حوصلہ کرو میری بیٹی۔!اگر اسے معلوم ہو بھی گیا ہے تو کیا ہو گا۔کیاماں اور بیٹے کا رشتہ ختم ہو جائے گا؟ایسے پاگلوں کی طرح مت سوچو،سکون سے میرے پاس آ کر بیٹھو۔ممکن ہے وہ اپنے ہی کسی کام سے آیا ہو۔یہ آفیسر لوگ تو یہاں آتے ہی رہتے ہیں۔آ میر ی بیٹی،بیٹھ ادھر۔‘‘
’’اللہ کر کے ایسا ہی ہو۔۔۔میں نے ساری زندگی اس سے یہ بات چھپائی ہے۔۔اور اگر اب۔۔۔‘‘وہ کہتے ہوئے رک گئی،پھر غصے میں بھرے ہوئے لہجے میں بولی۔’میرے بارے میں پتہ چلتے ہی نادیہ کے بارے میں بھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔بات یہیں تک نہیں رکنے والی۔لیکن اب مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ بات کھلتی ہے تو کھل جائے۔اب میں دلاور شاہ کو معاف نہیں کروں گی۔‘‘
’’اللہ خیر کرے گا۔۔تم صبر تو کرو۔۔‘‘اماں بی نے گبھرائے ہوئے لہجے میں کہا،تب پھر ان دونوں میں خاموشی چھا گئی۔
وہ لاشعوری طور پر ملازمہ کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔اس کی اطلاع پر ہی وہ سوچ سکتی تھی کہ اب اس نے کیا کرنا ہے۔یہ لمحات بہت بھاری تھے۔گذارے نہیں گذر رہے تھے۔ایک طرف دلاور شاہ لکیرکھینچ کر جا چکا تھا اور دوسری طرف شعیب حویلی آن پہنچا تھا۔ اس وقت زبیدہ ایسی کیفیت میں تھی جیسے کوئی خلا میں ہوتا ہے۔نہ ہی کچھ سوچ سکتی تھی اور نہ ہی کچھ کہہ سکتی تھی،ایک جمود اس پر طاری تھا کہ وہ انتہائی بے بسی محسوس کر رہی تھی۔
تقریباًآدھے گھنٹے کے بعد ملازمہ پلٹ آئی۔اس کے چہرے پر عجیب طرح کا تاثر پھیلا ہوا تھا۔
’’بولو،کون لوگ ہیں وہ۔؟‘‘اماں بی نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے اضطرابی لہجے میں پوچھا۔
’’وہ شہر کے افسر ہی ہیں اماں۔۔لیکن تاجاں مائی کو لینے آئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ پیر سائیں نے اسے قتل کر دیا ہے۔وہ اسے۔۔۔‘‘وہ تیزی سے کہنے لگی تو زبیدہ نے پوچھا۔
’’دلاور شاہ کا رویہ کیسا ہے ان کے ساتھ۔۔۔؟‘‘
’’ٹھیک ہے ۔غصے میں نہیں ہیں۔۔کہہ رہے تھے کہ تاجاں مائی کو جانے کی اجازت نہیں۔اس سے ملوایا جا سکتا ہے‘‘
’’اور وہ نہیں مان رہے ہوں گے؟‘‘دادی اماں نے جلدی سے پوچھا
’’بس یہی بحث چل رہی ہے۔‘‘ملازمہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’تاجاں مائی کہاں ہے۔‘‘اماں بی نے انتہائی آہستگی سے پوچھا تو ملازمہ نے زبیدہ کی طرف دیکھتے ہوئے جھجک کر کہا۔
’’وہ تہہ خانے میں ہے۔پیر سائیں نے اسے وہاں بند کر دیا ہوا ہے۔‘‘
’’وہ ضد کا بڑا پکا ہے۔تاجاں مائی کو لے کر ہی جائے گا۔مگر وہ تاجاں مائی ہی کو کیوں لینے آ گیا۔‘‘زبیدہ نے پوچھا۔
’’تاجاں مائی کا بیٹا کرم علی ان کے ساتھ ہے۔‘‘ملازمہ جلدی سے بولی تودادی اماں چند لمحے سوچتی رہی پھر اس سے بولی۔
’’اچھا،تو جا۔۔میں جب تجھے بلاؤں تو آنا۔۔۔‘‘
ملازمہ یہ سنتے ہی فوراً پلٹ گئی۔ تباماں بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگی
’’تاجاں مائی تو سب کچھ کہہ دے گی۔۔اس کا منہ کون بند رکھے گا۔اس نے منہ کھولا تو۔۔‘‘
زبیدہ نے سنا تو انجانے خوف سے لرزتی ہوئی چونک اٹھی تھی۔ اسے فقط اپنے بیٹے کی فکر تھی۔
***
نادیہ کو اپنے کمرے میںآتے ہی سب سے پہلی تشویش تاجاں مائی کے بارے میں ہی ہوئی تھی۔وہ اپنے کمرے میں اس وقت تک بے چین رہی،جب تک اسے تاجاں مائی کے بارے میں پتہ نہیں چل گیا کہ اس کے جانے کے بعد اس پر کیا گذری۔نادیہ کا دل بھر آیا۔تاجاں مائی نے اس کے لئے اتنی بڑی قربانی دی۔تھوڑی سی کوشش کے بعد نادیہ کو یہ معلوم ہو گیا کہ تاجاں مائی اس وقت کہاں ہے؟نادیہ کے گمان میں یہی تھا کہ پیر سائیں اب اپنا راز رکھنے کے لیے تاجاں مائی کو قتل کروا دے گا۔یہی اس حویلی کی روایات میں تھا کہ راز افشا کرنے والے کی سانسیں کھنچ لی جاتی تھیں۔وہ اپنی پھوپھی زبیدہ کا راز رکھنے کے لئے دوبارہ حویلی آ گئی تھی۔ یہاں حویلی آنے کا مطلب تھا کہ اپنی زندگی کو داؤ پر پھر سے لگا رہی تھی۔اگر چہ پھوپھو زبیدہ اوردادی اماں نے اسے یقین دلایا تھا کہ ہو گا وہی جو وہ خود چاہے گی،لیکن یہ بات اس کے دل میں نہیں اتری تھی۔اسے یقین تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔پھوپھو زبیدہ سے جہاں خون کا رشتہ نکل آیا تھا،وہاں وہ شعیب کی ماں بھی تھی۔وہ شعیب جس پر دیکھے بنا اعتماد کر چکی تھی۔اس نے خود کو ان پر قربان کر دیا تھا۔اس کی اپنی ذات تو نہ رہی تھی لیکن تاجاں مائی بے چاری کا کیا قصور ،اس کی تو مدد کرنی چاہیے نا،اگر اسے کچھ ہو گیا تو ذمے دار وہی ہو گی۔جس کے باعث وہ تشدد کے اذیت ناک مرحلے سے گذری ہے۔اب اگر وہ حویلی میں ہے تو اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تاجاں مائی کی مدد کرے۔اس حویلی کی روایات سے وہ بغاوت تو کر ہی چکی ہے۔باغی کے لئے جو سزا ہے وہ تو مقرر ہو ہی گئی ہے تو کیوں نا،اپنی مرضی کرے۔یہ سوچتے ہی وہ اپنے کمرے سے اٹھی اور اس جانب چل دی ،جہاں تہہ خانے میں تاجاں مائی کو رکھا ہوا تھا۔
تہہ خانے کا وہ دروازہ لاک تھا۔دروازے پر جڑا تالہ اس کی طرف بڑی حسرت سے دیکھ رہا تھا۔یہی تالہ تاجاں مائی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔وہ واپس پلٹ آئی۔کچھ دیر بعد جب وہ وہاں پر واپس آئی تو حویلی کی دو ملازمائیں اس کے ساتھ تھیں اور تالا توڑنے کا سامان ان کے پاس تھا۔ذرا سی دیر میں تالا ٹوٹ گیا اور وہ اس کمرے میں داخل ہو گئی۔سامنے ننگے فرش پر تاجاں مائی چت لیٹی ہوئی تھی۔وہ یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ اپنی آخر ی سانسوں پر ہو۔تشدد کے باعث اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا۔کئی جگہ سے جلد پھٹی ہوئی تھی۔جس سے خون رس رس کر سوکھ چکا تھا یا پھر آنسوؤ ں کی لکیروں میں بہہ گیا تھا۔وہ نیم جان حالت میں پڑی ہوئی تھی ۔نادیہ اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔اس کی حالت دیکھ کر خود اس کا اپنا دل بھر آیاتھا۔اس نے تاجاں مائی کے ماتھے پر ہاتھ رکھ اور دھیرے سے آواز دی۔
’’تاجاں مائی۔!‘‘
’’بی بی سائیں آپ۔۔۔!آپ ۔۔کیسے۔۔یہ ماردیں گے ۔۔جاؤ آپ۔۔۔‘‘
’’میں آ گئی ہوں نا۔۔ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔۔ ‘‘ نادیہ نے اسے تسلی دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔پیر سائیں مار دیں گے۔۔آپ کو بھی اورمجھے بھی۔۔‘‘وہ تڑپ کر بولی تو نادیہ نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’کہا ہے نا، کچھ نہیں ہوتا۔۔تم اٹھو اور میرے کمرے تک چلو۔۔میں دیکھ لیتی ہوں سب کو۔۔چلو۔‘‘
’’بی بی سائیں ۔!وہ بہت ظالم ہیں۔۔‘‘وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں کہا نا۔اب کچھ نہیں ہوتا۔میں تمہیں سب بتاتی ہوں ۔چلو اٹھو۔‘‘اس نے آہستگی سے کہتے ہوئے اسے اٹھایا۔تاجاں مائی بہت کوشش کے بعداٹھ گئی۔اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔نادیہ اسے سہار ادے کر کمرے سے باہر تک لے آئی۔پھر دونوں ملازماؤں کی مدد سے وہ کافی کوشش کے بعد اسے اپنے کمرے میں لانے میں کامیاب ہو گئی۔
نادیہ نے تاجاں مائی کو قالین پر لٹایا اور اس کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے لگی۔تب تک ایک ملازمہ اس کے لئے کھانے پینے کے لیے کچھ چیزیں لے کر آ گئی۔اس سارے دورانیے میں نادیہ نے تاجاں مائی کو اعتماد میں لے لیااور اس کی پوری حفاظت کے ذمے داری بھی لے لی۔وہ کافی حد تک سنبھل گئی مگر پیر سائیں کا خوف اب بھی اس پر مسلط تھا۔وہ گبھرائی ،ڈری اور سہمی ہوئی نادیہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔وہ حیران ہو رہی تھی کہ یہ سب کیا ہو گیا۔
’’بی بی سائیں۔!آپ صرف بی بی زبیدہ کے لئے یہاں آ گئی ہیں۔اپنی ساری زندگی۔۔۔۔‘‘
’’ہاں۔!وہ بھی میرے ساتھ آ گئی ہیں اوردادی اماں کے پاس ہیں۔میں نے ان کا راز رکھنا ہے۔‘‘نادیہ نے عزم سے کہا۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی، کمرے کا دروازہ کھلا اور زبیدہ کے ساتھدادی اماں وہیں آ گئیں۔زبیدہ حسرت سے تاجاں مائی کو دیکھ رہی تھی اور ایسی ہی حالت تاجاں مائی کی بھی تھی۔وہ اس عورت کو دیکھ رہی تھی جس سے وفا کرتے ہوئے اس کی ماں شرماں مائی نے اپنی جان دے دی تھی۔
’’تم بہت چھوٹی سی تھی جب میں نے حویلی کو چھوڑا تھا۔میں بد قسمت رہی کہ تمہاری ماں کو نہ بچا سکی۔۔لیکن نادیہ نے تمہیں بچا لیا۔۔‘‘زبیدہ نے انتہائی دکھ سے کہا۔تبھی نادیہ نے بڑے گھمبیر لہجے میں کہا۔
’’پھو پھو۔!آپ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائیں۔یہاں میں خود سنبھال لوں گی۔‘‘
’’کیا مطلب۔!تم یہاں رہنا چاہتی ہو؟‘‘زبیدہ نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’جی پھو پھو ۔!آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی۔۔آپ کا راز اورمیرا راز صرف اسی صورت میں چھپا رہ سکتا ہے،جب تک میں یہاں ہوں۔‘‘نادیہ نے کہنا چاہا۔
’’میں مانتی ہوں نادیہ کہ یہ تم صرف میرے لئے کر رہی ہو۔اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرا راز کھل گیا تو شاید شعیب سے بھی نگاہیں نہ ملا سکوں،میں چاہتی ہوں کہ میرا راز،راز ہی رہے ،لیکن اس کی اتنی بھاری قیمت کم ازکم میں نہیں ادا کر سکتی۔ میں جو سوچ کر یہاں آئی تھی،حالات ویسے نہیں رہے۔ اس وقت یہاں اس حویلی میں شعیب موجود ہے اور وہ اسے لینے کے لئے آیا ہوا ہے۔۔‘‘زبیدہ نے کہا تو نادیہ بری طرح چونک گئی۔پھر وہ لرزتے ہوئے بولی۔
’’شعیب یہاں۔۔کیسے۔۔؟‘‘
’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم ۔۔وہ ہر حال میں تاجاں مائی سے ملنا چاہتا ہے۔بلکہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔‘‘زبیدہ نے کہا تو نادیہ نیدادی اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اماں ۔!یہ سب کیا ہو گیا ہے۔ ۔۔یہ۔۔یہ ۔‘‘وہ شدت جذبات سے کچھ نہ کہہ سکی۔تبدادی اماں نے سکون سے کہا۔
’’تم سب سکون کرو۔۔میں کچھ کرتی ہوں۔‘‘پھر پاس کھڑی ملازمہ نے کہا۔’’جاؤ۔دیوان سے کہنا۔۔۔میں بلا رہی ہوں۔‘‘
وہ سنتے ہی پلٹ گئی۔تب اماں نے تاجاں مائی سے کہا۔’’تم باہر سے آنے والوں سے ملو گی۔انہیں کچھ بھی نہیں بتاؤں گی۔بلکہ یہ کہوگی کہ تم یہاں حویلی میں رہنا چاہتی ہو۔تم پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔وہ لوگ چلے جائیں تو پھر میں سنبھال لوں گی۔اپنے بیٹے کو بھی سمجھا دینا۔۔۔‘‘
’’جیدادی اماں سائیں ۔میں ایسا ہی کروں گی۔۔‘‘تاجاں مائی نے سعادت مندی سے کہااور پر سکون ہو گئی۔
نادیہ سمجھ گئی تھی کہدادی اماں کیا کرنے جا رہی ہیں۔اس لیے خاموش رہی۔
***
مردان خانے میں پیر سائیں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے دائیں طرف پڑے صوفوں پر شعیب اور اہلکار بیٹھے ہوئے تھے۔اور تاجاں مائی کا بیٹا کچھ فاصلے پر کھڑا تھا جہاں دیوان بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے درمیان باتیں ختم ہو چکی تھیں۔صرف فیصلہ پیرسائیں پر تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔شعیب اس سے ذرا مرعوب نہیں ہوا تھا۔اس نے پیر سائیں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاجاں مائی کا مطالبہ کیا تھا۔اس دوران فون بھی آتے رہے اور بحث بھی چلتی رہی ۔تب اچانک پیر سائیں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ،میں آپ لوگوں کو تاجاں سے ملوا دیتا ہوں۔‘‘
یہ کہنے کے ساتھ ہی باتیں ختم ہو گئی تھیں اور وہ لوگ تاجاں مائی کی آمد کے منتظر تھے۔چند لمحے گذرے ہوں گے کہ بڑی سی چادر میں لپٹی ہو ئی تاجاں مائی ان کے پاس آ کھڑی ہوئی۔تبھی اس کا بیٹا حیرت اور دردبھری خوشی میں پکار اٹھا۔
’’اماں ۔!تم ٹھیک تو ہو نا۔۔۔‘‘
’’ہاں پتر۔!میں ٹھیک ہوں۔۔‘‘پھربڑے مودب لہجے میں پیر سائیں کی طرف دیکھ کر بولی ۔’’جی ،پیر سائیں حکم۔۔۔‘‘
’’یہ لوگ تم سے ملنے آئے ہیں۔۔تیرا بیٹا لے کر آیا ہے،پوچھ لو کیا کہتے ہیں۔۔؟‘‘پیر سائیں نے رعونت سے کہا تو وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔
’’تاجاں مائی۔!کیا تم پر حویلی میں کوئی تشدد ہوا ہے ، یا تمہیں یہاں اپنی جان کو خطرہ ہے؟‘‘شعیب نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں سرکار۔!ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔آپ سے کس نے کہا؟‘‘
’’تمہارے بیٹے نے۔۔اور یہ تمہارے چہرے پر۔۔۔‘‘
’’اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔میں سیڑیوں سے گر گئی تھی۔تب سے یہیں ہوں۔ میرے چوٹیں آ گئی تھیں۔یہاں میرا بہت اچھا خیال رکھا جا رہا ہے۔میرا علاج ہو رہا ہے۔‘‘تاجاں مائی نے بڑی مشکل سے کہا۔
’’اوہ۔!لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہیں تمہارے گھر سے غنڈے اٹھا کر لے گئے تھے ۔۔اور۔۔‘‘شعیب نے کمزور سے لہجے میں کہا۔
’’نہیں،ایسی کوئی بات نہیں۔آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں،میں ٹھیک ہوں ،مجھے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ۔‘‘تاجاں مائی نے کہا تو شعیب نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔نجانے اسے تاجاں مائی کے بیان پر یقین کیوں نہیں آ رہا تھا۔اس کا لہجہ او ر آنکھیں یکساں نہیں تھیں۔مگر یہاں آنکھوں کی زبان پر نہیں،لفظوں پر یقین کرنا تھا۔وہ چند لمحے سوچتا رہا۔پھر فوراً ہی اٹھتے ہوئے بولا۔
’’او کے پیر سائیں۔!آپ کو تکلیف دینے کی معذرت ۔۔اب میں چلتا ہوں۔‘‘
’’کھانا کھا کر جایئے گا۔۔‘‘پیر سائیں نے فتح مندی کے بھر پور احساس کے ساتھ کہا۔
’’نہیں۔!میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘یہ کہا اور اس سے ہاتھ ملائے بغیر وہاں سے نکل کر باہر آگیا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا مردان خانے سے نکلا تھا۔پیر سائیں اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔پھر دیوان کی طرف دیکھا اور بولا۔
’’ان لوگوں کو بھی بھجوا دو۔۔میں اب آرام کروں گا۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی مردان خانے سے نکل گیا۔تب تاجاں مائی کا بیٹا فوراً اپنی ماں کی جانب آیا اور احتجاج کرنے والے انداز میں کہا۔
’’اماں ،یہ تو نے کیا کہا۔کیوں جھوٹ بولا۔۔‘‘
’’تم نہیں جانتے پتر۔۔!تم جاؤ۔۔میں حویلی ہی میں رہوں گی۔۔ جاؤ تم ۔ ۔‘‘ تاجاں مائی نے بڑے پیار سے کہا۔
’’نہیں اماں۔!میں نہیں جانتا کہ تو کیوں جھوٹ بول رہی ہے۔پر میں تجھے یہاں نہیں رہنے دوں گا۔۔چلو میرے ساتھ۔‘‘بیٹے نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔میں نے کہا نا۔تم جاؤ۔۔۔میں یہیں رہوں گی۔۔‘‘اس نے کہا اور واپس پلٹ گئی۔تب دیوان نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’جاؤ پتر جاؤ۔۔اس حویلی کے بغیر تم لوگوں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔آرام سے گھر جا کر بیٹھ ۔۔۔جا۔۔۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر وہ سر نیچا کیئے وہاں سے چلا گیا تو دیوان نے اہلکار کی طرف دیکھا تودونوں مسکرا دیئے۔
***
نادیہ کے کمرے میں زبیدہ ،اماں بی اور تاجاں مائی بیٹھی ہوئی تھیں۔انہیں معلوم تھا کہ شعیب جا چکا ہے ۔وقتی طور پر راز افشا ہونے کا خطرہ ٹل گیا تھا۔اماں بی نے دیوان کے ذریعے سارامعاملہ سنبھال لیا تھا۔لیکن نادیہ کے بارے میں زبیدہ تذبذب میں تھی کہ اب وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔یہی سوال لیے وہ خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔تبھیدادی اماں نے کہا۔
’’زبیدہ۔!میرے خیال میں تم واپس لوٹ جاؤ۔ایک طوفان جو حویلی میں اٹھنے والاتھا،وقتی طورپر ہی سہی ،وہ تھم گیا ہے،اب جبکہ نادیہ بھی حویلی سے نہیں جانا چاہتی ،تم یہ سب بھول جاؤ،سمجھوکہ تم نے خواب دیکھا تھا۔۔تم اپنی دنیا میں لوٹ جاؤ۔۔‘‘
’’لیکن اماں۔!آپ لوگ جانتے بوجھتے نادیہ کو ایسی زندگی میں دھکیل رہے ہو۔ جہاں اس کی اپنی مرضی نہیں ہو گی۔وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک لاش کی مانند ان دردیوار میں رہے گی۔کیوں ظلم کرتے ہیں آپ۔۔؟‘‘زبیدہ کے لہجے میں حد درجہ احتجاج تھا۔تبدادی اماں چند لمحے خاموش رہیں،پھر انتہائی تحمل سے بولیں۔
’’زبیدہ ۔!یہ تمہیں نے کہا تھا کہ جو نادیہ چاہیے گی ،وہی ہو گا۔اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔اگر اسے دلاور شاہ بھی روکے گا نا،تو میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں گی۔‘‘
زبیدہ نے سنا اور پھر نادیہ کی طرف دیکھا ،جو سر جھکائے ان کی باتیں سن رہی تھی۔اس نے سر اٹھایا اور زبیدہ کی جانب دیکھا ۔پھر لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’پھوپھو۔!میں نے اگر حویلی سے جانا ہی ہوتا نا۔۔۔تو آپ کے ساتھ آپ کے گھر سے آتی ہی نا۔۔۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔ تم صرف میرا راز رکھنے کی خاطر خود کو بھینٹ چڑھا رہی ہو۔میں ا پنے ضمیر پر یہ بوجھ قطعاً برداشت نہیں کر پاؤ ں گی۔۔میری وجہ سے ایک مجبور لڑکی ۔۔۔‘‘زبیدہ نے کہنا چاہا لیکن نادیہ نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔!میں مجبور نہیں اور نہ ہی کمزور ہوں۔۔حویلی کے باہر جا کر اتنا حوصلہ مجھے ہو گیا ہے کہ میں اپنے حق کے لیے لڑ سکوں۔او ر یہ حوصلہ اور ہمت میں نے حویلی والوں کو دکھا بھی دیا ہے۔یہی بات اگر میں کہوں کہ میری وجہ سے آپ کا رازافشا ہو جاتا ہے تو میں اور میرا ضمیریہ کیسے برداشت کر پائیں گے۔بولیں۔۔‘‘
’’مجھے فقط اپنے بیٹے کا ڈر ہے۔میں اسے بتا دوں گی۔۔تو پھر ۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔‘‘زبیدہ نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کے پاس کیا ضمانت ہے کہ وہ پھر بھی مجھ سے اپنائیت بھرا سلوک کرے گا۔وہ نفرت نہیں کرے گا مجھ سے۔ میں زندہ درگور ہو جاؤں گی پھوپھو۔؟‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں بڑے جذباتی لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں بیٹا۔!میرا راز۔کیا ہے میرا راز۔۔میں اپنے بیٹے کے لیے تمہیں کھو دوں۔۔مجھے امتحان میں مت ڈالو۔۔ہم اسے بتائیں گے ہی نہیں کہ تم کون ہو۔پھر مناسب وقت پر بتا دیں گے۔۔‘‘زبیدہ نے کہا۔
’’جھوٹ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی عمارت کو سچ کو ذرا سی ہوا بھی گرا دیتی ہے۔کب تک ایسا کر پائیں گے ۔۔آپ خداکے لیے اپنی دنیا میں چلی جائیں ۔۔ا ور مجھے میری قسمت کے حوالے کر دیں۔جو ہو گا اب دیکھا جائے گا۔۔‘‘نادیہ نے اپنائیت سے کہاتو زبیدہ اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔اس کا دل نہیں مان رہا تھا کہ نادیہ کو یوں تنہا چھوڑ کر واپس چلی جائے۔تب وہ چونک کر بولی۔
’’نادیہ۔!بیٹی اگر میں شعیب کو سب کچھ بتا دوں ۔۔اور اس کا ردعمل وہ نہ ہو جو تم سوچ رہی ہو۔تو پھر تمہیں میرے پاس لوٹ کر آنا ہو گا۔۔میں تمہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں پھوپھو۔!میں جانتی ہوں ۔۔ظہیر شاہ میری زندگی میں آ چکا ہو گا۔۔ایسے میں یہ سب نا ممکن ہو جائے گا۔۔خدا کے لیے پھوپھو ،یہ سب کچھ تج دیں۔بھول جائیں مجھے۔۔خدا کے لیے بھول جائیں۔۔‘ ‘ نادیہ نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا تودادی اماں نے اپنے مخصوص تحمل سے کہا۔
’’زبیدہ۔!میرا نہیں خیال کہ یہ اب تمہارے ساتھ جائے گی۔تم چپ چاپ واپس پلٹ جاؤ۔میں دلاور شاہ کو بھی نہیں بتاؤں گی کہ شعیب کون ہے۔اسی خاموشی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔۔‘‘یہ کہتے ہوئیدادی اماں کے آنسو اس کی گالوں تک آ گئے تھی۔زبیدہ چند لمحے سر جھکائے سوچتی رہی ،اس کی آنکھوں سے بھی آنسورواں ہو گئے تھے۔وہ کچھ دیرتو خود پر قابو پاتی رہی،پھر اپنی ماں کے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگی۔کافی دیر بعد اس کا من ہلکا ہوا،پھر وہ نادیہ کے گلے لگ کر خوب روئی۔۔آنسوؤں کا یہ سیلاب کچھ دیر بعد تھم گیا تو وہ اٹھی اور باہر کی جانب چل دی۔اماں بی ،نادیہ اور تاجاں مائی اسے جاتا ہوا دیکھتی رہیں۔اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور حویلی سے نکلتی چلی گئی۔
***
شعیب اپنے سرکاری گھر کے دالان میں یوں سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا جیسے زندگی کی بہت بڑی بازی ہار چکا ہو۔اگرچہ وہ جس مقصد کے لیے گیا تھا وہ پورا ہو گیا تھا۔اسے تاجاں مائی کی زندگی سے غرض تھی ۔وہ نہ صرف زندہ تھی،بلکہ اس کے سامنے آکر اس نے بیان بھی دے دیا تھا ۔لیکن ۔!طاقت نے کس طرح کمزور کو اپنے شکنجے میں کس لیا تھا ۔وہ یہ دیکھ کر انتہائی دکھی ہو گیا تھا۔اس وقت وہ چوہدری ثنا اللہ کی بے بسی کو بھی دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک آفیسر تھا تو کس قدر بے بس ہو گیا ہو گا۔وہ واپس اپنے دفتر نہیں گیا تھا۔بلکہ سیدھا سرکاری رہائش گاہ آ گیا۔وہ کچھ دیر تنہائی میں خود کو حوصلہ دینا چاہتا تھا۔پہلے تو اس نے سوچا تھا کہ زندگی کس قدر سسک رہی ہے اور کتنی بے بس ہے۔اس کا اہلکار فاتح مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا اسے سمجھاتا رہا تھا کہ پیر سائیں سے سمجھوتہ کر لینے میں ہی فائدہ ہے۔وہ انہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا کہ اس کے دوست کافون آ گیا۔جسے اس نے نمبر دے کر پوچھا تھا کہ معلوم کرو۔۔۔اس نے کال ریسو کی اور پوچھا۔
’’ہاں مل گیا کوئی اتہ پتہ۔۔۔‘‘
’’ہاں ۔۔نوٹ کرو۔۔۔‘‘یہ کہتے ہی پتہ لکھوانے لگا۔۔وہ جلدی سے نوٹ کرنے لگا۔اس کے دوست نے پتہ لکھوایا اور فون بند کر دیا۔جبکہ شعیب حیرت میں ڈوب گیا۔اس کے سامنے جو پتہ تھا وہ یہیں سلامت نگر کا تھا اور جس شخص کے نام تھا،وہ تاجاں مائی کا بیٹا الیاس تھا۔۔اس کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔
’’یہ کیا۔۔؟‘‘اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔پھر فورا ً ہی اس نے اپنے دوست کو فون کیا۔اسے نمبر بتا کر دوبارہ تصدیق کی۔پتہ وہی تھا۔
شعیب کی سمجھ میں قطعاً کچھ نہیں آ رہا تھا۔نادیہ جس فون نمبر سے بات کرتی رہی ہے۔وہ الیاس کا ہے۔یہ کیا ماجرا ہے،کیا حویلی سے بھاگ جانے والی لڑکی ،جس کی پاداش میں تاجاں مائی معتوب ہوئی تھی۔کیا ان کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔۔کہیں نادیہ ،وہی لڑکی تو نہیں ہے جو حویلی سے بھاگی تھی۔۔؟کہیں وہ نادیہ۔۔۔‘‘اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکا تھا۔یہ کیسا اتفاق ہے۔۔جس نے اسے پوری جان سے لرزا کر رکھ دیا تھا۔ کافی دیر تک وہ سوچ ہی نہ سکا کہ یہ معمہ کیا ہے؟ وہ بالکل ساکت و صامت یوں کرسی پر بت بن گیا جیسے اس میں کوئی جان ہی نہ ہو۔وہ بالکل خالی الذہن ہو گیا تھا۔اسے یہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اسے ہوش اس وقت آیا جب فون کی مسلسل بجتی ہوئی بیل نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔وہ چونک گیا۔وہ فون اس کی والدہ کا تھا۔اس نے جلدی سے کال ریسو کرلی،اور تیزی سے پوچھا۔
’’امی،آپ۔۔۔کہیے کیا حال ہے۔۔‘‘
’’بیٹا تمہاری آواز کو کیا ہوا ہے، تم ٹھیک تو ہو۔۔۔‘‘زبیدہ نے تشویش سے پوچھا تو اسے ہوش آیا۔تب اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے جھوٹ کہہ دیا۔
’’بس یونہی اماں،میرے گلے میں خراش سی آ گئی تھی۔آپ سنائیں کیسی ہیں ،آپ۔۔۔‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔اور یہیں سلامت نگر میں ہوں۔میں۔۔‘‘امی کی آواز آئی۔
’’آپ۔۔۔سلامت نگر میں۔۔کب کیسے۔۔‘‘وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
’’سوال ہی کرتے رہ جاؤ گے یا ہمیں بتاؤ گے بھی کہ تم تک کیسے پہنچیں ۔‘‘امی نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا۔
’’کون ہے آپ کے ساتھ۔۔۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’بھائی حمید نے ڈرائیور بھجوایا ہے۔۔لو یہ اسے بتاؤ۔۔۔‘‘
لمحے بعد ڈرائیور کی آواز آئی تو اس نے سمجھا دیا کہ کیسے آنا ہے۔پھر فون رکھ کر وہ اٹھا اور گیٹ کے پاس جانے کے لیے اٹھ گیا۔کچھ ہی دیربعد اس کی رہائش گاہ پر گاڑی آن رکی۔اس کی امی گاڑی سے نکلی تو وہ یوں اس سے ملا جیسے کئی برس سے بچھڑا ہواہو۔زبیدہ نے وہیں گیٹ پر کھڑے ہو کر رہائش گاہ کی طرف دیکھا اور انتہائی محبت سے بولی۔
’’یہ گھر ملا ہے تجھے بیٹا۔۔۔‘‘
’’جی اماں ۔آئیں نا آپ۔۔‘‘اس نے کہا اور زبیدہ کو لے کر اندر کی طرف چل دیا ۔اتنے میں ڈرائیور گاڑی پورچ میں لے گیا۔اور گاڑی سے اتر آیا۔وہ بھی شعیب کے ٹھاٹھ دیکھ رہا تھا۔اس نے ڈرائیور سے کچھ باتیں کیں اور اپنے ملازم سے اس کے آرام کے لیے کہہ دیا۔دونوں ماں بیٹا اندر چلے گئے۔
’’امی۔!آپ یوں اچانک۔۔۔کوئی اطلاع دیئے بغیر۔۔‘‘سہولت سے بیٹھنے کے بعد اس نے پوچھا۔
’’بس بیٹا۔میرا دل کیا اور میں آ گئی۔۔‘‘زبیدہ نے مختصر سا جواب دیا تو وہ خاموش ہو گیا۔پھر چند لمحوں بعد اٹھتے ہوئے بولا۔’’آپ آرام کریں ،میں آپ کے لیے۔ ۔۔‘‘
’’تو بیٹھ میرے پاس بیٹا،ہو جائے گا سب کچھ۔۔‘‘وہ بولی تو شعیب بیٹھ گیا۔پھر یونہی ان کے درمیان باتیں ہونے لگیں۔کچھ دیر بعد شعیب نے محسوس کیا کہ وہ دباؤ جو حویلی سے آنے کے بعد اس پر چھا گیا تھا،وہ بالکل ہی نہیں تھا۔وہ پر سکون تھا۔یہی تو مامتا ہے جس کے اثر میں آتے ہی انسان سارے دکھ درد اور غم بھول جاتاہے۔باتوں کے دوران پتہ ہی نہیں چلا کب دوپہر ڈھل گئی۔تب اس کے ملازم نے کچھ لوگوں کے آنے کے بارے میں بتایا۔
’’امی،آپ آرام کریں کچھ دیر،پھر باتیں کرتے ہیں۔میں بھی ذرا ان سے مل لوں۔‘‘
’’ہاں۔!تم ایسے کرو،ڈرائیور کو بھجوا دو۔میں کچھ دن تمہارے پاس رہوں گی۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے آپ آرام کریں۔‘‘یہ کہہ کر وہ اٹھا اور سیدھا ڈرائیور کے پاس گیا۔اسے کافی ساری رقم دی اور اسے واپس بھجوا دیا۔وہ خوش خوش واپسی کے لیے چل دیا۔اور وہ لان میں بیٹھے ہوئے چوہدری ثنا اللہ کے پاس چلا گیا۔
’’جی چوہدری صاحب۔!معاملہ تو پھر نہ بنا۔وہ جو آپ چاہتے تھے۔۔‘‘اس نے خوش دلی سے کہا،حالانکہ وہ اندر سے افسردہ تھا۔
’’یہی تو۔۔!یہی تو المیہ ہے ان لوگوں کا۔۔یہی طاقت ہے ان کی۔۔تشدد بھی کرتے ہیں اور پھر ان لوگوں کے چیخنے بھی نہیں دیتے۔اب ظاہر ہے تاجاں مائی کو انہوں نے کسی بھی طرح بلیک میل کیا ہو گا۔تبھی تو وہ نہیں بولی،اپنے بیٹے تک کو جھوٹا بنا دیا۔لازمی بات ہے کسی کمزوری کے باعث ہی ہوگا۔‘‘وہ بے تکان بولتا چلا گیا۔ظاہر ہے وہ اپنا غصہ نکال رہا تھا۔
’’چوہدری صاحب۔!مان لیں کہ اس نے یہ معاملہ بھی جیت لیا ہے،چاہے اس نے کچھ بھی کیا۔‘‘اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔یہ تو ماننا پڑے گا۔‘‘وہ فوراً ہی اپنی ہار قبول کر گیا۔
’’اصل بات یہ ہوتی ہے چوہدری صاحب۔!کسی کمزور بندے ،یا غیر کی بنیاد پر لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔پرائی لڑائی میں بندہ ہار ہی جاتاہے۔جب اپنی لڑائی ہو تب ہی جیت کے امکان ہوتے ہیں۔‘‘ا س نے سنجیدگی سے کہا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں خیر۔!میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیاتھا ۔آپ نے میرے کہنے پر اتنی دلچسپی لی،آئندہ کے لیے شاید آپ کو زحمت نہ دوں۔۔‘‘اس نے ممنویت بھرے لہجے میں یاسیت سے کہا۔
’’آپ تو مایوس ہو گئے چوہدری صاحب۔!اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ظالم ہے تو پھر اس کے ظلم کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔‘‘وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
’’تب میں آپ کی بات پر عمل کروں گا۔۔اگر اللہ نے چاہا تو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔اب مجھے اجازت دیں۔‘‘وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہے ،آپ ایک چھوٹا سا کام کیجئے گا۔وہ تاجاں مائی کا بیٹا ہے نا۔۔اسے تو میرے پاس بھجوا دیں۔‘‘اس نے عام سے انداز میں کہا۔
’’کب۔۔؟‘‘چوہدری سے پوچھا۔
’’ابھی بھجوا دیں۔۔یا جب بھی۔۔‘‘اس نے پھر عام سے انداز ہی میں کہا۔
’’جی ضرور ۔۔میں ابھی بھجوا دیتا ہوں۔اجازت دیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ہاتھ ملایا او رچل دیا۔شعیب وہیں لان میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ نادیہ کے بارے میں جو اشارہ ملا ہے ،وہیں سے ہی آگے معلوم ہو گا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی ایک اور خیال اس کے ذہن میں ابھرنے لگا۔یہ جو سب کچھ سلامت نگر ہی میں گھوم کر رہ گیا ہے۔کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں ہے،یہ جو میرے اردگرد سب لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ان کا تعلق نادیہ سے ملتا ہے یا یہ کہیں اور ہی راستہ نکلتا ہے جو مجھے کہیں اندھیرے ہی میں نہ لے کر پھینک دے۔اس کا ذہن دلیلیں دیتا چلا جا رہا تھا۔لیکن دل تھا کہ ذہن کی کسی دلیل کو بھی قبول نہیں کر رہا تھا۔وہ ایک دم ہی سے الجھ گیا تو اس نے نادیہ کے خیال کو ایک لمحے کے لیے جھٹک دینا چاہا۔مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔کچھ ایسا تھا کہ وہ نادیہ کے خیال کو خود سے الگ نہ کر سکا۔
’’ پھر میں کیا کروں۔۔۔اسے تلاش کرنے کے لیے کس راہ پر چلوں۔۔‘‘وہ خود ہی بڑبڑانے لگا۔یوں خود کلامی کرتے ہوئے وہ چونک گیا۔کیا نادیہ اس کے اعصاب پر اس قدر حاوی ہو چکی ہے؟ وہ ایک طویل سانس لے کر رہ گیا۔تب اس نے محسوس کیا کہ شام کے سائے ڈھل رہے ہیں۔اسے اب اٹھ کر اندر چلے جانا چاہئے۔وہ اٹھا اور آہستہ قدموں سے اندر کی جانب چلا گیا۔
***
رات دھیرے دھیرے اتر آئی تھی۔نادیہ کھڑکی سے لگی باہر دیکھ رہی تھی۔وہی دور دور تک پھیلی ہوئی اندھیرے کی سیاہ چادر،جس میں کہیں کہیں برقی قمقموں کی روشنی بے ڈھنگے ستاروں کی طرح لگ رہی تھی۔بے ترتیب او ر الجھے ہوئے،ہانپتے ہوئے روشنی دیتے ،جیسے وہ بھی کسی کی غلامی میں روشنی دینے پر مجبور ہوں،یہ سیاہ رات جن پر مسلط ہو چکی ہو۔جیسے روشنی دینے کے لیے خود کو جلانا بہت ضروری ہوتا ہے۔وہ بھی جل رہے تھے اور یہاں اس کھڑکی میں موجود وہ بھی جل رہی تھی۔مگر وہ خود کو بدقسمت تصور کر رہی تھی۔ جس کے مقدر میں جلنا تو ہے لیکن اس کی روشنی نہیں،شاید اس میں جلنے کی بھی صلاحیت نہیں، وہ محص سلگ سکتی ہے۔اور سلگنا ہی شاید اس کا مقدر ٹھہرا ہے۔
کچھ عرصہ بیشتر بھی وہ یوں کھڑکی میں کھڑی اپنی ہی ذات کے حساب کتاب میں الجھی ہوئی تھی۔تب اس کی سوچوں میں بغاوت بھری ہوئی تھی۔وہ حویلی سے باہر کی دنیا نہیں دیکھنا چاہتی تھی بلکہ وہ آزادی چاہتی تھی،ان روایات سے نفرت تھی جو اس پر لاگو کی ہوئیں تھیں۔مذہب کے نام پر اپنی پسند و نا پسند کو مسلط کیا گیا ہوا تھا۔وہ باہر کی دنیا کا تجزیہ نہیں کر پایاکرتی تھی۔کیونکہ اس نے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی۔اسے تو وہ گھٹن ستایا کرتی تھی جو اس حویلی کے درودیوار میں کسی آسیب کی مانند چھائی ہوئی تھی۔لیکن اب اس کی سوچوں کا محور کچھ اور ہی تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ باہر کی دنیا میں جاتے ہی اسے راحت کی بجائے زخم مل جائیں گے۔اسے اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ وہ بغاوت کرکے بھی،کچھ نہیں کر پائی تھی۔زبیدہ پھوپھو سے ملاقات ہوتے ہی وہ سمجھ گئی کہ روایات کے تسلط میں وہ یونہی حصار میں نہیں تھی۔یہ حصار دراصل حویلی والوں کا خوف تھا۔اور اس خوف نے زندگیوں کو ششدر کر رکھاہوا تھا۔لاہور سے سلامت نگر آنے سے پہلے پھوپھو زبیدہ نے اسے پوری طرح بتا دیا تھا کہ وہ کن حالات میں حویلی سے نکلی اور کاشف کے ساتھ اپنی زندگی گذارتی رہی ہے۔حویلی سے ایک بار ناطہ توڑ لیا سو پھر اس جانب منہ نہیں کیا۔اب اگر وہ چاہتی ہے تو دوبارہ حویلی نہیں جائے۔لیکن وہ خود کچھ اور ہی سوچ چکی تھی۔نجانے کیوں وہ قدرت کے اشاروں کو سمجھ کر آگے بڑھنا چاہتی اور اپنے سارے ہی فیصلے اسی کے مطابق کرنا چاہتی تھی۔کیونکہ اس کے اندر سے یہ پختہ یقین اٹھ رہا تھا کہ یہ اشارے ہیں،جو اسے مستقبل کی راہ دکھا رہے ہیں، ورنہ ایک تسلسل کے ساتھ اتفاقات کا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔یہ محض اتفاق نہیں ہیں۔وہ ایک ایک اشارے کو پھر سے اپنے ذہن میں دہرانے لگی۔
وہ بڑی آسانی کے ساتھ حویلی سے نکل کر ٹرین میں جا بیٹھی اور بغیر کسی پریشانی کے لاہور پہنچ گئی۔وہ جس اختر رومانوی کے لیے گئی تھی، وہ اس کا کزن نکلا اور ماں، اس کی اپنی پھوپھو۔لیکن جس کے لیے وہ گئی، وہی نہیں ملا،بلکہ حویلی کے لوگ اس تک آن پہنچے۔جو اپنی تمام تر طاقت کے باوجود پسپا ہو گئے۔وہ اسے واپس نہ لے جا سکے۔وہیں اسے اپنی پھوپھو کے بارے میں معلوم ہوا ۔جو اس سے پہلے ہی بغاوت کر چکی تھی۔اس نے ان اشاروں پر وہیں شعیب کے گھر میں بیٹھ کر بہت سوچا تھا۔تب بہت سارے ’’کیوں‘‘ اس کے سامنے آن کر تن گئے۔مثلاً وہ اختر رومانوی ہی کو کیوں پسند کرنے لگی تھی۔ اس کی شاعری سے لے کر لہجے تک کو ہی کیوں پسند کیا؟ وہ پھوپھو کے گھر ہی کیوں پہنچ گئی؟ شعیب اس کا کزن کیوں نکلا۔اس کے ساتھ سفر میں کوئی انجانا حادثہ کیوں نہیں ہوا؟ دلاور شاہ اس تک کیوں پہنچ گیا؟ پھوپھو کاراز اس کے سامنے کیوں آ گیا؟ یوں ایک سلسلہ تھاکہ دراز ہوتے چلا گیا۔تبھی اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ واپس حویلی میں جائے گی اور اس حادثے کو کریدے گی ،جیسے سب نے ’’قدرت کو یہی منظور تھا‘‘ کہہ کر ماضی کے سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔وہ حادثہ اس کے والدین کا تھا۔حویلی سے نکلنے سے پہلے وہ بھی سبھی کی طرح یہی سمجھتی تھی لیکن پھوپھو کی بغاوت بارے سن کر اسے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کے والدین کو بہر حال حادثہ پیش نہیں آیا تھا،کیا ہوا تھا؟ یہی اس نے جاننا تھا۔اگرچہ وہ چاہتی تھی کہ پھوپھو کا راز،راز ہی رہ جائے،وہ افشاء نہ ہو۔اور اس معاملے میں اس کے اندر پوری طرح قربانی دینے کا جذبہ بھی موجود تھا۔لیکن ان سارے واقعات و حالات میں اسے جو اپنے والدین کے بارے میں شک ہو گیا تھا۔اب وہ چاہتی تھی کہ اس سے وقت کی پڑی دھول کو صاف کر دے۔یہ کیسے ہو گا۔ابھی اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔مگر اس کے اندر جو اعتماد آ گیا تھا،اس سے نادیہ کو پورا یقین تھا کہ وہ ایسا کر گذرے گی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...