وہ بے مقصد سڑکوں پر کار دوڑاتا رہا تھا۔ایک گھنٹہ پورا ہوتے ہی وہ واپس لوٹا تھا۔دروازے کی آہٹ پر وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں ایک زانو ہو کر بیٹھی تھی۔
” چلو اٹھو تمہارا ایک گھنٹہ پورا ہوا۔ویسے برا نہ مناؤ تو ایک بات کہوں۔ ہم اپر کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد جنہیں تم عیاش کہتی ہو ہم جیسے لوگوں کے لیے ایک لڑکے اور لڑکی کا محض ایک گھنٹہ ایک ساتھ گزارنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی کیونکہ ہم جیسے لوگ تمھارے محلے کی شریف النفس افراد کی طرح گندی سوچ نہیں رکھتے۔ایک گھنٹے میں تو لانگ ڈرائیو بھی پوری نہیں ہوتی۔آج جب تم اپنے اس محلے میں جہاں بقول تمھارے ”شریف لوگ “پلتے ہیں لوٹوگی تب تمھیں احساس ہوگا کہ کچھ معاملات میں رئیس افراد مڈل کلاس لوگوں سے بہتر ہوتے ہیں۔”
اس نے سابقہ لہجے میں کہا۔
شاہ زر کی بات پر اس نے سر اٹھایا تھا۔
سوجی ہوئ آنکھیں،بکھرے بال،چہرے پر کھینچی آنسوؤں کی واضح لکیریں۔وہ حزن وملال کی زندہ تصویر بنی ایک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی۔
” تم مجھ سے اپنی تذلیل کا انتقام لینا چاہتے ہو نا”؟
رونے اور چیخنے کی زیادتی کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی تھی۔شاہ زر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔اس کی شکستہ حالت اسے شرمندگی و ندامت کی طرف دھکیل رہی تھی وہ نادم ہونا نہیں چاہتا تھا۔اس نے اپنا انتقام لیا تھا وہ لڑکی اپنی اس حالت کی خود ذمہ دار تھی۔اسے یکسر نظر انداز کر تے ہوئے شاہ زر نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تبھی اسے جھٹکا لگا تھا ۔اس کی مضبوط کلائی زرمین کے دودھیا نازک ہاتھوں میں تھی۔غالباً یہ اسے روکنے کی کوشش تھی۔
“تمھاری جینس کی دائیں طرف والی جیب میں ایک پستول ہے نا ،تم اسی سے مجھے مار دو۔مجھے مار کر میری لاش کو دریا میں ڈال دینا۔ کسی کو کچھ خبر نہیں ہوگی یوں تو میرے سارے محلے والےعین شواہد ہیں کہ تم مجھے اپنے ساتھ لائے ہو باوجود اس کے کوئی گواہی نہیں دے گا ۔ وہ لوگ میری طرح بے وقوف نہیں ہیں۔ تم صاف بچ نکلوگے۔ میری دائی ماں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گی۔ میں واپس نہیں لوٹنا چاہتی مجھے مار دو ۔میرے لیے بس اتنی سی آسانی کر دو۔ پلیز”۔
اپنی بات کہہ کر اسنے شاہ زر کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔اس کی نگاہیں فرش پر ثبت تھی گویا اوپر دیکھنا گناہ ہو۔اسے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا ۔وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی ۔اسنے اس کی گن کب دیکھی ۔کتنی آسانی سے وہ سارا پلان ترتیب دے رہی تھی۔اس کے دل کچھ ہوا۔
” تم واقعی کمال ہو ۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میں اپنی پرسنل گن رکھتا ہوں ۔تمھاری عقاب نظروں سے یہ بھی نہ چھپ سکا۔ تمھیں جرنلسٹ نہیں جاسوس ہونا چاہیے تھا۔
خیر تمھارا پلان تو پرفیکٹ تھا لیکن مجھے پسند نہیں آیا۔اب میں اتنا برا بھی نہیں ہوں کہ تمھاری جان لیکر قاتل بن جاؤں۔Dont make me a bad guyانتقام کی شرط یہی ہے کہ وہ perfectly equal ہو۔
کل میں نے میرا ایک گھنٹہ تمھاری مرضی کے مطابق گزارا آج تم نے تمھارا ایک گھنٹہ میری مرضی مطابق گزارا حساب برابر۔”
اسنے بمشکل اپنے لہجے کو طنزیہ بناتے ہوئے کہا۔
” میں تمہیں آخری موقع دیتی ہوں مجھے مار دو ۔ اس انتقام کے چکر کو یہی ختم کر دو۔کیونکہ اگر آج تم نے مجھے زندہ چھوڑ دیا تو میں وعدہ کرتی ہوں تم سے
” میں تمھیں برباد کردونگی شاہ زر آفریدی “۔
اس کی آواز پورے کمرے میں گونجی تھی۔سیکنڈ کے اندر اسکے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔حزن وملال کی جگہ غیض و
غضب نے لی تھی۔اسنے بے یقینی سے اس دھان پان سی لڑکی کی سمت دیکھا جو اپنی بات کہہ کر سانسیں اندر کھینچ رہی تھی جیسے یہ چند الفاظ کہنے کے لیے بھی اپنی پوری قوت لگائی ہو۔ وہ نہ تو طنز کرسکا نہ مسکرا سکا۔
بس سر جھٹکتا باہر نکل گیا۔کار کی فرنٹ سیٹ پر براجمان وہ اس کا منتظر تھا۔چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد وہ کسی روبوٹ کی مانند چلتی ہوئی آئی اور کار کی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی ۔اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری تھا۔
شاہ زر نے کار اس کے گھر کے نزدیک روکی۔
وہ اسی انداز میں قدم اٹھاتی گلی میں مڑی تھی ۔اس نے کار آگے بڑھا دی ۔
اس نے وہی کیا جو وہ چاہتا تھا۔ وہ لڑکی یہی ڈیزرو کرتی تھی۔ مگر نجانے کیوں وہ خوش نہیں تھاجبکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا ۔
اپنے گھر کی سمت قدم اٹھاتی ہوئ وہ لڑکی سڑکوں پر بے مقصد کار دوڑاتا ہوا وہ لڑکا ۔وہ دونوں بلکل ایک جیسے تھے۔ ایک دوسرے کا آئینہ ۔
ضرورت سے زیادہ جذباتی انجام کی پرواہ کیے بغیر قدم اٹھانے والے لوگ۔
*****
اپنے گھر کے باہر لگے مجمع کو کو دیکھ کسی انہونی کے احساس سے اس کا دل دھڑک اٹھا۔وہ دوڑتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی ۔
ہال کے صوفے کے گرد کھڑی کچھ خواتین دائی ماں کو ہںوش میں لانے کی کوشش میں لگی تھیں۔
” رابعہ خالہ کیا ہوا دائی ماں کو”۔
دائی ماں کے اوپر جھکے ہوئے اس نے استفسار کیا۔
” حیرت ہے یہ تم پوچھ رہی ہو ، یہ سب کچھ تمھارا کیا دھرا ہے ۔کیا ضرورت تھی تمھیں رئیسوں سے دشمنی مول لینے کی۔سارے محلے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ تمھیں اٹھا کر لے گیا پھر کیا تھا کسی نے ندرت بہن کو خبر کردی ۔اسقدر بھیانک خبر سن کربد حواس سی دروازے کی سمت دوڑی ہی تھیں کہ سینے میں درد اٹھا اور زمین پر ڈھیر ہو گئیں ۔تب سے ہوش میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر بے سود۔
فیصل گیا ہے ڈاکٹر صاحب کو لینے ۔ویسے اچھا ہی ہوا جو بے چاری اپنے حوش و حواس میں نہیں تمھیں اس حالت میں دیکھتی تو مر ہی جاتی۔”
سر سے پیر تک اسے گھورتے ہوئے پڑوس کی بزرگ نانی نے زہر اگلا تھا۔
” آپ کو چاہیے تھا کہ دائی ماں کو فوراً ہاسپٹل لے جاتیں
اتنی دیر تک آپ سب کیا کر رہی تھیں۔”
اس نے بھیڑ لگا کر کھڑی خواتین
سے روہانسے لہجے میں کہا۔
“زری تمھاری چادر کہاں ہے ؟کیا تم ننگے سر واپس آئی ہو اور تو اور تمھاری چپلیں کہاں رہ گیئں۔”
اس کی بات کے جواب میں رابعہ خالہ کو اسکے کھلے سر اور ننگے پیروں پر چوٹ کرتے دیکھ و ششدر رہ گئی۔
اس سے قبل کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
****
ہںوش میں آتے ہںی اس کی نظر وال کلاک پر پڑی ۔گھڑی کی سوئیاں 9 کے ہندسے پر براجمان تھیں
۔کئی گھنٹے اس کی بے ہںوشی کے نزر ہںو چکے تھے۔
دائی ماں کا بستر خالی تھاشاید انھیں اسپتال لے جایا جا چکا تھا۔صبح جہاں لوگوں کا مجمع لگا تھا وہاں اب سوائے اسکے کوئی ذی روح موجود نہ تھا-پاس ہی تپائی پر زینت بھابی کا مو بائیل فون پڑا تھا۔غالباً وہ عجلت میں اپنا موبائیل یہںی بھول گئ تھی۔
ہاسپٹل جانے کی نیت سے اس نے بستر سے اٹھنا چاہا تبھی شدید پیاس نے اس کی توجہ اپنی طرف کرلی۔حلق میں کانٹے سے اگ آئے تھے۔صبح سے پانی کی ایک بوند بھی حلق سے نیچے نہیں اتری تھی۔
نقاہت کے مارے چکر آ رہے تھے۔بہ بمشکل اپنے جسم کو گھسیٹتی ہںوئی وہ کچن کاؤنٹر تک آئی تھی۔ابھی دو ہںی گھونٹ پانی اس کی حلق سے نیچے اترا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔اس سے قبل کہ وہ باہر جا کر دیکھتی فیصل کچن میں داخل ہںوا تھا۔
“فیصل بھائی کیا دروازہ کھلا ہںوا تھا۔”
اس نے حیرانی سے پوچھا۔
“ارے نہیں ابھی ابھی زینت یہاں سے گئی ہںے۔اس نے دروازہ باہر سے مقفل کردیا تھا۔”
اس نے تشکر بھری نگاہوں سے فیصل کی طرف دیکھا۔اس مشکل گھڑی میں بھی وہ دونوں میاں بیوی اس کے ساتھ تھے۔
“چلیں فیصل بھائی مجھے دائی ماں کے پاس لے چلیں۔اب ان کی طبیعت کیسی ہںے؟”
“زری تمہیں ہمت سے کام لینا ہںو گا جو کچھ میں تمہیں بتانے جا رہا ہںوں اسے بہت صبر وتحمل کے ساتھ سننا ہںوگا۔دائی ماں کو ہارٹ اٹیک ہںوا تھا۔ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر وہ انہیں کوما میں جانے سے نہیں روک پائے۔”
کانچ کا گلاس چھناک کی آواز کے ساتھ زمین بوس ہںوا تھا-اس نے کچن کاؤنٹر کو تھام کر خود کو گرنے سے بچایا تھا۔
“دیکھو زری اپنے آپ کو سنبھالو۔ ہم سب نے پوری کوشش کی مگر تقدیر کو شاید کچھ اور ہںی منظور تھا۔تمہیں ہمت سے کام لینا ہںو گا۔دائی ماں اب بھی ٹھیک ہںو سکتی ہیں۔انہیں فقط تمہاری دعاؤں کی ضرورت ہںے۔”
فیصل نے اس کے شانو پر تسلی بھرا ہاتھ رکھا تھا۔
“میں نے اس سے کہا تھا کہ مجھے جانے دے۔میری دائی ماں مر جائے گی۔”
وہ بلک بلک کہ روتے ہںوئے بولی تھی۔
“خود کو سنبھالو زری۔اللؔہ سب کچھ ٹھیک کرے گا۔وہ ایک راستہ بند کرتا ہںے تو دوسرا کھول بھی دیتا ہںے۔خود کو تنہا نہ سمجھو۔میں ہںو نہ تمھارے ساتھ۔رئیسوں سے دشمنی مول لے کر تم نے ٹھیک نہیں کیا۔اس غلطی کی سزا بھی تمہیں مل چکی ہںے۔سارے محلے والے تمھارے متعلق عجیب عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ہر دوسرا شخص تمھاری کردار کشی کر رہاہے۔
کسی کو اس بات سے سروکار نہیں ہںے کہ وہ تمہیں جبراً اٹھا لے گیا تھا۔یہ لوگ تمہیں چین سے جینے نہیں دینگے۔”
اس نے بے یقینی سے فیصل کی طرف دیکھا تھا۔
“یہ آپ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔وہ شخص جبراً مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔اس سارے میں میرا کردار کیوں کر مشکوک ہںو گیا۔ میرا قصور کیسے نکل آیا ۔آپ کو چاہںیے تھا کہ آپ میرے لیے مغلظات اگلتی ان کی زبانوں کو روکتے۔میرا یقین کریں فیصل بھائی میں پاک دامن واپس لوٹی ہوں۔”
اس نے بھرائی آواز میں کہا۔
” تم چاہے لاکھ صفائیاں دے لو یہاں کوئ بھی تمھارے پاک دامن ہونے پر یقین نہیں کریگا۔ایسا تبھی ممکن ہوگا جب تمھاری پاک دامنی کی گواہی دینے فرشتے آسمان سے نازل ہونگے۔ایک تنہا لڑکی کے لیے معاشرے میں اپنی کھوئ ہوئی عزت پانے کے لیے ایک مرد کا ساتھ ضروری ہے۔یہی وجہ ہںے کہ میں نے تمھاری بہتری کےلیئے ایک فیصلہ لیا ہںے۔”
اس نے چونک کر فیصل کی طرف دیکھا تھا۔
“کل صبح ہمارا نکاح ہںے۔”
اسے لگا چھت اس کے سر پر آگری ہںو۔
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ فیصل بھ بھا ۔”
اس کے لبوں سے اس شخص کے لیے بھائی کا لفظ ادا نہ ہو پایا تھا۔وہ بے یقینی سے فیصل کی طرف دیکھے جارہی تھی۔اس کے جسم پر ایک بار پھر لرزہ طاری ہو گیا۔
” ہاں زری میں نے بہت غور وفکر کے بعد یہ فیصلہ لیا ہے۔تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ تم میری بیوی بن جاؤ۔لوگوں کی زبانیں روکنے کا یہی ایک حل ہے ۔اس کے بعد کوئی تم پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرےگا۔”
فیصل بڑے آرام سے اپنی اصلیت دکھا رہا تھا۔
” آپکو اللّٰہ کا واسطہ ایسا نہ کہیں۔ میں نے آپ کو ہمیشہ بڑے بھائی کا درجہ دیا ہے۔آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔لوگوں کی زبانیں آپ میرے بھائی بن کر بھی تو روک سکتے ہیں کیا ایک بھائی کا فرض نہیں ہوتا کہ بہن کی عزت کی حفاظت کرے ۔کیا ایسا کرنے کے لیے آپ کو میرا شوہر بننا ضروری ہے؟”
اسنے بمشکل اپنے آنسوں روکے تھے ۔
“زری سمجھنے کی کوشش کرو، حالات کے مطابق جذبات میں تبدیلی آہی جاتی ہے ۔میں تمھارا بھائی نہیں ہوں ۔کسی نامحرم کو بھائی مان لینے سے وہ محرم نہیں ہو جاتا۔تم چاہے مجھے جو سمجھتی رہی ہو میں نے کبھی تمہیں اپنی بہن نہیں مانا”۔
الفاظ تھے کہ خنجر وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔اسے بے حس و حرکت دیکھ فیصل نے اس کے شانو پر تسلی بھرا ہاتھ رکھنا چاہا وہ جیسے ہوش میں آئی اور بدک کر پیچھی ہٹی ۔
” آپ تو شادی شدہ ہے نا آپ کو چاہیے تھا کہ دنیا کی ہر لڑکی کو بہن کی نگاہ سے دیکھتے۔ پھر آپ نے مجھے بہن کیوں نہیں مانا۔مجھے اپنی چھوٹی بہن کا درجہ کیوں نہیں دیا۔ یہ غلیظ الفاظ اپنے لبوں سے ادا کرنے سے قبل ایک بار ہی سہی زینت بھابھی کا خیال کر لیتے کہ ان پر کیا گزرے گی۔’
وہ چیخی تھی۔
” تمھیں زینت کی فکر میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔شادی کے اول روز سے وہ واقف ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی بھی تم سے کرنے کا خواہاں تھا ۔مگر تمھاری دائی اس بڑھیا کو نجانے کس شہزادے کی تلاش تھی کہ مجھے صاف منع کردیا۔اسوقت تقدیر میرے ساتھ نہیں تھی مگر آج تقدیر مہربان ہے ۔میں یہ موقع ہاتھ سے کیسے نکلنے دے سکتا ہوں۔تمھیں مجھ سے نکاح کرنا ہی ہوگا، زری۔”
فیصل کا مکروہ چہرہ اور واضح ہوا تھا۔
” خبردار فیصل ملک جو تم نے اپنے گندی زبان سے میرا نام لیا۔آپ جیسے بد کردار اور گرے ہوئے شخص کے لیے بھائی کا لفظ کا استعمال کرکے میں بھائی بہن کے مقدس رشتے کی توہین کرتی آئی ہوں۔آپ کے غلیظ دل میں میرے لیے چاہے جیسے بھی جذبات ہو میں آپ سے شادی نہیں کرونگی۔گھن آرہی ہے مجھے آپ سے۔افسوس ہورہا ہے مجھے زینت بھابھی کی بدقسمتی پر جو انہیں آپ جیسا شوہر نصیب ہوا۔آپ ابھی اسی وقت میرے گھر سے نکل جائیں ورنہ میں تمیز کے دائرے سے باہر نکلتے ہوے دھکے دے کر آپ کو نکال باہر کرونگی۔”
زرمین نے انگلی اٹھا کر اسے متنبہ کیا۔وہ اپنے رنگ میں آچکی تھی۔”
” رسی جل گئ پر بل نہیں گیا۔ تمھاری انہیں اداؤں پر تو جان نثار کرنے کا من کرتا ہے۔بلکل اڑیل گھوڑی ہو تم ۔تمھیں قابو کرنا مشکل توہے مگر ناممکن نہیں ۔سوچ لو گر تم سیدھی طرح سے نہ مانی تو دوسرے طریقے بھی آتے ہیں مجھے۔”
وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا تھا۔زرمین نے چونک کر نا سمجھنے والے انداز میں اس کی سمت دیکھا ۔
” وہ رئیس زارہ تو تمہیں باعزت واپس چھوڑ گیا اس کے پاس عیاشی کے اور بھی سامان ہونگے ۔ مگر میں تمھیں نہیں چھوڑونگا اپنی محبت کے حصول کے لیے میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں۔تمھارا گھمنڈ تمھاری انا آج رات تمھیں تمھارے ہی گھر میں بے عزت کر دیں گے ۔”
وہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھا۔اسے لگا اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا گیا ہو۔وہ دم بخود کھڑی رہ گئی۔آج جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا اسے لگا تھا اس سے برا اور کیا ہوسکتا ہے۔ تبھی تقدیر اس پر ہنسی تھی ۔ابھی ایک قیامت آنی باقی تھی ۔اسے لگا وہ بے ہوش ہو جائے گی وہ اپنا ہوش کھونا نہیں چاہتی تھی مگر اس کے جسم کی نقاہت اس کے دل کی گریہ وزاری اس کے دماغ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔اس نے مضبوطی سے کچن کاونٹر کو تھاما تھا۔
بدحواسی میں ڈوبتے ذہن کے ساتھ اس نے آیت الکرسی کا ورد کرنا شروع کیا۔فیصل اس کے قریب آگیا ان دونوں کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ بھی نہ رہ گیا تھا۔اس کا جسم پسینےمیں شرابور ہوگیا۔راہ فرار دکھائی نہ دے رہی تھی۔
میرے مولا رحم کر”۔
اس کے لبوں سے ایک سسکی نکلی۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔فیصل کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے تھے۔
” اگر تم نے کسی سے کچھ بھی کہنے کی کوشش تو یہ مت بھولنا کے ان لوگوں کی نظر میں اب تم پہلے والی زرمین نہیں ایک ایسی لڑکی ہو جو ایک لڑکے کے ساتھ تنہائی میں پورا ایک گھنٹہ گزار کر آئی ہںے۔بڑی آسانی سے میں ثابت کردونگا کہ تم نے ازخود مجھے بلایا تھا۔محلے بھر میں بدنام ہونے کے بعد تمھیں میرا ساتھ درکار تھا،اپنی کھویا ہوا مقام پانے کے لیے تم میرا ساتھ چاہتی تھی۔”
اپنے چہرے کو زرمین کے کان کے نزدیک لے جاکر اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا تھا۔
فیصل کو اپنے اس قدر نزدیک پاکر اسے بے ساختہ ابکائ آئی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی زینت عجلت میں اندر آئی تھیں۔
” زرمین چلو جلدی سے کھانا کھا لو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے”۔
زینت نے مسکرا کر کہا۔وہ مسکرا نہ سکی۔اسے ہنوز کھڑا دیکھ زینت پریشان ہوئی۔
” زرمین مجھے تمھاری طبیعت بگڑتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے ۔تم پسینےمیں بھیگ گئ ہو۔ جلدی سے کھانا کھا لو۔تمھارا بلڈ پریشر لو ہو رہا ہے۔آپ یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں جلدی چلیں منا بہت رو رہا ہے مجھ سے نہیں سنبھل رہا آپ ہی سنبھالیں۔”
زینت نے زرمین کو کرسی پر بیٹھایا کھانے کا ٹفن ٹیبل پر رکھااور فیصل کی طرف بڑھی
اس نے فیصل کا بازو پکڑ کر اس کا رخ باہر کی سمت کیا تھا۔دروازے سے باہر قدم رکھنے سے قبل اسنے زرمین کی طرف دھمکی دیتی ہوئ نگاہوں سے دیکھا اور باہر نکل گیا ۔
اس گھر کی چوکھٹ عبور کرنے سے قبل زینت نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔کچھ تھا ان نظروں میں عجیب سا احساس عجیب سا تاثر وہ زینت کی نظروں میں ہلکورے لیتے جزبات کو معنی نہ پہنا پائی تھی۔
ان دونوں کے باہر نکلتے ہی اس نے بھاگ کر دروازہ مقفل کیا تھا۔
اس کا ذہن تیز تیز چل رہا تھا۔وہ اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی تھی۔اسے جلد از جلد یہاں سے دور جانا تھا۔اس نے بد حواسی میں اپنا پرس اٹھایا چادر اوڑھی اور وہ گھر جہاں گزشتہ 23 سالوں سے وہ رہائش پذیر تھی اس کی چوکھٹ عبور کر گئ۔زادراہ کی طور پرس کے علاوہ کچھ اور لینا اسے یاد نہ رہا تھا۔قدموں کی چاپ پر آہٹ نہ ہو اسی لیے اس نے پیروں کو چپلوں میں میں قید کرنے سے گریز کیا تھا۔وہ دبے دبے قدم اٹھاتی فیصل کے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزری ۔دروازہ بند تھا۔اس نے شکر کا سانس لیتے ہوئے قدم بڑھائے۔گلی میں بس اکا دکا لوگ ہی نظر آرہے تھے اس نے چہرہ اچھی طرح چادر سے ڈھک لیا۔آج پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ اس گلی سے سڑک تک راستہ بہت لمبا تھا۔جوں ہی اس کا پہلا قدم کول تال سے بنی سڑک پر پڑا۔اس نے دوڑنا شروع کر دیا۔دوڑتے ہںوئے وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی جا رہی تھی۔اسے خوف تھا کہ فیصل اس کا تعاقب نہ کر رہا ہںو۔ اچانک سامنے سے آتی کار کی تیز ہیڈ لائیٹس کی روشنی سے اسکی آنکھیں چندھیا گئیں۔وہ سیدھے کار کے Hood پر گری اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔
****
ہںوش میں آتے ہںی اس نے خود کو بستر پر پایا۔اس نے اطراف میں نظر دوڑائی۔وہ ایک خوبصورت کمرہ تھا۔کمرے کی کھڑکیوں پر گلابی رنگ کے پردے لٹک رہںے تھے جن سے سورج کی روشنی چھن کے اندر آ رہںی تھی۔کھڑکی کہ نزدیک گلابی رنگ کا سنگھار میز جس پر میک اپ کے مختلف قسم کے لوازمات ترتیتب سے سجے نظر آتے تھے۔سنگھار میز کے عین مقابل گلابی رنگ کی دو تین کرسیاں بیچھی تھی۔اس کمرے کی تقریبا ہر چیز گلابی رنگ کی تھی۔وہ جس بیڈ پر لیٹی تھی اس کے عین مقابل ایک واردڑاب کا دروازہ کھلا تھا۔جس میں منہ دیے ایک لڑ کی کچھ تلاش کر رہی تھی۔اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی سعی کی تب ہی اس کی نظر اپنے ہاتھ پر لگی ڈرپ پر پڑی۔بیڈکے نزدیک اسٹینڈ پر گلکوس کی باٹل لٹکی نظر آرہی تھی۔پیاس کی شدت سے اس کی حلق میں کانٹے سے اگ آئے تھے۔ وہ اٹھ بیٹھی بیڈ کے نزدیک تپائی پر دھرے پانی کے گلاس کو لبوں سے لگایا تبھی ہاتھوں میں لرزش ہںوئی اور کانچ کا گلاس چھناکے کی آواز کے ساتھ زمین بوس ہںوا۔
شور سن کر وہ لڑکی اس کے نزدیک آئی تھی۔
“Don’t move.
لیٹی رہںو۔تم پانی پینا چاہتی ہو نا میں پلا دیتی ہںوں”۔وہ فوراً پانی سے بھرا دوسرا گلاس لے آئی۔جسے لبوں سے لگاتے ہںی زرمین نے ایک سانس میں خالی کر دیا۔
وہ20-22سال کی لڑکی تھی جو گلابی ہی رنگ کےنائٹ سوٹ میں ملبوس تھی۔براؤن سلکی باپ شولڈر تک آرہے تھے۔رنگ سنہرا سا تھا۔اس نے اجنبی لڑکی کا باریکی سے جائزہ لیا تھا۔
“تو کیسا محسوس کررہی ہںو اب تم؟کل رات تم میری کار کے سامنے بے ہوش ہوگئی تھی۔Thank god تمہیں کوئی چوٹ نہیں آئی۔میں تو ڈر ہی گئی تھی۔ڈاکٹر نے کہا کہ weakness کی وجہ سے تم بے ہوش ہوئی تھی غالبا تم نے کافی دیر سے کچھ کھایا نہیں تھا۔But you don’t worryمیں نے glucoseلگوادیا ہںے۔کچھ ہںی دیر میں تمھارے جسم میں چلنے پھر نے لائق طاقت آہی جائے گی۔”
اجنبی لڑکی نے مسکراتے ہںوئے کہا۔اس کے انداز گفتگو سے وہ کافی پر اعتماد معلوم ہںو رہی تھی۔
“آپ نے میری کافی مدد کی اس کیلئے بہت شکریہ ۔مگر اب مجھے چلنا چاہںیئے۔”
زرمین نے بستر سے اٹھنا چاہا۔
“یہ تم کہا کے لئے چل دی۔اناج کا ایک دانہ تمھاری حلق سے نیچے نہیں اترا ہںے۔اس حالت میں باہر نکلو گی تو پہلے ہی قدم پر چکرا کر گر پڑوگی۔تمہیں ڈاکٹرس نے restکرنے کے لئے کہا ہںے۔اس لیئے میں نے تمہیں کہی نہیں جانے دینا۔تم بیٹھو میں تمھارے کھانے کے لئے کچھ لے کر آتی ہںوں۔”
اسے دوبارہ بستر پر بیٹھاتی ہںوئی۔اس کمرے کے دروازے سے متصل کمرے میں غائب ہوگئ۔کچھ ہی دیر بعد وہ برگر اور اورنج جوس سے سجی ٹرے لیے حاضر ہوئی تھی۔
” لو اب فورا سے پہلے اسے کھانا شروع کر دو ورنہ تمھاری آواز حلق میں ہی پھنسی رہ جائیگی۔”
اس نے ٹرے تپائی پر رکھتے ہوئے زرمین کی بیٹھی ہوئی آواز پر چوٹ کی اور باتھ روم میں چلی گئ ۔
۔وہ لڑکی یا تو حد سے زائد مخلص تھی یا عجیب ۔اس نے بمشکل دو تین نوالے حلق سے نیچے اتارے تھے۔وہ لڑکی بھیگے چہرے کے ساتھ باتھ روم سے باہر آئ تھی زرمین کو اپنا پرس لیئے چادر اوڑھے جانے کی تیاری پکڑتے دیکھ وہ چیخ اٹھی۔
” یہ کیا تم کہاں چل دی ۔تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا تھا ۔ڈاکٹر نے تمہیں ریسٹ کرنے کی ہدایت دی ہے۔اس نے جھٹ سے زرمین کی چادر اور پرس اس سے چھین لی تھی۔اس کی اس حرکت پر وہ ششدر رہ گئی۔
“I know.
جانتی ہںوں تمہیں میرا انداز عجیب لگ رہا ہںوگا۔لیکن اور کوئ چارہ بھی تو نہیں ہںے۔ شرافت سے تم مان نہیں رہی ہںو اس لئے مجھے من مانی سے کام لینا ہںوگا ۔اس حالت میں تمھیں باہر جانے کی اجازت میں نہیں دے سکتی۔تم مجھے تمھارے گھر کا کانٹیکٹ نمبر دے دو میں انھیں انفارم کردونگی۔جب وہ تمھیں لینے آئےنگے تب کہیں جاکر میں تمھیں ان کے ساتھ جانے کی اجازت دونگی۔”
اجنبی لڑکی نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا تھا۔زرمین اس لڑکی کی عجیب منطق پر حیران تھی۔بنا کسی جان پہچان کےوہ کسی پر اپنی مرضی کیسے تھوپ سکتی تھی۔کسی اجنبی پر وہ اپنا حق کیسے جتا رہی تھی۔
“دیکھیں میں اب ٹھیک ہںوں۔مجھے جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا ہںے۔میرے گھر والے میرے منتظر ہںونگے۔اس لئے پلیز آپ مجھے مت رو کیں۔”
اس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔جھوٹ بولتے ہںوئے اس کی زبان واضح طور پر لڑکھڑائی تھی۔اس کی بات پر اجنبی لڑکی اس کے نزدیک آگئی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہںوئے بولی۔
“I can understand.
چاہے کچھ گھنٹوں کے لیے ہی سہی ہمارا رابطہ گھر والوں سےنہ ہںو پائےتوممی،ڈیڈی،بھائی،بہن گھر کے سبھی افراد پریشان ہںو جاتے ہیں۔عجیب عجیب سے وسوسے انھیں ستانے لگ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہںے کہ میں نے تمھارے پرس میں تمھارا فون تلاش کیا تھا۔ تاکہ انہیں انفارم کردوں ۔مگر مجھے فون نہیں ملا۔عین ممکن ہںے کہ حادثے کے دوران تمھارا فون وہیں گر گیا ہںوگا۔تم ایسا کرو کہ میرا فون استعمال لو اور اپنے گھر سے کسی کو بلا لو تمھیں لینے کے لیے ۔میں تب تک دوسرے روم میں ویٹ کرتی ہوں تم آرام سے بات کر لو۔”
اپنی بات ختم کرکے وہ دوسرے کمرے کی طرف چل دی تھی۔اس کا ہر ایک لفظ اسے نشتر کی مانند چبھا تھا۔گھر ماں ،باپ بھائی بہن اس کے پاس کوئی رشتہ نہ تھا۔بھائ کے ذکر پر اس کی نظروں کے سامنے فیصل کا چہرہ گھوم گیا۔جسے بھائی کا درجہ تھا وہ تو انسان کہلائے جانے کے بھی لائق نہیں تھا۔وہ اس اجنبی لڑکی کو کیسے بتاتی کہ اس کا کوئی گھر نہیں ہے نا ہی کوئی اس کا منتظر ہے ۔اس کے انتظار میں کھانا نا کھانے والی اس کے لیے پریشان رہنے والی ہستی کسی سرکاری ہسپتال میں زیست وموت کی جنگ لڑ رہی تھی۔
تنہائ وبے بسی کے احساس سے اسکی آنکھیں چھلک پڑیں۔
آج وہ بلکل تنہا تھی۔اس کی بدولت دائی ماں زندہ ہوکر بھی زندہ نہیں تھیں۔
اس کی ہستی کھیلتی بے فکر زندگی جہنم بن چکی تھی۔ محض ایک گھنٹے نے اس کی دنیا بدل دی تھی۔اور اس سارے کا ذمہ دار تھا ” شاہ زر آفریدی”۔
”
میں تم سے نفرت کرتی ہوں شاہ زر آفریدی بے انتہا نفرت ۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی کبھی نہیں”۔
وہ تصور میں شاہ زر سے مخاطب ہوئی تھی۔
چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد اجنبی لڑکی
کمرے میں داخل ہوئی تھی۔اسے اسمارٹ فون ہاتھ میں پکڑے
آنسو ٹپکاتا پاکر وہ حیران رہ گئی ۔
“کیاں ہںوا تم رو کیوں رہی ہںو؟
“اجنبی لڑکی فوراً اس کے نزدیک آئی تھی۔وہ اس کے شانے سے لگ کر شدت سے رو پڑی۔
“Come on کچھ تو بو لو speak up یوں چپ مت رہںو
میرا دل بیٹھا جا رہا ہںے۔
وہ لڑکی اس کے اس طرح رونے پر حواس باختہ سی بولی۔
“میرے ماں باپ نہیں ہیں۔
… میں یتیم ہںوں….۔میرا کوئی گھر نہیں ہے….. میرا کوئی منتظر نہیں ہںے۔میری دائی ماں…..”
ہچکیوں کے درمیان بولتی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہو پائی تھی کہ وہ اس اجنبی لڑکی کی گود میں ڈھے گئی۔
ہوش میں آتے ہی اس نے اجنبی لڑکی کو اپنے سرہانے بیٹھے پایا اس کے عقب میں دو اور لڑکیاں کھڑی تھیں۔
” شکر ہے تمھیں ہوش آگیا ۔nice to meet you again میرا نام مہر ہے ۔اس کا نام ہے ایرم اور اسے رمشا پکارا جاتا ہے ۔یہ دونوں میری روم میٹس ہیں اور آج سے تم بھی اسی فہرست میں شامل ہونے جارہی ہو۔
ہم تینوں پڑھائی کے لئے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔مگر جاب کرنے والی لڑکیوں کو بھی ہاسٹل میں رہنے کی اجازت ہے۔ جرنلسٹ مس زرمین فاروقی۔”
اس نے زرمین کا شناختی کارڈ
اس کی نظروں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔وہ حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن کی طرف دیکھے گئ۔
” اس میں اس قدر حیران ہونے والی کونسی بات ہے۔
ہمیں کچھ دنوں سے چوتھی روم میٹ کی تلاش تھی۔تو ہم نے تینوں نے ڈیسائڈ کیا کیوں نہ تمھیں ہماری روم میٹ بنا لیا جائے۔”
اس سے قبل کہ زرمین کچھ کہتی مہر نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے کچھ کہنے سے باز رکھا اور گردن موڑ کر دونوں لڑکیوں کو کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا وہ دونوں باہر نکل گئیں تھی۔
” رات کے دس بج رہے ہوں اور آپ کا کسی سنسان سڑک پر ایکسیڈنٹ ہوجائے۔
حادثہ میں ڈرائیو کرنے والے کی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے آپ کی care کرے تو ایسے شخص کا آپ کو زرا سا ہی سہی احسان مند ہونا چاہیے۔ ہے نا؟”
اس کی بات پر زرمین کوحیرت کا ایک اور جھٹکا لگا تھا۔اس لڑکی کی پل پل بدلتی شخصیت پر وہ ششدر رہ گئی۔اس پر احسان کرکے بڑے آرام سے وہ احسان جتا رہی تھی ۔”
سنو مہر میں جانتی تم نے میرے لئے جو کیا وہ بہت کم لوگ کسی اجنبی کے لیے کر پاتے ہیں۔میں تہہ دل سے تمھاری احسان مند ہوں اور تاحیات رہونگی۔مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تمھارا شکریہ کیسے ادا کروں۔میں پہلے ہی تمھیں پریشان کرچکی ہوں اور نہیں کرنا چاہتی اور میں تمھیں آگاہ کردوں کہ میں جرنلسٹ تھی اب نہیں ہوں۔اس لیے میں تمھارے ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کے criteria پر پوری نہیں اترتی۔اس لیے مجھے جانے دو۔“
اس نے حد سے زائد مخلص لڑکی کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے کہا۔”
No problem یہ مسٔلہ چٹکیوں میں حل ہو جائے گا ۔تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے اس ہاسٹل کے مالک کی بیٹی مزنی ۔۔ازخود یہاں رہائش پذیر ہے
اسے یہاں خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ اس ہاسٹل میں اس کی موجودگی کا ہم لڑکیاں بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھاتی ہیں ۔
وارڈن اس کی بات نہیں ٹالتیں۔میں اس سے بات کر لونگی تم فکر نہ کرو۔تم یہاں آرام سے جب تک چاہے رہ سکتی ہو۔اور رہاسوال احسان مند ہونے کا مجھے تھنکس کرنے کا تو تم ایسا کرو کہ میری بات مان لو ۔تب میں سمجھونگی کہ تم نے میرا احسان اتارا ہے کیونکہ ہمیں چوتھی روم میٹ کی ضرورت ہے جبکہ مجھے کوئی لڑکی روم میٹ بنانے کے لیے پسند نہیں آرہی ۔
حیرانی کی بات ہے کہ تم مجھے پسند آگئی ہو سو تم میری روم میٹ بن جاؤ اور مجھے روم میٹ کی تلاش سے آزاد کردو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو وارڈن کسی بھی لڑکی کو ہمارے روم میں ٹھونس دیں گی ۔میری نا نا سنکر وہ مجھ سے پہلے ہی تنگ ہیں۔”
اس کی بات پر زرمین تذبذب میں مبتلا ہو گئی۔
” تم آرام سے بیٹھ کر سوچ لو ۔فی الحال میں کالج کے لیے نکل رہی ہوں۔باقی گفتگو کالج سے واپسی کے بعد ہوگی تب تک لیے اللّٰہ حافظ ۔have a nice day”
اسے متذبذب چھوڑ کر وہ کمرے کے باہر نکل گئی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...