وہ شدت سے کسی کا منتظر تھا پر آج وہ آنے والی نہیں تھی کیونکہ آج اس کی ماں کی طبعیت ٹھیک تھی تو اس نے ماں کو بھیجا تھا۔۔۔۔
ارے نادیہ آج ہماری ماہ نور بیٹی نہیں آئی ۔۔
بس مریم بہن اپنی مرضی کی مالک ہے میں نے تو کہا تھا کے چلو پر کہتی گھر رہوں گی””””نادیہ نے رنجیدگی سے جواب دیا کیونکہ وہ چاہتی تھی وہ حویلی والوں کے بارے جو الٹا سیدھا سوچتی ہے وہ نا سوچا کرے۔۔۔
چلو کوئی نہیں تم میرے بیٹے سے ملو”””انہوں نے سامنے سے آتے فارس سے ان کا تعارف کروایا۔۔۔
ماشااللہ کتنا بڑا ہو گیا اور کیسا قد کاٹھ نکالا ہے نادیہ بیگم نے فارس کے سر پر یاتھ پھیرا “”””اب پھر تو واپس نہیں جائو گے بیٹا انہوں نے فارس سے پوچھا۔۔۔
نہیں خالہ جی اب پڑھائی مکمل ہو گئی ہے ابا جان اور چچا کا ہاتھ بٹائوں گا کام ۔۔۔۔
جیتے رہوں پتر ۔۔۔
فارس بیٹا جن کو تم رات گھر چھوڑنے گئے تھے ماہ نور یہ ان کی امی ہیں ۔۔۔
اوہ اچھا فارس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا””””وہ نہیں آئی ساتھ۔۔۔
وہ کون بیٹا نادیہ بیگم نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔
مطلب ماہ نور نہیں آئی اس ہکلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
ارے بیٹا وہ لڑکی میری کہاں سنتی ہے مرضی کی مالک ہے نہیں آئی۔۔۔
ماہ نور نہیں آئے گی یہ سن کر فارس کا منہ بن گیا۔۔۔۔
ارے فارس آپ یہاں کھڑے ہیں آپ کو باہر بڑے ابا بلا رہے ہیں آبگینے نے پھولی سانس کے ساتھ پیغام دیا۔۔
ارے تمہارا سانس کیوں پھول رہا ہے کیا کرتی رہی ہو۔۔۔
آپ کو نہیں پتہ میں کتنے کام کر رہی ہو ابھی بیوٹیشن آپی کو تیار کر رہی پھر میں ہو گی اور بڑے ابا نے مجھے آپ کو بلانے بھیج دیا اتنا ڈھونڈا آپ کو اور اب ملے ہو اس نے معصومیت سے جواب دیا
اوہ اچھا جی پھر تو آپ واقع ہی بڑا کام کر رہی ہے پھر اتنا وزن بھی تو اٹھانا نے تم ۔۔۔
ہیں میں نے کون سا وزن اٹھانا ہے ۔۔۔۔۔
بھئی میک اپ کا وزن اور کون سا “”””فارس نے شرارت سے کہا۔۔۔۔۔
دیکھ لے بڑی امی میں تو اتنا میک اپ نہیں کرتی نیچرل بیوٹی ہو میں تو آبی نے ماں کے ساتھ لگتے ہوئے لاڈ سے کہا۔۔۔۔
ہاں بھئی اپنی آبی کو تو میک اپ کی ضرورت ہی نہیں ویسے ہی بہت پیاری ہے مریم بییگم نے کو ساتھ لگا لیا۔۔۔
اچھا میں باہر دیکھتا ہو بارات بھی آنے والی ہو گی جلدی سے تیار ہو جائو””””فارس یہ کہتا باہر نکل گیا۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
بارات آ گئی تھی اور سب رسمیں بخوبی ہو گئی تھی نکاح کی رسم بھی ہو گئی تھی روشانے بہت پیاری لگ رہی تھی اس نے فل ریڈ لہنگا پہنا تھا اس پر ملٹی کام ہوا تھا”””اس کا دولہا ارحم بھی بہت اچھا لگ رہا تھا دونوں کی جوڑی زبردست تھی۔۔۔۔
اور آبگینے بھی بہت پیاری لگ رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ فارس اس کو دیکھے سراہے پر فارس کی آنکھوں میں کوئی اور سما چکی تھی۔۔
آخر کار وہ ٹائم بھی آ ہی گیا جس کا دلہے والے بے صبری سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں رخصتی کا ٹائم۔۔۔۔
روشانے جب باپ کے گلے لگی تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اسے اپنی ماں شدت سے یاد آ رہی تھی مریم بیگم نے تو کوئی کسر نہئں چھوڑی تھی پر اپنی ماں پھر اپنی ہی ہوتی ہے
قاسم شاہ بھی بیٹی کو ساتھ لپٹائے بچوں کی طرح رو پڑے وہ اپنی بیٹیوں سے پیار تو کرتے تھے پر کبھی اظہار نہیں کیا
بیگم کے جانے کے بعد وہ خود میں گم ہو گئے تھے اس ٹائم انہیں شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ وہ بیٹیوں سے بہت دور ہو گئے تھے انہوں دور کھڑی آبی کو بھی پاس بلا کر ساتھ لگا لیا۔۔۔۔
ارے بھئی اب بس کرو سکندر شاہ اور مریم بیگم نے آگے ہو ان تینوں کو الگ کیا اور روشانے سے گلے ملنے کے بعد رخصت کر دیا۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
رخصتی کے بعد سب مہمان چلے گے جو دور کے تھے وہ کمروں میں آرام کے لئے چلے گئے۔۔۔
فارس کچن میں پانی پینے گیا تو دیکھا آبگینے وہاں بیٹھی رو رہی تھی “”””ارے آبی کیا ہوا کیوں رو رہی ہو فارس نے اس کے پاس جا کر پوچھا۔۔۔۔
وہ امی کی یاد آ رہی تھی اور آپی بھی دور چلی گی ہے۔۔۔
ارے یار اس میں رونے کی کیا بات ہے تم دعا کرو وہ اپنے گھر میں خوش رہے آباد رہے “””‘یہ کہہ کر فارس نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔۔
آبی فارس کے ساتھ لگی اور شدت سے رونے لگی ۔
اچھا نا اب بس کرو اور چلو جلدی سے مجھے چائے بنا کر دو کام لگو خافی ریسٹ کر لی تم نے اب روشی تو چلی گئی سب کام تم سمبھالو گی “””فارس نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے پیار سے کہا کیوں کہ اسے بہت ترس آ رہا تھا اس کی حالت دیکھ کر۔۔
آبگینے دل میں بہت خوش ہوئی کہ فارس کو میرا کتنا خیال ہے یہ سوچ کر ہی وہ شرما گئی “”””اسے نہیں معلوم تھا جس راستے پر وہ چل رہی ہے کتنا کھٹن ہ
💓💓💓💓💓💓💓💓
اماں پھر ہو گئی آپ کی لاڈلی کی شادی رات کو کب واپس آئی تھی میں تو سو گئی تھی “”””مانو نے ماں سے پوچھا جو کچن میں کھڑی ناشتا بنا رہی تھی۔۔
تمہیں کیا لگے سب تمہارا پوچھ رہے تھے اور مجھے اتنی شرم آ رہی تھی کہ میری بیٹی کے کتنے برے خیالات ہیں ان لوگوں کے بارے میں ۔
تو میں نے کہا تھا کے پوچھتے مجھے تو حویلی کا کوئی بھی انسان پسند نہیں ہے سب ہی ڈرامے باز ہیں۔۔۔۔
ہاں بھئی ساری دنیا غلط اور ماہ نور بی بی ٹھیک ہے اور رات کو تمہیں فارس بیٹا چھوڑنے آیا تھا تو تمہیں شرم نہیں آئی کے اندر لے آتی کوئی چائے پانی پوچھتی۔۔۔
توبہ ہے اماں ان کے گھر میں شادی تھی وہ کوئی بھوکا تھوڑی ہو گا جو چائے پانی پوچھتی اور ویسے بھی آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں اور میں اتنی اچھی نہیں کہ اسے چائے پانی پلاتی “””مانو نے غصے سے جواب دیا کیوں کہ اس رات والی ساری باتیں یاد آ گئی تھی کمبخت کیسی باتیں کر رہا تھا اس نے دل میں سوچا ابھی اماں کو بتا دو تو حویلی والوں کی اصلیت کا پتہ چل جائے پر نہیں انہوں نے میری بات کا یقین ہی نہیں کرنا وہ لوگ ٹھیک لگے گے اور میں غلط۔۔۔
اب کن سوچوں میں گم ہو گئ ماہرانی صاحبہ اماں نے طنز سے کہا۔۔۔۔۔
توبہ ہے اماں ویسے تو آپ کتنی میٹھی ہیں اور میرے ساتھ کیسے بات کرتی ہیں۔۔۔۔
چل بکواس نا کر اور ناشتہ کر لے۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
وہ ماہ نور کو ایک نظر دیکھنے کے لئے ترس رہا تھا اور ماہ نور کو تو وہ ملاقات بھول بھی گئی تھی اسے تو لگا تھا کہ باہر سے آیا ہے اس لئے ایسی بکواس کر دی اسے نہیں پتہ تھا کوئی اس کی یاد میں پل پل جل رہا ہے۔۔۔۔
ارے فارس بیٹا تم اتنے اداس کیوں بیٹھے ہو کوئی بات ہیں کیا “”””مریم بیگم نے اسے اداس بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔۔
ارے نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔
کوئی بات تو ہیں پتر جی تم نہیں بتانا چاہتے تو مرضی ہیں تمہاری۔۔۔۔۔۔
ارے اماں سچ میں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم یہ کچھ سامان ہے نادیہ خالہ کے گھر پہنچا دو۔۔۔۔
کیا نادیہ خالہ کے گھر سچ میں اماں یہ سن کے تو اس کی خوشی سے باچھیں ہی کھل گئی۔۔۔۔
ہاں سچ میں بیٹا تم ایسے کیوں بات کر رہے ہو ۔۔۔۔
کککک “””””‘کچھ نہیں ویسے ہی میں حیران ہو رہا ہو ان کے گھر سامان کس لئے اس نے بات بدلتے ہوئے کہا۔۔
ہاں بیٹا جب سے حسن بھائی فوت ہوئے ہیں تمہارے باپ نے ان ماں بیٹی کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے ہمارے رشتے دار ہیں چاہے دور کے ہی سہی ہمیں خیال ہیں ان کا اور رکھنا بھی چاہے۔۔۔
یہ تو بہت اچھی بات ہیں اماں اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔۔
اچھا میں گاڑی میں رکھواتا ہوں سامان۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
وہ سامان لے کر پہنچا تو دروازہ اس دشمن جاں نے کھولا فارس اسے دیکھ کر مسکرانے لگا وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی ۔۔۔
اوہ ہیلو مسٹر دماغ ٹھیک ہیے تمہارا دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر دانتوں کی نمائش کر رہے ہو اس لئے آئے ہو “””مانو نے اس کے مسکرانے پر چوٹ کی۔۔۔
توبہ ہے میں ذرا سا مسکرایا ہو تمہیں دیکھ کر تم نے نمائش ہی بنا دیا ۔۔
اچھا جی مسکرا رہے تھے اب جلدی بولو کس لئے آئے ہو یا صرف اپنی مسکراہٹ دکھانے آئے ہو ۔
وہ اماں نے سامان بھیجا ہے وہ دینے آیا ہو۔۔۔۔
کون سا سامان خیرات کا سامان دینے آئے ہو ہمیں خود کو سمجھتے کیا ہو تم حویلی والے ماہ نور کو سامان کی بات سن کر بہت غصہ آیا تھا چلو نکلو یہاں سے ہمیں کچھ نہیں چاہے۔۔
ارے مانو کون ہے دروازے پر اس سے پہلے کہ ماہ نور فارس کو بھگاتی نادیہ بیگم خود دروازے تک آ گئ اور فارس کو دیکھ کر حیران ہوئی””””””ارے بیٹا تم خیریت اور مانو باہر کیوں کھڑا کیا ہے فارس پتر کو چلو بیٹا اندر آ جائو۔۔۔
ہاں خالہ وہ سامان بھی لایا تھا اماں نے بھیجا ہے اس نے ڈرتے ہوئے کہا کہی خالہ بھی ماہ نور کی طرح ناراض نا ہو جائے۔۔۔
اچھا بیٹا لے آئو اندر اور تم مانو چائے پانی کا بندوبست کرو۔۔۔
ہوووو”””””مانو پائوں پٹختی اندر چلی گئی۔۔
بیٹھو بیٹا ماہ نور پانی لے آ ساتھ ہی مانو کو آواز لگائی۔۔۔
پانی کے بجائے زہر نا پلا دو اسے وہ کچن میں کھڑی غصے سے انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
ارے مانو پانے لانے میں اتنا ٹائم کیوں نادیہ بیگم خود کچن میں آ گئی اور دیکھا کہ ماہ نور صاحبہ آرام سے کھڑی ہے نا چائے نا پانی کچھ بھی نہیں۔۔۔
تم کتنی ڈھیٹ ہو میں خود کر لو گی گھر آئے مہمان کے ساتھ کوئی ایسے کرتا ہیں نادیہ بیگم نے اسے غصے سے کہا اور خود پانی لے کر چلی گئی۔۔۔
____________
یہ پتہ نہیں اماں کو کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو سر پر ہی چڑھا لیا ہے تمہیں پتہ ہے وہ لنگور کل ہمارے گھر آ گیا تھا “”””مانو رجو کے سامنے دل ہلکا کر رہی تھی۔
ارے کون لنگور گھر آ گیا “”””رجو نے حیرت سے پوچھا۔۔
ارے وہ ہی حویلی والوں کا لڑکا جو ہمیں گھر چھوڑنے آیا تھا اور مجھ سے اظہارے محبت کر رہا تھا منہوس مارا ۔۔۔
ہائے مانو لنگور تو نا کہو کیسا اونچا لمبا گھبرو جوان ہے اتنا خوبصورت مرد میں آج تک اپنی چھوٹی سی زندگی میں نہیں دیکھا۔۔۔
ارے بس بس اب تم بھی نا شروع ہو جائو تمہارے پاس دل کا بوجھ ہلکا کرنے آتی ہو تم بھی شروع نا ہو جایا کرو اور کوئی اتنا بھی حسین جوان نہیں مجھے تو پورا لنگور لگا۔۔
چھوڑو مانو تم سے بحث کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔۔۔۔
اچھا اب میں بھینس ہو گئی ۔۔۔
ارے تم بھینس نہیں میں نے محاورہ بولا ہیں ۔۔
تمہیں پتہ ہے وہ کل سامان دینے آیا تھا میں نے خوب باتیں سنائی ذرا سی بھی شرم ہوئی تو دوبارہ سامان نہیں بھیجے گے۔۔۔
تم کس دنیا میں رہتی ہو مانو ایک تو تمہارے ابے کے جانے کے بعد وہ لوگ کتنا خیال رکھتے ہیں تم ماں بیٹی کا اور تم باتیں سناتی رہتی ہو ان کو۔۔۔
واہ جی احسان کس چیز کا میرا ابا سکندر اور قاسم شاہ کا چچیرا بھائی تھا ہمارا بھی تو کوئی حصہ ہو گا ان زمینوں میں آٹا چاول بھیج کے وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا۔۔۔
ٹھیک ہے اس ان دیکھی آگ میں جلتی رہوں لازمی نہیں کہ ان لوگوں کے پاس جتنی زمینیں ہیں تمہارے ابے کے پاس بھی ہو اور خالہ کو تو پتہ ہوتا ہی اگر کوئی ایسی بات ہوتی پر تم اپنی انا کا جھنڈا اونچا کرتی رہوں ۔۔۔
تم دیکھنا میں اپنا حصہ لے کر رہوں گی ان لوگوں سے چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے کچھ بھی “”””مانو نے اک عزم سے کہا۔۔
اچھا بھئی لو حصہ “””ویسے تم شادی کر لو فارس سے پھر تمہیں حصہ مل سکتا ہے”””رجو نے اسے چڑانے کے لئے کہا پر اسے نہیں پتہ تھا کسی کے لئے یہ بات سوچ کے نئے در وا کر گئی ہے۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
ارے چڑیا اداس کیوں بیٹھی ہو فارس نے آبی کو اداس دیکھا تو پوچھا۔۔۔۔
آپ کو کیا لگے آپی شادی کر کے دوسرے دیس چلی گئی اور اب مجھ سے کوئی بات کرنے کے لئے ہے ہی نہیں اور آپ کے پاس ٹائم ہی نہیں ہمارے لئے آبگینے نے دل کی بھڑاس نکالی ۔
ارے چڑیا تو بھری بیٹھی ہے غصے سے تم اماں جان سے باتیں کیا کرو۔۔۔۔
اماں جان سے کتنی باتیں کر سکتی ہو ان کو بھی سو کام ہوتے ہیں۔۔۔۔
تو تمہاری کوئی دوست نہیں ہے کیا گائوں میں “””یہ کہتے ہوئے فارس کے سامنے ماہ نور کا سراپا آیا۔۔۔۔
نہیں میری تو کوئی دوست نہیں آبی نے اداسی سے کہا۔۔۔
اچھا وہ جو نادیہ خالہ کی بیٹی ہے وہ تمہاری دوست نہیں کیا۔۔۔۔۔
توبہ کرو اس سڑیل سے میں کیوں دوستی کرو بہت مغرور ہے اپنے حسن پر ہم حویلی والوں سے تو اسے پتہ نہیں کیا بیر ہے
مجھے تو ذرا پسند نہیں آپی کی شادی پر بھی نہیں آئی بس مہندی پر آئی تھی اسے اماں جان نے سپیشل کہا تھا کہ ہر فنگشن میں آنا وہ تو خود کو توپ چیز سمجھتی ہیں۔۔۔
حسین اور توپ چیز تو وہ واقع ہی ہے “”فارس نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا کہہ رہے ہو مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔۔
کچھ نہیں تم بس خوش خوش رہا کرو وہ اسے چھوٹی بہن سمجھ کر کہہ رہا تھا۔۔۔
اچھا جی آپ کو میرا اتنا خیال ہے۔۔۔۔
تو اور کیا مجھے تمہارا بہت خیال ہے ایسے اداس نا بیٹھا کرو۔۔۔
وہ اتنے میں بہت خوش ہو گئی تھی کہ فارس کو میرا کتنا خیال ہے۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
مانو مجھے تو ڈر لگ رہا ہے اور دیکھو اندھیرا بھی ہو رہا ہے جلدی نکلو یہاں سے””””””””گائوں کے ساتھ میلا لگا تھا مانو اور رجو دونوں آئی تھی پھرتے پھرتے اب اندھیرا بڈھ رہا تھا اور گائوں میں لوگ جلدی گھروں میں گھس جاتے ہیں اس لئے سناٹا سا ہو رہا تھا۔۔۔
ارے ڈر کیوں رہی ہو میں ہو نا تمہارے ساتھ حالانکہ اندر سے وہ بھی ڈر رہی تھی پر رجو پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
اوہو سوہنیو کدھر اکیلے اکیلے چلو ہمارے ساتھ ۔۔
کککک!!!!!کون ہو تم اور ہمارے پیچھے کیوں آ رہے ہو مانو نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا””””ان کے پیچھے دو لڑکے لگے تھے ۔۔۔
ارے ہم تو تمہارے چاہنے والے ہیں پورے میلے میں تم پر سے نظر نہیں ہٹی تھی
وہ مانو کو اپنی نظروں میں رکھ کر کہہ رہے تھے ماہ نور نے بلیک سوٹ پہنا تھا جس میں اس کی گوری رنگت ایسے چمک رہی تھی جیسے سیاہ رات میں چوہدویں کا چاند ہو۔۔۔
رجو بھاگ اتنا کہہ کر انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا
وہ لڑکے بھی ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔۔۔
ماہ نور کی جوتی ٹوٹ گئی اس نے جوتی وہی چھوڑی اور بھاگتی رہی رجو اس سے کافی آ گے نکل گئی تھی اور پیچھے اکیلی بھاگ رہی تھی کے سامنے سے آتے وجود سے ٹکرا گئی۔۔
بچائو چائو اس نے سامنے والے کے ساتھ لگتے ہوئے کہا لڑکوں نے آنے والے کو دیکھا تو پیچھے کو بھاگ لئے۔۔
وہ چلے گئے ہیں اب چپ کرو وہ اس کے ساتھ ڈر سے آنکھیں بند کر کے لگی تھی۔۔۔۔
سچی چلے گئے۔۔۔
ہاں چلے گئے ہیں اب آنکھیں کھول لو ۔۔
اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے فارس سکندر کھڑا تھا اور وہ اس کے سینے سے لگی تھی وہ جلدی سے پیچھے ہٹی۔۔۔۔
فارس اسے دیکھ کر مسکرانے لگا کدھر سے آ رہی ہو اس ٹائم ۔۔
وہ ہم میلے میں گئے تھے پھرتے پھرتے ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا اور یہ لڑکے ہمرے پیچھے لگ گئے میرے ساتھ رجو بھی تھی وہ کدھر گئی۔۔
اس نے ہی مجھے بھیجا ہے میں کھیتوں میں پانی لگوا رہا تھا وہ بھاگتی ہوئی آئی اور سب بتایا اب چلو اندھیرا بڑھ رہا ہے۔۔
سسسسی “””” جیسے ہی وہ چلنے لگی اسے پائوں میں درد کا احساس ہوا ۔۔۔۔۔
کیا ہوا فارس نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
وہ میری جوتی ٹوٹ گئی تھی یہ کہہ کر مانو نے پائوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
فارس نے موبائل کی روشنی میں نیچے بیٹھ کر اس کا پائوں دیکھا تو اس میں کانچ لگا تھا اس نے ماہ نور کو بتائے بغیر کانچ کا ٹکڑا کھینچا””””مانو کی درد سے چیخ نکل گئی فارس نے اس کے پائوں پر اپنا رومال باندھا اور اپنا جوتا اتار کر اس کے سامنے کیا۔۔۔۔۔
کیا مانو جوتا دیکھ کر حیران ہوئی آپ اپنا جوتا پہن لے۔۔۔۔
تم پہن لو پہلے پائوں زخمی ہے پلیز کوئی بحث نا کرنا ورنہ میں اٹھا کر لے جائو گا۔۔۔۔
یہ سن کر ماہ نور نے جلدی سے جوتا پہن لیا اور لنگڑا کر چلنے لگی ۔۔۔۔
زیادہ درد تو نہیں ہو رہا فارس کو اسے اس حال میں دیکھ کر تکلیف ہو رہی تھی ۔۔
اگر ہو بھی رہی ہو تو تم سے مطلب ہر کام میں تم حویلی والے اپنی چلاتے ہو میں تو تم لوگوں کا کوئی احسان لینا نہیں چاہتی تھی پر ہائے ری قسمت کس موڑ پر لے آئی۔۔۔
اچھا اب تو تمہاتی زبان بڑی چل رہی ہے زرا ان گھنڈوں کو بھی اپنی زبان کے جوہر دیکھا دیتی “”””فارس نے اس کی زبان پر چوٹ کی۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...