ہرمن نارتھروپ فرائی(پیدائش:14۔جولائی1912،وفات:23۔جنوری 1991)کا تعلق کینیڈا سے تھا۔ وہ کینیڈا کے شہر شر بروک (Sherbrooke)میں پیدا ہوا ۔سات برس کی عمر میں وہ مونکٹون پہنچا۔ بچپن ہی سے وہ فطین مستعد اور فعال طالب علم تھا ، نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔اس نے سکاؤ ٹنگ کی تربیت حاصل کی اور دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کیا۔پیانو بجانا اور سائیکل چلانا اس کے مشاغل تھے ۔ 1929میں اس نے اعلا تعلیم کی خاطر مونکٹون سے ٹورنٹو کاسفر کیا۔اس رجحان ساز نقاداور ادبی نظریہ ساز تخلیق کار کا شمار بیسویں صدی کے عالمی شہرت کے حامل انتہائی اہم اور موثردانش وروں میں ہوتا ہے۔ایک ذہین تخلیق کار کی حیثیت سے ہر من نارتھروپ فرائی نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ کینیڈا کے ادب ،ثقافت اور تہذیب و تمدن کے نباض کی حیثیت سے اسے جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ولیم بلیک(William Blake) کی شاعری کی نئی تفہیم اور نئی ترجمانی پر مبنی ہرمن نار تھروپ فرائی کی پہلی تصنیف (Fearful Symmetry)جب سال 1947میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوںنے اس کی زبردست پذیرائی کی۔اس کے ساتھ ہی ہرمن نار تھروپ فرائی شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ولیم بلیک(پیدائش:28 نومبر 1757،وفات:12۔اگست 1827)کے حقیقی مقام و مرتبے کے تعین میں اس کتاب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ارد و زبان کی کلاسیکی شاعری میں اس کی بڑی مثال شیخ ولی محمدنظیر اکبر آبادی (پیدائش: 1740،وفات :1830)کی طرح ولیم بلیک کی شاعری کا حقیقی استحسان اس کی زندگی میں نہ ہو سکا ۔ہر من نارتھروپ فرا ئی نے اس یگانۂ روزگار تخلیق کار کی تخلیقی فعالیت کے بارے میں مدلل گفتگو سے نئے مباحث کاآغاز کیا۔جب وہ گریجویشن کی سطح پر تعلیم حاصل کررہا تھا تو اس نے ولیم بلیک کے مابعدالطبیعات پر مبنی پر اسرار خیالات اور پیشین گوئیوںکا تجزیاتی مطالعہ کیا اور کئی حقائق کی گرہ کشائی کرنے کی سعی کی۔ اپنی ذاتی اُپج کوبروئے کار لاتے ہوئے اس نے واضح کیا ولیم بلیک کی تخلیقی فعالیت میں علامات کے ایک خاص نظام کو محوری حیثیت حاصل ہے۔ تخلیقی عمل میں یہ علامات ایک ایسے نفساتی کُل کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیںجن کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت اور تاب و تواں کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔اس نے روحانیت کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بادی النظر میں ولیم بلیک کی پیشین گوئیوں کے پس پردہ انجیل کی الہامی تعلیمات کے اثرات ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ولیم بلیک کی پیشین گوئیوں کے سوتے اس کی روحانیت ،استغنا اور تپسیاسے پُھوٹتے ہیں۔ادبیات عالیہ کے دس سال کے مطالعات اور تحقیق و تنقید کا ثمر، Fearful Symmetry کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کتاب میں ہرمن نارتھروپ فرائی نے قارئین کو ولیم بلیک کی تخیلاتی دنیا کے پر اسرار ماحول سے روشناس کرانے کی کو شش کی اس کتاب کی اشاعت سے ولیم بلیک کے خیالات کے بارے میںپایا جانے والا ابہام دور ہوگیا۔اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین کو تخلیق کار کی آواز ، اسلوب اور تصور ِحیات سمجھنے میں مدد ملی ۔ تحقیق و تنقید کا حسین امتزاج، حوالہ جات کی منفرد اور ممتاز کیفیت ، اظہار و ابلاغ کی شان دل ربا ئی ، جامع انداز میں موضوع کا احا طہ ، سادگی اور سلاست ، صداقت اور ثقاہت ،دلائل اوربیانات کی مسحور کُن مطا بقت اور مو ضوع سے درد مندی اور خلو ص کے تعلق کی بنا پر اس کتا ب کو بے پنا ہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ ولیم بلیک کے اسلوب کے بارے میںاس اہم تنقیدی تصنیف کے بعد ہرمن نار تھروپ فرائی کی ایک اورتصنیف ’’Anatomy of Criticsm‘‘کے نام سے 1957میں شائع ہوئی۔ بیسویں صدی میں ادبی تھیوری کے موضوع پر یہ کتاب کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔اس تنقیدی کتاب میںچاروقیع مقالا ت شامل ہیںجن میں مصنف نے اس امر کی مقدور بھر کوشش کی ہے کہ ادبی تنقید کے دائرۂ کار،نظریہ،اصول،تکنیک اورقواعد و ضوابط کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے اور تمام متعلقہ امور کے بارے میں حقائق پیش کر کے قاری کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کر کے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی گئی ہے۔ ہرمن نارتھروپ فرائی کے خیالات کا عمیق مطالعہ کرنے سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس نا تما م کائنات میں دما دم صدائے کن فیکوں آ رہی ہے ۔بادی النظر میںہر انسان اس وسیع وعریض کا ئنات کے تمام مظاہر کو دو حصوں میں منقسم پاتا ہے ۔ اس عالمِ آب و گِل میں دو حصے کیا ہیں ؟ یہی سوال عہدِ حاضر کے قاری کے لیے توجہ طلب ہے۔ان میں سے ایک توہر فرد کا مطلوبہ اور پسندیدہ حصہ ہے جس میں راحت اور اطمینان، مسرت و انبساط اور حسن و رومان کی فراوانی زندگی میں شادمانی کی نوید لاتی ہے ۔دوسرا حصہ جسے نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ رنج و کرب ،یاس و ہراس اور اضطراب کے عذاب سے متعلق ہے ۔اس المیہ میںاپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں نہاں کر کے زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔ اس کے تصور ہی سے سینہ و دِ ل حسرتوںسے چھا جاتا ہے اور یاس و ہراس کے ہجوم میں دل گھبرا جاتا ہے اور آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی ہے ۔ تخلیقِ ادب میں بھی ایک تخلیق کار کا واسطہ دونوں قسم کے حالات سے پڑتا ہے۔فکر و خیال کی دنیامیں طربیہ اور المیہ کی جو کیفیات صبح و شام اور باغ و جنگل کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں ان کا تعلق زندگی کے ان نمونوں ہی سے ہے۔ اپنے تنقیدی اسلوب میںہرمن نار تھروپ فرائی نے تنقید کو ایک منفرد روپ اور نئے آہنگ سے آشنا کیا۔ اپنی اس معرکہ آرا تصنیف میںہرمن نارتھروپ فرائی نے نئی تنقید کی بالادستی،غلبے اور فکر ی تسلط کومدلل انداز میں چیلنج کر کے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ۔اس نے تنقید کو جو معیار ،وقار ،سانچہ ،ڈھنگ ،پیمانہ ، اسلوب ،رنگ اورنمونہ عطا کیا وہ اس کی ذات قرار دیاجا سکتا ہے ۔اس نے تنقید کے لیے جس طرزِ فغاں کی اختراع کی اسی کو مستقبل کے لیے طرزِ ادا کا درجہ ملا۔تنقید کے اس خاص نمونے کو ہرمن نار تھروپ فرائی کے مجوزہ تنقیدی سانچے (Archetype)سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے آثار ہر عہد کی تنقید میں ملیں گے۔
وکٹوریا کالج یو نیورسٹی میں ہرمن نار تھروپ فرائی نے سال 1929میں داخلہ لیا جہاں وہ ٹائپ کے ایک مقابلے میں حصہ لینے کے بعدپہنچاتھا۔ وکٹوریہ کالج یونیورسٹی جس نے1836میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا تعلیم کے وسیلے سے کردار کی تعمیر کی مساعی کے معتبرحوالے سے دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہے ۔ فلسفہ اور ادیانِ عالم میں اپنی تعلیم ٹور نٹو یونیورسٹی سے مکمل کرنے کے بعدہرمن نارتھروپ فرائی نے 1936میں کچھ عرصہ چرچ کے منتظم کے طور پر کینیڈا میں خدمات انجا م دیں۔ وہ بچپن ہی سے ادب اور فنون لطیفہ کا شیدائی تھا۔ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد وہ اعلا تعلیم کے حصول اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم کی خاطر میرٹون کالج آکسفورڈ پہنچا۔آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ 1939میں واپس ٹورنٹو پہنچااور اپنے محبوب تعلیمی ادارے وکٹوریہ کالج یو نیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا۔سال 1952میں وہ اس عظیم اور قدیم مادر علمی میں انگریزی ادبیات کے شعبہ کا صدر بنا۔اس کے بعد وہ اسی تاریخی درس گاہ کا پرنسپل مقر ر ہوا اور نو برس (1968-1967)یہاں قیام کیا ۔ اس مادر علمی کے ساتھ اس کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی یہاں درس و تدریس میں گزار دی ۔اس کی قابلیت اور وسیع تدریسی تجربے اور علمی خدمات کے اعتراف میں ہرمن نار تھروپ فرائی کو اس جامعہ کا چانسلر مقرر کیا گیا جہاں اس نے چودہ برس (1978-1991) تکخدمات انجام دیں۔ بر طانیہ اور امریکہ کی تمام بڑی جامعات میں اس کے توسیعی لیکچرز کا تواتر سے اہتمام کیا جاتا تھا جہاں لاکھوں طلبا اس رجحان سا زادیب کے خیالات سے مستفید ہوئے ۔ اس کی ادبی تھیوری کی علمی و ادبی حلقوں میں وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی اور دنیا کی متعدد جامعات نے اسے اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔ اس کی ایک مثال چارلس ایلیٹ نارٹون پروفیسر آف پوئٹری کی حیثیت سے اس کا ہارورڈ یونیورسٹی میں (1974-1975) تقرر ہے ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بیسویں صدی کا سب سے اہم اور مؤثر نظریہ ساز نقاد تھا۔
ادب کے طالب علم جب اس یگانۂ روزگارادیب کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہیں تو ان پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہرمن نار تھروپ فرائی نے تخلیق ِفن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی وہ ثمر بار ہوئی۔اس کاخیا ل تھا کہ جہاں تک تخلیقِ فن اور تکنیک کے تنوع کا تعلق ہے ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی اہم ترین ،افادیت سے لبریز،قوی ،فکر پرور اور خیال افروز مباحث سے معمور تخلیق ہی اس کی وہ زندۂ جاوید تصنیف ہے جس میں تقلیدکی مہلک روش کو ترک کر کے جد ت کے مظہر نئے تجربات کو فکرو فن کی ساس بنایا گیا ہو ۔جہاں تک رنگ ،خوشبو اور حُسن و خُوبی کے جُملہ استعاروں کی جستجو کا تعلق ہے یہ صداقت ،خوبی اور خیر کی تلاش سے کہیں بڑھ کٹھن مسافت ،صبر آزما مشقت ،مجنونانہ طلب ،جان لیوا ریاضت اور طرزِ زندگی کی تپسیا کی احتیاج ہے۔زندگی کے ان کٹھن مراحل کو طے کرتے وقت ذاتی انا کے مدار سے نکلنا پڑتا ہے اور وسعت ِ نظر کو شعار بنانا پڑتا ہے ۔ ہرمن نار تھروپ فرائی کواس بات کا قلق تھا کہ دنیا کے بعض ممالک کے باشندے زرو مال خر چ کرنے میں اسراف کامظاہرہ کرتے ہیں ،کچھ قومیں آمد و خرچ کے حساب کی جانچ پرتال پر اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہیں لیکن فکر وخیال کی اس تہی دامنی کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے اور تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی اور معاشرتی حالات میںزندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی زبوں حالی کے باعث قحط الرجال کی جس کیفیت نے نوع ِ انساں کو ناقابل اندمال صدمات سے دوچار کر رکھا ہے اس کی جانب کسی کو دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں۔ جب کارواں کے دِ ل سے احساس ِ زیاں عنقا ہونے لگے تو بے حسی اور بے عملی کا عفریت ہر سُو منڈلانے لگتا ہے جو سماجی اور معاشرتی زندگی کے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔اپنی تسبیحِ روز و شب کادانہ دانہ شمار کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہرمن نار تھروپ فرائی نے کئی چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ۔اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ ہر ذی شعور شخص کو دِن کا آغاز آنے والے لمحات کی پیش بینی اور غور و خوض سے کرنا چاہیے۔دوپہر تک اسے اپنے ارادی افعال کی تنظیمِ نو پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔جب شام کے سائے گہرے ہونے لگیں تو کام کے سب سلسلے موقوف کر کے طعام ،آرام اور گردش مدام سے بچ کر نیند کی آغوش میں جانے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔بادی النظر میں یہ ایک عام سی بات ہے مگر اس میں زندگی کی حقیقی معنویت کواُجاگر کرنے کی خاطر جس خلوص اور دردمندی پر مبنی پیرایۂ اظہار اپنایا گیا ہے وہ فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا موثر وسیلہ ہے ۔
نئے تجربات اور جدید انداز فکر کی مظہر اپنی عملی تنقید میں ہرمن نارتھروپ فرائی نے واضح کیا کہ طرزِ ادا اور منفردد اسلوب ہی کوایسے معائر اور کسو ٹی کی حیثیت حاصل ہے جو تخلیقی فن پارے کی جانچ پرکھ کے لیے نا گزیر ہیں۔ ہر من نارتھروپ فرائی نے نئی تنقیدکے تصورت پر سب سے پہلے کاری ضرب لگاتے ہوئے اس پر گرفت کی ۔اس نے تیشۂ حر ف سے نئی تنقید کے خودساختہ نظریاتی حصار کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا اور اس کے ساتھ ہی ساختیاتی فکر کو پروان چڑھانے میںاہم کردار ادا کیا ۔اس نے اس جانب متوجہ کیا کہ نئی تنقید نے انفرادی سو چ پر مبنی تخلیقی عمل میں زبان و بیان اور لسانی عمل کے تجزیہ پر جس طرح اصرار کیاوہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناطر میں ناقابل عمل ہے۔ اپنی عملی تنقید میں اس نے ٹی۔ایس ایلیٹ ،جان ملٹن اورشیکسپئیرکا اسلوبیاتی مطالعہ کرتے وقت اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ۔انگریزی ادبیات پر رومانویت کے اثرات پر اس کے تجزیاتی مطالعات کی اہمیت کاایک عالم معتر ف ہے۔اس نے اپنی تنقیدی بصیرت سے نہ صر ف کینیڈین ادبیات کی ثروت میںاضافہ کیا بل کہ اس کے فکر پرور اور خیال افروز مباحث کے عالمی ادبیات پر بھی دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ادب کو محض حقیقت نگاری کی اقلیم قرار دینے کے خلاف ہرمن نار تھراپ فرائی کے خیالات نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی ۔اس کے خیالات کے بارے میں متعد د تحفظات کااظہار کیا گیا لیکن اس نے اپنے موقف میں کبھی کوئی لچک نہ دکھائی اور سدا حق گوئی اور بے باکی کو اپنا شعار بنایا ۔
چار ابواب پر مشتمل ہرمن نار تھروپ فرائی کی معرکہ آرا تنقیدی کتاب ’’Anatomy of Criticism‘‘ جو ایک واضح ادبی نظریے کی امین ہے گلشنِ ادب میںتنقید کے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند قریۂ جاں کو معطر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئی۔اس کتاب میں کسی ایک قوم یا مملکت کے ادب کا کسی دوسری قوم کے ادبیات سے موازنے کا کوئی تصور نہیں۔ادبی کائنات کے انداز نرالے ہوتے ہیںجہاں اپنے من کی غواصی کرنے کے بعد سراغِ زندگی مل جاتا ہے ۔اس کتاب کے مداح یہ کہتے ہیں کہ ایسی وقیع تصانیف کسی کتاب مر کز یا کسی اشاعتی ادارے کی مرہون منت نہیں ہوتیں بل کہ انھیں ایک ادبی میراث قرار دیا جا سکتا ہے جس سے لوگ نسل در نسل فیض یاب ہوتے ہیں اور ان خیالات کو لمحے نہیں بل کہ صدیاں سنتی ہیں۔مصنف نے مغربی ادبیات کے وسیع اور عالمانہ مطالعہ کو اپنی اولین ترجیح قراردیا۔اس کتاب میں ادبی تنقید کو تخلیق کا درجہ دے کر مصنف نے اپنے اشہبِ قلم کی خُوب جو لانیاں دکھائی ہیں۔اس کتاب کے مطالعہ سے قاری کے فکر و خیال کی دنیا میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے ۔مصنف نے اپنی تنقیدی بصیرت ،تخلیقی وجدان اور ذہن و ذکاوت کو اس سلیقے اورقرینے سے پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے کہ قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تنقید کوبھی تخلیق کی اثر آفرینی کے فن سے متمتع کر دیا گیا ہے ۔یہ کتاب معجزۂ فن کی ایسی نمود ہے جس میں طُول دئیے گئے مفروضوں کو سمیٹتے ہوئے مثبت نتائج تک رسائی کی مساعی کو ثمر بار کرنے کی کاوش قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔پہلے باب میں اس نے ادب میں حقیقت نگاری کی مختلف سطحوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ۔اس باب میں اس نے کئی نمونے پیش کر کے حقائق کی گرہ کشائی کی سعی کی ہے ۔اس کتاب کے دو سرے باب میںنشانات(Symbols)سے وابستہ حقائق پر توجہ دی گئی ہے۔یہ نشانات متعدد ازلی اور ابدی صداقتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔کتاب کا تیسرا باب پُراسرار مفروضوں کے احوال پر مشتمل ہے۔ ادبی تھیوری اور تنقید سے متعلق اس اہم باب میں اپنی تنقیدی بصیرت اور ذہن وذکاوت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ہرمن نار تھروپ فرائی نے نہایت مؤثر انداز میں یہ واضح کیا کہ جہاں سب موسموںکا تعلق دل کے کھلنے اور مرجھانے سے ہے وہاں فطرت بھی ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف ِ عمل رہتی ہے ۔ خزاں ،بہار ،سرما اور گرما کا اپنے وقت پر آنا جانا فطرت کے مقاصد اور قدرت کی منشا کا مظہر ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سب موسموں کا تعلق دِل کی کلی کے کھلنے اور مُرجھانے سے ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کا بھی موسموں کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ہرمن نارتھروپ فرائی نے گرما کو رومان ،خزاں کو المیہ ،سرما کو طنزو مزاح اور بہار کو طربیہ کیفیات کامظہر قرار دیا۔ کتاب کے چوتھے باب میں اصناف ادب کی ہئیت اور اسلوب سے بحث کی گئی ہے ۔مصنف نے ادب اور فنون لطیفہ کے حوالے سے اس باب میں موسیقی ،رزمیہ اور ڈرامہ پر نئے اورخیال افروزتنقیدی مباحث کے ذریعے جمود کا خاتمہ کر تے ہوئے اشہب قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔
ہرمن نارتھروپ فرائی ایک سنجیدہ ،خاموش طبع اور ادب کا گوشہ نشین خدمت گارتھا۔وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لو ح وقلم میں مصروف رہا۔اس نے ساختیاتی فکر کو بہ نظر تحسین دیکھا اور اسے جہانِ تازہ کی مہکتی ہوئی ہوا سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے افکار کی اساس بنایالیکن وہ ساختیات کا پر جوش اور صفِ اول کا حامی نہیں تھا۔اس نے ماضی کے مفروضوں کی اساس پر استوارادبی حکایات پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ادب میں حقیقت پسندی اور مقصدیت کو مروّج و مقبول بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کا خیال تھا کہ ماضی کی داستانوں کے طلسمِ ہوش رُبا سے باہر نکل کر زندگی کے تلخ حقائق سے آنکھیں چار کرنا ہی وقت کااہم ترین تقاضا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادب میں حسن و رومان پر مبنی افسانوی اسلوب کو بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔اس نے کہانیوں کی چار قسمیں بتائی ہیں۔ کہانیوں کی یہ قسمیں رومانس،طربیہ ،المیہ اور طنزیہ ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ادب میں سائنسی طریق کار کی اساس پر استوار ٹھوس مقصدیت اور خالص حقیقت نگاری اسلوب کو رنگینی،جاذبیت اور دل کشی سے محروم کر دیتی ہے ۔اس لیے اس نے دل کے ساتھ پاسبانِ عقل کی موجودگی کو مناسب بھی سمجھا لیکن یہ بھی کہا کہ حسن و عشق کی داستانوں اور پیمانِ وفا کے افسانوں میں عقل سے آگے نکل کر دل کے افسانے نگاہوں کی زباں پر لانا تنہا دل والوں کاکام ہے ۔ ایسے سخت مقامات پرعقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے ۔ ہرمن نارتھروپ فرائی نے ادب کے تنقیدی مطالعہ کی ضرورت و اہمیت کا اُجاگر کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ ادب کا تنقید ی مطالعہ افراد کی صلاحیتوں کو صیقل کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے اور جہدو عمل کی نئی راہوں پر گامزن ہونے پر مائل کرتا ہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی کو شدید دشواریوں اور کٹھن مسائل کا سامنا ہے۔ اس شہرِ نا پرساں کے جس معاشرے میں ہم سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیںاس میں ایک خاص زاویۂ نگاہ کا انتخاب وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ انسانی زندگی کی بے اعتدالیاں ، تضادات ،معاشرتی حالات اور سماجی زندگی کے ارتعاشات سے تخلیق کار گہرے اثرات قبول کرتا ہے ۔ادب کے تنقیدی مطالعہ کے معجز نما اثر سے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں حقیقی شعور وآ گہی کو پروان چڑھانا ممکن ہے ۔ زندگی اور اس کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنا ہرمن نارتھروپ فرائی کا مطمحِ نظر رہا ۔اس کی تحریروں میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی پر زور دیاگیا ہے ۔ فرد کی زندگی کی ترجیحات اور نا آسودہ خواہشات کے بارے میں اس نے ایک جگہ لکھا ہے :
,,The wider concern based on the preference for life,freedom,and happiness to their oppositesis,as we have just called ita projection of desire.The source of all dangers to socialroutine,real or fancied,is man,sfeelings that his desires are not fulfilled by his community,,(1)
ہرمن نارتھروپ فرائی نے اس جانب متوجہ کیاکہ ہر زبان میں الفاظ کی ایسی مثالیں اور نمونے موجود ہوتے ہیںجو کئی طرفیں اور معانی رکھتے ہیں۔ بعض تخلیقات ایسی بھی ہوتی ہیںکہ متکلم کائنات کی وسعتوں تک پھیل جاتی ہیں۔ان کی ورق ورق خاموشی زندگی کی داستان حر ف حرف بیان کر دیتی ہے ۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے اپنی نوعیت کے یہ اولین نمونے(Archetype) کہلاتے ہیں جو ہر عہد میں لائق تقلید سمجھے جاتے ہیںاورانھیں گنجینۂ معانی کے طلسم کی حیثیت حاصل ہے۔اس کی چند مثالیں قابل غور ہیں:
باغ: محبت اور نمو،جنگل:درندگی،لاقانونیت ،خطرات،دریا:رواں دواں زندگی،سمندر:وسعتِ ظرف ،خزائن،جزیرہ: تنہائی،پہاڑ : روح اور قلب کی رفعت،مینار:قوت اور ہیبت،گائوں:سادگی،خلوص اور ملنساری۔
زبانوں میں نشان(Symbol)کو ہمیشہ گہری معنویت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ہرمن نار تھروپ فرائی نے نشان ،معنی نما اور تصور معنی کے مباحث میں گہری دلچسپی لی۔اس نے متعدد نشانات کے مفاہیم کی جانب متوجہ کیا جن میں چند درج ذیل ہیں:
روشنی: اُمید،تاریکی:مایوسی،پانی:روئیدگی اور زندگی،آگ:جسم کی تمازت ،جذبوں کی جولانی،برف:بے حسی،موت اور جہالت،کالا : تیرہ شبی،سرخ:خون،جذبوں کی جولانی،سبز:سبزہ و گُل کی نمو،زمین کی ہریالی،سفید:خالص ،بادل: راز،دِل : محبت ۔
ہرمن نار تھروپ فرائی کے تنقیدی خیالات دقیق اور نکتہ رس ہیں اور اس نے اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کوکافور کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔اس نے واضح کیا کہ جس طرح اس وسیع و عریض عالم آب و گِل میںفطرت نے اپنا ایک نظام وضع کررکھا ہے جس کے تحت تمام مظاہر فطرت مدام حرکت میں رہتے ہیں ۔اسی طرح اسالیب، الفاظ ،معانی اور تخلیقی عمل بھی ایک نظام کے تحت سدا سر گرمِ سفر رہتے ہیں۔نیچرل سائنسز کے بارے میں بھی اس کا یہی تصور تھا کہ شجر ،حجر ،مادہ ،عناصر ، زندگی کے جملہ مظاہر اوراجرام فلکی سب ایک واضح اور مربوط نظام کے ساتھ منسلک ہیں۔اسی طرح جب ایک تخلیق کار قلم تھام کر تخلیقی عمل کی راہ پر گام زن ہوتا ہے تو وہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھاتا ہے ۔یہ سارا تخلیقی عمل الفاظ کی صورت گری کے ایک منفرد نظام کا حصہ ہے ۔ اس کے باوجود اس تلخ حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتاکہ اگرچہ ہر من نارتھروپ فرائی کے تنقیدی نظریات ادب کے لیے بالعموم حیات آفرین ، قوت بخش اورحرکت و حرارت سے لبریز سمجھے جاتے ہیں لیکن انھیں وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہرمن نار تھروپ فرائی کے تنقیدی خیالات میں اصنافِ ادب کے بارے میںجس خاص درجہ بندی کا غلبہ دکھائی دیتا ہے وہ کسی ٹھوس دلیل یا مثبت بنیاد کی بنا پر نہیں بل کہ یہ درجہ بندی مصنف کی ذاتی پسند اور نا پسند پر مبنی آمرانہ طرز فکر کی مظہر ہے ۔ اسی وجہ سے بعض سخت گیر ناقدین اس درجہ بندی کو خشک اسلوب کی آئینہ دار بے لچک درجہ بندی پر محمول کرتے ہوئے اس پر انحصار نہیں کرتے ۔ادب اور فنون لطیفہ کے متعدداقسام کو ہرمن نارتھروپ فرائی کی متعین کردہ حدود اور درجہ بندی میں ان کے استحقاق کے مطابق موزوں اور بر محل جگہ نہیںدی جاسکتی ۔سائے کا تعا قب ، نشان کا شکار اور عنقا کی تلا ش بسیار سے تھک ہار کر قا ری ان پیچیدہ خیا لوںمیں کھو جا تا ہے کہ ان حالات میں کون سی اُلجھن کو سلجھا نے کی سعی کی جائے۔
جہاں تک تخلیق ادب میں نمونے کا تعلق ہے ہرمن نار تھروپ فرائی نے اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہا کہ ادب میں نمونہ در اصل ایک علامت ہے جسے ایک عکس سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔اپنی ماہیت کے اعتبار سے نمونے کو ایک ایسے عنصر کی حیثیت حاصل ہے جو ایک زیرک،مستعد اورفعال تخلیق کارکی شخصیت کی پہچان اور مجموعی اعتبار سے اس کے متنوع تجربات ،مشاہدات،جذبات ،احساسات اور میلانات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔تاریخی حقائق اور تاریخ کے مسلسل عمل کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں پُراسراریت کی فضا میں پروان چڑھنے والے مفروضوں کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا رہا ہے ۔پُر اسرار مفروضوں میں انسان کی دلچسپی نسل در نسل وراثت میں منتقل ہو تی رہی ہے اور ان کی جادو بیانی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان مفروضوں کی توسیع و ترویج و اشاعت کا سلسلہ بھی ہر دور میں جاری رہا ہے ۔ادب کا وہ سہل پسندقاری جو مفروضوں کے ذکر سے اُلجھن محسوس کر تا ہے ،جسے ہیملٹ محض اس لیے نا پسند ہے کہ اس میں بُھوتوں کا ذکر ہے اور وہ بُھوتوں کے وجود کو تسلیم نہیںکرتا یا وہ ان تخلیق کاروں کے شعری ریاض سے نالاں ہے جو علم عروض کی پانچ بحور میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے عادی ہیں ،ایسے کور ذوق شخص کا ادب سے کوئی سروکار نہیں ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب مادی دور کی لعنتوں نے زندگی کی اقدار ِ عالیہ کو شدید ضعف پہنچایا ہے ادب سے قاری کا معتبر ربط اب قصۂ پارینہ بنتا جارہا ہے ۔ہرمن نار تھروپ فرائی نے اس صورت، حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب عوام میں تنقیدی شعورعنقا ہونے لگے اور وہ اپنی ذاتی پسند اور نا پسند اور اپنی خواہشات کے مطابق ادب کی تاویلات اورغیر محتاط حوالہ جات کو وتیرہ بنا لیں تو اُن کی یہ بے بصری اور کور مغزی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیتی ہے اور تحریروں میں بے حسی ،خوف ،دہشت اور تشدد کے رُجحانات کو تقویت ملتی ہے ۔ جب مطالعہ ادب اور تخلیقِ ادب کو ذاتی مفادات کے تابع بنا لیا جائے تویہ امر کسی بھی معاشرے کے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔
ہرمن نار تھروپ فرائی ایک کثیر التصانیف ادیب تھا ۔ عالمی ادبیات کے بدلتے ہوئے معائر اوررجحانات پر اس کی گہری نظر تھی ۔اس نے اپنی بیس سے زائد وقیع تصانیف اور ایک سوسے زائد عالمانہ مقالات سے انگریزی اور کینیڈین ادبیات کی ثروت میں جو اضافہ کیا اس کے بارِ احسان سے اہل علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔اس کی تصانیف کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ۔دنیا کی جن بڑی زبانوں میںاس کی تصانیف کے تراجم کیے گئے ان میںچینی،چیک،ڈینش،ڈچ،فرنچ،جرمن،یونانی،جاپانی،کورین،رومانین،پولش،سربو کرویسن اور سپینش شامل ہیں ۔اس کی تنقیدی تصانیف کا جائزہ لینے کے بعدیہ حقیقت و ضا حت طلب بن جاتی ہے کہ لسا نیات ، نفسیا ت ، علم بشر یا ت ، مذاہب ، تاریخ ، قا نون اور ہر چیز کے با رے میں ان مختلف علوم کی کتابوں میںجو لفظی مر قع نگا ری کی ہے ۔ اس میں کہا ں تک اصلیت مو جو د ہے ۔ کیا یہ سب مر قع نگاری ان مو ہو م تصورات اور مفرو ضوں کی اساس پر استوارنہیںہے جس کی عالمی ادبیات میں فراوانی ہے ۔اس سادہ سے سوال کا نہایت آسان جواب ہر با شعور انسان کے ذہن میں گردش کررہا ہے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے وہ یقیناً قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے ۔اسی بارے میں ہرمن نارتھروپ فرائی کا استدل یہ رہا کہ سارے ڈسکورس ایک خاص لسانی ساخت کے مظہر ہیں۔ ہرمن نار تھروپ فرائی کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
1. Fearful symnetry 1947
2. Anatonmy of Critcism 1957
3. The Educated Immagination 1963
4.Thegreat code 1982
5.The collected work of Northrope Frye 2008
6.The secular scripture 1976
7.The daubb vision 1991
8.The Bush garden essay 1971
9.Northrope Frye on Shakespeare 1986
10.Fabbles of identity 1963
11.A natural perspective 1965
12.The critical path 1971
13.Fools of time 1967
14.Myths and Metaphor 1990
15.The well tempered 1963
16.Spiritus Mundi 1976
17.The myth of deliverance 1983
18.Creation of recreation 1980
19.The stubborn structure 1970
20.The Harper hand book to literature 1985
21.Reaching the world 1990
22.The modern century 1967
ہرمن نارتھروپ فرائی کا شمار بیسویں صدی کی ادبی تھیوری کے ممتاز نقادوں میں ہوتا ہے اس کے ناقدین کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اس کی تنقید کا سحر ٹوٹنے لگا ہے ۔وہ نقاد جس کی جرأت آموز تابِ سخن نے معاصر نئی تنقید کے علم برداروں پر کڑی تنقید کی خود بھی تنقید کی زد میں آ گیا ۔اس کے باوجود دنیا بھر میںہرمن نارتھروپ فرائی کی عزت و تکریم بر قرار ہے اور اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس نے جو اعزازات حاصل کیے وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کے مترادف ہے۔اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ کوئی اور کہاں ستارے چُھو سکتا ہے سب کی سانس راہ میں اُکھڑ جاتی ہے ۔اس نے دنیا کی ایک سو سے زائد مشہور جامعات میں توسیعی لیکچرز دئیے۔ پُوری دنیاسے اسے تیس سے زائد اعزازی ڈگریاں ملیں ۔آرڈر آف کینیڈا کا اعز از اسے ملا ۔ اسے گورنر جنرل ایوارڈ برائے ادب عطا کیا گیا۔اس کا یادگاری ٹکٹ جاری ہوا ۔اس کی مادر علمی کا نام اس کے نام پر نار تھروپ فرائی سکول رکھ دیا گیا۔ٹورنٹو یو نیورسٹی میں نار تھروپ فرائی سنٹر کا قیام عمل میں لایاگیا جہاں اس یگانۂ روزگافا ضل کے تنقیدی نظریات اور ادبی تھیوری پر تحقیقی کام جاری ہے ۔ اس کے مداح اسے جدید دور کا ارسطو قرار دیتے ہیں جب کہ بعض لوگوں کے نزدیک وہ ہیو مینیٹیز(Humanities) کا آئن سٹائن ہے ۔ اس کا شمار دنیا کے ان بارہ ممتاز ناقدین میں ہوتا ہے جن کاہر عہد میںسب سے زیادہ حوالہ دیا جاتا رہا ہے ۔کینیڈا کے مشہور شہر مونکٹون کی پبلک لائبریری کے سامنے چودہ جولائی 2012کو اس رجحان ساز نقاد کی ایک سوویں سال گرہ کے موقع پر کانسی کے بنے ہوئے مجسمے کی تنصیب ہوئی ۔ہر من نار تھروپ فرائی ایک بنچ پر بیٹھا ہے اور کتاب تھامے مطالعہ میں مصروف ہے ۔مطالعہ اور تحقیق و تنقید میں اس کے انہماک کا وہی عالم ہے جو زندگی بھر اس کا معمول رہا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی یہ کہہ رہا ہے :
تیزرکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
مآخذ:
(1) Northrop Frye: The Stubborn Structure,Routledge,New York,1970 ,Page 29