(Last Updated On: )
مظفر حنفی
ہوا ناراض تھی ہم سے، کنارا دور تھا ہم سے
سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھرپور تھا ہم سے
خودی، خود آگہی، خود رائی جس میں جلوہ گر ہوتے
وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے
محبت اور جوانا مرگ ، رونا داستاں گو کا
گھنی باتوں کا جنگل رات بھر پُر نور تھا ہم سے
مزا بھی ہے، سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں
مگر ہم رقص ہم تھے آسماں مجبور تھا ہم سے
خود اپنے کو بھی اک پردے میں رہ کر دیکھنا ہوگا
یہی جو آئینے میں ہے ابھی مستور تھا ہم سے
مظفرؔ اب یہی دنیا ہمیں نابود کردے گی
یہ پیمانہ لبا لب تھا کبھی، معمور تھا ہم سے