اُ داسی کی تیز لہر میرے دل کو کاٹ رہی تھی اور میں پناہ لینے کے لیے ادھر اُدھر چکر لگا رہا تھا- پارک اس وقت ویران تھا- لندن کے اس پا رک کی خاصیت اس کے درخت اور ان کے بڑے سائز کے پتّے ہیں اس کے علا وہ وہیں سڑک پرپا رک کے جنگلے سے لگا کر ایک آر ٹسٹ اپنی پینٹنگس سجا لیا کرتا تھا -پارک کے بیچوں بیچ ایک مصنوعی تالاب بنا یا گیا ہے جس میں رنگ برنگی بطخیں تیر تی رہتی ہیں – جی ہاں رنگ برنگی … پہلی بار جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھے بھی بے حد حیرت ہو ئی تھی لیکن جب میں نے انہیں ان کی خوراک (جو کہ میں نے وہیں سے ڈبے میں خر یدی تھی) دینے کے لیے پاس بلا یا تو وہ پر پھڑ پھڑا تی قریب آئیں اور میں قدرت کا یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گیا- یہ سارے رنگ حقیقی تھے جیسے تتلی کے پر …اس دن مجھے بطخوں کو کھانا کھلانا اتنا اچھا لگا کہ میں روز بلا ناغہ وہاں آتا اور تالاب کے کنارے بیٹھ کر انہیں دیکھتا رہتا ‘ کھلاتا رہتا -اک عجیب سا سکون اور اپنائیت تھی اس ما حول میں شا ید با غوں کھیتوں تالابوں کو چھوڑ کر آنے کی وجہ سے میں انہیں جڑوں سے کٹ کر رہ گیا تھا- اور یہی وجہ تھی کہ اس پارک کے اس پُر سکون گو شے میں بیٹھ کر مجھے سب کچھ یاد کرنے کا کا فی وقت ملتا تھا -اکثر میں ان بڑے بڑے پتّوں کو جمع کرتا رہتا اور سوچتا کہ جب میں واپس ہندوستان جاؤں گا تو یہ پتّے تمنّا کو دوں گا وہ بہت زیادہ خوش ہو گی۔ تمنّا میری چھوٹی بہن کا نام ہے۔ وہ پُر اسرار حد تک قدرت کی شیدائی ہے۔ رنگوں اور خو بصورت پتّوں کی متلا شی… تصویروں اور پرندوں کے رنگ بر نگے پر جمع کرنے والی میری پیاری تمنّا…مگر اس درمیان حب میری دوستی لوسی سے ہو گئی تو میرے پاس ہائیڈ پارک کے لیے وقت بہت کم رہ گیا… لو سی سے میری ملاقات بارش میں بھیگتے ہوئے سڑک پر ہو ئی تھی۔ وہ سڑک کچھ ڈھلواں تھی اور میں ہمیشہ کی طرح پیدل… چھتری شا ید اُس کے پاس بھی نہیں تھی جبکہ لندن کے موسم کا تقاضہ ہی ہے کہ چھتری ہر وقت پاس ہونی چاہیے در اصل صبح سے موسم بالکل صاف تھا دھوپ چمک رہی تھی- میں اسی لیے کاہلی میں بغیر چھتری لیے کام پر چلا گیا اور واپسی میں اچانک زور دار بارش شروع ہو گئی –
ہاں تو بات ڈھلان کی تھی ‘ اچانک لو سی کا پیر لڑ کھڑا گیا یہ شر ارت شا ید اس کی اونچی ہیل کے سینڈل کی تھی اور میں نے اُسے تھا ما تو وہ نا زک شاخ کی طرح میری با ہوں میں آ گئی- اس کا چہرہ تمتما رہا تھا- سلیقے سے کٹے ہوئے بال اس کے چہرے پر پھیل رہے تھے – براؤن آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی- میرا فلیٹ کیونکہ قریب ہی تھا میرے کہنے پر وہ میرے سا تھ آ گئی…
سجا سجا یا خو بصورت وسیع فلیٹ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں … کہاں سڑک پر معمولی پیدل چلنے والا ہندوستانی… اور کہاں یہ شاندار فلیٹ… میں نے بھی اس کو کوئی صفا ئی نہیں دی…یہ ہماری پہلی ملاقات تھی- پھر وہ اکثر مجھے ملنے لگی اور ہماری دوستی میں زیادہ دیر نہیں لگی… اکثر وہ اپنے کام سے دوپہر کو فارغ ہو تی تھی اور میرے فلیٹ پر آ کر میرا انتظار کر تی ایک چا بی اس کے لیے بنو انا تو میرا فرض تھا… وہ میری اچھی دوست جو تھی- اس دن جب میں گھر آیا تو وہ کچن میں کچھ کھٹ پٹ کر رہی تھی شا ید وہ نہا کر آئی تھی باتھ روم کا دروازہ بھی کھلا تھا- باہر موسم بہت اچھا ہو گیا تھا میرا ارادہ تھا کہ اس کو لے کر کہیں گھمانے لے جاؤں گا اس لیے اپنے دوست سے ایک کھٹا را کار بھی مانگ کر لے آیا تھا جب وہ کچن سے بھا گتی ہوئی آ کر بھیگے رخساروں ‘ بھیگے با لوں سمیت مجھ سے لپٹ گئی تو میرے سارے ارادے ٹوٹ پھوٹ گیے۔ اس دن میں نے پہلی بار اس کے گلابی لبوں کو چو ما تھا- اور تب مجھے معلوم ہوا کہ میں لوسی کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہوں – اس نے میری پسندیدہ ڈشیز سے ساری ٹیبل بھر دی … کئی کھانے بنا لیے تھے اس نے …
’’کیوں کیا تم نے یہ سب …‘‘ میں نے اسے پیار کر تے ہوئے پو چھا۔
تمہیں اچھا نہیں لگا…؟
بہت اچھا لگا لو سی … بہت اچھا…میں واقعی بہت خوش تھا -کھانے کے بعد اس نے میری پسندیدہ سویٹ ڈش پا ئین ایپل کسٹرڈ بھی لا کر رکھ دی…کھا نا کھا کر ہم لمبی ڈرائیو پر نکل گیے …دریائے ٹیمز کے کنارے ٹہلتے ہوئے میں نے اُسے اپنے سا تھ لگا لیا… ’’لو سی … آؤ شا دی کر لیں … ‘‘میں نے بڑے جذبوں سے اسے پر پوز کیا … ’’شا دی…؟‘‘ وہ ایک جھٹکے سے مجھ سے الگ ہو گئی… اس کی نگاہوں میں اک عجیب سی بات تھی جو میں سمجھ نہ سکا …
ہاں لو سی… میرا دوست جیک آنے والا ہے … وہ کسی کورس کے لیے نیویا رک گیا ہوا ہے یہ فلیٹ اسی کا تو ہے … اب وہ آنے والا ہے اب ہم دونوں تمہارے چھوٹے سے کمرے میں کچھ دن گزاریں گے اس کے بعد …مگر اس نے میری کو ئی بات پوری نہیں ہونے دی… میں نے اس کی طرف دیکھا وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں جو چیز میں نہیں سمجھ پا یا تھا اچانک میں سمجھ گیا اس کی آنکھوں میں میرے لیے تضحیک تھی گلا بی ہونٹوں پر طنز یہ مسکراہٹ تھی…
’’تم نے ایسا سوچا بھی کیسے … تم ہو کیا… تمہاری حیثیت کیا ہے … وہ جانے کیا کیا کہتی رہی میں سنتا رہا … اس نے اپنا ہا تھ بہت پہلے میرے ہاتھوں سے نکال لیا تھا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی… میں شرمندہ بھی تھا اور حیران بھی مگر رنجیدہ ہونے کا میرے پاس نہ وقت تھا نہ موقع … اور اپنی روڈ آتے ہی اس نے مجھے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا اور تیزی سے بغیر کچھ کہے اُتر گئی…اُترتے وقت وہ فلیٹ کی چا بی اپنی خالی سیٹ پر رکھنا نہیں بھولی تھی۔
میں اسٹیرنگ پر ہا تھ دھرے اس کو جا تے ہوئے دیکھتا رہا دور… اور دور… بہت دور… معلوم نہیں میں کیسے گھر آیا… بہت دیر تک ایک ہی رخ پر بیٹھا رہا… میرے بدن میں درد ہو رہا تھا … پھر سر میں شدید درد ہونے لگا… کافی بنا نے کی ہمت بھی نہیں ہو ئی… پھر پتہ نہیں کب سو گیا … خواب میں میں نے اماں کو دیکھا وہ میرے لیے بے قرار نظر آئیں … اپنی دونوں بہنوں کو دیکھا جو میرے لیے بے چین تھیں پھر صاف شفاف بستر پر لیٹے اپنے بیمار ابو کو دیکھا جو آنکھوں میں بہت سی تمنّائیں لیے مجھے دیکھ رہے تھے جنہوں نے مجھے یہاں کچھ بننے کے لیے بھیجا تھا ان کی سا ری توقعات مجھ سے ہی وابستہ تھیں – میرا کورس تقریباً پورا ہو گیا تھا اور میں نے یہاں جاب کی بات بھی ایک کمپنی میں کر لی تھی عنقریب میں ان لوگوں کے خوابوں کو پو را کرنے والا تھا -مجھے ملنے والی اچھی تنخواہ سے بہنوں کی شادیاں ہو جائیں گی اور یہاں بھی یہ فلیٹ کیا اس سے لا کھ درجہ اچھا فلیٹ میں افورڈ کر سکتا تھا بس میری بہنوں کا گھر بس جائے ابّو کے سر سے ذمہ داری کا بوجھ اتر جائے اماں کے سنجیدہ لبوں پر پہلے کی طرح ہنسی بکھری رہے جیسی ابو کی بیماری سے پہلے بکھری رہتی تھی۔
صبح اٹھ کر سب سے پہلے میں نے لو سی کا سا را سامان پیک کیا گھر اچھی طرح صاف کیا پھر کار واپس کرنے گیا تو اس کا سامان اس کی لینڈ لیڈی کو دیتا ہوا آیا- آج پھر میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اپنے پرانے دوستوں سے ملوں … اس لیے میں پھر اپنے پرانے ٹھکانے پر آ گیا… دیر تک اپنی دوست بطخوں کو کھانا کھلاتا رہا وہ سب کی سب مجھ سے اتنے دن نہ آنے پر ناراض لگ رہی تھیں مگر میں نے ’’سو ری… سو ری‘‘ کہہ کر انہیں منا لیا… اچانک میری نظر ایک کو نے میں پڑی بینچ پر پڑی- جس پر ایک کم سن سی معصوم لڑکی اکیلی بیٹھی تھی… اس نے گہرے نیلے رنگ کا لباس پہنا تھا -اس کے بے پناہ حسین چہرے پر اس کے سنہرے بال ہوا سے بکھرے جا رہے تھے اس کا اس کا رف کھل کر بینچ پر گر چکا تھا -وہ ویران آنکھوں سے خلا میں دیکھ رہی تھی … اس کے ہاتھوں میں بھی ایک چھوٹا سا ڈبّہ تھا جس میں بطخوں کا کھانا تھا … مگر وہ شا ید بھول چکی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے – میں نے اتنا حسین چہرہ اس طرح سو گوار کبھی نہیں دیکھا تھا… میں آہستہ سے جا کر اس کی بینچ کے نزدیک نیچے گھاس پر بیٹھ گیا اُسے خبر نہیں ہو ئی –
’’ہیلو……‘‘ میں نے مد ہم سُر میں اسے پکا را …
’’آں …ہاں ہیلو…‘‘ وہ اچانک چو نک سی گئی پہلے اس نے اپنے کپڑے سنبھالے پھر اسکا رف اٹھایا ہا تھ میں لیا ہوا ڈبّہ نیچے گر چکا تھا… میں نے وہ اٹھا کر اس کی جانب بڑھایا –
’’تھینک یو… ‘‘اس نے ہلکی سی آواز میں میرا شکریہ ادا کیا اس کی گہری گہری سنہری آنکھیں کسی سوگ میں تھیں یا مجھے ایسا لگا شاید میں اُداس تھا تو مجھے سا ری دنیا اُداس لگ رہی تھی –
’’میں تمہاری کو ئی مدد کر سکتا ہوں -؟‘‘
’’اوہ نو… تھینکس… ‘‘وہ زبر دستی مسکرا ئی اور نا رمل نظر آنے کی کوشش کرنے لگی- میں اٹھ کر اسی بینچ پر ایک کنا رے بیٹھ گیا- ہم دونوں خاموشی سے بطخوں کو کھانا کھلا تے رہے پیاری پیا ری رنگین تتلیوں جیسی بطخیں ہمارا دل بہلانے کی کوشش کرتی رہیں – پھر دھیرے دھیرے ہم ان کی باتیں کرنے لگے پھر ہم پارک کی خوبصورتی پر بات کرنے لگے یہاں بیٹھے سناٹے پر بات ہو ئی… پھر نہ جانے کب ہم اپنی باتیں کرنے لگے … میں نے نہ جانے کیوں اپنے دل کا سا را حال اسے سنا دیا… اپنی اداسی کا سبب شروع سے آخر تک اسے کہہ ڈالا… وہ بہت صبر سے سب کچھ سنتی رہی پھر اس نے بہت پیار سے میرا ہاتھ چھو کر مجھے تسلی آمیز نظروں سے دیکھا… اس کی آنکھیں پانیوں سے بھری تھیں – جیسے سنہری جھیلیں … پھر اس نے ایسی ہی ایک داستان سنا ئی … جو اس کی اپنی تھی… نو ید ہندوستان سے یہاں وزٹ ویزے پر آیا تھا اس نے لیزا سے کا نٹریکٹ میرج کر لی یہاں جاب کرنے لگا اور پھر… ’’وہ بہت پیار کرتا تھا مجھے …‘‘ لیزا اب بھی خواب میں تھی۔
’’پھر نہ جانے کیا ہوا اس کے گھر سے کو ئی خط آیا… وہ مجھے چھوڑ کر چلا یا گیا … کل اس نے فون پر مجھے طلاق کا لفظ تین بار کہا… اس سے کیا ہوتا ہے … کیا ایسا کہنے سے سب کچھ ختم ہو جا تا ہے -؟ رشتے ٹوٹ جا تے ہیں … درمیان میں کچھ نہیں بچتا میری کنواری محبت کا یہ انجام تھا… میں نے اسے ٹوٹ کر چا ہا مجھے کیا ملا…؟‘‘ اس نے اپنی گلا بی ہتھیلیاں اپنی آنکھوں پر رکھ لیں اس کا چہرہ غموں سے جل رہا تھا… سسکیوں سے اس کا سارا بدن لرز رہا تھا- میں نے اسے چپ نہیں کیا … اسے رونے دیا … میں چاہتا تھا وہ خوب روئے … خوب روئے تا کہ میری طرح اس کا بدن نہ ٹوٹے …اور پھر وہ کبھی نہ روئے … اور یہی میں نے اس سے کہا لیزا تم میرے کاندھے پر سر رکھ کر رو سکتی ہو… مجھے اپنا دوست سمجھ کر… اور اتنا رو لو … کہ پھر تمہیں کسی کاندھے کی ضرورت نہ پڑے … میں نے اس کی سنہری زلفیں انگلیوں سے سنواردیں … اس کی پلکوں پر چمکتے ہوئے موتی پوروں میں اتار لیے … اس کے گلابی معصوم چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنی چوڑی سا نو لی ہتھیلی سے ڈھانپ لیا…اور اسی وقت بارش شروع ہو گئی… پانی میرے ہاتھوں سے ہو کر اس کی ہتھیلی کو بھگو ر ہا تھا ہم دونوں بھیگ رہے تھے چھتریاں بنچ پر پڑی رہیں ہم دونوں بھیگتے رہے – پھر اس نے میرے ہاتھوں سے ہاتھ نکال لیا… اور ٹھنڈی سا نس لے کر کھڑی ہو گئی… وہ کافی پر سکون نظر آ رہی تھی۔
’’ کا فی پیو گی…؟ ‘‘میں نے اپنا تھر مس کھو لا …
’’نہیں … -‘‘ لیزا نے اپنا سا را سامان سمیٹا … اور مسکرا کر میری طرف دیکھا –
’’کیا آج تم مجھے کسی اچھے ہو ٹل میں لنچ نہیں کر واؤ گے -‘‘
اس کے چہرے پر اک ایسی مسکراہٹ تھی جیسے شد ید بارش کے بعد دھوپ نکل آئی ہو … پلکوں اور با لوں پر با رش کے قطرے چمک رہے تھے … اور ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ لیے … پارک سے باہر نکل رہے تھے … ہمارے پیروں تلے سنہرے پتے چرمرا رہے تھے … امید اب بھی کہیں باقی تھی … زند گی پھر جینے کے لیے ہمک رہی تھی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...