کار چلانے والے سے کبھی کبھی ایسی غلطی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جو اس نے کیا، اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن پھر اس کے ساتھ جو ہوا وہ شاید ہی کسی کے ساتھ ہوتا ہو۔ ہوا یوں کہ وہ اپنی کار سے گھر آ رہا تھا۔ رات کا آخری پہر بھی ختم ہونے کو تھا۔ وہ جس سڑک سے گزر رہا تھا وہ بالکل سنسان پڑی تھی۔ کار کی رفتار بے حد تیز تھی اور اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ رہے تھے۔ اس کا دماغ بری طرح منتشر تھا جسے یکسوئی کی حالت میں لانے کی وہ ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اچانک فضا میں دور کسی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز ابھری۔
’’اللہ اکبر۔۔ اللہ اکبر…۔‘‘
کار آگے بڑھتی رہی اور آواز واضح ہوتی گئی۔
حیٰ علی الفلاح۔ حیٰ علی الفلاح۔‘‘
اچانک ہی ایک شخص سڑک پر چلا آیا۔ بیچوں بیچ…۔ سڑک کی دونوں جانب بند دکانیں تھیں۔ جانے وہ کدھرسے نکل آیا تھا۔ اس کا منتشر دماغ اس ناگہانی افتاد کے لیے قطعی تیار نہ تھا۔ اضطراری حالت میں اس نے بریک لگایا لیکن کار اس شخص کے اتنے قریب پہنچ چکی تھی کہ اسے بچانا محال تھا۔ کار اس سے ٹکرائی۔ ایک چیخ ابھری۔ اس کا جسم سڑک پر گرا اور کار اسے روندتی ہوئی کچھ آگے جا کر رک گئی۔ وہ ساری جان سے لرز اٹھا اور اس کا جسم پسینے میں نہا گیا۔ بے اختیار اس نے کار سے اتر کر اس مرنے والے شخص کے پاس جانا چاہا لیکن یکایک وہ رک گیا۔ سڑک ابھی بھی سنسان تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس حادثے کو کسی نے نہیں دیکھا۔ اس نے سوچا کہ بہتر یہی ہو گا کہ وہ یہاں سے چپ چاپ نکل جائے ورنہ مصیبت میں پڑ جائے گا۔ اس نے کار اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔ جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا تو صبح صادق کے اجالے پھیلنے لگے تھے۔ اس نے باہر بنے گیراج میں کار کھڑی کی اور دروازے پر لگے کال بیل کو دبایا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی بیوی نے دروازہ کھولا۔ وہ خوابگاہ میں داخل ہوا اور اس کی بیوی دوبارہ بستر پر دراز ہوتی ہوئی غنودگی بھرے لہجے میں بولی۔
’’صبح کر دی!‘‘
وہ کوئی جواب دیے بغیر کپڑے تبدیل کرنے لگا۔ در اصل وہ اپنی ناگفتہ بہ حالت اس سے چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے بھی نیند کے عالم میں اس پر خاص توجہ نہیں دی اور جلد ہی سو گئی۔ اس نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند ہوتے ہی کار سے ٹکرانے والے شخص کا سراپا ابھر آیا اور اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ یقیناً وہ مر چکا ہو گا۔ اس نے کرب سے سوچا۔ کیا پتا اس کی لاش اب تک وہیں پڑی ہو۔۔ نہیں۔ اب تو صبح ہو چکی ہے۔ سڑک پر آمد و رفت شروع ہو گئی ہو گی۔ کسی نہ کسی نے لاش دیکھ کر پولیس کو خبر کر دی ہو گی۔ پولیس پہنچ چکی ہو گی۔ لاش کی شناخت بھی ہو گئی ہو گی۔ وہ قریب ہی کی بستی میں کہیں رہتا ہو گا اور شاید گھر سے مسجد جانے کے لیے نکلا ہو گا۔ جانے کون ہو گا؟ اس کے گھر والوں کی کیا حالت ہو گی؟ اس نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کر دیا تھا اور بزدلوں کی طرح اس کے مردہ جسم کو سڑک پر چھوڑ کر بھاگ آیا تھا۔ گناہ اور ندامت کے شدید احساس سے اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ جی چاہا کہ دہاڑیں مار کر روئے لیکن بغل میں خراٹے لیتی ہوئی بیوی کے خیال سے ضبط کیا۔ اس نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ اس حادثے میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ وہ شخص اچانک ہی سڑک کے بیچوں بیچ آ گیا تھا۔ اس نے تو کار روکنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن اسے بچانے میں ناکام رہا۔ اب اس کی موت ہی اسے کھینچ لائی تھی تو وہ کیا کر سکتا تھا۔ لیکن دل کسی بھی دلیل سے متفق نہیں ہوا اور وہ گہرے کرب میں کروٹیں بدلتا رہا۔ گھنٹے بھر بعد اس کی بیوی اٹھی اور باتھ روم میں داخل ہو گئی۔ وہ اب تک جاگ رہا تھا اور اس منحوس رات پر لعنت بھیج رہا تھا جس نے اس کی اچھی خاصی پر سکون اور کامیاب زندگی میں زہر گھول دیا تھا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ آٹھ بج چکے تھے۔ کچھ سوچ کر وہ کانٹوں بھرے بستر سے اٹھا۔ لباس تبدیل کیا اور باتھ روم کے باہرسے بیوی کو مخاطب کیا۔
’’ایک ضروری کام یاد آ گیا۔ میں تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں۔‘‘
اس نے گاڑی نکالی اور اس طرف روانہ ہو گیا جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ اس سڑک پر پہنچا تو وہاں خاصی چہل پہل تھی۔ ساری دکانیں کھل چکی تھیں اور لوگ کاروبار زندگی میں مصروف تھے۔ اس نے جائے وقوعہ کو یاد کرنے کی کوشش کی اور اندازے سے ایک جگہ کار کھڑی کی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سڑک بالکل صاف ستھری تھی۔ کہیں پر اس حادثے کا نشان تک نہ تھا۔ وہ کار سے اترا اور قریب ہی کی ایک چائے دکان پر چلا آیا۔ چائے پیتے ہوئے اس نے دکان دار سے سرسری طور پر پوچھا۔‘‘یہاں کوئی حادثہ ہوا تھا کیا؟‘‘
’’کیسا حادثہ؟‘‘ دکاندار نے حیرت ظاہر کی۔
’’میرا مطلب ہے۔ یہاں پر کسی کی موت ہوئی ہے۔ گاڑی سے ٹکرا کر…‘‘
’’نہیں جناب! ایسا کوئی حادثہ یہاں پیش نہیں آیا۔ میں تو صبح سویرے ہی دکان کھول دیتا ہوں۔ ایسی کوئی بات ہوتی تو مجھے ضرور علم ہوتا۔ کہیں اور ہوا ہو گا ’’
اس نے تعجب سے چہار سمت نگاہیں دوڑائیں۔ بالکل یہی جگہ تھی۔ اسے مکمل یقین تھا۔ لیکن چائے والے کو اس کی جانکاری کیوں نہیں ہوئی۔ وہ کوئی چھوٹا سا حادثہ نہیں تھا۔ ایک انسان کی موت ہو گئی تھی۔ یہ بڑے دولت مند لوگوں کا کوئی بے حس اور خود غرض علاقہ نہ تھا۔ نچلے متوسط طبقے سے منسلک لوگ یہاں آباد تھے۔ ایسی جگہوں پر کسی کی حادثاتی موت ہفتوں کے لیے موضوع گفتگو بن جاتی ہے۔ لیکن یہاں تو ایک گہری لا علمی چھائی ہوئی تھی۔ تو کیا گشتی پولیس والے منھ اندھیرے ہی لاش اٹھالے گئے؟ لیکن پولیس اتنی چاق وچوبندکس طرح ہو سکتی ہے؟ اور پھر اس لاش کی تفتیش تو ہونی چاہئے تھی۔ آخر وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ یہاں کے لوگوں سے لاش کی شناخت تو کرائی جاتی۔ چائے پی کر وہ ایک پان کے کھوکھے کے پاس چلا آیا۔ سگریٹ لیتے ہوئے اس نے اس سے بھی استفسار کیا۔ حیرت انگیز طور پر اس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ تو کیا یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اس کی کار سے حادثہ پیش آیا تھا۔ لیکن نہیں۔ اس کی یادداشت اتنی خراب نہیں تھی۔ ہرچند کہ کل رات اس نے خوب شراب پی تھی لیکن اس کا نشہ تو کب کا اتر چکا تھا۔ کار چلاتے وقت بے شک وہ ذہنی انتشار کا شکار تھا لیکن نشے میں قطعی نہیں تھا۔ اور پھر کچھ ہی فاصلے پر وہ مسجد بھی موجود تھی جہاں سے اس وقت اذان کی آواز آ رہی تھی جب اس نے اپنی کار سے ایک شخص کو کچل ڈالا تھا۔ آخر اس شخص کی لاش کہاں غائب ہو گئی۔ وہ گہرے تذبذب میں پڑ گیا۔ اس نے بے حد چھان بین کی۔
مقامی تھانے اور مرکزی ہسپتال کے بھی چکر لگائے۔ لیکن اس لاش کا کہیں سراغ نہ ملا۔ تھک ہار کر
گھر واپس آیا تو وہ ذہنی طور پر کافی حیران و پریشان تھا۔ دن بھر وہی الجھن بھری کیفیت طاری رہی۔ بیوی کے استفسار پر اس نے طرح طرح کے بہانے بنائے۔ رات بستر پر گیا تو ایک بار پھر نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ آنکھیں بند کرتے ہی سماعت میں ایک چیخ ابھرتی اور وہ چونک کر اٹھ بیٹھتا۔ عجب چیخوں بھری رات تھی۔ دیر تک سونے والا صبح سویرے ہی بستر سے نکل آیا۔ گیراج سے کار نکالی اور پھر اسی مقام کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ایک بار پھر اس حادثے کی تفتیش کی لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اسے شدید حیرانی تھی کہ آخر لاش کہاں گئی۔ وہ کوئی جنگل کا علاقہ تو تھا نہیں کہ جنگلی جانور کھینچ لے جاتے۔ شام گئے گھر لوٹا تو بیوی متفکر و مضطرب سی اس کی منتظر تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ پھٹ پڑی۔
’’صبح سویرے کہاں چلے گئے تھے؟ کل سے آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ اپنا حال تباہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی پریشانی ہے تو بتائیں۔ شاید اس کا حل نکل آئے۔‘‘
اس نے بیوی کے فکر مند چہرے کی طرف دیکھا۔ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اس نے اس حادثے کی تفصیل بتائی۔ آخر میں اس نے حیرت ظاہر کی۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ لاش کہاں گم ہو گئی۔ اگر اس کی شناخت ہو جاتی اور اس کے گھر والوں سے ملتا۔ کسی طرح اس گناہ کی تلافی کی کوشش کرتا۔ مگر…‘‘
بیوی اس کی باتوں کو بغور سنتی رہی۔ قدرے توقف کے بعد وہ گویا ہوئی۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ بے حد حساس ہیں۔ چھوٹی سی بات بھی آپ کو بے چین کر دیتی ہے۔ یہ تو آپ کے ہاتھوں کسی کی موت کا معاملہ ہے۔ اب وہ چاہے نادانستگی میں ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔ لیکن لاش نہ ملنے سے شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ حادثہ محض آپ کا واہمہ ہی نہ ہو۔ رات کا آخری پہر، نیند کا خمار اور پھر شراب کا نشہ۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ میرا واہمہ قطعی نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے سختی سے تردید کی۔ ’’میں پورے ہوش وحواس اور بیداری کے عالم میں تھا۔‘‘
’’تو پھر ممکن ہے کہ وہ شخص صرف زخمی ہوا ہو اور وہ بھی معمولی سا۔ آپ کے جاتے ہی وہ بھی اپنے گھر چلا گیا ہو۔‘‘ اس کی بیوی نے قیاس لگایا۔
’’وہ ٹکر سے میری کار کے سامنے گرا تھا اور اس کے جسم سے پوری کار گزر گئی تھی۔ اس کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
اس نے حتمی لہجے میں کہا تو بیوی خاموش ہو گئی۔ کافی دیر بعد اسے جیسے کچھ یاد آیا اور وہ بے تابی سے بولی۔
’’کیوں نہ اس معاملے میں آپ کے دوست دیپانکر سے مدد لی جائے۔
وہ ایک تجربہ کار ماہر نفسیات ہے۔ ممکن ہے وہ کوئی بہتر مشورہ دے۔‘‘
’’کیا تم مجھے پاگل سمجھ رہی ہو؟‘‘ وہ مشتعل ہو اٹھا۔ ’’میں۔ رضوان عالم۔ ایک نامور اور بے خوف صحافی، جس نے صحافتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ جس نے اسٹنگ آپریشن کی بنیاد ڈالی۔ بڑی بڑی شخصیتوں کے جرائم کو کیمرے میں قید کیا۔ کتنوں کو جیل
ہوئی اور کتنے اپنے عہدوں سے دستبردار ہوئے۔ مجھے کتنی ہی دھمکیاں دی گئیں۔ خریدنے کی کوشش کی گئی لیکن میں سچائی اور ایمانداری کے سخت محاذ پر ثابت قدم رہا۔ کیا یہ سارے کام میں نے پاگل پن میں کیے ہیں۔‘‘
’’آپ میری بات کا غلط مفہوم نکال رہے ہیں۔‘‘ وہ نرمی سے بولی۔ ’’مجھ سے زیادہ آپ کو کون جانتا ہے۔ آپ ایک مضبوط اعصاب کے مالک اور ذمہ دار شخص ہیں۔ لیکن بالفرض محال اگر کوئی حادثہ ہو ہی چکا ہے تو کوشش ہونی چاہیئے کہ اس کے اثرات سے نکلا جائے۔ دیپانکر جی اس میں مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
کافی غور و خوض کرنے پر اسے بھی اپنی بیوی کی بات درست لگی۔ اس نے دیپانکر کو فون کر کے ملاقات کا وقت طے کیا۔ وقت مقررہ پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس کے چیمبر میں پہنچ گیا۔
دیپانکر نے اس کی حالت دیکھ کر تشویش ظاہر کی۔
’’ تم ٹھیک تو ہو۔ لگتا ہے کہ کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہو۔‘‘
اس نے حادثے اور اس کے بعد کی ساری تفصیل اس کے گوش گزار کر دی۔ دیپانکر پورے انہماک سے سنتا رہا۔ اس کے خاموش ہونے کے بعد اس نے استفسار کیا۔
’’تم رات کے آخری پہر کہاں سے آ رہے تھے؟’’
اس کے ذہن میں دھماکہ سا ہوا۔ وہ دیر تک کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر گویا ہوا۔
’’میرے میگزین کے یوم تاسیس پر ہوٹل ‘سی لارک‘ میں تقریب تھی۔ بڑی بڑی ذی اثر اور مقتدر ہستیاں مدعو تھیں۔ انہی کی میزبانی میں کافی رات ہو گئی۔‘‘
دیپانکر بڑے غور سے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔ یکایک اس نے اس کی بیوی کو مخاطب کیا۔
’’بھابھی۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے باہر تشریف لے جائیں۔‘‘
دونوں نے اسے تعجب سے دیکھا۔
پھر اس کی بیوی اٹھی اور خاموشی سے باہر چلی گئی۔
دیپانکر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’اس تقریب میں کیا کیا ہوا۔؟‘‘
جواب دینے میں وہ قدرے جھجھکا۔
’’ایسی پارٹیوں میں ہوتا کیا ہے۔؟ یہ تو محض ملنے ملانے کے بہانے ہیں
ناچ گانا۔۔ شراب و کباب۔۔ رات بھر کا جشن۔۔ بس…پارٹی کی کامیابی پر میں بے حد خوش تھا۔ اسی خوشی میں شراب کچھ زیادہ ہی پی گیا تھا اور میں لڑکھڑانے لگا تھا۔‘‘
’’پھر…‘‘ اس کے خاموش ہونے پر دیپانکر نے ٹوکا۔
’’میرے میگزین کے اسٹاف کونسل کی ایک رکن شیلا نے مجھے سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ میرے ایک گہرے دوست کی بیٹی اور میری بیٹی کی سہیلی ہے۔ کالج میں دونوں کلاس فیلو رہی تھیں۔ کچھ ہی دن ہوئے اس نے میرے میگزین کو جوائن کیا تھا۔ حسین چہرے اور متناسب جسم والی اس لڑکی میں غضب کی سادگی تھی۔ اس نے کہا۔
’’پارٹی تو ختم ہی ہونے والی ہے۔ چلئے! میں آپ کو ہوٹل کے کمرے میں پہنچا دیتی ہوں۔ یہاں کی ذمے داری ہم لوگ سنبھال لیں گے۔‘‘ وہ مجھے اپنے کاندھے کا سہارا دیتی ہوئی آگے بڑھی اور مجھے لے کر لفٹ میں داخل ہو گئی۔ لفٹ اسٹارٹ ہوئی تو ایک جھٹکے سے میں اس کے بدن پر گر سا گیا۔ جوان بدن کے گداز لمس سے میری رگوں میں سہرن سی دوڑ گئی۔ سکنڈ فلور پر لفٹ رکی اور ہم دونوں باہر نکل آئے۔ گلیارے میں چلتے ہوئے اس کمرے تک آئے جو میرے نام سے بک تھا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ مجھے بستر پر بٹھاتے ہوئے بولی۔
’’آپ یہاں آرام کیجئے۔ میں باہر سے دروازہ لاک کیے دیتی ہوں۔‘‘
وہ جانے کے لیے مڑی تو میں نے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچا۔ وہ میرے جسم پر گری تو میں نے اسے بانہوں میں جکڑ لیا۔ وہ بری طرح کسمسائی اور میری گرفت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں سر۔۔ چھوڑیے مجھے …‘‘
لیکن مجھ پر تو جیسے شیطان سوار ہو گیا تھا۔ وہ چھٹپٹاتی رہی اور میں اسے بے لباس کرتا رہا۔ اور پھر وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ اس شیطانی عمل کے بعد میں بے سدھ ہو کر بستر پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ کسی گریے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ شیلا بستر کے ایک کونے میں بیٹھی سسک رہی تھی۔ کچھ دیر قبل پیش آنے والا نا خوشگوار اور قابل مذمت واقعہ میری آنکھوں میں ابھر آیا اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ شراب کا نشہ مکمل طور سے اتر چکا تھا اور میں شدید احساس ندامت میں جکڑ چکا تھا۔ میں نے ہمت کر کے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ زوروں سے پھپھک پڑی۔
’’میں آپ کو اپنے پتا کے سمان سمجھتی تھی…۔۔ لیکن آپ…۔‘‘
میں بالکل گنگ ہو گیا تھا۔ وہ میرے دوست کی بیٹی تھی۔ میری بیٹی کی سہیلی تھی۔ اور میں نے اس کی عصمت تار تار کر دی تھی۔ مجھے خود سے کراہیت ہونے لگی۔ مجھ سے ایسا گناہ سر زد ہو چکا تھا جس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں تھی۔ میں ایسا قلاش تھا کہ اس سے معذرت کرنے کے لیے بھی میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں ایسا گناہ گار تھا کہ اس سے معافی کا طلب گار بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ کافی دیر تک میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا اور وہ سسکتی رہی۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنی زبان کو جنبش دی۔
’’جو ہوا اس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ اس کے لیے میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ یہ میری زندگی کا سب سے شرمناک لمحہ ہے جو مجھے ہمیشہ کرب دیتا رہے گا۔‘‘
میں بستر سے اٹھا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ ہوٹل کے گیراج سے گاڑی نکالی اور منتشر دماغ اور مضمحل دل کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے بھر میرے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اس کے الفاظ گونجتے رہے۔
’’میں آپ کوپتا کے سمان سمجھتی تھی۔۔ لیکن آپ۔۔‘‘
وہ خاموش ہوا اور نڈھال سا ہو کر کرسی کی پشت پر گردن ڈال دی۔ دیپانکر اس کے مضمحل چہرے پر نگاہیں جمائے ہوئے گہرے تفکر میں ڈوبا رہا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے دریافت کیا۔
’’پھر تم نے شیلا کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کیسی ہے۔؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلایا تو دیپانکر کو تعجب ہوا۔
’’تم اسے غم زدہ اکیلی روتی ہوئی ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ آئے اور
پھر اس کی کوئی خبر تک نہیں لی۔‘‘
’’میں اس ایکسیڈنٹ سے اتنا پریشان ہوا ہوں کہ مجھے کچھ بھی خیال نہ رہا۔ یقین جانو۔ تمہارے استفسار سے قبل شیلا اور اس سے منسلک سارے واقعات میرے ذہن سے محو ہو گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ وہ ٹھیک ہی ہو گی۔ وہ ایک ذہین اور بہادر لڑکی ہے۔ فی الوقت تو میں اس بے گناہ شخص کے مارے جانے کے کرب میں مبتلا ہوں جس کی لاش بھی نہیں ملتی۔ عجیب پر اسرار معاملہ ہے جو اگر حل نہ ہوا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ میں پچھلے دو دنوں سے سو نہیں پایا ہوں اور اب میرے دماغ کی نسیں پھٹی جا رہی ہیں۔ مجھے اور میری بیوی کو توقع ہے کہ تم مجھے اس پریشانی سے نکال سکتے ہو۔ بس ایک بار مجھے اس شخص کے بارے میں معلوم ہو جائے تاکہ میں اس کے گھر والوں سے معافی مانگ سکوں اور تلافی کے لیے کچھ کر سکوں۔‘‘
دیپانکر دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچ کر گویا ہوا۔
’’میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ شاید تمہارا مسئلہ حل ہو جائے۔ لیکن اس کے لیے آج کی رات تمہیں میرے ساتھ رہنا ہو گا۔ ایسا کرو کہ ابھی تم اپنی بیوی کے ساتھ گھر چلے جاؤ۔ رات دس گیارہ بجے میرے گھر آ جانا۔ باقی باتیں اسی وقت ہوں گی۔ ہاں۔۔ جائے وقوعہ کا پتا بتا جاؤ۔‘‘
اس نے پتا بتا دیا تھا۔ دیپانکر نے اس کی بیوی سے بھی یہی کہا اور ٹھیک وقت پر اسے بھیجنے کی تاکید کرتے ہوئے انہیں رخصت کیا۔
رات مقررہ وقت پر وہ اپنی کار میں دیپانکر کے گھر چلا آیا تھا۔
دیپانکر نے اسے مہمان خانے میں لگے بستر پر آرام کرنے کے لیے کہا تو وہ مضطرب لہجے میں بولا۔
’’میں جلد سے جلد اپنے کرب سے نجات پانا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد ہی شاید میں آرام کر سکوں۔‘‘
’’میں تمہارے ساتھ جائے وقوعہ پر جانا چاہتا ہوں۔ لیکن ٹھیک اسی وقت جب تم حادثے والی رات ادھر سے گزرے تھے۔ میں نے معلوم کیا ہے۔ اس علاقے کی مسجد میں چار بجے اذان ہوتی ہے۔ کار سے وہاں پہنچنے میں تیس چالیس منٹ لگیں گے۔ ہم گھنٹے بھر پہلے گھرسے نکل پڑیں گے۔‘‘
دیپانکر ایک موٹی سی کتاب لے کر صوفے پر دراز ہو گیا اور وہ بے چینی سے بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ تقریباً ڈھائی بجے دیپانکر نے ہاتھ سے کتاب رکھی اور اسے مخاطب کیا۔
’’تیار ہو جاؤ۔ اب ہم اس مقام پر چلیں گے۔‘‘ وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر چند کہ اسے دیپانکر کی تجویز پر حیرت تھی لیکن اس نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ کار گھر سے باہر نکلی اور سنسان سڑک پر رفتار پکڑنے لگی۔ اس مقام تک پہنچنے سے کچھ پہلے ہی دیپانکر نے کار روکنے کے لیے کہا۔ کار روک کر اس نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ تم انجن بند نہ کرو۔ جیسے ہی اذان کی آواز سنائی دے تم اس رات والی رفتار سے کار بڑھا لینا۔‘‘
وہ ایک معمول کی طرح اس کے حکم کی تعمیل کرتا رہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔ پتا نہیں دیپانکر کیا کرنے جا رہا تھا۔ اس نے اپنی سماعتوں کو مرتکز کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اذان کی ہلکی سی آواز ابھری۔
’’اللہ اکبر۔۔ اللہ اکبر۔‘‘
’’چلو!‘‘ دیپانکر نے تیزی سے کہا تو اس نے کار آگے بڑھا دی۔
’’تیز… اور تیز۔۔‘‘
اذان کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔
’’حیٰ علی الفلاح…حیٰ علی الفلاح…‘‘
’’ارے۔۔ پھر کوئی آ گیا…‘‘
اس نے ہڑبڑا کر کہا۔ دیپانکر نے تیزی سے اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور چیخا۔
’’گاڑی مت روکنا۔ چلتے رہو۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کر پاتا، کار اس شخص سے ٹکرا گئی۔ ایک دلدوز چیخ ابھری۔ اس کا جسم سڑک پر گرا اور کار اسے روندتی ہوئی کچھ آگے جا کر رک گئی۔ وہ اسٹیرنگ پر ڈھے سا گیا۔ اس کے ہونٹوں سے کپکپاتی ہوئی مبہم سی آواز ابھری۔
’’پھر کوئی مرگیا۔ میں نے پھر کسی کو مار دیا۔‘‘
دیپانکر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے کہا۔
’’اٹھو! آنکھیں کھولو۔ تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘
اس نے سر اٹھایا اور زخمی نگاہوں سے دیپانکر کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
’’تم نے اس شخص کو کار سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ اس کی دلدوز چیخ سنی۔ ٹھیک اسی طرح میں نے پہلے بھی کسی کو مار دیا تھا۔‘‘
دیپانکر نے اس کے شانے کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی چیخ سنی۔‘‘
’’کیا؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہارے سامنے ہی تو سب کچھ ہوا۔‘‘
دیپانکر کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترا اور پھر اس کی جانب آ کر بولا۔
’’نیچے اتر آؤ۔‘‘
اس نے خاموشی سے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ دیپانکر اسے لے کر اس مقام پر پہنچا جہاں اس نے پھر ایک شخص کو ٹکر ماری تھی۔ اس نے شدید حیرت سے ادھر ادھر دیکھا۔ اسٹریٹ لائٹ کی تیز روشنی میں سڑک نہائی ہوئی تھی لیکن ابھی ابھی ہونے والے حادثے کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ اس نے گہری بے یقینی سے دیپانکر کی طرف دیکھا اور اس نے کہا۔
’’اب تم اطمینان سے گھر چلو۔ اپنی کار سے ٹکرا کر مرنے والوں کو بالکل فراموش کر جاؤ۔ شکر ہے کہ تم ابھی زندہ ہو۔ اس بے حس اور پر آشوب دور میں اپنے زندہ ہونے کو غنیمت جانو۔۔۔۔‘‘
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جن کے توسط سے اس کی فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...