ہیوم کا ماڈل (عقل غلام ہے) افلاطون کے ماڈل (عقل حاکم ہو سکتی ہے اور ہونا چاہیے) یا جیفرسن کے ماڈل (دل و دماغ برابر کے شریک ہیں) سے زیادہ بہتر طریقے سے حقائق کی وضاحت کرتا ہے لیکن یہ عقل کو ضرورت سے زیادہ کمتر بنا دیتا ہے۔
غلام اپنے آقا کی بات پر سوال نہیں کرتا لیکن ہم اپنی بدیہی رائے پر نظرثانی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ ہاتھی اور مہاوت کا رشتہ ہے۔ مہاوت ہاتھی کا خادم تو ہے لیکن یہ ایک احترام والی رفاقت ہے۔ یا پھر وکیل اور موکل کا۔ اچھا وکیل اپنے موکل کا دفاع تو کرتا ہے لیکن تمام باتیں تسلیم نہیں کرتا۔
اسی طرح ہم اپنی عقل سے اپنے بدیہی جذبات (خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں) کو قابو کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ذہن کا ہاتھی کب عقل کی بات سننے کو تیار ہوتا ہے؟ اخلاقی معاملات میں اپنا ذہن تبدیل کرنے کا طریقہ لوگوں کے ساتھ interaction کا ہے۔ ہم ایسے شواہدات ڈھونڈنے میں بہت پھسڈی ہیں جو ہمارے خیالات کو چیلنج کرتے ہوں۔ جبکہ ہم ایسے شواہدات ڈھونڈنے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں جو مخالف کے یقین میں غلطیاں بتائیں۔ جب مباحثے تلخ ہوں تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ذہن تبدیل ہوں۔ ہمارا ہاتھی ہمارے حریف سے مخالف سمت میں جھک جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر کسی دوسرے کی عزت اور احترام ہو تو ہاتھی اس شخص کی طرف جھکتا ہے اور مہاوت اس کی بات میں سچ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذہن کے ہاتھی کا راستہ دوستانہ ہاتھیوں کی موجودگی میں آسانی سے بدلا جا سکتا ہے (یہ سماجی وجدان کا ماڈل ہے جب ایک گروپ کسی معاملے پر یکساں رائے بنا لیتا ہے)۔ یا اگر اچھے دلائل دوستانہ ہاتھیوں کے سواروں کی طرف سے مل جائیں (یہ دلائل کی مدد سے رائے قائم کرنے کا ماڈل ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے وقت بھی آتے ہیں جب ہم اپنا ذہن خود سے تبدیل کر لیتے ہیں۔ متنازعہ معاملات پر کئی بار خود ہمارے اندر کی آوازیں منقسم ہوتی ہیں۔ اور کئی بار ہماری رائے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ہم اس چیز کو اس وقت کس نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے کس پہلو کو سوچ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اخلاقی نتیجے پر عقلی دلائل کے ذریعے پہنچا جا سکے، خواہ وہ ابتدائی بدیہی رائے سے مخالف ہی ہو۔ یہ عمل بہت کم ہوتا ہے۔
اس بارے میں پیکسٹن اور گرین نے تجربات میں ایک نیا پہلو متعارف کروایا۔ اس میں نصف شرکاء کو فوری جواب دینے کی اجازت نہیں تھی۔ جواب کے درمیان دو منٹ کا وقفہ تھا۔
دونوں گروپس کو سوال کے بارے میں دلائل دئے گئے۔ جن لوگوں نے فوری جواب دے دیا تھا، دلیل کا معیار ان کی رائے تبدیل نہیں کر سکا۔ جبکہ جن لوگوں نے وقفہ لیا تھا، ان کا جواب مضبوط دلیل والے جواب کی طرف تھا۔
خلاصہ یہ ہے عام حالات میں مہاوت ہاتھی کی طرف دیکھتا ہے۔ اور اس سے لئے گئے جواب کے مطابق فیصلہ کر لیتا ہے۔ لیکن اگر commit نہ کر لیا جائے تو ہاتھی مہاوت کی بات سننے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے intuition آتی ہیں اور عام حالات میں ہم ان کے مطابق فیصلے لیتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے طریقے موجود ہیں جس سے اس تعلق کو دوطرفہ بنایا جا سکے۔
مختصرا یہ کہ جبلت راہنمائی کرتی ہے۔ بڑی حد تک ہمارے لئے زندگی کے بہت مفید فیصلے کرتی ہے۔ لیکن عقل صرف اس کی غلام نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...