ہیلو ،،، کون ؟ ” آواز سنجیدہ رکھتے ہوئے پوچھا – مگر اگلے ہی لمحے فون پر ابھرنے والی آواز نے اسے ساکت کر دیا- کیونکہ فون سلمان قاضی کا تھا-
” السلام علیکم ! ” دوسری جانب سلمان نے کہا –
” وعلیکم السلام ! ” ہچکچاتے ہوئے جواب دیا-
اس وقت سلمان کا فون اس کیلئے تعاجب کا باعث تھا- بیڈ کی دوسری جانب دیکھا جہاں حوریہ سو رہی تھی- اگر جاگ رہی ہوتی تو سلمان کے فون کی وجہ سے اسے کافی تنگ کرتی- حوریہ کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی-
” میں نےایک ضروری بات کرنے کیلئے آپ کو فون کیا ہے ” – منہل نے محسوس کیا کہ سلمان کا رویہ کافی خشک تھا – پھر اپنا ہی وہم سمجھتے ہوئے سر جھٹک دیا-
” منہل ،، کیا آپ اس رشتے سے خوش ہیں ؟ ”
اچانک وہ اس واضح سوال پوچھنے پر منہل گھبرا گئی- مگر پھر پورے اعتماد کے ساتھ بولی-
” جی میں اس رشتے سے مطمئن ہوں کیونکہ یہ میرے والدین کا فیصلہ یے – – جو کبھی بھی اپنی بیٹی کیلئے برا نہیں چاہیں گے – ” ♥️
ہمم ،، صحیح !! ” خشک انداز میں کہ کر فون بند کردیا –
کچھ دیر فون پر خاموشی چھائی رہی-
منہل سلمان کے اس رویے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
گھر میں ہر کوئی بھر چڑھ کر نکاح کے فنکشن میں حصہ لے رہا تھا- کیونکہ یہ اس گھر کی پہلی خوشی تھی – عائشہ بیگم ، رخسانہ بیگم اور نفیسہ بیگم تینوں ابھی شاپنگ کر کے لوٹی تھیں- شاہ مینشن کے ہر فرد کے ذمے کوئی نہ کوئی ذمہ داری سونپی گئی تھی- حوریہ اور خازن نے منہل کو تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی- غزلان اپنے روم میں تھا – کیونکہ وہ شادی بیاہ کے فنکشنز سے دور ہی رہتا تھا-
” جاؤ منہل بیٹا ، غزلان کو چائے دے آؤ “- رخسانہ بیگم نے منہل سے کہا- انہوں نے ہمیشہ منہل کو اپنی بہو کے روپ میں دیکھا تھا مگر اگر اللّٰہ کو کچھ اور ہی منظور تھا- اس سے پہلے کہ وہ اور بلاول شاہ ،، وقار شاہ اور نفیسہ بیگم سے بات کرتے منہل کا سلمان کیلئے رشتہ آ گیا تھا- جس پر بلاول شاہ خاموش ہوگئے-
منہل نے ڈرتے ڈرتے دروازہ بجایا- اجازت ملتے ہیں وہ اندر داخل ہوئی مگر سامنے نظر پڑتے ہی نظر پھیر لی- غزلان بلیک ویسٹ اور ٹراؤزر میں آنکھوں پر ہاتھ رکھے بیڈ پر لیٹا تھا- غزلان کو لگا کہ امی اس کیلئے چائے لائی ہونگی- مگر سامنے منزل کو دیکھتے ہی فوراً شرٹ پہن لی –
” وہ ،، وہ چائے،، مجھے تائی جان نے چائے لانے کے لئے کہا تھا” – گھبراتے ہوئے جواب دیا-
” ہمم ،، سائیڈ پر رکھ دو ” – غزلان نے ایک اچٹتی نگاہ نگاہ ڈال کر کہا اور فون سے اسے ہال کی تھیم دکھائی-
” اگر تم اس میں کوئی تبدیلی کروانا چاہتی ہو تو بتا دو ورنہ یہی سلیکٹ کر لیتے ہیں” – غزلان نے شانے اچکا کر کہا-
” جی،، یہی ٹھیک ہے ” – مدھم سی آواز میں کہا-
“Okay !! done ” …..
سر ہلاتے ہوئے کہا۔
آپ کو کو پین کلر چاہیے تو لا دوں ؟ ” منہل نے نظریں جھکائے پوچھا –
ہاں ،، سائیڈ والی دراز میں رکھی ہیں نکال دو ” – غزلان کو پین کلر تھما کر باہر چلے گئ-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
خازن الماری سے پارٹی میں پہننے کے لئے کپڑے منتخب کر رہا تھا جب اس کی نظر سامنے والی ٹی شرٹ پر پڑی- حیرت سے اپنی برانڈڈ ٹی شرٹ کو دیکھا جس میں بڑے بڑے چھید لگے تھے- ایک سیکنڈ میں وہ سمجھ گیا کہ یہ کس مہارانی کا کام ہے- 😂
لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا حوریہ کے روم میں گیا- مگر حوریہ اپنے روم میں نہیں تھی- ریلنگ سے جھک کر نیچے ٹی وی لاؤنج میں دیکھا- جہاں ایل سی ڈی پر اپنی فیورٹ مووی لگائے پوپ کارن کا باول سامنے رکھے کے صوفے پر لیٹی مزے سے مووی دیکھ رہی تھی- وہ اچھے سے سمجھ گیا کہ یہ حوریہ کی چاکلیٹس کھانے کا انجام ہے- جس کا بدلہ اس نے اس کی نئی ٹی شرٹ خراب کرکے لیا ہے- خود پر نظریں محسوس کر کے اس نے اوپر دیکھا- جہاں خازن اسے غصے سے گھور رہا تھا- ایسی نظروں سے دیکھا کہ تمہیں تو میں بعد میں بتاؤں گا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
بالآخر وہ دن آ گیا جس کا سب کو انتظار تھا-حال کو بہت اچھے طریقے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا-بلاول شاہ شاہ اور وقار شاہ سب کا ویلکم کررہے تھے – غزلان نے سکن کلر کی شلوار قمیض کے اوپر پر چاکلیٹ براؤن کلر کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی- جو سب کا بہت اچھے سے ویلکم کر رہا تھا- ہر نگاہ اسے سراہ رہی تھی – خازن نے وائٹ شلوار قمیض کے اوپر رایل بلو کلر کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی- جو کہ بہت دلکش لگ رہا تھا- حوریہ نے بھی وائٹ کلر کا لانگ فراک پہنا ہوا تھا- جس پر ہلکے ہلکے گولڈن کلر کا کام تھا اور ساتھ رائل بلو ہی ڈوپٹا تھا – جو کہ بہت پیاری لگ رہی تھی- منہل اور حوریہ کو سیلون سے خازن نے پک کیا تھا – قاضی صاحب تشریف لا چکے تھے کیونکہ نکاح کا وقت ہوا جارہا تھا- مگر براتی ابھی تک نہیں پہنچے تھے- وقار شاہ کے چہرے پر، پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے- جنہیں بلاول شاہ بار بار تسلی دے رہے تھے- خواتین بھی پریشان دکھائی بھائی دے رہی تھیں- ہال میں لوگوں کی چہ مگوئیاں جاری ہوچکی تھیں- وقار شاہ باربار ہمدان قاضی کو فون ملا رہے تھے- حمدان قاضی نے ان سے فون پر معذرت کر لی تھی کہ ان کا بیٹا کسی اور کو پسند کرتا ہے اور اب یہ انکاح نہیں ہو سکتا اس لئے ہم برات نہیں لا سکتے- وقاص شاہ حمدان قاضی کے یہ الفاظ سن کر لڑکھڑا گئے- بلاول شاہ بھی پریشان ہوگئے- بلاول شاہ نے وقار شاہ کے شانے پر ہاتھ رکھا اور امید دلائی کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا- غصہ ثابت کرتے ہوئے غزلان کی طرف بڑھ گئے- غزلان نے حیرت سے بلاول شاہ کو خود کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا-
” کیا تم اس خاندان کی عزت کی لاج رکھ سکتے ہو ؟ ” امید اور مان بھری نظروں سے دیکھا-
” میں،،،،،میں کیسے بابا جان؟ ” تحریر سے بلاول شاہ کی طرف دیکھا-
” منہل بیٹی سے نکاح کر کے ” ۔ ۔ ۔
بابا جان نکاح ۔ ۔ ۔ ۔وہ بھی منہل سے ” ۔ ۔ بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا-
” ٹھیک ہے ،،، ہم خازن سے کہتے ہیں ،، ویسے ہمیں تم سے یہ امید نہیں تھی ” – سپاٹ نظروں سےاسے دیکھا-
” نہیں بابا جان میں نکاح کے لئے تیار ہوں ” – سپاٹ لہجے میں کہا- بلاول شاہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور شانے پر تھپکی دی-
حوریہ،، سرخ جوڑے میں سجی سنوری شہزادیوں جیسا حسن رکھنے والی منہل کو اسٹیج پر لے کر آئی-کانپتے ہاتھوں سے اس نے نکاح نامے پر دستخط کیے-
چند لمحوں میں منہل وقار شاہ سے غزلان شاہ بن گئی-
بیٹیاں تو نازک پھول ہوتی ہیں- والدین کے گھر کی رونق اور بہار ہوتی ہیں- لاڈ سے پلی بیٹیاں پل بھر میں پراءی ہوجاتی ہیں- والدین کا مان رکھنے کی خاطر اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دیتی ہیں-
بہت سی بولتی زبانوں اور سوالیہ نگاہوں کو غزلان کے ایک فیصلے نے ان کا منہ بند کروا دیا – منہل اپنے کمرے سے غزلان کے کمرے میں رخصت ہو گئی-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...