ایک بچہ حجاب کے پاس اپنی نوٹ بک لے کر آیا تو روبینہ اسکا کام چیک کرنے لگی ساتھ ساتھ وہ حجاب سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی
“اس قدر مصروفیت میں شادی کی تیاری میں امی کی مدد کیسے کرو گی”
“ویک اینڈ پر چکر لگا لیا کروں گی ۔تم بھی تیاری شروع کر دو۔ میں پورے سٹاف کو بلانا چاہتی ہوں”
حجاب کی اس بات سے روبینہ اچانک سنجیدہ ہوگئی ۔
“ارے اتنے لوگوں کو جواب کیسے دو کلگی سٹاف والے باتیں بنائیں گے کہ بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کی شادی پہلے کیوں ہورہی ہے ۔‘‘
حجاب نے اپنی ابروئیں سکیٹر لیں ۔
’’اب مجھے لوگوں کے سوالوں سے ڈر نہیں لگتا۔ ایسی باتیں کر کے میرا موڈ خراب مت کرو۔ تم جا کے چاۓ بناؤ ، میں مٹھائی منگواتی ہوں‘‘
روبینہ چاۓ بنانے چلی گئی کہ ایک دم حجاب کے کان کے قریب کسی نے سرگوشی کی ۔ ”مجھے مٹھائی نہیں کھلاؤ گی۔”
حجاب یکلخت کھڑی ہوگئی، اس کی نگاہیں خلا میں گھور نے لگیں ۔ اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا۔ “اذہاد”
اسے اپنے اردگر کوئی دکھائی نہیں دیا، وہ اسے اپنا وہم سجھ کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ بچوں کو چھٹی دینے کے بعد جحاب اپنے کمرے میں آ گئی، روبینہ مٹھائی کے ساتھ چاۓ بنا کے لے آئی۔ دونوں نے ڈبے سے مٹھائی لی تو اچانک کچن سے برتنوں کے کھڑکنے کی آواز آئی۔
“کچن میں کون ہے، کہیں بلی تو نہیں گھس گئی میں دیکھ کر آتی ہوں۔” روبینہ یہ کہہ کر کچن میں چلی گئی۔
حجاب کے ہاتھ میں برفی تھی اچانک کسی غیبی ہاتھ نے حجاب کا ہاتھ تھاما اور اس کے ہاتھ کو اپنے چہرے کے قریب لاتے ہوئے برفی کھا لی اور کوئی خفیف سی آواز میں بولا ۔ ’’ مبارک ہو‘‘
حجاب نے مسکراتے ہوۓ ایک لمبی سانس کھینچی ۔ ’’اذ باد! تم میرے سامنے کیوں نہیں آتے ۔”
اتنے میں روبینہ کچن سے ہڑبڑاتے ہوئے آ گئی
“پتہ نہیں یہ کیسی آواز تھی…..کوئی بھی نہیں تھا لگتا ہے تمہارے گھر میں کوئی جن ہے
حجاب نے ہنستے ہوئے روبینہ کوسر تا پا دیکھا۔ “جن نہیں لیکن جننی ہے۔‘‘
روبینہ نے کشن اٹھا کے حجاب کو دے مارا۔
☆☆☆☆☆☆☆
ثانیہ کی شادی کی تیاری زور وشور سے ہونے لگی۔ دن اس قدر تیزی سے گزررہے تھے کہ مہینے بھر کا وقت ایک ہفتے کی طرح لگ رہا تھا۔ شادی میں پندرہ روز رہ گئے تو حجاب تین روز کی چھٹی لے کر آئی۔
اس نے صباحت کے ساتھ مل کر پچھر کے ہوۓ کچھ رکے ہوئے کام مکمل کروائے ۔ وہ بہت خوش تھی ۔سٹاف کے ساتھ مل کر ڈالی ہوئی کمیٹی بر وقت نکل گئی تھی ۔
وہ روپے ساتھ لے کر آئی تھی اس سے اپنے لیے گولڈ کا چھوٹا سا سیٹ بنوالے گی۔ ثانیہ اورتحریم لونگ روم میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ صباحت اور حجاب بھی ادھر ہی بیٹھ گئیں ۔تحریم صباحت کو دیکھتے ہی شروع ہوگئی ۔
’’اماں! آ پی حجاب کو وہ کپڑے دکھاؤ نا جو ہم نے ثانیہ کے لئے بنواۓ ہیں۔”
“پہلے اچھی سی چائے بنا کے لاؤ پھر میں کپڑے دکھاتی ہوں ۔‘‘ صباحت کو کافی تھکاوٹ ہو گئی۔ وہ اپنا سر دبانے لگی
“حجاب اٹھ کر ماں کا سر دبانے لگی۔
’’جاؤ تحریم پہلے چاۓ بنا لاؤ ۔‘‘ تحریم چائے بنانے کے لئے چلی گئی۔
صباحت نے اپنے کپڑے دکھانے کے لیئے سارے کپڑے بیڈ پر پھیلا دیے۔
تحریم بھی چاۓ لے آئی، اس نے حجاب کی طرف دیکھا۔
” دیکھا ہے آپی، ہم نے ثانیہ کے لئے کس قدر خوبصورت کپڑے بناۓ ہیں۔”
حجاب کی آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ کپڑے اس قدر خوبصورت تھے کہ نہ تو حجاب نے ایسے کپڑے دیکھے اور نہ ہی کبھی پہنے ۔ وہ ستائش بھری نظروں سے کپڑوں کی طرف دیکھتی رہی، کپڑوں پر اس قدر نفیس اور جاذب نظر کام بھی ہوسکتا ہے، ملازمت کی مصروفیات میں اس طرف اس کا دھیان ہی نہ گیا۔ اس نے کچھ کپڑوں کو چھوتے ہوئے کہا۔ ؟
’’اماں! بی تو بہت قیمتی ہوں گے۔”
صباحت نے مسکراتے ہوۓ حجاب کو دیکھا۔ ’’ میری بھولی بیٹی شادی پر لڑکی کو ایسے ہی کپڑے دیئے جاتے ہیں۔ ایک سوٹ بھی پانچ ہزار سے کم کا نہیں ہے۔ وہ جو اوپر والے دس سوٹ ہیں، وہ تو سارے دس ہزار، بارہ ہزار سے پندرہ ہزار تک کے ہیں ۔”
“اور شادی کا لہنگا …… وہ کتنے کا ہے؟‘‘ حجاب بوکھلا ہی گئی۔
“وہ تو بہت مشکل سے 35 ہزار میں بنا ہے۔‘‘ صباحت نے بتایا اور پھر کپڑے سمیٹنے لگی ۔
اس نے حجاب کی طرف دیکھا۔
’’حجاب بیٹی تمہیں ان میں سے جو سوٹ پسند ہے، لے لو، میں ثانیہ کے لئے اور لے آؤں گی۔‘‘ اس سے پہلے کہ حجاب کچھ کہتی ثانیہ جھٹ سے بولی۔
’’اماں! آ پی کو اس قد رشوخ کپڑے سوٹ نہیں کرتے ۔“
حجاب نے کھوکھلی سی مسکراہٹ کے ساتھ صباحت کی طرف دیکھا۔
’’اماں! یہ کپڑے جس کے لئے آئے ہیں اس کو نصیب ہوں ۔‘‘ یہ کہہ کر حجاب اندر کمرے میں چلی گئی۔
صباحت نے غصیلی نظروں سے ثانیہ کہ طرف دیکھا
خبر دار جو تم نے حجاب کو اسکی بڑی عمر کا احساس دلایا میں اپنی حجاب کے لیئے اس قدر پپیاراسوٹ لاؤں گی کہ میری حجاب شہزادی لگے گی وہ تو ہے ہی اتنی پیاری..بس خود پر توجہ نہیں دیتی”
“بس کریں اماں میں تو بات کر کے پھنس ہی گئی ہوں‘‘ ثانیہ بھی منہ بسور کے اندر چلی گئی ۔
تحریم نے صباحت کے ساتھ مل کے کپڑے سمیٹ کر اٹیچی کیس میں سیٹ کیئے
حجاب کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے اسکے گھر والے کیا سوچیں گے کہ بہن کی خوشیاں دیکھ کر حسد کرنے لگی ہے مگر کیا کرتی لڑکی تھی وہ بھی اپنے چہرے پر ٹھہری پختگی کی طرح اپنا دل پختہ نہ کر سکی۔اس کی بھی خواہش تھی زندگی کے وہ پل دیکھے کہ جن میں بہار کا موسم ٹھہر جاۓ ۔
وہ بھی ان رنگ برنگے کپڑوں میں بھی سنوری خاوند کا پیار سینچتی رہے ۔اس خودفریبی میں عمر کٹ جاۓ کہ ہم نے اپنے حصے کی خوشیاں مٹھی میں بند کر لی ہیں۔ بہت چاہ کر کے بھی حجاب اپنی سوچوں سے فرار حاصل نہیں کرسکی۔
اگلے روز حجاب نے تحریم سے کہا۔
”تم میرے ساتھ بازارچلو، مجھے جیولرز کے پاس جانا ہے، کچھ کام ہے۔‘‘
تحریم نے منہ بسورتے ہوۓ اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا۔ “میرے کپڑے ٹھیک نہیں ہیں ، بس دومنٹ میں کپڑے بدل کے آتی ہوں‘‘
وہ کپڑے بدلنے چلی گئی۔ حجاب نے پرس سے روپے نکالے۔ پورے 25 ہزار تھے ۔ان پیسوں میں ایک سونے کا چھوٹا سا سیٹ آ جاۓ گا۔ روپے گن کر اس نے واپس پرس میں ڈال لئے ۔ صباحت تولیے سے ہاتھ پوچھتی ہوئی حجاب کے پاس آئی۔
“کہیں جا رہی ہو مجھے تم سے کچھ ضروری بات کر نی تھی۔”
حجاب بیٹھ گئی ۔ ’’جی اماں! کیا بات ہے؟”
صباحت بھرائی آواز میں بولی
“میں نے تو ثانیہ کی ساری جیولری بنوائی تھی مگر احسن کی ماں نے پھر پریشان کر دیا ہے کہتی ہے کہ نتھ اور ٹیکہ میکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سسرال والے پہناتے ہیں میں نے تو ثانیہ کے لیئے ایک سیٹ بنوایا اور چوڑیاں بنوائی ہیں باقی ایک سیٹ اور ایک جھومر لڑکے والے دے رہے ہیں ۔
حجاب تذبذب کی کیفیت میں بولی ۔
“آپ ان سے بات کر لیں کہ اگر نتھ اور ٹیکا وہ بنالیں تو جانا ان کے ہی گھر ہے ۔ ہم لوگوں کے لئے تو مشکل ہے۔“
صباحت نے تولیہ ایک طرف رکھتے ہوئے ہاتھوں سے اشارہ کیا
“دو بار بات کر چکی ہوں ان سے مگر وہ نہیں مانتی تبھی تم سے بات کر رہی ہوں میرے پاس جو پیسے رکھے ہیں اس میں کھانے کا بندوبست ہو جائے گا ۔‘‘
حجاب نے پریشانی سے سر جھکا لیا۔
’’اماں میں کیا کروں؟‘‘
صباحت اس کے قریب ہوکر بیٹھ گئی۔
“وہ تم بتا رہی تھی نا کہ تم نے سٹاف کے ساتھ مل کر کمیٹی ڈالی ہے۔ وہ کب نکل رہی ہے ۔ تم کہہ رہی تھی کہ اس مہینے یا اس سے اگلے مہینے تمہاری کمیٹی نکل جائے گی۔”
صباحت کی بات سن کر حجاب نے اپنے گلے میں پہنا ہوا ہینڈ بیگ بے دلی سے چار پائی پر پھینک دیا۔
وہ کمیٹی نکل گئی ہے، وہ روپے میں ساتھ ہی لائی ہوں۔”
تحریم ڈریس چینج کر کے آ گئی۔ ”چلو آ پی میں تیار ہوں۔”
’’اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بازار نہیں جاری ہوں۔‘‘ حجاب نے نفی میں سر ہلایا۔
صباحت نے سوالیہ نظروں سے حجاب کی طرف دیکھا۔
“بازار جانے کا پروگرام کیوں بدل دیا۔”
حجاب نے روپے بیگ سے نکال کر صباحت کے پاس رکھ دیئے ۔
“مجھے کوئی اور کام یاد آ گیا ہے” یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی
صباحت کے ساتھ مل کر اس نے گھر کے کام نبٹائے اس میں اسے دوروز لگ گئے پھر وہ واپسی کی تیاری کے لئے پیکینگ کرنے لگی۔
صباحت بھی حجاب کی مدد کرنے لگی۔ ”گھر جیسا سکون تو نہیں ہوگا ہاسٹل میں۔‘‘
کپڑوں کی تہیں لگاتے ہوئے حجاب کے ہاتھ وہیں رک گئے “سکون تو انسان کے اندر ہوتا ہے دل میں سکون ہو تو اس ہاسٹل ہو یا گھر فرق نہیں پڑتا۔
“پریشان ہو….‘‘ صباحت نے سوالیہ نظروں سے حجاب کی طرف دیکھا۔
“نہیں اماں! میں تو صرف آپ کی بات کا جواب دے رہی ہوں۔”
صباحت نے حجاب کے ہاتھ سے کپڑے لے لئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
”جب تمہاری شادی ہوگی نا تو میں تمہارے بھی سارے چاؤ ایسے ہی پورے کروں گی جیسے ثانیہ کے کر رہی ہوں “
وہ دوبارہ کپڑے تہہ کر نے لگی ۔اٹیچی کیس بند کر تے ہوۓ اس نے بس اتنا ہی کہا۔
”میں ثانیہ کے ابٹن سے پہلے آجاؤں گی۔” ٹیکسی باہر آ چکی تھی۔ غروب آفتاب کا وقت تھا، ہر طرف سرخی مائل مدھم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ حجاب کو یہ وقت بہت پسند تھا۔ حجاب گاڑی میں بیٹھی اس ڈوبتے سورج کو دیکھتی رہی جواس کی گاڑی کے ساتھ ساتھ محو سفر تھا۔ پھر اس نے گاڑی کی سیٹ کے ساتھ اپنا سر نکالیا۔
”جن رشتوں سے ہم اپنی ذات سے زیادہ پیار کرتے ہیں وہی ہمیں تکلیف دیتے ہیں۔ شاید جب ہم خود کو نظرانداز کرنا شروع کر دیں تو لوگ بھی ہمیں نظر انداز کرنے لگتے ہیں، اپنے وجود کی اہمیت اپنی نظر میں ہونی چاہیے؟ ورنہ وہ لوگوں کی نظروں میں بے معنی ہو جا تا ہے جیسے میں اپنوں کے بیچ تنہا رہ گئی ہوں۔ سواۓ اماں کے میرا ہمدرد کوئی نہیں سمجھتا اور وہ بھی نہ چاہتے ہوۓ میری ذات کی نفی کر دیتی ہیں۔ انہی سوچوں میں گم بہت سا سفر کٹ گیا۔
ثانیہ کے سسرال میں احسن کے ساتھ اس کی ماں اور بہن رہتے تھے۔ بہن نے بی اے پاس کر لیا تھا۔ باپ کا انتقال ہوئے تین برس گزر چکے تھے۔ اس کی والدہ تیز مزاج عورت تھی۔
احسن کی آمدن بھی اچھی تھی ثانیہ کے لیئے یہ رشتہ ہر طرح سے موزوں تھا اسے بڑی فیملی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا پڑا۔
صباحت بھی بہت مطمئن تھی ۔
رسم کے مطابق شادی سے دس دن پہلے ثانی کو مایوں بٹھانے کی رسم کی گئی۔ اس کے بعد صباحت شادی کی تیاری میں لگ گئی کہ شادی سے پہلے تمام جہیز کا سامان سسرال پہنچا دیا جائے تاکہ وہ لوگ ثانیہ کا کمرہ سیٹ کر سکیں زیادہ فکر فرنیچر کی تھی خدا کا کرم ہوا فرنیچر بھی وقت پر تیار ہو گیا۔ ساری تیاری مکمل ہوئی تو خاندان کی لڑکیوں نے ڈھولکی رکھ لی۔
لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر شادی کے روایتی گانے بھی گاتی جاتی اور ساتھ ساتھ رقص بھی کرتی رہتیں ۔ کچھ لڑکیاں صباحت کے ساتھ مل کر جوڑے ٹا نکنے لگیں ۔ابٹن کی رسم میں بس ایک روز باقی تھا۔ حجاب کی کزنز نے ثانیہ کے لئے کرسی بھی تیار کر نی تھی جو کاغذ سے بنے پھولوں کلیوں اور گوٹے کی تاروں سے بنی ہوئی تھی۔
ثانیہ کی خالائیں اور چچا دوسرے شہروں میں رہتے تھے اس لئے وہ ابٹن سے دو روز پہلے ہی آ گئے تھے۔ گھر میں مہمانوں کی گہما گہمی سے شادی کا ماحول پہلے ہی بن گیا تھا۔
روبینہ حجاب کے کمرے میں آئی تو وہ گھر جانے کے لئے پیکینگ کر رہی تھی۔ ’’گھر جانے کی تیاری ہورہی ہے ۔‘‘
روبینہ نے مدد کرنے کی غرض سے حجاب کے جوتے ڈبے میں رکھے۔
“یہ تم کیا کر رہی ہو، میں خودکرلوں گی۔‘‘ حجاب کو روبینہ کا اس طرح جوتوں کا ہاتھ لگانا اچھا نہیں لگا۔
’’تم نے اپنے لئے کس طرح کے جوڑے بنواۓ ہیں تم نے بتایا ہی نہیں‘‘
“تمہیں کیوں بتاتی تم میری نقل کر لیتی‘‘ حجاب نے روبینہ کو چھیڑا اورساتھ ہی ہینگر سےسوٹ اتار کر اٹیچی کیس میں رکھنے لگی۔
حجاب کی بات پر روبینہ نے بھنویں سکیڑ لیں
“کیوں؟ تم کیا مجھے ایسا سمجھتی ہو۔‘‘
حجاب ہنستے ہنستے روبینہ کے پاس بیٹھ گئی۔
”میری پیاری سہیلی میں نے کوئی ایسی خاص چیز خریدی ہی نہیں جو میں تمہیں دکھاؤں۔ مہندی کے لئے بھی میرے پاس ساڑھی ہے، رہی بات ولیمے کی تو اس کے لئے اماں نے کہا۔۔۔۔وہ اپنی پسند کا جوڑا بنائیں گی۔”
حجاب کی یہ بات روبینہ کو پہلی والی بات سے بھی زیادہ کڑوی لگی۔
’’حد ہوگئی ،حجاب یہی تو موقع ہوتا ہے اپنی پسند کے کپڑے بنوانے کا جیولری خریدنے کا میچنگ کاسمیٹکس لینے کا تم نے تو کوئی تیاری ہی نہیں کی ہے تمہاری اچھی بھلی تنخواہ ہے اچھا بتاؤ سونے کا سیٹ کیسا لیا ہے”
حجاب نے ٹھنڈی آہ بھری۔
“جو چیز جس کے نصیب میں ہوتی ہے، اس کوملتی ہے۔ ثانیہ کے جیولری میں نتھ اور ٹیکا نہیں بنا تھا۔ اماں کو ان دو چیزوں کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی وہ پیسے جو میں نے سونے کا سیٹ خریدنے کے لئے لے گئی تھی، میں نے اماں کو دے دیئے۔“
روبینہ حجاب کی بات سن کر چپ سی ہوگئی۔ وہ کیا کہہ سکتی تھی ، بس اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کاسمیٹکس کی چیزیں سمیٹنے لگی۔ اس نے ایک لحظے کے لئے حجاب کی طرف دیکھا۔
“خدا تمہیں تمہاری نیکیوں کا صلہ دے”
حجاب نے ایک بار پھر اس کو اپنی مددکر نے سے روک دیا۔
’’یہ بتاؤ کہ تم شادی پر پہنچ جاؤ گی نا۔‘‘ کل ابٹن ہے اور پرسوں مہندی میں مہندی پر پہنچ جاؤں گی شادی کے بعد ہم دونوں اکٹھے ہی واپس آ جائیں گے ۔” روبینہ نے کہا۔
“دیکھ لو کچھ اور مہندی پر پہنچ جانا ۔‘‘
“ہاں بھئی پہنچ جاؤں گی۔” یہ کہہ کر روبینہ چلی گئی۔
حجاب گھر پہنچی تو کزنز اور سب خاندان والوں کو ایک ساتھ دیکھ کر چہرے پر بشاشت دوڑ گئی۔
وہ اپنا سامان پھینک کر خوشی سے دوڑتی ہوئی گلے ملی۔
“آنٹی انکل کیسے ہیں آپ سب ‘‘ اپنی خیریت بتانے کے بجائے وہ متاسفانہ لہجے میں بولے۔ “شادی کا کارڈ ملا تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سمائے کہ حجاب کی شادی ہو رہی ہے ہمیں کیا معلوم تھا صباحت کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں بڑی بیٹی کو بٹھا کو چھوٹی بیٹی کی شادی کر رہی ہے”
پھو پھو تو گلوگیر لہجے میں بولی ۔ ’’اب کون میری حجاب کی ڈولی لینے آۓ گا ۔‘‘
صباحت کرخت انداز میں بولتی ہوئی حجاب کی طرف بڑھی ۔
“بچی کو بیٹھنے تو دو، آپ لوگ کیا اس کے آتے ہی اول فول بولنے لگے۔ آؤ حجاب فریش ہو جاؤ۔‘‘ صباحت نے حجاب کا اٹیچی کیس اٹھایا تو حجاب نے ماں سے اٹیچی کیس لے لیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
صباحت اس کے دو شاپر اٹھا کر اس کے کمرے میں آئی۔
’’ان رشتہ داروں نے کبھی نہیں پوچھا کہ ہم کس حال میں جی رہے ہیں، اچھے وقت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے بھی ہم سے ہاتھ چھڑالیا اور اب طعنے دینے کے لئے آگئے ہیں۔ ثانیہ کے سسرال والوں کے سامنے بھرم رکھنے کے لئے میں نے ان سب کو بلوایا ہے ورنہ یہ رشتہ دار اس قابل نہیں ہیں۔”
حجاب نے ماں کو پانی کا گلاس دیا۔
“کیا ہو گیا اماں، پلیز غصہ چھوڑ دیں۔خوشی کا موقع ہے، اس وقت پچھلی باتیں یادنہ کریں۔ مجھے تو اتنے سالوں بعد ان سب کو دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے۔ ثانیہ کی شادی میں تو نہ جانے کتنے لوگ یہ بات کہہ گئے۔ آپ کس کس کو بات کی قصہ کریں گی کس کس کو جواب دیں گی کسی کی پرواہ نہ کریں”
صباحت نے اسے سینے سے لگالیا۔
”مجھے معاف کر دے میری بیٹی، نہ چاہتے ہوۓ بھی مجھے تمہاری حق تلفی کرنی پڑی۔‘‘
“پلیز امی آپ ایسی باتیں نہ کریں آپ جو بھی فیصلہ کرتی ہیں ٹھیک کرتی ہیں مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں ہے میرے تو بھوک سے پیٹ میں میں چوہے دوڑ رہے ہیں بس آپ میرے لئے کھانا لگوادیں۔” صباحت نے اس کے بالوں کو سہلایا۔
“تم فریش ہو کر آ جاؤ میں کھانا لگواتی ہوں”
کھانا کھانے کے بعد صباحت اسے اسکا سوٹ دکھانے لگی جو اس نے حجاب کے لئے ڈیزائن کروایا تھا۔ حجاب تو اپنا سوٹ دیکھتی رہ گئی شارپ پنک کلر کے ٹشو پر موتی اور ستاروں کا نفیس سا کام تھا
“اماں یہ اتنا پیارا جوڑا میرا ہے” حجاب نے جوڑے کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا
”میری بیٹی تو اس جوڑے میں شہزادی لگے گی ۔کل تحریم کے ساتھ جا کر اس جوڑے سے میچنگ جوتی اور جیولری لے آنا ٹھہرو تمہیں ایک اور چیز دکھاتی ہوں ۔‘‘ صباحت نے اپنے پرس سے چھوٹی سی ڈبی نکلی ۔
“یہ میں نے تمہارے لئے بنوایا ہے۔‘‘
“یہ کیا ہے اماں؟‘‘
“کھول کے دیکھ لو ‘‘
حجاب نے ڈبی کھولی تو اس میں سونے کا لاکٹ تھا۔ حجاب کی آنکھیں بھر آئیں ۔ ’’اماں آپ نے اتنا کچھ میرے لیے لیا اور یہ لا کٹ تو بہت خوبصورت ہے ۔‘‘
’’اچھاذ را پہن کر دکھاؤ کیسا لگتا ہے ۔‘‘ صباحت نے حجاب کو اپنے ہاتھوں سے لاکٹ پہنایا۔
“ماشاءاللہ بہت پیارا لگ رہا ہے تم پر ۔” حجاب نے خودکو آئینے میں دیکھا۔
“واقعی یہ لاکٹ بہت پیارا ہے اور بیش بہا قیمتی ہے کیونکہ یہ میری ماں کا تحفہ ہے”
اس نے لاکٹ کو اپنے ہونٹوں سے لگا لیا اس وقت صباحت کمرے سے جا چکی تھی۔ اسی دوران ثانیہ کمرے میں آ گئی۔
“آپی آپ بھی غیروں کی طرح ٹائم پر ہی آئی ہیں”
حجاب نے آگے بڑھ کر اسے باہوں کے حصار میں لیا
“تمہیں تو میری مصروفیت پتا ہے شادی
کے لئے بھی تو چھٹیاں چاہئے تھیں پھر اضافی چھٹیاں کیسے لیتیں۔”
“رہنے دو آپی آپ تو ویسے بھی خوشیوں سے بھاگی پھرتی ہیں” ثانیہ نے حجاب کا بازو پیچھے کیا تو اس کی نظر لاکٹ پر پڑی۔
“اتنا پیارالاکٹ، یہ تم نے اب لیا ہے۔‘‘
حجاب نے مسکراتے ہوۓ اپنے لاکٹ کو چھوا ۔ “تم نہیں جانتی، یہ لاکٹ اماں نے مجھے دیا ہے۔ یہ دیکھو، یہ جوڑا یہ اماں نے لیا ہے یہ تو تم نے دیکھا ہی ہوگا ۔”
ثانیہ نے اچٹتی نگاو جوڑے پر ڈالی ۔
’’اماں نے تو تمہارے لئے بڑی قیمتی شاپنگ کی ہے، مجھے تو یہ سب انہوں نے دکھایا ہی نہیں۔ میں نے بھی ان سے ایک لاکٹ بنانے کے لئے کہا تھا، انہوں نے صاف انکار کر دیا۔‘‘
حجاب نے اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی دی۔
ارے پگلی تمہارا تو زیور بہت پیارا بنا ہے۔ میں نے دیکھا ہے ،اس میں ایک چھوٹا سیٹ بھی ہے۔‘‘
شادی کے بعد ہر وقت گھر میں سیٹ تھوڑی نہ پہنا جا سکتا ہے خیر کوئی بات نہیں آپ کا سوٹ بہت پیارا ہے شادی میں یہ جوڑا پہننے میں سے پہلے چہرے کا فیشل ضرور کروالینا، آپ چہرے سے Aged لگنے لگی ہیں اور اماں نے بہت شوخ جوڑا لے لیا ہے۔”
“ثانیہ جیسےلفظوں کا تھپٹر حجاب کے چہرے پر مار کے چلتی بنی۔”
ایسی جلی کٹی باتیں اسے اپنی بہنوں سے ہمیشہ سننے کو ملتی تھیں اس کے دل میں آیا کہ وہ شادی چھوڑ کر فوراً ہاسٹل واپس چلی جائے مگر رشتوں کو نبھانے کی سزا اس کا مقدر تھی ثانیہ سسرال نہیں گئی تھی لیکن شاید وہ پہلے ہی پرائی ہوگئی ۔
جہیز میں یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے اس کے لب و لہجے میں سسرالیوں کا رنگ جھلکنے لگا تھا۔
سوچا تھا گھر جاؤں گی تو خوشیوں میں اپنے غم کو بھول جاؤں گی مگر یہاں تو آتے ہی آنکھیں بھیگ گئیں۔‘‘ حجاب خود کلامی کرتے ہوئے اپنا جوڑا تہہ کر رہی تھی
صباحت نے اسے پکارا۔
’’حجاب! آ جاؤ کھانا کھالو۔‘‘ حجاب نے ماں کی آواز سن کر لاکٹ اتار کر سنبھالا اور باتھ روم میں جا کر منہ دھونے لگی
وہ ڈائٹنگ ٹیبل کے پاس بیٹھ گئی۔ صباحت نے اسے کھانا سرو کیا تو حجاب نے خالی کرسیوں کو دیکھا ۔ “اور کسی نے کھانا نہیں کھانا‘‘
“تم دیر سے آئی ہو، سب نے کھانا کھا لیا ہے ۔“ حجاب نے بے دلی سے لقمہ منہ میں ڈالا ۔
’’سب کو میرے بغیر رہنے کی عادت جو پڑ گئی ہے کوئی ایک دوروز کے لئے اپنی عادت کیوں بدلے‘‘ صباحت نے آہستگی سے حجاب کے بالوں کو سہلایا۔
’’کیا ہو گیا ہے حجاب، اس قدر حساس کیوں ہوگئی ہو، میں ادھر بیٹھی ہوں تمہارے پاس‘‘ صباحت نے حجاب کو پانی ڈال کر دیا۔
ایک لڑکی ہاتھ میں روغنی کاغذ لئے صباحت کے پاس آئی۔
’’ آنٹی آپ نے ڈسپوز ایبل پلیٹس بہت تھوڑی منگوائی ہیں ہمیں اور پلیٹیں منگوا کے دیں۔‘‘ صباحت فورا کھڑی ہوگئی۔ ’’اب تو کافی رات ہوگئی ہے ۔اس وقت کون بازار جاۓ گا۔ صبح منگوادوں گی۔
“آنٹی ہم نے ساری تیاری رات کو ہی کرنی ہے کل تو بہت سارے کام ہونگے” لڑکی نے مضطرب لہجے میں کہا۔
“اچھا میں کچھ کرتی ہوں کسی کو بھیجتی ہوں”
صباحت وہاں سے چلی گئی اس نے خالی کرسی کی طرف دیکھا اس کا نوالہ جیسے پلیٹ میں رہ گیا بہ مشکل اس نے یہ نوالہ زہر مار کیا۔
“بھوک ہی نہیں ہے” اس نے دل میں کہا مگر شناسا سی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’بھوک ہو یا نہ ہوکھانا تو کھانا پڑے گا۔‘‘ حجاب نے جھر جھری لیتے ہوئے نگاہیں اوپر اٹھائیں اذہاد اس کے سامنے بیٹھا مسکرا رہا تھا
حجاب مبہوت نظروں سے آنکھیں جھپکنا بھول گئی “ت…تم……یہاں”
”کیوں میں یہاں نہیں آ سکتا تم نے اپنے دوستوں کو شادی کے کارڈز دیئےتو پھر مجھے کیسے بھول گئی، میں بھی تو تمہارا دوست ہوں ۔
حجاب بوکھلاۓ ہوۓ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ “کسی نے تمہیں دیکھ لیا تو ‘‘
“بے فکر رہو تمہارے علاوہ مجھے کوئی اورنہیں دیکھ سکتا ۔‘‘اذہاد نے روٹی کا نوالہ لیا اور سالن سے لگا کر حجاب کے منہ کی طرف بڑھایا۔
حجاب مسکرائی تو اس کی اداس آنکھیں بھی مسکرانے لگیں ۔
”تم میرے بہت پیارے دوست ہو ۔‘‘
میری اتنی تعریف نہ کرو کہ میں خوشی میں سب کے سامنے ظاہر ہو جاؤں۔
“نہیں نہیں ، پلیز یہ مت کرنا‘‘ نوالہ مجاب کے حلق میں ہی اٹک گیا۔
’’ تم آرام سے کھا نا کھاؤ میں تو مذاق کر رہا تھا۔ اذہاد نے ایک پل میں ہی حجاب کا اکیلا پن دور کر دیا۔
حجاب کھانے کے بعد اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھ گئی۔
“تحریم نظر نہیں آ رہی‘‘ حجاب نے اردگرد دیکھا۔
“وہ اپنی سہیلی کے ساتھ درزن زاہدہ کے گھر گئی ہے۔ بہت مصروف ہے زاہدہ، کل ایٹن ہے اور آج کپڑے دے گی۔‘‘ صباحت نے حجاب کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا،
پھر وہ حجاب کا ہاتھ پکڑ تے ہوئے بولی۔’’ تم آئی ہی شادی کے بالکل قریب ہو، اب کل صبح تحریم کے ساتھ جا کر جو جوڑا میں نے تمہیں دیا ہے اس کے ساتھ کی میچنگ کی جیولری اور جوتی لے آنا اور بھی کوئی چیز لینی ہوتو لے لینا، اگر پیسے کم ہوں تو مجھ سے لے لینا ‘‘
“پیسے میرے پاس ہیں ، میں کل صبح یہ چیزیں لے آؤں گی۔‘‘ حجاب مسکراتے ہوۓ بولی ۔
”تم اپنی خالہ سے باتیں کرو میں چاۓ بناتی ہوں۔‘‘ صباحت اٹھنے لگی تو حجاب نے انکا ہاتھ پکڑ لیا
“آپ بیٹھیں میں بناتی ہوں کتنے کپ بنانے ہیں”
“میرے خیال میں سات کپ کافی رہیں گے” صباحت نے حجاب کی پھوپی اور خالہ کی طرف دیکھ کر کہا
حجاب چاۓ بنانے کے لئے کچن میں چلی گئی ۔
خالہ حنا نے جاتی ہوئی حجاب کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری۔
کتنی خوبصورت ہے ہماری حجاب، نہ جانے مقدر کیوں ٹھنڈے ہیں۔
حنا کی بات سن کر صباحت نے اپنا بھی دل کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
”میں تو ماں ہوں، مجھ سے زیادہ کون حجاب کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے۔ ثانیہ کی شادی ہوتے ہی حجاب کے لئے رشتہ ڈھونڈوں گی ۔
پھوپھی فردوس دور بیٹھی ہوئے ان کی گفتگو میں شامل ہوگئی ۔ ’’رہنے دوصباحت اپنی غلطیوں پر پردہ مت ڈالو۔ تھوڑا انتظار کر لیتی پر چھوٹی کی شادی پہلے نہ کرتی، ایک شادی کے بعد اتنی جلدی دوسری بیٹی کی شادی کے لئے روپے کہاں سے لاؤ گی۔‘‘
خالہ حنا نے تو فٹ سے اپنا سر پکڑ لیا۔ ”میں تو کہتی ہوں ، ایک دو سال میں چاندی کی تاریں آجائیں گی حجاب کے بالوں میں ‘‘
صباحت کھوئی کھوئی ہی بولی۔
“ایسا کچھ نہیں ہوگا، میں یہ گھر بیچ دوں گی لیکن حجاب کی شادی میں اب دیر نہیں کروں گی”
”خدا کرے حجاب کے لئے بھی ثانیہ جیسا اچھا رشتہ مل جائے” خالہ حنا نے کہا
اتنی دیر میں حجاب چاۓ لے آئی۔ خیر سے ابٹن کا دن بھی آگیا۔ حجاب تحریم کے ساتھ بازار سے اپنے جوڑے کے ساتھ جیولری لے آئی۔ وہ آج بہت خوش تھی ۔ شام ڈھلنے سے پہلے ابٹن کی رسم کی ساری تیاری ہوگئی۔
مہمانوں کو سات بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ سات بجے سے پہلے حجاب اور تحریم تیار ہو گئیں اور انہوں نے ثانیہ کو بھی تیار کر دیا رسم کے مطابق لڑکی کا جوڑا لڑکے والوں کی طرف سے آیا تھا
حجاب نے ثانیہ کو پیلے جوڑوے کے ساتھ پھولوں کے گہنے پہناۓ۔ اس روپ میں ثانیہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ سب لڑکیوں نے مل کر ڈھولک رکھ لی۔ خاندان کی سہاگنیں باری باری ثانیہ کے ہاتھ میں ابٹن رکھتیں اور پھر نے پھر اس کے سر سے پیسے وار کر ملازمہ کی جھولی میں ڈال دیتیں۔ یونہی ان رسموں میں فنکشن رات گئے تک جاری رہا۔ ۔
ثانیہ کی تھالی کا بچا ابٹن لڑکیوں تک پہنچا تو وہاں سب ابٹن لگانے کے لیے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگیں، جس کو ابٹن لگے گا اس کی شادی جلد ہوگی۔ خاندان کی بڑی بوڑھیاں ان کا یہ مذاق دیکھ کر ہنستی رہیں ۔
حجاب کو اس کی کزنز نے پکڑ کر ابٹن لگا ہی دیا۔
صباحت نے مسکراتے ہوۓ دل ہی دل میں دعا مانگی۔ ’’یااللہ میری بیٹی کے نصیب کھول دے۔”
اگلے دن مہندی کی رسم بھی بہت دھوم دھام سے منائی گئی۔
شدی کے سن ثانیہ نے فیروزی لہنگا پہنا ہوا تھاجو اس نے اپنی پسند سے ڈیزائن کروایا تھا۔ خاندان کی لڑکیاں کی اشتیاق سے دروازے کی طرف بڑھیں
تحریم جوثانیہ کے ساتھ پارلر گئی تھی، خراما خراماں چلتی ہوئی دلہن کو اندر کمرے میں لے کر آگئی ۔ صباحت نے بیٹی کو دیکھا تو خوشی سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی کمسن ثانی دلہن کے روپ میں بہت بڑی نظر آئی تحریم بھی پیاری لگ رہی تھی ۔
صباحت نے اسے بڑھ کر اسے پیار کیا
پھر وہہ اپنی بہن سے مخاطب ہوئی۔
“حجاب کدھر ہے اسے کافی دیر سے نہیں دیکھا وہ کیسی تیار ہوئی ہے”
“بھئی حجاب بھی آج بہت پیاری لگ رہی کسی پری جیسی وہ تیار ہو کر تمہارے پاس ہی آ رہی تھی کہ کچھ خواتین نے اسے صحن میں بلا لیا” حجاب کی خالہ نے کہا۔
“اچھا میں خود جاتی ہوں اسکے پاس” صباحت یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی
وہ صحن میں گئی تو لڑکیوں کے ہجوم میں حجاب سب سے الگ تھلگ نظر آ رہی تھی اس نے وہی جوڑا پہنا ہوا تھا جو صباحت نے اسے دیا تھا۔ یہ صباحت نے اسے ولیمے کے روز پہنے کوکہا تھا لیکن حجاب نے یہ سوٹ آج پہنا۔ حجاب پر وہ جوڑا بہت جچ رہا تھا وہ واقعی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
حجاب نے صباحت کو دیکھا تو اس کے پاس آ گئی۔
‘’کیسی لگ رہی ہوں اس جوڑے میں ‘‘
صباحت نے خفگی سے حجاب کی طرف دیکھا۔ ’’اب خیال آیا ہے جوڑا دکھانے کا۔‘‘
’’اماں ، میں آپ کے پاس ہی آ رہی تھی کہ کچھ خواتین کو مجھے ڈیل کرنا پڑا۔‘‘ صباحت نے حجاب کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ “بہت پیاری لگ رہی ہو ۔‘‘
حجاب نے صباحت کا ہاتھ پکڑا تو صباحت نے اس کی کلائی میں کڑا دیکھا۔
“حجاب یہ کڑا…” صباحت مبہوت ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ …
“وہ۔۔۔۔۔ وہ میری دوست نے تحفہ دیا”
“اتنا قیمتی تحفہ یہ تو نگینوں میں جڑا سونے کا کڑا ہے تمہاری کون سی اتنی امیر دوست ہے اوراتنا قیمتی تم نے لیا کیوں؟”
صباحت نے ایک ہی بات میں بہت سارے سوال کر ڈالے
حجاب بات ٹالنے کی کوشش کرنے لگی ۔
“ہے ایک دوست آپ نہیں جانتی ہیں اسے میں نے بہت منع کیا مگر اس زبرستی یہ تحفہ مجھے دے دیا آپ بتائیں کہ شادی کیسی تیار ہوئی ہے ۔”
“بہت پیاری لگ رہی ہے جاؤ تم دیکھ لو”
حجاب ثانیہ کے پاس چلی گئی لیکن کچھ دیر تک صباحت اس کڑے کے بارے میں سوچتی رہی
اتنی دیر میں اس کی سماعت سے آواز ٹکرائی کہ بارات آ گئی ہے وہ جلدی سے گیٹ کی طرف بڑھی
خاندان کی لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں بھری پلٹیں لے کر پہلے ہی سے کھڑی تھیں ۔ سب سے آگے حجاب اور تحریم تھیں ۔
باراتیوں کا استقبال کرنے کے بعد انہیں اور دوسرے مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد دوسری رسومات کی گئیں ۔احسن بھی دولہا کے لباس میں بہت وجیہہ دکھائی دے رہا تھا۔ جب ثانیہ اور احسن کو اکٹھا بٹھایا گیا تو لوگ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ماشاءاللہ جوڑا بہت پیارا ہے، خدانظر بد سے بچاۓ ۔
شادی کی پوری تقریب میں مسز آفتاب زیدی احسن کی والدہ اور بہن کے ساتھ ہر جگہ خاص مہمانوں میں شامل تھیں ۔ان کی حجاب پر خاص نظر تھی۔ دودھ پلائی کی رسم میں جب حجاب اور تحریم احسن سے دودھ کا گلاس لئے چٹ پٹی بحث کر رہی تھیں تو مسز آفتاب زیدی نے حجاب کی طرف اشارہ کیا اور احسن کی والدہ سے مخاطب ہوئی۔ “یہ ثانیہ کی بڑی بہن حجاب ہے، بڑی خوبصورت بچی ہے ۔‘‘
احسن کی والدہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ “اگر میرے احسن سے بڑی نہ ہوتی تو میں نے کہاں چھوڑنی تھی “
مناسب موقعہ دیکھ کر مسز آفتاب صباحت کے قریب بیٹھ گئیں اور باتوں ہی باتوں میں ان سے پہچان بڑھانے لگی ۔
صباحت نے بھی جب انکی توجہ حجاب کی طرف دیکھی تو خصوصاً ڈیل کرنے لگی
دودھ پلائی کی رسمکے بعد صباحت نے حجاب کو بلایا اور مسز آفتاب زیدی سے ملوایا مسز آفتاب زیدی بھر پور شخصیت کی مالک تھیں حجاب ان سے مل کر بہت خوش ہوئی کچھ دیر بعد اسکی کزنز اسے کھینچ کر لے گئی وہ شادی کے شغل میلوں میں پھر مصروف ہوگئی۔
شادی میں خوشیوں بھرے چہرے رخصتی کے وقت افسردہ ہو گئے صباحت نے دل پہ پتھر رکھ کے بیٹی کو رخصت کیا ۔ ثانیہ میکے سے سسرال چلی گئی ، وہ زندگی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوگئی ۔
ولیمے کے فورا بعد ہی حجاب ہاسٹل چلی گئی شادی کی رونق پر مسرت گہما گہمی سے سے نکل کر وہ ایک بار پھر بے ہنگم مصروفیت میں چلی گئی لیکن اس کی لا علمی میں زندگی ایک نیا موڑ لے چکی تھی
مسز آفتاب زیدی اپنی چمکتی دیکتی فراری میں حجاب کے گھر کے چکر لگانے گئی تھیں ۔
ثانیہ اور احسن نے آنا تھا۔ صباحت اور تحریم دونوں کچن میں ان کے لئے کھانا بنانے میں مصروف تھیں ۔
اتوار کا دن تھا اس لئے تحریم بھی گھر پر ہی تھی ۔ ’’اماں آج مجھے آپی حجاب بہت یاد آ رہی ہے کس طرح جھٹ سے وہ سارے کھانے بنالیتی ہے ۔ یہ کو کنگ تو اچھا بھلا مشکل کام ہے ۔‘‘
صباحت نے روسٹ کو ڈیپ فرائیزر میں ڈالا ۔ ’’ یہ رسب دیکھو، اب یہ سب کام تمہیں سنبھالنا ہے۔ ثانیہ کی تو شادی ہوگئی ہے۔ حجاب اپنی جاب میں مصروف ہے اور ویسے بھی اب اس کی شادی کی باری ہے۔”
حجاب کی شادی کی بات سنتے ہی تحریم نے فورا تجسس بھرے لہجے میں کندھے اچکائے۔
’’اماں ! مسز آفتاب کی حجاب آپی میں اس طرح دلچسپی لینا مجھے تو معاملہ گڑ بڑ لگ رہا ہے ۔‘‘
“اچھا بڑی بی بی کو کنگ میں دھیان دو۔ کسی بھی معاملے میں جلدی راۓ قائم نہیں کرتے یہ چکن فرائی کرو، میں چاول دیکھتی ہوں۔‘‘
اسی دوران باہر بیل بجی۔
صباحت چاول چھوڑ کر باہر دروازہ کھولئے گئی۔ “تحریم یہ چاول بھی دیکھ لینا، میں جاتی ہوں شاید وہ لوگ آ گئے ہیں۔” صباحت نے دروازہ کھولا تو ثانیہ اور احسن کے ساتھ مسز آفتاب زیدی کو دیکھ کر وہ چونک گئی۔
’’ہم نے کہا کہ ہم اماں کو سر پرائز دیں گے کہ ہمارے ساتھ مسز آفتاب زیدی بھی آ رہی ہیں ۔‘‘ ثانیہ نے کے گلے میں بانہیں حائل کر دیں ۔
”کیوں نہیں ان کا اپنا گھر ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی انکو تمہارے ساتھ دیکھ کر”
مسزآفتاب کو دیکھ کر صباحت تھوڑا تکلف میں آ گئی اس نے انہیں مہمان خانے میں بٹھایا
تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا سب نے بہت مزے سے کھایا اور سب لیونگ روم میں بیٹھ گئے
“احسن بیٹا! تمہاری امی کیوں نہیں آئی” صباحت نے گلہ کرنے کے انداز میں پوچھا
“ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ان کی جگہ آنٹی جو آ گئی ہیں۔” یہ کہہ کر اس نے انہی کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے ۔
صباحت نے ان کے اشارے بھانپتے ہوۓ ثانیہ سے پوچھا۔
”کیا بات ہے کچھ کہنا چاہتے ہو۔‘‘ ثانیہ نے مسکراتے ہوۓ مسز آفتاب کی طرف دیکھا پھر وہ صباحت سے مخاطب ہوئی ۔
“مسز آفتاب زیدی آج آپ سے خاص بات کرنے آئی ہیں ۔‘‘
صباحت نے مسز آفتاب زیدی کی طرف دیکھا۔ ” کیا بات ہے باجی !‘‘
مسز آفتاب زیدی پر خلوص لہجے میں گویا ہوئی ۔
“میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا فیضان ہے اس سے دو چھوٹی بہنیں مناہل اور زرقا ہیں۔ چوتھے نمبر پر زریاب ہیں جو انگلینڈ سے انجینئر نگ کی ڈگری لے کر آیا ہے ۔خدا نے بڑا کرم کیا ہے ایک انڈسٹری میں اسے اچھی جاب مل گئی ہے ۔ مجھے آپ کی بیٹی حجاب بہت پسند ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کروں ، میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمارے گھر آئیں، میری فیملی سے ملیں اگر آپ کو ہم پسند آئے تو میں بات آگے بڑھاؤں گی میرا مطلب ہے جحاب مجھے اپنے بڑے بیٹے کے لیئے پسند ہے اگلے جمعے کو آپ میرے گھر تشریف لایئے گا”
صباحت نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ “کیوں نہیں میں ضرور آوں گی آگے سنجوگ بنانے والا تو اللہ ہے”
مسزآفتاب کے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اس نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔
“ثانیہ اور احسن تم دونوں بھی ساتھ آنا۔” تحریم جو اس ساری گفتگو میں نظر انداز تھی چائے کی ٹرے لئے منہ بسورکر بولی ۔
’’آنٹی میں بھی اس گھر میں رہتی ہوں۔‘‘
تحریم کی اس بات پر سب ہنس پڑے
“بھئی آپ کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں ۔ آپ کو ہی تو اپنی آپی حجاب کے لیئے لڑکا ڈھونڈنا ہے”
مسز آفتاب زیدی تحریم کو چھیڑ کر صباحت سے گویا ہوئی ۔
’’صباحت تحریم کو ساتھ ضرور لانا‘‘
“تحریم بھی ساتھ آۓ گی ‘‘ صباحت نے تحریم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
سب کافی دیر تک گپ شپ میں مصروف رہے۔ مختلف قسم کے موضوعات پر بات ہوتی رہی ۔مسز آفتاب زیدی ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار خاتون تھی اس کی پراثر گفتگو سے صباحت کواس کی فیملی سے ملنے کا اشتیاق زیادہ ہونے لگا۔
”حجاب دونوں بہنوں کی نسبت کافی سنجیدہ مزاج ہے۔‘‘ آفتاب زیدی نے ٹشو پیپر اٹھایا۔
’’ حجاب شروع ہی سے ایسی ہے سنجیدہ مزاج اور حساس۔ فیضان کیا کرتا ہے ۔‘‘
“ماشاء اللہ سے اس کا اپنا شو روم ہے خدا کا بڑا فضل ہے۔ میں تو بس چاہتی ہوں کہ دو بہوئیں گھر میں لاؤں اور گھر کی ذمہ داری انہیں سونپ کر آرام کروں۔‘‘ صباحت مسز آفتاب زیدی کی اس بات پر انہیں چھیٹرنے کے انداز میں مسکرائی
“آپ ایسی بات کیوں کر رہی ہیں آپ تو اتنی فٹ ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا آپ کے جوان بیٹے اور بیٹیاں ہیں”
مسز آفتاب زیدی دھیرے سے بولی
“بھلے عمر کتنی لگے یہ وقت کا دیمک ہمارے جسموں کو کھوکھلا کرتا جاتا اندر سے خیر سے ہمارے بیٹے فیضان کی عمر تو… ‘‘
مسز آفتاب زیدی کے ادھورے جملے پر صباحت فورا بولی۔
“کتنی عمر ہے فیضان کی ۔‘‘مسز آفتاب زیدی نے ترچھی نظرسے صباحت ۔ کی طرف دیکھا تو احسن بلا تامل بولا۔
“آنٹی آپ فیضان سے ملیں گی تو آپکو اندازہ ہو جائے گا”
“ہاں یہ تو ہے میں اگلے جمعے کو ضرور آوں گی مسز زیدی کی طرف”
’’اب مجھے اجازت دیں، باقی باتیں اب میرے گھر پر ہوں گی۔
احسن بھی گاڑی کی چابی گھما تا ہوا کھڑا ہو گیا۔
“ثانی کو میں رات کو لے جاؤں گا، مجھے ابھی کام ہے۔ آنٹی کو بھی ڈراپ کرنا ہے ۔‘‘ ثانیہ اور صباحت ان کو چھوڑنے گیٹ تک گئیں۔
•●•●•●•●•●•●•●•●•
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...