میری کائنات اجڑ چکی تھی ۔قارین!
اب اس دنیا میں اللہ کے سو میرا کوئی نہیں رہا تھا میری حسرت تھی کے ایک بار اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو جاؤں تو باپو کو ساتھ لیکر کسی ایسے نگر روپوش ہو جاؤں گا جہاں وڈیروں کا سائیہ بھی ہم تک نہ پہچ پاۓ
چونکہ باپو حویلی کے کئی راز سے واقف تھا
جبکہ حویلی والے اپنے رازداروں کو جیتنے جی اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیتے تھے اور جو نکلنا چاہے تو وہ اسکا نام ونشان ہی دنیا سے مٹا دیا کرتے تھے ۔
میرا باپو حویلی کے تمام راز اپنے سینے میں چھپائے دنیا سے چل دیا تھا
ابراہیم بھائی نے بتایا
راکھے تیرا باپو تیرے بچھڑنے کے بعد اندر سے ٹوٹ چکا تھا اس نے کھانا پینا بلکل ترک کر دیا تھا
ہمیشہ خیالوں میں کھویا کھویا سا رہتا تھا
بقول گاؤں والوں کے جس روز سے اس نے تجھے خود سے جدا کیا اس دن سے لیکر اسکے مرنے تک اسکی آنکھوں سے آنسو کبھی نہیں سوکھے
اکثر تیرا نام لے لیکر اپنا سینہ پیٹتا رہتا تھا
وہ ترے بعد صرف چند روز تک ہی اپنے پاؤں پہ چلا پھرا
پھر بستر پہ ایسا گرا کے
آخر کار اسی بستر سے اسکا جنازہ اٹھا
وہ ترے آنے کے بعد صرف آٹھ ماہ ہی زندہ رہ سکا ۔
اس نے اپنے آخری دونوں میں اکبر بھائی کو اپنے پاس بلا کر یہ صندوق اسکے حوالے کیا کے منشی جی کی وساطت سے جیسے بھی ہو میرے راکھے تک ہر حال میں پہنچا دینا
اکبر بھائی نے شاید رازداری کے پیش نظروں ہم میں سے کسی سے رابطہ کیے بنا منشی جی سے رابطہ کرنے کی کوشش مگر ناکام رہے
چونکہ منشی جی اس دنیا سے چل بسے تھے!!!!
آہ قارین!
مت پوچھیں جب ایک ساتھ کسی پہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو وہ اندر سے کسقدر ٹوٹ جاتا ہے ۔
ابراہیم بھائی مختصر وقت مجھے دینے کے بعد واپس چل پڑے
پھر کب آنے کے سوال پر ان کی خاموشی نے
واضع جواب دے دیا کے پھر کبھی نہیں:
میری ہمت نہیں تھی کے کے باپو کی جانب سے بیجھے ہوۓ صندوق کو کھول سکوں
ایک زمانے تک یونہی بند پڑا رہا
میں اپنی تنخواہ کی بچی ہوئی رقم حاجی شرف الدین صاحب کے پاس جمع کروایا کرتا تھا ۔اب کی بار وہ عمرہ کرنے سعودی بحری جہاز کے ذریعے چلے گیئے تھے اور واپس بھی بحری جہاز سے تھی چونکہ اس زمانے میں ہوائی جہاز اگرچہ تھے مگر عام مسافروں کی کی پہنچ سے بلکل باہر تھے
لہذا سعودی آنے جانے اور وہاں دس پندرہ دن کے قیام کے لیۓ کم ازکم آٹھ ماہ کا عرصہ درکار ہو کرتا تھا جس میں سے چھے ماہ آتے جاتے سمندر کے اندر ہی گزارنے پڑتے تھے
اس زمانے کے بحری جہاز بھی اتنے تیز رفتار نہیں ہوا کرتے تھے،
اس لیۓ میں اپنی تنخواہ کی رقم جمع کروانے کیلئے
پریشان تھا کے کہاں جمع کرواؤں اچانک خیال آیا کیوں نہ باپوں کے صدوق میں ہی جمع کرنا شروع کر دوں؟
لہذا اسی خیال کی تکمیل کیلئے
دھڑکتے دل اور لرزتے ہاتھوں سے
میں نے وہ صندوق کھولا
جس میں سے میرے باپو کی مخصوص خوشبو بدستور اب بھی آرہی تھے ۔
کسی عطر وغیرہ کی نہیں بلکہ اس کے اپنے سراپے کی جسے معض اسکا یہ بدنصیب بیٹا ہی محسوس کرسکتا تھا
صندوق کا سامان
دولہا دلہن کے کپڑے کھسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دولہے کا قلہ سہرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ریشمی رومال میں بندھا ہوا
سونے کا ہار
چارعدد چوڑیاں
کانٹے کوکے
انگوٹھی ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قارین کاش میں اپنی کیفت بیان کر پاتا
باپو نے ایک اور رومال میں میرے لیۓ کچھ رقم باندھ کر صندوق میں ڈال رکھی تھی ۔
ایک کہاوت عام طور پہ
مشہور ہے
ماں کے بغیر باپ اولاد کو نہ تو پال سکتا ہے نہ ہی اس سے محبت کرسکتا ہے
ہمیشہ باپ کو جلاد اور مطلبی دوسری بیوی کی باتوں پہ چلنے والا علاوہ ازیں بیتحاشہ
معاملات اسکے سر ڈالے جاتے ہیں
مانا ماں کا نعم البدل کوئی نہیں
لیکن باپ کو اسطرح مکمل طور پہ ولن کا کردار دینا حقیقت میں اس مقدس اور محبوب شفاف رشتے کی کھلی توہین ہے
جہاں بہت کم ان احوال کے مرتکب باپ دیکھے گئے ہیں
وہاں چند ایسی مائیں بھی تو دیکھی گیئ ہیں جو اپنے دودھ پیتے بچے کو پنگھوڑے میں چھوڑ کر اپنے شوہر کے گھر کی چوکھٹ عبور کرکے
کسی آشنا کے ہمراہ اپنے بچے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہوگئیں!!!!
اب کیا اس قسم کی معض جنم دے دینے والی ماں کی حرکات کو سامنے رکھ کر ہم اصل ماں کے معتبر کردار کو بھی شک کی نظر سے دیکھیں تو کتنا عجیب رہے گا؟؟
باپو کو اس دنیا سے گزرے زمانہ ہوچکا تھا مگر ایک پل کیلئے بھی اسکی یاد میرے دل سے نہ جاسکی وہ ہرپل ہر گھڑی میری نظروں کے سامنے ہی گھومتا پھرتا مُجھے اکثر اسکی وہ باتیں یاد آتیں جووہ اکثرمیرے مستقبل کے حوالے سے کیا کرتا تھا میں جب بھی کسی ضرورت کے تحت باپو کا صندوق کھولتا جب بھی دولہا دلہن کی پوشاکوں پہ نظر پڑتی تو بیے اختیار میرا چہرہ آنسوؤں سے شرابور ہو جاتا
مجھے عمر بھر کی وہ سسکیاں اور آنسوؤں نہیں بھولتے جو اس نے میرے سہرے والا قلہ محلے داروں کو دکھاتے ہوۓ بہاۓ تھے ۔
میری زندگی کی کوئی شب ایسی نہیں جس شب مجھے خواب میں نظر نہ آیا ہو ۔
مگر افسوس افسوس افسوس مجھ بدنصیب کے سر سے باپو کا سائیہ ہمیشہ کیلئے اٹھ چکا تھا!!!
شب و روز ہمیشہ کی طرح گزرتے رہے
مجھے بھی باپو کی جدائی میں دس برس گزر چکے تھے ۔
میرا روز کا معمول تھا،دن بھر فیلڈ میں کام کرتا رہتا شام کے وقت ایک ہوٹل پہ رات کا کھانا کھا کر محکمے کی طرف سے الاٹ شدہ کواٹر میں جاکر سو جاتا ۔
میں حسب معمول ایک شب کھانا کھا کر اسی ہوٹل پہ اپنی کہنی ترچھی میز پہ ٹکا کر ہاتھ کی نیم مٹھی سی بناۓ آنکھ کے نیچے رخسار پہ جما کر اپنے سر کا سارا بوجھ اس پہ ڈالے بیفکر ہوکر گہری سوچوں میں گُم تھا،
اچانک مجھے اپنی زرکند کے نگینے والی انگوٹھی کے شیشے نے اپنی طرف مائیل کیا
مجھے اسمیں اپنی بائیں جانب پیچھے کا سارا ماحول بلکل صاف صاف نظر آرہا تھا
یہ میرے لیۓ ایک نیا تجربہ تھا میں بڑی دلچسپی سے اپنی انگوٹھی کے شیشے میں اپنی پیٹھ پیچھے کے ماحول کو دیکھنے میں مشغول ہو گیا
گاہک آتے اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے کھاتے پیتے دکھائی دینے لگے،
اس دوران ایک نوعمر نوجوان جسم پہ چادر اوڑھے ہوٹل میں داخل ہوا اور بلکل پچھلے کونے میں لگی ہوئی خالی کرسی پہ بیٹھ گیا اس اکیلی کرسی کے آگے کوئی میز نہیں تھی اور تھی بھی خستہ حال گھسی پھٹی سی بلکل کونے میں گاہکوں سے دور ۔
ہوٹل کے تمام ویٹر اپنی روایتی پھرتی سے تیز تیز بھاگتے برتن اٹھاتے اور نیئے آرڈر لیکر گاہکوں کے آگے کھانا رکھتے جارہے تھے ۔
ایک ویٹر اسی طرح دائیں بائیں گاہکوں کی میزوں سے برتن اٹھاتا،میز کو کپڑے کی ٹاکی سے صاف کرتا پھرتیاں دکھتا ہوا برتن اٹھائے اسی کونے میں پہچا جہاں وہ نوجوان بیٹھا ہوا تھا برتنوں کو کونے میں جھاڑ کر تین فٹ کی دیوار کے پیچھے جہاں ضعف عمر کاایک بابا ہارون مسلسل انہیں مانجنے میں مصروف تھا اچھال کر واپس اس نوجوان کی طرف پلٹا
اپنے شانے سے وہی کپڑے کی ٹاکی کھینچ کر ہاتھ صاف کرتے ہو نوجوان کے اوپر جھکتے ہوۓ سرجھٹک کر بولا
ہاں جی؟
نوجوان نے اپنی مٹھی میں سمیٹے ہوۓ سکے اس ویٹر کی ہتھیلی پہ رکھتے ہوۓ مسکرا کر کہا
وہی پانچ روٹی بھیا!
ویٹر سکے اچک کر ایک جھٹکے سے پیچھے مڑا
اور بلند آواز میں بولا!
اے پانچ روٹی پارسل جی!
پھر سکے گنتی کرتا ہوا تیز قدموں کے ساتھُ کاونٹر کی طرف چلا گیا:
اب اس نو جوان نے اول پورے حال میں چور نظریں دوڑائیں ۔
ہر طرف سے مطمئن ہو کر
اپنی چادر سے پلاسٹک کی ایک تھیلی نکال کر اپنی بائیں جانب جھک کر اس میں کچھ بھرنے لگا اور ساتھ ساتھ مڑ مڑ کر حال کی طرف بھی دیکھتا رہا
اسے یہ حرکت کرتے ہوۓ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا سب اپنی اپنی سرگرمیوں میں محو تھے
سواۓ میرے ۔
ویٹر جب تک روٹیاں لیکر واپس آیا وہ اپنی کاروائی کر کے چادر کی اندرونی حصے سے اپنے ہاتھ بھی صاف کر چکا تھا اور مسروکہ مال بھی اسی چادر کے اندر چھپا چکا تھا ۔
وہ ویٹر کے ہاتھوں سے روٹیاں لیکر تیزی سے نکل گیا اور باہر بھیڑ میں گم ہوگیا
وہ چلا گیا
جبکہ میں انتہائی تجسس میں پڑ گیا ۔
آخر ایسی کیا چیز تھی وہاں جو یہ نوجوان سب کی نظریں بچا کر چوری کر کے لے گیا؟
میں انتہائی بیچینی کے عالم میں ہوٹل کےاس کونے میں پہنچا جہاں واردات رونما ہوئی تھی!
وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں قارین!!!
کچھ خاص نہ تھا
آہ
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ بس لوہے کا ایک ٹب جس میں ویٹر
گاہکوں کے آگے سے اٹھائے ہوۓ
جوٹے چاولوں اور سالن کے برتن جھاڑ
کر انہیں دھونے کیلئے
دیوار کے پیچھے بابے کی جانب اچھال دیا کرتے تھے
وہ نوجوان اپنا مقصد حاصل کرکے چلا گیا تھا
اور یقیناً رات کے اس پہر سکون سے سو چکا تھا مگر میں مسلسل اپنے بستر پہ بیچینی سے کروٹیں بدل رہا تھا ۔
رہ رہ کر اس نوجوان کا خیال آرہا تھا جو پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے لوگوں کے جوٹے چاول اور سالن سمیٹ کر لے گیا تھا
خدایا کیا خبر وہ کتنا ضرورت مند ہوگا جانے اور کتنے لوگ ہیں جو اس کے رحم و کرم پہ پل رہے ہیں
اکیلا ہوتا اگر تو پانچ روٹیاں اور جوٹے چاول سمیٹ کر نہ لے جاتا
میں نے اپنے دل کی تسلی کیلئے ایک فیصلہ کیا
چھوڑ اللہ رکھے کچھ بھی ساتھ جانے کو انشاءاللہ صبح ہو جاۓ اس مجبور و فقیر کی ہرممکن مدد کرونگا
میرا ذاتی خرچہ اتنا خاص نہ تھا
تین وقت کا کھانا ہوٹل سے سستے داموں کھا لیا کرتا تھا جب کبھی اگلا سوٹ بوسیدہ ہوجاتا تو نیا مگر مناسب قیمت کا ایک آدھ سوٹ سلوا لیا کرتا تھا اسی طرح باپو کے ساتھ ساتھ رہ کر تمباکو حقے میں ڈال کر پینے کی عادت تھی وہ میں آنے سوا آنے کا مہنے بھر کا خرید لیا کرتا تھا
یوں تنخواہ کی جو باقی رقم بچ جاتی تھی وہ میں جمع کروا دیا کرتا تھا
کچھ دوستوں کا مشورہ تھا کے کچھ رقم جمع کرو تاکہ کہیں سے کوئی مناسب رشتہ تلاش کرکے تمھاری شادی کروا دیں
کچھ معزز لوگ بھی میری شادی کیلئے بلکل سنجیدہ تھے ۔
آج میں سوچ رہاتھا جانے دے اللہ رکھے شادی میں کچھ نہیں رکھا
بلاوجہ کسی نیۓ لاورث کو جنم دے دو گے کیا خبر اسے بھی کوئی باپو ملے نہ ملے
لہذا میاں چھوڑو اس کام کے لیۓ اور دنیا بھری پڑی ہے
تم اگر کر سکتے ہو تو اس نوجوان کی مدد کردو
میں محکمے میں اٹھارہ روپے ماہانہ تنخواہ پہ بھرتی ہوا تھا اور اب گیارہ سالوں میں بڑھتے ہوۓ چھیانوے روپے ماہانہ ہوچکی تھی اور میرے پاس اب تک سولہ سو کی کثیر رقم جمع بھی تھی
اب میرا پختہ ارادہ تھا کے اس نوجوان کا تفصیلی جائیزہ لیکر ہر حال میں اسکی مدد کرونگا آئندہ اسے جوٹا کھانا کھانے پہ مجبور نہیں ہونے دونگا ۔
میں نے رات آنکھوں میں کاٹی
پورا دن کام میں مشعول رہا شام کو اپنے مقررہ وقت سے بہت پہلے ہوٹل پہ آکر اس نوجوان کا انتظار کرنے لگا
میں نے بڑی مشکلات کے بعد اپنی انگوٹھی کو اسی پوزیشن میں کیا جو آتفاقاً پہلی بار خودبخود اس پوزیشن میں ہوئی تھی کے میں نے اسکے شیشے کے ذریعے پیچھے کا منظر دیکھ لیا تھا
وہ نوجوان اپنے مقصوص وقت پہ اسی انداز سے ہوٹل میں داخل ہوا اسی کرسی پہ بیٹھا سب کچھ اپنے روائتی انداز میں کرنے کے بعد ہوٹل سے باہر نکل گیا،
میں بھی بغیر کوئی لمعہ ضائع کیے اسکے پیچھے پیچھے چل دیا ۔
اس نے میرے آگے آگے چلتے ہوۓ سڑک پار کی پھر دائیں جانب مڑ گیا تقریبا تین منٹ کی مسافت کے بعد ایک لنک روڈ جوکہ اندر ارجن محلے کو جاتی تھی اس پہ چڑھ گیا تین گلیاں کراس کرنے کے بعد ایک چوراہا سا آیا وہ یہاں سے دائیں جانب جانے والے راستے پہ مڑا چند قدم کے فاصلے کے بعد ایک نالے کی پلی سی آئی وہ اس پلی کو کراس کرکے تین سمت جانے والے راستے پہ ایک بار پھر بائیں جانب مڑا اگلے چوراہے پہ پہلے ہی تین منزلہ مکان کی پہلی منزل کے کونے والے دروازے سے اندر داخل ہوگیا ۔
میں وہیں باہر تھوڑا سا آگے جاکر سٹریٹ لائیٹ کے کھمبے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔
تقریبا پونہ گھنٹہ وہیں کھڑا اس سے ملاقات کی تراکیب سوچتا رہا ۔
بلآخر ہمت کر کے اسکے دروازے پہ دستک دے ہی دی ۔
دروازہ کھلا
اور دروازے پہ ایک خاطون جنکی عمر تقریبا چالیس پنتالیس سال ہوئی ہوگی کھڑی تھیں ۔
مجھے دیکھ کر بولیں جی بیٹا؟
میں نے فوراً کہا ماں جی وہ آپکا بیٹا ہے نا؟
خاطون اثبات میں سر ہلا کر بولیں ہاں ساجد!!!
جی ماں جی میں نے ساجد سے ملنا ہے
وہ اپنی دائیں جانب سرکا اشارہ کرتے ہوۓ بولیں ۔
بیٹا ساجد غسل کر رہا ہے،
وہ فورا دروزے کی ایک سمت ہوتے ہوۓ مجھے اندر جانے کا راستہ دے کر بولیں آجاؤ بیٹا اندر ہی آجاؤ ۔
میں فورا انکا شکریہ ادا کرتے ہوۓ اندر چلا گیا
یہ ایک تکونا سا درمیانے سائیز کا کمرہ تھا جسمیں کوئی چارپائی کوئی بلگ نہیں تھا،
اینٹوں سے بننے فرش پہ کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی بچھی ہوئی تھی
اس چٹائی پہ پرانے مگر صاف ستھرے موٹی ساخت والے کپڑے کی چادر بچھی ہوئی تھی اسی کمرے کی بائیں جانب پیچھے کو کر کے تقریبا دس بائی چودہ کا ایک کیبن سا بھی تا جس میں گھر کا دیگر تمام سامان سمایا ہوا تھا اور کچن کا کام بھی اسی سے لیا جاتا تھا ۔
وہاں ان خاطون کے علاوہ دو بچیاں اور ایک بچہ بھی موجود تھے جو لباس سے کسی رہیس زادے سے کم نہیں لگ رہے تھے
ان بچوں کی عمریں تقریبا تین سے سات سال تک تھیں
اور حیرت کی بات یہ کے وہ مسلسل اپنی پڑھائی میں مشغول تھے صرف ایک مرتبہ جب میں اندر داخل ہوا تھا اس وقت انہوں نے میری طرف دیکھا پھر لگاتار اپنی اپنی کتابوں پہ جھک کے
تقریبا پانچ منٹ ہوۓ تھے کے میری بائیں جانب کونے میں سے ایک براۓ نام غسل خانے سے جو بظاہر کمرے کے بیرونی حصے سے اوپر کو جانے والی سیڑھیوں کے نیچے اندر کی جانب بنایا گیا تھا ساجد اس غسل خانے سے برامد ہوا وہ اپنے سر کے بال تولیئے سے خشک کرتا ہوا ۔
انتہائی حیرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتا ہوا میری طرف ٹھہر ٹھہر کر قدم اٹھاتا ہوا میری جانب بڑھنے لگا۔۔
ساجد نے اپنا تولہ زور سے جھاڑا پھر اسے پشت کی سمت سے دونوں شانوں پہ مساوی پھلا یا،
اس نے میرے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوۓ میری طرف مصافعے کیلئے ہاتھ بڑھایا
اس سے پہلے کے وہ مجھ سے سوال پوچھتا آپ کون میں نے آپکو پہچانا نہیں؟؟؟
میں اس سے مصافحہ کرتے ہوۓ فوراً بولا!
ساجد بھائی
میں اللہ رکھا!
آپ سے بہت ضروری کام تھا میں اسی ہوٹل سے آیا ہوں جہاں سے آپ روٹیاں لایا کرتے ہیں
میرا تعارف سنتے ہی اسکے چہرے کا رنگ متغیر سا ہوگیا وہ میری طرف دیکھتا نظریں چرراتا شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ خوشامدی سے لہجے میں بولا ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ۔آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لکھنو ہوٹل سے آۓ ہیں؟
وہ فورا میرا ہاتھ پکڑ کر باہر کو جانے کے انداز میں بولا چلیں باہر کھلی فضا میں گپ لگاتے ہیں ۔
اس کے لہجے اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کے اسے خدشہ ہے میں اسکی سرگرمیوں کے متحلق اسکے حلقہ احباب کے سامنے کچھ بول دونگا تو ان تمام کے جذبات پل بھر میں مجروح ہوجائیں گے
جبکہ میں نے بھی لمبی تہمید اسی لیۓ نہیں باندھی
میں نے بات ہی ایسی کی تھی کے وہ بلا انکواری میرے ساتھ باہر جانے کو رضامند ہو جاۓ تاکہ میں تنہائی میں اسکی مدد کر سکوں
وہ اپنے شانوں سے تولیہ اتار کر ماں کو پکڑاتے ہوۓ بولا امی میں ابھی واپس آیا!
وہ میرا ہاتھ پکڑے جلدی جلدی دروازے سے باہر نکل آیا،
وہ بدستور میرا ہاتھ پکڑے گلی کی ایک سمت خاموش چلتا رہا
گلی کے عین نکڑ پہ جہاں دن کو کوچوان اپنے گھوڑوں کو چارہ کھلاتے تھے وہاں پہنچ کر اس اینٹوں سے بنے تھڑے پہ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ خود بھی میرے ساتھ بیٹھ گیا ۔
اب کی بار وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
اچھا تو آپ ہوٹل سے میرا پیچھا کرتے ہوۓ آۓ ہیں؟
کیا کام کرتے ہیں آپ ہوٹل پہ ؟
اور میرے تعاقب کی وجہ کیا ہے؟
اس نے ایک ساتھ بڑے کمال لہجے میں مجھ سے دونوں سوال پوچھ لیۓ ۔
اسکا انداز گفتگو اور چہرے کے تاثرات اسقدر بارعب تھے کے اب میں اس سے نظریں چرانے پہ مجبور ہوگیا
میں کسی حد تک اسکی مہارت اورسحر انگیز گفتگو کے اثر کو ضائیل کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولا ۔
ہوٹل پہ میرا کام معض کھانا کھانا ہے ۔
اور آپ کا تعاقب انسانیت کے ناطے سے کیا ۔
میں نے بلا توقف بات کو جاری رکھا چونکہ میں نے جانچ لیاتھا وہ پہلے مخاطب کی مکل بات بڑے سلیقے سے سنتا ہے مگر بعد میں بولنے کے قابل نہیں چھوڑتا اپنے کمال گفتگو سے
میں نے شاید کچھ جلدبازی میں کہ دیا
میں پچھلے دو روز سے دیکھ رہا ہوں آپ ہوٹل سے جوٹا کھانا چرا کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس نے فورا ہاتھ سے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور بولا
پچھلے دو دن سے نہیں اللہ رکھا صاحب پچھلے تین برس سے جوٹا کھانا لا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی ہوٹل کے ٹب سے
اس نے ایک طویل سانس لی پھر کچھ دیر گردن جھکاۓ اپنی گود میں دیکھتا رہا
پھر سراٹھا کر ایک لمعے کو میری طرف دیکھنے کے بعد سامنے اوپر کی جانب دیکھتے ہوۓ
درد بھرے لہجے میں بولا
اللہ رکھا صاحب!
جوٹا کھانا میں لاتا رہا ہوں مجھے اعتراف ہے اس بات کا
مگر آپ نے جو کہا کے چراکے لاتا رہا ہوں یہ بات آپ نے معض اپنی سوچ کے مطابق کی ہے
ورنہ حقیقت تو یہ ہے
ہررات اس ٹب کو ہوٹل کے پچھواڑے خالی پلاٹ میں لا کر الٹا دیا جاتا ہے جہاں کتے کوۓ جس حد تک کھا سکتے ہیں کھا لیتے ہیں باقی گل سڑ کر بدبو پھیلاتا رہتا ہے ۔
مجھے احساس تھا ۔ یہ کھانا ہوٹل والوں کے کسی کام کا نہیں
ورنہ آپ نے دیکھا ہے اسی ٹب کے ساتھ ایک بڑے سائیز کا روٹیوں والا ٹوکرا بھی پڑا ہوا تھا جس میں ویٹر گاہکوں کے آگے سے اٹھائی گیئ روٹیاں اور ٹکڑے ڈالتے رہتے ہیں مگر میں نے اپنی جیب سے ہمیشہ روٹیاں لیں وہاں سے نہیں اٹھائیں
چونکہ میں جانتا ہوں ہوٹل والے ان روٹیوں کو آگے بیچ دیتے ہیں اگر اٹھاؤں گا تو چوری ہوگی خیانت ہوگی حق تلفی ہوگی ۔
اللہ رکھا صاحب
میں مشقت کرتا ہوں جو آمدن ہوتی ہے بمشکل اس سے اپنے چھوٹے بہین بھائیوں کے جوتے کپڑے اور اسکول کے اخراجات پورے کرتا ہوں ۔
میں اگر چاہوں تو انہیں اچھے سے اچھا کھانا کھلا دوں گا مگر انکا مسقبل کچھ نہ بنا سکوں گا
میں نے بہتر یہی سمجھا فی الحال ان کے زندہ رہنے کیلئے پیٹ بھرنے کا ساماں کروں باقی تمام ان کی پڑھائی پہ توجہ دوں تاکہ آنے والے وقتوں میں یہ اپنے من پسند کھانے اپنی مرضی سے کھا سکیں ۔
وہ ایک ذرہ توقف سے بولا
محترم سات برس کا تھا جب میرے والد صاحب کا سائیہ ہمارے سروں سے اٹھ گیا،
میرے والد عبدالرحمن بہتر مستقبل کیلئے سعودی عرب بطور مزدور گئے
ایک کنویں کی کھدائی کے دوران سر میں چوٹ لگنے کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور وہیں دفن بھی ہوۓ ۔
اپنا مکان لوگوں کے قرضے اتارنے میں بک گیا تب سے لیکر آج تک مجھ سے جو ہوسکتا ہے کر رہا ہوں ۔
میں ان بچوں کا ؛ بڑا بھائی : جو ہوں!
ساجد نے آج ایک اور رشتے سے آشنا کرایا
اور وہ رشتہ ہے بڑے بھائی کا
وہ بڑابھائی
جس نے اپنے بہین بھائیوں کو اولاد کی طرح پالا
وہ بڑابھائی جس نے اپنا مسقبل بھول کر اپنے بہین بھائیوں کے بقا کی تگ و دو کی
وہ بڑابھائی جو اول تو چھوٹے بہین بھائیوں کی آنکھ کا تارا انکا سہارا انکی حسرتوں کا محور
مگر جب اپنا مستقبل داؤ پہ لگا کر جب بے بس گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟
اب اس کا کون سہارا؟
وہ بڑابھائی جو باپ کی جگہ تو لے سکتا ہے مگر اسکا نعم البدل کوئی نہیں
بلاشبہ بڑابھائی معض بڑابھائی!!!!!
میں نے انتہائی درد بھرے لہجے میں کہا
ساجد میرے دوست
میرا مقصد آپکے جذبات سے کھیلنا ہر گز نہیں تھا بلکہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں آپکی کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اس بار وہ میری بات کاٹتے ہوۓ بولا
سلامت رہئے اللہ رکھا صاحب ۔
میں آپکے جذبات کی قدر کرتا ہوں
مگر انتہائی معذرت سے کہوں گا
جسے آپ میری مدد کہ رہے ہیں درحقیقت وہ مجھے بھکاری بنانے کی ابتدا ہے
وہ ایک دم اٹھ کر کھڑا ہو گیا
اور مجھ سے زبردستی مصافحہ کر تے ہوۓ بولا آپ جائیں براۓ مہربانی رات خاصی ہوچکی ہے
آپ میری فکر چھوڑیں
اگر ہوسکے تو اپنے خاندان میں نظر دوڑائیں
ممکن ہے میرے بہین بھائیوں کی طرح
آپ کے خاندان میں بھی کسی کو آپکی مدد کی ضرورت ہو!
یہ کہ کر وہ مسکراتے ہوۓ بولا
برا نہ منائے گا میری بات کا!
وہ مجھے وہیں چھوڑ کر پلٹا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہوا اپنے دروازے سے اندر داخل ہو گیا
وہ چلا گیا مگر میں اس کے ان جملوں میں الجھ کر رہ گیا!!!
اپنے خاندان میں تلاش کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کاش ۔ ۔ ۔کاش میرا بھی کوئی خاندان ہوتا
ساجد جیسا میرا بھی کوئی بڑابھائی ہوتا
یا پھر
اسکے بہین بھائیوں جیسے میرے بھی چھوٹے بہین بھائی ہوتے
کاش
آج میرا باپو ہی زندہ ہوتا!
میں نے ابھی رات کا کھانا نہیں کھایا تھا واپس اسی ہوٹل پہ جاکر کھانا کھایا
پھر کمرے میں جاکر سو گیا ۔
آج چھے دن مسلسل گزر چکے تھے مگر ساجد اس رات کے بعد ہوٹل پہ نہیں آیا
میں نے ویٹر سے بھی معلوم کیا مگر وہ واقعی نہیں آیا
آج میں نے بھی اپنی جمع پونجی ساتھ رکھی ہوئی تھی اپنے اور باپو کے کل ملا کر سترہ سو بیس روپے تھے
خیال تھا ساجد تو نہیں مانتا زبردستی ماں جی کے حوالے کرونگا
سترہ سو بیس روپے کوئی کم رقم نہیں تھی
اگر کاروبار پہ لگاۓ جاتے تو سامان سمیٹا نہ جاتا
اور اگر جائیداد خریدی جاتی تو بارہ چودہ سو میں بہترین رہائیشی مکان مل جاتا
میں تمام رقم رومال میں باندھے ساجد کے گھر کی طرف چل پڑا
جونہی میں اس مکان کے سامنے پہچا تو کیا دیکھتا ہوں
وہ لوگ اپنا تمام سامان گدھا گاڑی پہ لاد کر خود بھی اس پہ سوار ہو چکے تھے
وہ یہ مکان چھوڑ کر کہیں اور جارہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...