حضور حاضر ہے ایک مجرم ، حضور اِس کو معاف کردیں
اور اِس کے کشکول آرزو کو کرم کے سکوں سے آج بھر دیں
یہ ہجرتوں کے اُگاکے موسم حضور لایا ہے کُشت غم میں
یہ عافیت کی تلاش میں ہے اسے مدینے میںگھر دیں
حضور اِس کی جبیں پر نقش قدم کا سورج اُتار دیجئے
یہ مدتوں سے بھٹک رہا اِسے سکون وقرار دیجئے
یہ کب سے نوحہ خواں ہے صحنِ بدن کے اُجڑے چمن میں
حضور دشتِ خزاں میں ہے یہ ، اسے ردائے بہار دیجئے
حضور یہ بے نواشاعر غلام زادوں کا ترجماں ہے
حضور دامن تہی ہے اس کایہ بے ہنر گرد کارواں ہے
حضور جائے تو اُٹھ کے جائے کہاں غریب الوطن یہ آخر
حضور یہ عصر ناروا ہے حضور یہ عہد بے اماں ہے
سجاکے لایا ہے طشت جاں میں ثنائی کلیاں قبول کیجئے
اور اس کے ہاتھوں سے آنسوئوں کے گلاب تازہ وصول کیجئے
یہ کہہ رہا ہے سلام کہتی تھیں گنگتاتی ہوئی ہوائیں
ادب سے سر کو جھکا جھکا کر درود پڑھتی تھیں فاختائیں
یہ کہہ رہا ہے سلام کہتا تھا ذرہ ذرہ میرے وطن کا
حضور مقبول ہوں سمیع جابر کی ساری التجائیں