حیات صاحب اور دادو کے کہنے پر وہ اسے اپنے ساتھ اسلام آباد لے جانے کو راضی ہوا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آنسہ کو اس کام کا شوق ہے اس نے اکثر زلیخا بی کو کہتے سنا تھا کہ اس کام میں ان کی دونوں بیٹیاں تاک ہیں وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا مگر دادو اور بابا کی وجہ سے مجبور تھا
حاشر وہاں پر لوکیشن دیکھ کر آیا تو وہ اور حاشر دوبارہ جاکر ڈیک فائنل کر آئے تھے اب وہاں ان کی مرضی کے مطابق کام ہورہا تھا
آنسہ نے اپنی سی کوشش کی تھی کہ وہ یہی رہے مگر دادو کی ضد اور حیات صاحب کی خواہش کی وجہ سے وہ چپ ہوگئی
اسے ابراہیم یہاں برداشت نہیں ہوتا تھا وہاں کیسے ہوگا یہ سوچ سوچ اسکا سر دکھنا شروع ہوگیا تھا
دادو اسے زبردستی شاپنگ پر لے کر گئی تھیں جہاں سے انہوں نے اسے ایک سے بڑھ کر ایک سوٹ دلایا تھا
اس کے لئے یہی بہت تھا کہ وہ لوگ اس کے بارے میں سوچتے تھے اس سے پیار کرتے تھے۔۔۔
ان لوگوں کے جانے سے پہلے دادو نے زلیخا اور نور کو گھر دعوت پر بلایا تھا
نور تو بے حد خوش تھی کہ وہ اپنے شوق کو آگے بڑھا رہی ہے مگر اسے زرا خوشی نہیں تھی۔۔
وہ کسی کام سے باہر آئی تو سامنے حاشر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا اسے دیکھ رکنے کا اشارہ کیا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی
اس کے قریب آنے پر اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا
سوری بھابھی یوں روکنے کے لئے مگر مجھے آپ سے کچھ بہت ضروری بات کرنی تھی۔۔۔
بولو۔۔۔۔
دراصل مجھے بتا ہے ابراہیم نے کس مقصد کے لئے آپ سے شادی کی تھی۔۔۔
تو۔۔۔؟ اس کی بات کاٹتے اس نے سوال کیا تو وہ سٹپٹایا تھا
مجھے بس یہ کہنا ہے کہ وہ بےوقوف ہے اسے نہیں بتا ہوتا کہ کیا کرنا ہے وہ اکثر دوسروں کی باتوں میں آکر اپنے لئے مشکلات کھڑی کرلیتا ہے۔۔
یہ سب میں جانتی ہوں حاشر آگے بولو۔۔۔
میں نہیں چاہتا آپ لوگ الگ ہوں وہ بےوقوف ہے اسے کھرے کھوٹے کا فرق نہیں سمجھ آتا آپ کوشش کریں گی تو یہ رشتہ کبھی ختم نہیں ہوگا دادو اور خالو کہ لئے آپ یہ کوشش کریں پلیز۔۔۔
میں ہی کیوں سب کے لئے سوچوں کوئی میرے لئے کیوں نہیں سوچتا ایک بارسوچ کر دیکھا تھا باخدا رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا اور ویسے بھی نصیب کا لکھا کوئی نہیں بدل سکتا تو تم پریشان نہیں ہو۔۔
سپاٹ لہجے میں کہتی وہ اندر بڑھ گئی
ہونہہ جسے دیکھوں مجھ سے ہی امیدیں لگائے بیٹھا ہے میں بلا یہ انسان جائے بھاڑ میں یہاں یہ چند مہینے رہنا عذاب ہے ساری زندگی کا تو سوچ بھی نہیں سکتی میں۔۔۔
خود سے بولتی وہ اپنا سامان پیک کرنے لگی۔۔
تبھی نور کمرے میں آئی تھی۔۔
میں آجاؤں آنسہ؟؟
آجاؤ نور تجھے کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی۔۔
اپنا بیگ سائیڈ پر رکھتے اس نے نور کو بیٹھنے کے لئے جگہ دی تھی
جب سے ہمارے درمیان فاصلے آگئے ہیں۔۔۔
یہ فاصلے تو تم لوگوں کے خود کے بنائے ہیں خیر بتا سب ٹھیک ہیں ؟؟
ہاں سب ٹھیک ہیں تجھے بہت یاد کرتی ہیں سب سے زیادہ تو روشنی خالہ شان اور علی۔۔
ان سب کو تو میں بھی بہت یاد کرتی ہوں خاص کر علی کا اس نے ساتھ گزرا وقت تو میں بھول ہی سکتی کبھی۔۔۔
وہ حسرت سے بولی تھی اور کمرے میں آتے ابراہیم نے اس کے الفاظ بہت اچھے سے سنے تھے
تو کیا یہ بھی میری طرح زبردستی اس رشتے میں بندھی اور کسی اور کو پسند کرتی ہے۔۔۔
چلو اچھا ہی ہے میرے اوپر کوئی الزام نہیں آئے گا۔۔
خود کو مطمئن کرتا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلے گیا
تم اب جب واپس آؤ تو گھر آنا نا ہم بہت مزے کریں گے۔۔
کوشش کرونگی ابھی تو بابا نے ایک زمہ داری دی ہے دعا کرنا اچھے طریقے سے نبھا سکوں۔۔
انشاء اللہ تم ضرور کامیاب ہونگی۔۔
آمین۔۔۔
چلو اب میں جاؤ پھر کل کالج بھی جانا ہے۔۔
کالج کے نام پر اسکا دل ڈوبا تھا مگر کیا کرتی۔۔۔
چل ٹھیک آجا نیچے چلیں۔۔۔
وہ دونوں نیچے آئی تو زلیخا بی سب سے باتوں میں مصروف تھیں
اچھا بھائی صاحب اجازت دیں۔۔۔
وہ سب سے اجازت لے کر نکلی تھیں
اور اس کے بعد وہ کافی دیر تک دادو نے پاس بیٹھی رہی دل یہ سوچ کر ہی اداس ہورہا تھا کہ ان سے دور رہنا ہوگا
میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر۔۔۔
لو بھئی شوہر کے بغیر عورت یہ کہتی ہے اور تم دادی کو ایسے بول رہی۔۔۔ دادو نے ہنس کر بولنے پر اس نے خفگی سے منہ بنایا تھا۔۔
اور اس کے یوں منہ بنانے کر وہ ہنس دیں
جھلی نا ہو تو۔۔۔۔
ان کی فلائٹ نو بجے کی تھی اس لئے وہ سب سے ملکر نکلے تھے فلائٹ میں بیٹھنے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا مگر وہ یہ ابراہیم پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی
اس لئے پورے اعتماد سے اس کے قدم سے قدم ملا کر چلی تھی
مگر جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری اس کا دل ڈوبا تھا اس نے سختی سے ابراہیم کا بازو تھاما تھا اور سر اس کے ہاتھ پر رکھا تھا ابراہیم نے اسے چونک کر دیکھا تھا
میچی آنکھوں کے ساتھ ابراہیم کو وہ چھوٹی سے بچی لگی تھی
ریلیکس آنسہ کچھ نہیں ہے۔۔۔اسے اپنے لہجے کی نرمی پر حیرانی ہوئی تھی
نہیں مجھے ڈر۔۔۔۔ لفظوں کو توڑ کر کہتی وہ اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرگئی
اور اسے دیکھ وہ مسکرایا
چلو بھئی یہ جھانسی کی رانی بھی کسی چیز سے ڈرتی ہے۔۔۔
پورے سفر نے ایک لمحے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا
ائیر پورٹ پر اترتے ہی اس نے ایک دم اسکا ہاتھ چھوڑا تھا
باہر نکلتے انہوں نے اس شہر کو دیکھا تھا جس کے بارے میں جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔۔
اپارٹمنٹ کے باہر گاڑی رکتے ہی وہ باہر نکلے تھے
مگر اپارٹمنٹ کے اندر جاکر وہ چونکے تھے وہ جو سوچ کر آئے تھے کہ یہاں آزادی سے رہ سکیں گے اس ایک روم کے اپارٹمنٹ کو دیکھ ارمانوں پر اوس پڑی تھی
وسیع لاونج کارنر پر موجود کچن کا دروازہ اور باہر کی طرف ڈائننگ ٹیبل۔۔۔
سامنے بالکونی میں کھولتا دروازہ اور اس کے ساتھ منسلک بیڈ روم۔۔۔
سامان لاونج میں رکھتا وہ صوفے پر ڈھے سا گیا تھا۔۔
تھکن سے برا حال تھا بھوک بھی لگ رہی تھی مگر گھڑی اس وقت رات کا ایک بجا رہی تھی ۔۔
شٹ اس وقت تو کوئی ریسٹورنٹ بھی اوپن نہیں ہوگا۔۔ زور سے بڑبڑاتا وہ آنکھیں موند گیا۔
آنسہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور کچن کا رخ کیا تھا مگر وہاں سوائے چند برتن اور کچھ نہیں تھا اور یقیناً یہ برتن صبح صفائی کرتے وقت رکھے گئے تھے کیونکہ ان کے ساتھ ہی چائے کا سامان رکھا تھا۔۔
کچھ سوچ کر اس نے چائے کا پانی چڑھایا تھا اور اندر کمرے میں آکر اپنے بیگ سے کچھ سامان نکال کر کچن کا رخ کیا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی ٹرے ٹیبل پر رکھتے اس نے ابراہیم کو دیکھا تھا برتن کی آواز پر اٹھ کر سیدھا ہوا تھا۔۔۔
یہ سب۔۔
سامنے ٹیبل پر رکھے نوڈلز،چپس نمکو کے پیکٹ دیکھ اس نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا
فلحال تو کچن میں کچھ بھی نہیں تھا کہ سامان میرے پاس تھا تو میں نے بنالیا شروع کریں۔۔
نوڈلز اس کی طرف بڑھاتی اس نے چپس کا پیکٹ کھولا تھا۔۔
تھینکس۔۔
کوئی بات نہیں بس کچھ ضروری سامان ہے برتن وغیرہ وہ ہمیں کچن کے لئے لانا پڑے گا۔۔
اس نے بولتے کے ساتھ چپس کا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔۔
کھانے کے برتن سمیٹ وہ اس کے آگے چائے کا کپ رکھتی واپس کچن میں گھسی تھی۔۔
اور چائے پی کے اس نے واقعی خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا تھا
وہ کمرے میں آیا تو اسے کھڑکی میں کھڑا پایا۔۔
اس کی نظر بیڈ پر پڑی وہاں کوئی ایکسٹرا صوفہ وغیرہ نہیں تھا اور باہر موجود سیٹ اس قابل نہیں تھا کہ اس پر سویا جا سکے اسے ڈیلر پر رج کر غصہ آیا تھا ۔۔
یہ سامان کہاں رکھنا ہے مجھے نیند آرہی ہے۔۔
بیڈ پر اس کا سامان دیکھ وہ پوچھ بیٹھا تو اسنے آگے بڑھ کر اپنا سامان وہاں سے ہٹایا۔۔
میں نے ہٹا دیا ہے تم سوجاؤ۔۔ اسے بولتی وہ کمرے میں باہر کی طرف بڑھی تبھی اسکی آواز نے اسکے قدم جکڑے تھے
باہر کا صوفہ سونے کے قابل نہیں ہے اس لئے یہی بیڈ پر آجاؤ۔۔
اس کی آفر کر اسنے مڑ کر اسے دیکھا تھا
میرا مطلب تھا جب تک سیٹنگ نہیں ہوجاتی ہم شئیر کرسکتے ہیں بیڈ۔۔
اپنی بات کی وضاحت کرتا وہ پتا نہیں کیوں آنسہ کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا تھا
وضاحت کی ضرورت نہیں مجھے پتا ہے۔۔ اسے کہتی وہ باہر بڑھ گئی۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ پانی کی بوتل لئے کمرے میں آئی تھی
بیڈ پر لیٹتے اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا مگر دماغ سوچوں سے خالی نہیں تھا۔۔۔
حسب معمول وہ کالج کے لئے گھر سے نکلی تو قدموں کی آواز اپنے پاس محسوس کرتے وہ ایک دم گھبرا کر مڑی تھی
جہاں ایک لڑکا اس کے پیچھے تھا اسے رکتے دیکھ اس کے قدم بھی رکے تھے اور اس نے ایک بھرپور مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی تھی
کیسی ہو نور؟؟؟ اس نے مسکرا کر کہا تھا
اور اس کے منہ سے اپنا نام سن وہ ایک دم گھبرائی تھی اور اپنے قدم بڑھائے تھے
ارے میری بات تو سنو نور۔۔۔ رکو۔۔
اپنے پیچھے مسلسل اپنے نام کی آواز اسکو بدحواس کر رہی تھی قدم تیزی سے بڑھاتی وہ تقریباً بھاگتی ہوئی کالج میں داخل ہوئی تھی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں ہوا تھا۔۔
خود کو سنبھالتی وہ واشروم کی طرف بڑھی تھی منہ دھو کر کلاس میں آئی مگر دل کہیں باہر کی اٹک گیا تھا ڈر کے مارے اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔
خود کو سنبھالتی اس نے پانی پڑھائی پر دھیان دیا تھا…
خود پر پڑے بوجھ کو محسوس کئے اس کی آنکھ کھلی تھی مگر برابر نظر پڑتے وہ ساکت ہوئی تھی
اپنا ہاتھ پاؤں اس پر رکھے ابراہیم بے خبر سو رہا تھا
اس نے فوراً سے پہلے اسکا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا تھا تبھی وہ ایک دم اٹھا تھا اور خود کو آنسہ کے اتنے قریب دیکھ وہ تھما تھا
تمہارا ہاتھ… ابراہیم کو خود کو تکتا پاتے وہ اتنی دھیمی آواز میں بولی تھی کہ ابراہیم کو بمشکل سنائی دی تھی
پہلی بار کوئی یوں اسکے اتنے قریب آیا تھا اسکا دل ہتھیلی میں دھڑکا تھا
ایک جھٹکے سے اسنے اپنا ہاتھ اس کے اوپر سے ہٹایا تھا اور اس نے پھر لمحہ نہیں لگایا تھا وہاں سے اٹھ کر بھاگنے میں۔۔۔
شٹ ابے یار۔۔ اپنی حرکت پر شرمندہ ہوا تھا
بیڈ پر یونہی لیٹے لیٹے ناجانے کتنا وقت ہوا تھا کہ فون کی آواز پر وہ بے اختیار چونکا تھا
فون ریسیو کئے وہ بالکونی میں آیا تھا۔۔
بات ختم کئے وہ سامنے دیکھنے لگا جہاں کا منظر بے حد خوبصورت تھا تبھی اپنے پیچھے آہٹ محسوس کئے وہ مڑا تھا جہاں وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی
گھر میں کوئی سامان نہیں ہے ناشتہ کیسے بناؤ۔۔
نہایت سنجیدگی سے کہتی وہ سامنے دیکھنے لگی۔۔
ٹھیک ہے میں فریش ہوتا ہوں پھر لاتا ہوں اسے بولتا وہ چینج کرنے گیا تھا جب کے وہ یونہی بالکونی میں کھڑی ہوگئی۔۔۔
کتنا بدل گئی تھی وہ اپنے حق میں بولنا چھوڑ چکی تھی خود کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا مگر یہاں کوئی ایسا بھی تو نہیں تھا کہ جس سے وہ لڑتی جھگڑتی۔۔۔
اسکا تو ابراہیم سے بھی لڑنے کا دل نہیں کرتا تھا حاشر کی باتیں اسکے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔۔۔
اپنا سر جھٹک کر وہ باہر آئی پورا گھر سیٹ کرنا باقی تھا شروعات اس نے بیڈ سے کی تھی بیڈ صاف کرتی وہ لاونج میں آئی تھی جب تک ابراہیم واپس آیا تھا
اس نے اسکے آگے پانی کا گلاس رکھا اور ناشتہ اٹھاتی کچن میں چلی گئی
ٹیبل پر ناشتہ کرتے ابراہیم نے اسے مخاطب کیا تھا
ایک کام کرتے ہیں ناشتہ کرکے بوتیک سائیڈ جانا ہے تو تم بھی ساتھ چلو اس کے بعد اسٹور سے گھر کے لئے کچھ سامان بھی لے آئیں گے۔۔
ٹھیک ہے میں لسٹ بنا لیتی ہوں۔۔
چلو ٹھیک ایک کام کرو یہ سب رکھ کر ریڈی ہوجاؤ۔۔۔
ابراہیم۔۔۔ وہ جو باہر کی طرف بڑھا تھا اس کی آواز پر ٹھٹکا تھا
ہمم بولو۔۔
دادو سے بات کروا دیں میرے پاس بیلنس نہیں ہے۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں کرواتا ہوں۔۔
وہ اسکے ساتھ بوتیک آئی تھی ان دونوں نے مل کر بہت ساری چیزیں چینج کروائی تھیں
وہاں سے نکل کر انہوں نے باہر ہی لنچ کیا تھا
گھر آتے آتے انہیں رات ہوگئی تھی اس لیے کھانا وہ پیک کروا کر لائے تھے
وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ گھر کو مس کر رہے تھے۔۔
اس وقت بھی وہ بالکونی میں کھڑا تھا جب وہ کافی لئے وہاں آئی تھی۔۔
آنسہ۔۔وہ جو کہ رکھے جانے کو مڑی تھی اسکی پکار پر رکی تھی
کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم یہاں دوست بن کر رہیں؟؟
اسکی بات پر وہ حیران ہوئی تھی۔۔۔
کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟؟ اس نے سوال پر سوال کیا تھا۔۔
ہاں بلکل اگر تم مجھے آپ کہو،مجھے تھوڑا کم زلیل کرو اور میری ہر بات نا سہی کچھ کچھ باتیں مان لیا کرو۔۔۔
اس کی بات پر بے اختیار ہنسی تھی اور وہ اس کی ہنسی میں کھو سا گیا تھا
ویسے اچانک اس دوستی کا خیال کیسے آگیا؟؟ اس کے شرارت سے پوچھنے پر وہ ہنس دیا۔۔
اب تم بات بات پر لڑتی نہیں ہو نا تو اب تم شریف ہوگئی ہو تو دوستی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔۔
اس کے یوں بولنے پر اس نے آنکھیں چھوٹی کی تھیں
دادو نے مجھ سے پرامس لیا تھا کہ آپ کی عزت کرونگی تو مجبوراً مجھے کرنی پڑی۔۔
ایک منٹ تم نے مجھے آپ بولا تو دوستی پکی۔۔۔
اس کی طرف ہاتھ بڑھائے وہ مسکرا کر بولا تو اسنے بھی ابراہیم کا ہاتھ تھاما تھا۔۔
چلو اسی بات پر واک پر چلتے ہیں موسم پیارا ہے آئسکریم کھا کر آئینگے۔۔
اسے اگر دیتا وہ باہر نکلا تو چادر لئے وہ بھی اس کے ساتھ باہر نکلی تھی۔۔
پورے راستے وہ دونوں باتیں کرتے آئے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن یوں بھی آئے گا۔۔
وہ لڑکا تقریباً روز ہی اسکے سامنے آنے لگا تھا وہ ڈر کی وجہ سے گھر میں بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔
اس روز بھی معمول کے مطابق وہ کالج سے نکلی تھی گلی کے کونے پر پہنچتے ہی وہ لڑکا ایک دم اسکے سامنے آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں خط تھماتا غائب ہوا تھا۔
اس حرکت پر بدحواس ہوئی تھی ہاتھ میں تھما کاغذ دبوچے وہ گھر میں داخل ہوتے ہی کمرے میں بند ہوئی تھی۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ کاغذ کھولے اس نے پڑھنا شروع کیا تھا۔۔
میری جان نور۔۔۔۔
بہت سارا پیار جب سے تمہیں دیکھا ہے دل میں بس ایک ہی چاہ ہے تمہیں اپنا بنانے کی۔۔۔
ایک بار تم سے مل کر دل کا حال سنانا چاہتا ہوں کل کالج کے پیچھے والے پارک میں تمہارا انتظار کرونگا نہیں آئیں تو انجام کی زمہ دار تم ہونگی۔۔
تمہارا اور صرف تمہارا۔۔۔۔
عاشق۔۔
جیسے جیسے وہ پڑھتی جارہی تھی اسکے پیروں سے جان نکلتی جارہی تھی۔۔
کھڑا ہونا مشکل ہوا تو وہ زمین بوس ہوئی تھی یہ کیسی مصیبت تھی جو یوں اچانک اس پر آئی تھی۔۔
نہیں پلیز اللّٰہ جی پلیز مجھے بچا لیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا پلیز مجھے بچا لیں۔۔دعا مانگی تھی۔۔
نور۔۔۔۔ نور۔۔۔۔۔ زلیخا بی کی آواز پر وہ آنسو صاف کرتی جلدی سے باہر آئی تھی
آئی اماں۔۔۔
آج آتے ہی کمرے میں چلے گئی خیریت تو ہے اور یہ آنکھیں کیوں لال ہورہی ہیں۔۔
کچھ نہیں اماں بس سر بہت درد کر رہا۔۔
خود کو سنبھالتی اس نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا کہ جانے بغیر کے یہ جھوٹ کل کو اس نے کے لئے کیا نئی مصیبت لانے والا ہے
اچھا چل میں زرا شبانہ کی طرف جارہی تو دروازہ بند کرلے اور کھانا کھا لینا۔۔
اماں نہیں جاؤ نا۔۔۔ وہ انکا ہاتھ تھام گئی تھی
کیا ہوا ہے تجھے؟؟ ان کے پوچھنے کر وہ ایک دم گڑبڑائی تھی
نہیں کچھ نہیں بس یوں ہی۔۔
شبانہ نے بلوایا ہے اس لئے جارہی تو کھانا کھا کر سوجانا۔۔ اسکا ہاتھ تھپک کر وہ باہر نکل گئی تو اسنے بھاگ کر دروازہ بند کیا تھا
یہ یہاں نہیں وہاں رکھیں۔۔۔
ارے یہاں نہیں وہاں۔۔ وہ اسے پینٹنگ کی ڈائریکشن بتا رہی تھی
تبھی وہ چڑ کر نیچے آیا تھا
کیا مصیبت ہے بھئی تم کوئی دس دفعہ جگہ تبدیل کر چکی ہو۔۔
ہاں تو وہ وہاں سوٹ نہیں کر رہی تھی نا ۔۔ وہ بھی اسے کے انداز میں بولی تھی
ایک کام کرو آپ یہاں سے بتاؤ میں اوپر چڑھتی۔۔اسے بولتی وہ اسٹول پر چڑھی تھی
آرام سے آنسہ گر نا جانا۔۔۔
اتنی نازک نہیں آپ کی طرح۔۔۔۔ اس پر طنز کرتی وہ اپنا کام مکمل کرنے لگی جب کے خود کو نازک بولنے پر وہ اسٹول کے پاس آیا تھا
ابھی بتاتا ہوں کون ہے نازک۔۔ دانت پیس کر بولتا اسنے اسٹول ہلایا تھا
ااااااا۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہے میں گر جاؤں گی۔۔
ارے اتنی نازک۔۔۔ ہنس کر کہتا وہ پھر سے اسٹول ہلانے سے باز نہیں آیا تھا۔۔
ابراہیم قسم سے نیچے آئی نا حشر بگاڑ دونگی۔۔۔ قدم مضبوط کرتی وہ دھمکی پر اتر آئی تو وہ ہنستا ہوا رکا تھا اور ہاتھ بڑھا کر اسے اترنے میں مدد دی تھی
کھانے کا کیا سین ہے بھوک لگ رہی ہے ۔۔
پاستہ بنایا ہے اور ساتھ میں اسپیگھٹی بھی ہے۔۔
اسے بتاتی وہ روم میں گئی تھی۔۔
جب تک وہ واپس آئی وہ ٹیبل پر کھانا کھا چکا تھا
تھینکس۔۔۔ اسے بولتی وہ آکر بیٹھی تھی اور دونوں کی پلیٹ میں کھانا نکالا تھا۔۔
بوتیک میں کام شروع ہوچکا تھا وہ اکثر اسے ساتھ لئے وہاں جاتا تھا انہوں نے وہاں مل کر کافی چیزیں کی تھیں۔۔
انہیں یہاں آئے تین مہینے ہوچکے تھے۔۔
ڈور بیل کی آواز پر وہ کچن سے نکلتی باہر آئی تھی جہاں ابراہیم کھڑا تھا اس کا کورٹ تھامتی وہ اندر بڑھی تھی
آنسہ دادو کی کال آئی تھی بہت یاد کر رہی ہیں۔۔
تو چلتے ہیں نا کراچی میں بھی انہیں بہت مس کر رہی۔۔ اسکے ہاتھ پانی کا گلاس گھماتی وہ وہیں اسکے پاس بیٹھی تھی
اوکے پھر کام تو یہاں کا الریڈی ڈن ہے تو چلتے ہیں اس سنڈے۔۔
اوکے اس کی بات پر وہ ایک دم خوش ہوئی تھی مگر پھر اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی
ان کی شادی کو چھ مہینے مکمل ہوگئے تھے اب ان کے علیحدہ ہونے کا وقت آگیا تھا یہ سوچ کر ہی اسکا دل ڈوبا تھا
پاگل ہے کیا آنسہ یہ تو پہلے سے طے تھا تو کیوں اداس ہونا خود کو سرزنش کرتی وہ اٹھی تھی مگر دل کی ویرانی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی تھی
کب کیسے کیوں… پر وہ ابراہیم کو دل میں بسا بیٹھی تھی۔۔۔
بے دلی سے کام کرتی وہ بالکونی میں آگئی۔۔
تاحد نگاہ اندھیرے میں روشنیاں جگنو جیسی لگ رہی تھیں۔۔۔
ناجانے کتنی کہ دیر وہ یونہی کھوئی رہتی کہ ابراہیم کی آواز پر وہ مڑی تھی
کیا سوچ رہی ہو کب سے آواز دے رہا ہوں ۔۔
کچھ نہیں بس یونہی۔۔۔ اپنا چہرہ سیدھ میں کئے وہ بولی تھی۔۔
کچھ سوچ رہی ہو؟؟ اس کے برابر آکر کھڑے ہوتے اس نے اسکو دیکھا تھا جس کا چہرہ بلب کی روشنی سے منور ہورہا تھا
کچھ نہیں بس یہی سوچ رہی تھی کہ چھ مہینے مکمل ہوگئے ہیں ہمارے راستے اب الگ الگ ہونے والے ہیں۔۔
دادو کو کیا بتاؤ گے؟؟ بولتے ساتھ اس نے اپنا رخ اسکی طرف کیا تھا جو اسکی بات پر چپ ہوا تھا وہ اسکی خاموشی سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکی تھی
کھانا لگا رہی ہوں آجاؤ۔۔ اسے بولتی وہ باہر بڑھی تھی
جب کے وہ ریلنگ کو تھام گیا تھا۔۔۔
کیا اتنا آسان تھا سب ختم کرنا ؟؟ وہ سر جھٹک کر خود کو کمپوز کرتا اندر کی طرف بڑھا تھا۔۔