بیٹا وہ ٹھیک ہے نہ ؟”
گل ناز اس کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔
زرش پتھرائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“امی۔۔ بھابھی۔”
وہ ان دونوں کو دیکھتا ہوا بولا۔
ان دونوں کی موجودگی سے وہ انجان تھا۔
“کیسے ہوا ایکسیڈنٹ وہ ٹھیک ہے نہ؟”
اب کہ رضی حیات کی جانب سے سوال آیا۔
“جی وہ ٹھیک ہے معمولی سی چوٹ آئی ہے اس لئے میں خود لینے جا رہا ہوں۔”
وہ مہارت سے جھوٹ بولتا باہر کی جانب قدم اٹھانے لگا۔
“احسن سچ بول رہے ہو نہ؟”
گل ناز بیگم کا دل پتے کی مانند لرز رہا تھا۔
“جی امی۔۔۔ آپ اپنی تیاریاں مکمل کر لیں تب تک۔”
وہ باوجود کوشش کے مسکرا نہ سکا۔
وہ زرش کو نہیں دیکھ رہا تھا شاید اس کی آنکھوں میں اٹھتے سوالوں کے جواب نہ دے پاتا۔
“میں آپ کو پہنچ کر فون کرتا ہوں۔”
وہ رضی حیات کو دیکھ کر کہتا باہر نکل گیا۔
“یا ﷲ یہ کیسی آزمائش ہے۔۔۔ کل اسے جیل سے نکالا اور آج وہ ہسپتال پہنچ گیا۔”
رضی حیات سر تھام کر بیٹھ گئے۔
زرش ابھی تک دیوار پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔
وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔
کیا ہو رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
بنا کچھ کہے بنا کچھ پوچھے وہ مرے مرے قدم اٹھاتی کمرے کی جانب چل دی۔
“یہ سب کیا ہو رہا ہے؟”
وہ دروازہ بند کرتی اس سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
“خدا کرے احسن سچ بول رہا ہو۔۔۔ لیکن اس کی زبان کچھ کہہ رہی تھی اور آنکھیں کچھ۔”
وہ منہ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
چند پل سرکنے کے بعد وہ وضو کرنے چلی گئی۔
“جو بھی ہو صرف دعا ہی کام آےُ گی۔”
وہ جاےُ نماز بچھاتی ہوئی بولی۔
احسن سپیڈ بڑھاتا جا رہا تھا۔
گاڑی گرد اڑاتی بھاگتی جا رہی تھی۔
” یہاں وائز رضی حیات ایڈمٹ ہوۓ ہیں۔۔ ”
وہ ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی کو دیکھتا ہوا بولا۔
“جی آپ ان کے بھائی ہیں نہ؟ اس طرف آ جائیں۔”
ریسیپشنسٹ کی بجاےُ نرس اشارہ کرتی چلنے لگی۔
“کیسی طبیعت ہے اس کی؟”
وہ بےچینی سے بولا۔
“ان کی حالت بہت خراب ہے۔ دوا کے ساتھ ساتھ انہیں دعا کی بھی ضرورت ہے۔ان کے دماغ پر چوٹ لگی ہے جو کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔”
وہ آئی سی یو کے سامنے رکتی ہوئی بولی۔
احسن پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“یہ کیا بکواس ہے؟”
وہ حواس پر قابو پاتا ہوا بولا۔
“سر میں نے آپ کو ان کی موجودہ حالت بتائی ہے آپ ڈاکٹر سے بات کر لیں۔ ابھی کچھ دیر قبل ان کا آپریشن مکمل ہوا ہے لیکن انہیں آئی سی یو میں ہی رکھا گیا ہے کیونکہ ان کی حالت بہت نازک ہے۔”
وہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا سامنے دروازے کو دیکھنے لگا جس کے پار اس کا بھائی زندگی اور موت کے بیچ کھڑا تھا۔
“یہ سب کیا۔۔۔۔ ”
آنسو اس کے رخسار کو تر کر رہے تھے۔
“نہیں وائز کو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ فضول میں بکواس کر رہی ہو گی۔۔ ایسے کیسے وائز۔۔۔۔”
وہ لمبے لمبے سانس لیتا ٹہلنے لگا۔
“ڈاکٹر مجھے وائز سے ملنا ہے۔۔ میں اس کا بھائی ہوں۔”
وہ ڈاکٹر کو باہر نکلتے دیکھ کر ان کی جانب لپکا۔
“گڈ آپ آ گئے مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔”
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے چلنے لگے۔
“نرس مجھے یہ سب بتا چکی ہے۔ مجھے ملنا ہے وائز سے کیا وہ ہوش میں ہے؟”
وہ آنسو صاف کرتا ہوا بولا۔
“جی ابھی تو وہ ہوش میں ہیں لیکن ان کی حالت کچھ۔۔۔۔ ”
وہ بات ادھوری چھوڑ کر احسن کو دیکھنے لگے۔
“وائز کو کچھ نہیں ہونا چائیے میں بتا رہا ہوں ورنہ یہ آپ کا ہاسپٹل آپ کا لائسنس ہر چیز بند کروا دوں گا۔”
وہ غم و الم کی حالت میں چلا رہا تھا۔
“دیکھیں تحمل سے کام لیں ہم اپنی پوری کوشش کریں گے باقی ﷲ کے آگے کس کی چل سکتی ہے؟”
وہ اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔
وہ ان کا ہاتھ جھٹکتا آئی سی یو میں چلا آیا۔
وائز کا سر پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔
منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔ ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ بدن پر چادر اوڑھ رکھی تھی۔ آدھی گردن بھی سفید پٹیوں سے پوشیدہ تھی۔وہ مٹھیاں بند کئے اسے دیکھنے لگا۔
وائز کی تکلیف اسے محسوس ہو رہی تھی۔ گرم مادہ تیزی سے اس کے رخسار پر بہنے لگا۔
وہ آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔
“وائز؟”
وہ پکارتا ہوا اس کے پاس آیا۔
آواز پر اس کی پلکوں میں جنبش آئی۔
نقاہت کے باعث اسے آنکھیں کھولنے میں دقت پیش آ رہی تھی۔
وائز اسے دیکھتا پھیکا سا مسکرایا۔
“احسن بات سن۔۔۔ ”
وہ اسے دیکھتا مدھم آواز میں بولا۔
“آپ ٹھیک ہو جاؤ گے۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دلاسہ دیتا ہوا بولا۔
وہ نفی میں سر ہلاتا اسے دیکھنے لگا۔
“زرش کو ابھی مت لانا، جب میری سانس بند ہونے لگے تب اسے میرے سامنے لانا۔ میں آنکھیں بند ہونے سے پہلے۔۔۔۔اس کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔”
وہ آکسیجن ماسک ہٹاتا ہوا بولا۔
“آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایسا مت بولیں۔”
اسے تکلیف ہو رہی تھی۔
“زرش کو بتانا میں اس سے بے حد محبت کرتا ہوں۔۔۔۔اتنی کہ شاید مجھے خود بھی معلوم نہیں۔”
اشک اس کی آنکھوں سے بہہ کر تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔
احسن سر جھکاےُ اسے سن رہا تھا۔
“اور میری بات سن۔۔۔ تو اس کا خیال رکھے گا سمجھا۔ بہت خیال رکھنا۔۔۔۔”
وہ سانس لینے کو رکا۔
“پلیز چپ ہو جائیں۔۔۔ آپ کی طبیعت خراب ہو جاےُ گی۔”
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
“ٹائم تو نہیں ہے میرے پاس اس لئے بولنے دے مجھے۔۔۔”
آنسو متواتر بہتے جا رہے تھے۔
“تو اس کا خیال رکھے گا اور بہت خیال رکھنا ہے اس کا۔ اور ایک بات اگر بیٹا ہوا تو اسے ایک اچھا انسان بنانا۔۔۔۔”
وہ چہرہ پھیرتا ہوا بولا۔
“مت بولیں یہ سب۔۔۔ ”
اس کا چہرہ بھی آنسوؤں سے تر تھا۔
وہ لمبے لمبے سانس لینے لگا۔
“پلیز اب آپ کچھ نہیں بولیں گے۔”
وہ آکسیجن ماسک لگاتا ہوا بولا۔
وائز کی آنکھوں میں تیرتا کرب اسے مزید کمزور کر رہا تھا۔
“زرش سے کہنا مجھے بھول مت جانا۔۔۔ میرے دل پر صرف اس کا نام لکھا ہے اور اسی کا نام لئے میں اس دنیا سے جا رہا ہوں۔”
وہ پھر سے آکسیجن ماسک اتار چکا تھا۔
“آپ دونوں ایک ساتھ رہیں گے۔ بہت سی خوشیاں دیکھیں گے۔ کچھ نہیں ہو گا آپ کو سمجھے آپ۔۔۔ ”
وہ غم و غصے کی حالت میں گرجا۔
“تو سمجھ نہیں رہا۔۔۔ تجھے دکھائی نہیں دے رہا، نہیں۔۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ زندگی دغا دے گئی یار۔”
وہ سسکتا ہوا بولا۔
“مجھے اس سے دور مت لے جانا۔۔۔ مہ مجھے گھر کے عقبی حصے میں دفن کرنا۔ احسن میں اس سے دور نہیں جانا چاہتا۔”
کیسے ظالم لمحے تھے یہ۔
“بھائی پلیز ایسا مت بولیں۔”
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“اسے بتانا محمد وائز رضی حیات مرتے دم تک اس کا نام لیتا رہا۔ وہ میرے دل میں، میری روح پر قابض ہے۔۔۔ اس لئے وعدہ کر مرنے کے بعد بھی تم لوگ مجھے اس سے دور نہیں کرو گے۔”
وہ ہاتھ اوپر کرتا ہوا بولا۔
“وعدہ کرتا ہوں۔”
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
“اسے کہنا مجبوری تھی میری۔۔۔ ورنہ کبھی نہ جاتا، ابھی تو ایک خوشی کا لمحہ بھی ہم نے ساتھ نہیں دیکھا تھا۔”
وہ آہیں بھرتا بول رہا تھا۔
“قسمت ستم کر رہی یے اور میں لاچار ہوں لڑ نہیں سکتا۔ اسے کہنا معاف کر دینا وائز کو۔ وہ خوش نہیں رکھ سکا تمہیں،، جو خوشیاں میں نہیں دے سکا وہ خوشیاں تو دے گا اسے۔ حسرتیں تو بہت ہیں دل میں لیکن ایک ملال ہے ایک بار وہ میرے سامنے آ کر کہہ دیتی وائز میں نے تمہیں معاف کیا۔”
وہ آنکھیں بند کرتا ہوا بولا۔
“خیر۔۔۔۔ کوئی نہیں۔ تو اسے وہ سب دینا جو میں نہیں دے سکا۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
اسے سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
“نرس پلیز چیک کریں انہیں۔۔۔ ”
احسن کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
اس سے زیادہ سکت اس میں باقی نہ تھی۔
وہ چہرے پر ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
کیسا کرب تھا اس کی آنکھوں میں کہ موت سامنے ہے چند قدم کی مسافت پر اور دل میں ہزاروں لمحوں کی طلب تھی۔
“نہیں وائز نہیں۔۔۔ ”
وہ چہرہ صاف کرتا کھڑا ہو گیا۔
فون نکال کر نمبر ملایا اور بابا سائیں کو آگاہ کر دیا۔
وہ چہرے پر ہاتھ رکھے بیٹھے تھا۔
اس کی آنکھیں خشک تھیں لیکن دل رو رہا تھا۔
اسے اب مضبوط بننا تھا گھر کی عورتوں کو سنبھالنا تھا۔
“وائز کہاں ہے؟”
وہ زرش کی آواز تھی۔
وہ ہانپتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
اتنے وقت میں وہ خود کو نارمل کر چکا تھا۔
“نرس انجیکشن دے رہی ہے اسے۔۔۔ ”
اس نے بہانہ بنایا۔
“مہ مجھے ملنا ہے وائز سے۔”
آنکھوں میں نمی تھی جنہیں رہا ہونے سے وہ روک رہی تھی۔
“مل لیجیے گا فکر مت کریں وہ ٹھیک ہے۔ کچھ چوٹیں آئیں ہیں لیکن ری کور کر لے گا۔”
وہ جھوٹے دلاسے دینے لگا۔
“احسن کہاں ہے وہ؟”
زرش کے عقب سے رضی حیات نمودار ہوۓ۔
“بابا سائیں اندر ہے۔”
وہ کمرے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
وہ خاموشی سے اندر چلے گئے۔ ان کے ہمراہ گل ناز بھی تھی۔
“آپ کچھ کھا لیں تب تک۔۔۔ ”
یکدم احسن کو خیال آیا۔
“نہیں میں ٹھیک ہوں۔”
وہ بیٹھتی ہوئی بولی۔
احسن وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
چند منٹوں بعد وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
“میں جانتا ہوں آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔وائز مجھے ڈانٹ رہا تھا کہ آپ کا خیال نہیں رکھ رہے ہم سب۔۔۔”
وہ سینڈوچ اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
وائز کے ذکر پر آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوۓ دامن میں آ گرے۔
“وہ ٹھیک ہے تو پھر آئی سی یو میں کیوں؟”
یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
“کیونکہ ان کا بیک گراؤنڈ بہت مضبوط ہے اس لئے خاص توجہ دی جا رہی ہے ان پر۔۔”
وہ اس کے ہاتھ پر سینڈوچ رکھتا ہوا بولا۔
“آپ کھائیں گیں تو ہی میں وائز سے ملنے دوں گا ورنہ جب تک اسے چھٹی نہیں ملتی آپ اسے دیکھ بھی نہیں پائیں گیں۔”
اس نے آخری حربہ استعمال کیا۔
“میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔”
وہ بے بسی سے بولا۔
“دل نہیں کر رہا تو پھر بھی کھا لیں وائز کے لئے۔۔ ”
بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔
وہ نم آنکھوں سے ہاتھ پر رکھے سینڈوچ کو گھورنے لگی۔
اس نے چند لقمے اندر اتارے اور پھر سائیڈ پر رکھ دیا۔
“بھابھی ختم کریں وہ۔۔۔ ”
اب کہ وہ ذرا خفگی سے بولا۔
“بس۔۔۔ پانی لا دو۔”
وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
“میں لاتا ہوں۔۔۔ ”
وہ کہتا ہوا چلا گیا۔
“یہ کیا حالت بنا لی تم نے اپنی؟”
رضی حیات نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
“آپ لوگ زرش کا بہت خیال رکھیں گے بلکل ویسے ہی جیسے میں رکھتا تھا۔”
اس کی آنکھیں پھر سے برسنے لگیں۔
“ٹھیک ہو جاؤ اور خود رکھنا خیال۔۔۔ ہم نہیں رکھیں گے۔”
وہ ناراضگی سے بولے۔
“ایسے مت بولیں۔۔۔ زندگی مہلت دیتی تو کبھی یہ نہ کہتا آپ کو۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
“بس میرے بچے۔۔۔ دیکھنا تو بلکل ٹھیک ہو جاےُ گا۔”
گل ناز اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
وہ اشک بہاتا مسکرانے لگا۔
اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔
“نرس اسے دیکھو۔۔۔ اور تم چلو۔۔۔ ”
وہ گل ناز بیگم کو اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
آئی سی یو میں دبیز خاموشی تھی وائز آنکھیں بند کئے لیٹا تھا جب زرش دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
وہ اس کی خوشبو پہچان گیا سو فوراً آنکھیں کھول دیں۔
اسے دیکھتے ہی وائز کے بے قرار دل کو چین آ گیا۔ آنکھیں سیراب ہو گئیں کہ جسے دیکھنے کے لیے ترس رہی تھیں وہ سامنے تھی۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس آ گئی۔
“تم ٹھی۔۔۔ ”
الفاظ دم توڑ گئے۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دبانے لگی۔
“زرش۔۔۔ ”
یہ کیسا لمحہ تھا یہ تو وائز کی جانتا تھا۔
“تمہارے آنسو مجھے تکلیف دے۔۔۔۔ رہے ہیں۔”
وہ بمشکل بول رہا تھا۔
“کیا بولوں میں؟”
وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
“کچھ بھی مت بولو۔بس میرے سامنے رہو۔”
وہ ڈرپ والا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
“تم نہیں جاؤ گے۔”
وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
اس نے بولنے کے لیے لب وا کئے لیکن سانس نہ لے سکا۔
“نرس انہیں دیکھیں۔۔ ”
وہ نرس کو دیکھتی ہوئی چلائی۔
وہ بولنا چاہتا تھا لیکن آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
“آپ ان سے بات مت کریں۔۔۔ ”
وہ وائز کا معائنہ کرتی ہوئی بولی۔
“وائز تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔”
وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بول رہی تھی۔
وہ رنج سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کے پاس صرف آنسو تھے جو وہ مسلسل بہا رہا تھا۔
وائز کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ تھی۔
“وائز مجھ سے بات کرو۔”
وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
اس کا وجود بے جان ہو چکا تھا۔
آنکھیں دم بخود بند ہو گئیں۔
“وائز۔۔۔ وائز آنکھوں کھولو، ڈاکٹر۔۔۔پلیز انہیں دیکھیں۔۔۔۔”
وہ ڈاکٹر کو اندر آتے دیکھ کر بولی۔
“وائز پلیز مجھ سے بات کرو۔۔۔”
کمرے میں زرش کی ہچکیاں گونج رہی تھیں۔
“سوری ہی از نو مور۔۔۔۔”
ڈاکٹر نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
نرس مشینری وغیرہ آف کرنے لگی۔
“نہیں۔۔۔ وائز تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے پلیز اٹھو مجھ سے بات کرو۔۔۔ دیکھو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ وائز مجھ سے بات کرو نہ۔۔۔ ”
وہ اس کے سینے پر سر رکھے بلک رہی تھی۔
“وائز میری آواز سن رہے ہو نہ؟ پلیز مجھے جواب دو مجھ سے بات کرو نہ۔۔۔ ایسے کیسے سارے فیصلے تم نے لے لیے۔”
وہ اسے جھنجھوڑتی ہوئی بول رہی تھی۔
ثریا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
“امی۔۔۔ امی وائز کو بولیں نہ آنکھیں کھولے۔۔ دیکھیں مجھ سے بات نہیں کر رہا۔”
وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر وائز کے پاس لے آئی۔
وہ اسے سینے سے لگاتی اشک بہانے لگی۔
“امی آپ کچھ کہہ کیوں نہیں رہی دیکھیں وہ چپ ہو گیا ہے بول کیوں نہیں رہا؟”
وہ دیوانہ وار چلاتی جا رہی تھی۔
“میری بچی صبر کر۔۔۔ ”
وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں پکڑتی ہوئی بولیں۔
“صبر؟”
وہ تعجب سے زیر لب دہراتی ہوئی بولی۔
“امی کیسے صبر کر لوں؟ مجھ سے تو بات بھی نہیں کی وائز نے پلیز اسے کہیں ایک بار مجھ سے بات کر لے امی۔۔۔ ”
وہ وائز کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
“زرش حوصلہ کرو۔۔۔ ”
وہ اسے اپنے ساتھ لگاتی ہوئی بولی۔
“وائز اٹھو میں کچھ نہیں جانتی تم ایسے نہیں جا سکتے؟ ابھی بہت کچھ باقی ہے پلیز ایک بار میری بات مان لو۔ امی بولیں نہ بس ایک بار اٹھ جاےُ۔ ایک بار مجھ سے بات کر لے۔ وائز میں نے معاف کر دیا تمہیں،، پھر کیوں ناراض ہو گئے ہو؟”
وہ اس کے سینے پر سر رکھے سسک رہی تھی۔