شہناز خانم عابدی (ٹورانٹو،کینڈا)
اخبار پڑھنے میں میرا دل نہیں لگا میں نے اخبار ایک طرف رکھ کر ٹی وی آ ن کر دیا تھوڑی دیربعد اس سے بھی دل بیزار ہو گیا۔ میں نے سو چا ناول ختم کر لوں۔تاکہ واپس کر سکوں کل ہی لا ئبر یری سے مسز میکنز یؔ کا فو ن آ یا تھا کہ میں کتا بیں وا پس کر نے میں لیٹ ہو گئی ہوں‘ ناول میں بھی دل نہ لگا ۔ ایسا تو پہلے بھی کئی بار ہوا تھا کہ میریؔ اور فلپسؔ اپنی اِسٹڈی کی وجہ سے ویک اینڈ میں مصرو ف ہوتے اور میں گھرکے کام کاج میں مصروف ہو جا تی کیو نکہ مجھے بھی پو رے ہفتے کے مسا ئل جوب کی وجہ سے ان ہی دو دنوں میں نمٹا نا ہو تے ۔ میں نے چا بی اٹھائی ،گاڑی اسٹار ٹ کی اور لا نگ ڈرائیو کے خیا ل سے چل دی ۔پتہ نہیں کون کون سے خیا لا ت ذہن میں گر دش کر رہے تھے۔ انہی خیالا ت میں غوطہ زن میں ڈرائیو کر تی رہی ۔نرم نرم مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو محسو س ہو تے ہی میں نے روڈ سا ئن پر نظر کی ‘میں لیک روڈ پر تھی۔ یہ جگہ مجھے ہمیشہ سے بہت پسند ہے۔شا ید اسی لئے میں غیر ارا دی طور پریہاں پہنچ گئی۔خوبصورت جھیل اور اسکا صاف شفاف نیلگوں بہتا ہوا پانی سا ری اداسی ‘ ساری تنہائی کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔۔۔۔۔کیسا رشتہ ہے ان ابھرتی ڈوبتی لہروں سے انسا ن کا۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے ایک طرف گاڑی پارک کی اور جھیل کے ایک طرف تھو ڑی اونچائی پر بنے لان کی سیڑھیاں چڑھ کر وہاں پہنچ گئی ۔ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے کسی نے سبز رنگ کا کارپٹ بچھا دیا ہے خوبصورت پھولوں اور پھلوں کے درختوں سے مزیّن یہ لان رات کی بارش کی وجہ سے اور بھیِ نکھر گیا تھا سارا سبزہ زمرّدی رنگ کا دکھا ئی دیتا تھا۔گلاب اور بیلے کی بھینی بھینی خوشبو سے پورا لان مہک رہا تھا۔ بڑا ہجوم تھا ۔ویک اینڈ ہو اور موسم اچھا ہو تو ہجو م لا ز می ہے۔بچے بڑے سب انجوائے کر رہے تھے۔کوئی جھیل کے پاس کو ئی لان میں ۔بعض لوگ بوٹنگ کر رہے تھے کچھ کنارے پر کھڑے لطف اندوز ہو رہے تھے۔کنارے کنارے سفید بطخیں قیں قیں کرتی تیر رہی تھیں جیسے وہ بھی موسم کے مزے لے رہی ہوں۔
میں سیڑھیا ں چڑھ کر اوپر لان میں آگئی اور در ختوں کے سائے میں ایک بنچ پر بیٹھ گئی ۔ سامنے ایک کنج میں درختوں کے جھرمٹ میں بہت ساری چڑیاں چہچہا تی ہوئی ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدک رہی تھیں۔پیلی چونچ‘نارنجی اور ہرے پروں والی یہ چڑیاں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں۔ میں کافی دیر تک اس حسین نظارے میں قدرت کی کا ریگری دیکھ کر حیران ہوتی رہی۔اچانک کسی بچے کی بڑی سی گیند ایک درخت سے ٹکرا ئی اور ساری کی ساری چڑیاں اُ ڑ گئیں۔جب وہ اُڑ تی ہوئی جا رہی تھیں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے فضا میں نا رنجی اور ہرے رنگ کے ستا رے جھلملا رہے ہوں۔میں دور تک ان کو جا تے ہوئے دیکھتی رہی یہا ں تک کہ وہ اپنی منزل کی جا نب میری نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ان کے جا نے کے بعد میرا دل بھی نہیں لگا ۔میں نے سوچا کیوں نہ کافی پی جا ئے میں ریسٹو راں کی طرف چل دی جو لان کے ساتھ ہی تھا یہاں بھی خاصا رش تھامیں نے دیکھا کو نے میں دو میز خالی تھیں‘ یہ جگہ کھلی ہو ئی توتھی لیکن اوپر شیڈ ہونے کی وجہ دھوپ نہیں آ رہی تھی یہ جگہ مجھے پسند آئی اور میں وہاں جا کر بیٹھ گئی اس جگہ میں ایک یہ بھی خوبی تھی کہ یہاں سے جھیل بالکل صاف دکھائی دے رہی تھی پانی کی ریشمی لہریں دور سے مچلتی ہوئی آ تی نظر آرہی تھیں۔یہِ لہریں نت نئے رنگو ں میں تبدیل ہو تی ہو ئی دکھا ئی دے رہی تھیں۔ کبھی گہرا سبز ‘ کبھی ہلکا سبز ‘کبھی ہلکا نیلگوں اور کہیں کہیں اس نیلگوں رنگ کے ساتھ گلابی رنگ جھلکتا نظر آتا۔
لہریں سنگیت کی پائل پہنے دور تک مدھر گیت سنا تی چلی جاتیں اور میں لہروں کے اس مدھر گیت کے سحر میں اور جھیل کے
لہریں سنگیت کی پا ئل پہنے دور تک مدھر گیت سنا تی چلی جاتیں اور میں لہروں کے اس مدھر گیت کے سحر میں اور جھیل کے حسن میں کھوئی ہوئی تھی۔
’’ ہیلو‘‘
ایک جانی پہچانی آ واز نے مجھے چونکا دیا ۔سامنے جارجؔ گرِین کھڑا تھا۔پانچ سال کے بعد آج میں نے جارجؔ کو دیکھا تھا۔
’’ ہائے مائی ڈارلنگ‘ ہاؤ آر یو ‘‘۔میں نے مسکراتے ہوئے جارجؔ سے کہا۔ شاید میں اسکو اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوشی محسوس کر رہی تھی۔
’’آئی ایم فا ئن‘ تھینک یو ۔مگر یہ ڈارلنگ وغیرہ۔۔۔۔۔۔چھو ڑو یہ رسمی باتیں۔۔۔۔معنوں سے خالی الفاظ۔‘‘
’’ اوکے۔ میں نے کہامیں نہیں چاہتی تھی کہ اتنے بر سوں بعدجار جؔ ملا ہے اور اس وقت کوئی لمبی بحث چھڑ جا ئے۔اگر چہ کہ میں اندر سے اسکو ڈار لنگ ہی خیال کر تی تھی مگر اوپر کچھ بھی میرے اختیار میں نہیں تھا۔میرے باہر کو دنیا نے اور خاص طور پرمعاشی مجبو ریوں نے مضبوطی سے جکڑے رکھا۔ساری زندگی اپنے اندر کو کچلنے اور اپنے باہر کو سنبھالنے میں گزر گئی۔مگر جارجؔ برسہا برس ساتھ رہ کر بھی شاید چند لمحوں کی سچی رفاقت نہ دے سکا۔‘‘
وہ میرے سا منے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور بو لا ’’ اگر تم میرا سا تھ دیتیں اور میرا کہا مانتیں توہم لوگ علیحدہ نہ ہو تے۔تم نے مجھے کسی طرح کی سماجی زندگی گزارنے نہیں دی۔کسی کو بھی کبھی ڈنر پر بلا نے نہیں دیا نہ دوستوں کو نہ رشتے داروں کو۔‘‘
’’ جارجؔ تم جا نتے ہو میں ویک اینڈ پر دوسری جگہ جوب کر تی تھی اخرا جات پو رے کر نے کے لئے ‘‘۔ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’ مجھ پر تو مجھ پر بچوں پر بھی تم نے کتنی پا بند یاں لگائی تھیں انکی زندگی کو سو گوار بنا دیا تھا ‘ڈ یٹ پر مت جانا ‘ زیا دہ وقت دوستوں میں نہیں گزارنا، بس پڑھائی ۔۔۔پڑھائی ۔۔۔۔۔پڑھائی۔تمہیں یاد ہے ایک مرتبہ جب میں نے میریؔ کو ڈیٹ پربھیج دیا تھا بغیر تمہیں بتائے کتنا ہنگامہ کیا تھا تم نے ۔۔۔۔اور تو اور میریؔ کو اسکی کسی دوست کے گھر ’ سلیپ اوور ‘ کے لئے بھی کبھی نہیں جا نے دیتی تھیں۔ اور اف تمہاری تقریریں ۔۔۔ ۔ ڈرنک مت لیا کرو صحت خراب ہو جائیگی ‘ یہ کرو ‘ وہ نہ کرو۔اللہ رے تمہاری ہٹلریت۔ جارجؔ بولتا گیا ۔
میں نے ہمت کرکے جارجؔ کو سمجھا نے کی کوشش کی اور بولی ’’ جا ر جؔ بچوں کی اچھی تعلیم اور تر بیت کے لئے ضرو ری تھا یہ سب کچھ۔۔۔۔۔ میری ماں نے بھی کبھی مجھے ڈیٹ پر جا نے نہیں دیا تھا۔پھر تم نے خوشی خوشی مجھ سے شادی کیوں کی تھی۔اور اس وقت تو تم میرے ہم خیال تھے ‘‘ میں نے جارجؔ کو بیچ میں روک کر کہا۔
’’ تو کیا بن گئے تمھارے بچے ‘‘ اس نے پوری کڑوا ہٹ کے ساتھ کہا ۔
’’ میریؔ ڈاکٹر بن رہی ہے اور فلپسؔ سی اے کر رہا ہے۔‘‘ میں نے جارجؔ کی طرف دیکھ کر فاتحانہ انداز سے کہا۔مگر اس نے میری بات کو نظر انداز کر دیا اور کہنے لگا: ’’ تم نے کبھی سمرَ انجوائے نہیں کرنے دیا ہمیشہ یہ بہا نہ، وہ بہا نہ‘ یہ پابندی وہ پا بندی‘‘ وہ بولے جا رہا تھا ۔
’’جارجؔ تم جانتے ہو کہ ہما ری مالی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی ۔ تمہا ری کبھی بھی کوئی مستقل جوب نہیں رہی تھی۔میں دو دو جوب کر تی تھی۔گھر کے اخرا جات ‘ بچوں کی تعلیم کے اخراجا ت ‘ بچوں کے اخرا جا ت یہ سب بہت ہوتے تھے۔اور بچے ہی ہما ری سب سے پہلی ترجیح تھے مگر اب ۔۔۔۔کچھ نہیں ہو سکتا کیا بہت دیر ہوگئی ۔۔؟ میں نے نرمی سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ‘‘مگر وہ تو جیسے میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھا۔
’’ میں فی الحال سمر انجوائے کر رہا ہوں۔اور مجھے زندگی انجوا ئے کر نے دو۔ تمہا رے پاس تو زندگی صرف ذ مّہ داریوں کا نا م ہے سو تم نبھا ؤ ۔۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بو لا ۔اٹھا اور مجھ سے دور ہو تا چلا گیا۔وہ اپنی تمام کڑ وا ہٹ اگل کر جا رہا تھا ۔ اس نے کافی بھی نہیں پی جو میں نے اس کے لئے منگوائی تھی۔
میں نے اسے اپنی بصارت میں بہت دور تک اور بہت دیر تک پکڑے رکھا ۔میں اچھی طرح جا نتی تھی موسم کے مزے لوٹنے سے اس کی کیا مراد ہے ‘ سمندر ‘ پانی کی مو جیں ‘ سا حل کے نظارے اور ،اور،کوئی سی بھی عو رت۔۔۔
مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہے ایسے ہی ایک سمرَکی دو پہرتھی اس دن میری چھٹیّ تھی بچے بھی دونوں گھر پر تھے۔ہم سب لنچ کر رہے تھے جا رجؔ نے کہا ۔ ’’ ہمیں کہیں گھومنے پھرنے چلنا چاہئے۔تم آفس سے ایک ہفتہ کی چھٹی لے لو ہم سب فلورِڈا چلتے ہیں ۔ہو ٹل میں یہیں سے بُک کرا لیتا ہوں ۔خوب سمر اِنجوا ئے کرینگے۔‘‘
’’جارجؔ ۔۔مگر فلپسؔ اور میریؔ دونوں کی سمسٹر کی فیس جا نی ہے اور اسکے بعد کہاں اتنے پیسے بچیں گے کہ ہم جا سکیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے دیکھا جارجؔ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔مگر جارجؔ بولا کچھ نہیں۔میں د ل میں بہت شرمندہ تھی کہ جارجؔ کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکی۔مگر میں بھی کیا کر تی ۔؟ دوسرے دن صبح میں ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی وہ میرے پاس آیا اسکے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا کہنے لگا ۔’’ میں جا رہا ہوں‘‘
’’ مگر کہاں ‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’ معلوم نہیں۔ مگر اس گھٹن سے بہت دور۔‘‘
میں نے اسے روکنے کی بہت کو شش کی مگر وہ نہ مانا اور چلا گیا۔مجھے یقین تھا کہ وہ دو چار مہینے میں راپس آجا ئیگا۔مگر اس کا کچھ پتہ نہ چلا اور آج پانچ سال گزرنے کے بعد وہ ا س طرح ملا ۔۔اور مجھ پر الزا ما ت کی با رش کر کے چلا گیا۔میں چاہتی تھی کہ وہ رک جائے‘ میرے ساتھ گھر چلے ا ور ہم ا یک بار پھر پہلے کی طرح ساتھ زندگی گزاریں۔ شاید میں اس سے ابھی بھی بہت محبت کر تی ہوں۔۔۔؟ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا جب وہ ایک سے زائد عورتوں وا لا ہو سکتا ہے تو میں ایک سے زائد مردوں والی کیوں نہیں ہوسکتی ۔۔۔؟
میرے لئے بھی تو دوسرا مرد عرصۂ دراز سے موجود ہے ہیریؔ جو میرے ساتھ برسوں سے کام کر تاہے۔ وہ میرا انتظار کر رہا ہے کب سے؟ اور شا ید آج بھی میرا منتظر ہو۔لیکن میں تو آج بھی مسز ہیلنؔ جا ر ج گرین ہوں۔
میں پتھر کے زما نے کی عورت نہیں ہوں کہ اس کی اجازت دے دوں کہ کوئی بھی مرد مجھے با لوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اپنے غار میں لے جا ئے۔
میں نے جھیل کی طرف نظر کی۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے جھیل کے پانی میں سینکڑوں فانوس رو شن کر دیئے تھے ۔میں اٹھی‘ کاؤنٹرپر جا کر بِل ادا کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر ایک نئے عزم کے ساتھ گھر کی جانب روا نہ ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی دیر ہٹ مین کھڑے کھڑے سویٹ کا جائزہ لیتا رہا،بلیک برڈ دو گلاسوں میں وہسکی بھر لائی۔ہٹ مین اس سے ایک گلاس پکڑ کر صوفے میں دھنس گیا اور ایک ہی ڈیک میں وہسکی کا اتنا بڑا پیگ خالی کر دیا۔’’اور!‘‘
’’اس شرط پر کہ کپڑے اتار کر ایک دَم سو جاؤگے‘‘وہ اُس کے لیے ایک اور پیگ بنانے کے لیے بار کاؤنٹر کی طرف مڑ گئی’’دائیں طرف ہمارے لیے دو نہایت کوزی بیڈ روم ہیں‘‘
’’ایک ہی کیوں نہیں؟ہم کوئی میاں بیوی ہیں جو الگ الگ سوئیں؟‘‘ہٹ مین نے اس کی پیٹھ سے مخاطب ہر کر کہا۔آؤ سو جائیں دوسرا پیگ رہنے دو‘‘
’’نہیں اب پی ہی لو‘‘بلیک برڈ نے سوچا کہ نشے میں غنودگی بڑھ جائے گی تو وہ آرام سے سو جائے گا۔
ہٹ مین اچانک کچھ سوچ کر سیدھا ہو کے بیٹھ گیا’’برڈی! میری بیوی حرافہ نیو یارک میں اپنے پچھلے شوہر کے ساتھ گل چھرے اُڑا رہی ہو گی‘‘
(جوگندر پال کے افسانہ مارکیٹ اکانومی سے اقتباس)