“جب چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو حضرت بلال نے پوچھا کہ تم کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں رکھ رہے ہو۔۔۔؟
“جب آپ نے اپنے بارے میں بتایا تو وہ آپ پر ایمان لے آئے اور اسلام قبول کرلیا۔۔۔۔”
“حضرت بلال رضی اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔۔۔وہ حبشی نسل کے غلام تھے۔۔۔اسلام کے پہلے مُوّذن تھے۔۔۔حضرت بلال کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے کفار نے ان پر بہت سے ظلم ڈھائے۔۔۔ سیدنا بلال حبشی امیہ بن خلف کے غلام تھے جو مسلمانوں کا سخت دشمن تھا وہ بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھالٹاکر ان کے سینہ پرپتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں اور کہتا تھا کہ یا اس حال میں مرجائیں اور زندگی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں مگر وہ اس حالت میں بھی اَحد اَحدکہتے تھے۔۔۔رات کو زنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تاکہ بے قرار ہو کر اسلام سے پھر جائیں یا تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔۔۔عذاب دینے والے اُکتا جاتے۔۔۔۔ کبھی ابو جہل کا نمبر آتا۔۔۔کبھی امیہ بن خلف کا، کبھی اوروں کا، اور ہر شخص اس کی کوشش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کر دے۔۔۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اس حالت میں دیکھا تو اُن کو خرید کر آزاد فرمایا۔۔۔۔”
“حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں نہ رہ سکے۔ کیسے رہتے ، مسجد نبوی کا ہر گوشہ ، انھیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی یاد دلاتا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم کی تاب نہ لاسکے اور آخر کار مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے ملک شام کے شہر حِلب چلے گئے ۔تقریباَ ایک سال بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمارہے ہیں اے بلال ؓ تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا ہے ، کیا تمہارا دل ہم سے ملنے کو نہیں چاہتا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔”
“اضطراب بڑھ گیا لبیک یا سیدی ﷺ کہتے ہوئے اٹھے اور راتوں رات مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔مدینہ پنہچتے ہی سیدھے مسجد نبوی ﷺ پہنچے اور روضہ انور پر حاضر ہوئے اور اتنا روئےکہ روتے روتے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدت غم سے بے ہوش ہوگئے ،مدینہ منورہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد کا شہرہ ہوچکا تھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب ہوش آیا تو دیکھا ہر طرف لوگوں کا ہجوم ہے ۔لوگ التجائیں کررہے تھے، اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ پھر وہی اذان سنا دو جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سناتے تھے۔۔۔لوگوں نے بہت ہی اصرار کیا مگر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کے لئے راضی نہیں ہوئے۔اتنے میں جناب حسن رضی اللہ تعالیٰ اور جناب حسین رضی اللہ تعالیٰ مسجد میں تشریف لائے اور سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ سے درخواست کیاے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آج ہمیں وہی اذان سنا دو جو ہمارے نانا جان صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا کرتے تھے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیارے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں اٹھا لیا اور کہا ”تم تو میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم
کے جگر کے ٹکڑے ہو تم جو کہو گے وہی ہوگا۔ اگر میں نے انکار کردیا اور کہیں تم روٹھ گئے ، تو روضہ انور میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم بھی رنجیدہ ہوجائیں گے۔ مہینوں کے بعد جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کی پرسوز آواز مدینہ کی فضاﺅں میں گونجی تو اہلِ کی فضاﺅں میں گونجی تو اہلِ مدینہ کے دل ہل گئے لوگ روتے ہوئے بے تابانہ مسجد نبوی کی طرف دوڑ پڑے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس وقت ”اشہد ان محمد رسول اللہ“ زبان سے ادا کیا ، ہزارہا چیخیں ایک ساتھ فضا میں بلند ہوئیں۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظریں بے اختیار منبر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اُٹھ گئیں۔ آہ! منبر خالی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار نہ ہوسکا، بے چینی بڑھ گئی،ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور بے ہوش ہوگئے۔اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے رخصت ہوئے اور واپس شام چلے گئے،جہاں 20ہجری (641ئ) کو آپؓ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ آپ ؓ کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا۔۔۔۔”
“قصہ سناتے ہوئے نین کی آنکھیں نم ہوگئی تھی۔۔۔”
“نینا نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے ہیں وہ اپنے رونے کی وجہ جان نہ سکی۔۔۔”
“یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابی ءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔۔۔۔”
“وہ بلال جو ایک دن اذان نہ دے تو خدا تعالی سورج کو طلوع ہونے سے روک دیتا ہے، اس نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔۔۔”
“نین نے آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔”
“بچے مہبوت سے نین کو سن رہے تھے۔۔۔۔”
“میرے قلب کو بھی نصیب ہو تیری ذات کی وہ نصبتیں۔۔”
“جو عظمتیں تھی اویس کی جو رابطے تھے بلال کے۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھا تو وہ وہی پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔۔۔۔”
“خوش آمدید ماموں جان آپ کب آئے۔۔۔۔؟
“نین نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔”
“بس ابھی کچھ دیر پہلے جب تم عاشق رسول کا قصہ سنارہے تھے۔۔۔”
“اسحاق صاحب کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔۔۔”
“آپ چائے پیئے گے۔۔۔؟۔۔۔۔۔نین نے پوچھا۔۔۔”
“نہیں بیٹا ابھی تو نہیں پینی ہوگی میں بنا لوں گا تم فکر نہیں کرو۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔”
“نین نے اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔”
“تم اپنے شاگردوں کو پڑھاؤ میں اپنی شاگرد کو پڑھاتا ہوں۔۔۔”
“انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔۔”
“نین بھی مسکرا دیا۔۔۔”
“آجاؤ بیٹا۔۔۔”
“انہوں نے نینا کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلا کر کھڑی ہوگئی اور ان کے ساتھ باہر آگئی۔۔۔۔”
“سوری بیٹا مجھے دیر ہوگئی۔۔۔”
“اسحاق صاحب بولے۔۔۔”
“کوئی بات نہیں۔۔۔”
“نینا مسکرا دی۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔اور اسے لے کر لاؤنج میں آگئے۔۔۔”
“انکل آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا۔۔۔۔”
“نینا نے اسحاق صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا جو بوک شیلف سے بوک نکال رہے تھے۔۔۔”
“جی جی پوچھو۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے بنا مڑے جواب دیا۔۔۔”
“انکل محمد کون ہیں۔۔۔میں نے کل آپ کو دیکھا تھا کہ اذان کے وقت جب بھی محمد کا نام آتا آپ اپنے انگھوٹوں کو چوم کر آنکھیں سے لگا رہے تھے۔۔۔۔اور آج نین بھی ان کے بارے میں بچوں کو بتا رہے تھے۔۔۔”
“نینا کی نظریں اسحاق صاحب پر تھی۔۔۔”
“حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے محبوب ہیں۔۔۔اور ان کا نام ادب سے لینا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔۔۔ان کا احترام کرنا اور ان کی سنت پر عمل کرنا ہم سب کا فرض ہے۔۔۔جہاں اللہ کا ذکر ہو اور اس کے محبوب کا نہ ہو ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔۔۔۔تو پھر وہ اذان میں اس کا نام اپنے نام ہے ساتھ کیوں نہ شامل کرتا۔۔۔اس نے تو کلمے میں بھی اپنے محبوب کے نام کو شامل کیا ہے۔۔۔اس کے محبوب کا نام لیے بغیر ہماری نماز ادھوری ہے کیونکہ دورد پاک میں ان کا نام ہے۔۔۔۔اللہ کو وہ اتنے عزیر ہیں کہ اللہ نے ان سے ملاقات کے لیے عرش کو سجوایا تھا۔۔۔ساتوں آسمان سجائے گئے تھے۔۔۔اور وقت کو روک دیا تھا۔۔بے شک میرا رب ہر شئے پر قادر ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے مڑ کر مسکرا کر کہا۔۔۔”
“عرش پر۔۔۔۔؟
“نینا حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔”
“جی عرش پر۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب اس کے حیران ہونے پر مسکرائے۔۔۔۔”
“وہ کتنے خوش نصیب تھے نہ اللہ نے ان سے خود ملاقات کی۔۔۔”
“نینا پرجوش ہوکر بولی۔۔۔”
“خوش نصیب تو میں بھی ہوں۔۔۔۔اور عنقریب تم بھی ہو جاؤں گی۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے کتاب کو میز پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی بات پر نینا نے الجھ کر انہیں دیکھا۔۔۔”
“میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں اس کے محبوب کا امتی ہوں۔۔۔۔اس سے بڑھ کر خوش نصیبی ایک مسلمان کے لیے اور کیا ہوگی۔۔۔کہ جس نبی کی وہ امت سے ہے وہ نبی سجدوں میں صرف اپنی امت کے لیے دعا کرتے تھے۔۔۔”
“اسحاق صاحب پرمسرت لہجے میں بولے۔۔۔”
“نینا پل پل حیران ہورہی تھی۔۔۔۔”
“معراج کا قصہ سننا چاہو گی۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نے کتاب اٹھاتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔۔۔”
“مطلب۔۔۔؟
“نینا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔۔۔۔”
“اللہ نے جب اپنے محبوب کو عرش پر بلایا تھا وہ قصہ سننا چاہو گی۔۔۔؟
“انہوں نے پوچھا۔۔۔”
“ضرور آپ سنائے گے مجھے۔۔۔؟
“نینا خوشی سے بولی۔۔۔”
“ضرور۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔۔”
واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔ واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔ ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے: اے فرشتو! آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو میری حمدو تقدیس کرنا بند کردو آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو اور آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل! میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کے لئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کے لئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔۔۔۔ کہہ دو کہ دوزخ کو تالہ لگادے۔۔۔۔خلد بریں کی روحوں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کے محلوں کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات (شب معراج) میرے محبوب حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے تیار ہوجاؤ۔
(معارج النبوۃ)
چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا۔ حکم ربی ہوا: اے جبرائیل! اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔ حکم الہٰی سن کر جبریل امین علیہ السلام سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔
ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیں۔ جہاں ماہ نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یاجبریل قبل قدمیہ اے جبریل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔ اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردیئے۔
یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا جب جبریل امین علیہ السلام نے فخر کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟ عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
ان الله اشتاق الی لقائک يارسول الله.
’’یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے‘‘۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلئے زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (معراج النبوۃ)
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)
سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔ علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شب معراج حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے کا تیار کیا ہوا تھا۔ چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے اردگرد کھڑے تھے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا۔
(معارج النبوة، صفحة: 601)
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دور کاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔
چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔
(معارج النبوة، ص606)
فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔
(بنی اسرائيل،17: 1)
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔
(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)
آفتاب نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑچکے ہیں، قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں، تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے ہورہے ہیں۔ جب صفیں بن چکیں تو امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہی عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرائیل! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! دربان نے کہا: مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام نے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لارہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمال محمد ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔
(درمنشور، جلد6، ص126)
اس مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔
(روح البيان، جلد خامس، صفحة: 221)
حضور تاجدار انبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے:
فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo
(النجم: 6، 7)
’’پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)‘‘۔
(عرفان القرآن)
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔
پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حریم الہٰی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo
(النجم:8، 9)
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘۔
(عرفان القرآن)
صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا۔ (روح البیان)
جب حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الہٰی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا:
فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰی.
(النجم: 10)
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
(عرفان القرآن)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر رازو نیاز کی گفتگو ہوئی۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالیٰ اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
(النجم: 11)
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شب معراج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکات الہٰی دیکھے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.
(النجم:17)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
اس آیت کریمہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الہٰی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھی۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
(النجم: 18)
’’بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
اس آیت مقدسہ میں بتایا گیا ہے کہ معراج کی رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلومات غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہوگیا۔
(روح البيان)
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رايت ربی فی احسن صورة فوضع کفه بين کتفی فوجدت بردها…
’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘۔
(مشکوٰة شريف صفحة: 28)
ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے:
رايت ربی بعينی وقلبی
’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘۔
(مسلم شريف)
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شب معراج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل، موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ حضرت امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قائل ہوں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔
فخر دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسر اتحفہ یہ دیا گیا کہ امت محمدیہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ بار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہ الہٰی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا‘‘۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔
(تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه: 32)
اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ یہ ساری کائنات جو کہ کارخانہ قدرت ہے اور اس کارخانہ عالم کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کے لئے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا، اس کا اندازہ ہم نہیں لگاسکتے۔ اللہ تعالیٰ جو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو یکدم بند کردیا سوائے اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان چیزوں کے جنہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متحرک پایا۔ باقی تمام کائنات کو ٹھہرادیا، چاند اپنی جگہ ٹھہر گیا، سورج اپنی جگہ رک گیا، حرارت اور ٹھنڈک اپنی جگہ ٹھہر گئی، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچی تھی وہیں رک گئی، جو سویا تھا سوتا رہ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا غرض یہ کہ زمانے کی حرکت بند ہوگئی۔
جب سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں رات ایک طویل سفر کرکے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم بحکم الہٰی پھر چلنے لگا۔ ہر شے از سر نو مراحل کو طے کرنے لگی، چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے، حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی۔ غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئی تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں۔ بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی۔ حجرہ مبارک کی زنجیر ہلنے لگی۔ کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا۔
(روح البيان، جلد5، صفحه، 125)
حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن ام ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ انکار کریں گے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے رؤساء جمع تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرہ کو سن کر کفارو مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابوجہل بولا، کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کے لئے تیار ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک۔ ابوجہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع ہوگئے تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔ انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے۔ بتایئے! اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یکا یک بیت المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس واقعہ کو سچا نہ مانا۔
جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہوکر کہنے لگے مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بتادیا لیکن ذرا یہ بتایئے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک قافلہ مقام روحاء پر گزرا، ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا۔ وہ لوگ اسے تلاش کررہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کرکے پالان کی طرف واپس آئے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی پایا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں فلاں قافلے پر بھی گزرا۔ دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔
(تفسير مظهری)
“اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی مگر ابوجہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا: اے ابوبکر! تو نے سنا کہ محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میرے آقا(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے کیونکہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبی کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابوبکر تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو؟ اس عاسق صادق نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں۔ (یعنی باری تعالیٰ پر) اسی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا۔۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب ٹہر ٹہر کر اسے سارا قصہ سنا رہے تھے۔۔۔اور نینا بغور انہیں سن رہی تھی۔۔۔۔ان کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ سچا ہے اس بات کی گواہی اس کا دل دے رہا تھا۔۔۔۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...