اماں جان حازق کے ساتھ گھر واپس آگئی تھیں۔۔حازق کو دیکھ کر واچ مین نے بڑا سا گیٹ کھولا۔۔ وہ اماں جان کو تھامتا اندر کی جانب بڑھا۔۔۔باغیچے میں ایک طرف کرسیوں پر بیٹھی زرنین اور فریحہ باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔
زرنین کسی بات پر مسکرائی تھی۔۔۔حازق نے اپنے قدم روک کر اُس کی ہنسی دیکھی۔۔۔وہ اُسے ہمیشہ ایسے ہی مسکراتا دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔اور وہ اِس مسکراہٹ کیلئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔۔وہ کتنی معصوم تھی۔۔۔اور اُس کا باپ دشمن بنا بیٹھا تھا۔۔ صرف ایک زمین کی خاطر جو اُس کی تھی بھی نہ۔۔
حازق۔۔ اماں جان نے اُسے رکتا دیکھ بازو جھنجھوڑا
جی۔۔ جی اماں جان۔۔ وہ ہوش میں واپس آیا
کیا سوچ رہے ہو۔۔چلو اندر۔۔۔دیکھو فریحہ اور زرنین بھی بیٹھیں ہیں دونوں۔۔ وہ دونوں کو دیکھ کر بولی
جی۔۔ چلیں۔۔ اُس نے پھر سے اپنے قدم آگے بڑھا دیے
اسلام علیکم۔۔۔ حازق نے سلام کیا۔۔
وہ دونوں متوجہ ہوئی
وعلیکم اسلام۔۔ زرنین اور فریحہ نے مسکرا کر جواب دیا
اماں جان آپ بیٹھ جائیں۔۔ زرنین فوراً کھڑی ہوتی ادب سے بولی
فریحہ بھی کھڑی ہوگئی
نہیں۔۔ میں اندر جاکر آرام کروں گی۔۔ کافی تھک چکی ہوں۔۔ذوجاجہ بیگم بے زار سے انداز میں بولی
جی میں لے جاتا ہوں آپ کو۔۔۔حازق نے فرمانبردای سے کہا
نہیں حازق میں لے جاؤں گی اماں جان کو۔۔ تم زرنین کے ساتھ بیٹھو یہاں۔۔۔ فریحہ نے آگے بڑھ کر زوجاجہ بیگم کو سہارا دیا
انہوں سے سر اثبات میں ہلا کر حازق کو رکنے کا اشارہ کیا اور وہ دونوں اندر کی جانب چلی گئی
زرنین خاموشی سے کھڑی تھی۔
کیا سوچ رہی ہیں مسز۔۔۔حازق شرارت سے کہتا زرنین کے قریب جا کھڑا ہوا
کچھ بھی نہیں۔۔۔وہ کنفیوز ہوئی تھی
کچھ تو سوچ رہی ہوگی۔۔۔۔ حازق ہونٹوں پر انگلی رکھتا پرسوچ انداز میں بولا
لہجہ شرارت بھرا تھا
میں بھلا کیا سوچوں گی۔۔۔ زرنین جھجھلاتے ہوئی آنکھیں دکھا کر بولی
وہ جانتی تھی اب حازق اُسے تنگ کرنے کے بہانے ڈھونڈے گا
اچھا یار کچھ نہیں کہتا۔۔آنکھیں تو مت دکھاؤ۔۔حازق ہنستا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا
زرنین نے مڑ کر اسے دیکھا وہ آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا
آپ بھی بیٹھ جائیے میڈم۔۔یا خود بیٹھاؤں ۔۔۔وہ ابرو اچکاتا ہوا بولا
نہیں۔۔ میں بیٹھ رہی ہو۔۔۔زرنین فوراً اپنا ڈوپٹہ سر پر درست کرتی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔اور موبائل پر نظر جما کر خود کو مصروف ظاہر کرنے لگی
حازق نے اُس کے چہرے کو دیکھا۔۔۔
وہ ڈوپٹے میں ہمیشہ سے ہی اُسے پیاری لگتی تھی۔۔۔
میں یہاں بیٹھا ہوں اور تم موبائل میں مصروف ہو۔۔حازق پھر بولا تھا
زرنین نے موبائل سے سر اٹھا کر اُسے دیکھا۔۔ وہ بچوں کی طرح منہ پھلا کر بیٹھا تھا
زرنین کھکھلا کر ہنس دی
آپ بالکل بچے لگ رہے ہیں۔۔۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہنستے ہوئے بولی
زرنین میں تم سے کہہ رہا کوئی بات کرو اور تم کبھی موبائل پر لگی ہو اور اب ہنسنے بیٹھ گئی ہو۔۔ میں جارہا ہوں تم بیٹھ کر موبائل استعمال کرو آرام سے۔۔۔حازق مصنوئی غصے سے کہتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا
اُسے بھی تو حق تھا ناراضگی جتانے کا
زرنین نے حیرانی سے اُسے دیکھا وہ کبھی ایسے نہیں بولتا تھا
رکیں حازق۔۔۔اُس نے آگے بڑھ کر حازق کا ہاتھ تھا لیا
ناراض تو مت ہو آپ۔۔۔وہ روہانسی ہوتے بولی
حازق کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔۔وہ اپنی مسکراہٹ کو چھپاتا مڑا اور زرنین کی آنکھوں میں دیکھنے لگا
کیوں نہ ہو ناراض۔۔ ہاں بتاؤ۔۔۔ وہ اتفسار کرنے لگا
زرنین کو سمجھ نہ آیا کیا بولے۔۔
وہ خاموشی سے گردن جھکا گئی۔
اُس نے ابھی بھی حازق کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔۔
تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی۔۔۔حازق نے لمبا سانس لے کر ایک ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا
زرنین نے اپنا سر اٹھایا۔۔
آپ کریں نا بات میں سنتی ہوں۔۔اور اب نہیں پکڑتی موبائل۔۔۔اُس نے آسان سا حل تجویز کیا
اچھا میں بولوں اور تم سنو۔۔۔۔کیا میں تمہاری باتیں نہیں سن سکتا۔۔وہ طنزیہ انداز میں بولا
مجھ سے زیادہ باتیں نہیں ہوتی۔۔۔۔اور آپ کے سامنے تو بالکل بھی نہیں بولا جاتا۔۔ وہ کنفیوز سی حازق کے ہاتھ کو چھوڑتی بولی
واہ۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو امی جان کے ساتھ بڑا ہنس رہی تھی اور بات بھی کر رہی تھی۔۔ میں کیا کھا جاتا ہوں تمہیں جو میرے سامنے نہیں بولا جاتا۔۔۔حازق نے منہ بنا کر کہا
نن۔نہیں۔۔۔۔وہ تو امی جان مجھ سے بات کر رہی تھی اور میں ہنس رہی تھی بس۔۔ وہ اپنی صفائی پیش کرتی بولی
زرنین۔۔۔ اپنے خول سے باہر نکل آؤ۔۔میں شوہر ہوں تمہارا۔۔کیا ساری عمر مجھے ایسے ہی گزارنی پڑے گی۔۔میں بولوں گا اور تم جواب دو گی بس۔۔۔وہ بے بسی سے بولا
زرنین شرمندہ سی ہوگئی
کیا کبھی تم مجھ سے اظہارِ محبت نہیں کرسکتی۔۔وہ زرنین کے ہاتھ کو پکڑتا پھر سے بولا
ایسی بات نہیں ہے حازق۔۔۔کیا محبت کا اظہار کرنے کیلئے لفظوں کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔۔؟کیا ہم اپنے عمل سے اُس کا اظہار نہیں کرسکتے۔۔ ؟وہ حازق کے چہرے کو دیکھتی بولی
چاند کی مدھم سی روشنی میں اُس کا چہرہ چمک رہا تھا
ہاں۔۔کبھی کبھی ضروری ہوتا یے لفظوں سے محبت کا اظہار کرنا۔۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنے دل کی باتیں کرو۔۔ اپنے دکھ میرے ساتھ بانٹوں۔۔ مجھے اپنی خوشیوں کی وجہ بتاؤ۔۔تاکہ میں۔۔میں تمہارے لیے کچھ کرسکوں۔۔ وہ آہستہ آواز میں بول رہا تھا
زرنین نے چمکتی نظروں سے اسے دیکھا
کتنا مہربان تھا وہ شخص۔۔ ناجانے کونسی نیکی کا صلہ ملا تھا اُسے
حازق۔۔ اُس نے محبت سے پکارا
حازق نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
واک کرتے ہیں۔۔وہ حازق کی بازو پکڑے چلنے لگی۔۔ حازق بھی چپ چاپ اُس کے ہمقدم ہوا
وہ دونوں باغیچے میں لگی گھاس پر چلنے لگے۔۔پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو فرحت بخش رہی تھی۔۔ ہوا سے پھول لہرا رہے تھے۔۔ حازق زرنین کا ہاتھ تھامے آہستہ سے گھاس پر چلتا پھولوں کو دیکھنے لگا۔۔۔ اُس کیلئے ہر وہ پل قیمتی تھا جس میں زرنین ساتھ ہو
آپ کو پتا ہے حازق میری زندگی کا سب سے خوبصورت احساس کیا ہے۔۔زرنین خاموشی کو توڑتی بولی
حازق نے کچھ نہیں کہا البتہ وہ پوری توجہ سے سننےگا
آپ کا ساتھ ہے سب سے قیمتی احساس ہے۔۔۔جو میرے وجود کو تسکین پہنچاتا ہے۔۔جب سے آپ کا نام میری پہچان بنا ہے ہر روز میں خود کو خوش نصیب تصور کرتی ہوں۔۔۔زرنین حازق کی امانت ہے۔۔۔میری محبت۔۔میری وفائیں۔۔میری عقیدت سب آپ کیلئے ہے۔۔اور رب کا شکر ادا کرتی ہوں کہ آپ جیسے شخص کو میرا ہمسفر بنایا ہے۔۔۔۔وہ بولتے بولتے رکی اور حازق کے سامنے کھڑی ہوگئی
حازق نے بھی اپنے قدم روک دیے
دھیمے لہجے میں بولتی وہ حازق کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔۔وہ آج زرنین کو سننا چاہتا تھا۔۔ ناجانے کتنے عرصے بعد وہ اِس طرح اس بول رہی تھی۔۔۔
مجھے آپ کی طرح محبت کا اظہار تو نہیں کرتا لیکن میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ ہمیشہ آپ سے وفا نبھاؤں گی۔۔۔۔زرنین مسکراتے ہوئے بولی
حازق پھیلی ہوئی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔ کیا وہ واقعی زرنین تھی۔۔اُس کیلئے یقین کرنا مشکل تھا یا شاید ناممکن۔
کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔زرنین نے اُس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا
دیکھ رہا ہوں کہ تم زرنین ہی ہو یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔جس میں انسان آنکھیں کھولنے سے ڈرتا ہو۔۔ کہ کہیں یہ منظر آنکھوں کے سامنے سے اوجھل نہ ہوجائے۔۔۔وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا
حازق کے انداز پر زرنین کو ہنسی آئی
جی یہ حقیقت ہی ہے۔۔ہوش کی دنیا میں واپس آجائیں۔۔اِس سے پہلے کہ اماں جان کا بلاوا آئے۔۔زرنین ہنستے ہوئے بولی
حازق نے اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا
زرنین نے ہاتھ نکالنا چاہا لیکن حازق نے اُس کی کوشش ناکام کر دی۔۔ اُسے ہاتھ کے نیچے سے حازق کی دھڑکنوں کا شور سنائی دے رہا تھا
شکریہ زرنین اتنے پیارے اظہار کیلئے۔۔۔ایسا اظہار تو کبھی میں بھی نہیں کرسکا۔۔۔حازق نے محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھا
زرنین شرما کر اپنا چہرہ جھکا گئی۔۔
میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا وہ جب تم میرے نکاح میں آئی تھی۔۔۔تمہاری زبان سے ادا ہونے والے دو لفظوں نے مجھے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔۔شکریہ۔۔ حازق نے عقیدت سے اس کے ہاتھوں کو آنکھوں کے ساتھ لگایا
زرنین نم آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔۔اور دل میں رب کا شکر ادا کیا
رات کی چاندنی پھیلنے لگی تھی۔۔پھول جیسے دونوں کو دیکھ کر مزید خوش ہوگئے تھے۔۔چاند دونوں کو دیکھ کر مسکرایا تھا
##############
حازق بیٹا تم کمرے میں جاؤ آرام کرو۔۔میں تمہارے بابا کو دیکھ لوں۔۔ انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔۔۔فریحہ اور حازق کھانا کھا کر گھر واپس آگئے تھے۔۔فریحہ نے رشید کمرے کی جانب بڑھتی ہوئی کہا
انہیں سگریٹ, شراب اور ایسے نوکر جو صرف اُن کے سامنے جھکنا جانتے ہو۔۔اس کے علاوہ کبھی کسی چیز کی ضرورت ہوئی ہے کیا۔۔؟حازق طنزیہ ہنستا ہوا بولا
بری بات حازق۔۔بابا ہیں وہ تمہارے۔۔فریحہ نے اُسے ٹوکا
جی جانتا ہوں یہ بھی اگر آپ نہ بتاتی تو شاید مجھے کبھی پتا ہی نہ چلتا۔۔حازق نے پھر طنز کیا
فریحہ نے حیرانی سے اُسے دیکھا
ایک ایسا باپ جس نے آج تک اپنی اولاد کو پیار سے دیکھا تک نہیں۔۔ بس ہر وقت امیری اور شہرت حاصل کرنے کے منصوبے بناتا رہا ہو۔۔حازق کرب سے بولتا چلا گیا
حازق۔۔ یہ کیا ہوا گیا ہے تمہیں۔۔ میں نے تمہاری تربیت ایسی تو نہیں کی تھی کہ تم باپ کے خلاف بولو۔۔۔ فریحہ نے حازق کو آنکھیں دکھائی
یہ آپ کی ہی تربیت ہے امی جان کہ میں آج تک ہر فیصلے میں بابا سائیں کا حکم مانتا آیا ہوں۔۔اور اب بھی رخصتی کا پوچھا تھا اُن سے میں نے۔۔۔۔لیکن کیا ہوا اپنے مفاد کیلئے وہ رخصتی تک سے انکاری تھے۔۔لیکن یہاں بات زرنین کی ہے اور اِس معاملے میں میں کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرسکتا۔۔۔حاْزق ساری بات کہتا دو ٹوک انداز میں بولا
اچھا تم فکر نہ کرو دیکھنا وہ ضرور زرنین کو اپنے بیٹے کی عزت بنا کر اِس گھر میں خوشی خوشی لائیں گے ۔فریحہ نے اُسے نہیں بلکہ خود کو امید دلانا چاہی
اب وہ مانیں یا نہ مانیں۔۔میں اگلے جمعے تک سادگی سے رخصتی کر کے زرنین کو یہاں لے آؤں گا۔۔اگر وہ شریک ہوگیں تو ٹھیک ہے نہیں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔وہ اپنی بات مکمل کرتا کمرے کی جانب چلا گیا
فریحہ نے پریشانی سے بیٹے کو دیکھا۔۔حازق نظروں سے اوجھل ہوا تو اُس نے رشید کے کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے
#############
ہاں ہاں ٹھیک ہے جیسے مرضی بند کرواؤ اُس کا منہ۔۔یہ تمہارا مسئلہ ہے میرا نہیں۔۔۔رشید غصے سے تپتا فون کی دوسری جانب بات کرنے والے پر برس پڑا تھا
دوسری طرف سے کچھ کہا گیا تھا۔۔ رشید کے ماتھے پر پریشانی کی لکیریں ابھری
کیا مطلب ہے مل نہیں رہا۔۔۔دماغ خراب ہوگیا ہے کیا تمہارا۔۔وہ ایک دم بھڑک اٹھا
جج۔۔۔جی صاحب جی وہ بھاگ گیا ہے۔۔اور پہلے ہی دھمکیاں دے رہا تھا کہ آپ کو جیل بھجوائے گا۔۔۔ملازم نے ڈرتے ڈرتے کہا
میں نے کہا بھی تھا کہ اُس حرام خور کو مار دو جان سے۔۔۔لیکن تم لوگوں کے دماغ میں کوئی بات نہیں گھستی۔۔۔رشید غصے سے بولتا بولتا صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔اور پاس ٹیبل پر پڑی شراب کی بوتل کو اٹھا کر منہ سے لگایا
جی صاحب ہم کوشش کر رہے ہیں اُسے ڈھوںڈنے کی۔۔۔
جہاں سے مرضی اُسے ڈونڈو۔۔۔اگر وہ کل تک مجھے مردہ حالت میں نہ ملا تو تم لوگ میرے ہاتھوں مر جاؤ گے۔۔وہ ایک دم سے چِلَا کر بولا
دروازے کی میں کھڑی فریحہ نے اپنے اندر جاتے قدم روک دیے۔۔۔
میرے ہی ٹکڑوں پر پل کر وہ مجھے دھمکیاں دے گا۔۔ اُس کی ہمت کیسے ہوئی مجھے حمید کے قتل کا طعنہ دینے کی۔۔۔تم لوگوں کی غلطی ہے صرف تم لوگوں کی۔۔ جو اُس پر کبھی نظر نہیں رکھی۔۔ اور وہ اُس رات مجھ تک پہنچ گیا جب میں نے حمید کو مارا تھا۔۔۔ رشید نے پھر سے اپنا غصہ نکالنا چاہا۔۔ لیکن اب کی بار نشہ چڑھنے کی وجہ سے وہ آواز اونچی نہ کرسکا
فریحہ نے خوف سے رشید کی بات سنی۔۔۔اُسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔۔یہ کیسا انکشاف ہوا تھا اُس کے سامنے۔۔ وہ ساکت وجود کے ساتھ آنکھیں پھاڑے رشید کو سننے لگی
رشید نے گالی دیتے ہوئے فون بند کردیا۔۔۔ فریحہ نے بمشکل خود کو سنبھالا اور دروازے سے ایک طرف ہوکر کھڑی ہوگئی۔۔۔ آنسو مسلسل بہنے لگے تھے۔۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ اُس نے اپنی زندگی گزاری تھی جسے کسی رشتے کا لحاظ نہ تھا۔۔ اور آج وہ دولت کی خاطر اپنوں کو قتل تک کرگیا تھا۔۔۔اُس کا دل چاہا وہ چیخ چیخ کر سب کو رشید کی سچائی بتائے۔۔ ابھی اسی وقت اِس آدمی سے الگ ہوجائے۔۔ اُسےرشید کے وجود سے نفرت ہونے لگی تھی۔۔۔اس نے نفرت سے اندر بے ہوش پڑے وجود کو دیکھا۔۔
یا اللہ۔۔۔ سر کا درد شدید ہوا تو اُس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا
وہ بھاری قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر کے ددروازے کے ساتھ ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی
اُس میں اتنی جان نہ تھی کہ وہ بیڈ تک جاسکتی۔۔۔۔
اللہ کرے کہ تمہارا انجام اتنا عبرت ناک ہو کہ ہر شخص دوسروں کی خوشیاں چھینتے ہوئے سہم کر رہ جائے۔۔۔ وہ کرب سے بولی
اللہ تمہیں دنیا کیلئے عبرت کا نشانہ بنائے۔۔ یہ ایک دکھی ماں اور بے بس عورت کی بددعا ہے۔۔ تمہیں کبھی سکون میسر نہ ہو۔۔ اماں جان کی گود خالی کی ہے تم نے۔۔۔ایک بیٹی سے اُس کا باپ چھینا ہے۔۔۔تم دنیا اور آخرت دونوں میں رسوا ہو گے۔۔۔ فریحہ نے نفرت سے کہا اور روتے روتے اپنی ٹانگوں کے گرد بازو حائل کردیے
##############
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...