یہ بات تشت از بام ہے کہ شاعرہو یا ادیب، حسّاس طبعِ کا مالک ہوتاہے۔ اپنی اسی خصوصیت کو محور بنا کر اپنی فکرِحمیدہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تخلیقات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر اپنے تخیلات کا اظہار کرتاہے۔ پھر وہ حسّاسیت کی اُس انتہا تک جانے کی کوشش کرتاہے کہ جہاں معاشرے کے ہر کرب کو محسوس کرے، اس سے حاصل ہونے والے احساسات کا اظہار ہی نہ کرے بلکہ مداوا بھی پیش کرے۔ اچھا تخلیق کار وہ تصور کیا جاتاہے جس کی فکر اپنے گرد وپیش کا بھی بھرپور جائزہ لے سکے۔ اگر ہم جناب حیدر قریشی کی مرتب ومدون کردہ کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کریں تو ہمیں حیدر قریشی کی کاوشات کے ذریعے مبارکہ کی ازدواجی زندگی، اُن کے اخلاق وکردار اور اپنے بچوںکے ساتھ سلوک سے آگاہی ملتی ہے۔ حیدر قریشی کی کاوشات اشعار کی صورت میں ہوں یا نثر کا روپ دھارے ہوئے ہوں، وہ بھی سامنے آتی ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شریکِ سفر محترمہ مبارکہ بیگم کے سلیقۂ زیست کو اس خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر دَور کی رفاقت نے انھیں عظیم سے عظیم تر بنا دیا ہے۔
حیدر قریشی سے مبارکہ کی شادی کم عمری میں ہوئی اور کم عمری کی شادی میں کچھ مسائل بھی سر اُٹھاتے ہیں۔ یہاں مَیں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ مشرقی عورت کی تربیت جن خطوط پر ہوتی ہے شوہر اس کے لیے مجازی خدا کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے سامنے کم عمری کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اللہ رب العزت، حضور ِاکرم ﷺ اور قرآن مجید کا فرمان اس کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کم عمری اور مشرقی تہذیب کا فیض ہے کہ حیدر قریشی اس بات کے معترف ہیںکہ ’’مبارکہ نے میری زندگی کے تنگ دستی اور مشکلات کے طویل دَور کو خوش دلی کے ساتھ نہ صرف برداشت کیا بلکہ ہر قدم پر خندہ پیشانی سے میرا ساتھ دیا۔ کبھی مَیں حالات کے سامنے تھک کے بیٹھ جاتا تھا تو وہ میری ہمت بڑھاتی تھیں بلکہ میری طاقت بن جاتی تھیں۔ میرے مکان کو اُنھوں نے اپنے حسنِ انتظام واہتمام وانصرام سے گھر بنائے رکھا اور جنت مثل سجائے رکھا۔‘‘
حیدر قریشی کی اس سوچ نے ان کی ازدواجی زندگی کے ۴۸ سال خوش گوار بنا دیے۔ دوسری طرف ماں کی گود بچوں کے لیے پہلی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے۔ پرورش کا پہلا گہوارہ ماں کی گود ہی کہلاتی ہے جس کا ثبوت شعیب حیدر کی مرتب کردہ کتاب ’’ہماری امی جان مبارکہ بیگم‘‘ ہے (جو پانچوں بچوں شعیب حیدر، عثمان حیدر، طارق محمود حیدر، درِ ثمین انور اور رضوانہ کوثر کی مشترکہ کاوش ہے۔)، اس میں اصلاحی اور قابلِ تقلید پہلو نسلِ نوع کے لیے پیغام ہے کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب وہ بقیدِ حیات تھیں یعنی ان کی زندگی میں، ان کی آنکھوں کے سامنے مرتب کی گئی ۔یہ عمل کسی مُردہ پرست قوم کے لیبل کو دُور کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔
کتاب’’ہماری امی جان مبارکہ حیدر‘‘ میں اُن کے تمام بچوں کی کاوشات، یادیں اور محبتیں شامل ہیں۔ حیدر قریشی کی مبارکہ کی نسبت سے جو داستانیں ہیں اُن میں اظہارمحبت کی کہانی بھی ہے اور جذبۂ خلوص کی روانی بھی۔ اعترافِ سلیقہ شعاری بھی ہے اور ایثار واستقلال اور حوصلہ مندی کے تذکرے بھی۔ اُن کی جانب سے برملا اظہارہے کہ اُن کی شخصیت کے نکھار میں، اُن کی تحریروں کی چاشنی میں اور مشکل حالات سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ دینے، دکھ درد میں شریک ہونے کا پاس انھیں مبارکہ ہی سے ملاہے۔
بالفاظِ دیگر حیدر قریشی یہ کہتے ہوئے بھی نظر آتے ہیںکہ ان کی کام یابیو ں کے پیچھے بھی ایک عورت یعنی ’’مبارکہ‘‘ کا ہاتھ ہے۔ حیدر قریشی کی اکثر تحریروں اور تخلیقات میں اُن کی شریکِ حیات کا بھرپور ذکر ملتا ہے جسے شعیب حیدر نے ہائی لائٹ کیا ہے اور اپنی امی کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ شعیب حیدر کا یہ کارنامہ قابلِ تحسین ہے کہ اُنھوں نے اپنی امی کی زندگی میں اُنھیں صلہ وستائش سے نوازا جو اُن کا حق تھا۔
حیدر قریشی حساس ہونے کے ساتھ ساتھ ضمیر کی آواز سننے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اس کے اظہار میں بھی انھوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیںرکھی۔ ایک باہمت انسان کی طرح ہر کرب سے گزرے ہیں اور جن کیفیات کو اور جس طرح اُنھوں نے قلم بند کیا ہے، ان کے حوصلے کو داد دینا پڑتی ہے۔ خود دل کے مریض ’’مبارکہ‘‘ بسترِ مرگ پر، ایک ایک واردات کو تسلسل اور جُزئیات کے ساتھ بیان کرنا بڑے جگرے کا کام ہے۔
کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ میں ڈاکٹر انورسدید، سیّد نصرت بخاری، عظیم انصاری، نسیم انجم، ڈاکٹر قمرالنسا، خالد یزدانی، حمیراحیات، فیصل عظیم، شاہد ماہلی، طاہر عدیم، عبداللہ جاوید، شہناز خانم عابدی اورڈاکٹر ریاض اکبر جیسے معروف اہلِ قلم کی آراء شامل ہیں۔
حیدر قریشی کے ذہن میں تخلیق کا گونجتا شور اِس طرح صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتا رہاہے:
ہم نے ترے غم میں کوئی مالا نہیں پہنی
سینہ ہی دمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے
٭
نہیں، ہم نہیں روئے تھے
چاند کی کرنوں میں
کچھ موتی پروئے تھے
٭
پھول تھا وہ تو مَیں خوشبو بن کے اُس میں جذب تھا
وہ بنا خو شبو تو مَیں بادِ صبا ہوتا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...