” حیات بیٹے……..
جیک کہاں ہے؟ کہیں بھی وہ نظر نہیں آرہا۔ شفق بیگم اپنے کمرے سے نکل کر حیات کی طرف بڑھا رہی تھی۔ حیات جو کے پانی پی کر چکن سے باہر آرہی رہی تھی۔ کہ شفق بیگم نے اسے آواز دے کر روکا۔۔۔
” وہ تو باہر گاڑی صاف کر رہا ہے ۔ حیات نے رک کر انہیں جواب دیا۔۔۔ اور پھر اس نے اوپر اپنے والے دروازے کیطرف جھانکا کہ کوئی کھڑا تو نہیں۔۔۔۔
” کیونکہ آیت کو حیات سے کچھ کام تھا۔۔۔ وہ حیات کا کافی دیر سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ اور حیات کو اپنے کاموں سے فرصت ہی نہیں مل رہی تھی کہ وہ جاکر آیت کی بات سن لے۔۔۔
” اب یہاں کھڑی کیا سوچ رہی ہو؟
جاؤ اور جاکر بلاؤ اُسے۔ شفق بیگم نے اسے باہر لان کیطرف حیات کو اشارہ کیا۔۔۔۔
” اگر وہ تمہارے کہنے پے۔ تمہارے ساتھ نہ آئے۔ تو اسے کہہ دینا۔ کہ ماما نے سختی سے کہا ہے کہ ابھی آؤ ۔ شفق بیگم انہماک سے حیات کو دیکھ رہیں تھیں۔
” آپ جائیں میں اُسے بولا کر لیتی ہوں۔۔۔ حیات نے سادگی سے کہا۔۔ اور وہ لان کیطرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اور کتنا ٹائم لگے گا تمہیں یہاں؟ حیات باہر جیک کے پاس آئی۔ دونوں ہاتھ کمرے پہ رکھے وہ جیک کو پوچھ رہی تھی۔
” ابھی تو مجھے یہاں تھوڑا ٹائم لگ جائے گا۔۔۔ جیک نے سرسری نگاہ حیات پہ ڈالی۔۔۔
” ویسے کیا ہوا؟ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
جیک نے سر اٹھا کر بڑے تجسس سے اس کیطرف دیکھا۔۔
” میں نے تو کچھ نہیں کہنا ہے ۔لیکن ماما نے سختی سے کہا ہے۔ کہ اُسے کہو کہ وہ ابھی میرے کمرے میں آئے۔۔۔۔ حیات نے اکتاہٹ بھرے انداز سے آنکھیں گھما کر کہا۔۔۔ اور پاس پڑی کرسی کھینچ کر اٌس پہ بیٹھ گئ۔۔۔۔
” گھر کے اندر جانے کا جیسے اس کا دل ہی نہ کر رہا ہو۔۔۔۔۔۔ حالانکہ باہر دھوپ بھی بہت تھی۔۔
” اچھا ویسے کون کون ماما کے کمرے میں ہے؟ جیک نے کپڑا اٹھا کر گاڑی کا شیشہ صاف کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔
” ممانی اور سجل دونوں ہیں ۔ منہ بسورتی حیات نے جواب دیا۔۔۔۔
” پھر تو میں بلکل بھی نہیں جاؤں گا۔
جیک غصے نے پاس پڑی کرسی کو زور سے ٹانگ مار کر کہا۔۔۔۔۔
” آرام سے بھائی۔ کیا ہوگیا ہے۔۔ وہ حیرت سے جیک کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
” حیات کی اچانک نظر اپنے کمرے کی کھڑکی پہ پڑی جہاں آیت کھڑی حیات کو اشاروں کر رہی تھی۔۔۔۔
” آرہی ہوں ہونٹوں کو ہلاتے ہوئے حیات نے آیت کو ہاتھ کا اشارہ دے کر کہا ۔۔۔۔
” خالہ کہاں ہے؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد جیک نے اس سے پوچھا۔۔۔۔
” وہ سو رہیں ہیں۔ زیادہ دھوپ کی وجہ سے حیات نے ایک آنکھ بند کر کہ جیک کیطرف دیکھتے ہوئے بتایا ۔۔۔
” اس ٹائم؟ جیک نے حیران ہوکر بولا۔
اُسے یہ بات کچھ عجیب لگی۔
” ہاں اس ٹائم ہی۔
کیونکہ ان کی طبیت ٹھیک نہیں ہے۔
اِس لیۓ وہ اس وقت سو رہیں ہیں۔ متاسفانہ انداز میں حیات نے بتایا۔
” کیوں کیا ہوا انہیں؟ جیک نے چونک کر حیات کیطرف دیکھا۔
” تمہیں پتہ تو ہے۔۔اکثر انکا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے۔ آج انکا بلڈ پریشر ہائی ہے وہ بھی صبح سے۔۔۔۔ جیک کو حیرت کا جھٹکا لگا
” کہ خالہ کی طبیعت صبح سے ٹھیک نہیں اور اس نے جا کر پوچھا تک نہیں۔۔۔۔ کیونکہ فردوس بیگم جیک سے جلدی خفا ہو جاتیں تھیں۔۔۔۔
” اب تو وہ میڈیسن لے کے سو گئیں ہیں۔۔۔
حیات نے جیک کی پریشانی کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے پٌر سکون لہجے سے کہا۔۔۔۔
” تو تم ڈاکٹر کو فون کر کے گھر بولا لیتی۔ جیک نے فکر مند لہجے میں کہا۔۔۔
اور خود بھی حیات کے پاس جاکر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
” ہاں میں نے کہا تھا خالہ سے، کہ میں ڈاکٹر کو فون کر کے بولا لیتی ہوں۔ مگر انہوں نے خود کہا کے اِس کی ضرورت نہیں ہے۔
” انہوں نے کہا! میں نے جو دوائی لی ہے۔ اُس سے میری طبعیت ٹھیک ہو جائے گی ۔ وضاحتی انداز اپناتے ہوئے حیات نے بتایا ۔۔
” ویسے آیت نے خالہ کو دوائی دی ہے۔ حیات گاڑی کے شیشے میں اپنے بال سنوارنے لگ گئی۔۔۔
” چلو ٹھیک ہے جاؤ تم۔ یہاں پہلے ہی کافی گرمی ہورہی ہے اور دھوپ بھی بہت ہی زیادہ ہے۔ جیک نے حیات کو جانے کا کہا۔۔۔۔
” کیوں تم ساتھ نہیں چل رہے ہو کیا؟ نفی میں سر ہلاتے ہوئے حیات نے مڑ کر جیک سے پوچھا۔۔۔
” نہیں! میں نہیں جا رہا تمہارے ساتھ۔ جیک منہ بسورے غصے سے بولا۔۔۔
” جیک کو اس وقت بہت غصہ آرہا تھا۔۔۔
سجل اور اس کی ماں پہ، کہ ان دونوں نے کتنی چالاکی سے شفق بیگم کو اپنی طرف کھینچ رکھا تھا۔
” لیکن ماما نے تو کہا تھا اسے اپنی ساتھ لے کر ہی آنا ۔۔ حیات وہیں کھڑی رہی۔ تاکہ جیک اس کے ساتھ ہی جائے۔
جیک نے کڑی نظر سے اس کیطرف دیکھا۔۔۔
” میں نہیں آرہا۔ جاکر کہہ دو انہیں ۔۔۔ گھورتے ہوئے جیک نے اسے کہا۔۔۔۔
” انکو پتہ تھا کے میں نہیں آؤں گا۔ اس لیئے تو انہوں نے تمہیں ایسا کہہ کر بھیجا ہے۔ جیک اپنے کام میں دوباہ مصروف ہوگیا۔۔۔
” ہاں تو؟ حیات منہ بناتے ہوئے بولی۔
” کچھ نہیں وہاں سجل اور ممانی دونوں ہیں۔ جیک نے حیات کی بات کٹتے ہوئے کہا۔۔۔
” مجھے نہیں جانا وہاں ۔۔ جیک نے دھیمی آواز میں کہا۔
ممانی نے پھر سے کوئی، نہ کوئی حکم چلانا شروع کر دینا ہے۔۔ جس سے مجھے سخت نفرت ہے۔۔ جیک حیات سے باتیں بھی کر رہا تھا۔۔اور ساتھ ساتھ اپنا کام بھی کر رہا تھا۔۔
” اچھا کیا بنایا ہے ابھی کھانے میں؟ نرم لہجے سے جیک نے اس سے پوچھا۔۔۔
ابھی تو فلحال کچھ نہیں بنایا۔ آگر تمہیں بھوک لگی ہے۔ تو میں کچھ بنا دیتی ہوں۔۔
خوشگوار انداز سے حیات نے کہا۔۔۔
” ہاں یار ! بھوک تو بہت لگی ہے۔
ٹھیک ہے تم ایک کام کرو۔ چائے کے ساتھ انڈے کے سینڈوچ بنا لو۔۔۔ جیک نے ہونٹوں پہ زبان پھرتے ہوئے کہا۔۔۔
” لیکن ابھی تو چار نہیں بجے۔ حیات نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
” تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ بولی۔۔۔
تمہاری چائے کا تو ابھی ٹائم نہیں ہوا ہے۔ وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔۔
” ہاں ابھی ٹائم نہیں ہوا جنتا ہوں ۔ اس نے جیسے اس کی بات کو انجوائے کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔
” لیکن ابھی مجھے یہاں ٹائم لگے گا۔
پھر میں فریش ہوکر چاہے پیوں گا۔ انہماک سے حیات اسے دیکھ رہی تھی۔
” جیک جو پہلے حیات سے اتنی بات نہیں کرتا تھا۔۔۔ وہ اتنے ٹائم سے اس سے باتیں کر رہا تھا۔۔ حیات کو یہ بات کچھ عجیب محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔ لیکن وہ بہت خوش بھی تھی۔جیک کے اس برتاؤ پہ۔۔۔
” جیک کی یہ باتیں اس کیلئے حیرت انگیز تھیں۔۔۔۔
اس نے سوچا کہ جیک سے یہ پوچھ ہی لے۔۔ مگر اسے ابھی جیک کیلئے سینڈوچ بنانے تھے اسے دیر ہو رہی تھی۔ جس کی وجہ سے حیات نے جیک کو پوچھا نہیں تھا۔۔
” اور ماما کو میں کیا جواب دونگی اب؟؟ اکتاہٹ بھرے انداز میں حیات نے اس سے پوچھا۔۔۔۔
” ان سے کہو کہ وہ کہہ رہا ہے۔
کے میں گاڑی صاف کر کے آؤ گا۔۔۔ انتہائی افسردگی سے جیک نے کہا۔۔۔۔
” کیونکہ جیک اب اپنی ممانی کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور ہی سجل کا۔۔۔۔۔ حالانکہ سجل اٌسے سجل کی کہیں بھی کوئی غلطی نظر نہیں آرہی تھی۔۔ مگر اسکی ماں کی وجہ سے جیک کو سجل سے بھی اب آہستہ آہستہ چڑ ہونے لگی تھی۔۔
” حیات ہال میں جیسے ہی داخل ہوئی۔ اچانک اسے خیال کچھ یاد آیا۔ وہ واپس لان میں باہر جیک کے پاس آئی۔۔۔
” سنو جیک !
حیات آواز سن کر جیک سر اٹھا کر اس کیطرف دیکھا۔۔
” صبح سے اوپر والے فلور کی لائٹ نہیں ہے۔۔۔
سب گرمی میں ایسے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔
جاکر چیک کرو کیا مسئلہ ہے۔ حیات عجیب انداز میں جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جیک بڑے تحمل سے اس کی بات سن رہا تھا۔
” اچھا ٹھیک ہے میں بعد میں چیک کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
پہلے یہاں سے تو فارغ جاؤں ۔۔۔۔ ہلکی سی مسکراہٹ سے جیک نے کہا۔۔۔۔
” جیک نے اسے ہاں کہہ دیا تھا۔
حیات سوچوں میں ڈوبی پڑی تھی۔۔۔ کہ جیک میں اتنا بدلاؤ کیسا آسکتا ہے۔۔۔ وہ سوچوں میں گم کچن کیطرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔
—————————— ————————–
” ایک گھنٹے کے بعد جیک فریش ہوکر کچن کیطرف ابھی بڑھ ہی رہا تھا کہ حیات سامنے سے چائے کی ٹرے ہاتھ میں لیے جیک کے کمرے کیطرف آرہی تھی۔۔۔۔۔
” اب تم کہاں جا رہے ہو۔ سامنے اپنی طرف آتے جیک کو دیکھ حیات نے اسے روک کر پوچھا۔۔۔۔۔
” میں کچن میں تمہارے پاس ہی آرہا تھا۔ جیک ہلکا سا مسکرایا۔۔
” میں نے سوچا پتا نہیں اور کتنا ٹائم لگے گا۔۔ میں خود جاکر دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔ طنزیہ انداز اپناتے ہوئے جیک بولا۔
” اب چلیں؟ یا کھڑے ہوکر یہاں طنز کرتے رہو گے۔ آنکھیں گھما کر ٹرے ہاتھ میں لیے وہ جیک کے کمرے میں چلی گئی۔۔جیک؛؛؛ حیات کی اس حرکت پہ مسکراتا ہوا اس کے پیچھے کمرے میں گیا۔۔۔۔۔۔
” جیک اور حیات کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ایک گھنٹے کی بات چیت کے بعد جیک سو گیا۔۔۔۔۔
” شام کو اٹھ کر وہ منہ دھو رہا تھا۔۔۔ کہ اچانک اسے یاد آیا۔۔۔ کہ حیات نے اسے ایک کام سونپا تھا۔۔۔۔ اسے اپنی غیر زمےداری پہ پھتاوا ہورہا تھا اس بہت افسوس بھی۔ کہ کتنی گرمی میں سب صبح سے بغیر لائٹ کے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
——————————- ——————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” آیت اوپر والے فلور میں حیات کے کمرے میں اسٹول پے کھڑی دروازہ کا پرودا چینج کر رہی تھی۔
” ٹیبل مسلسل لڑکھڑا رہا تھا۔۔ آیت اس بات اچھی طرح سے واقف تھی کہ اس کی معمولی سی غلطی کسی نقصان کا باعث بن سکتی تھی ۔۔۔۔ دل میں نیچے گر جانے کا خوف بھی تھا۔۔۔۔
” مگر وہ پھر بھی اپنی فکر کی پروا کیے بغیر، اپنے کام میں مگن تھی۔
اور بغیر کسی حادثے کی فکر کیے بنا وہ اپنے کام میں لگی پڑی تھی ۔۔۔۔
” بالکونی کا دروازہ کافی اونچا تھا۔
جیک اوپر فلور کیطرف چھوٹے چھوٹے قدم بڑھا رہا تھا۔۔۔
” سیھڑیوں کو اوپر آتے ہی پہلے کمرا حیات کا تھا۔ جس میں اس وقت آیت موجود تھی۔۔۔۔۔
” جیک کمرے کے پاس سے جیسے ہی گزرا،، اسے ہلکی سی سنسناہٹ محسوس ہوئی۔۔
” اس نے سوچا حیات تو نیچے ہے۔ پھر کمرے میں کون ہے؟۔ بس اسی سوال کا جواب لینے وہ واپس پیچھے کیطرف مڑا اور کھڑی کیطرف آیا۔
” کھڑکی میں جھانک کر اس نے دیکھا تو سامنے آیت بالکونی کا پردا چینج کر رہی تھی۔۔۔
” کمرے کا دروازا آدھا کھولا تھا۔۔۔۔
” وہ دھبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ سامنے اُسے ایک اسٹول پہ آیت کھڑی دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔
” جیک فوراً شرات کے موڈ میں آگیا….. اسکو پتہ تھا آیت اپنا کام بڑی لگن سے کر رہی ہے۔۔۔
” وہ مسرور آیت کو دیکھ رہا تھا۔
اچانک آیت کی نظر دائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پہ پڑی ۔۔
” جیک دروازے کے پاس والی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا ، اپنے دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے بڑی محبت سے آیت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” اسٹول پہلے سے ہی کافف لڑکھڑا رہا تھا۔
” آیت نے جیسے پیچھے موڑ کے دیکھا۔۔۔ آیت نیچے گرنے کو تھی۔ کہ جیک نے دوڑ کر آیت کو جا تھما۔۔
” آیت چلاتی ہوئی جیک کی باہوں میں جا گری۔۔
” جیک نے آیت کو گرنے سے بچا لیا تھا۔
” جیک محبت بھری نگاہوں سے آیت کو تھامے دیکھ رہا تھا۔۔۔
” اور آیت کا ایک ہاتھ جیک کے کندھے پے تھا۔ ایک لمحے کے لیئے آیت بھی جیک کی آنکھوں میں دیکھ کر پگھل گئی تھی ۔
” وہ جیک کی آنکھوں میں اپنا پیار دیکھ کر بٹک گئ تھی ۔۔ آیت کے دل کی دھڑکنوں نے ابھی رقص شروع ہی کیا تھا کہ ۔ دروازے پہ کسی کی دستک ہوئی۔
” کیا میں اندر آسکتی ہوں؟
عائشہ نے ہلکا سا دوازہ کھٹکھٹاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔
” دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ہٹیں۔
” جیک نے فوراً آیت اپنے ہاتھوں سے آزاد کیا۔۔
” آیت شرماتی ہوئی پیچھے ہٹی۔۔
” جیک نے غصّے سے عائشہ کو اشارہ کیا۔ کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے۔
” جیک غراتے ہوئے اسٹول اٹھا کر سائیڈ پہ رکھ کر بالکونی میں کھڑا ہوگیا۔۔۔
” آپ کب آئیں؟ آیت نے جلدی سے اپنا دوپٹہ فرش سے اٹھایا۔۔۔۔ اور جیک سے نظریں چراتے ہوئے۔ اپنا رخ بدل کر عائشہ کیطرف کیا۔۔۔۔ جیک بلکل سامنے ہی تھا۔۔
” میں بس ابھی ہی آئیں ہوں۔۔۔۔ عائشہ نے مخصوص انداز میں کہا۔۔۔۔
” آیت خاموش ایک سائیڈ پہ کھڑی پریشان دیکھائی دے رہی تھی۔
” تم ڈرو نہیں میں نے کچھ نہیں دیکھا۔۔
عائشہ نے آیت کا ڈرا ہوا چہرہ دیکھ کر ایسا مطمئن کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” آیت کو عائشہ کی اس بات پہ تھوڑا سا اطمینان ہوا۔۔
نہیں آپی وہ بات نہیں جیسا آپ سمجھ رہیں ہیں۔۔۔ آیت نے مصومانہ انداز میں کہا۔۔۔
” عائشہ نے جیک کو بالکونی میں کھڑا دیکھ کر الماری سے اپنے کپڑے نکالے، اور تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔
” کیونکہ عائشہ کو اس بات کا علم ہورہا تھا جیک نے آیت سے کوئی بات کرنی ہے جس کی وجہ سے وہ اس کو دیکھ کر غصے سے بالکونی میں کھڑا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ عائشہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
” جیک نے ایک سرسری نظر کمرے میں ڈالی۔ کہ عائشہ ابھی بھی کمرے میں موجود ہے کہ نہیں۔۔۔
” جیک کو جب کمرے میں عائشہ نہ دیکھائی دی۔ وہ فوراً کمرے میں آیا۔۔۔
” کہاں جارہی ہو؟ جیک نے غصے سے آیت کا بازو پکڑا۔۔
نیچے جارہی ہوں.
” آپکو کیا؟ میں کہیں بھی جاؤں۔۔۔
آیت درشت آواز میں بولی۔۔
” غیر ارادی طور پر جیک نے اسے تھوڑا قریب کیا۔۔۔ وہ گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔
” اگر تم گر جاتی تو؟ جیک اپنے غصے کا اظہار کیا۔۔ جیک کو آیت کی یہ
نادانی بلکل پسند نہ آئی تھی۔۔
” اگر جاتی تو گر جاتی۔ آپکو فکر کرنے کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
آیت اندر ہی اندر سسک رہی تھی۔۔
” جیک نے آیت پہ اس دفع زیادہ زبردستی نہیں کی تھی۔۔
مگر آیت جیک کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔
—————————– —————————-
” رات گیارہ بجے۔
” شفق بیگم جیک کے کمرے میں گئیں۔ لیکن جیک وہاں موجود نہیں تھا۔
” وہ واپس ہال میں آکر بیٹھ گئیں۔ اور جیک کا انتظار کرنے لگیں۔۔۔۔ اس وقت سب حسبِ معمول اپنے، اپنے روم میں جاچکے تھے۔
” مگر جیک اپنے کمرے میں نہیں تھا۔۔ اس بات سے شفق بیگم کو حیرانگی بھی ہوئی۔ اور پریشانی بھی انہیں ہونے لگیں۔۔۔
” اسلام علیکم!!
سلام کر کہ جیک موبائل پہ نظریں جمائے بڑی سنجیدگی سے ، سیدھا اپنے کمرے کیطرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔
” رکو! اتنی لایٹ کیوں آئے ہو؟ شفق بیگم نے جیک کو روکا کر پوچھا ۔
جیک نے وہیں رک کر، جہاں وہ کھڑا تھا ان کو جواب دیا۔۔۔
” شفق بیگم سوچ میں پڑ گئی۔ کہ پہلے تو جیک نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔۔۔ لیکن ان کو جیک کا رویہ کچھ عجیب سا لگا تھا۔۔۔
” کیونکہ اب جیک ہر بات میں آپ اپنی مان مانی کرنے لگا ہے۔۔۔۔ وہ شفق بیگم کی ہر بات کو دن بہ دن نظر انداز کرنے لگا تھا۔۔۔
” دوستوں کیساتھ تھا بس اسی لیے دیر ہوگئی ہے۔۔۔ یہ کہہ کر کمرے میں غصے سے چلا گیا۔۔۔
” شفق بیگم بھی اسی وقت غصے سے جیک کے پیچھے اس کے کمرے میں گئیں ۔۔۔
” جیک تھکا ہارا گھر لوٹ کر واپس آیا تھا۔ وہ جوتے اتارے بغیر ایسے ہی بیڈ پہ لیٹ گیا تھا۔۔۔ پیشانی پہ ہاتھ رکھے وہ خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔۔۔۔
” اس نے کمرے کی لائٹ اوف تک نہیں کی تھی۔۔۔۔ جب کے جیک کو لائٹ آن میں کبھی بھی نیند نہیں آتی تھی۔ جیک کی دونوں آنکھیں اس وقت نم تھیں۔۔۔۔”
” تم نے ٹھیک سے میری کسی بات کا جواب نہیں دیا اس لیئے مجھے تمہارے کمرے میں آنا پڑا۔۔ شفق بیگم نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔”
” جیک نے ایک آنکھ سے بازو ہٹا کر ان کیطرف دیکھا۔۔۔۔
پرسو تمہاری انگیجمینٹ ہے۔
تم کوئی ایسا کوئی کام نہیں کرو گے جس سے میری عزت پے کوئی آنچ آئے۔۔ شفق بیگم محتاط انداز میں بولیں۔۔”
” شفق بیگم نے کڑے انداز میں جیک کیطرف دیکھا اور اپنا حکم صادر کیا۔ جیک بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگا۔۔۔۔ ”
” جیک نے جلدی سے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپایا۔۔۔۔ اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔
وہ چپ چاپ ان کی باتیں سن رہا تھا۔۔
مگر وہ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔۔
” وہ اس وقت جہاں سے ہوکر آیا تھا۔۔ وہ بلکل ٹوٹ چکا تھا۔۔۔
وہ اس وقت اپنی زمہ داریوں پہ غور کر رہا تھا۔۔۔
” میں تم سے بات کر رہیں ہوں۔ ان دیواروں سے نہیں۔ پھر بھی جیک چپ رہا۔ نجانے کونسی فکر جیک کو اندر ہی اندر کھائے جارہیں تھیں ۔۔۔۔
” وہ تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بلکل گم سم بیٹھا تھا۔۔۔ ایسے کہ،،،جیسے اسے کچھ سنائی ہی نہ دے رہا ہو۔۔۔۔ اس وقت جیک کے دل میں درد کی لہریں اٹھ رہیں تھیں ۔۔
” مگر وہ چپ رہا۔ اس نے اب کی دفعہ کوئی شکوہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔ وہ بلکل سنجیدہ تھا۔۔۔
” لیکن شفق بیگم کو جیک کی اس حرکت پہ غصہ آرہا تھا۔۔۔ کہ وہ کچھ بول کیوں نہیں رہا۔
” دوسری طرف ان کو حیرت بھی ہو رہی تھی۔۔ کہ پیچھلے کئی دنوں سے جیک ان سے اتنی بحث کر رہا تھا۔۔
مگر وہ اتنا سنجیدہ کیوں ہے۔۔۔
یہ فکر بھی شفق بیگم کو پریشان کر رہی تھی۔۔۔
” سُن رہا ہُوں آپ بولیں۔۔۔ متاسفانہ انداز میں جیک نے ٹوٹے ہوئے لہجے سے کہا۔۔۔۔ شفق بیگم کے ذہن میں کئ عجیب سوال رونما ہو رہے تھے۔۔۔۔ وہ اسکے اس رویے سے گھائل ہوتی جارہی تھیں۔۔۔
” اِدھر میری طرف دیکھو۔۔ شفق بیگم نے بڑی اپنائیت سے کہا۔۔۔
” ابھی تک ناراض ہو؟
میں کچھ پوچھ رہیں ہوں بیٹا۔۔۔ تم بول کیوں نہیں رہے۔۔۔ شفق بیگم نے دھیما لہجہ اختیار کیا۔۔۔
” جب آپکو پتا ہے، تو پھر آپ کیوں پوچھ رہیں ہیں؟ جیک نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔۔۔ جیک کا دل شفق بیگم کے اتنے سوالوں سے بیزار ہو رہا تھا۔۔۔
” میں نے آج تک آپکی کوئی بات رد کی ہے؟ تو پھر اتنے سوال کس لیے؟ جیک نے سوالیہ نظروں سے انکو دیکھا۔۔۔
” نہیں میں تو بہت ہی خوش ہوں۔ جیک نے زخمی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔
” ہاں جانتی ہوں؛ لیکن پھر تمہیں سمجھنے آئی تھی۔ جیک نے غصے سے سر ہلایا۔۔۔
” لیکن جو باتیں میں نے آپ کو کہیں ہیں اُن پر بھی ضرور غور کیجئے گا۔۔۔جیک کی آنکھوں اس قدر مایوسی تھی۔ کہ اس کی ماں نے پھر بھی کوئی در عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔۔۔
” مجھے اُمید ہے کہ آپکو وہ ساری باتیں ابھی تک یاد ہیں۔ بھولیں نہیں ابھی تک آپ کچھ بھی۔۔۔۔۔
جیک نے ایک گہری سانس لی پھر ان سے کہا۔۔
” تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔ وہ جیک کے پاس بیٹھتے ہوئے جزباتی ہوکر بولیں۔
” تم میری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرو گے۔ جیک کو محتاط کرتے ہوئے شفق بیگم بولیں۔۔۔
” میں ایسا ہی کروں گا۔ جب آپ ایسا کر سکتی ہیں۔ تو میں کیوں نہیں؟ جیک ہزیانی بولا۔
” میں تو ایسا ہی کروں گا۔۔۔ جیک نے سر کو جنبشِ دے کر کہا۔
” چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو۔۔۔ اس نے اپنی گھڑی اتار کر ٹیبل پہ رکھی۔۔۔۔۔۔
اور منہ دھو کر واپس آیا۔ اور ٹاول اٹھ کر منہ کیا۔۔ اور اس نے دوسری شرٹ پہنی۔۔۔
” کہاں جارہے ہو۔ شفق بیگم فکر مندی سے کھڑی ہوئیں۔
” یہیں ہُوں۔ میں نے کہاں جانا ہے۔۔ جیک نے ان کی بات کو نظر انداز کر دیا اور آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
” میری بات سنو۔۔ پہلے میری بات کا جواب دو ۔ وہ بڑے تجسس سے بڑے بڑے قدم بڑھتے ہوئے جیک کے پیچھے گئیں۔۔۔
” جیک نے ان کی ایک بھی نہ سنی۔ اٌس نے ڈائننگ ٹیبل پہ گاڑی کی چابی رکھی تھی۔
” وہ ڈھونڈ رہا تھا اندھیرا کی وجہ سے اسے ڈنڈھنے میں تھوڑی پریشانی پیش آرہی تھی۔۔۔۔
” جیک ایک منٹ کہاں جا رہے ہو۔ شفق بیگم نے غصے سے جیک کا بازو سے پکڑ کر پوچھا۔۔۔
” جیک حیرانگی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔
کسی کام سے جارہا ہُوں۔ جیک ہزیانی بولا۔
” کونسا سا کام ہے۔ مجھے بھی بتاؤ ؟ وہ کافی خوف زدہ بھی تھیں۔۔۔ وہ الجھن سے بھرپور نظروں سے جیک کو دیکھ رہیں تھیں۔۔
” جیک مجھے بھی کچھ کام ہے تم سے ۔ بات سنو میری۔۔۔
” حیات نے سیھڑیوں سے نیچے جھانک کر جیک سے کہا۔
دانتوں تلے زبان دیے، وہ ماں کو جیک کیساتھ دیکھ کر وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گئی۔۔۔ وہ ڈر گئ تھی۔۔ دل پہ ہاتھ رکھے وہ اپنے کمرے میں واپس چلی گئی۔۔
” کیا کام ہے اب یہ بھی بتا دو۔۔ جیک نے اوپر سر اٹھا کر پوچھا تو سامنے حیات ہی نہیں تھی۔۔ اس نے سرسری نظر اپنی ماں پہ ڈالی وہ غصے سے اوپر دیکھ رہیں تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یار نیچے تو ماما بھی جیک کے ساتھ کھڑی ہیں۔ کمرے میں جاکر اس سرکوشی شروع کر دی۔ جہاں آیت اور عائشہ دونوں ساتھ بیٹھیں تھیں۔۔۔
” آیت، عائشہ اور حیات کی اندر ہی اندر کچھ پلاننگ چل رہی تھی۔۔۔۔ اور یہ بات شفق بیگم کو کھٹک رہی تھی۔۔۔
” کوئی بات نہیں تم جاو تو صحیح۔۔ عائشہ نے حیات کا حوصلہ بڑھایا اور اسے نیچے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
” روکو میں نیچے آرہی ہوں۔۔۔۔ پھر بتاتی ہوں۔۔۔۔ حیات نے سہمے ہوئے لہجے میں نیچے جھانک کر جیک کو جواب دیا۔۔۔
” جیک نے حیات کے اس بچپنے پہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے ہال میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
” پورے پانچ منٹ کے بعد ڈرتے ڈرتے حیات نیچے آئی۔
” ماں کی وجہ سے وہ بول نہیں پارہی تھی۔۔ وہ سہمی ہوئی تھی۔۔ ماں کو دیکھ کر اس کی دھڑکنوں میں تسلسل نہ رہا ہو جیسے۔۔۔۔
” وہ سہم گئ تھی۔۔۔ اٌسے بولنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ ایک سرسری نگاہ اس نے اپنی ماں پہ ڈالی۔ دانتوں سے وہ ناخن کاٹ کاٹ پھنک رہی تھی۔۔۔
” جیک کو حیات کا چہرہ دیکھ کر یہ بات سمجھ آرہی تھی۔۔ کہ معاملہ کچھ اور ہے۔۔۔ لیکن جیک خاموش سامنے صوفے پہ بیٹھا سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” بولو جو بھی بولنا چاتی ہو ۔۔ شفق بیگم نے اس کے چہرے کے تاثرات کا
اندازہ لگاتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔۔
” لیکن حیات خاموش کی خاموش ہی کھڑی رہی۔۔۔ کیونکہ وہ اپنی ماں کے سامنے کچھ نہیں بولنا چاہتی تھی۔۔۔
” مجھے دیکھ کر تم چپ کیوں ہوگئی ہو۔۔ غصے سے گھورتے ہوئے انہوں نے حیات سے پوچھا۔۔۔۔۔
” جیک دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے صوفے پہ بیٹھا تھا۔ اچانک اس نے اوپر دیکھا تو۔۔ آیت سامنے کھڑی تھی جو نیچے جھانک کر ساری باتوں کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔۔
” جیک نے سوالیہ نظروں سے آیت کو دیکھا۔ تو وہ فوراً پیچھے ہٹ گئی۔۔۔
” جیک وہ میں ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیات ڈرتے ڈرتے بول رہی تھی۔ مگر اس کی زبان سے ابھی پورے الفاظ ادا ہونے کو تھے۔۔۔ کہ اس ماں کا غصہ دیکھ کر اس نے بات بدل دیا تھا ۔۔
” یاد نہیں آرہا چلو اگر یاد آجائے گا تو میں تمہیں کال کر بتا دوں گی۔۔ حیات سیھڑیوں کیطرف جلدی سے دوباہ مڑ گئی۔۔۔۔
” جیک نے پیشانی پہ بل ڈالتے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ کہ آخر ان تینوں کے بیچ چل کیا رہا ہے۔ بےشمار سوال ذہن میں رونما ہورہے تھے۔۔
” تم یہ چالاکیاں کسی اور کو دیکھنا۔۔ مجھے نہیں۔۔ شفق بیگم نے تیکھی نظروں سے حیات کو پیچھے سے آواز دے کر کہا۔۔۔
” تمہیں کیا لگا ؟ مجھے نہیں پتہ کہ تم نے کیا بات کرنی ہے؟ حیات سنجیدگی سے ان کیطرف دیکھ رہی تھی۔۔
جیک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔۔
” حد ہے۔ بات اتنی بھی نہیں کہ آپ اٌسے ڈانٹنا شروع کر دیں۔۔۔۔
جیک اپنی ماں کی بات پر فوراً بولا۔
” تمہارا ہر بات میں اب بولنا ضروری ہوگیا ہے۔ شفق بیگم بے نیازی بولیں۔۔۔۔
” اب جاؤ؛ اور میرے کمرے میں دودھ کا گلاس لے کر آؤ۔۔۔۔ شفق بیگم نے فوراً اپنا حکم صادر کیا۔۔ حیات مایوسی سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔
” جیک اٹھ کر باہر لان کیطرف بڑھ گیا۔
” جیک۔۔۔۔ جیک ۔۔۔۔۔ حیات نے بلکل مدہم آواز میں جیک کو آواز دی۔
” کیا؟ جیک نے سوالیہ انداز میں کہا۔
” رکو میں آرہی ہُوں۔۔۔۔ حیات نے اسے دور سے اشارہ کیا۔۔
” پہلے مجھے دیکھنے دو کے ماما ابھی بھی یہی ہیں کہ وہ اپنے کمرے میں جا چکی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
” حیات ہال میں واپس دوڑی۔۔۔ شکر چلیں گئ۔ حیات نے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
” وہ واپس لان میں جیک کے پاس آئی۔۔۔۔۔ کیونکہ شفق بیگم اپنے کمرے میں جاچکی تھیں۔۔
” جیک۔۔۔۔ آیت کو کچھ ضروری سامان لینا ہے۔ میں عائشہ اور آیت تمہارے ساتھ جانا چاہتیں ہیں۔۔۔
” جانا کہاں ہے؟ وہ بھی اس وقت؟ جیک نے اکتاہٹ بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔
” کہیں بھی چلیں جائے گے۔۔ اس میں کیا ہے؟اس وقت۔۔۔۔۔ حیات منہ بنا کر بولی۔۔۔
” کیا مطلب کہیں بھی چلیں جائیں گے؟ تم لوگوں نے جانا ہے اور تم لوگوں کو یہ ہی نہیں پتہ کہ تم لوگوں کو جانا کہاں ہے۔۔۔۔ حد ہے بیوقوفی کی۔۔۔۔ جیک نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” اچھا نہ چھوڑو سب۔ ہم لوگ ریڈی ہوکر آتے ہیں؛ تم ابھی جانا نہیں کہیں بھی۔۔۔پیلز
حیات ملتجی انداز میں بولی۔ کھڑی جیک کے جواب کا انتظار کرنے کر رہی تھی۔۔۔
” ٹھیک ہے جلدی آؤ ۔ جیک نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد حیات کو جواب دیا۔۔
” وہ فوراً خوشی کے مارے اندر کیطرف دوڑی۔۔۔
” اور سُنو! جیک نے اسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔
” اب کیا ہے۔۔۔ بیزاری سے حیات نے پوچھا۔
” اتنا اہتمام کے ساتھ تیار نہ ہونا۔۔۔ جیک نے ہاتھ بڑھا کر محتاط انداز میں کہا۔
” تمہیں تو بس ہمارے تیار ہونے سے ہی پروبلم رہتی ہے۔۔۔۔ وہ جیک کو زبان دیکھا کر منہ چڑاتے رہی تھی۔۔۔۔
” میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا ویسے۔ وہ انہماک سے حیات کو دیکھنے لگا۔۔۔
” اچھا چھوڑ دو اب؛ اٌس بات کو۔۔۔۔ حیات نے لان سے پھول توڑ کر،جیک کے منہ پہ دے مارا۔۔
” وہ جیک کو تنگ کر رہی تھی۔۔ جیک جس کو اکثر حیات کی ہر بات میں غصہ آتا تھا۔ جیک نے حیات کی اس حرکت پہ اسے کچھ نہ کہا۔ بلکہ اس کی اس حرکت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اپنی بات شروع کی۔
” بارہ بجنے میں ابھی پورے دس منٹ باقی ہیں۔۔ جیک نے گھڑی میں دیکھ کر حیات کو سختی سے کہا۔
” ہاں تو۔؟ وہ بےاختیاری سے ہنسی۔۔۔۔۔ وہ تو مجھے بھی پتا ہے۔ حیات نے کہا۔۔
” پوری بات سن لو پہلے۔ جیک نے ہاتھ بڑھا کر سنجیدگی سے کہا۔۔۔ وہ حیرت سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
” پورے بارہ بجے تم لوگ نیچے آجانا۔۔۔ میرے خیال سے دس منٹ کافی ہیں۔۔۔ محتاط انداز میں جیک نے اسے کہا۔۔۔
” پندیں منٹ چلیں گے؟ ملتجی انداز اپناتے ہوئے بڑی معصومیت سے حیات نے پوچھا۔۔۔
” نہیں چلیں گے۔۔۔ جیک نے جان بوجھ کر اسے انکار کیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اسے پندرہ منٹ کہہ دے گا۔۔ تو حیات پندرہ منٹ کی بجائے بیس منٹ لگا کر آئے گی۔۔۔
” دس منٹ سے ایک بھی اوپر نہیں ہونے چاہیے ۔ دس منٹ کا مطلب دس منٹ ہونا چاہیے۔ جیک نے حیات کو انگلی دیکھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” ورنہ میں چلا جاؤں گا۔ مجھے ویسے بھی دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔ وہ جاکر کرسی پہ بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
” کیا کہا اِس نے؟ عائشہ نے بڑے تجسس میں حیات سے پوچھا۔۔
” وہ تو مان گیا ہے اب جلدی جلدی سے تیار ہوجاو۔ زیادہ دیر نہ لگانا۔ اس نے سختی سے کہا ہے۔۔ کہ دیر نہیں ہونی چاہیے۔۔۔”
” حیات فوراً ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔
کہہ رہا ہے دس منٹ میں نیچے آجاؤ۔ حیات نے آیت کا اداس چہرے دیکھ کر پھر کہا۔۔۔ کیونکہ آیت ابھی بھی مایوسی سے بیٹھی تھی۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...