(Last Updated On: )
٭ Private Jessica Lynch
1 ۔ حتیٰ کہ کرد موسمی بٹیرے بھی یہ سوچ کر ہاتھ مل رہے ہیں کہ اس کھیل کا انجام کیا ہو گا۔ انہیں اس کھیل کا کچھ کچھ تجربہ ہے۔ ماضی میں وہ اسرائیل، شاہ ایران، آیت اللہ خمینی، بغداد کی مختلف حکومتوں اور امریکہ کی سخاوت سے بہرہ مند ہو چکے ہیں لہٰذا وہ سیاسی موسم میں معمولی سی تبدیلی کو بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ کیا نئے استعماری اقتدار کا مطلب یہ ہے کہ ان سہولتوں کا خاتمہ ہونے والا ہے جو مغرب ان دنوں فراہم کر رہا تھا جب باقی عراق کو دھیرے دھیرے شکنجے میں کَسا جا رہا تھا۔
٭ Consumerism
٭ مراد امریکہ (مترجم)
٭ Rimbaud
٭٭ Heinrich Heine
2۔’ناسٹلجیا‘ سے اقتباس، بحوالہ جے اکیوز (J,Accuse) از اہیرون شباتی، نیویارک 2003 ء۔
3 ۔ بورس پیسترنک نے بعدازاں بتایا کہ کس طرح سٹالن نے اس سے فون کر کے پوچھا کہ کیا مینڈل سٹام عظیم شاعر ہے۔ پیسترنک کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ اس وقت تک سیاسی کیمپ مینڈل سٹام کی صحت تباہ کر چکا تھا۔ اب نہ تو اس کی زندگی بچائی جا سکتی تھی نہ ہی اسے پھانسی لگایا جا سکتا تھا۔ پیسترنک نے خود انتہائی مشکل وقت گزارا۔ افواہ یہ تھی کہ اس کی زندگی کا ضامن جارجیا کی شاعری بارے ریویو تھا جو اس نے 1917ء انقلاب سے کئی سال پہلے ایک ادبی جریدے میں لکھا تھا۔ اس ریویو میں اس نے ایک جارجیائی شاعر جوزف یوگا شولی (سٹالن کا اصلی نام) بارے لکھا تھا کہ یہ ہونہار شاعر ہے۔ غالباً یہ ایک اور مثال ہے عظیم شاعروں کے اندر موجود خطرے کو بھانپنے والی صلاحیت کی۔
4 ۔ ابنِ تیمیہ (1263-1328ء) معروف سنی عالم اور حنبلی فقہ کے پیروکار تھے، یہ فقہ اپنی کٹرتفاسیر کے باعث معروف ہے۔ یہ ابنِ تیمیہ کے ہی نظریات تھے جو اٹھاریویں صدی کے اواخر میں عبدالوہاب نے مزید نکھارے اور یہ نظریات وہابیت کی بنیاد بنے جو اب سعودی عرب میں سرکاری مذہب ہے۔
5 ۔ یہاں مراد خلیفہ المتوکل کا بیٹا۔ الموافق اپنے بھائی کے دورِ حکومت میں شاہ کا قائم مقام بن چکا تھا اور اس نے سخت گیر فوجی سالار کی شہرت حاصل کی۔ یہ الموافق ہی تھا جس نے جنوبی عراق کی دلدلوں اندر غلاموں کی بغاوت کو کچلا۔ چودہ سالہ بغاوت زنج (869-883ء) کو غلامی کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے، اسے الموافق نے کچلا۔ اس بغاوت کے رہنمائوں کو بصرہ میں سرعام کوڑے لگائے گئے اور ٹکٹکی پر چڑھایا گیا۔
6 ۔ Without An Alphabet, Without a Face: Selected Poems of Saadi Youssef, translated by Khaled Mattawa, St. Paul, 2002.
7-Bertolt Brecht, `Concerning the Label Emigrant’, in Poems 1913-1956, edited by John Willet and Ralph Manheim, London, 1976, p.30!
8۔انگریزی ترجمہ ودود حماد نے کیا۔ نظم میں شاعر نے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں جو تجربات ہوئے وہ بیان کئے ہیں۔ 1963ء میں بعث پارٹی نے حکومت پر قبضہ کیا تو مظفرپابند سلاسل بھی رہے اور تشدد کا شکار بھی بنے (دیکھئے باب3)۔ دیگر قیدیوں کے ہمراہ وہ فرار ہو کر ایرانی صوبے خوزستان کے علاقے اہواز پہنچ گئے۔ خوزستان ایران کا عرب صوبہ ہے۔ جلد ہی شاہ کی خفیہ پولیس ساوک کو ان لوگوں کی موجودگی کا پتہ چل گیا۔ انہیں گرفتار کرکے تشدد کیا گیا اور سب لوگ بغداد کے حوالے کر دئیے گئے۔
٭ GIs مراد امریکی سپاہی
٭٭ graffiti
٭٭٭ Born Again
٭ Sir Jobn Glu 66
9- Story of a City: A Childhood in Amman, by Abderrahman Munif, London, 1996.
10 ۔اردن کے شاہ حسن کا اصرار تھا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، برطانیہ میں سعودی سفیر اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ترکی بن فیصل اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے ناظرین کو یاد دلا رہے تھے کہ اسامہ بن لادن نے افغانستان میں مغرب کی حمایت سے روسیوں کے خلاف جنگ میں شاندار کردار ادا کیا۔ بعدازاں شاہ حسن نے مجھے سکاٹ لینڈ میں ہونے والے ایک تازہ تجربے بارے بتایا۔ ایک پبلک لیکچر کے موقع پر ایک مقامی معزز شہری نے طویل تعارف کے بعد حاضرین سے کہا آیئے قدیم ترین اور معزز ترین عرب خاندان کے فرد شہزادہ حسن بن لادن کا استقبال کریں۔ ہم ہنس ہی رہے تھے کہ شاہ حسن نے کہا: ’طارق! لگتا ہے ہم جہاں سے چلے تھے وہیں پہنچ گئے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام عرب ایک سے ہیں‘۔
11 ۔اس کتاب کے لیے نظم کا ترجمہ سعدی یوسف ، حافظ خیر اور سارہ مغیر نے کیا جس کے لیے میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔ نظم نے وہی اثرات مرتب کئے جن کی توقع تھی: ہر استعمار نواز جلسے کو اکثر عراقی ’گیدڑوں کی بارات‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
14,13,12 قبل از اسلام نصاب کے حوالے ہیں۔ عربی گرامر کے نصاب میں آج بھی ان کا استعمال ہوتا ہے۔
٭ ICP= Iraqi Collaborators Party
16 ۔ یہ اقتباس Britain’s Moment in the Middle East: 1914-1956
از الزبتھ منرو، لندن 1963ء سے لیا گیا ہے۔ آکسفورڈ میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم کے طور پر جن کتابوں کا مطالعہ میرے لئے تجویز کیا گیا ان میں سے ایک یہ کتاب بھی تھی جو مجھے پڑھنا پڑی۔ سلطنت کے دفاع میں کلاسک لبرل نقطہ نظر سے لکھی گئی یہ کتاب پڑھ کر میرا خون کھول گیا۔ اب چالیس سال بعد اس کا دوبارہ مطالعہ کیا تو خون پھر بھی کھولا مگر اب کی بار میں نے اسے صبروتحمل سے ایک ایسی کتاب کے طور پر پڑھا جس کی مدد سے موجودہ پوسٹ پوسٹ کلونیل عہد میںاس بات کا اندازہ لگانا مقصود تھا کہ ماضی اور عہدِ حاضر کے سامراج میں کیا فرق ہے اور کون سی ایسی باتیں ہیں جن کا تسلسل ٹوٹ چکا ہے یا نہیں ٹوٹ سکا۔
17 ۔ منرو، ایضاً، ص 27
18 ۔جرٹروڈ بیل (Gertrude Bell) برطانوی سلطنت کی ذہین ترین منتظمہ تھیں۔ حال ہی میں جیمزبخان (James Buchan) نے ایک مضمون (جو Miss Bell’s Lines in the Sand گارڈین 12 مارچ 2003ء میں شائع ہوا) میں جرٹروڈ بیل بارے شاندار جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا: والد اور سوتیلی والدہ کے نام جرٹروڈ کے خطوط جنہیں بیسویں صدی کی عمدہ ترین مکتوب نگاری کہنا چاہئے، ہارولے اور نکولس کے کاٹن گائونز سے ہوتے ہوئے با آسانی سرکش عراقی عربوں اور کردوں پر آزمائے جانے والے برطانوی فضائی ہتھیاروں تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس خطے میں (مسٹرڈگیس کی صورت) کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے۔
19 ۔ بیگانگی کا یہ عمل ہندوستان میں 1757-1947کے عرصے میں مکمل ہوا، عراق میں یہ عمل 1914-58ء کے دور میں پورا ہو گیا۔ رچرڈ گاٹ نے اپنی (آنے والی) کتاب ’آور ایمپائرز سٹوری‘ میں برطانوی سلطنت کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے دلچسپ اعداد و شمار پیش کئے ہیں: ’سلطنت برطانیہ کی عمر کے مطابق اوسطاً ہر روز اسے اپنی محکوم رعایا کی بغاوت کا سامنا تھا‘۔ جوں جوں عراق میں وقت گزرنے کے ساتھ امریکی جانی نقصان بڑھے گا توں توں نئی ایمپائر کے وفادار اس نقطے پر غور کریں گے۔
20 ۔ چارلز ٹرپ بتاتے ہیں: ’کسی کو نوازنے کے لیے زمین عطا کی جاتی … انتظامیہ گویا زمین کے ذریعے سماجی نظام خریدتی تھی… یہ خاصیت برطانوی قبضے کے ابتدائی دنوں سے ہی موجود تھی جب ہنری ڈابز نے (جو فوجی قبضے کے دوران ریونیو افسر اور بعدازاں مینڈیٹ کے تحت ہائی کمشنر تھے) اس بات کو یقینی بنایا کہ دیہی علاقوں میں نظم و نسق قائم کرنے کے لیے زمین اور لیز دینے کے عمل کو اہم ترین حربے کے طور پر استعمال کیا جائے‘۔ ’اے ہسٹری آف عراق‘ کیمبرج 2000ء ص51-52۔
21۔ اکثر معاملات میں یہی صورت حال تھی اور شاہ فیصل نے آئین ساز اسمبلی کے جعلی انتخابات میں بھی بھر پور ساز باز کی اوریوں بے شمار ٹوڈی عوامی مخالفت کے باوجود منتخب ہوگئے۔ عہد حاضر کے آلۂ کاروں کی لکھی ہوئی تاریخ کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ سامراجی غلبے کے تحت ہونے والے انتخابات کم کم ہی منصفانہ ہوتے ہیں۔ اس پہلے انتخاب کی تفصیلات ایم ایم الاعظمی کے مضمون
The Elections for the Constituent Assembly in Iraq: 1922-24
میں شامل ہیں۔
بحوالہ: The Integration of Modern Iraq,
مولف عباس کیلیدار، لندن1979
22- The Old Social Classes and the Revolutionary Movements of Iraq: A studay of Iraq’s Old Landed and Commercial Classes and its Communists, Ba`athists and Free Officers, by Hanna Batatu. Princeton, 1978
23 ۔ یسین الہاشمی بارے عراقی شاعر معروف الرسافی نے کہا ؎
ان کا نظریہ ہے جائیداد بنانا فقط یہی ہے رہنما اصول ان کی سیاست کا
24 ۔ FO371/23201/E2820/72/93 وسکائونٹ ہیلی فیکس کے نام بغداد سے ارسال کیا ہوا مسٹر ہوسٹن بوسوال کا مکتوب۔
25 ۔ مارس پیٹرسن ان دنوں عراق میں برطانوی سفیر تھے، انہوں نے اپنی خود نوشت میں غازی سے اپنی نفرت کا برملا اظہار کیا ہے۔ غازی کی ہم جنس پرستی اور برطانیہ مخالفت عراق اندر برطانیہ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ پیٹرسن لکھتے ہیں: ’غازی کو راہِ راست پر لانا پڑے گا یا انہیں تخت سے دستبردار کرانا پڑے گا، یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے اور میںنے اس بابت موجودہ قائم مقام امیر عبداللہ سے اشارۃً بات کی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ مسئلہ محض ایک ماہ بعد حل ہو جائے گا۔ میں برگس کے مقام پرکنڈیسٹیبل ہوٹل میں بیٹھا تھا جب ایک برطانوی صحافی نے مجھے بتایا کہ شاہ غازی حسبِ معمول اپنی سپورٹس کار میں سوار جا رہے تھے کہ کار ٹیلی گراف کھمبے سے جا ٹکرائی۔ ایک قابلِ افسوس زندگی قابل افسوس انداز میں ختم ہو گئی۔ جرمن پراپیگنڈے میں موت کا الزام ہم پر دھرنے کی کوشش کی گئی۔ کچھ دنوں کے لئے بغداد میں شدید جذبات پائے گئے جبکہ موصل میں برطانوی قونصل کو ہلاک کر دیا گیا۔ برطانوی قونصل کی ہلاکت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمومی رائے میں موت کا ذمہ دار برطانیہ تھا منصوبہ چاہے نوری اور عبداللہ نے ہی تیار کیا ہو‘۔
26۔ باطاتو، ایضاً، ص: 342-44۔ باطاتو کی یہ کتاب ہر لحاظ سے دلچسپ ہے۔ باطاتو کی اپنی علمیت کے علاوہ، بغداد میں موجود پولیس فائلوں تک باطاتو کی رسائی، برطانوی دفتر خارجہ کے ریکارڈ کی محنت طلب چھان پھٹک اور بے شمار اہم کردار جو ہنوز زندہ تھے (بشمول بندی خانوں میں موجود کمیونسٹ) ، ان کے ساتھ باطاتو نے انٹرویو کئے اور یوں یہ کتاب عراق کا ایک منفرد مطالعہ بن جاتی ہے۔ ان کے بعد بھی کئی مصنف عراق پر کتابیں لکھ چکے ہیں مگر اس کتاب کی علمیت اور حریت فکر کو کوئی اور کتاب چھو بھی نہیں سکتی۔
27 ۔ Elie kedourie, The Chat ham House Version and Other Middle -Eastern Studies, London, 1970
28 ۔ باطاتو، ایضاً ، ص:347
29 ۔ گویا گوروں کی طرح لباس زیب تن کرنے اور ان کے احکامات کی بجا آوری ہی کافی تھی۔ اس صورتِ حال بارے چودھویں صدی کے عرب تاریخ دان نے ایک موقع پر کہا: ’مفتوح ہمیشہ اپنے فاتح کے لباس، علامات، عقائد اور دیگر رسوم و رواج کی نقل کرتا ہے… اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتوحین یہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ان کی شکست عمومی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ شکست کی وجہ فاتح کی تکمیل ذات تھی‘۔ ابن خلدون۔
30 ۔ 1930ء معاہدے کی رو سے عراق ایک نو آبادی بن کر رہ گیا کہ اس معاہدے کے تحت برطانیہ کو مستقل اڈے قائم کرنے کا حق مل گیا۔ جبکہ ساحلی شہر بصرہ (جو تادم تحریر برطانوی فوج کے قبضے میں ہے) اور عراقی ریلوے برطانوی ناظمین کے تحت چلنے والی کارپوریشن بن کر رہ گئی۔
31۔ اینگلو عراقی پروفیسر کنعان ماکیہ نئے سامراجی فری میسن فرقے کے اہم رکن ہیں۔ ان کی کتاب ری پبلک آف فیئر، لندن، 1989ء (جو قلمی نام سے لکھی گئی) ایک مارکس وادی کے لبرل سامراجی کے طور پر ارتقاء کی کہانی ہے۔ اپنے ساتھی پروفیسر فود عجمی کی طرح کنعان بھی لبرل حلقوں اندر سراہے جاتے ہیں کہ انہوں نے مغرب کے لئے عرب دنیا کی تشریح، بیان کی اور امریکی خارجہ پالیسی کو جواز فراہم کیا۔ ماکیہ پر بھر پور تنقید پیٹرگوان کے مضمون ’گلف وار اینڈ ویسٹرن لبرل ازم میں ملے گی جو دی گلوبل گیمبل، لندن، 1999ء ص 141-86، میں شائع ہوا۔
32۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عبدالکریم قاسم اور سپریم کمیٹی کے دو دیگر ارکان ڈوینرز کے سینئر آفیسرز سکول سے فارغ التحصیل تھے جبکہ دو دیگر ارکان برٹش سٹاف کالج کیمبرلی کے تربیت یافتہ تھے۔ اس تربیت کا 1958ء میں بہترین استعمال کیا گیا۔
33 ۔ باطاتو، ایضاً، اس کتاب میں 1958ء کے عراقی انقلاب، اس کے نتائج و عواقب اور اقتدار پر صدام حسین کے قبضے کی صورت خاتمے کا بھر پور اور دستاویزی احاطہ کیا گیا ہے۔
34۔ باطاتو، ایضاً، ص:805۔ یہ نقطۂ نظر امریکی سفیر والڈیمر جے۔ گال مین، جو بغاوت کی مقبولیت تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، کے اس نقطۂ نظر کی تردید کرتا ہے کہ ہجوم ’عراقیوں کے نمائندہ نہ تھے بلکہ کرائے کے بدمعاش تھے جنہیں مظاہرے کروانے والے سڑکوں پر لائے تھے‘۔ ’حقیقی نمائندہ عراقیوں‘ کی تلاش میں امریکہ بہادر آج بھی سرگرداں ہے۔
35 ۔ ’عراق پٹرولیم کمپنی 1911ء میں افریقن اینڈ ایسٹرن کنسیشنز لمٹیڈ کے ادغام سے بنی تھی۔ اس کا نام 1912میں ٹرکش پٹرولیم کمپنی اور 1929ء میں عراق پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ رکھا گیا۔ 1920ء کے سان ریمو آئل معاہدے (San Remo Oil Agreement) کے تحت اس کی شیئر ہولڈنگ اس طرح سے تھی: اینگلوپرشین آئل کمپنی لمیٹڈ (47.5فیصد)، شیل (22.5فیصد) کمپنی فرانس دس پترولس (Compagnie Francaise des Petroles) (25 فیصد)، اور سی۔ ایس گل بنکین (5 فیصد) 1925میں پہلی دفعہ معاہدہ ہوا اور پہلی دفعہ کمپنی نے 1927ء میں تیل نکالا۔ 1928ء میں خاصی بحث و تمحیض کے بعد ریڈلائن معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت شیئر ہولڈنگ یوں طے پائی: اینگلو پرشین آئل کمپنی لمیٹڈ (23.75فیصد)، نیر ایسٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن (23.75فیصد) اور گل بنکین (5 فیصد)۔ 1931ء میں رعایتی معاہدے کی تجدید ہوئی۔ 1928ریڈلائن معاہدے کی جگہ 1948میں ریوائزڈ گروپ معاہدے (Revised Group Agreement) نے لے لی۔ مکمل ذیلی اداروں بصرہ پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ اور موصل پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ نے 1938ء اور 1942میں مزید رعایتیں حاصل کیں۔ بحرِاوقیانوس کو جانے والی پائپ لائنیں 1930ء اور 1940کی دہائی میں مکمل کی گئیں۔ کمپنی نے عراق کے علاوہ بھی مشرق وسطیٰ اندر تیل کی رعایتیں حاصل کیں‘ یہ تھی آئی پی سی کی مختصر مگر درست کہانی اس کی اپنی زبانی۔1961ء میں نئی حکومت نے ان معاہدوں کا خاتمہ کر دیا اور چند سال بعد تیل کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ سرمایہ دارانہ ڈاکہ زنی کے اس عہد میں‘ جسے کچھ نرم گو لوگ ’عالمگیریت‘ کا نام دیتے ہیں‘ عراق پر امریکی قبضے کا نتیجہ تیل کی نج کاری کی صورت نکلے گا اور بیس سال بعد کیا ہو گا؟
36 ۔ 6 اگست 1920ء کو میجر پلی نے سول کمشنر بغداد کو یہ رپورٹ بھیجی: ’ان میں اکثر بے حیثیت لوگ تھے تاآنکہ ہم نے انہیں طاقتور اور امیر بنا دیا‘۔ برطانیہ کے بنائے ہوئے یہ شیخ آخری دم تک برطانیہ کے وفادار رہے۔ ان کے طفیلی کردار کا تفصیل سے دستاویزی انداز میں مارین فاروق سلگٹ اور پیٹر سلگٹ نے احاطہ کیا ہے۔ دیکھئے:
Iraq Since 1958: From Revolution to Dictatorship, London, 19870
37۔ اسی قسم کی بحث ہندوستان میں بھی چلی جہاں قوم پرست اور کمیونسٹ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ ادھر کمیونسٹوں کو جنگ میں مدد دینے کے لئے رہا کیا جا رہا تھا ادھر ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کے الزام میں قوم پرست جیل بھیجے جا رہے تھے۔ لیفٹ قوم پرست جواہر لعل نہرو برطانیہ سے کہہ رہے تھے کہ صرف ہندوستانی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں آیا وہ یورپی جنگ میں جانیں دیں یا نہ دیں۔ وہ فسطائی مخالف محاذ کے حامی تھے مگر بغیر مقبول ہندوستانی نمائندوں سے مشورہ کئے، ڈنڈے کے زور پر ایسے کسی محاذ کی تشکیل کے مخالف تھے۔ عرب کیمونسٹ پارٹیوں نے، نہرو کے برعکس، جنگ کے دوران آزادی کا مطالبہ ترک کر دیا۔ شام کے کیمونسٹ رہنما خالد بخدش تو اس حد تک فرانس والوں کے سامنے جھکے کے باقی عرب رہنمائوں حتیٰ کہ کیمونسٹوں سے بھی کٹ کر رہ گئے۔
38۔ عرب تاریخ دانوں کے مطابق یہ نپولین کے ہمراہ آئے ہوئے فرانسیسی متشرقین تھے جنہوں نے لفظ ’ری پبلک‘ کا عربی ترجمہ ’جمہور‘ کیا۔ مصر پر نپولین کے اثرات بارے ایک دلچسپ مطالعہ ہے ابراہیم ابولفود کی کتاب:
Arab Rediscovery of Europe: A staudy in Cultural Encounters, Princeton, 1965
اگر ایسا ہے تو ایک عقدہ لاینحل رہتا ہے: نویں اور دسویں صدی کے عرب تاریخ دانوں نے، کہ یونانی اور رومی کلاسیک ان کی دسترس میں تھیں اور وہ مسلسل ان کا عربی ترجمہ بھی کر رہے تھے، اس لفظ کا عربی ترجمہ کیوں نہ کیا۔
39 ۔ اس موقع پر عراقی کیمونسٹ پارٹی نے پوری طرح قاسم کی حمایت کی اور اسے اس کا صلہ بھی ملا۔ عارف کو ہٹانے سے قبل قاسم نے بغداد سے سو میل کے فاصلے پر تعینات عارف کی بیسویں انفنٹری بریگیڈ کو وہاں سے ہٹا دیا۔ تیسری بٹالین (جس کی قیادت کبھی عارف کے پاس تھی) کی قیادت چند کیمونسٹ کرنیلوں کے سپرد کی گئی۔ آئی سی پی نے بہرحال قاسم کی حمایت اپنے مقاصد کے لیے کی۔ وہ مصر اور شام کے ساتھ یونین کے خلاف تھے۔ وہ ناصر کی ’غیر جانبداری‘ کے خلاف تھے، وہ چین اور سویت روس سے قریبی تعلقات کے خواہاں تھے اور اس چکر میں انہوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت قاسم کا دفاع کیا جب قاسم نے تیل کو قومی ملکیت میں لینے میں تاخیر کی۔ انہوں نے ناصر کے حریف کے طور پر بھی قاسم کو یہ کہہ کر پیش کرنے کی کوشش کی کہ عراقی رہنما ہی دراصل ’عرب قوم پرستی کا بانی‘ ہے۔
40 ۔ M.Perlmann, `Nasser by the Rivers of Babylon’ Middle Eastern Affairs, vol.1o, New York, April 1959, P.154
41 ۔ عارف کی سیاست کے اس پہلو کو دوران مقدمہ سامنے لایا گیا تاکہ اہل ثروت طبقے کو باور کرایا جا سکے کہ معاملات حکومت کی گرفت میں تھے۔ مقدمے کے اہم گواہ بریگیڈیئر عابدی نے گواہی دیتے ہوئے کہا:
گواہ: مجھے لگا کہ بعض لوگ ان کی تقاریر سن کر ٹھٹک گئے۔ یہ لوگ سمجھے کہ محلات اور دیگر چیزوں پر قبضہ سے مراد تھی جائیداد کی ضبطی۔
صدر عدالت: اس کا اثر مارکیٹ پر ہوا؟
گواہ: جی ! میرے خیال سے ہوا۔
عراقی وزارتِ دفاع آرکائیوز، از باطاتو، ایضاً ، ص:834
42۔ ہیکل نے یہ انٹرویو الاہرام میں، 27ستمبر 1963ء کی اشاعت میںشائع کیا اور آج تک اس کی تردید نہیں ہوئی۔ جس راز کو فاش نہیں کیا گیا وہ کویت میں سی آئی اے سے ملنے والے مندوبین کی شناخت تھی۔ کیاان میں صدام حسین بھی شامل تھے؟ بعث وادی صدر ابوبکر بشیرنے بعد ازاں تسلیم کیا کہ وہ ’امریکی گاڑی پر سوار ہو کر‘ اقتدار تک پہنچے۔ یوگوسلاویہ کی مخبرات نے بھی عراقی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اُس کے دو وزیر، طالب شبیب اورصلاح جواد، برطانوی ایجنٹ تھے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ عراق پر اس وقت امریکی قبضہ ہے، سچ کی تلاش میں آرکائیوز کی جانچ پڑتال کیلئے یہ مناسب وجہ ہے۔
43۔بحوالہ
‘An Attempt to Apraise the Policy of the Cmmunist Party of Iraq in the Period July 1958-1965’
پارٹی کی ایک اندرونی دستاویز
44۔ امریکی میڈیا میں نوم چامسکی کے ناقدین یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایشیا اور لاطینی امریکہ میں نوم چامسکی کی مقبولیت کا سبب یہ نہیں کہ وہ سٹریٹیجک اور ماہرانہ مشورے دیتے ہیں (جوکہ وہ نہیں دیتے) بلکہ یہ ہے کہ وہ ایسا سچ بولتے ہیں جو برسراقتدار لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ عہدحاضر میں یہ منفرد بات ہے۔
The Banquet of Seaweed٭
45۔ شامی ناول نگار حیدر حیدر کا یہ ناول والیمہ لعشب البحر کایہ ناول، دمشق، 1998ء (چھٹا ایڈیشن)، بیس سال قبل لکھا گیا تھا اور حال ہی میں (2000ء) اسے مصر کی وزارت ثقافت نے بطور کلاسیک پھر شائع کیا ہے۔ اس ناول کی اشاعت پر اسلام پرستوں نے شور مچایا کہ اس میں توہین آمیز باتیں شامل ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ناول کو ضبط کر لیا گیا۔ صابری حافظ نے ’ناول، سیاست اور اسلام‘ کے عنوان سے نیو لیفٹ ریویو (این ایل آر5، ستمبر /اکتوبر 2000ء) کے لئے اس واقعہ پر مضمون لکھا جسے وسیع حلقوں میں ترجمہ بھی کیا گیا اور زیر بحث بھی لایا گیا۔ توہین آمیز تو یہ ناول بہرحال کسی بھی طور پر نہیں البتہ ایک جاندار تاریخی ناول ضرور ہے جو ’بنت کے لحاظ سے پیچیدہ ہے، تاریخی رسائی کا حامل ہے اور عرب انقلاب کی ناکامی کو وسیع تناظر میں پیش کرتا ہے‘۔ اس ناول کی اشاعت کے وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس میں عامرالرکابی کا ذکر موجود ہے یا یہ کہ وہ اس کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔ یہاں دئیے گئے انگریزی حوالے فارس وہاب نے ترجمہ کئے ہیں اور فارس اس کتاب کے قارئین کو میرے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ وہ باقاعدہ مترجم نہیں۔ فارس کا یہ بیان حقیقت پر مبنی بیان ہے۔
46۔ دیکھئے! باب دوم
٭ ماسکو کی ہدایت پر یورپ کی کمیونسٹ جماعتوں نے گذشتہ عرصے کی پالیسی کے برعکس سوشل ڈیموکریٹ جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنائے جنہیں پاپولر فرنٹ کا نام دیا گیا____مترجم
47۔ 1930ء کی دہائی کے وسط میں پیرس اندر گزارے وقت بارے مشعل افلاق کہتے ہیں: ’فرانسیسیوں کے خلاف اشتراکیوں کی جدوجہد کا میں خوب قائل تھا۔ میں کمیونسٹ پارٹی کے نوجوانوں کی سخت جانی کا قائل تھا۔ 1936ء کے بعد جب لیون بلم کی پاپولر فرنٹ حکومت قائم ہوئی تو میں مایوس ہوا، مجھے لگا میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے‘۔ بعث کی تشکیل اور اس کے ابتدائی دور بارے بہتر جانکاری کے لئے دیکھئے: دی عرب بعث سوشلسٹ پارٹی از کمال ایس ابو جبار، نیویارک، 1996ء
48۔ پچھلی دفعہ 2002ء میں جب قاہرہ جانا ہوا تو ان کی عمر نوے سے اوپر تھی، ذہنی طور پر ابھی بھی پوری طرح ہشیار تھے، اپنے ماضی اور اپنے کتب خانے پر انہیں خوب ناز ہے۔ وہ اپنے ملنے والوں کو بتاتے ہیں کہ صیہونیت اور بہت سی دیگر باتوں بارے ان کی رائے حالات و واقعات کی روشنی میں درست ثابت ہوئی ہے۔
49۔ کچھ بیان بازی مثلاً ’ذرائع پیداوار پر مزدوروں کا جمہوری کنٹرول‘ یا ’مزدور کسان حکومت‘ عین ممکن ہے ٹراٹسکی کے ’عبوری پروگرام‘ سے مستعمار لی گئی ہو۔ یہ بیان بازی دیکھ کر میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کہیں بعض ٹراٹسکی نواز بعث پارٹی اندر ’اخلی طریقہ کار کے تحت کام تو نہیں کر رہے تھے جنہوں نے بعث کو ایسے نظریات کے رنگ میں رنگ دیا ہو۔ بعض ترقی پسند بعث وادی جو بعد ازاں علیحدہ ہو کر بیروت اور لندن سے فار لیفٹ پرچے نکالنے لگے، ان میں میرادوست فواز تربولسی بھی شامل ہے، ٹراٹسکی کے نظریات سے آشنا تھے مگر قیادت میں ہر گز بھی نہ تھے، یہ الگ بات ہے کہ قیادت تک ان کے نظریات پہنچ گئے۔
50۔ معروف ناول نگار عبدالرحمن منیف انتہائی اہم دوسالوں (1962-62) کے دوران بعث نیشنل کمانڈ کے رکن تھے___ یہ ادارہ ایک کانگرس سے دوسری کانگرس تک پارٹی کا مقتدر ترین ادراہ تھا۔ پارٹی قیادت ان سے مسلسل اس بات پر نالاں تھی کہ وہ سوٹ اورٹائی زیبِ تن نہیں کرتے تھے۔ صدام حسین نے اقتدار سنبھالا تو اس کے ایک سال بعد عبدالرحمن منیف نے بغداد چھوڑ دیا۔ شائد یہ تجربہ اتنا درد ناک تھا کہ فکشن میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
51- ‘The First Utterance of Comrade Michel Aflaq’, Arab Ba`ath Socialist Party.
باطاتو نے اس کا بار بار حوالہ دیا ہے، ایضاً 1021-2
52۔ یہاں کمیونسٹوں سے فرق بہت واضح تھا۔ عموماً فوجی رہنما اشتراکی جماعتوں اندر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے جیسا کہ سوویت روس (ژوکوف)، چین (لِن پیائو)، ویت نام (جنرل ژاپ) میں تھا مگر عراق اندر بعث پارٹی اور فوج کے مابین واضح فرق رکھا گیا تھا۔ یہاں برتری سیاست کو حاصل تھی۔ پارٹی قیادت تمام اہم فیصلے کرتی تھی۔ کیوبا میں بھی ایسا ہی ہے جہاں اس کے باوجود کہ انقلاب گوریلا فوج نے کیا، ایک سیاسی جماعت نے قیادت سنبھال لی۔ مشرقی یورپ کی سیٹلائٹ ریاستوں کے لئے بھی، پولینڈ البتہ ایک استثناء تھا، یہی ماڈل استعمال کیا گیا، وہاں بھی سیاست حکمران جماعت ہی کرتی۔ شرق العرب میں البتہ صورتِ حال مختلف تھی۔
53۔ باطاتو
54۔ بیروت میں 1997ء میں ہونے والی ایک کانفرنس دوران ایک فلسطینی دوست نے، جو تیس سال سے دمشق میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہاتھا، بتایا کہ شام کے بعض باصلاحیت، گوسنکی، بائیں بازو کے دانش ور خفیہ میں بھرتی ہوگئے۔
جب اس دوست نے ایک ایسے ہی دانشور کی جھاڑ جھپاڑ کی (جو خاصا باصلاحیت مضمون نگار، سابق التھوسیرین، اور 1970ء کی دہائی میں ایکول نارمیل سپیرئیر کا طالب علم تھا) تو اس منکر نے جواب دیا: ’اس دفتر میں کم سے کم کوئی ہماری جاسوسی تو نہیں کرے گا! جو جی میں آئے پڑھ سکتے ہیں، شاعری کر سکتے ہیں، زندگی کے مزے لوٹ سکتے ہیں اور تم ایسے لوگوں کو جیل کی ہوا کھانے سے جتنا ممکن ہو بچا سکتے ہیں۔ کئی فرانسیسی دانشوروں کی طرح طوائف بننے سے یہ کہیں بہتر ہے۔ میرا مطلب ہے ذرا برنارڈ ہنری لیوی کو تو ذرا دیکھو‘! جب بھی میرا دوست بیرونِ ملک سے واپس آتا تو دانشور سے سپاہی بننے والے سیاسی کارکن اس سے ڈیریڈا، ڈیبرے اور باڈرلراڈ کے نسخے لینے پہنچ جاتے جو میرا دوست پیرس سے لے کر آتا،۔ میرے دوست کا کہنا ہے: ’اور کچھ ہو نہ ہو، یہ غالباً دنیا کی سب سے پڑھی لکھی خفیہ ہے‘۔
55۔ روزنامہ L`Orient-Le Jour بیروت، سے انٹرویو، 18مئی 1971ء بحوالہ
Ba`ath versus Ba`ath: The Conflict Between Syria and Iraq 1968, London and New York, 1990 by Eberhard Kienle.
56۔ 1967ء کی جنگ کے بعد میں شام کے وزیر اعظم ڈاکٹر یوسف زویان اور دیگر بعث رہنمائوں سے ملا۔ زویان کو یقین تھا کہ شام ’مشرق وسطیٰ کا کیوبا‘ بن جائے گامگر ان کی یہ رجائیت دوسروں کو متاثر کرنے والی نہ تھی، اس ملاقات کا مختصر سا ذکر میری کتاب ’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘، لندن، نیو یارک، (اردو ترجمہ لاہور۔ از مترجم) میں موجود ہے۔ کتاب کی اشاعت کے بعد ایک روز لندن کی ایک گلی میں مجھے ایک بوڑھے عرب جوڑے نے روک لیا۔ وہ زویان کے دوست تھے۔ زویان کو پتہ چلا تھا کہ میں نے ان کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اور وہ یہ کتاب دیکھنا چاہتے تھے۔ کیا میں انہیں یہ کتاب بھیج سکتا ہوں؟ یقینا، میں نے ایک کاپی ارسال کرنے کی حامی بھری۔ مگر وہ ان دنوں رہ کہاں رہے ہیں؟ جواب ملا ’بڈاپسٹ میں‘۔ میں نے سوچا کہ حافظ الاسد کی بغاوت کے بعد زویان کو ہنگری کی حکومت نے سیاسی پناہ دیدی ہوگی۔ ایسے کتنے ترقی پسند تیسری دنیا کے رہنما ہیں جو آج بھی روس یا مشرقی یورپ میں رہ رہے ہیں؟ کیا انہوں نے خود کو از سرِ نو حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے؟ زویان ایڈنبرا کے تربیٹ یافتہ میڈیسن ڈاکٹر تھے، مگر اور بھی تو کتنے ہی تھے۔ کیا وہ سب بزنس مین بن گئے؟
57۔ بعث، بعث اور شام، عراق کش مکش پر تفصیل کیلئے دیکھئے:
Ba`ath versus Ba`ath by Eberhard Kienle
جس سال کینلی کی کتاب شائع ہوئی اسی سال ان کے تھیسس کو حالات نے درست ثابت کر دکھایا کہ شام پہلی جنگ خلیج میں امریکہ کے بنائے ہوئے اتحاد میں شامل ہو گیا حافظ الاسد کے بعد تخت نشین ہونے والے ان کے حاحبزادے بشیرالاسد دوسری جنگ خلیج 2003 ء میں زیادہ محتاط ثابت ہوئے ۔ وہ واحد عرب رہنما تھے جنہوں نے سرعام کہا کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کی شکست بارے پر امید ہیں۔ اس بیان کا مقصد عرب یکجہتی کا اظہار کم اور ذاتی حفاظت زیادہ تھا لیکن یہ بات بہر حال تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ثابت ہوئی۔ موجودہ صورت حال کے لئے دیکھئے:
Charles Glass, ‘Is Syria Next’, London Review of Books 24, July 2003
fratelli, Coltelli ٭
58۔بحوالہ:
To kill a Chinese Mandarin, by Carlo Ginsburg, in his Wooden Eyes : Nine Reflections on Distance, London, 2002.
59۔فلسطینی سکالر حانا باطاتو نے بعد ازاں دوجلدوں پر مبنی شام پر ایک کتاب تصنیف کی جو ان کی وفات سے ایک سال قبل 2000 ء میں شائع ہوئی۔ بصیرت سے بھر پور بے حد معروضی اور بلاکی تحقیق پر مبنی یہ ایک شاندار کتاب ہے۔ اس میں نہ صرف مصنف نے کسان طبقے اور اس کے مذہبی اعتقادات کی تاریخ بیان کی ہے بلکہ بعث اور اسد آمریت کے ابتدائی دور کاجائزہ لیا ہے، گاہے گاہے مصنف نے اس کام کے لئے واقعات کے عینی شاہدین اور متحرک کرداروں سے انٹرویوز پر بھی بھروسہ کیا ہے یوں یہ کتاب لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1990 ء کی دہائی میں لکھتے ہوئے حانا باطاتو نے اصل موضوع سے ہٹ کر بہت کچھ لکھا۔ میرا پسندیدہ باب نمبر 16 ہے: حقائق زندگی اورجمہوری نعرہ بازی بارے چند بنیادی مشاہدات۔ اس باب میں وہ لکھتے ہیں کہ ’حافظ الااسد اور امریکی سیاستدانوں میں ایک بات مشترکہ ہے: بلاکی ’’جمہوری ‘‘نعرہ بازی۔ ان کے عوامی بیانات میں تو عوامی طاقت کو رومانی رنگ دیا جاتا ہے مگر ان کے عمل دیکھو تو لگتا ہے عوام ان کے افق پر کہیں نمودار نہیں ہوتے ماسوائے جب کسی بحران کا سامنا ہو یا بے چینی پھیل رہی ہو یا عوامی بیداری پیدا ہو رہی ہو‘۔ دونوں میں فرق کا جائزہ لیتے کے بعد مصنف نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے … ’امریکہ جیسے ملک میں ایسے میں عوامی امور اندر عوام کا کتنا عمل دخل ہے کہ جب سیاست پر بڑے بڑے کاروباری اداروں اور ہمالیہ ایسے ریاستی وفوجی کمپلیکس غالب ہیں جبکہ رائے عامہ کو ہموار اور گمراہ کرنے کے لئے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں‘۔ دیکھئے :
Syria’s Peasantry, the Descendants of Its Lesser Rural Notables and Their Politics, Princeton, 1994
از حانا باطاتو،ص:204-7
60۔آج یہ ریاستیں پوری دنیا میں سب سے مہنگے سامراجی پٹرول اسٹیشن ہیں جنہیں ایسے سنکی فرنچائز ہولڈرز چلارہے ہیںکہ جن کے سر پر علاوہ اور باتوں کے یہ جنون بھی سوار ہے کہ عمارت سازی میں شکاگو اور شنگھائی کا مقابلہ کیا جائے گو ان کا انفراسٹکچر غیر ملکی قوتِ محنت پر منحصر ہے۔
61۔بہت سے پابند سلاسل ہوئے اور تشددکا نشانہ بنے۔ 1969ء میں سنٹرل کمانڈر دھڑے کے رہنما عزیز الحج جو پارٹی کے ایک اہم نظریہ دان تھے، کو بغداد کے مضافاتی علاقے سے گرفتار کر لیا گیا۔ سیاسی لحاظ سے مایوس جیل اور تشدد کا مقابلہ کرنے کی ہمت سے عاری اس رہنما نے سب کچھ ترک کر کے سرِ عام تائب ہونے کا وعدہ کر لیا۔تشدد سے مجبور ہو کر کوئی کارکن اگر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اخلاقی ضابطوں کے تحت اس بارے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اکثر مزاحمتی تحریکیں اس بات کو سمجھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارکنوں کو بہت زیادہ باخبر نہیں رکھاجاتا، عزیز الحج البتہ سنٹر کمانڈ کا سب سے معروف رہنما تھا۔ اسے سب معلوم تھا۔ عزیز الحج نے ٹی وی پر انٹر ویو دیا، یہ انٹر ویو محمد الصحاف نے کیا (اس شخص نے بعد ازاں دوسری خلیجی جنگ 2003ء کے دوران بطور بعث وزیر اطلاعات سائبر ورلڈ میں گویا اوتار کا دوجہ حاصل کرلیا) عزیز الحج نے سنٹرل کمانڈ کے تمام ارکان سے کہا کہ وہ بعث کی حمایت کریں۔ عزیز الحج نے اگر دوران تشدد سب راز اگل دیے ہوتے تو اور بات تھی۔ بادشاہت کے دوران یہ شخص نکرت السلیمان ایسی جیل میں دس سال گلتا سڑتا رہا۔ دوران مقدمہ اس نے بہادری سے عراقی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت کا دفاع کیا اور اس زمانے میں وہ بے شمار طالب علموں کا ہیرو تھا۔
عزیز الحج نے سیاسی سجدہ کیا تو ان لوگوں نے اس پر ملامت کی کہ جو عزیز الحج کی باتوں میں آکر مسلح جدوجہد کے راستے پر چلے اور اس راہ میں کئی عزیزوں اور ساتھیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عزیز الحج نے اپنے ساتھیوں کے نام پتوں پر مشتمل فہرستوں کی تصدیق کی جن کی اکثریت کو پکڑ کر مار ڈالا گیااور ان کے خاندانوں کو مسلسل ہراساں کیا جانے لگا۔ یہ غیر ضروری اور ناقابل معافی تھا۔ خود ستائی پر مبنیٰ یادداشت میں عزیز الحج لکھتا ہے کہ کس طرح صدام حسین اس سے جیل میں ملنے آئے اور کس طرح انہیں جیل میں لکھنے پڑھنے کی ہر سہولت موجود تھی۔ کس طرح صدام کا ایک نائب لینن کی تصنیفات کی تمام 45جلدیں انگریزی زبان میں اسے پہنچا کر گیا اور اسے مزید خوش کرنے کے لئے کس طرح قوم پرست دور کا ایک سابق وزیراعظم جو شدید کمیونسٹ دشمن تھا، عزیز الحج کا کمرہ صاف کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ ادھر عزیز الحج کی انا کا مساج ہورہا تھا ادھر مخبرات والے اس کے اُگلے ہوئے ناموں کے ذریعے کارکنوں کو پکڑ رہے تھے۔ زندگی بھر کی کمائی دن بھر میں لٹادی گئی تھی۔ عزیز الحج تقلید پرست(آرتھو ڈاکس) کمیونسٹ تھاپھر مائوازم گویرا ازم سے متاثر ہوا۔ بعد ازاں بعث کے ساتھ جاملا اور وفاداری کے ساتھ مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتا رہا،آخری ملازمت یونیسکو میں کی۔ آج کل اس کا نام باقاعدگی کے ساتھ سعودی نواز ویب سائٹس پر ایک ایسے شخص کے طور پر نمودار ہوتا ہے جو عراق پر موجودہ قبضے کا زبردست دفاع کرتا ہے۔ اگر لُوٹوں کے لئے نوبل انعام ہوتا تو عزیز الحج خاصا مضبوط امیدوار تھا۔ لندن سے شائع ہونیوالے عرب اخبار اکزمان الزمان میں اس نے تائب ہونے کے حوالے سے ایک مضمون لکھا، جو مئی 2002میں شائع ہوا جس میں پیش کی گئی تفصیل تھوڑی مختلف ہے:
وہ (3اپریل1969ء والا) انٹرویو بلاشبہ میری سیاسی زندگی کا ایک سفلی دور تھا جو ربع صدی پر مشتمل ہے۔ وہ سارے لوگ جو اس انٹرویو پر برانگیختہ تھے وہ برحق تھے۔ میں عام کارکنوں اور پارٹی ہمدردوں کے رد عمل کو سمجھتا بھی ہوں اور اس کی قدر بھی کرتا ہوں۔ میں سچے محب وطن لوگوں کی تنقید بلکہ ملامت کو تسلیم کرتا ہوں لیکن میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ اس انٹرویو کے نتیجے میں جبربڑھ گیا۔ اس کے برعکس جبر میں کمی ہوئی اور بے شمار سیاسی قیدیوں کے حالات بہتر ہوئے اور مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اگر میں وہ مؤقف اختیار نہ کرتا تو بے شمار دیگر ساتھی بھی سولی پر لٹک جاتے۔
(عربی مترجم کا نوٹ: نام پتوں کی فہرستوں میں نشاندہی کے بعد جلاد اپنا کام پہلے ہی دکھاچکا تھا۔ آج بھی عزیز الحج کیوں سچ کا سامنا کرنے پر تیار نہیں؟)
انٹر ویو کا آغاز میری شہرت کے لئے بے حد مضر تھا یہ حصہ دراصل مجھے پھانسنے کے لئے اور سیاسی سماجی طور پر دفن کرنے کے لئے ایک جال تھا۔الصحاف نے یہ پوچھ کر مجھے حیران کر دیا کہ سنٹرل کمانڈ کے رہنما کون تھے؟ یہ حیران کن اور شرمندہ کر دینے والا سوال تھا اور بجائے اس کے کہ میں گول مول جواب دیتا مثلا یہ کہ آپ انہیں جانتے ہی ہیں اور وہ سب جیل میں ہیں۔ میں نے چند ایسے ساتھیوں کے نام بتا دئیے جو پابندِ سلاسل تھے۔ ایسے ناظرین جوصورتِ حال سے ناواقف تھے سمجھ رہے تھے کہ میں اپنے ساتھیوں سے غداری کر رہا ہوں۔ (عربی مترجم کا نوٹ:حرامی)
اس کے بعد سیاسی سوالوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ بعث اور بعث حکومت کرد مسئلے اور مسلح جدوجہد کے لئے سنٹرل کمانڈ(یعنی ہماری پارٹی کی سرگرمیوں) بارے مؤقف۔ ان سوالوں کے جو جواب میں نے دئیے وہ برے سے بھی برے تھے‘)۔
عربی سے ترجمہ ایف وہاب نے اس شرط پر کیا کہ ان کے تاثرات شامل کئے جائیں گے
62۔ جب حافط الاسد کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا تو جلد ہی شام کی اعلیٰ عسکری قیادت بلکہ مخبرات اندر بھی علوی فرقے کا غلبہ ہو گیا کہ حافظ الاسد بھی علوی تھے۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے:
Syria’s Peasantary از حانا باطوتا، ایضا
63۔ سعدی یوسف نے اپنی نظم ’’اتمام‘‘ بہت بعد میں، کسی اور ملک میں لکھی مگر یہ نظم عرب دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی کو پیش آنے والے المیے کا خوب احاطہ کرتی ہے:
آغازِ سفر تھا
برق رفتار روانگی سے گماں گزرتا
کہ ساری دھرتی پائوں تلے روند ڈالیں گے۔
گرے تو یوں گویا
کمرے کے کونے میں
سورج کا سایہ پڑا ہوجیسے
64۔سلطنتِ عثمانیہ کے انہدام اور نئے حکمرانوں کے ہاتھوں نئی ریاستوں کے قیام کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرد ہر طرف سے گھیرے میں آ گئے۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد کرد وہ قوم تھی جو اپنی ریاست کے لئے بے چین تھی اور ترکی ایران و عراق میں بسنے والے کردوں پر مبنیٰ ایسی ایک ریاست کا قیام عین ممکن تھا مگر ایسی کوئی ریاست اس وقت سلطنتِ برطانیہ کے مفاد میں نہ تھی سلطنتِ برطانیہ کہیں اور مصروف تھی اور کردوں کے پلے ایسا کچھ نہ تھا جو وہ سلطنت کی بھینٹ چڑھا سکتے وہ دن اور آج کا دن کردوں کا متواتر استعمال ہورہا ہے اور استحصال ہورہا ہے۔ اس حوالے سے ترک جمہوریہ کو بہرحال ایک اعزاز حاصل ہے۔ ترکی نے ہمیشہ سے یہ کوشش کی کہ کردوں کو اپنے اندر سمو لو۔ ان کے پیش نظر فرانسیسی ماڈل تھا شہریت ’جی ضرور‘ مگر قومیت نامنظور، کردوں کو ماں بولی کا حق تک نہ دیا گیا اور جبر کی انتہا کر دی گئی۔ ترکی چونکہ ناٹو کارکن تھا ساتھ ہی ساتھ ترکی ہر ایسے دفاعی معاہدے میں شامل تھا جسے امریکی آشیر باد حاصل تھی، (مثلا بغداد پیکٹ جو اپنے انہدام کے بعد سینٹو کے نام سے پہچانا گیا) لہٰذا ترکی نے ملک میں موجود کردوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی البتہ عراق میں موجود کردوں کو بوقت ضرورت ضرور استعمال کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ پی کے کے سخت گیر مؤقف اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ مگر سخت گیر ہونے کے ساتھ ساتھ پی کے کے اصول پرست بھی تھی کہ کبھی غیر ملکی طاقت کے ہاتھ استعمال نہ ہوئی۔ عراقی کردوں کو ماں بولی یا تعلیم کا حق تو حاصل تھا مگر ان کی بڑی تنظیمیں خوشی خوشی ہر اس بیوپاری کے ہاتھ بکنے کو تیار تھیں جو زیادہ بولی لگائے: ایران، اسرائیل حتیٰ کہ بغداد۔
65۔کسی امریکی اخبار کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان پھانسیوں یا کردوں پر ہونیوالے مظالم کی مذمت کرے۔
66۔اس خدشے کے پیشِ نظر کہ کہیں اردن والے یہ کام خود ہی کامیابی سے سر انجام نہ دے لیں اور یہ کہ براہِ راست اسرائیلی مداخلت کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے، امریکہ کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی اے) نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ پاکستانی سپاہیوں اور افسروں پر مبنیٰ ایک دستہ بھی موقع پر موجود ہو۔ اس دستے کے سپاہیوں کو تنخواہ پر بلایا گیا تھا اور یہاں ان کو پاکستانی تنخواہ سے تین گنا زائد دیا گیا۔ اس لشکری دستے کے سالار بریگیڈیئر ضیاء الحق نے سیاہ ستمبر 1970ء کے واقعات میں ’’ہیرو‘‘ کا کردار ادا کیا اور اس کے صلے میں انہیں اردن کا اعلیٰ ترین اعزاز دیا گیا: مشکور بادشاہ کی جانب سے رخسار پر بوسہ۔ انہیں اصل صلہ 1977ء میں ملا جب ڈی آئی اے انہیں مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا۔ اب وہ جنرل اور چیف آف سٹاف بن چکے تھے۔ انہوں نے ملک کے سیاسی کلچر کو تباہ کر کے رکھ دیا موجودہ عہد کی سامراجی اصطلاح میں انہیں ’’بابائے دہشت گردی‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ تمام گروہ (بشمول القاعدہ ہائی کمانڈ) جو آج واشنگٹن کے گلے پڑے ہیں وہ ان صاحب کی منظوری اور زیر نگرانی تیار کئے گئے تھے۔
1988میں موصوف طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے میں امریکی سفیر اور ان کا کتا بھی ہلاک ہوا۔ اس کتے کو اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں جانا پہچانا جاتا تھا اور اس کی موت کے بعد اس کتے کی کمی کو محسوس کیا جاتا تھا۔
67۔یہ حقیقت کہ داخلی توجیہات خارجی پالیسیوں کا تعین کرتی ہے، عموماً نظر انداز کی جاتی ہے، یہ بات عظیم سلطنتوں سے لیکر کمزور ریاستوں تک سب پر صادق آتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے محبِ وطن انحراف کا غیر محب ہڑتالوں اور سامراج مخالف تحریکوں پر تبصرہ کرتے ہوئے 31مارچ 1917ء کے اکانومسٹ نے لکھا: جولائی 1914میں، سیاسی میدان میں صورتِ حال یہ تھی کہ ہم آئرش مسئلے پر خانہ جنگی کی طرف جارہے تھے جبکہ صنعتی میدان میں صورتِ حال یہ تھی کہ ہم ایسی عام ہڑتال کی طرف بڑھ رہے تھے جو کسی طور خانہ جنگی سے کم نہ ہوتی۔ ہم سنجیدہ صنعتی گڑ بڑ کے دہانے پر تھے کہ جنگ نے ہمیں آنا بچایا کیونکہ جنگ نے آجر اور اجیر کو حب الوطنی کے مشترکہ مقصد سے روشناس کرادیا۔
68۔خمینی کو شاہ ایران نے دیس نکالا دیا تو وہ نجف میں پناہ گزین ہوئے انہیں خوب علم تھا کہ 1977ء میں انہیں عراق چھوڑنے کا حکم امریکی آشیر باد سے ہونے والے ایران، عراق معاہدے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ1975میں الجزائر میں طے پایا تھا۔ یہ سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر انہیں نجف ہی میں رہنے دیا جاتا تو کیا ہوتا؟
٭ Surreal
69۔ سویت یونین یا یوایس ایس آر 1917ء میں زار شاہی روس اندر بالشویک انقلاب کے باعث قائم ہوا۔ دوسری جنگ عظیم 1939-45کے بعد لگتا تھا سویت روس عالمی منظر نامے کا مستقل حصہ ہے جبکہ مشرقی یورپ اس کے اثر میں تھا اور چین ویت نام کوریا اور کیوبا سے اس کے اچھے تعلقات تھے۔ 1917-89ء کا دور گرم و سرد جنگوں کا دور تھا جب کہ ایسے ممالک جو ان دو دھڑوں سے وابستہ نہ تھے ایسے ممالک میں دونوں دھڑے اثرورسوخ کے حصول کے لئے اقتصادی جنگ میں مصروف تھے۔ اس نظام کے خاتمے کا آغاز 1965ء میں روس چین تقسیم سے شروع ہوا،اور یہ سلسلہ 1990ء میں اس وقت اختتام کو پہنچا جب سوویت روس کی کمیونسٹ پارٹی نے ماضی سے منہ موڑتے ہوئے اکثر پرانی عادات تبدیل کئے بغیر مشرف بہ سرمایہ داری ہونے کافیصلہ کر لیا۔ سوویت روس کے انہدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی ریاستیں وجود میں آگئیں اور ان میں سے اکثر ریاستوں اندر اس وقت امریکی فوج موجود ہے۔ خفیہ پولیس کا ایک سابق کل پرزہ اس وقت روس کا صدر ہے جب کہ خفیہ پولیس کے سابق کل پرزے کا بیٹا اس وقت امریکہ کا جزوی منتخب صدر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت روس کے انہدام کی صورت جمہوری ادارے کمزور ہوئے ہیں جبکہ پورے شمالی امریکہ اور یوروزن میں کارپوریشن مضبوط ہوئی ہیں۔ اگر امریکہ اور برطانیہ اپنی آبادی کے بڑے حصے کو تعلیم اور صحت کی مناسب سہولیتیں فراہم نہیں کر سکتے تو افغانستان تو ایک طرف رہا عراق بھی کسی نیوڈیل (New deal) کے نتیجے میں جنت بننے سے رہا۔
70۔اسرائیلی وزیر اعظم سرِ عام کہتے کہ ’’گویم گویم سے لڑے ہم بیٹھے تماشا دیکھیں‘‘ مگر یہ بیان بازی محض اسرائیلی عوام کے لئے تھی۔ اسرائیلیوں اور ایرانی ملائوں کے مفاد میں تھا کہ اس سودے بازی کو خفیہ رکھا جائے۔
71۔Efraim Karsh. The Iran- Iraq war: Impact and Implictions, London, 1989.p.130
72۔افلاقی بعث پارٹی کے بانی مشعل افلاق کے نام کو فحش گو موثر انداز میں بگانے کی کوشش تھی۔ عربی میں افلاق عورت کے نازک حصوں کو بھی کہاجاتاہے۔ بعث وادیوں کو ان کے حریف شام اور عراق میں بھی اس نام سے پکارتے۔ اگر بعث وادی جواباً یہ کہتے کہ افلاق عربی نام نہیں تو ان کی قوم پرست ساکھ پر حرف آتا اگر وہ اسے عربی نام تسلیم کرتے تو مخالفین ان پرہنستے اور کہتے تمہاری پارٹی کا نام یہی ہونا چاہئے تھا۔ ایرانی ریڈیو پر ایسی اصطلاح نشر کیا جانا خاصی بہادری کی بات تھی کہ شام ایران کی حمایت کر رہا تھا گو افلاق سے حافظ الاسد کی دشمنی بارے بھی سب کو علم تھا۔
73۔کیاکیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر برطانوی یا امریکی میڈیا میں شور مچا؟ کیا سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں اسلحہ انسپکٹر عراق بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہو؟ کیا پابندیوں کی دھمکی دی گئی؟ ایسی باتیں بھول جائیے۔ اسلحہ بھی مغرب نے دیا تھا اور اسے استعمال کرنے کی تربیت بھی۔2003ء میں ہونے والی جنگ اور قبضے کے خلاف احتجاج کرنے والے بائیں بازو نے صدائے احتجاج بلند کی؟ جی ہاں، مجھے یاد ہے میں نے جیرمی گوربن (Jermy Gorbyn)بے شمار کردوں اور دیگر لوگوں کے ہمراہ عراقی سفارت خانے کا گھیرائو کیا۔ کیمیائی ہتھیاروں پر میڈیا میں راست بازوں نے جب شور مچایا جب 1990ء کے بعد صدام حسین کو مغربی مفادات کا دشمن سمجھا جانے لگا۔
74۔قرش۔ ایضاً
75۔ تیل کی دریافت سے قبل اور بعد میں اس نخلستانی زندگی کی بہترین تصویر کشی عبدالرحمن منیف کے ناول ’نمک کے شہر‘ میںملتی ہے۔
76۔ دیکھئے The Kuwait Incidentاز رچرڈ گوٹ (Richard Goot)سروے آف انٹر نیشنل افیئرز ایڈیٹر ڈی سی واٹ (D.C Watt) آکسفورڈ 1965۔
1961ء کے بحران بارے اس مضمون میں ایک نوجوان برطانوی تاریخ دان نے جورائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں تعینات تھا، خوب جائزہ لیا ہے۔ جان گٹنگز (Jhon Gittings) کے ہمراہ، جو اس انسٹی ٹیوٹ میں متعین ایک اور باصلاحیت نوجوان سکالر تھے، گوٹ نے جو نقطہ نظر وضح کرنا چاہا اسے پذیرائی نہیں مل سکتی تھی۔ نتیجتاً یہ جوڑا فرار ہو کر گارڈین پہنچ گیا۔ ان کے کئی دفتری ساتھیوں نے اس پر اطمینان کا سانس لیا ہوگا۔ البتہ ان دونوں کا جھکائو خطرناک تیزی کے ساتھ بائیں بازو کی جانب ہونے لگا اور دونوں نے عالمی حالات و واقعات کو نیارنگ دینا شروع کر دیا۔ گوٹ نے لاطینی امریکہ کی انقلابی تحریکوں سے شادی کر لی جبکہ گٹنگز نے مائونواز انقلاب سے منگنی کا اعلان کر دیا۔ دونوں بچے رہے اور گیدڑوں کی نئی نسل کے برعکس آج بھی اپنے نظریات پر قائم ہیں۔
٭OPEC
77۔تاریخ دان پیٹر سلگلیٹ کہ جن کی بعث سے نفرت بعض اوقات ان کو غیر معروضی بنا دیتی ہے، اس ملاقات بارے لکھتے ہیں : یہ تو ممکن ہے کہ گلاس پائی نے کوئی ایسا اشارہ دیا ہو جس سے یہ تاثر ملتا کہ اگر عراق نے کویت سے سرحدوں کا تعین کرنے کی کوشش کی یا کویت کے رومیلا آئل فیلڈ پر قبضہ کر لیا یا خاموشی سے کویت کے چھوٹے چھوٹے جزیروں، بابیان اور واربہ پر قبضہ کر لیا(عراق خلیج میں اپنی بحری سرحد کو توسیع دینے کے لئے عرصے سے ان جزیروں کو پٹے پر لینے میں دلچسپی رکھتا تھا) تو امریکہ اس بات پر توجہ نہیں دے گا البتہ صدام حسین کا یہ فرض کر لینا جیسا بعد میں دعویٰ کیا گیا کہ انہیں بھرپور حملے کے لئے امریکی آشیر باد مل گئی ہے گویا ’’جاگتے میں خواب دیکھنے والی بات‘‘ تھی۔ دیکھئے:
Marion Farouk Sluglett and Peter Sluglett Iraq Since1958 . From Revolution to Dictatorship, London, 1980
اس کے برعکس دیکھئے اختتامیہ جس میں کرسٹو فر ہچنز نے جنگ نواز حلقے کے بخئے ادھیڑے ہیں۔
لیکن کیا یہ محض خوش فہمی تھی۔ ابھی ابھی صدام نے مغرب کی پشت پناہی سے ایران کے خلاف بھرپور جنگ لڑی تھی۔ ایران کے مقابلے پر کویت کی حیثیت ہی کیا تھی۔ مغرب نے اگر ایران پر ان کے حملے کی پروا نہ کی تو وہ کویت بارے کیوں فکر میں مبتلا ہوگا۔ گلاس پائی کی مفاہمت
کو سمجھنے میں غلطی کی گئی۔کیا گلاس پائی کو صدام کی بات پوری طرح سمجھ آئی تھی؟ وہ ایسی ناسمجھ نہ تھیں۔ انہیں معلوم تھا ایران میں کیا ہوا۔ کیا انہیں یقین تھا کہ جوبات کی جارہی ہے اس کا مفہوم سرحد میں معمولی تبدیلی بنتا ہے؟ کیا انہیں قطعاً علم نہ تھا کہ عراق کے مختلف النوع حکمرانوں کی نظر میں کویت کی تاریخی حیثیت کیا رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی ڈھکا چھپا سوال نہیں کہ صدام کو گلاس پائی کی بات سے یہی لگا کہ حملے کی اجازت مل گئی ہے۔ آئیے ا س بات کو ذرا مختلف زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا کہ گلاس پائی نرمی برتے بغیر سیدھا سیدھا پوچھتیں: جناب صدر! کیا آپ ایران کی طرح کویت پر حملے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہوتا جیسا کہ ہونا تھا تو گلائی پائی کہہ سکتیں تھیں: میں ابھی جا کر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے بات کرتی ہوں اور کل آکر اس بحث کو آگے بڑھائیں گے۔ اگر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اس منصوبے کو رد کر دیتا اور تنبیہ کرتا کہ حملے کی صورت مغرب دوستی توڑ دے گا تو کیا اس صورت بھی صدام کویت پر حملے کی جرأت کرتے؟
78۔گوربا چوف اور ان کے ساتھیوں نے تمام امیدیں بش اور تھیچر سے وابستہ کر رکھی تھیں اور انہیں توقع تھی کہ یہ دونوں انہیں روس کو سکینڈے نیویا ایسی سوشل ڈیموکریسی بننے میں مدد دیں گے یوں روس کی عالمی سطح پر حیثیت صفر ہو چکی تھی۔ روسی رہنمادیکھ رہے تھے کہ کیا ہورہا ہے انہوں نے آخری لمحے جنگ رکوانے کی مایوس کن کوشش کی اور ناکام رہے۔
٭Vietnam Syndrome
79۔George Bush and Brent Scowcraft, A world Transformed , New York, 1999.p400
صدر بش کی صدارتی مدت کے بارے سیاسی یاداشت پر مبنیٰ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اس میں بے باکی سے اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ کس طرح پرانی دوستیاں اور خاندانی تعلقات امریکہ اندر بھی اعلیٰ سطحی عہدوں کو حاصل کرنے میں کام آتے ہیں یوں حانا باطاتو کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ شام کے بعث وادی امریکی سیاست اندر اجنبیت محسوس نہ کریں گے۔
80۔بش کا بیٹا اور اس کا جونیر پارٹنر بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایک نجی گفتگو میں ٹونی بلیئر نے 2003ء کی جنگ کے بعد گارڈین کے سنیئر صحافیوں کو آف دی رکارڈ بتایا کہ جنگ کی بڑی وجہ مستقبل میں جنگوں کو روکنا ہے۔ تہران اور پیانگ یانگ کو ایک دھمکی ہی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔ یوں عراق میں جو جنگ ہوئی اس کا مقصد تھا کہ تمام جنگوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ محض دھمکی سے کام چل جائے گا۔ شمالی یورپ کے ایک نسبتاًدرمیانی تقطع والے ملک کے رہنما کی یہ گھٹیا باتیں جنوب سے تعلق رکھنے والے ایک اور ملک کو دھمکی صرف اس کارن ممکن ہیں کہ برطانوی وزیر اعظم کی نظر میں اب امریکی صدر کا پچھواڑہ ہی ان کی قدرتی آماجگاہ ہے۔ اس آماجگاہ کو دیگر یورپی رہنمائوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر قسم کا جھوٹ دھوکہ دہی، جنگ غرض سب رواکھاجاتا ہے۔
81۔افغان جنگ میں حصہ لینے والے بے شمار جہادی جوالجزائر، مصر، سعودی عرب اور پاکستان لوٹ کر آئے تو انہیں اس بات کا یقین تھا کہ انہوں نے بغیر کسی کی مدد کے سوویت روس کو شکست دی تھی وہ پاکستانی فوج اور اس کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ بہادر کے کردار کو پس پشت ڈال دیتے۔ یہ خود ساختہ تصور کہ ان کی فتح اللہ کی دین ہے ان کے بے پایاں اعتماد کی بنیاد بن گیا۔
82۔یہ گفتگو گیار ستمبر 2001ء کے کچھ عرصہ بعد ایک ایسی معتبر سعودی شخصیت نے مجھے سنائی جو اپنے ملک کی افسر شاہی سے خاصا قریب ہے۔
83۔ اس کے برعکس مشترقی تیمور پر سہارتو کے قبضے کو امریکی آشیر باد حاصل تھی کہ (ا) وہ انڈونیشیا کے آمر پر مکمل بھروسہ کرتے تھے(ب) سرد جنگ ہنوز جاری تھی(د) مشرقی تیمور میں تیل کے ذخائر تھے۔
84۔یواین ہیومینیٹیرین کو آرڈی نیٹر اور سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ڈینس ہالیڈے نے 1998ء میں ان پابندیوں کے خلاف یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیدیا کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ ان کی جگہ آنے والے ہانس وان سپونک نے جو اعدادوشمار ترتیب دئیے ان میں ایسے لوگوں کو بھی شمار کیا جو کلنٹن اور بلیئر کے بم حملوں کا شکار بنے۔ ان کی اس حرکت پر بمباروں کو شدید طیش آیا۔ وان سپونک نے بھی سال بعد استعفیٰ دیدیا کیونکہ وہ اس ملک کے عوام کو سزا دینے پر تیار نہ تھے ان کا کہنا تھا کہ عراق کے سماجی تانے بانے میں شگاف ہر ماہ پہلے سے بڑا ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تیل کے بدلے خوراک والی پابندیوں کے ذریعے اس ملک کو اقوام متحدہ اور ریا ست ہائے متحدہ نے اپنے شکنجے میں لے رکھا تھا کہ اس بات کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں تھا کہ عراق کتنا تیل برآمد کر سکتا ہے۔
1996ء سے عراق محض چار ارب ڈالرکی برآمدات کر سکتا تھا جبکہ سات ارب ڈالر برآمدات کرنا ضروری تھا تاکہ قومی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ پابندیوں کے ہو مینیٹیرین حامی صدام کو موردِ الزام ٹھہراسکتے ہیں مگر اقوام متحدہ کے اہل کار اور اہلِ عراق ان پابندیوں کا ذمہ دار مغرب کو سمجھتے تھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ 2003ء میں قبضہ کرنے والی افواج کو اس قدر نفرت کا سامنا کیوں ہے؟
85۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سکول آف بزنس اینڈ پبلک مینجمنٹ کے پروفیسر تھامس جے نیگی(Thomas J Nagy) مسلسل یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ امریکی حکومت نے جان بوجھ کر عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ذیل میں ان کے تفصیلی مضمون سے بھی اقتباس پیش کیا جارہا ہے جو دی پرو گریسو میگزین میں شائع ہوا اور زی نیٹ (Z. Net) پر 3جون2003ء کو پوسٹ ہونے والے ان کے انٹرویو سے اقتباس بھی موجود ہے جس میں ڈی آئی اے کی ان ویب سائٹس کے حوالے موجود ہیں جس سے معلومات اخذ کی گئیں:
پچھلے دو سال اندر میں نے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی ایسی دستاویزات تلاش کی ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ جینوامعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی حکومت نے جان بوجھ کر عراق پر لگی پابندیوں کو جنگ خلیج کے بعد وہاں کا واٹر سپلائی نظام تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ عراقی شہری بالخصوص بچے ان پابندیوں کی کیاقیمت چکا رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود امریکی حکومت نے پابندیوں پر عمل درآمد جاری رکھا۔
اس ضمن میں بنیادی دستاویز Iraq Water Treatment Vulnerabilitiesہے جو 21جنوری 1991ء کو جاری ہوئی۔ اس میں واضح طور پر درج ہے کہ کس طرح پابندیوں کے نتیجے میں عراق اپنے شہریوں کو صاف پانی فراہم کرنے سے عاری ہو جائے گا۔(ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی) کی یہ دستاویز سرد لہجے میں بتاتی ہے کہ کیا ہوگا۔ مطلوبہ کیمیائی مواد اورDesalination Membraneکی عدم موجودگی کے باعث عراق کو صاف پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔ اگر عوام نے پانی ابال کر پینے کی احتیاط نہ برتی تو بیماریاں حتیٰ کہ وبائیں بھی پھیل سکتی ہیں اس دستاویز میں عراق کے واٹر سپلائی نظام کی تباہی کا میزانیہ بھی دیا گیا ہے۔ عراق کا واٹر سپلائی نظام ایک دم سے تباہ نہ ہو گا بلکہ دھیرے دھیرے جام ہوگا۔ گو عراق پہلے ہی پانی شفاف بنانے کی صلاحیت سے عاری ہورہا ہے مگر اس صلاحیت کو پوری طرح زائل ہونے میں مزید چھ ماہ (جون1991ء) درکار ہوں گے یہ دستاویز جسے 1995ء میں ڈی کلاسیفائی کیاگیا مگر عوام کے سامنے پیش نہ کیا گیا۔ پینٹا گون کی ویب سائٹ www.gulflink.osd.mil پر موجود ہے۔ میں نے یہ دستاویز پچھلے سال جاڑے کے موسم میں دریافت کیںمگر خبری اداروں نے اس میں دلچسپی کم ہی ظاہر کی۔ اس ضمن میں پہلی دستاویز Disease Informationبتاریخ 22جنوری1991ء ہے۔ اس کے آغاز میں درج ہے:
مضمون: عراق میں بمباری کے اثرات جو بیماری کی صورت نکل سکتے ہیں۔
یہ تجزیہ بالکل بے باک ہے۔ بیماری میں اضافے کی وجہ ہوگی بیماری سے بچائو کی عام ادویات کی کمی، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہ ہونا، پانی کو شفاف بنانے اور پہنچانے، بجلی اور بیماری پر قابو پانے کی عدم صلاحیت۔ ہر وہ عراقی شہر جسکا انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے اسے اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
86۔مزید تفصیلات کے لئے میرا مضمون دیکھئے:
Throtling Iraq
جو نیو لیفٹ ریویو 5ستمبر/اکتوبر2000ء کو شائع ہوا۔ پابندیوں کے حوالے سے بہترین تجزیہ ہے:
The Siege of Iraq ,London, 2000
اسے انتھونی ارنو نے مرتب کیا ہے۔
87۔نیویارک ٹائمز 2فروری2003ء۔ جان جے ہیمرشکاگو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں جب کہ اسٹیفن جے والڈ ہارورڈ کے جان ایف کینڈی سکول آف گورنمنٹ میں اکیڈمک ڈین ہیں۔ دونوں کی شہرت بائیں بازو یا عدم تشدد کے پرچارک والی ہرگز بھی نہیں۔ میر ہیمر 1965-71ء کے عرصے میں یومِ مسلح افواج کے موقع پر نیویارک میں ہونیوالی پریڈ میں ضرور جاتے جہاں ویت نام جنگ کے مخالفین باقاعدگی سے ان پر سورکاخون، پیشاب وغیرہ پھینکتے۔
88۔بلئیر کابینہ کی وزیر کلیئر شارٹ جنگ بارے تحفظات رکھتی تھیں اور جنگ شروع ہونے سے قبل انہوں نے استعفیٰ کی دھمکی دے ڈالی مگر انہیں یہ کہہ کر منایا گیا کہ وہ خود اور ان کی وزارت تعمیر نو کے کام میں اہم کردار ادا کرے گی۔
طرفین کی کلبیت حیران کن تھی۔ جنگ کے بعد شارٹ نے استعفیٰ دیدیا یا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا(آپ کس بات پر یقین کر سکتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں) بعد ازاں انہوں نے ہاوس آف کامز کی سلیکٹ کمیٹی کو بتایا کہ بش اور بلئیر نے خفیہ طور پر طے کر لیاتھاکہ ہر صورت جنگ چھیڑیں گے۔ ثبوت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا جنگی تاریخ میں نئی بات نہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس کی ایک مثال تو خلیج ٹونکن کا جھوٹا واقعہ ہے جسے بہانہ بنا کر اس وقت کے امریکی صدر لنڈن جانس نے شمالی ویت نام پر بمباری شروع کی۔ کچھ عرصہ قبل کلنٹن اور بلیئر اور ان کے وزرا خارجہ کک اور البرٹ نے بھرپور مداخلت کے ذریعے رامبولی میں ہونیوالے معاہدے کو ناکام بنایا تاکہ یوگو سلاویہ پر حملہ کیاجاسکے۔
89۔ میں نے مثلا یہ دلیل دی کہ یہ جنگ ذاتی دفاع (افغانستان) کے نام پر لڑی جارہی ہے نہ کسی دوسرے کی حفاظت (بوسنیا، کوسوو) کے لئے۔ اس کا سیدھا سادہ مقصد ایک اہم خطے پر اجارہ داری قائم کرنا ہے۔اگر یہ منصوبہ کامیاب رہا تو یہ 21ویں صدی کے لئے ایک بری مثال ہوگی۔ پیشگی حملے 1930ء کی دہائی میں ہٹلر اور مسولینی کے پسندیدہ ہتھیار تھے جن کو 1967ء میں اسرائیل نے نقل کیا۔ اگر امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا تو بعد از سرد جنگ وجود میں آنے والا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
نیوزویک10مارچ2003صفحہ28
B.Minor, Bach Mass٭
90.Condoleezza Rice, Promoting The National Interest; Foreign Affais January/February2000.
٭ Sarin nerve gas
91.David Usborne, ‘Hans Blix vs The US: I was Undermined,’ Indenpendent 2003
92.’George Wright, Wolfowitz: Iraq war was about oil’;Guardian, 4June,2003
93۔Anatol Lieven,’Dangers Of An Aggressive Approach To Iran’; Financial Times,9 June 2003. p21
مصنف اس بات کا اضافہ بھی کر سکتا تھا کہ ایٹمی یا ثقافتی و عمارتی ورثے کو محفوظ بنانے کی بجائے امریکی افسر سپاہیوں سے ایک اور کام لینے میں مصروف تھے۔ سپاہیوں کے ذمے فوری طور پر یہ کام لگایا گیا کہ وہ الرشید ہوٹل کے داخلی دروازے میں فرش پر کنندہ جارج بش سینئر کی شبہیہ اکھاڑنے میں مصروف تھے۔ یہ شبیہہ اکھاڑ کر وقتی طور پر یہاں صدام حسین کا پورٹریٹ لگایا گیا تاکہ جو امریکی سپاہی ہوٹل میں داخل ہوں وہ پورٹریٹ کو روندتے ہوئے گزریں۔
94۔ بش کے سابق تقریر نگار ڈیوڈ فرام اپنی تصنیف دی رائٹ مین (The Right Man) میں کہتے ہیں’’امریکہ کی قیادت میں صدام حسین کی سبکدوشی اور ریڈیکل بعث حکومت کی جگہ ایک امریکہ نواز حکومت کے قیام کے مطلب ہے کہ اس خطے میں عثمانیہ یا شائد رومیوں کے بعد پہلی بار امریکہ پوری طرح اختیار حاصل کرے گا‘‘۔
95۔Robert Blecher, ‘Free People Will Set The Course of History,: Intellectuals, Democracy and American Empire’ Middle East Report on Time, March 2003, www.merip. Org
96۔ جب کنعان ماکیہ اور دو دیگر غداروں کو گذشتہ جنوری اوول آفس میں شرف ملاقات بخشا گیا (ماکیہ کے بقول ’شاندار استقبال‘ کیا گیا) تو انہوں نے بھی بش کو خوش کرنے کیلئے بتایا کہ حملہ آور امریکی فوج کے آنے پر عراق میں مٹھائیاں بانٹی جائیں گی اور فوجی دستوں پر پھول برسائے جائیں گے۔ حقیقت البتہ تھوڑی سی مختلف ثابت ہوئی۔ دیکھئے نیویارک ٹائمز، 2مارچ 2003ء
97۔ لاس اینجلس ٹائمز کی شہ سرخی، 7اپریل 2003ء جنگ کے پر جوش حامیوں نے بغیر کسی شرمندگی کے عراق پر حملے کا موازنہ ہٹلر کی فتوحات سے کیا۔ دیکھئے فنانشل ٹائمز میں میکس بوٹ کا تبصرہ: ’1940ء میں جنگ کے آغاز پر فرانسیسی بہادری کے ساتھ لڑے۔ بعدازاں البتہ جرمن طاقت اورپیش قدمی کی تاب نہ لاتے ہوئے مزاحمت دم توڑ گئی۔ عراق میں بھی یہی ہوگا‘۔ 2اپریل 2003ء ۔ 1940ء کے بعد فرانس میں جو ہوا اس سے بھی ان کا لوگوں کو کوئی سبق سیکھنا چاہیے۔
98۔ سنڈے ٹائمز، 30مارچ2003ء
99۔ فنانشل ٹائمز 20مارچ 2003ء
100۔ اس جنگ کے پس منظر کیلئے دیکھئے میری کتاب ’’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘‘ میں ’بحردہشت‘ والا باب
Washington Consensus٭
101۔ جب 2003ء میں روس کے صدر ولادیمیرپوٹن، کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، برطانیہ کا دورہ کیا تو انہوں نے اسی قسم کی تجویز پیش کی تھی۔ بعث وادیوں نے سارے عرصے میں اتنے کرد نہیں مارے ہوں گے جتنے چیچن پوٹن نے چھ ماہ کے اندر مار ڈالے۔ پوٹن کا کہنا تھا کہ عراق کواقوام متحدہ اپنی تحویل میںلے لے۔مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح روس کے گماشتہ سرمایہ داروں کو بھی لوٹ میں حصہ مل سکے گا اور چیچنیا میں ان کے کردار پر بھی پردہ ڈالنے میں مدد ملے گی۔
102۔ مودوی ہندوستانی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ گجرات میں جس طرح مسلمانوں کاقتل عام ہوا اس سے پورا ملک کانپ کر رہ گیا۔ معافی مانگنا تو درکنا، مودی نے ذمہ داری تک قبول نہیں کی۔ سرکار کے حکم پر پولیس نے قتل ہوتے مسلمانوں کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تین ہزار مسلمان قتل ہوگئے جبکہ ہزاروں بے گھر۔ مودی بطور وزیر اعلیٰ دوبارہ منتخب ہوگئے۔ مودی کی مخالفت کیلئے بے شرم کانگرس نے بھی ایک ہندو بنیاد پرست کا انتخاب کیا۔ گجرات میں ہونے والے قتل عام کو عمدگی سے سدھارتھ ورادریان نے قلمبند کیا ہے۔ دیکھئے : ‘Gujrat: The Making of a Tragedy’, New Delhi, 2002
103۔منرو ڈاکٹرائن پہلی بار صدر منرو کے دور صدارت میں 1823ء میں وضع کیا گیا۔ اس سے مراد یورپ کی استعماری طاقتوں کو یہ تنبیہہ کرنا تھا کہ وہ مغربی کرۂ ارض سے دور رہیں۔ اس خطے میں امریکہ کواولیت حاصل تھی اور جلد ہی نوجوان ترین سامراجی طاقت کی فوجوں نے ’پرانی دنیا‘ سے آنے والے حملہ آوروں کو بخوبی پسپا کر دیا۔ ان تفصیلات سے بخوبی جانکاری کیلئے دیکھئے ’دی ایج آف ایمپائر‘ از ای جے ہابزوام۔
104۔ اور امریکی ریاست نے کنگ جونئیر کے قتل کے ذریعے ان کی بات کو سچ ثابت کر دکھایا۔ اس المئے کی تفصیلات جاننے کے لئے دیکھئے:
An Act of State: The Execution of Martin Luther King, William.F.Pepper, London, New York, 2002
Peace Dividend.٭
105۔ہوچی منہہ اور فیدل کاسترو ایسے قوم پرست کمیونسٹوں سے امریکی دشمنی کے ذکر کی توخیر ضرورت ہی نہیں۔ 1975ء میں ہوچی منہہ دنیا کے وہ واحد رہنما بن گئے جن کے لوگوں نے امریکہ کو شکست دی۔ کاسترو پر بے شمار جانی حملے ہوچکے ہیں، ان کی حکومت ختم کرنے کے لئے براہ راست مداخلت ہو چکی ہے مگر وہ موجود ہیں جبکہ اقتصادی پابندیاں پچھلی نصف صدی سے جاری ہیں۔
106۔ جرمنی بطور ریاست 1871ء میں وجود میں آیا۔ 1815ء میں ہونیوالی ویانا کانگرس(نپولین کی شکست کے بعد فاتحین کا اجتماع) نے جرمن مسئلے سے اس طرح جان چھڑائی کہ 39 ریاستوں کی ڈھیلی ڈھالی جرمن کنفیڈریشن کو تسلیم کر لیا۔ جرمن اتحاد کا فریضہ پرشیا اور بسمارک نے ادا کیا۔ بسمارک ہولی رومن ایمپائر اور شارلیمن کے حوالوں سے متاثر نہ ہوئے۔ انہوں نے 1866ء میں آسٹریائی حریفوں اور 1870ء میں فرانس کو شکست دیکر پرشیا کے رستے سے دو ایسی رکاوٹیں ہٹا دیں جو نئی بننے والی ریاست کی قیادت کے حصول میں درپیش تھیں۔ بسمارک نے ایک مضبوط اورمتحد ریاست کی بنیاد رکھی۔ ارضِ جرمن پر جمہوریت کے فقدان کا فائدہ یہ ہوا کہ بسمارک شاہ پرشیا سے قیصر جرمن بن گئے۔ قیصر فوجی طاقت اور مستقبل میں حاصل ہونے والی عظمت کی علامت بن گیا جبکہ اس کا انحصار جنکرز پر تھا۔ جنکرز بطور بیوروکریسی پوری دنیا کے لئے ریاستی نوکرشاہی کی عمدہ مثال بن گئے۔ 1945ء کی شکست کے بعد گولومان نے دو جرمنیوں کے بارے میں لکھا: ’دونوں اپنی تشکیل کے بعد اپنی روح کی تلاش میں تھے۔ ایک جرمنی تھا ’قیصرکا، ایڈمرلٹی کا‘ جنرل سٹاف کا، کُرپ کا، انصاف پرور قوم پرست پروفیسروں کا، غراتے ہوئے لفٹینوں کا‘۔ ان کا سامنا تھا، ’بیبل اوراس کے دوستوں کی عظیم سوشل ڈیموکریٹک پارٹی والے جرمنی سے، آئن سٹائن اورپلانک والے جرمنی سے، جرہارٹ ہاپٹ مان والے جرمنی سے‘۔ گولومان کے نزدیک جرمنی کا زوال اس کے ڈھانچے میں مخفی تھا۔ بسمارک نے خدا اور بادشاہ او جنکرز اور لبرل بورژوازی کے مابین جو سمجھوتہ تشکیل دیا اس کا ناکام ہونا گویا لازمی تھا۔ کیا اگر جرمنی جمہوریہ قرار پاتا تو صورتِ حال مختلف ہوتی؟ بعداز نپولین عہد کے فرانس پر نظر دوڑائیں تو صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ایک بات بہرحال قابل ذکر ہے۔ یعنی پہلی عالمی جنگ سے قبل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو ملنے والے ووٹ: 1898ء میں 27فیصد، 1903ء میں 31فیصد، 1912ء میں 35فیصد۔ ان کامیابیوں کے باوصف جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بہرحال 1914ء میں ابھرنے والی قوم پرستی کامقابلہ اپنے گھسے پٹے طریقوں سے نہ کر پاتی۔ اس المئے نے سوشل ڈیموکریسی کی وارث یعنی فسطائیت کو جنم دیا۔
107۔ از
George Bernard Shaw; Fabianism and the Empire, Fabian Society, London, 1900
یہ بالکل موزوں وقت ہے کہ اس کتاب کا تازہ ایڈیشن شائع کیا جائے اور اس نئے ایڈیشن کا دیباچہ انتھونی گڈنز اورٹونی بلیئر کو لکھنا چاہیے۔ برنارڈشا نے جو سلطنت برطانیہ کا دفاع کیا اس پر خاصی لے دے ہوئی مگر سڈنی اور پیٹرس ویب اوررابرٹ پلیج فورڈ، جو سوشلسٹ ہفت روزہ کلریون (Clarion) کے ایڈیٹر تھے، نے برنارڈ شا کا دفاع کیا۔
108- Eduard Bernstein, Die Voraussetzungen dez Soziulismus, Berlin, 1899
109۔ جنگی حکم نامے میں درج تھا: ’جرمن حدود کے اندر اگر کوئی ہیریرو نظر آیا، اس کے پاس بندوق ہو یا نہ ہو، اس کے پاس مال مویشی ہوں یا نہ ہوں، اسے دیکھتے ہی گولی ماردی جائے گی۔ میں مزید خواتین یا بچوں کو قبول نہیں کروں گا۔ انہیں یا تو واپس ان کے لوگوں کی طرف دھکیل دیا جائے یا گولی مار دی جائے۔ یہ ہیریروزکیلئے میرا پیغام ہے۔ دستخط شدہ از جنرل وان ٹروتھا۔ عظیم سلطنت کا عظیم جنرل‘۔ 80,000 کی آبادی میں سے عظیم جرنیل نے 60,000کو ہلاک کر ڈالا۔ یہ ہے افضل تہذیبوں کی افضلیت۔
110۔نیوآرڈر از ایڈولف ہٹلر، بحوالہ
Norman Finkelstein, Image and Reality of the Israil_Palestine Conflict, new edition, London and New York, 2003, p 234, footnote 16
111۔جنوبی امریکا میں جس پیمانے پر قتلِ عام ہوا، چارلس ڈارون اس پر حیران رہ گیا۔ ڈارون کے لئے یہ تو کوئی نئی بات نہ تھی کہ نباتات اور جانور اپنے سے طاقتور نوع کا لقمہ بن جاتے ہیں مگر 1832ء میں ہسپانوی سالار جنرل روساس سے گفتگو کے نتیجے میں ڈارون کو معلوم ہوا کہ انسان بھی اسی انداز میں دوسرے انسانوں کے ہاتھوں معدوم ہوتے ہیں۔ ’ہسپانویوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ارجنٹینا کو مقامی لوگوں سے پاک کر دیا جائے گا‘۔ انڈینز اس قدر خوفزدہ ہیں کہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرتے حتیٰ کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو بے جگری سے لڑتے ہیں چاہے ان کا سامنا کئی گنا زیادہ فوج سے ہو۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر وہ عورت جوعمر میں بیس سال سے زائد نظر آتی ہو، اسے بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ جب میں چلایا کہ یہ سراسر ناانصافی ہے تو اس نے جواب دیا،کیا کیا جا سکتا ہے! یہ عورتیں بچے جنتی ہیں‘۔از:
Charles Darwin The Voyage of the Beagle ,chapter 5
112- Benedict Anderson, ‘Cacique Democracy in the Philippines’, in ‘The Spectre of Comparisons’, London and New york, 2000, p.192-226.
113۔ ایضاً، اقتباس از
Leon Wolf, Little Brown Brother, London, 1960 p.305 to 360.
114۔ فلپائن ڈیلی انکوائرر، 24جنوری 1988ء
115۔ اقتباس از:
Herbert P.Bix, Hirohito and the Making of Modern Japan, London, 2000
جاپانی قبضے کو آئیڈیلائز کرنے والے عراقی گماشتوں کو چاہیے کہ ایک ممتاز عالم کی اس فکر انگیز تصنیف کا ضرور مطالعہ کریں۔
116۔ جنرل میک آرتھر اور ان کے ساتھی بریگیڈئیر جنرل فیلرز کا جہاز جس لمحے جاپان کی سرزمین پر اترا، وہ اسی وقت سے ہیروہیٹو کو بچانے کا تہیہ کئے بیٹھے تھے۔ دونوں حضرات شدید رجعتی تھے اور صدر روز ویلٹ کی نیوڈیل انکے خیال میں امریکہ اندر گویا کمیونزم نافذ کرنے کی سازش تھی۔ مزید برآں، فیلرز کٹریہودی دشمن تھا، اس نے پرسکون انداز میں جاپانی اعلیٰ کمان کو بتایا کہ سیکٹری آف اسٹیٹ بارنز کا مشیر ’کوہن (ایک یہودی اور اشتراکی) ہے جوامریکہ میں غیر امریکی خیالات کا سب مؤثر وکیل ہے‘۔
6مارچ 1946ء کو فیلرز نے ایڈمرل یونائی متسبوماسا اور اس کے مترجم شواچی کو طلب کیا۔ فیلرز نے انہیں بتایا کہ سوویت یونین اور بعض دیگر اتحادی بضد ہیں کہ ہیروہیٹو پر جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔ فیلرز کی تجویز تھی:اس صورت حال سے نپٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جاپانی ہمیں یہ ثابت کر دیں کہ شہنشاہ نر دوش ہے۔ میرے خیال سے مجوزہ مقدمہ اس مقصد کیلئے بہترین موقع فراہم کرے گا۔ اس مقدمے میں ٹوجو بالخصوص ذمہ داری اپنے سر لے۔ باالفاظ دیگر میں چاہتا ہوں ٹوجو کو یہ کہنا چاہیے کہ :’’جنگ سے قبل ہونے والی امپریل کانفرنس کے موقع پر ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جاپان جنگ میں حصہ لے گا چاہے شہنشاہ امریکہ سے ’جنگ کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں‘‘۔ ایضاً
117- AndrewJ. Bacevich, American Empire: The Realities and Conseqnences of US Diplomacy, Harvard, 2002 p.243 to 244.
118- Jurgen Habermas, ‘What does the felling of the monument mean’, Frankfurter Allgemeine Zeitung, 17 April 2003
119۔ ہیبرماس، ایضاً
120۔ جوں ہی اطالوی فسطائی نے ایتھوپیا پر قبضہ کیا،لیگ آف نیشنز اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ مسولینی نے یہ کہتے ہوئے البانیہ اور ایتھوپیا پر قبضے کا دفاع کیا کہ اس نے شاہ زوگ/ ہیل سلاسی کی ’بدعنوان، جاگیردارانہ اور جابرانہ‘ حکومت کا خاتمہ کیا ہے جبکہ اطالوی میڈیا میں دکھایا جارہا تھا کہ کس طرح البانوی/ ایتھوپیائی عوام اطالوی دستوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اور شائد یورپی تہذیب کو بھی؟
121- Perry Anderson, ‘Force and Consent’ New Left Review 17, September/October 2002.
122۔ ہارپرز منتھلی میں 1916ء میں مارک ٹوئین کی وفات کے بعد ان کی ایک دور اندیش تحریر شائع ہوئی جس میں اس قسم کے عمل خوب بے نقاب کئے گئے تھے: ’اُس کے مدبرین گھٹیا قسم کے جھوٹ ایجاد کریں گے، حملے کا نشانہ بننے والی قوم پر ہی سارا الزام تھونپ دیا جائے گا اور ہر شخص ضمیر کو طمانیت بخشنے والے سفید جھوٹ پر خوش ہوگا، کوئی اس جھوٹ کی تردید پر دھیان نہیں دھرے گا، ہر انسان اس بات کا قائل ہو جائے گا کہ جنگ جائز ہے اوراس عجیب و غریب خودفریبی کے بعد سکون کی نیند نصیب ہونے پر خدا کا شکر کرے گا‘۔
123- Danilo Zolo, Invoking Humanity: War, Law and Global Order, London and New York, 2002.
’انسانی بنیادوں پر مداخلت‘ پر یہ کتاب موثر ترین تنقید ہے۔
124۔ اس دلیل کی تازہ ترین توضیح جوزف ایس نیئی نے اپنے مضمون ’یو ایس پاور اینڈ سٹریٹیجی آفٹر عراق‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں پیش کی ہے جو فارن افیئرز کی اشاعت جولائی/ اگست 2003ء میں شائع ہوا۔ نیئی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وڈروولسن کے عہد سے جاری خارجہ پالیسی کا تسلسل برقرار ہے مگر ان کامشورہ ہے کہ نیئوولسونین اور جیکسونین طرز کی نئی یونی لیٹرل ازم کا رجحان یہ ہے کہ مرضی کے اتحاد تشکیل دئیے جائیں اور عالمی اداروں کو ایسے ٹول بکس کی طرح استعمال کیا جائے کہ جہاں سے ضرورت کے وقت اوزار حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ رجحان ایسے طریقہ ہائے کار کی نفی کرتا ہے جو غیر متوازن امریکی طاقت کو جائز بنانے کیلئے اِن اداروں کو استعمال میں لاسکتے ہیں۔ جب دوسروں کو یہ احساس ہو کہ ان سے مشورہ کیا گیا ہے تو وہ زیادہ مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‘۔
125- Guardian 17June 2003.
ان کی کتاب کا عنوان ہے:
The Shield of Achilles: War, Peace, and the Course of History, by Philip Bobbit, New York, 2002.
اس کتاب پر بے لاگ تبصرے کیلئے دیکھئے نیولیفٹ ریویو 23ستمبر /اکتوبر 2000ء میں گوپال بالاکرشن کا تبصرہ
Churchilliana٭
Sesame Street٭
126۔ ہچنز کے متوسل اور پرانے دوست ڈینس پیرن کے خیال میں البتہ موت واقع نہیں ہوئی۔ ڈینس پیرن نے میانا پولس سٹی پیپر میں ایک طویل الوداعیہ لکھا جو 9جولائی 2003ء کو شائع ہوا۔ ڈینس کے خیال میں یہ وہی ہچنز ہے، ہم شکل نہیں، اور بخیر وعافیت ہے۔ ڈینس اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں:میں اب ہچنز کو پڑھ نہیں پاتا۔ برطانوی ٹیبلائڈ دی مرر اور سلیٹ میں اس کے مضامین سامراجی تاویلات اورتابڑ توڑ حملوں کا مرکب ہوتے ہیں۔ وہ پرانا دلنشیں اندازِ تحریردم توڑ چکا ہے۔ ٹی وی پر آتا ہے تو تنگ نظری اور کج بحثی کا نمونہ نظر آتاہے جبکہ اُن لوگوں کو برداشت نہیں کرتاجو اس سے متفق نہیں ہوتے۔ وہ رالف سکیچ مین کا نمونہ بنتا جارہا ہے۔ اوپر سے مصیبت یہ کہ عراق جنگ سے قبل اس نے جو کچھ کہا، اب وہ اس پر نظرِ ثانی کررہاہے۔
نیلسن منڈیلا کے خلاف غصے سے بھرے ایک کالم سمیت بے شمار کالموں میں ہچنز اپنے قارئین کو ’صبرکرو‘ کی ڈانٹ پلاتے ہوئے، یا کسی اور طرح تمسخر اڑاتے ہوئے، عوامی تباہی کے ہتھیاروں بارے لکھتا چلا گیا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ ایک بار جو عراق پر امریکی قبضہ ہو گیا تو بائیو/کیمیائی ہتھیاروں کی بھاری مقدار اور تجربہ گاہیں کیبل نیٹ ورکس پر نظر آرہی ہوں گی اور جب یہ فلمیں نشر ہوں گی تو اسکرین پر سامنے فتح مند ہچنز خوشی سے ناچ رہا ہوگا۔ اب وہ کہہ رہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہتھیار نہ تھے نہ ہی اُس نے کبھی ایسا کہا۔ حیرت ہے کہ وہ یہ کہنے کی جرأت کررہا ہے جبکہ اُس کے پرانے مضامین اُس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ لیکن کیا ہے کہ جب آپ ہمالیہ ایسی ریاستی طاقت اور ریاست کے سنکی حرامزدوں کی طرفداری کر رہے ہوں تو پھر انسان کچھ بھی کہہ سکتاہے اور ’صاحبِ اثر‘ حضرات بُرا نہیں مناتے۔ تاحال ہچنز جس سوچ __ اور اُسکے زبان و بیان میں پال جانسن کی جھلک دکھائی دیتی ہے __ کوپیش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ’جمہوریت کی خاطر امریکہ سپرپاور کا کردار‘ ادا کرسکتا ہے جبکہ ٹام جیفرسن اور ٹام پین اس سوچ کو سندِ قبولیت بخشیں گے۔ ’ڈیئر لیڈر‘ کی ہلکی پھلکی مذمت کرنے پر اس نے ’پھوہڑ‘ ڈکسی چکس کو ‘Fucking Fat Slags’قرار دیدیا۔ وہ بش کو کیری پر ترجیح دیتا ہے اور اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کیری ویت نام جنگ کے جنگی تجربے کو ’سیاسی مقاصد کیلئے استعمال‘کرے (اس بات سے اگرچہ کوئی فرق نہیں پڑتا اگر از سرِ نو انتخاب کیلئے کوئی جنگی جہازوں پر کرتب دکھائے)۔
اوہ خدایا! آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ مجھے خدشہ ہے کہ یہ پرانا ناصح اب سچ کا پرچارک جارج اور ویل نہیں رہا جیسا کہ وہ خود کو سمجھتا ہے۔ وہ نارمن پُوڈ ہوریٹنرکی گھٹیا نقل بنتا جارہا ہے۔