” حیات۔ یار آیت کہاں ہے۔ جیک نے فکر مند لہجے میں حیات سے پوچھا۔ جو اپنی دوستوں کے ساتھ اٌدھر ادھر کی باتوں میں مصروف تھی ۔۔”
” تمہیں آیت کی پڑی ہے یہاں سب تمہارے لیے ہی آئیں ہیں۔ جیک کچھ تو خیال کرو۔۔۔
حیات نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔”
” ابھی تم ان سب کو کمپنی دو۔۔ سب کیطرف حیات نے اک نظر دوڑاتے ہوئے ہاتھ سے اس سے اس نے اشارہ کیا۔۔۔”
” یہ سب اپنا قیمتی وقت نکال کر تمہارے لیئے یہاں تشریف لائیں ہیں۔۔۔ ناگواری سے حیات جیک کو دیکھ کر دوباہ بولی ۔”
” اب تم پھر سے دادی اماں بن جاؤ۔ جیک نے آنکھیں گھما کر بیزاری سے کہا۔۔۔”
” دادی اماں نہیں بن رہی۔۔۔ میں جو کہہ رہی ہوں۔ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔۔ حیات نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔۔”
” آیت تو ادھر ہی ہے۔۔۔ اس سے، تو تم بعد میں بھی بات کر سکتے ہو۔
باقی سب ابھی تھوڑی دیر کے بعد چلیں جائیں گے۔۔ حیات نے خفگی سے جیک کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ”
” اور وہ دوبارہ اپنی دوستوں کے ٹیبل کیطرف بڑھی۔۔۔ جہاں اس کی ساری فرینڈز بیٹھیں تھیں۔۔”
” اچھا حیات سنو! جیک اِس کے پیچھے گیا۔”
” ہاں بولو۔ حیات جیک کی آواز پے رک گئی۔۔۔۔”
” میں نے ویڑز کو کہہ دیا ہے۔ وہ سب ٹیبل پے ابھی کھانا لگا دے گا۔۔ بس تم ہر ٹیبل پے ویزٹ کر لینا۔۔ جیک نے فکر مندی سے کہا۔۔۔”
” جیک کی نظریں موبائل اسکرین پے اٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔ کیونکہ یومائلہ کے مسیجیز آرہے تھے ۔۔ یہ کہہ کر جیک آگے بڑھ گیا۔”
” تم کہاں جارہے ہو۔ حیات نے استفسار کیا۔۔۔”
” مجھے یومائلہ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔ کچھ ضروری کام ہے مجھے اٌس سے۔ جیک نے مڑ کر اسے بتایا۔
میں بس ابھی پانچ منٹ میں واپس آتا ہوں ۔۔۔۔ ”
” جیک جلدی سے، بڑے بڑے قدم بڑھاتا، اپنے کمرے کیطرف بڑھ رہا تھا۔
کیونکہ یومائلہ وہاں کافی دیر سے جیک کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔”
—————————— —————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” آج تم سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوگئی جیک ؟۔۔ یومائلہ سوالیہ نظروں سے حیرت سے بھرپور انداز میں جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔”
” جب کہ جیک ابھی کمرے میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ، یومائلہ کے سوال شروع ہوگئے تھے۔۔۔”
” آیت ٹوٹ کر بکھر گئ ہے جیک۔۔ اگر تمہاری شادی سجل سے ہوگئ تو آیت کا کیا بنے گا؟ بے اختیار یومائلہ کے منہ سے نکلا۔۔۔”
” نہیں، نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ یہ تم۔ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔”
” میں کبھی ایسا ہونے ہی نہیں دوں گا۔۔۔ جیک نے مطمئن کرنے والے انداز میں جھٹ سے کہا۔”
” تم میری بات کا یقین کرو ۔ میں ایسا نہیں ہوں۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ جس سے آیت کے دل میں لگی آگ، کبھی نہ بوجھ پائے ۔۔۔ ”
” چائے کے دو کپ لیے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔ کپ کو ٹیبل پے رکھ کر ٹیبل کو بیڈ کے قریب کیا۔۔اور خود سجل کے پاس بیٹھ گیا۔۔”
” میں جانتی ہوں جیک،،،کہ تم ایسے نہیں ہو۔۔۔ وہ جانتی تھی۔ کہ جیک ایسے مجاز کا مالک نہیں ہے۔۔”
” یہ سب میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔
جانے انجانے یہ سب ہوا ہے۔۔ آیت اس بات کو آج تک کیوں سمجھ نہیں پائی۔۔۔۔ کہ میں کس مجاز کا مالک ہوں۔۔۔۔ جیک اس وقت کافی مایوس تھا۔۔ آیت کے بےجا کے غصے، اور اسکے رویے کی وجہ سے۔۔۔۔”
” ابھی جیک اور یومائلہ کی باتیں ہو ہی رہیں تھیں۔۔ کہ یومائلہ کے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔
یومائلہ نے کال پیک کی۔۔۔”
” آرہی ہوں۔ آپ فکر نہ کریں ماما۔۔ میں بس دس منٹ میں پہنچ جاؤں گی۔۔۔”
” یومائلہ فون پر اپنی ماں سے مخاطب تھی۔۔ اور وہ کافی فکر مندی سے بات کرتی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ کیونکہ جیک کے گھر، یومائلہ کو بہت دیر ہوچکی تھی۔۔”
” مجھے جلدی جانا ہے گھر ، سجل نے فون بند کرتے ہی جیک سے کہا۔۔۔۔ بہت دیر ہوگئی ہے جیک۔۔۔۔ سجل نے ٹیبل سے اپنا پرس اٹھایا۔ اور وہ جلدی سے اٹھ گئ۔”
” کیا کہا آنٹی نے؟ جیک نے اٹھتے ہوئے محتاط انداز میں پوچھا۔۔۔”
” ڈانٹ رہیں تھیں۔۔ اس نے اداس لہجے میں جیک کو بتایا۔”
” دروازہ کھول کر وہ باہر کیطرف بڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ وہ دونوں باتیں کر رہیں تھے۔۔۔”
” کہہ رہی تھیں۔ ابھی تک تم گھر آئی نہیں۔ سب پریشان ہو رہےہیں ہیں۔۔۔ یومائلہ نے سادگی سے کہا۔”
” چلو آؤ میں تمہیں ڈرپ کر دیتا ہوں ۔۔ جیک نے جیب سے گاڑی کی چابی نکالی ۔۔۔۔۔”
” تم دونوں کی وجہ سے مجھے گھر سے بھی ڈانٹ پڑ گئی ہے۔ یومائلہ کے چہرے پر پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔
کیونکہ دیر ہونے کی وجہ سے یومائلہ کو گھر سے صحیح کی ڈانٹ پڑھنے والی تھیں۔۔”
” چلو جلدی چلو۔۔۔ جیک نے یومائلہ سے کہا۔۔۔۔ دونوں تیزی سے گاڑی کیطرف بڑھ رہے تھے۔۔۔”
——————————- ————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” جیک یومائلہ کو چھوڑ کر گھر واپس آیا۔۔۔ ”
” کمرے کی لائٹ اوف کیں تھیں۔”
اندھیرے میں کافی دیر تک پریشانی وہ کی حالت میں کمرے میں چہل قدمی کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
جیک کی تو نیند ہی جیسے اڑ گئ تھی۔۔۔”
” لیمپ کو کبھی، وہ آن کرے، تو کبھی اوف۔۔۔۔۔۔”
” صبح کے واقعے نے ابھی تک اس کے دل میں ہلچل مچائی ہوئی تھی۔۔۔
اس کے دل میں لگی چنگاری ابھی تک بجھ نہیں پائی تھی۔۔ کہ کس اعتبار سے وہ آیت کو یقین دلائے۔۔۔ کہ وہ آیت سے کتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔”
” سوچوں میں گم اسے اپنی ماں سے ملنے کا خیال آیا۔۔۔۔”
—————————— —————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” رات ایک بجے جیک شفق بیگم کے کمرے میں ہچکچاہٹ محسوس کیے داخل ہوا۔۔۔۔۔”
” ماما آپ ابھی تک سوئی نہیں؟دودھ کا گلاس ہاتھ میں لیے، بڑی حیرت سے جیک نے ان کیطرف دیکھا۔۔۔”
” نہیں۔ ابھی تک نیند ہی نہیں آئی۔ شفق بیگم نے مخصوص انداز میں کہا۔۔۔”
” ماما مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ جیک نے سرسری نگاہ ان پر ڈالی۔۔ اور ان کے پاس ہی سنجیدگی سے کھڑا ہوگیا۔۔۔”
” ہاں بولو بیٹا۔ اس میں اتنا گھبرانے والی کیا بات ہے؟ شفق بیگم نے جیک کا پریشان چہرہ دیکھ کر، ایسا اسے کہا۔”
” کھڑے کیوں ہو؟ بیٹھو۔۔۔۔ شفق بیگم نے جیک کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔”
” ماما آج ممانی نے کیا کہا ؟ جیک نے روندے لہجے سے ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔”
” وہ سب میری سمجھ سے باہر ہے۔ جیک نے نفی میں سر ہلایا۔”
” اب بہت جلد تمہاری اور سجال کی شادی ہوجائے گی۔ شفق بیگم نے بڑے پیار سے جیک کے سر پر ہاتھ پھیرا۔”
” ماما یہی تو……….! اکتاہٹ بھرے انداز سے اس نے اپنا رخ اپنی ماں کی طرف کیا۔”
” کیا یہی تو؟؟؟؟؟ وہ سوالیہ لہجے میں حیرت سے بولیں
مجھے سجل سے شادی نہیں کرنی۔ آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں میری بات کو؟؟؟
” جیک کی اس بات پے شفق بیگم بے یقینی سے اسے دیکھنے لگیں۔”
” شفق بیگم ضبط لیے جیک کی بات سن رہیں تھیں۔ تھوڑی دیر کی خاموشی توڑتے ہوئے جیک پھر بولا۔…………!
” ماما آپ نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں سوچا، کے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے آپکو مجھ سے میری رائے جان لینی چاہیے تھی۔۔ غیر محتاط انداز میں وہ بالا۔۔۔”
” جیک اس وقت اپنے حق کیلئے جزباتی ہورہا تھا۔۔۔ وہ بولتا چلا جارہا تھا۔۔ جیسے وہ کب سے شکوے کرنا چاہتا تھا۔۔۔”
” صاف صاف کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے سمجھ رہیں تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ جیک کہ چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کا حال جان چکی تھیں۔۔۔”
” جیک نے ایک گہری سانس لی۔۔۔۔
ماما میں آیت کو پسند کرتا ہوں۔۔۔
میں آیت سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
جیک نے اپنے رشتے کے مطالق انہیں آگاہ کیا۔”
” لیکن مجھے آیت پسند نہیں ہے۔۔۔ انہوں نے فوراً انکار کر دیا۔”
اور جیک کی پسند کو ٹھکرایا۔ جیک ٹوٹ چکا تھا۔ کئ سالوں کی خواہش جو دل میں لیے بیٹھا تھا ۔۔۔
اک لمحے میں اسے اپنے سارے خواب ٹوٹے نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔”
” اور وہ اسی سوچ میں ڈوبا پڑا تھا کہ صرف اپنی انا کی خاطر اس کی ماں اتنی سنگ دل ہورہیں ہیں”
” اوہ! تو اب تم اپنے فیصلے خود کرو گے۔؟ وہ الجھن سے بھرپور نظروں سے شفق بیگم کو دیکھ رہا تھا۔ کہ اس کی ماں ابھی بھی جیک کو نہیں سمجھ رہیں۔”
” اب اس عمر میں آکر تم اپنی مرضی چلاؤ گے۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد شفق بیگم گویا ہوئیں۔۔۔۔”
” دراصل ہم نے تمہارا اور سجل کا رشتہ بچپن میں ہی کر دیا تھا۔ پرسکون لہجے میں وہ بولیں۔
میں اب اس بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔”
” بچپن میں؟ وہ حیران ہوکر بولا۔۔۔
ماما ان باتوں کو آج کل کون اہمیت دیتا ہے؟
جیک نے اپنی ماں کے گھٹنوں پے دونوں ہاتھ رکھے بڑی سادگی سے کہا۔۔۔”
” دینے والے اہمیت دیتے ہیں بیٹا۔ جیسا کہ میں ۔۔۔
شفق بیگم نے نفی میں سر ہلایا۔ اور ہلکا سا مسکرائی۔۔ کہ جیک کس طرح ان کو نادانی دیکھا رہا ہے۔۔۔”
” کیا میں آسکتی ہوں؟حیات نے کمرے میں جھانک کر پوچھا۔۔۔”
” ہاں ہاں آجاؤ اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے؟ منہ بسورے وہ بولا۔ اور ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔”
” ہاں تم بھی تشریف لے آؤ۔ اور دیکھو اپنے لاڈلے بھائی کے کارنامے۔۔ شفق بیگم نے جیک پے سرسری نگاہ ڈالی اور شکوے بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔۔”
” ماما بات صاف ہے۔۔ جیک نے گہری سانس لی پھر کہا۔”
” اگر آیت سے میری شادی نہیں ہوئی۔ تو میں سجل کو کبھی اس کا حق نہیں دوں گا۔۔۔ وہ آپکی بہو ضرور بنے گی۔
لیکن میری بیوی کبھی نہیں بن سکتی وہ ۔۔۔۔ میں کبھی اسے اسکا حق نہیں دوں گا۔ بےاختیار وہ بولا۔۔۔
” تمیز سے بات کرو جیک۔
شفق بیگم کا ہاتھ اٹھ چکا تھا۔۔۔۔ ”
” یک دم بدک کر حیات نے اپنی ماں کا ہاتھ رکا۔۔۔”
” شفق بیگم کے اس رویے پہ جیک بہت ہی مایوس ہوا۔۔۔”
” ماما یہ کیا کر رہیں ہیں آپ؟ حیات نے جیک کو ہمدردی سے دیکھا۔۔۔۔”
” مارنا چاہتیں ہیں آپ؟ ٹھیک ہے ماریں۔۔ ماریں ۔۔۔ جیک نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑ کر اپنی گال پے رکھے اور تلماتے ہوئے کہا۔۔۔ ”
” حیات نے نم آنکھوں سے جیک کیطرف دیکھا۔۔۔”
” حیات اس کو بولو۔کہ یہ اپنی بات مکمل کرے۔۔ شفق بیگم اپنا رخ بدلا اور حیات کیطرف کیا ۔۔”
” جو بولنا ہے تم بولو ؛ حیات نے جیک کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔۔ ”
” جیک اب خود بھی اپنی بات مکمل کیے بنا یہاں سے نہیں جانے والا تھا۔۔”
” ٹھیک ہے تو پھر میری بات بھی سن لیں۔۔ جیک نے خفگی سے کہا۔”
” میں زندگی بھر اُسکے ساتھ ایک اجنبی کی طرح رہوں گا۔ اور ایک اجنبی کیطرح ہی اس کیساتھ زندگی گزاروں گا ۔۔۔۔ بےاختیاری سے وہ بنا کسی کی فکر کیے، وہ بول رہا تھا۔ شفق بیگم کو جیک پے شاید غصہ آرہا تھا۔۔”
” شفق بیگم کے اس رویے پر جیک کے دل میں سجل کیلئے اور نفرت پیدا ہوگئ تھی۔”
” مجھے نہیں لگتا کے سجل یہ سب کچھ برداشت کر پائے گی ۔۔۔ جیک نے خاموشی توڑتے ہوئے پھر سے بولنا شروع کیا۔”
” اور مجھے امید ہے کہ میرے ایسا کرنے سے وہ خود مجھے چھوڑ دے گی۔۔۔
نڈر انداز میں جیک نے کہا۔۔۔۔”
” جیک اپنی زبان کو لگام دو۔ شفق بیگم نے کڑے انداز سے کہا۔۔۔”
” نہیں ماما پیلز۔ آپ اٌسے بھی تو بولنے کا پورا موقع دیں۔ حیات نے جیک کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔۔۔ شفق بیگم حیات کو گھورنے لگیں۔۔”
” ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے۔ کہ وہ ایک خوبصورت زندگی گزارے ۔۔۔۔ اور ہر لڑکی کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر وہ سب اس کے لیے کرے جو وہ چاہتی ہے۔۔۔۔”
” میرے خیال سے میری بےپرواہی کی وجہ وہ خود ہی اپنا راستہ تلاش کر لے گی۔ جیک نے زخمی مسکراہٹ سے کہا۔۔”
” اسکا مطلب یہ ہے کے تم سجل کو بنا کچھ کہے۔۔ تم اسے اتنا بےبس کردو گے کہ وہ خود تمہیں چھوڑنے پر وہ مجبور ہوجائے؟
” جی۔ آپ بلکل ٹھیک سمجھیں۔ بےادبی سے جیک نے کہا۔۔۔۔۔”
” جیک تمیز کا دامن مت چھوڑو۔ سمجھے۔
ورنہ میرا اب میرا ہاتھ اٹھ جائے گا۔۔۔۔
شفق بیگم نے بےرحم آنکھوں سے جیک کو دیکھا۔۔۔”
” جیک غصّے سے غرتا ہوا شفق بیگم کے کمرے سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔ اور اس نے زور سے دروازہ بند کیا۔۔۔”
” شفق بیگم جیک کی ان باتوں سے بے حد پریشان ہوگئیں تھیں۔۔۔ ان کو صحیح فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔۔۔”
” کیونکہ شفق بیگم کا پورے خاندان میں ایک ہی الگ اسٹیٹس تھا۔۔۔
وہ ہر کام میں اپنی انا کو پہلے ترجیح دیا کرتیں تھیں۔”
” وہ اپنی انا کو کبھی نہیں کچل سکتی تھیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔
چاہے ۔۔ ان کو جیک کی خوشی کا قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔۔۔”
” ماما یہ سب کیا ہے؟؟؟ اکتاہٹ بھرے انداز میں حیات نے اپنی ماں سے سوال کیا۔۔۔”
” کچھ نہیں،،، تمہیں نہیں نظر آرہا؟ عشق کا بھوت سوار ہے اسکے سر پر۔۔۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے شفق بیگم نے کہا۔”
” حد ہے ویسے کم از کم آپ اسکی برتھ ڈے کا خیال تو کر لیتں ۔۔ اس بیچارے کا سارا برتھ ڈے خراب کر دیا۔۔۔ حیات غصے سے بولی۔۔ اور زیر لب وہ خفگی سے چلی گئی۔۔۔۔”
” اپنی ماں کا فیصلہ اٌسے بھی ناقابِل قبول تھا۔۔۔ کہیں نہ کہیں وہ بھی اپنی ماں سے خفا ضرور تھی۔۔۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” جیک سر نیچے جھکائے بیڈ پے بیٹھا تھا وہ اس وقت بےحد پریشان تھا۔۔
پیشانیوں کی گہری گھائی میں وہ خود کو بےبس محسوس کررہا تھا۔۔۔”
” جیک کی آنکھوں میں نمی بھی تھی۔ خود کو لاچار سجھ رہا تھا۔”
” کہ کیسے وہ ہر رشتے سے محروم ہورہا تھا.. جیک خود کو اس لمحے تہنا محسوس کررہا تھا۔ ان حالات میں جیک کو آیت کی بہت ضرورت تھی ۔۔۔ ”
” مگر وہ بھی اس سے بےحد خفا تھی۔
کیسے یہ ہر رشتے کو کسی مضبوط دوڑ سے باندھ کر رکھتا تھا۔۔۔”
کیا ہوا کیوں اُداس بیٹھے ہو؟ حیات نے جیک کے کندھے پے ہاتھ رکھے اسے پوچھا۔”
” کچھ نہیں ہوا۔
جیک نے آنکھوں میں آئی نمی کو چھپاتے ہوئے کہا۔۔
” آج تم ابھی تک سوئی نہیں؟
کوئی خاص وجہ؟ جیک نے سادگی سے اس سے پوچھا۔ اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔”
” نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ سوچا کچھ دیر برتھ ڈے بوائے کے پاس ہی بیٹھ جاؤ۔ حیات نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ جیک کے پاس، بیڈ پے بیٹھ گئ۔۔۔
بیٹھ جاؤ تب تک چاہئے۔۔ ”
” تم بیٹھو میں فرش ہو کر آتا ہوں۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ کہاں گئی؟ زہرلب جیک نے کہا۔۔ کیونکہ وہ حیات کو کمرے میں چھوڑ کر گیا تھا۔مگر حیات اس وقت کمرے میں نہیں تھی۔۔”
” یہ لو چائے۔۔۔ حیات چائے کے دو کپ لیے۔جیک کے کمرے میں دوباہ داخل ہوئی۔۔۔وہ کوشش کرنے لگی کہ جیک کا موڈ ٹھیک کر سکے۔”
” ارے! تمہیں کیسے پتہ کے مجھے اسوقت چاہئے کی طلب ہے؟؟؟ جیک نے ہلکی سی مسکراہٹ سے پوچھا۔
ہممم تمہاری اداسی دیکھ کر۔۔۔ وہ دونوں مسکرائے۔”
” میں حیران ہوگیا کہ اچانک تم پتا نہیں کہاں چلی گئی ہو۔۔”
” تم خوش نہیں ہو نہ؟ ممانی اور ماما کے اس فیصلے پر؟ حیات جس بات کیلئے کمرے میں آئی تھی۔ اٌس نے وہ بات شروع کی۔۔۔۔”
” حیات نے اس کے چہرے کے تاثرات اور اسے اداس دیکھ کر پوچھا۔۔۔ کیونکہ جیک کافی غصے سے اپنی ماں کے کمرے سے آیا تھا۔۔۔۔”
” ہاں میں خوش نہیں ہوں۔۔۔ جیک نے سپاٹ لہجے میں حیات کیطرف منہ پھیر کر جواب دیا۔۔۔”
” ماما کو چاہیے تھا ک اس موضوع پے کم از کم ایک مرتبہ تو میری رائے پوچھتی مجھ سے۔ کہ میں کیا چاہتا ہو۔۔۔ جیک نے اونچی آواز میں کہا۔”
” کس کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ ہے تمہارا ؟ سوالیہ نظروں سے جیک نے حیات کیطرف دیکھا۔”
” کیا مطلب کس کے ساتھ؟
ڈیفینٹلی آیت کے ساتھ۔ پٌراعتماد انداز میں جیک نے کہا۔”
” لیکن آیت کیساتھ تو ماما مان ہی نہیں رہیں۔ حیات نے وضاحتی انداز اپناتے ہوئے کہا۔”
” جنتا ہوں ماما نہیں مان رہیں ۔۔۔ جیک دونوں ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لیے۔”
” لیکن جو بات میں ابھی اُن سے کہہ کر آیا ہوں۔
اُس پے جب وہ غور کریں گی۔ تو اُن کو میری بات ماننی پڑھے گی۔۔۔ جیک نے سرد آہ بھری۔۔۔”
” میرے آنے سے پہلے کیا کیا بات ہوئی تمہاری ماما سے؟ حیات نے استفسار کیا۔؟
” تم یہاں مجھے تنگ کرنے آئی ہو؟ وہ اسے غصے سے گھورنے لگا۔”
” اچھا نہ! مجھ سے کیوں خفا ہو رہے ہو؟
حیات منہ بسورتی بولی۔۔۔۔”
” میں نہیں ہو رہا خفا۔ جیک نے تحمل لہجے میں کہا۔ اور اس نے اپنی چائے ختم کی۔۔”
” مجھے نہیں پتہ تھا کہ ماما یہ بات ذہین میں لیئے سجل کو میرے ساتھ ساتھ ہر کام میں رکھتی ہیں۔۔۔ جیک اپنے دل میں چھپی باتیں حیات کو بتا رہا تھا۔ وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔۔”
” یہاں جانے ہے تو ساتھ سجل۔،،،، وہاں جانا ہے تو ساتھ سجل۔ جیک نے نفی میں سر ہلایا۔ اور غصے سے کہا۔”
” اسی لیئے ماما نے اسے ایڈمیشن بھی میری یونیورسٹی میں کروایا ہے ۔۔”
” جاؤ سو جاؤ رات بہت ہو گئ ہے۔۔۔۔۔ حیات کی لال آنکھیں دیکھ کر جیک نے اسے جانے کا کہا۔۔۔۔۔”
—————————— —————————-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سو جاؤ اب ! کب تک یوں بیٹھ رہو گی؟ اور آنسوؤں کی ندیاں بہاتی رہو گی؟ عائشہ آیت پے غصہ ہورہی تھی۔
وہ اسے ڈانٹ رہی تھی۔۔۔
کیونکہ اٌسے آیت کی بہت فکر تھی۔”
” جس کیلئے یہ آنسو تم بہا رہی ہو۔
اس نے تو ایک مرتبہ بھی آکر تمہیں نہیں پوچھا کہ آیت اسوقت کیسی ہوگی ۔۔۔
روکھے پھیکے لہجے میں عائشہ نے کہا۔”
” آیت تکیے پہ منہ دبائے رو رہی تھی۔۔۔۔۔”
” آپی میں جیک کے بغیر نہیں رہ سکتی۔
میں مر جاؤں گی جیک کے بنا۔۔۔ ایک کے بعد ایک آنسو آیت کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔اس کی آنکھوں میں مایوسی اس قدر تھی کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چلا چلا کر روئے۔۔۔۔”
” آپکو پتا ہے؟میں نے کبھی تصور ہی نہیں کیا۔
کے میں جیک کہ بنا زندگی گزار سکوں۔۔۔۔۔۔۔”
” میں اسکو کسی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ روتے ہوئے آیت نے عائشہ سے کہا۔۔
یہ میری لیے بہت تکلیف دے بات ہے
ہوگی۔۔۔۔ آیت نے اپنا سر گھٹنوں میں دیا۔۔
رو رو آیت کا برا حال ہوگیا تھا۔۔۔۔”
” یہ بات تو اسے سمجھنی چاہیے نہ۔۔
وہ کیوں نہیں سمجھ رہا۔۔۔۔ عائشہ مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔”
” آج تو اس نے حد ہی کردی تھی۔۔۔ آیت نے تلخ آواز میں کہا۔”
” کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔۔ عائشہ نے استفسار کیا۔ عائشہ نے حیرانگی ظاہر کی۔۔۔”
” آیت نے ساری بات عائشہ کو بتائی۔۔۔۔ اور یہ بھی اس نے بتایا کے اس نے جیک کو تھپڑ بھی مارا تھا۔۔۔”
” تو ہوسکتا ہے وہ واقعی تمہارا وہم ہو؟
” عائشہ اس بات پر آیت سوچ میں پڑ گئی۔۔ آگر واقعی یہ غلط ہوئی تو؟
کئ سوال آیت کے ذہن میں رونما ہورہے تھے۔۔۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جیسے کھو گئی ہو۔۔۔ آیت کی آنکھوں میں خوف تھا۔۔۔۔”
” وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔۔
جیک نے جو کچھ بھی کہا ہے آگر وہ صحیح ہوا تو؟ اب آیت کو اپنی حرکت پے سخت مایوسی ہورہی تھی۔۔”
” اٌسے بہت پھتاوا بھی ہورہا تھا۔۔۔
اٌسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ کہ وہ کیا کرے۔ ”
” آئیڈیا! عائشہ نے خوشگوار انداز میں کہا۔۔”
” کیا؟ آیت نے چونک کر کہا۔”
” تم سب کچھ جاکر سجل کو بتا دو۔۔۔
اگر اقلمند ہوگی۔۔۔ تو وہ خود اس رشتے سے انکار کر دے گی ۔۔۔ عائشہ نے آیت کو ایک مشورہ دیا۔۔ ”
” عائشہ کے اس مشورے پے آیت چونک گئی وہ حیرانگی سے عائشہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔”
————————– —————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” دوسرے دن”
” ڈینگ ٹیبل پے سب بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ سوائے آیت اور جیک۔۔”
” جیک کہاں ہے آج وہ نظر نہیں آرہا۔۔۔۔ سعدیہ فیروز نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔۔۔”
” وہ سو رہا ہے۔ حیات نے ٹیبل پے گلاس سیٹ کرتے ہوئے جواب دیا۔”
” رات کو لیٹ سویا تھا۔ شاید اس لیئے وہ ابھی تک نہیں اٹھا۔۔۔۔ حیات نے سرسری لہجے سے کہا۔۔ ان کیطرف خفگی سے دیکھ کر وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔۔۔۔۔۔”
” ابھی تک سو رہا ہے وہ۔ سعدیہ فروز نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔۔۔”
” تھک گیا ہے کل سے باگ دوڑ کی وجہ ۔۔
مناہل کے برابر میں بیٹھی عائشہ نے اب انہیں جواب دیا۔۔۔”
” اور آیت بھی آج نظر نہیں آرہی۔۔۔ سعدیہ فروز کو یہ بات کچھ عجیب لگی۔ کہ جیک اور آیت دونوں ہی کھانے کے ٹیبل پر نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔ ”
” انہوں نے پھر یہی سوال کیا۔۔۔۔
مگر اشارہ اب ان کا آیت کیطرف تھا۔۔۔۔”
” جی آیت طبیت کی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اُسے بہت تیز بخار هورا ہے۔ اور اسکا بلڈ پریشر لو ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ فردوس بیگم کے چہرے پر پریشانی ظاہر نظر آرہی تھی۔۔۔ ”
” آپ سب لوگ کھانا کھاؤ میں جیک کو جگاتی ہوں ۔۔۔ گرم جوشی سے سجل اپنی جگہ سے اٹھی۔۔ اٌسے تو جیسے موقعہ مل گیا ہو۔۔۔ دوسروں کو چڑانے کا۔۔۔۔”
” ماما کیوں نہ میں بریک فاسٹ جیک کے کمرے میں ہی لے جاؤں۔؟؟؟
” سجل خوشی، خوشی واپس مڑی اور اپنی ماں سے مسکراتے پوچھا۔۔۔۔”
” ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔۔ سعدیہ فروز نے بیٹی کے دل کا حال جانتے ہوئے۔ فورا اسے اس بات کی اجازت دے دی۔۔۔”
” یہ بات عائشہ سے برداشت نہ ہوئی۔۔۔ وہ جھٹ سے بولی۔۔۔”
” وہ خود اٹھ جائے ۔تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔
اگر تم اٌسے جگاؤ گی تو وہ بہت غصہ کرے گا۔۔ محتاط انداز میں عائشہ نے سر اٹھا کر کہا۔ سعدیہ فروز عائشہ کو گھورنے لگیں۔۔۔۔”
” کیونکہ کوئی اُسے نیند سے جگائے، یہ اُسے بلکل پسند نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! عائشہ نے کہا۔”
” لیکن تم شاید اس بات سے واقف نہیں۔۔ مصنوعی خفگی سے عائشہ نے اس کی طرف دیکھا۔۔ پھر اس نے ناشتہ شروع کیا۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...