نام اور پیدائش:
مشرف عالم نام اور ذوقیؔ تخلص ہے ان کی پیدائش ۲۴ مارچ ۱۹۶۲ء کو ریاست بہار کے ضلع آرہ میں ایک علمی وادبی خاندان میں ہوئی۔گھر والے پیار سے ان کو’ منا‘ بلاتے تھے ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’۔۔۔۔تب میں ذوقی نہیں تھا،عالم بھی نہیں تھا۔مشرف بھی نہیں تھا۔مناّ تھا۔گھر بھر کا مناّ۔سارے خاندان کا مناّ۔بس یہی نام تھا جو گھر والوں نے مجھے دیا تھا۔۔۔مناّ۔۔۔ارے مناّ کہاں ہے؟مناّ کہاں گیا؟سنو مناّ۔۔۔‘‘(شیفتہ پروین۔ذوقی فن اور شخصیت۔ص۔۱۴)
ماں باپ:
مشرف عالم ذوقی کے والد کانام مشکور عالم بصیری اور والدہ کا نام سکینہ خاتون تھا۔مشکور عالم آرہ کے ایک عزت دار شخص تھے وہ ڈپٹی ڈائریکٹرآف ایجوکیشن کے عہدہ پر فائز تھے مشکور عالم کو علم وادب سے بہت رغبت تھی وہ شاعری کا بلند ذوق و شوق رکھتے تھے اور خود بھی شاعری کرتے تھے ۔مشکور عالم ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے آدمی تھے وہ علم وادب کے دلدادہ تھے ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ تو تھا ہی اس کے علاوہ دوسرے مذاہب کی کتب سے بھی وہ شغف رکھتے تھے گیتا،رامائین اور مہا بھارت کے بارے میں وہ اچھی معلومات رکھتے تھے ساتھ ہی میڈیکل سائنس اور جدید علوم پر بھی ان کو عبور حاصل تھا چونکہ ان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے وہ اپنے سارے بچوں خاص کر ذوقی کو پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔مشکور عالم ذوقی کے شفیق باپ تو تھے ہی وہ ان کے ایک اچھے دوست بھی تھے وہ ذوقی کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بحث کیا کرتے تھے چاہے وہ ادب کا پہلو ہو یا خود ذوقی کی زندگی سے متعلق۔انھوں نے ہر قدم پر ذوقی کی رہنمائی کی ان کی موت کا ذوقی کو شدید صدمہ ہوا۔
ذوقی کی ماں سکینہ خاتون ایک سادہ مزاج،خاموش طبیعت اور وفا پرست شخصیت کی مالک تھیں وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی تربیت ایک اچھے ماحول میں ہوئی تھی۔وہ ایک نڈر،باہمت اور مضبوط کردار کی طرح ہر مسائل کا سامنا کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی تھیں اور اس کی جھلک ان کے اپنے بچوں میں بھی بخوبی نظر آتی ہے۔سکینہ خاتون نیک سیرت اور صوم و صلٰوۃ کی پابند تھیںذوقی اپنی والدہ سے بے حدمحبت کرتے تھے وہ آج بھی اپنی ماںکی نصیحتوں،اس کے لاڈ پیار اور دعاؤںکو یاد کرتے ہیں۔۱۹۸۳ء میںسکینہ خاتون کا انتقال ہواان کی وفات سے ذوقی کو گہرا صدمہ پہنچالیکن اس وقت ملک کے حالات اس قدر خراب تھے کہ ذوقی نے یہ محسوس کیا کہ یہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں رہی ملاحظہ ہو :
’’۔۔۔۔۱۹۸۳ء مظفرپور میں امی کا انتقال ہوا۔۔۔۔امیّ جیسی ہستی الوداع کی گھاٹیوں میںہمیشہ کے لئے گم ہو گئی تھیں اور میں۔دنگے کی کہانی لکھ رہا تھا ۔مجھے تسلی مل رہی تھی۔امی،اچھا کیا،جو تم یہ شہر،یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔یہ رہنے والوں کی جگہ ہی نہیں ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز و شب۔ص۔۱۶۰)
خاندان:
مشرف عالم ذوقی کا خاندان بڑا ہے ذوقی کے دادا کا نام محفوظ عالم تھا وہ آرہ کے بہت بڑے جاگیر دار تھے ان کی تین اولادیں تھیں بڑے صاحب زادے محبوب عالم ،ان سے چھوٹے مشکور عالم اور سب سے چھوٹے مشتاق عالم تھے۔مشکور عالم کو علم وادب سے بچپن سے ہی رغبت تھی اچھی تعلیم حا صل کی جس کے نتیجہ میں ایجو کیشن آفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔مشکور عالم کی شادی سکینہ خاتون سے ہوئی جن کا تعلق ایک بڑے اور معزز گھرانے سے تھا ان کے بطن سے چھ اولادیںہوئیں چنانچہ ذوقی کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں ذوقی کے سب سے بڑے بھائی کا نام مسرور عالم ہے وہ ان سے۱۳۔۱۲ برس بڑے ہیں ان کے بعد ذوقی کی ایک بہن ہے جس کا نام نصرت جہاں ہے انہیں بھی لکھنے کا بہت شوق ہے کالج کے دنوں میں وہ کہانیاں لکھتی تھیں شادی کے بعد وہ اپنے بچوں کے ساتھ آسٹریلیا چلی گئیں۔نصرت کے بعد ان کی ایک اور بہن عصمت جہاں ہے اپنی اس بہن کے بارے میں ذوقی کہتے ہیں کہ میری کئی کہانیوں میں جو مظبوط عورتیں آتی ہیں ان میں میری منجھلی بہن کے کردار کا بڑا ہاتھ ہے عصمت کی شادی اردو کے شاعر بدیع الزماں کے بیٹے کے ساتھ ہوئی۔عصمت کے بعد ذوقی کی اور بہن نزہت جہاں ہے اس کے بعد مشرف عالم ذوقی کا نمبر ہے اور ان کا سب سے چھوٹا بھائی منور عالم ہے ۔اپنے خاندان کے سارے لوگوں کا مشرف عالم ذوقی کی ادبی زندگی پر بہت اثر پڑا۔ذوقی اپنی کامیابی کے پیچھے اپنے تایا ابو کا ہاتھ بھی بتاتے ہیں وہ انھیں بڑے ابو کہتے تھے بڑے ابو ذوقی کے لکھنے کے انداز سے بہت خوش تھے جب بھی ذوقی کی کوئی کہانی شائع ہوتی تو بڑے ابو اس رسالہ کے شمارہ کو منگا کر اس کہانی کو فوراً پڑھتے تھے اور جب ذوقی ان کے پاس پہنچتے تو وہ ان کہانیوں کو پڑھ چکے ہوتے اور خوش ہوکر ذوقی کی داد دیتے اور اس طرح وہ ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔
بچپن:
مشرف عالم ذوقی کا بچپن ان کے آبائی گاؤںآرہ میں ہی گزرا۔ان کا بچپن نہایت ہی عیش و عشرت سے گزرا کیونکہ جاگیردارانہ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اس لئے بہت کم شرارتی تھے بچپن سے ہی سنجیدہ،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے ریئسانہ انداز۔کھیل کود میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن ہر کھیل میں اپنی ہی عمر کے بچوں سے ہار جایا کرتے تھے انھیں اس پر شرمندگی کا احساس ہوتا تھا ۔ہارنا بھی پسند نہیں تھااس لئے بار بار کھیلتے تھے اورہار جاتے تھے یا یوں کہیں کہ ہر بار ہار جاتے تھے لیکن ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کبھی گھبراتے نہیں تھے چنانچہ قلم سے کھیلنے کا ارادہ کیا اس طرح بچپن کے کھیل اور شرارتیں کرتے ہوئے سات سال کی عمر میں ہی ان کے ہاتھ میں قلم آگیا اور اپنے آپ سے یہ عہد کرلیا کہ اب اس کھیل میں کبھی ہاروں گا نہیں۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’۔۔۔پھر جب لڑکپن کی سرحد شروع ہوئی تو دوسرے لڑکوں کی طرح میں نے بھی کھیل کود میں دلچسپی لینی چاہی۔لٹو،گلی ڈنڈا،گولی سے لے کر کرکٹ،ہاکی،فٹ بال اور والی بال تک۔مگر یہ کیا،آس پاس کے معمولی بچوں سے بھی میں شکست کھا جاتا۔دل میں یہ خیال آتا کہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ہر بار ہر کھیل میں،میں ہار جاتا ہوں۔یہ بار بار کی شکست کا صدمہ کچھ ایسا تھا کہ ہاتھوں میں قلم اٹھا لیا ۔اب نہیں ہاروں گا ۔صرف جیتوں گا۔۔۔۔۔۔یہی کمٹمنٹ تب سے اب تک بنا ہوا ہے ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔آب روان کبیر۔ص۔۳۸۱)
اس طرح ذوقی نے کھیلوں سے ہار کر قلم کو جیت لیاانھوں نے بچپن میں دوست بھی کم ہی بنائے لہٰذا قلم سے دوستی کر لی اور یہ ان کا ایک بہترین دوست ثابت ہوا۔ذوقی کو شروع سے ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا انھوں نے بچپن میں ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بڑے ہو کر کہانی کار بنیں گے یہ ان کے گھر کے ادبی ماحول کا بھی اثر تھا ان کے والد سب بچوں کو اپنے ساتھ لے کر چھت پر جاکر چاندنی رات میںکہانیاں سنایا کرتے تھے ملاحظہ ہو:
’’گرمیوں کے موسم میں چھت پر چار پائی بچھی ہوئی ہوتی تھیں۔آسمان پر تاروں کی بارات۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی بہتی ہوئی ہوا۔ہم بھائی بہن چھت پر اباّ کے آنے کا انتظار کرتے۔اباّکے آتے ہی ہم انھیں گھیر کر بیٹھ جاتے۔اباّ پھر داستانوں کو لے کر بیٹھ جاتے۔داستان امیر حمزہ،طلسم ہوش ربا ء۔۔۔عمر و عیار کی ٹوپی،یہاں تک کہ سراج انور کے ناول بھی اباّ سے ہی سننے کا موقع ملا۔مطالعہ میں نے بعد میں کیا۔‘‘(تسنیم فاطمہ۔ذوقی:تخلیق اور مکالمہ۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۲۱۲)
تعلیم:
مشرف عالم ذوقی کو گھر میں ہی ایک تعلیمی ماحول ملاکیونکہ ان کے والد خود ایک ایجوکیشن آفیسر تھے اس وجہ سے سب بچوں سے ـ’پڑھو پڑھو‘کا نعرہ لگوایا جاتا تھا ان کے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر تم دنیا میں کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس کے لئے تمہیں بہت پڑھنا ہوگاوالدہ بھی ان کو پڑھنے کی تاکید کیا کرتی تھیں۔
پڑھنے میں مشرف عالم ذوقی بچپن سے ہی سنجیدہ تھے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی شروع ہوئی ان کی تعلیم کا آغاز قرآن شریف سے ہوا۔اس کے بعد ایچ۔پی۔بی جین اسکول میں ان کا داخلہ کروایا گیا یہ اسکول ضلع آرہ کا ایک مشہور اسکول تھا جین اسکول سے ہی انھوں نے میٹرک کیا پھر انٹرمیڈیٹ سائنس میں کیا لیکن ان کو یہ احساس ہوا کہ اگر ادب کی خدمت انجام دینی ہے تو فزکس اور کیمسٹری سے کام نہیں چلے گا اس کے لئے تاریخ اور سیاست کی معلومات حاصل کرنا بھی ضروری ہوگی چنانچہ انھوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آرہ کے ’مہاراجہ کالج‘ میں داخلہ لیا اور گھر والوں کی مرضی کے خلاف سائنس Subjectsچھوڑ کر Artsکا انتخاب کیایہ ذوقی کی طرف سے اٹھا یا گیا ایک بولڈ قدم تھا جب گھر والوں کو پتہ چلا تو سب نے ڈانٹ لگائی لیکن بعد میں مان بھی گئے۔ذوقی نے ۱۹۸۱ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا اور پھر مگدھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے ۱۹۸۳ء میں ایم۔اے تاریخ میں کیا۔ذوقی کا مطالعہ بہت وسیع ہے اردو کے ساتھ ساتھ وہ ہندی ادب کا بھی نہ صرف مطالعہ کرتے ہیں بلکہ لکھتے بھی ہیں عالمی اور کلاسیکی ادب سے بھی وہ اچھی واقفیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبانوں میں بھی ان کو مہارت حاصل ہے۔
ادب سے دلچسپی اور وابستگی:
مشرف عالم ذوقی نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ ایک ادبی گھرانہ تھا ان کا گھر کوٹھی کہلاتا تھا وہاں اکثر مشاعرے ہوا کرتے تھے ان کے خاندان میں کئی ایسے لوگ تھے جو شاعر تھے اور مشاعروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ذوقی کے والد مشکور عالم بصیری بھی شاعری کیا کرتے تھے ان کے گھر میں لائبریری تھی اور اس میں اردو اور انگریزی کی کتابیں موجود تھیں ذوقی کے والد سب بچوں کو اپنے پاس بیٹھا کر گھنٹوں ادب کی گفتگو کرتے اس کے علاوہ داستانیں،قصے اور کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے اس کا اثر یہ ہوا کہ ذوقی کو بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے اور لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔
مشرف عالم ذوقی نے ادب کی شروعات شاعری سے کی تھی بچپن سے ہی ان کو شعر پڑھنا اور گنگنانا پسند تھا وہ اکثر میرؔ،غالبؔاور ذوقؔکے اشعار گنگنایا کرتے تھے ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’۔۔۔اباّ بچپن سے میرؔ و غالبؔ کے اشعار سنایا کرتے ان شاعروں میںذوقؔ سے مجھے کچھ زیادہ ہی محبت ہوگئی مجھے یاد ہے ایک چھوٹی سی بچوں والی سائیکل ہوا کرتی تھی میں سائیکل چلاتا ہوا بلند آواز میں ذوقؔ کے اشعار پڑھا کرتا
ؔؔ ؔ ؎کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
نہنگ و اژدہاو شیر و نر مارا تو کیا مارا
ایک دن اباّاتنے خوش ہوئے کہ مجھے گلے سے لگایا اور کہا یہ ذوقی ہے اور لیجئے میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔۔۔۔‘‘(ان باتوں کا اظہار ذوقی نے رضی احمد تنہا)
اس طرح شاعری سے محبت اور ذوقؔسے لگاؤ نے ہی مشرف عالم کو ذوقی کا خطاب دلایا۔والد کی جانب سے عطا ہوئے اس خطاب کومشرف عالم نے ہمیشہ کے لئے اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا۔ پھر آہستہ آہستہ ذوقی کا رخ نظم کی طرف ہوا ابتداء میں انھوں نے بہت سی نظمیں بھی لکھیں لیکن شائع کم ہی ہو پائی۔اقبالؔ،فیضؔ،فراقؔاور ن۔م راشدؔوغیرہ شعراء کی نظمیں انھیں بہت متاثر کرتی ہیںیہ اقتباس پڑھئے:
’’ادب کی شروعات شاعری سے ہوئی ۔آج بھی اقبالؔ،غالبؔ،مومنؔ،جگرؔ،فیضؔ،فراقؔکی شاعری میرے مطالعے میں رہتی ہے۔۔۔۔شروعات شاعری سے ہوئی۔ لیکن مجھے جلدی اس بات کا احساس ہونے لگا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوںیا ادب کو دینا چاہتا ہوںاس کے لئے مجھے شاعری سے الگ کا میدان منتخب کرنا ہوگا ۔اس لئے میں فکشن یا ناول کی دنیا میں آگیا ۔17 سال کی عمر میں میں نے اپنا پہلا ناول لکھا۔عقاب کی آنکھیں۔اور 20 سال کی عمر تک میں چار ناول تخلیق کرچکا تھا۔ لیکن آج بھی میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں۔خصوصی طور پر ن۔م راشدؔ اور فیضؔ کی نظمیں مجھے بے حد پسند ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔سلسلہ روز و شب۔ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۱۴۳۔۱۴۴)
ذوقی کی ادبی زندگی کاآغاز لگ بھگ گیارہ سال کی عمر میں ’’اپنی اپنی صلیب‘‘کہانی سے ہوا اس وقت وہ چھٹی کلاس کے طالب علم تھے اس کے بعد سترہ سال کی عمر میں ناول’’عقاب کی آنکھیں‘‘لکھ کر اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا۔اتنی کم عمری میںادب سے وابستہ ہونے کی وجہ اس وقت کا ماحول اور خونی واقعات تھے جس نے ذوقی سے ان کا بچپن چھین لیا اور ان کو اپنے ہاتھوں سے کھلونے چھوڑ کر قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ذوقی نے جس وقت آنکھیں کھولی اس وقت بہار میںدنگے ہورہے تھے ان کے اسکول کے بچے مسلمانوں کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے ان کو سن کر ذوقی کا دل دکھتا تھاانھوں نے کتابوں اور بڑے بزرگوں سے غلامی کی جو کہانیاں سنی اور پڑھی تھیںاس کا بھی ان پر گہرا اثر ہوا۔اس کے علاوہ آرہ کی گلیوں،جین اسکول اور وہاں سے گھر کی چہار دیواری تک آتے ہوئے ان کو راستے میں جن باتوں یا سچائیوں کا سامنا کرنا پڑا اس کا اثر بھی ذوقی پر اتنا پڑا کہ وہ لکھنے لگے۔غلامی،ہجرت،تقسیم اور تقسیم کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے انھیں جنجھوڑ کر رکھ دیا تھاچنانچہ انھوں نے اپنے دل کا غبار کہانیوں اور ناولوں کے ذریعہ نکالاسچے واقعات کو اپنی تخلیقات میںپیش کرکے قارئین کو حقیقت سے روشناس کرایا انھوں نے چھوٹی عمر میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ جو کچھ آنکھیں دیکھ رہی ہیں اس سچ سے وہ کبھی منہ چھپانے کی کوشش نہیں کریں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا ۔
ذوقی نڈر ہوکر لکھتے ہیں وہ تمام قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیںیہی وجہ ہے کہ انھوں نے سرکاری ملازمت کو ٹھکرادیاکیونکہ انھیں پتہ تھا کہ اگر وہ نوکری کریں گے تو وہ سب لکھنا پڑے گا جو حکومت چاہتی ہے لیکن ان کی انا کو یہ گوارا نہیں تھا چنانچہ انھوں نے ادب کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور تمام تر زندگی ادبی خدمات کے لئے وقف کردی۔ان کا ماننا ہے کہ تخلیق کا وجود پوری کمٹمنٹ پر مختص ہے ادب ہی انسانی زندگی کا ضامن ہے جسے پڑھنے اور لکھنے سے انسان سکون کی وادیوں میں محو ہوسکتا ہے حالات کیسے بھی ہوں ذوقی نے اپنے قلم کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’پچھلے تیس سال میں ایسا کوئی دن نہیںجس دن میں نے لکھا نہ ہو مجھے یاد ہے جس دن میری والدہ کی وفات ہوئی اس شام کو بھی میں نے لکھا جس دن میری عزیز بیٹی کم عمری میں مجھ سے جُدا ہو کہ دنیا سے رخصت ہوئی اس رات بھی میں نے لکھا ۔‘‘(راقم الحروف سے انٹرویو)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ادب سے کتنا لگاؤ ہے ادب ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا اور تنہا محسوس کرتے ہیںوہ ایک مثبت اورPositiveسوچ رکھتے ہیںاور ان کا ادب اسی نظریہ پر مبنی ہے ان کو ادب سے وہ سب کچھ ملا ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔
’’مجھے شکوہ نہیںکہ ادب نے مجھے کیا دیا۔مجھے بہت کچھ دیا ہے۔مجھے ایک حسین زندگی عطا کی ہے۔اس زندگی کو میں اپنے طور پر سوچتا ہوں،محسوس کرتا ہوں اوراپنے سانچے میں اتارتا ہوں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔آب روان کبیر۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۳۷۹)
ادبی کارنامے:
مشرف عالم ذوقی نے اردو ادب خصوصاًاردو فکشن میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںانھوں نے مختلف اصناف سخن میںاپنے قلم کو آزمایا لیکن فکشن کے میدان میں وہ ایک جانباز سپاہی کی طرح کود پڑے اور نہایت ہی نڈر اور بیباکی کے ساتھ اپنے ہنر کا مظاہرہ کیا جس کی فکشن کے نقادوں اور دانشوروں نے بہت سراہنا بھی کی۔ذیل میں ان کے ادبی کارناموں کا ایک خاکہ پیش کیا جا رہا ہے:
افسانے:
مشرف عالم ذوقی کا پہلا افسانہ’’لمحہ رشتوں کی صلیب‘‘ہے یہ افسانہ تیرہ سال کی عمر میں رسالہ ’’کہکشاں میں شائع ہوا۔انھوں نے ہندی میں بھی افسانے لکھے ہیںاردو میں ذوقی کے اب تک سات افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن کی فہرست یوں ہے:
۱۔بھوکا ایتھوپیا (۱۹۸۵ء) ۲۔منڈی (۱۹۹۷ء) ۳۔غلام بخش اور دیگر کہانیاں (۱۹۹۸ء) ۴۔صدی کو الوداع کہتے ہوئے (۲۰۰۲ء)
۵۔لینڈ اسکیپ کے گھوڑے (۲۰۰۴ء) ۶۔ایک انجانے خوف کی ریہرسل (۲۰۱۱ء) ۷۔نفرت کے دنوں میں (۲۰۱۳ء)
ذوقی کے منتخب افسانے اردو ویب سائٹ www.oneurdu.com پر ڈاؤن لوڈ بھی کئے جاسکتے ہیں۔
ناول:
مشرف عالم ذوقی کا اصل میدان ناول ہی ہے ان کا پہلا ناول’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ہے انھوں نے اب تک جو ناول تحریر کئے ہیں ان کی فہرست یہ ہے:
۱۔عقاب کی آنکھیں غیر مطبوعہ
۲۔شہر چپ ہے (۱۹۸۰ء)
۳۔لمحہ آئندہ (۱۹۸۱ء)
۴۔نیلام گھر (۱۹۹۰ء)
۵۔بیان (۱۹۹۲ء)
۶۔مسلمان (۱۹۹۵ء)
۷۔ذبح غیر مطبوعہ
۸۔پو کے مان کی دنیا (۲۰۰۴ء)
۹۔پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی (۲۰۰۵ء)
۱۰۔لے سانس بھی آہستہ (۲۰۱۱ء)
۱۱۔آتش رفتہ کا سراغ (۲۰۱۳ء)
۱۲۔نالہ شب گیر (۲۰۱۴ء)
۱۳۔اردو غیر مطبوعہ
۱۴۔اڑنے دو ذرا غیر مطبوعہ
۱۵۔سب سازندے غیر مطبوعہ
۱۶۔سرحدی جناح غیر مطبوعہ
ڈرامے:
افسانوں اور ناولوں کے علاوہ ذوقی نے ڈرامے بھی لکھے ہیں ان کے کچھ ڈرامے اسٹیج پر بھی دکھائے جا چکے ہیںذوقی کے ڈراموں کی فہرست یہ ہے:
۱۔گڈ بائے راج نیتی (۲۰۰۰ء) ۲۔چار ڈرامے غیر مطبوعہ
۳۔آخری بیان غیر مطبوعہ ۴۔ایک سڑک ایودھیا تک غیر مطبوعہ
وہ ڈرامے جو اسٹیج پر دکھائے گئے:
۱۔بیان ۲۔سب سے اچھا انسان ۳۔ایک ہارے ہوئے آدمی کا کنفیشن
۴۔ایک اور شہادت
نظمیں:
مشرف عالم ذوقی نے چند نظمیں بھی لکھی ہیں مگروہ کسی وجہ سے شائع نہیںہو پائیںتاہم ان کی ایک طویل نثری نظم ’’ لیپروسی کیمپ‘‘سن ۲۰۰۰ء میں ساشا پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوئی۔
ٹی ۔وی سیریلس:
ذوقی نے بہت سے سیریلس بھی پروڈیوس کئے جو ڈی ۔ڈی 1،ای ۔ٹی۔وی اردو ،ڈی۔ڈی جموں اور ڈی۔ڈی کاشر وغیرہ چینلوں پر دکھائے جا چکے ہیں:
D.D.1:
۱۔ابروئے غزل ۲۔ورق ورق چہرہ ۳۔عکس پس عکس ۴۔جوالہ مکھی
۵۔ملت (ناول مسلمان سے ماخوذ) ۶۔رنجشیں (کہانی اک نیا موڑ سے ماخوذ) ۷۔بے جڑ کے پودے ۸۔کتابوں کے رنگ ۹۔ساتواں سورج ۱۰۔تلاش ۱۱۔اکیسویں صدی کے بچے ۱۲۔اپنی کہانی اپنی زبانی ۱۳۔نشیمن
E.Tv.Urdu:
۱۔دوسرا رخ
D.D Jammu:
۱۔آنگن کی دھوپ (کہانی بوڑھے جاگ سکتے ہیں سے ماخوذ) ۲۔چوک
۳۔کشمیر سچائی کے روبرو ۴۔مذہب نہیں سکھاتا (مجموعہ بھوکا ایتھوپیا سے ماخوذ) ۵۔مقصد ۶۔الجھن ۷۔عجیب داستان ہے یہ
D.D Kashir:
۱۔رات چاند اور چور ۲۔مورچہ
ٹیلی فلمیں:
مشرف عالم ذوقی نے ٹیلی فلموں کے لئے بھی کام کیا ہے انھوں نے اردو اور ہندی کے نامور ادیبوں جیسے محمد حسن،قراۃ العین حیدر،نامور سنگھ،راجندر یادو،جوگندر پال،قمر رئیس وغیرہ پر باون سے زیادہ ٹیلی فلمیں بنائی ہیںجو ڈی ڈی ون پر سلسلہ وار دکھائی جا چکی ہیںان کی چند ٹیلی فلموں کی فہرست یوں ہے:
۱۔پربت ۲۔دکھاوا ۳۔دو رنگ ۴۔انجام ۵۔رکا ہوا درد ۶۔نصبن ۷۔سورج کا سفر ۸۔بندش ۹۔سنگھرش ۱۰۔اک نئی صبح
۱۱۔اک نیا موڑ
ڈاکیومنٹری:
سیریل اور ٹیلی فلموں کے علاوہ ذوقی نے ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائی ہیں وہ ان کی اسکرپٹ بھی خود ہی لکھتے ہیںیہ ہے ان کی فہرست:
۱۔باپو کے سپنوں کا شہر ۲۔ساہتیہ اکیڈمی ۳۔سنگیت ناٹک اکیڈمی
۴۔یہی ہے کشمیر ۵۔نیشنل اسکول آف ڈرامہ ۶۔وایو منڈل میں پھیلا زہر ۷۔بابری مسجد،ایک سچائی یہ بھی ۸۔Institution of delhi
ماس میڈیا:
ٹیلی اسکرپٹ زیر طبع
تنقیدی کتابیں:
۱۔آب روان کبیر ( ۲۰۱۳ء) ۲۔سلسلہ روز و شب (۲۰۱۴ء)
دیگر تصانیف:
۱۔بلونت سنگھ کی کہانیاں ۲۔کنگن (بچوں کی کتاب) ۳۔نئی بستی میں ادب
۴۔با ادب با ملاحظہ ہوشیار ۵۔جدید افسانہ ۱۹۷۰ ء کے بعد ۶۔اردو جگت
۷۔مکالمہ کے سات رنگ ۸۔سرخ بستی ۹۔منٹو پر آٹھ کتابیں ۱۰۔اردو ادب ۱۱۔جوگندر پال کی کہانیاں ۱۲۔جدید افسانے ۱۳۔عصمت کی کہانیاں ۱۴۔احمد فراز کی منتخب شاعری ۱۵۔وبھاجن کی کہانیاں ۱۶۔میں،اردو اور مسلمان ۱۷۔تقسیم کی کہانیاں ۱۸۔مسلم باغی عورتوں کی کتھا ۱۹۔ بیدی کی کہانیاں
صحافت:
ذوقی نے صحافت کے میدان میں بھی کارنامے انجام دیے ہیں وہ ۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۸۷ء تک ماہنامہ ’یوک دارا‘کے ایسسٹنٹ ایڈیٹر رہے اس کے بعد ۱۹۸۷ء سے ۱۹۸۸ء تک ’اردو جگت‘ کے لئے بھی بطور ایسسٹنٹ ایڈیٹر کام کیا اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’روزنامہ ہندوستان‘اور ’جن ستہ‘جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کیا ۔ملک کی فضا خراب ہوئی بابری مسجد کا حادثہ پیش آیا لیکن وہ مسلسل ’راشٹریہ سہارا‘اور دوسرے اخباروں میں اپنے مضامین لکھتے رہے اس کے بعد گجرات حادثہ سامنے آیا جس سے متاثر ہوکر انھوں نے ایک کتاب لکھی جو ’’لیبارٹری‘‘کے نام سے شائع ہوئی ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ملکی و غیر ملکی اخبارات اور رسائل میں ان کے مضامین چھپتے رہتے ہیں۔
ہجرت:
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۵ء میں آرہ سے ہجرت کرکے دہلی آ گئے مگر دہلی آنے کے بعد ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے رہائش کا مسئلہ،کھانے پینے کا مسئلہ وغیرہ یہاں انھوں نے در در کی ٹھو کریں کھائی ،خالی ہاتھ اور بے روزگار رہے ان سب مسائل سے ذوقی کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔اتنا سب سہنے کے بعد ذوقی نے جانا کہ دلی دل والوں کی نہیں بلکہ تنگ دل لوگوں کی دلی بن کر رہ گئی تھی اور ان سب باتوں کا ذکر انھوں نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کے کئی افسانوں میں کیا ہے دہلی میں ذوقی کو اپنا شہر آرہ خاص کر اپنا گھر بہت یاد آتا تھا وہ اپنے کمرے کو بھی بہت یاد کرتے تھے جس میں وہ سکون سے بیٹھ کر پڑھتے اور لکھا کرتے تھے یہ کمرہ ان کے دکھ سکھ کا ساتھی بھی تھا جس میں وہ اپنی فرصت کے زیادہ تر لمحات گزارہ کرتے تھے چنانچہ دہلی میں مکان ملنے کے بعدبھی وہ اپنے پرانے گھر کو بھول نہیں پائے وہ جب کبھی باہر سے آتے تو ان کی نظریں وہی پرانا مکان ڈھونڈنے کی کوشش کرتیں ان کو بار بار یہ احساس ہوتا کہ ’’مجھ سے میرا گھر چھوٹ گیا‘‘اس احساس نے ان کو کئی دلدوز کہانیاں لکھنے پر بھی مجبور کیا ۔
آئیڈیل:
مشرف عالم ذوقی اپنے والد کی شخصیت سے کافی متاثر نظر آتے ہیں وہ اپنے والد کو ہی اپناIdealمانتے ہیں وہ ان کے جیسے بننا چاہتے تھے ذوقی اپنے والد مشکور عالم بصیری کے کہانی کہنے کے انداز سے بہت متاثر ہیں اور آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’۔۔۔ابا کے سنانے کا مخصوص انداز تھا ۔وہ ڈرامائی انداز میں ان کہانیوں کو بیان کیا کرتے۔آج محفلوں میں کہانیاں سناتے ہوئے میں کسی حد تک اس انداز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہوں ۔مگر وہ ہنر کہاں سے لاؤں جو ابا مرحوم کے پاس تھا۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔سلسلہ روز و شب۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۱۷۷)
ذوقی کے والد نہ صرف ان کے فن کو سراہتے تھے بلکہ اکثر ان کی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے ایک بار انھوں نے ذوقی سے کہا کہ بیٹا اگر ۲۴ سال کی عمر تک کوئی شاہکار نہیں لکھا تو کبھی نہیں لکھ پاؤگے ان کی یہ بات ذوقی نے گانٹھ باندھ لی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے محض ۱۷ سال کی عمر میں اپنا پہلا ناول ’عقاب کی آنکھیں‘ لکھ ڈالااور بیس سال تک وہ چار ناول تخیلق کرچکے تھے۔
ذوقی روسی ادیبوں سے بھی بہت متاثر نظر آتے ہیں انھیں بہت سے ادیبوں کو پڑھنے کا موقع ملا مثلاًالیگزینڈر،پشکن،نکولائی گوگول،فیودر دوستو فسکی،لیو تالستائے،میخائل چیخوف،وکٹر ہیوگو،ورجینا ولف،البیر کامو،میکسم گورکی اور ترگنیف وغیرہ دراصل ذوقی روسی ادب کے مدح ہیں اور یہ ادیب ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے اردو کے ادیبوں میںذوقی منٹو،قراۃالعین حیدر اور پریم چند سے بہت متاثر ہوئے۔ شعراء میں غالبؔ،اقبالؔ اور ذوقؔ کو اپنے دل کے بے حد قریب پاتے ہیں جگرؔ اور فراقؔ کی محبت بھری شاعری ان کے تاروں کو چھیڑتی ہے اس کے علاوہ ن۔م راشدؔ اور فیضؔ کے لہجے کی کھنک بھی انھیں متاثر کرتی ہے ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود ہے اور ذوقی بھی ان سب سے متاثر ہوکر ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی میں رمق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی بیدار کرتے ہوئے نظر آتے ہیںتاہم یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ذوقی کا اپنا اسلوب اور اپنا لہجہ ہے انھوں نے اپنے لئے ایک الگ راہ اپنائی اور آج بھی وہ ثابت قدمی کے ساتھ اسی راستے پر گامزن ہے۔
شادی:
مشرف عالم ذوقی کی شادی ۱۹۹۰ء میں تبسم فاطمہ کے ساتھ ہوئی۔ذوقی ان پر عاشق ہوئے اور تبسم فاطمہ نے بھی ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ہاں کردی۔پھر دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کرکے ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا ۔تبسم فاطمہ نہایت ہی صاف گو خاتون ہیںذوقی کی طرح وہ بھی کہانیاں لکھتی ہیں اور سیرئیل بھی پروڈیوس کرتی ہیں وہ ایک اچھی شاعرہ بھی ہیںانھوں نے ذوقی کے ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان کو بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا۔ایک زمانے میں ذوقی کی زندگی تنگی سے گزر رہی تھی صرف کچھ رسالے تھے جن میں وہ کہانیاں لکھتے تھے ان کی آمدنی بہت کم تھی اس وقت تبسم نے بھی کام کرنے کی خواہش ظاہر کی اسی درمیان ذوقی کو دور درشن کی طرف سے مواقع ملے اور ان کی آمدنی میں کچھ اضافہ ہوا۔چنانچہ ذوقی کی شریک حیات نے ان کی زندگی کے ہر پل میں چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ان کا ساتھ دیا ہے وہ ایک بیوی اور اچھے دوست کی طرح ہمیشہ ان کی ہمت افزائی کرنے کے لئے کھڑی رہتی ہیں اس طرح کہنا چاہئے کہ ذوقی کے کامیاب ادیب ہونے میں تبسم فاطمہ کا بھی بہت بڑا رول ہے وہ خود کہتے ہیں:
’’ ۱۹۹۰ء میں ہم شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔تبسم کا میری زندگی اور کہانیوں میں بہت بڑا رول رہا ہے مجھے بنانے اور نکھارنے میں تبسم کا عملی ہاتھ رہا ہے وہ آج بھی نہ صرف میری کہانیوں اور ناولوں کے مسودے کو دیکھتی ہیں بلکہ اشاعت تک کی ذمہ داری انھیں کی ہوتی ہے ہم میاں بیوی بعد میں پہلے اچھے دوست ہیں۔‘‘(ان باتوں کا اظہار ذوقی نے ایک انٹرویو کے دوران کیا)
ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’میری ادبی زندگی میں والد بزرگوار کے بعد سب سے بڑا رول میری شریک سفر کا ہے ۔میں کیا لکھ رہا ہوں ۔میری کتاب کا سرورق کیسا ہوگا ؟تبسم ان تمام امور پر نظر رکھتی ہیں ۔کچھ دن خاموش ہو جاؤں تو تبسم ٹوک دیتی ہیں ۔کچھ لکھ کیوں نہیں رہے ؟شاید تبسم کا ساتھ نہ ہوتا تو میں اتنا کچھ لکھ ہی نہیں پاتا۔۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔آب روان کبیر۔ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۴۰۷)
اولادیں:
مشرف عالم ذوقی کی دو اولادیں ہیںایک بیٹا اور ایک بیٹی۔بیٹے کا نام عکاشہ عالم ہے عکاشہ کو کھیل سے بہت لگاؤ ہے وہ کرکٹ کو پسند کرتا ہے اس کے علاوہ اس کو فلمی دنیا سے بھی خاصی دلچسپی ہے ۲۰۰۱ء میں ذوقی کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کو وہ پیار سے انعمتہ کہتے تھے مگر وہ دوسال اور کچھ مہینے ہی زندہ رہ سکی ۔ذوقی کو اپنی بیٹی کی موت سے گہرا صدمہ پہنچا وہ لکھتے ہیں۔
’’6 /مئی 2001کو ابی کا انتقال ہوا اور اس کے ٹھیک 16دنوں بعد میرے صدمے کو کم کرنے کے لئے میری بٹیا اس دنیا میں آگئی۔صحیفہ،انعمتہ۔دودو نام رکھے بٹیا کے۔۔۔۔
لگا،ابا کی واپسی ہوگئی ہے بٹیا میں۔۔۔
وہی چہرہ،وہی وظیفہ پڑھنے والی انگلیاں۔۔۔
چہرے پر کھلتی وہی مسکراہٹ۔۔۔
مگر یہ مسکراہٹ تو فریب ہے ۔وقت کا دھوکہ ہے۔۔۔
ابا پھر ایک بار لوٹ گئے۔
اللہ کی نعمتیں کام نہیں آئیں۔
6ْْ/جولائی 2003کی صبح بٹیا نے بھی رخصت سفر باندھ لیا ۔
/6مئی ابا گئے تھے۔
/6جولائی بٹیا۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔سلسلہ روز وشب۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۴۳۶)
سفر:
مشرف عالم ذوقی نے بہت زیادہ سفر نہیں کیا ہے کیونکہ ان کو سفر سے ڈر لگتا ہے مگر اس کے باوجود انھوں نے کئی ملکوں کا دورہ کیا ہے وہ پاکستان،جاپان اور دبئی جیسے ملکوں کا سفر کرچکے ہیں اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ملک کے کئی بڑے شہروں کا سفر بھی کیا ہے ان کا ماننا ہے کہ ایک اچھا فن پارہ لکھنے کے لئے صرف مشق،مطالعہ یا آئیڈیا لوجی کی ہی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے سیاحت اور سفر کرنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔
مزاج اور شخصیت:
مشرف عالم ذوقی سادہ طبیعت کے مالک ہیں ان کا مزاج بہت خاص ہے انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ناکامی کو جگہ نہیں دی ۔خاموشی ان کو پسند نہیں ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ گھر کے تمام افراد کو خوش رکھیں انہیں ہنسائیں۔ذوقی کا خیال ہے کہ ایک ادیب کو بہت بند ہوکر نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اگر وہ بندشوں میں رہ کر گھٹن بھری زندگی گزارے گا تو ظاہر ہے اس کا ادب بھی گھٹن بھرا ہوگا ۔ذوقی بہت ہی زندہ دل انسان ہیں وہ زندگی کے ہر لمحے کو پرجوش اور خوش اسلوبی سے جینے کے قائل ہیںیہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کو ہمیشہ خوشگوار انداز میں گزارتے ہیں ۔ذوقی سادہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑے شرمیلے بھی ہیں اپنے شرمیلے پن کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
’’شرمیلے ہونے کی ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں ۔۔۔مجھے لیٹرین یا پاخانے جانے میں شرم آتی ہے ۔۔۔۔۔مجھے گھر کے باہر لٹکے ہوئے ٹاٹ کے پردے کو دیکھ کر شرم آتی تھی۔۔۔۔۔مجھے مہمانوں سے شرم آتی تھی۔۔۔۔مجھے اسکول جانے میں شرم آتی تھی ۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔سلسلہ روز وشب۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۴۴۷۔۴۸)
ذوقی بچپن سے ہی بے حد حساس اور درد مند شخصیت کے مالک ہیں وہ زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بہت غورو فکر کرتے ہیںبچپن میں بھی دوپہر کی دھوپ اور گرم ہوا کی تپش سے وہ سوچ میں پڑ جاتے کہ ہوا اتنی گرم کیوں ہے اسی طرح کوّے کو چلاتے دیکھ کر وہ متعجب ہوجاتے تھے زندگی اور موت کے فلسفے پر ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ان کے حساس دل میں جذبوں کا ڈیرا تھا یہ جذبات ان کو اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے پریشان کرتے تھے ۔ذوقی کو جھوٹ بولنا ،کسی کو دھوکہ دینا اور کسی کی برائی کرنا بالکل نا پسند ہے ان کا ماننا ہے کہ اچھا ادب لکھنے کے لئے انسان کو پہلے خود کے لئے ایمان دار ہونا ضروری ہے انھوں نے اپنی زندگی ایمانداری سے گزاری اور اسی کووہ اپنی کامیابی کا راز بھی مانتے ہیں ایمانداری کے ساتھ ساتھ ذوقی کے اندر ایک طرح کا غصہ بھی نظر آتا ہے اور ان کا یہ غصہ عوام کے لئے ہے وہ کسی پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتے خاص کر مسلمانوں پر جو ظلم کیاجارہا ہے اس کو ذوقی برداشت نہیں کر پاتے اور ان کا یہ غصہ ان کے افسانوں اور ناولوں میں بھی نظر آتا ہے۔ذوقی کی شخصیت ذات پات اور مذہبی تعصب سے پاک ہے وہ نڈر ہیںان کی شخصیت کی طرح ان کی تخلیقات بھی بے باک ہیں وہ ایک سچے اور جذباتی انسان ہیں وہ انتہائی خوش مزاج،نیک سیرت،بلند خیال اور ذہین انسان ہیں ان کے پاس ایک حساس دل اور وسیع ذہن ہے جو نہ صرف اپنے گرد بلکہ دنیا کے ہر کونے میں واقع ہونے والی تبدیلی کو محسوس کرتا ہے ان کے دل میں انسانیت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے ان کی گفت و شنید کا طریقہ قابل داد ہے وہ جب بات کرتے ہیں تو سننے والا متاثر ہوجاتا ہے ۔
لباس:
لباس انسان کی زندگی کو نہ صرف سجاتا ہے بلکہ اس کی شخصیت میں ایک قسم کا نکھار پیدا کرتا ہے کسی بھی شخص کا لباس اس کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے وہ کیا پہنتا ہے کس طرح دکھتا ہے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔مشرف عالم ذوقی کا لباس معمول کی طرح موسم کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے گرمی کے دنوں میں وہ جینس پینٹ اور ٹی شرٹ پہنتے ہیں اس کے علاوہ ان کو کرتا پاجامہ پہننا بھی پسند ہے وہ عام طور پر چوڑی دار پاجامہ ہی پہنتے ہیں سردی کے دنوں میں وہ سوٹ پہنتے ہیں پینٹ کوٹ میں وہ اور بھی اچھے لگتے ہیں ۔ذوقی کا قد درمیانہ،رنگ گورا اور چہرہ پرکشش ہے ان کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔
عادات و اطوار:
مشرف عالم ذوقی صبح سویرے نماز سے فارغ ہوکر کچھ دیر چہل قدمی کرنے کے لئے باہر نکلتے ہیں پھر گھر آکر گرما گرم چائے پیتے ہیں اور اخبار پڑھتے ہیں اس کے بعد اپنے کام میں لگ جاتے ہیں جیسے دوردرشن جانا،کتابیں پڑھنا وغیرہ وہ لکھنے کا کام زیادہ تر رات کو ہی کرتے ہیں ان کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے اس کے علاوہ ان کو فلموں سے بھی دلچسپی ہے ۔ذوقی نہایت ہی ملنسار ہیں ان کو لوگوں سے ملنا جلنا بہت پسند ہے جب کوئی ان سے ملنے کے لئے ان کے گھر جاتا ہے تو وہ نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں دھیان سے بات سنتے ہیں اور سوالات کا تسلی بخش جواب دیتے ہیں چائے کے شوقین ہیں اس کے علاوہ سگریٹ نوشی بھی کرتے ہیںملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’سگریٹ اور چائے،ان دو بری عادتوں کا غلام ہوں۔محبت میری کمزوری ہے ۔نشہ ہے ۔لیکن یہ نشہ زیادہ تر میرے گھر کے لئے ہے۔میں ہر لمحہ محبت کی دنیا میں جیتا ہوں۔۔۔۔آج بھی تبسم کے لئے دنیا کے سب سے حسین رومانی مکالموں کو جنم دیتا ہوں۔۔۔۔پڑھنا میرے لئے نشہ ہے اور جنون بھی۔سفر مجھے تھکا دیتا ہے ۔نیچر مجھے حیران کرتا ہے ۔اور زندگی مجھے حسین لگتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔آب روان کبیر۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۴۰۷۔۸)
انعامات و اعزازات:
مشرف عالم ذوقی کو علمی و ادبی خدمات پر بہت سی ادبی انجمنوں اور اداروں کی طرف سے انعامات سے نوازا گیا ہے ذیل میں ان کے حاصل کردہ ایوارڈز اور اعزازات کی فہرست دی گئی ہے:
۱۔نیا سفر اردو کمیٹی کی طرف سے کرشن چندر ایوارڈ ۱۹۹۶ء
۲۔کتھا آج کل ایوارڈ ۱۹۹۷ء
۳۔دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا ایوارڈ ۱۹۹۹ء
۴۔جامعہ اردو علی گڑھ کا ملینیم ایوارڈ ۲۰۰۰ء
۵۔سرسید نیشنل ایوارڈ ۲۰۰۳ء
۶۔اردو اکادمی بیسٹ بک ایوارڈ ۲۰۰۵ء
۷۔دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ ۲۰۰۶ء
۸۔اردو اکیڈمی تخلیق نثر ایوارڈ ۲۰۰۷ء
۹۔انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن ایوارڈ ۲۰۰۷ء
تاہم ذوقی کا کہنا ہے کہ وہ انعام و اعزاز حاصل کرنے کی غرض سے قطعی نہیں لکھتے بلکہ لکھنا ان کی زندگی کا ایک مقصد ہے اور اس سے انھیں خوشی ملتی ہے ملاحظہ ہو :
’’میں پیدائشی ادیب ہوں۔ادب کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔انعام و اعزاز مجھے خوش نہیں کرتے ۔نہ اس بارے میں میں سوچتا ہوں اور نہ ہی مجھے ان کی ضرورت ہے ۔اس بازار میں کیا نہیں بکتا۔سچی خوشی ہمیشہ لکھنے سے ہوتی ہے ۔اور ہر نئی تخلیق پر بچوں کی طرح خوش ہوجاتا ہوں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔آب روان کبیر۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۴۰۶)
کوئی بھی سچا ادیب یہ نہیں سوچتا کہ مارکیٹ یا بازار میں کیا فروخت ہوتا ہے ان کا مقصد صرف لکھنا ہوتا ہے اور لکھنا ان کے لئے کوئی Productنہیں بلکہ زندگی ہے اور زندگی فروخت کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔۔میری ادبی زندگی کا ایک ایک صفحہ قارئین کے سامنے رہا ہے ۔میں صرف اتنا جانتا ہوں،ادب ایک ذمہ داری ہے ۔محض شوق نہیں ۔جو لوگ ادب کو شوق کی سطح پر لیتے ہیں وہ گم بھی ہوجاتے ہیں اور ایک دن دنیا انہیں بھول بھی جاتی ہے۔‘‘(تسنیم فاطمہ امروہی۔ذوقی:تخلیق اور مکالمہ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔ص۔۲۵۵)
مختصر یہ کہ مشرف عالم ذوقی کا شمار ۱۹۸۰ء کے بعد کے ادیبوں میں ہوتا ہے وہ بیک وقت ایک اچھے پروڈیوسر،ڈائریکٹر،صحافی،شاعر اور ایک بہترین فکشن نگار ہونے کے ساتھ ساتھ تنقید نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشرف عالم ذوقی کا نام اردو فکشن خصوصاًناول نگاری کے میدان میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ اپنے ناولوں میں بے باک انداز سے سماج اورسیاست کے چہرے سے دوغلے پن کا پردہ ہٹا کر سچی اور حقیقی تصویریں پیش کرتے رہتے ہیں ان دنوں وہ دہلی میں گیتا کالونی تاج انکلیو میں مقیم ہیں ان کا قلمی سفر آج بھی زور و شور سے جاری ہے ذوقی نے اپنے قلم سے اردو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں اور آئیندہ بھی ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
مشرف عالم ذوقی عصر حاضر کے ایک ممتاز و مشہور فکشن نگار ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔انھوں نے ریاست بہار کے ضلع آرہ میں ایک علمی و ادبی خاندان میں آنکھیں کھولیں۔بچپن میں گھر والے پیار سے انھیں ـ’منا‘بلایا کرتے۔ان کے والد مشکور عالم ایک تعلیم یافتہ ،مہذب اور عزت دار شخص تھے وہ محکمہ تعلیم میںڈپٹی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کے عہدہ پر فائز تھے اس کے علاوہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کی کوششوں سے گھر میں مشاعروں کا اہتمام کیا جاتااور اس طرح ذوقی نے ایک علمی و ادبی ماحول میں پرورش پائی یہیں سے ان کو ادب سے دوستی ہوگئی اور وہ مدہم آواز میں اشعار گنگنانے لگے اس کے علاوہ ادب خصوصاًناول اور افسانوں وغیرہ کا مطالعہ بھی شروع کردیاوالد کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے بزرگ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہے جو ان کے لئے کارآمد ثابت ہوا۔
ذوقی کا بچپن اپنے آبائی گاؤں میں ہی گزرا ۔وہ سنجیدہ اور کم شرارتی تھے عام بچوں کی طرح کھیل کود میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن ایک خاص بات کہ وہ ہر کھیل میں اپنے ساتھی بچوں سے ہار جایا کرتے تھے انھیں بہت برا لگتا تھا کیونکہ ہارنا ان کو پسند نہیں تھااس لئے وہ بار بار کھیلتے تھے لیکن پھر ہار جایا کرتے۔ان کے دماغ میں ایک Ideaآیا اور انھوں نے قلم سے کھیلنے کا ارادہ کیا اس طرح بچپن کے کھیل اورشرارتوں کو ترک کرتے ہوئے سات سال کی عمر میںہی انھوں نے اپنے ہاتھ میں قلم تھام لیا اور یہ عہد کرلیا کہ اب اس کھیل میں کبھی نہیں ہاروں گا ۔انھوں نے بچپن میں اپنے ہم عمر بچوں سے دوستی کرنے کے بجائے قلم کو اپنا دوست بنا لیا اور آج تک ان کی یہ دوستی قائم ودائم ہے۔ ذوقی کو چونکہ شروع سے ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اس لئے بچپن میں ہی یہ طے کرلیا تھا کہ وہ بڑے ہوکر کہانی کار بنیں گے اوران کی زندگی کا یہ مقصد پورا بھی ہوگیا۔
ذوقی کی ابتدائی تعلیم گھر سے ہی شروع ہوئی ان کی تعلیم کا آغاز قرآن شریف سے ہوا ۔اس کے بعد ایچ ۔پی۔بی جین اسکول سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پاس کئے۔مہاراجہ کالج سے بی۔اے اور پھر مگدھ یونیورسٹی سے ایم۔اے تاریخ میں کیا اردو کے ساتھ ساتھ وہ ہندی،انگریزی اور فارسی زبانوں کی بھی اچھی معلومات رکھتے ہیں۔مشرف عالم ذوقی نے ادب کی شروعات شاعری سے کی ۔وہ اکثر میرؔ،غالبؔاور ذوقؔ کے اشعار گنگنایا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں ان کو اپنے والد کی طرف سے ذوقی کا خطاب ملا ۔ابتداء میں انھوں نے بہت سی نظمیں لکھیں لیکن وہ ان کو شائع نہیں کروا پائے البتہ ان کی ایک طویل نثری نظم ’لیپروسی کیمپ‘۲۰۰۰ میں شائع ہوئی لیکن ان کو شاعری سے زیادہ فکشن میں دلچسپی تھی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز محض تیرہ سال کی عمر میں ’’لمحہ رشتوں کی صلیب‘‘کہانی سے کیا ۔ان کا پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ہے جو سترہ سال کی عمر میں لکھا گیایکے بعد دیگرے ذوقی کے افسانوی مجموعے اورناول منظر عام پر آتے گئے اور وہ شہرت کی بلندیوںپر چڑھتے گئے۔’’بھوکا ایتھوپیا‘‘،’’منڈی‘‘،’’غلام بخش‘‘،’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘،’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘،’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘اور’’نفرت کے دنوںمیں‘‘ان کے اب تک شائع شدہ افسانوی مجموعے ہیں۔ذوقی نے جو ناول لکھے ان میں ’’عقاب کی آنکھیں‘‘،’’شہر چپ ہے‘‘،’’لمحہ آئندہ‘‘،’’نیلام گھر‘‘،’’بیان‘‘،’’مسلمان‘‘،’’ذبح‘‘،’’پو کے مان کی دنیا‘‘،’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘،’’لے سانس بھی آہستہ‘‘،’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘،’’نالہ شب گیر‘‘،’’اردو‘‘،’’اڑنے دو ذرا‘‘،’’سب سازندے‘‘اور’’سرحدی جناح‘‘شامل ہیں۔انھوں نے ڈرامے بھی لکھے ہیں جن میں ’’گڈ بائے راج نیتی‘‘،’’چار ڈرامے‘‘،’’آخری بیان‘‘اور’’ایک سڑک ایودھیا تک‘‘شامل ہیںمیں نے اپنے مقالہ میں اس بات کا بھی ذکر کردیا ہے کہ ذوقی نے بحیثیت پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی کام کیا ہے انھوں نے جو سیریلس بنائے ان میں ’’ورق ورق چہرہ‘‘،’’ابروئے غزل‘‘،’’جوالہ مکھی‘‘،’’ملت‘‘،’’رنجشیں‘‘،’’نشیمن‘‘،’’دوسرا رخ‘‘،’’مذہب نہیں سکھاتا‘‘،’’مقصد‘‘،’’الجھن‘‘،’’عجیب داستاں ہے یہ‘‘،’’رات،چاند اور چور‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیںجن مشہور ٹیلی فلموں کے لئے ذوقی نے کام کیا ان میں ’’پربت‘‘،’’دکھاوا‘‘،’’انجام‘‘،’’بندش‘‘،’’اک نیا موڑ‘‘،’’نصبن‘‘،’’سورج کا سفر‘‘وغیرہ اہم ہیں۔اس کے علاوہ ذوقی نے چند ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں ’’باپو کے سپنوں کا شہر‘‘،’’سنگیت ناٹک اکیڈمی‘‘،’’نیشنل اسکول آ ف ڈرامہ ‘‘وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ماس میڈیا کے لئے انھوں نے ایک کتاب ’’ٹیلی اسکرپٹ‘‘کے نام سے لکھی جو ابھی زیر طبع ہے ۔تنقید کے حوالے سے ذوقی کی دو کتابیں’’آب روان کبیر‘‘اور’’سلسہ روز وشب‘‘شائع ہوچکی ہیںاس کے علاوہ صحافت کے لئے بھی انھوں نے بہت کام کیا ۔ماہنامہ’’یوک دارا‘‘اور’’اردو جگت‘‘کے لئے ذوقی نے بطور ایسسٹنٹ ایڈیٹر کام کیا مختلف اخبارات اور رسائل میں ذوقی کے مضامین لگاتار شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں سیاسی،سماجی اور عصری ماحول کے علاوہ ادبی نوعیت کے مضامین بھی شامل ہوتے ہیں۔
ذوقی نے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے ہجرت بھی کی ۔۱۹۸۵ء میں وہ اپنا گھر بار اور آرہ چھوڑ کر دہلی چلے گئے وہاں شروع شروع میں ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور بہت کم عرصہ میں اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہوئے۔دوردرشن سے وابستہ ہوئے اور اس وقت کے مشہور رسائل میں لکھنا شروع کیا پھر آہستہ آہستہ ترقی کے زینے چڑھتے گئے اور شہرت بھی ملنے لگی اس طرح وہ ایک عمدہ فکشن نگار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ذوقی اپنے والد کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو اپنا Idealبنا لیا اپنے ابا کے کہانی کہنے کا انداز ان کو بہت پسند تھا اس کے علاوہ روسی ادیبوں سے بھی وہ کافی متاثر نظر آتے ہیںچونکہ روسی ادب ان کے مطالعہ کا حصہ رہا یہی وجہ ہے کہ الیگزینڈر دوستوفسکی،لیو تالستائے،ورجینا ولف،میکسم گورکی وغیرہ ادیبوں کا اثر ان کے ادب میں دیکھنے کو ملتا ہے ان کی تخلیقات میں جو فلسفیانہ رنگ پایا جاتا ہے وہ روسی ادیبوں کی ہی دین ہے اس کے علاوہ اقبالؔاور غالبؔکی شاعری سے بھی ذوقی حد درجہ متاثر ہیں تاہم یہ بھی درست ہے کہ انھوں نے ادبی مقصد کے لئے اپنے لئے ایک الگ راستہ چنا وہ کسی کے دباؤ میں آکر نہیں لکھتے بلکہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا تحریری پیرایہ میں اظہار کرتے ہیں اور وہ آج بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...