم مسلتے ہوئے نرمی سے کہا۔ کرن نے سر اثابت میں ہلایا۔
“لیکن۔۔۔۔۔ میں بھی ہر وقت رانا بھائی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔ اس لیے outdoor کام کرنے ہمیں ایک اور انسان درکار ہوگا۔” اس نے پُر سوچ انداز میں کہا۔
“اب ایک اور انسان کہا سے لائے گے” نور نے گفتگو میں حصہ لیا جبکہ کرن خاموشی سے سوچتی رہی۔
روحان استحزیہ انداز میں ان دونوں کو دیکھتے ہوئے ٹیبل کے پاس گیا اور موبائل اٹھایا۔ کرن اور نور نے تعجبی نظروں کا تبادلہ کیا اور واپس روحان کی طرف متوجہ ہوئی۔
روحان نے نمبر ملایا اور کال اٹھائے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ نور اور کرن دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔
“ہیلو۔۔۔۔۔ ” دو رنگ جانے پر کال اٹھانے والے کو روحان نے مخاطب کیا۔
**************&&&&****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...