مجھ پہ تہمت مت لگاؤ
میرا کردار تو پاک دامن ہے
میں ہوں حوا کی بیٹی
مجھے بھی حساب دینا ہے
عروج کبھی تو ٹک کر بیٹھ جایا کرو سارا دن اچھلتی کودتی پھرتی ہو۔
عروسہ کی آواز تھی جو اپنی بیٹی کو تین بار کہہ چکی تھی
مگر مجال ہے سن لے یہ لڑکی عروج کبھی مان بھی لیا کرو۔
ماما آپ بھی نہ کبھی تو من مانی کرنے دیا کریں۔
عروج منہ بناتے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
ماما آپ بھی ہمیشہ اپنی ہی چلاتی ہیں یہ نہ کرو وہ نہ کرو اللّہ گھر رہنا بھی کتنا عذاب ہے۔
تیری زبان کتنی چلتی ہے عروسہ سبزی کاٹتے بولی۔
کچھ تو شرم و لحاظ کر لیا کرو عروج ماں کا۔
ماں کے سامنے زبان کینچی کی طرح چلاتی ہے۔
ماما آپ بھی مجھ جیسی معصوم کا خیال کیا کریں۔
شکر ہے خدا کا تجھ جیسی اور معصوم نہیں عروسہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
ہاہاہا یہ بات سہی کی ماما جی شہزادی بس ایک ہی ہوتی ہے گھر میں سب نہیں
یہ سارا جو اتنا سر پہ چڑھی ہوئی ہے نہ تیرے بابا اور بھائی کے لاڈ پیار کا نتیجہ ہے۔
ورنہ ماں کا ہاتھ بٹاتی۔
اچھا ماما جانی عروج اپنی جگہ سے اٹھی اور ماں کے گلے میں بانہیں ڈالے بولی۔
آپ کا بھی تو پیار ہے نا آپ صرف میری ماں نہیں میری دوست ہیں۔
ا چھا اچھا عروج میڈم عروسہ نے پیچھے کرتے جواب دیا۔
زیادہ لاڈ پیار جتانے کی ضرورت نہیں ہے اتنا مکھن بھی مت لگایا کرو۔
ایسی بات نہیں ماما آپ ہو تو سب ہے آپ سے ہی دنیا ہے عروج نے جواب میں کہا۔
اچھا سنبھل کر رہا کرو بیٹیاں ایسے اچھلتے کودتے اچھی نہیں لگتی۔
ماما پھر سے آپ کا وہی لیکچر شروع ہوگیا اسی بات سے اختلاف ہے۔
ایسا کہتے ہوئے پیر پٹختے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کدھر ہو بیٹا فاخرہ کی آواز پر جنت چونکی۔
جو رسالہ پڑھنے میں مصروف تھی۔
ہائے اللّہ یہ اماں بھی نہ کیا زبردست ہیرو کی آمد ہونے والی تھی اوپر بھی اماں بھی نا۔
بولیے اماں کیا کام ہے ۔
جنت نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
جنت یہ کیا سارا دن رسالے میں گھسی رہتی ہو۔
تیرے ابا کو بتاؤں گی انکی لاڈلی کیا کرتی پھرتی ہے۔
تیری عمر کی لڑکیوں کے چار ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں کام کے لیے ۔
ہاہاہا اماں مجھے تو آج تک نظر نہیں آئے جنت نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
فاخرہ نے جنت کو گھورا۔
اماں میری پیاری اماں ہو آپ تو میری سوہنی اماں ہو۔
ابا کو کچھ مت بتانا اپنی اکلوتی بیٹی کی عزت کا خیال کرلے جنت جتاتے ہوئے بولی۔
جنت میں نے تجھے بہت نازوں سے پالا ہے۔
بی – اے تک پڑھایا ہے۔
اب ان فضول چیزوں میں وقت ضائع نہ کر۔
اس سے اچھا ہے خود کو اللّہ کی عبادت میں دیا کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت فاخرہ اور عزیر کی اپنی اولاد نہ تھی۔
انہوں نے خود اپنی بہن عروسہ سے گود لیا تھا۔
عروسہ کی شادی رحیم یار خان میں ہوئی تھی۔
اور اللہ نے اولاد سے نوازا تھا۔
انکا گھرانہ بہت خوشحال تھا۔
دانیال بڑا بیٹا تھا چار سال بعد اللّہ نے دو جڑواں بیٹیوں سے نوازا تھا۔
عروسہ نے اپنی بہن کی خالی گود دیکھ کر اپنے شوہر سے مشورہ کرنے کے بعد جنت کو فاخرہ کو دے دیا۔
تاکہ خوشیاں اسکے دروازے پر دستک دیں۔
جنت کی پرورش خان بیلا نامی گاؤں میں ہوئی ۔
وہی پلی بڑھی ۔
دونوں بہنیں الگ الگ ماحول میں پلی بڑھی۔
دونوں کے مزاج الگ ،ہر چیز میں مختلف تھیں مگر ملتی تھی شاید قسمت۔۔۔۔۔۔
جنت اپنے گاؤں کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیس صبح کے گیارہ بج رہے ہیں ابھی بھی سویا ہو ہے۔
یہ جھاڑو لگاتی رئیس کی ماں کنیز کی آواز تھی۔
رئیس صحن میں چارپائی پر چادر اوڑھ کر سویا ہوا تھا۔
دھوپ کی کرنیں بھی چارپائی پر پڑ رہی تھی۔
مجال ہے اس لڑکے نے ہوں،ہاں کی ہو میری جھاڑو بھی ایسے رہ جائے گی اس لڑکے کی وجہ سے کنزہ ملک اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
آؤ رئیس اٹھ جا یہ ایسے نہیں اٹھے گا مجھے اپنا پہلے والا طریقہ اپنانا پڑے گا یہ کہتے ہوئے ٹھنڈے پانی کا گلاس لا کر رئیس پر گرا دیا۔
اماں یہ کیا کیا ۔
رئیس نے اٹھتے ہی کہا۔
اچھا بھلا خواب دیکھ رہا تھا آپ نے چکنا چور کردیے۔
میری نکمی اولاد یہ وقت خوابوں کا نہیں کام کا ہے۔
رئیس کام نہیں کرتے ۔
رئیس نے جوتا پہنتے ہوئے جواب دیا۔
بس نام کے رئیس ہو ہو تو مڈل پاس اور خواب دیکھوں شہزادوں والے کنزا نے جھاڑو ہاتھ میں پکڑے جواب دیا۔
رئیس کے والد خان بیلا کے زمین دار تھے۔
اس اللّہ نے دولت کی فراوانی کی تھی۔
گاؤں میں بڑا نام تھا۔
مگر ایک چیز کی کمی رہ گئی تھی۔
وہ تھی اولاد کی تعلیم و تربیت دونوں سے عاری اولاد تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما کدھر ہو آپ ابدال نے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
جی بیٹا ناہید شہوار نے جواب دیا۔
ماما مبارک ہو ۔
کس چیز کی دے رہے ہو ناہید شہوار نے کچن سے آتے پوچھا۔
ماما میرا داخلہ یونیورسٹی میں ہوگیا ہے۔
واہ بیٹا مبارک ہو یہ سب تمہاری محنت کا نتیجہ ہے۔
نہیں ماما آپ لوگوں کی دعاؤں کا ہے۔
ماں باپ کی دعائیں ہی آگے لیکر جاتی ہیں۔
ابدال عروج کے ماموں کا بیٹا تھا۔
مالی حالات بہت اچھے نہ تھے۔
مگر گزارا اچھا ہو رہا تھا۔
شہوار کی کپڑوں کی دکان تھی۔
ابدال کا داخلہ بھی اچھے نمبروں کی وجہ سے ہو گیا تھا۔
ورنہ آمدن اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
چلو بیٹا ابدال تم جاکر بیٹھو میں ناشتہ بنا کر لاتی ہوں۔
ابدال کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ماما کو بھی نہ پتا نہیں ہر وقت لیکچر دینے کی کیا ہوتی ہے۔
عروج بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
یہ نا کرو وہ نہ کرو اللّہ میں بھی سب جانتی ہوں۔
ایک تو پتہ نہیں لوگوں کی باتوں میں آجاتی ہیں۔
پتا نہیں میری ماما کی سوچ بھی کب بدلے گی۔
شکر ہے یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا اب جان چھوٹے گی سب باتوں سے یہ سب کہہ کر موبائل لیکر بیٹھ گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت تمہیں ثانیہ بلانے آئی تھی۔
فاخرہ نے جنت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا اماں جاتی ہوں۔
جنت دوپٹہ ٹھیک سے لیتی جانا باہر۔
اللّہ اماں بھی نا۔
جنت لڑکی چھپی اچھی لگتی ہے۔
پھر سے جنت کو دیکھتے ہوئے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ پر تہمت مت لگاؤ
میرا کردار تو پاکدامن ہے
میں ہوں حوا کی بیٹی
مجھے بھی حساب دینا ہے
بالوں میں پراندہ ڈالے سر پر ریشمی دوپٹہ اوڑھے جنت گھر سے باہر نکلی۔
سامنے کی گلی میں ثانیہ کا گھر تھا۔
پراندہ ہاتھ میں لہراتے ہوئے اور گانا گاتے ہوئے میں اوڈی اوڈی جاواں ہوا دے نال گلی میں چل دی۔
گلی کی نکڑ پر تین لڑکے کھڑے تھے ان میں سے ایک لڑکے نے دیکھتے ہی سیٹی بجائی۔
جنت نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔
تو ایک لڑکے نے کہہ دیا بے حیاء۔
جنت کا چہکتا چہرہ غصہ میں بدل گیا۔
اور کہنے لگی گی ہممم آیا بڑا۔
اور چپ کرکے ثانیہ کے گھر کی جانب چل دی۔
ثانیہ نے گھر میں ہی درخت پر رسی کا جھولا بنایا ہوا تھا ہاتھ میں رسالہ پکڑے جھولا جھول رہی تھی اور رسالہ پڑھ رہی تھی جنت نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔
کون آ گیا بھلا اتنی زور سے کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ثانیہ نا گواری کے تاثرات لئے رسالہ چار پائی پر رکھتے ہوئے بولی۔ دروازے کی جانب چل دی ۔
کھول رہی ہوں تھوڑا صبر کر لو۔
اب کھول بھی لو جنت کی آواز آئی۔
آگئی تم ثانیہ نے جنت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اب اندر بھی آنے دوں گی یا دروازے پر ہی کھڑا رکھوگی جنت نے ثانیہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
ہوا کیا ہے جنت ؟؟کیوں اتنی حواس باختہ ہوئی ہو ثانیہ نے جنت سے پوچھا۔
اب دروازے پر ہی سب بتا دوں اندر تو آنے دو جنت نے ثانیہ کو جواب دیا۔
اچھا آجاؤ ثانیہ نے جنت کو کہا۔
جنت نے جھولے پر بیٹھتے ہی کہاثانیہ ایک بات تو بتاؤ۔
پوچھو جنت، ثانیہ نے چارپائی پر بیٹھتے ہی جواب دیا۔
تمہیں میرے اندر کبھی کوئی بے حیائی نظر آئی۔
کیوں کیا ہوا ثانیہ نے پوچھا۔
جو پوچھا جواب دو جنت نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
نہی جنت جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں تم بھی انہیں لڑکیوں جیسی ہو مجھے تو کبھی بھی تم میں کوئی بے حیائی نظر نہیں آئی ثانیہ نے جنت کی طرح دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اب بتاؤ جنت کیوں پوچھ رہی تھی ایسا ثانیہ نے جنت سے دوبارہ کہا۔
جنت کا دل چاہا کہ وجہ بتا دے مگر وہ بات کو ٹال گئی اور الٹا اس سے پوچھنے لگی بتاؤ مجھے کیوں بلانے آئی تھی اماں نے کہا تھا کہ ثانیہ تمہیں بھلانے آئی تھی۔
اچھا ہاں مجھے یاد آیا میری خالہ کی فیملی آئی ہوئی ہے انہوں نے گاؤں دیکھنے جانا ہے تم نے بھی ہماری ساتھ چلنا ہے۔
چلو ٹھیک ہے ثانیہ انہیں بلا لو جنت نے جھولا جھولتے ہوئے جواب دیا۔
ثانیہ کمرے میں انہیں بلانے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج کا آج یونیورسٹی میں پہلا دن تھا لانگ سفید شرٹ اور بلیک ٹراوزر میں ملبوس اور گلے میں سفید مفلر ڈالے ٹیل پونی کیے ہوئے گاڑی سے اتری۔
یونیورسٹی کے گیٹ پر اسے اپنی دوست آمنہ نظر آئی۔
آمنہ اور عروج کالج کی بہت اچھی دوست تھی اس لیے یونیورسٹی میں بھی ساتھ تھی۔
اس لیے عروج تھوڑا ریلیکس ہوئی۔
کیسی ہو میری جان آمنہ نے آگے بڑھتے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔
عروج کی نسبت کافی بولڈ لڑکی تھی۔
جو ہر کسی سے چند لمحوں میں بھی فری ہو جاتی تھی چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہر کسی سے فری بات کرتی تھی ۔
“””عروج کی فطرت اس سے بالکل مختلف تھی سادہ طرز مزاج تھی چاہے زبان کی تھوڑی تیز تھی۔
صاف گو تھی دل کی بہت نرم تھی اور سنجیدہ بھی تھی مگر دوستوں کی محفل میں ہمیشہ خوش اخلاقی سے بات کرتی تھی۔”
اسکی کی ایک عادت آمنہ کو بھی بالکل پسند نہ تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی گھبراجایا کرتی تھی گھر میں شیر بنی پھرتی تھی مگر باہر اتنی ہی سنجیدہ رہتی تھی سوچوں کا ایک گہرا سمندر اس کے اندر موجود تھا۔
عروج چلو اندر آمنہ نے گلے ملنے کے بعد عروج کو کہا۔
ہممممم عروج نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
لگتا ہے آج بہت زیادہ سٹوڈنٹس آئے ہیں حالانکہ یونیورسٹی میں آج پہلا دن ہے ۔
عروج نے آمنہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا ہاں بھئی تم نے آتے ہی یہی نوٹ کرنا شروع کردیا ہے۔۔
ہاہاہاہا آمنہ نے ہنستے ہوئے کہا ڈرپوک کہی کی بندہ جہاں آتا ہے وہاں سب کچھ دیکھنا چاہئے۔
آمنہ نے چلتے ہوئے جواب دیا۔
کندھے پر بیگ لٹکائے شارٹ شرٹ اور جینز میں ملبوس آنکھوں پر کالا چشمہ پاؤں میں ہیل والا جوتا پہنے بہت ہی جاذب نظر لگ رہی تھی بہت جلد اس کی ایک نظر لوگوں کو اٹریکٹ کر لیتی تھی۔
جیسے دونوں کوریڈور کے پاس پہنچی تو انہیں سامنے سٹوڈنٹس لسٹ نظر آئی دونوں اپنا نام اور رولنمبر ڈھونڈنے لگی حنا رضا! ثانیہ کو نام سب سے پہلے لسٹ میں نظر آیا یہ دیکھو کیا کمال کے نمبر ہیں لڑکی کے”
کافی ذہین ہو گی ہمیں اس لڑکی سے کیوں نہ دوستی کر لینی چاہئے اس نے عروج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
یہ سب چھوڑو نا چلو ہمارا کمرہ دوسری منزل پہ ہے ہم چلتے ہیں یہ کہہ کر دونوں سیڑھیوں کی طرف چل پڑی ۔
جیسے ہی دونوں کلاس میں داخل ہوئی کافی سٹوڈنٹس نظر آئے دونوں جاکر پہلے بینچ پر بیٹھ گئی ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے ایک لڑکی عبایا پہنے اور حجاب کیے کلاس میں داخل ہوئی اور جب سلام کیا سب چونک گئے۔
اللہ اتنی گرمی میں اس کو کیا پڑی ہے آمنہ نے اس کو دیکھتے ہی کہا۔
تمہیں کیا ہے آمنہ نہ اس کی اپنی مرضی ہے عروج نے آمنہ کی باتوں کو اگنور کرتے ہوئے جواب دیا۔
اور اس لڑکی کی جانب دیکھنے لگ گئی۔
رئیس ناشتہ کر لے رئیس کی ماں نے ناشتہ بناتے ہوئے کہا۔
ایک تو یہ لڑکا اٹھتا بہت دیر سےہے۔
پھر ناشتے کے لیے بھی بلانا پڑتا ہے۔
ہائے! میری نکمی اولاد”
پراٹھا بناتے ہوئے کنیز کہنے لگی۔
آگیا اماں رئیس نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
صبح اٹھتے ہی کہاں چلا جاتا ہے رئیس کی ماں نے ناشتہ بناتے ہوئے پوچھا۔
اماں میں باہر کی ٹھنڈی ہوا کھانے گیا تھا ۔
راستے میں کچھ دوست مل گئے تھے۔
ان سے باتیں کرنے لگ گیا تھا اس نے پانی پیتے ہوئے جواب دیا ۔
اماں جلدی سے ناشتہ دے دے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں رئیس نے پراٹھا دیکھتے کہا ۔
فاطمہ ناشتہ پکڑا شہزادہ کہیں بھوک سے بے حال ہی نہ ہوجائے کنیز نے اپنی بیٹی فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا دیتی ہوں اماں منہ بناتے ہوئے فاطمہ نے جواب دیا۔
فاطمہ بھی آٹھ پاس تھی۔
اپنے بھائی کی طرح سارا دن گھر میں ویلی رہتی تھی
ناکام نہ دھندہ ادھر ادھر ٹائم پاس کرتی تھی۔
اماں ناشتہ کے بعد میں نے کھیتوں میں جانا ہے رئیس نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔
آج سورج کدھر سے نکل آیا ہے تم کھیتوں میں جارہے ہو۔
کنیز نے رئیس سے پوچھا۔
اماں کام کے لیے نہیں۔
دوستوں کے ساتھ گھومنے جا رہا ہوں۔
ہائے! میری نکمی اولاد یہ کہتے ہوئے کنیز کمرے میں چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابدال کا یونیورسٹی میں آج پہلا دن تھا
سادہ شلوار قمیص میں ملبوس ،اپنی موٹر سائیکل یونیورسٹی کے باہر سائیڈ پر کی اور گیٹ کی جانب چل دیا۔
سامنے سے طلحہ ملا ۔
آ گیا شیر ” طلحہ نے دیکھتے ہی پوچھا۔
جی جی ابدال نے جواب دیا۔
دونوں سامنے کوریڈور میں چل دیئے۔
اور لسٹ میں اپنا نام دیکھنے لگ گئے۔
ابدال کا پہلا رولنمبر تھا۔
اسے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
آخر کار اسکی محنت کا نتیجہ تھا۔
چار قدم کے فاصلے پر اسے کسی لڑکے کی آواز سنائی دی ۔
کیا کمال کے نمبر ہیں یار اسد دل چھو لیا نمبروں نے تو۔
وہ ابدال کی بات کر رہا تھا۔
ابدال جیسے ہی اسے پیچھے دیکھنے کے لئے مڑا وہ لڑکا جا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
جنت،ثانیہ اور ثانیہ کی خالہ کی فیملی جس میں دو کزنز اسمارہ اور ندا تھی۔
اور ایک خوبرو کزن ارسلان تھا۔
وہ لوگ شہر سے آئے تھے۔
جنت انکے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔
صاف نکھری رنگت،معقول قد کاٹھ،بھوری آنکھیں،لمبی پلکیں اور سادہ لباس میں ملبوس بھی دلکش لگ رہی تھی۔
ارسلان کے دل میں اسکی سادگی گھر کر گئی تھی
مگر اس بات سے وہ انجان تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے عجیب ہے نا اس لڑکی میں عروج نے عبایا میں ملبوس لڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے سوچا۔
آمنہ کی باتوں کی طرف توجہ ضرور گئی تھی مگر اسنے پتہ نہ چلنے دیا تھا۔
اوپر سے گرمی اور کلاس میں صرف دو پنکھے ،کیسے رہ لیتی ہوگی عبایا میں سارا دن عروج سوچتے ہوئے کہنے لگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...