ہجر کی پہلی فجر جو ابھری۔۔۔۔۔۔
جاناں میں نے سب کچھ پایا
کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریت سی قسمت میں راتیں
کچھ اجڑی نیندوں کی باتیں!!
کچھ ڈوبتی نبضیں سانسوں کی۔۔۔۔۔
اور ہجر میں بارش آنسؤوں کی!!!
کچھ خواب صلیبوں پہ لٹکے۔۔۔۔۔۔
کچھ ذہن فراقت میں اٹکے!!!
کچھ سوچ خزاں کی شاخوں سی۔۔۔۔۔
تھی جن پی قیامت ٹوٹ پڑی!!!
ہاں اک ملال کی شام بھی تھی
اوع عشقِ زوال کی شام بھی تھی!!!
ہر روتے سال کی شام بھی تھی۔۔۔۔۔۔
اک تیرے وصال کی شام بھی تھی
اک شامِ غم کا صحرا بھی!!!
اور جاناں خوب اندھیرا بھی!!!
ہجر کی پہلی فجر جو ابھری۔۔۔۔۔
تجھ سے رشتہ ٹوٹ گیا
بس تیرا ساتھ چھوٹ گیا۔۔۔۔
(طیار خان)
کئی ساعتوں پہلے سنی گئی وہ نظم نجانے کیوں اس وقت اسے بےحد یاد آ رہی تھی۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا اور اس کے سرخ کامدار دوپٹے میں کہیں جذب ہوگیا۔ اسے اپنی حالت زار پر ہنسی بھی آئی۔ کہاں لا کھڑا کیا تھا زندگی نے اسے۔ اپنی شب زفاف کو وہ اس شخص کو یاد کر کے رو رہی تھی جس کے بغیر جینے کا تصور ہی اسے مار دیتا تھا۔ اور آج۔۔ آج وہ اس کے بغیر زندہ تھی۔ سرخ جوڑے میں ملبوس دلہناپے کا روپ دھارے اس بستر پر بیٹھی وہ زندہ تھی۔
دستک کی آواز نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا تھا۔ وہ ایک دم سے ذرا سمٹ کر بیٹھی۔ ہولے سے آنکھوں میں آئے آنسؤوں کوصاف کرتے ہوئے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش میں وہ جیسے ہلکان ہورہی تھی۔
‘السلام علیکم!’ اندر داخل ہونے والے شخص کی آواز بھاری تھی۔ یقیناً وہ بھی رو کر آیا تھا۔ اس نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ میرون رنگ کی شیروانی میں ملبوس وہ اس کی طرف دیکھے بنا اپنے لب کچل رہا تھا۔ اذیت ہی اذیت تھی جو اس کے چہرے پر بکھری تھی۔
بے اختیار ایک تلخ مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ کیا ملا ان سب کو یہ شادی کرکے؟ ایک کھوکھلی شادی جس میں دونوں کے ہی دل مردہ ہوچکے تھے۔ ہم دو مردہ دل لوگ ایک دوسرے کو بھلا کیا دے پائیں گے۔ وہ۔بے حد تلخی سے سوچ رہی تھی جب اس شخص کی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
“مجھے سمجھ نہیں آرہا مجھے اس وقت تم سے کیا کہنا چاہیئے۔ میں نہ تمہیں ساری زندگی کی خوشیوں کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ یہ میرے ہاتھ میں نہیں نہ تم سے کوئی وعدہ کرسکتا ہوں۔ ایک ٹوٹا ہوا ، ہارا ہوا شخص کسی کو کیا خوش رکھ سکے گا۔” وہ چلتے چلتے آیا اور بستر کے دوسرے کنارے پر ٹک گیا۔ “ہاں مگر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گا۔” کئی آنسو تھے جو پلکوں کی باڑھ توڑ کر اس کے چہرے پر گرے تھے۔ اس نے بھی تو یہی کہا تھا۔ یہی ایک وعدہ تو تھا جو اس نے بھی پہلی رات کیا تھا۔ اور پھر کیا ہوا؟ ایک سسکی تھی جو کمرے میں گونجی تھی۔ اس کے برابر بیٹھے شخص نے ضبط سے آنکھیں موند لیں۔
“ساتھ نبھانے کا وعدہ نہ کریں۔ ساتھ نبھانے کا کہنے والے بہت جلد ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔”
اس شخص نے مڑ کر اس کی آنسؤوں سے لبریز آنکھوں میں جھانکا تھا جو اسے ہی دیکھ رہی۔تھیں۔ کیا نہ تھا ان آنکھوں میں۔ بے بسی کی انتہا۔ کرب کا اک سمندر تھا ان آنکھوں میں۔ اس نے بے اختیار ہی اس کے گرد بازو پھیلائے تھے جس پر اس کی سسکیاں مزید تیز ہوگئیں اور وہ بس اسے ہولے ہولے تھپکتا اسے تسلی دیتا رہا۔ ماضی ایک بھیانک خواب کی مانند ایک بار پھر ان دونوں کے حواسوں پر سوار ہونے لگا تھا۔
__________________
فاطمہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ زندگی ایک پرسکون ڈگر پر چل رہی تھی جب اچانک اس کی زندگی میں عمر سعید آگیا اور اس کی ناک کی سیدھ میں چلتی زندگی میں ہل چل مچا گیا۔ فاطمہ کے والدین اب اس کا کہیں اچھی جگہ رشتہ کرنے کا سوچ رہے تھے کیونکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی اور جاب کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا جب ایک دن اچانک عمر کے والدین اس کے گھر اس کا رشتہ لے کر آئے۔ بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ ان دونوں خاندانوں کی آپس میں کوئی دور کی رشتہ داری نکلتی تھی۔ کچھ جانچ پڑتال کے بعد فاطمہ کے والدین مطمئن ہوگئے اور انہوں نے ہاں کردی اور اس طرح عمر فاطمہ کا ہمسفر بن گیا۔ دو سال کے منگنی کے عرصے میں دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب آچکے تھے یہی وجہ تھی کہ شادی کے بعد جب بھی کوئی ان دونوں کے درمیان محبت دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ دونوں کی پسند کی شادی ہے۔ عمر بے حد خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا شوہر ثابت ہوا تھا جبکہ وہ خود بھی اس سے شدید ترین محبت میں گرفتار تھی یوں کہ ان دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر رہنا جیسے ناممکن تھا۔ عمر کا ایک بڑا بھائی تھا جو اس سے صرف ایک ہی سال بڑا تھا۔ دونوں بھائیوں کی ساتھ شادی کی گئی تھی اور اس کے بڑے بھائی اور بھابھی کے درمیان بھی اتنی ہی محبت تھی جتنی فاطمہ اور عمر کے درمیان تھی۔ دونوں بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں بے حد خوش اور پر سکون تھے جب ایک بھیانک حادثے نے ان کی زندگیاں اتھل پتھل کردیں۔
دوںوں بھائیوں کی شادیوں کو آٹھ ماہ گزرے تھے جب ہانیہ (فاطمہ کی بھابھی) کے ہاں خوش خبری کی اطلاع ملی۔ گھر کا ہر شخص بے حد خوش تھا۔ اماں جان تو شکر ادا کرتے نہ تھک رہی تھیں۔ اور اسی خوشی کو منانے کے لئے سب نے باہر کھانا کھانے جانے کا پلان بنایا۔ اتفاق سے ان کی بڑی بہن بھی اپنے دو بچوں کے ساتھ امریکہ سے پاکستان چھٹیاں گزارنے آئی تھی اور اس کے پرزور اصرار پر ہی یہ پلان بنا تھا۔ ہانیہ کا دل ایک طرف یہ خبر سن کر بے حد خوش بھی تھا تو دوسری طرف تھوڑا اداس بھی کہ خوشی کے اس موقع پر اس کا شوہر اس کے ساتھ نہ تھا۔ احد( ہانیہ کا شوہر) کاروبار کے سلسلے میں کہیں باہر گیا ہوا تھا مگر پھر بھی سسرال والوں کی خوشی دیکھ کر اس نے ساتھ جانے کی ہامی بھر لی۔ فاطمہ کی کچھ دنوں سے طبیعت ٹھیک نہ تھی اسی لئے وہ اپنی والدہ کے گھر آرام کی غرض سے کچھ دن ٹھرنے گئی تھی اسی وجہ سے اس وقت احد اور فاطمہ دونوں ہی ان کے ساتھ نہ جا سکے تھے۔
سب ہونٹوں پر خوشی بھری مسکان سجائے گاڑی میں سوار ہو کر ہائے وے کھانا کھانے نکل گئے۔ ہائے وے پر گاڑی تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی جب اچانک سے غلط سمت سے آتے ٹرک سے ان کی گاڑی ٹکرا گئی۔ ٹرک کا اگلا حصہ پورا کا پورا گاڑی کے اندر گھس چکا تھا جس کی وجہ سے ٹرک ڈرائیور سمیت گاڑی میں موجود تمام افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔
_________________
صبح فاطمہ کی آنکھ کھلی تو اس کا سر بے حد بھاری ہورہا تھا۔ اس نے کسلمندی سے اٹھتے ہوئے اپنے بائیں جانب دیکھا جہاں احد گہری نیند سو رہا تھا۔ جاگتے ہی زندگی کی ساری تلخ حقیقتیں ایک دم سے واپس یاد آنے لگی تھیں۔ ویسے نیند بھی کتنا بڑا نشہ ہے یوں جیسے کچھ دیر کے لئے مدہوش ہو کر سب کچھ بھول جاؤ۔ وہ اداسی سے سوچتی کھڑی ہوئی اور کچن میں جا کر اپنے اور احد کے لئے چائے چڑھائی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے اور احد کے لئے انڈہ بھی پھینٹ لیا تب تک وہ بھی اٹھ کر باہر آگیا۔ اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے سلام کیا اور باہر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اسے صوفے پر بیٹھتا دیکھ کر اسے بے اختیار ہی اماں یاد آئیں جو صبح کے اس وقت یہیں اسی جگہ بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہوتیں اور احد اور عمر ان کے گھٹنے پر سر رکھ کر آنکھیں موندے ان کی تلاوت سن رہے ہوتے۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھ سے گرا۔ آج یہ منظر کتنا خالی ہو گیا تھا۔ اس منظر میں رنگ بھرنے والے سارے افراد چلے گئے تھے۔ صرف وہ تھی ، احد تھا اور یہ بھائیں بھائیں کرتا گھر!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...