(Last Updated On: )
شجاعِ نامورفرزندعبدالمطلب حمزہؓ وہ عمِّ مصطفٰے ؐعالی نسب والا حسب حمزہؓ وہ حمزہؓ جس کو شاہِ شہسوارانِ عرب کہئے جسے جان عرب لکھیے جسے شانِ عرب کہیے اگرچہ اب بھی اپنے کفرکی حالت پہ قائم تھے مگرفخررسل کی دائمی اُلفت پہ قائم تھے مشیّت تھی کہ ان کے دم سے تقویت ملے حق کو مٹے باطل سے شان ظاہری،شوکت ملے حق کو چلے آتے تھے اِک دن دشت سے وہ پشتِ تو سن پر شجاعت اور جلالِ ہاشمی تھا اپنے جوبن پر سوئے خانہ چلے جاتے تھے رستے میں یہ سن پایا بھتیجے ؐکو میرے بوجہل نے صدمہ ہے پہنچایا یہ سن کر جوشِ خون سے روح میں غیظ وغضب دوڑا پلٹ کر سوئے کعبہ عبدالمطلب دوڑا وہاں بُوجہل اپنے ساتھیوں میں گِھر کے بیٹھاتھا مثیلِِ ِ اَبرہَہ تھا ہاتھیوں میں گِھرکے بیٹھاتھا کیاحمزہ ؐنے نعرہ اوابوُجہل اوخرِ بزدل ! محمدؐمصطفٰی کے دین میں اب میں بھی ہوں شامل سناہے مَیں نے تو میرے بھتیجےؐ کو ستاتاہے ہمیشہ گالیاں دیتاہے اور فتنے اٹھاتاہے اگر کچھ آن رکھتاہے تو آمیرے مقابل ہو کہ تیری بدزبانی کا چکھادوں کُچھ مزاتُجھ کو بلالے ساتھیوں کو اور حمایت کرنے والوںکو ذرامَیں بھی دیکھوں اُن کمینوں کورزالوں کو یہ کہہ کر گُھس پڑے حمزہؐ گروہِ بدسگاں لامیں گریباں سے پکڑ کر کھینچ لائے اس کو میداں میں کماں تھی ہاتھ میں وہ سرپہ ناہنجارکے ماری گِراسرسے ہوگیاناپاک خوں جاری سبھی دبکے کھڑے تھے چھاگیا تھا ایک سنّاٹا مگرحمزہ ؐنے کھاکر رحم اس کا سرنہیں کاٹا کہا گرآج سے میرے بھتیجےؐ کی طرف دیکھا تیرے ناپاک چمڑے میں شُترکی لید بھردوں گا یہ کہہ کر چل دئیے مشرک بھلا کیاٹوک سکتے تھے کہیں روباہ بھی اس شیرِ نر کوروک سکتے تھے ابوجہل اس لیے دبکا پڑا تھافرش کے اوپر مباداواپس آکر قتل کرے عمِّ پیغمبرؐ یہاں سے جاکے حمزہ ؓجلدترایماں لے آئے بھتیجے کی محبت میں چچا نے مرتبے پائے