’’شانتاراما‘‘ برصغیر کی فلم انڈسٹری کے بانیوں میں شامل وی شانتا رام کی آپ بیتی ہے جو انھوں نے اپنی آخری عمر میں مراٹھی میں بول کر لکھوائی اور چھپوائی تھی۔ بعد میں اس کا ہندی روپ شائع ہوا۔ شانتارام جن کا پورا نام شانتارام راجارام وانکودرے تھا، 18 نومبر 1901 کو پیدا ہوے اور کو پیدا ہوے اور 30 اکتوبر 1990 کو وفات پائی۔ مہاراشٹر کے شہر کولھاپور میں، جو برٹش راج کے دور میں ایک رجواڑے یا نوابی ریاست کا صدرمقام تھا، انھوں نے خاموش فلمیں بنانے سے آغاز کیا اور بعد میں پونا اور بمبئی میں مراٹھی اور ہندی کی بےشمار فلمیں بنائیں۔ اس طرح شانتارام کی لمبی پیشہ ورانہ زندگی کی دلچسپ داستان اس خطےکی فلمی دنیا کی تاریخ بھی ہے۔ اس تاریخ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے کرداروں میں مختلف علاقوں، ذاتوں، زبانوں، طبقوں اور پیشوں کے لوگ شامل ہیں جنھوں نے مل کر ایک رنگارنگ منظرنامہ تیار کیا جس کی جھلکیاں اردو میں سعادت حسن منٹو کی ان تحریروں میں ملتی ہیں جن کا پس منظر 1940 کی دہائی کا بمبئی شہر اور وہاں کی فلمی دنیا ہے۔ ’’شانتاراما‘‘ میں اس دنیا کے رفتہ رفتہ بننے اور پھیلنے کی کہانی بڑے بےتکلف اور دلچسپ اسلوب میں بیان کی گئی ہے۔ شانتارام کی معروف ہندی فلموں میں سے چند کے نام یہ ہیں: ’’ڈاکٹر کوٹنِس کی امر کہانی‘‘ (1946)، ’’امر بھوپالی‘‘ (1951)، ’’جھنک جھنک پایل باجے‘‘ (1955)، ’’دو آنکھیں بارہ ہاتھ‘‘ (1957)۔ ’’شانتاراما‘‘ کا اردو روپ ہندی متن کی بنیاد پر فروا شفقت نے تیار کیا ہے جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
****
میں چار یا پانچ سال کا بچہ تھا، شاید تب کی بات ہے۔ ہم لوگ کولھاپور سے کہیں دور گاؤں میں رہتے تھے۔ میں، دادا (مجھ سے بڑا بھائی)، ماں اور باپو، ڈیڑھ سال کا چھوٹا بھائی کیشو۔ میں اور دادا گھر کی دہلیز پر بیٹھے آنگن میں جو کچھ ہو رہا تھا، دیکھ رہے تھے۔
آنگن میں ایک اجنبی بابا آئے تھے۔ انھوں نے ایک بڑی سی ٹکٹھی (سٹینڈ) پر ایک بھورے رنگ کی لکڑی کی ایک پیٹی جمائی تھی۔ ٹکٹھی بھی لکڑی کی، پیٹی بھی لکڑی کی۔ پیٹی پر سے ہوتا ہوا ایک کالا پردہ ڈالا تھا۔ پہلے باپو گھر سے باہر آئے۔ انھوں نے سر پر رومال باندھا ہوا تھا، کندھے پر اَپرنا (انگوچھا) لیے ہوئے تھے۔ آنگن میں آتے ہی انھوں نے ماں کو پکارا۔ ماں بھی جلدی جلدی باہر آگئیں۔ ماں نے بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ماں اور باپو اس چوکھٹی پیٹی کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
ماجرا کیا ہے؟کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس پیٹی کی طرف انگلی دِکھا کر میں نے ماں سے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’آئی (ماں)، وہ کیا چیز ہے؟آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘
جواب باپو نے دیا، ’’یہ فوٹو اتارنے کی مشین ہے، کیا سمجھے؟‘‘
میں گھبرایا سا دیکھ رہا تھا۔ پھر پوچھ بیٹھا، ’’تو آپ یہاں کھڑے کیوں ہیں؟‘‘
’’ارے، یہ بابا ہیں نا، یہ ہماری فوٹو اتار رہے ہیں۔ چلو ہٹو، ایک طرف ہو جاؤ۔ ‘‘
فوٹو کا نام لیتے ہی میں اور دادا دونوں ضد کر بیٹھے۔ ہم بھی فوٹو میں آئیں گے!
کاشی ناتھ دادا اس وقت چھ سات سال کا ہو گا۔ آئی اور باپو نے باربار ہمیں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن ہم بھلا کہاں ماننے والے تھے۔ بس گلا پھاڑ کر رونا شروع کر دیا۔ ایسا ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ پوچھیے نہیں! مٹی میں لیٹ کر ہاتھ پاؤں پٹکنے لگے۔ آنگن میں لوٹ پوٹ ہونے لگے۔
آخرکار اس فوٹو والے بابا نے کہا، ’’راجارام باپو، ان دونوں بچوں کو اپنے اغل بغل میں کھڑا ہونے دیجیے۔ کیا فرق پڑنے والا ہے!‘‘ ہم دونوں کی باچھیں کھِل گئیں۔ کودتے پھاندتے اندر گئے، ٹوپی پہنی، تلک لگایا اور روتی شکل کو ہنس مکھ بنا کر باہر آئے۔
فوٹو والے بابا اس کالے پردے کے اندر گھسے، باہر آئے اور بولے، ’’دیکھیے، ہم ایک… دو… تین… کہیں گے۔ ہلنا ڈولنا نہیں۔ ایک دم بت جیسے کھڑے رہنا۔‘‘
ہم سب لوگ سانس روکے کھڑے رہے۔ بابا نے اس بھوری پیٹی کے سامنے لگا ایک گول ڈھکنا اٹھایا اور زور سے بولے، ’’ایک…دو… اور یہ تین! ‘‘ وہ گول ڈھکنا اس نے پھر سے اس پیٹی پر لگا دیا۔ بس اتر آئی فوٹو۔
اس کے دو تین دن بعد میں نے آئی اور باپو کو فوٹو دیکھتے ہوئے دیکھا۔ میں تو کھیلنے کی دھن میں فوٹو والی بات ہی بھول گیا تھا۔ بیتاب، میں بھی پیچھے سے جھانک کر دیکھنے لگا۔ فوٹو تو صرف آئی اور باپو کی ہی نکلی تھی، اور وہ بھی صرف کمر تک ہی۔ ہم دونوں بھائیوں کا فوٹو میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ پھر رونا پیٹنا ہوا۔
آخر باپو نے سمجھایا، ’’ ارے بابا، بات یہ ہے کہ ابھی تم لوگ چھوٹے سے ہو، اسی لیے فوٹو میں نہیں آئے ہو۔ آپ لوگ ہمارے جیسے اونچے ہو جاؤ گے تو آپ کی بھی فوٹو برابر نکلے گی۔ ‘‘
باپو کی بات ہماری سمجھ میں آ گئی۔ ان کی اس بات پر پورا بھروسا رکھ کر میں بیتابی سے اونچا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
میری بچپن کی یادیں فوٹو نکالنے کے اس زمانے کے بھی سیدھے سادے طریقے کے جیسی ہی ہیں! وقت کے ساتھ کچھ دھندلی ہو گئی ہیں، گھٹاؤں سے گھر گئی ہیں، تو کچھ ایک دم دھنک جیسی ست رنگی ہیں۔ کچھ تو بس صرف نیگیٹو جیسی ہیں، جس کی چھاپ کچھ وقت بعد ہی یادداشت پر اٹھتی ہے، اور کچھ یادیں تو پتا نہیں کہاں کھو گئی ہیں، بکھر گئی ہیں۔ ٹھیک اس فوٹو کی طرح جو اس فوٹوگرافر نے مجھے اور دادا کو چھوڑ کر نکالی تھی۔
لگاتار بہتی ہی جانے والی ندی کی دھارا کی مانند میرا جیون طوفانی رفتار سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ ندی کی فطرت کی طرح ہی پورے جوش کے ساتھ کِل کِل کرتے آگے بڑھتے وقت کے ساتھ کہیں حسین ٹاپو بن گئے، کہیں خوفناک بھنور، تو کہیں بیچ دھارا میں اتھاہ ڈباؤ۔ جیون دھارا نے کبھی بڑے درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیا، کبھی کائی اور گھاس جھکتے گئے۔ کبھی کبھی تو جیون اچانک ایسے ایسے موڑ سے گزرا کہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے، آخر ان سب کا راستہ دکھانے والا کون ہے، کنٹرولر کون ہے؟اس جل دھارا کی اپنی تیز رفتار یا قسمت؟
فوٹو نکلنے کا یہ واقعہ تب پیش آیا جب ہم اس بڑے گھر کے ایک بڑے کمرے میں رہتے تھے۔ اب کچھ دھندلا سا یاد ہے، وہاں رہنے والے لوگ گاؤں گاؤں جا کر ناٹک کھیلا کرتے تھے۔ میرے باپ راجارام باپو باباجی ونکوٹے کو وہ سب لوگ ’منیجر‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ میرے باپو ان لوگوں کے خیال میں بہت اہم شخص تھے۔ یہ لوگ ’شاردا‘ نامی ایک ناٹک کھیلا کرتے تھے۔ ناٹک میں میرا دادا شاردا کے چھوٹے بھائی کا کردار ادا کرتا تھا۔ ناٹک کا ایک سین آج بھی مجھے اچھی طرح یاد آتا ہے۔
شاردا کو شادی کے لیے پسند کرنے کے لیے کچھ لوگ آتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں، ’’بیٹا، تم کہاں تک پڑھی ہو ؟‘‘شاردا اس سوال کا ٹھیک ڈھنگ سے جواب دیتی ہے۔ پھر وہ لوگ اس کے چھوٹے بھائی سے بھی یہی سوال کرتے ہیں۔ تب دادا پیر کا انگوٹھا پکڑ، اسے ان لوگوں کے سامنے ترچھا ہلاتے ہوئے کہتا، ’’مجھے کُو…چھ بھی نہیں آتا۔ ‘‘ دادا کے اس پردرشن (مظاہرے) پر اور ’’کو…چھ (کچھ) بھی نہیں‘‘ کہنے کی ادا پر ناظرین ٹھہاکا مار کر ہنس پڑتے تھے۔ دادا کی جو پذیرائی ہوتی تھی اسے دیکھ کر میرے بھی من میں ناچار کچھ ویسا ہی کرنے کی خواہش جاگتی تھی۔
اس کے بعد، پتا نہیں کب، ہم لوگ کولھاپور آ گئے۔ آگے چل کر اس ناٹک کمپنی کا کیا بنا اور ہمارے باپو نے اسے کیوں چھوڑ دیا، میں نہیں جانتا۔ کولھاپور میں جوشی راؤ کا گنپتی کا ایک مندر ہے۔ اس کے پیچھے والی ایک تنگ سی گلی میں ہم لوگ رہا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں ہماری ایک موسی (خالہ) کا ہمیشہ آناجانا رہتا تھا۔ ہم لوگ اسے’’مائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ آئی اور مائی سگی بہنیں تھیں۔ ویسے مائی کا نام رادھا تھا لیکن چونکہ وہ آئی سے بڑی تھی، آئی اسے ’’اکاّ‘‘ کہہ کر پکارا کرتی تھی، میری ماں کا نام کملا تھا۔ مائی کے سارے بچے پیار میں لاڈ سے میری ماں کو ’’ننو‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
میرے نانا کولھاپور میں وکالت کرتے تھے۔ ہم لوگ انھیں بابا کہا کرتے تھے۔ ہر روز کچہری سے لوٹتے وقت وہ سبزی منڈی سے ساگ سبزی لے آیا کرتے۔ میں کبھی کبھی ان کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ سبزی بیچنے والیوں کے ساتھ وہ بہت زیادہ بھاؤتاؤ کرتے۔ کئی بار تو خود ہی تھوڑی سی زیادہ سبزی ان سے چھین کر اپنے جھولے میں رکھ لیتے۔ نتیجہ یہ رہا کہ بابا کو بازار میں آتا دیکھتے ہی سبزی والیاں منھ پھیر لیتیں اور آپس میں ایک دوسری کو ہوشیار کر دیتیں:’’وکیل آیا ری، وکیل آیا!‘‘ بابا ہم بچوں سے بہت پیار کرتے۔ ہر روز شام کے کھانے کے بعد وہ ہمیں اچھی اچھی کہانیاں سناتے اور تھپک کر سلاتے۔ ان کا اصرار رہتا کہ بچوں کو رات آٹھ بجے سے پہلے ضرور ہی سو جانا چاہیے۔
کسی کے یہاں سے بابا کو کھانے کا دعوت نامہ آتا تو ہم شرارتی بچے ان کے واپس آنے کا بڑی بیتابی سے انتظار کیا کرتے۔ ان دنوں رواج تھا کہ کسی کے یہاں دعوت پر کھانے کے لیے جانا ہو تو پینے کا پانی بھر لوٹا اور پیالہ ساتھ میں لے جانا چاہیے۔ لیکن بابا کے لوٹے میں کبھی پانی نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوٹا بھی اچھا خاصا بڑا ہوتا تھا۔ اس خالی لوٹے میں بابا مٹھائی، جیسے لڈو، جلیبی وغیرہ، ہمارے لیے چھپا کر لے آتے۔ گھر لوٹتے ہی وہ ساری مٹھائی ہمیں بانٹ دیا کرتے۔ ہم لوگ بہت ہی آنند کے ساتھ ان چیزوں کا مزہ لیتے تھے۔
نانی کی شاید ایک ہی بات یاد ہے۔ یوں تو ایسا موقع یاد ہی نہیں آتا کہ انھوں نے کبھی لاڈپیار سے مجھے بیٹھایا ہو، کبھی دُلار سے سہلایا ہو۔ ہم لوگ نانی سے بہت ڈرا کرتے تھے۔ اس کی واحد یاد من میں بیٹھ گئی۔ وجہ اس کی کچھ نرالی ہی تھی۔ ہمارے باپو بیڑی پیتے تھے۔ جہاں تک ہو سکے وہ ہم بچوں کے سامنے بیڑی پینا ٹال دیتے تھے، پھر بھی ہم لوگ انھیں بیڑی پیتے دیکھ ہی لیتے۔ ان کی ناک سے بیڑی کا دھواں نکلتا۔ کم سے کم مجھے تو اس دھویں کے لیے بڑی کشش محسوس ہوتی تھی۔ باربار میں اپنے آپ سے پوچھتا، ’’کیا مزہ آتا ہو گا بیڑی کا کش لگانے میں؟‘‘ دوپہر کا وقت تھا۔ گھر میں سناٹا تھا۔ باپو کی پی کر پھینکی گئی بیڑی کا ایک ٹکڑا مجھے مل گیا۔ چولھے سے میں نے انگارہ نکالا اور وہ بیڑی سلگائی۔ طبیعت سے ایک زوردار کش لگایا ہی تھا کہ زبردست کھانسی آ گئی اور اس کے ساتھ ہی ایک کس کے جھانپڑ پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ نانی یاد آ گئی۔ خود نانی جی غصے سے لال پیلی کھڑی تھیں۔ مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
’’بیڑی پینے لگا گدھے کے بچے! پیے گا پھر سے؟ لگائے گا ہاتھ بیڑی کو؟ بول!‘‘ کہتے ہوئے انھوں نے مار مار کر میرا حلیہ ٹائٹ کر دیا۔ ’’میں پھر بیڑی نہیں پیوں گا…نہیں پیوں گا بیڑی…‘‘ روتے روتے میں گڑگڑا کر بولا۔
بس، نانی کی یہی ایک یاد آج بھی تازہ ہے۔ میں اسے کبھی بھلا نہیں پایا۔ تب سے آج تک اتنے سال بیت گئے، بیڑی یا سگریٹ پینے کا لالچ مجھے کبھی نہیں ہوا۔
معصوم بچپن میں کئی واقعات ایسے بھی ہو جاتے ہیں جو یادداشت پر پہیلی کی طرح نقش ہو جاتے ہیں۔ ان پہیلیوں کو بچہ بوجھ نہیں پاتا۔ اسی طرح کی ایک عجیب و غریب یاد ہے۔
باپو دوپہر دکان بند کر کھانا کھانے کے لیے گھر آتے تھے۔ وہ خود اپنے ہاتھوں سے کھچڑی پکاتے تھے، اس پر گھی، اچار، پاپڑ، چٹنی ڈال کر کھاتے۔ آئی اپنی بہت ہی مزےدار رسوئی اور نئی طرح کے کھانے بناتی تھیں۔ لیکن باپو ان کی بنائی رسوئی کبھی نہیں کھاتے تھے۔ ایسا کیوں، یہ بات کچھ بڑا ہو جانے کے بعد مجھے معلوم ہوئی۔
بات یہ تھی کہ باپو جین تھے اور اماں ہندو۔ دونوں کا بین المذہبی بیاہ ہوا تھا 1896 میں۔ کہنے کی بات نہیں، ان دنوں مذہب، مصلحت وغیرہ باتوں کا سماج، دل، ذہن پر زبردست اثر تھا۔ معمولی سے معمولی مذہبی یا سماجی بات کو لوگ بڑی باریکیوں سے دیکھتے پرکھتے تھے۔ ذرا سی لکیر سے ہٹ کر کسی نے کوئی بات کی اور سماج نے اس کے ساتھ روٹی پانی کا برتاؤ بند کیا۔ اس کا بائیکاٹ کر دیا۔
یہ سمجھو دستور ہی بن گیا تھا۔ ایسے زمانے میں بین المذہب بیاہ کرنا کتنے حوصلے کی بات رہی ہو گی۔ کولھاپور میں تو ایسی شادی ناممکن ہی تھی، اس لیے کولھاپور سے تیس میل دور شری دتّاتریہ کے پوتر مقام نرسوبا کی باڑی میں جا کر باپو نے یہ بیاہ کیا۔ صرف سماج کے لحاظ کی خاطر باپو اپنا کھانا الگ سے پکا کر کھاتے تھے۔
باپو اپنے دیوی دیوتاؤں کو مانتے، جین مذہب کے سب اصولوں کا پالن کرتے۔ آئی ہندو مذہب کے سبھی تیج تہوار مناتیں، اپنے سب دیوتاؤں کی پوجاپاٹھ کرتی کراتی، اپنے اصولوں کے مطابق برت وغیرہ رکھتی تھیں۔ لیکن اس بات کو لے کر باپو اور آئی کے بیچ کبھی کوئی ان بن نہیں ہوئی۔ ہمارے گھر کے اندر جو ایک پوجاگھر بنا تھااس میں آئی اور باپو دونوں کے دیوی دیوتا سُکھ سے رہتے تھے۔
صرف سماج کے خیال سے اپنایا ہوا وہ الگ کھانا پکانے کا اصول بھی وقت کے ساتھ باپو نے تیاگ دیا اور وہ ہم سب کے ساتھ آئی کے ہاتھوں کا بنا کھانا بڑے پیار اور سواد سے کھانے لگے۔ رسم و رواج کی زنجیر میں قید سماج میں رہتے ہوئے بھی باپو نے جس بےباکی کے ساتھ اس بین المذہبی شادی کو کامیابی سے نبھایا، وہ آج بھی دنگ کر دینے والی بات ہے۔ باپو کی یہ بےباکی آج صرف قابلِ تعریف ہی نہیں لگتی بلکہ آج بھی مجھے ان کی اس ترقی پسند روش پر فخر محسوس ہوتا ہے۔
کولھاپور میں مہادوار کے پاس ہی باپو نے ایک چھوٹی سی دکان لگائی۔ سہاگ سیندور، گھٹّی کا سامان، کھلونے وغیرہ چیزیں اس میں بیچنے کے لیے رکھی جاتی تھیں۔ تب میں پانچ برس کا ہو چکا تھا آئی نے مجھے پیار سے گلے لگا کر کہا، ’’دیکھو، شانتیا، کل سے تمھیں بھی اپنے بڑے بھیا کاشی ناتھ کے ساتھ سکول جانا چاہیے۔ ‘‘
میں نے پوچھا’’آخر کیوں؟‘‘
’’ میرے بیٹے، لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لیے، ‘‘ آئی نے کہا۔
’’ میں نہیں جاؤں گا سکول!‘‘
’’وہ خود ہی تمھیں کل سکول میں داخلہ دلوا دیں گے!‘‘آئی نے سختی سے کہا۔ میں کافی بھنبھناتا رہا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
دوسرے دن سکول جانے سے پہلے رو رو کر میں نے سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ کافی اُدھم مچایا۔ لیکن ہم سب بھائیوں پر باپو کی دھاک جمی ہوئی تھی۔ انھوں نے دھمکاتے ہوئے کہا، ’’سنو شانتا رام، آج سے سکول جانا ہی پڑے گا۔ رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ سمجھے؟‘‘
باپو نے میرا بازو پکڑا اور ہم روتے میاں آنکھیں ملتے ملتے سکول پہنچا دیے گئے۔
ان دنوں سکول جوشی راؤ کے گنپتی مندر کے پاس ہی کسی سردار کے باڑے میں لگا کرتا تھا۔ سکول کا نام، ’ہری ہر سکول‘۔ مجھے کچی جماعت میں بٹھایا گیا۔ مجھے سکول میں چھوڑ کر باپو چلے گئے۔ اپنی حالت تو بس دیکھتے ہی بنتی تھی۔ بڑی قابلِ رحم حالت تھی۔ پاس ہی بیٹھے ایک لڑکے سے میں نے روتے روتے پوچھا:
’’یہاں کب تک بیٹھنا پڑتا ہے؟‘‘
’’ کوئی گیارہ بجے تک، ‘‘اس نے کہا۔
میں نے بہت ہی گڑگڑا کر پوچھا، ’’ گیارہ یعنی کتنے؟‘‘
اس لڑکے نے جھلا کر کہا، ’’ دیکھو سامنے گھنٹی رکھی ہے نا، وہ جب بجائی جاتی ہےتب گیارہ بجتے ہیں۔ سکول کی چھٹی ہو جاتی ہے۔‘‘
میں نے پاگل کی طرح سر ہلایا اور سکول کی زمین ناخن سے کریدتا بیٹھا رہا۔
گھنٹی بجی۔ سکول کی چھٹی ہو ئی۔ بھاگتے بھاگتے گھر ایسے پہنچا جیسے کانجی ہاؤس سے رہائی ملی ہو، اور ماں کی گود میں منھ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ باپو دوپہر کو دکان بند کرکھانے کے لیے گھر آیا کرتے تھے۔ کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کیا کرتے تھے۔ میں نے آئی کے پاس ایک ہی رَٹ لگا رکھی تھی: ’’ میں پھر سے سکول ہرگز نہیں جاؤں گا۔‘‘
باہر سے باپو نے آواز دی: ’’ شانتارام، ذرا ادھر آؤ تو!‘‘
میں گھبرا گیا۔ سوچا، شامت آ گئی۔ ضرور دو چار چانٹے پڑنے والے ہیں۔ اسی گھبرائی کیفیت میں باہر دالان میں گیا۔ میرا خیال غلط نہیں نکلا۔ پر باپو نے مجھے مارا نہیں بلکہ پاس بیٹھا کر کمر سہلاتے ہوئے بولے:
’’دیکھو بیٹے! ہر شُکروار کو بھنے چنے کھانے کے لیے ہم تمھیں ایک پیسہ دیا کریں گے۔ لیکن تمھیں سکول ہر روز بنا روئے جانا ہو گا۔‘‘
کولھاپور میں آج بھی شُکروار (جمعے)کو مہالکشمی کو پرساد کے روپ میں بھنا چنا ہی چڑھایا جاتا ہے۔ باپو کہہ رہے تھے:
’’بیٹے، سکول جا کر لکھناپڑھنا سیکھنے پر آدمی بڑا بنتا ہے، سیانا بنتا ہے…تو کیا خیال ہے تمھارا؟ جاؤ گے نا سکول؟ اور دیکھو! چپ چاپ سیدھی طرح نہ گئے تو یہ دیکھا…؟‘‘
دیکھا، باپو نے چانٹا مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا۔ میں ڈر گیا۔ باپو کا چانٹا کتنا سخت اور کرارا ہوتا ہے، میں جانتا تھا۔ ان کا چانٹا کھانے کے بجائے ہر جمعے کو بھنا چنا کھانے میں ہی خیر تھی۔ دوسرے ہی دن سے میں بنا کسی طرح روئے دھوئے سکول جانے لگا۔
ہر جمعے کو بھنے چنے کی خوراک شروع ہو گئی تھی۔ پھربھی کبھی کبھار سکول سے تڑی (چھٹی) مار جانے کی سنک مجھ پر سوار ہو ہی جاتی۔ پھر کبھی تو میرا سر اچانک درد کرنے لگتا۔ اس سر درد سے ایک پنتھ دو کاج ہو جاتے تھے، سکول جانے سے چھٹی مل جاتی تھی اور ماں کے ماہر ہاتھوں سے بنا میرا من چاہا گرم گرم نرم نرم حلوہ کھانے کو مل جاتا تھا۔ سر درد کا ظالم علاج ہونے کی وجہ یہ حلوہ آئی خالص گھی میں بناتی تھیں۔ بڑا میٹھا ہوتا تھا یہ حلوہ۔ گھر میں تو حالات ایسے تھے کہ ایسا حلوہ تیج تہواروں پر ہی بن پاتا تھا۔ لہٰذا حلوہ کھا کر کافی دن ہو چکنے پر میرا سر ضرور ہی درد کرنے لگتا۔ بخار، زکام کا سوانگ رچنا مشکل ہے، لیکن سردرد ہے یا نہیں، کون جان سکتا ہے؟ بہت دیر تک میں کراہتا رہتا۔ بیچاری آئی ہمدردی سے پوچھتیں:
’’شانتا، تھوڑا سا کچھ کھاؤ گے؟‘‘
’’اوو…نہہ!‘‘
پھر آئی اور بھی منتیں کرتیں۔ ’’تھوڑی سی کھیر لے لو نا ساگودانے کی!‘‘
ساگودانے کی کھیر کا نام لیتے ہی مجھے متلی آنے لگتی: با…ک ! گئے مارے!
اس کھیر کا نام سن کر آج بھی میرا ماتھا ٹھنکتا ہے۔ میں بسک کر کہتا، ’’وہ تو قطعی نہیں لوں گا۔‘‘
میرا کراہنا پھر دُگنے زور سے شروع ہو جاتا۔ آئی گھبرا کر کہتیں، ’’ارے کچھ تو کھا لو، ورنہ پِت (صفرا) کا قہر بڑھے گا۔‘‘
یہاں تھا کس کو پِت کا قہر، جو بڑھتا! لیکن سردرد کا اپنا ناٹک رنگ لاتا دیکھ کر میں اور بھی کراہتا ہوا بے چین آواز میں کہتا:
’’ بہت ہی زور دے رہی ہو ماں تو تھوڑا سا حلوہ ہی بنا دو۔ کھا لوں گا جیسے تیسے…‘‘
آئی فوراً ہی حلوہ بنانے کی تیاریوں میں جٹ جاتیں۔ گرم گرم حلوہ بھری کٹوری سامنے آتے ہی میرا آدھا سردرد جاتا رہتا اور کھا چکنے کے بعد پورا غائب ہو کر میں ایک دم چنگا پھرتیلا بن جاتا۔
لیکن کچھ ہی دنوں میں یہ سردرد اور وہ فرمائش کچھ زیادہ ہی بار ہونے لگی تو ماں کو شبہ ہو گیا کہ ہو نہ ہو، ضرور دال میں کچھ کالا ہے! اور میرا پول کھل گیا۔
حلوہ کھانے کے لیے للچایا وہ سردرد جب ایک دن پھر سے پیدا ہو گیا تو درد کے مارے میرے سر کی نسوں کے بجائے آئی کے ماتھے کی نسیں تن گئیں۔ تب تو انھوں نے میری وہ پٹائی کی، وہ پٹائی کی کہ حلوے کے بجائے اپنا حلیہ ہی ٹائٹ ہو گیا!
ویسے سکول میں ہونہار شاگردوں میں میری گنتی کبھی نہیں ہوئی۔ شاید زبان میں میری حالت اچھی رہی ہو گی۔ لگتا ہے خاص کر کتابوں میں دیے سبق کا پاٹھ میں زوردار آواز میں اچھی طرح کرتا تھا۔ گروجی ہمیشہ مجھے ہی کھڑے ہو کر سبق پڑھنے کے لیے کہتے تھے، اور شاگردوں سے کہا کرتے تھے، ’’ذرا دھیان سے سنو، سُسرو! سبق اس طرح پڑھا جاتا ہے!‘‘
گروجی کی طرف سے کی گئی تعریف سے میں پھولا نہ سماتا اور بڑی اکڑ کے ساتھ سبق پورا کر نیچے بیٹھتا۔ لیکن میں اچھا پڑھتا ہوں یعنی کیا کرتا ہوں، یہ بات یقینی طور سے اپنی تو سمجھ میں کبھی نہیں آئی۔
کچھ دنوں بعد باپو نے سہاگ سیندور کی وہ چھوٹی سی دکان بند کر دی اور مہالکشمی روڈ پر پنساری کی ایک بڑی سی دکان لگوائی۔ کرانے کا سامان بھی اس میں رکھا تھا۔ دکان پہلی دکان سے کافی بڑی تھی لیکن تب تک ہمارا کنبہ بھی بڑھ گیا تھا۔ میرے دو اور بھائی بھی ہو گئے تھے: رام کرشن اور اودھوت۔ ہماری اس نئی دکان میں اناج، گڑ، مونگ پھلی، مسالے، چائے اور چینی وغیرہ کئی چیزیں بیچی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی چیجی (چیز) کے روپ میں ہم بچوں کو گڑ، پھلی دانے اور گال(کھوپڑے) کے ٹکڑے ملتے تھے۔میرا خیال ہے کہ شاید انہی دنوں میں میں نے ہری ہر سکول کی چوتھی جماعت پاس کی تھی۔ جیسا ان دنوں رواج تھا، چوتھی کے بعد انگریزی سکول میں داخلہ لینا پڑتا تھا۔ ہماری دکان سے ایک پرائیویٹ انگریزی ہائی سکول کے طالب علم کبھی کبھی سامان لے جایا کرتے تھے۔ ان کی پہچان سے مجھے انگریزی سکول میں داخلہ مل گیا۔ دادا بھی اسی سکول میں جاتا تھا۔
کچھ دن تو ٹھیک سے گزر گئے۔ فیس بھرنے کا دن آیا۔ باپو نے فوراً ہی فیس کے پیسے مجھے دے دیے۔ میں نے کوٹ کی جیب میں رکھ لیے۔ سکول شروع ہوا۔ کلاس ٹیچر تشریف لائے۔ ان کا نام تھا شری کھنڈے جی۔ ان کا سلوک ان کے نام جیسا ہی مدھر تھا۔ بہت ہی مامتا سے وہ باتیں کرتے تھے۔ سبھی لڑکے فیس بھرنے لگے۔ میں نے بھی اپنی فیس دے دی۔ میرے پیسے لیتے وقت شری کھنڈے جی نے کہا، ’’اچھا تم ہاف فری طالب علم ہو۔‘‘
میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔
دوپہرمیں لنچ بریک ہوئی۔ ہم لوگ ٹولی بنا کر کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ تبھی اچانک ہی ایک لڑکے نے پوچھا:
’’کیوں بھائی، بات کیا ہے؟ماسٹر جی نے تم سے فیس کے پیسے اتنے کم لیے؟‘‘
’’ مجھے کیا معلوم؟ پتاجی نے دیے، وہ سارے پیسے میں نے ماسٹر جی کو دے دیے۔‘‘
دوسرے لڑکے نے پہلے سے کہا، ’’تم بھی نرے بدھو ہو! ماسٹرجی نے کیا کہا تھا، تم نے سنا نہیں؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کیا پوچھتے ہو؟ ارے وہ ہاف فری طالب علم ہے۔ اس کی آدھی فیس سکول نے معاف کر دی ہے۔‘‘
’’کیوں بھئی؟ سچ ہے؟‘‘ اس پہلے لڑکے نے پھر سوال کیا۔
میں چپ ہی رہا۔ وہ لڑکے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے بھئی سکول ایسے بچوں کی آدھی فیس معاف کیا کرتا ہے جن کے ماں باپ غریب ہوتے ہیں۔‘‘
زندگی میں پہلی بار میں نے ’غریب‘ لفظ کا تجربہ کیا۔ آدھی فیس…غریب…غریبی ! یوں دیکھا جائے تو ہم لوگ دن میں دو بار سادہ ہی سہی، لیکن پیٹ بھر کر کھانا کھاتے تھے۔ ہمیں کبھی بھوکا سونا پڑا ہو، یاد نہیں۔ چھوٹاسا ہی سہی، ہمارا اپنا مکان تھا۔ کرائے کا بھلے ہی ہو، لیکن ہمارے سر پر چھت تھی، ایک آسرا تھا۔ پھر کیوں ہمیں غریب بتایا جا رہا تھا؟
ہاں، ایک بات آج بھی کچھ کچھ یاد آتی ہے۔ تھوڑا سا لگا ضرور تھا کہ ہو نہ ہو، ہمارے باپو کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے۔ اسی لیے شاید، دادا کے پرانے کپڑے یا اونچے ہو جانے اور تنگ ہو جانے والے کپڑے مجھے پہننے پڑتے تھے۔ ماں کے پاس میں اس بات کی شکایت بھی اکثر کیا کرتا تھا۔ ہمارے باپو بازار سے کپڑا بھی ایسا خرید کر لاتے تھے کہ وہ پھٹنے کا نام ہی نہ لیتا۔ میں بہت ہی ضد کر بیٹھتا تو پھر کسی تہوار پر مجھے نیا کپڑا مل جاتا تھا۔ یہی حال کتابوں کا تھا۔ دادا پاس ہو کر اوپر کی جماعت میں گیا کہ اس کی پرانی کتابیں مجھے دی جاتی تھیں۔ ہو سکتا ہے اسے ہی غریبی کہا جاتا ہو۔
لیکن غریبی کیا ہوتی ہے؟ اس کی جھلک مجھے مل گئی۔
کولھا پور میں مشہور کِرلوسکر ناٹک منڈلی آئی تھی۔ سبھی کلاکاروں کا قیام کولھاپور کے شِواجی تھیٹر میں تھا۔ ناٹک منڈلی میں فوٹوگرافر بھی تھے۔ باپو سے ان کی اچھی جان پہچان تھی۔ ایک بار باپو نے طے کیا کہ ہم بچوں کے ساتھ ایک فوٹو کھنچوایا جائے۔ فوٹو کے لیے ماں نے، اس کے پاس جو بھی ساڑھیاں تھیں، ان میں سے سب سے اچھی ساڑھی پہن لی۔ باپو کے کپڑے ٹھیک ہی تھے۔ جو بھی ہو، ہم سب لوگ بارات جیسی شان سے شواجی تھیٹر پہنچ گئے۔ ہمارے کپڑوں کا حال دیکھ کر ان فوٹوگرافر مہاشے نے ہم بچوں کو ناٹک میں راجکمار کا کام کرنے والے بچوں کے زری کا کام کیے مخمل کے کپڑے فوٹو کے لیے دلوائے۔ زری کی ٹوپیاں بھی دلوائیں۔ وہ کپڑے ہم لوگوں کو کچھ ٹھیک سے نہیں آ رہے تھے۔ بڑے اور کچھ ڈھیلے ہو رہے تھے۔ پھربھی انہی کپڑوں کو پہن کر ہم لوگ راجکماروں جیسے اکڑ کر فوٹو کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میرے من میں رہ رہ کر اُس پہلے فوٹو کی یاد آ رہی تھی۔ باپو نے تب کہا تھا، ’’ارے تم لوگ ہمارے جتنے اونچے نہیں ہو نا، اسی لیے فوٹو میں نہیں آ پائے ہو‘‘۔ لیکن آج بھی ہم میں سے ایک بھی بھائی باپو جتنا اونچا نہیں ہوا تھا، پھر بھلا ہماری فوٹو آج بھی کیسے آ سکتی ہے؟ میں نے آئی اور باپو کی طرف دیکھا۔ کرسیوں پر بیٹھ کر دونوں نے اپنی اونچائی ہمارے جتنی کر لی تھی، تاکہ ہم لوگ بھی برابر فوٹو میں آ سکیں۔
فوٹو کھنچوانے کے لیے ہمیں دیے گئے وہ سارے ملائم اور بھاری قیمت کے کپڑے ہم لوگوں نے بعد میں لوٹا دیے۔ صرف فوٹو کے لیے وہاں کے کپڑے پہن لینے میں ہم نے کوئی چھوٹاپن محسوس نہیں کیا۔ پھر سے اپنے ہمیشہ کے کپڑے میں نے پہن لیے۔ فوٹو کے لیے دیے گئے قیمتی کپڑے ہمیں کبھی نہیں ملتے۔ تو کیا اس کو غریبی کہتے ہیں؟…ہم لوگ غریب ہیں؟ سکول میں ملی وہ ہاف فیس… میرے من میں سوالوں کا انبار سا لگ گیا۔ ہمیشہ کی عادت کے مطابق ایسے سبھی سوالوں کا جواب دے سکنے والی ماں کے پاس جا کر میں نے پوچھا:
’’آئی، کیا ہم لوگ غریب ہیں؟‘‘
’’کیوں پوچھ رہے ہو یہ؟‘‘ ماں نے جواب میں سوال کیا۔
’’آئی، بتاؤ نا، سکول میں میری آدھی فیس معاف کس لیے کی گئی ہے؟ غریب لڑکوں کی ہی تو فیس معاف کی جاتی ہے نا؟ ہم لوگ غریب ہیں؟‘‘
’’ارے بابا، ہم لوگ غریب نہیں ہیں۔‘‘ آئی نے میرے سوال کا سیدھا جواب نہیں دیا۔
’’حال ہی میں باپو نے اتنی بڑی دکان جو کھولی ہے…‘‘ میری بحث جاری رہی۔
’’دیکھو، بات یہ تھی کہ پہلی دکان سے ہم لوگوں کا گزارہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے اناج اور کرانے کی دکان لگائی ہے۔ اس کے لیے لوگوں سے کافی رقم ادھار لی ہے۔ تم ہی سوچو نا، تم ہو پانچ بھائی، سب کی کتابوں اور فیس کے لیے پیسہ کہاں سے لائیں؟‘‘
’’تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہمیشہ آدھی فیس میں ہی پڑھائی کرنی ہو گی؟ کلاس کے اور لڑکے پوری فیس دیتے ہیں۔ مجھے شرم آتی ہے اس آدھی فیس پر!‘‘
’’شرم آتی ہے نا؟ تب تو تم اچھی پڑھائی کر کے بہت بڑے آدمی بنو، تاکہ تمھیں اپنے بچوں کو آدھی فیس میں سکول میں داخل کرنے کے لیے مجبور نہ ہونا پڑے!‘‘
اتنا کہہ کر آئی گھر کے کام کاج میں جٹ گئیں۔ میری ماں ہمیشہ گھر کے کاموں میں لگی رہتی تھیں۔ چولھا چوکا، آٹا چکی، جھاڑنا پونچھنا، کپڑے دھونا، پانی بھرنا، سب کچھ وہ اکیلے ہی کرتی رہتیں۔ پوپھٹتے ہی ماں جب چکی پیسنے بیٹھتیں تو میری بھی نیند کھل جاتی اور میں بھی ہولے ہولے چکی چلانے میں ان کی مدد کرتا۔ وہ اوکھلی میں موسل چلاتیں تو میں بھی ان کا ہاتھ بٹاتا۔ برتن مانجھنے میں بھی میں ماں کی جو ہو سکے، بن سکے، اتنی مدد ضرور کرتا تھا۔
ہر مہینے ماہواری میں آئی چار دن ایک کونے میں بیٹھی رہتی تھیں۔ اُن دنوں وہ ہم میں سے کسی کو چھوتی نہیں تھیں۔ رسوئی بھی نہیں بناتی تھیں۔ ہمارے گھر میں اور کوئی عورت نہیں تھی۔ گھر کے سارے کام اور بھگوان کی پوجا کی پوری ذمےداری میرے اور دادا پر آ جاتی تھی۔ ہمیشہ کام میں لگی رہنے والی ماں اس طرح الگ کیوں بیٹھی رہتی ہیں، اس کا تجسس مجھے بہت تھا۔ ’’مجھے کوّا چھو گیا ہے، چار دن تک میرے پاس نہ آنا!‘‘
اس پر ایک دن آئی سے پوچھ ہی بیٹھا، ’’ہم لوگ جب کوّے کے پاس جاتے ہیں تو وہ اڑ جاتا ہے۔ تمھیں ہی وہ اس طرح بار بار کیسے چھو جاتا ہے؟‘‘
’’چپ بھی کرو اب! بیکار کے جھگڑے میں پڑے ہو۔ چلو جاؤ یہاں سے، جلدی جلدی چولھا جلاؤ اور لگ جاؤ کھانا بنانے میں۔‘‘
اس طرح ڈپٹ کر آئی مجھے دور بھگا دیتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ دور سے ہی تیل، نمک، مرچ کتنی ڈالنی ہے، اس کا دھیان رکھتی تھیں۔ آگے چل کر کافی بڑا ہو جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ماہواری کے دنوں میں پورا آرام دلانے کے لیے ہی عورتوں کو اس طرح اچھوتا بنا کر بیٹھانے کی روایت ہے۔
غرض کے مارے ہو یا عادت کی وجہ سے، آئی کو میں نے ہمیشہ کام میں لگا ہی دیکھا ہے۔ انھیں کبھی میں نے فرصت میں پایا ہی نہیں۔ درمیان میں تھوڑا وقت مل جاتا تو وہ سونے کے منکوں کو چھوٹے اوزار سے ٹھوک پیٹ کر گول بنانے کا کام کیا کرتی تھیں۔ اس کام میں میں بھی کبھی کبھی شامل ہو جاتا تھا۔ اس طرح سو منکے ایک جیسی شکل کے بنا کر سنار کو دینے پر کچھ پیسے مل جاتے تھے۔
آئی ہمارے لیے ہمیشہ ایک گانا گا کر سنایا کرتی تھیں۔ ’’چندر کانت راجہ کی کنیا سگون روپ کھنی… (چندر کانت راجہ کی بیٹی سگھڑ اور خوبصورت)‘‘ مجھے یہ گیت بہت پیارا تھا۔ کئی بار میں ان سے اسے سنانے کے لیے کہا کرتا تھا۔ ہماری ماں تھوڑی انگریزی بھی جانتی تھیں۔ میں انگریزی سکول میں جانے لگا، تو کبھی کبھی رسوئی بناتے بناتے بھی وہ مجھے میری ہی کتاب کے الفاظ معانی رٹوا دیتی تھیں:’’سی اے ٹی کیٹ یعنی بلی…آر اے ٹی ریٹ یعنی چوہا، ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ لفظوں کے ہجے کرنے میں میری غلطی کو بھی سدھار دیتی تھیں۔
اب میں ہر روز سکول جانے لگا تھا۔ اس نئے سکول کی ایک یاد آج بھی تازہ ہے۔ ہمارے ساٹھے گروجی کی۔ وہ ہمیں مراٹھی پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے ایک نظم پڑھائی۔ انھوں نے اس نظم کو لے میں گا کر بھی سنایا اور اگلے دن اسے یاد کر کے آنے کا حکم دیا۔ ساٹھے گروجی نے اس نظم کو جس طرز اور لَے میں گایا تھا وہ کافی پرانی اور گھسی پٹی تھی۔ نظم کو یاد کرتے وقت اس طرز سے جی اکتا گیا۔ جی میں آیا، کیوں نہ ایک نئی طرز پر اسے گایا جائے؟
پتا نہیں کیسے، گنگناتے ہوئے اس نظم کے لیے ایک نئی طرز اچانک ہی میرے ہونٹوں پر آ گئی۔ گروجی کی طرف سے بنائی گئی طرز سے یہ طرز مجھے کافی اچھی لگی۔ بس پھر کیا تھا، میں نے من ہی من میں فیصلہ کر لیا۔ جماعت میں اس نظم کو نئی دھن دینے کی دھن دن بھر مجھ پر سوار رہی۔ میں کچھ نیا کر سکتا ہوں، اس خوشی میں جھومتا ہوا دوسرے دن سکول پہنچا۔ ایک طرح کے سپنے میں کھو گیا تھا کہ ساٹھے گروجی کے حکم پر میں نے اس نظم کو اپنی طرز پر گایا ہے، میرے دوستوں نے میری بہت بہت تعریف کی ہے، اور خود ساٹھے گروجی نے شاباشی دینے کے لیے میری کمر محبت سے تھپتھپائی ہے۔
مراٹھی کا سبق شروع ہوا۔ تین چار طالب علموں نے وہ نظم گا کر سنا دی۔ میری باری آئی۔ میں کھڑا ہو گیا اور اپنی بنائی نئی طرز پر اسے گانے لگا۔ کلاس کے سارے طالب علم مجھ پر ہنسنے لگے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ تبھی جانگھ پر ایک بینت سپک کر پڑی۔ میں ششدر رہ گیا۔ گروجی آگ بگولا ہوئے جا رہے تھے۔ آخر کیوں؟ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ساٹھے گروجی چلّائے، ’’گدھے کے بچے ! ٹھیک سے سناؤ نظم!‘‘
سوچا، میری بنائی گئی طرز انھیں پسند نہیں آئی، اس لیے میں اپنی ہی ایک اور نرالی طرز پر نظم سنانے لگا۔ پھر لگاتار بینت پڑنے لگیں۔ دن میں تارے دکھائی دینے لگے۔ گروجی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھتا دکھائی دیا۔ ان کی آواز بجلی کی طرح کڑکنے لگی۔ میں بھی ضد کر بیٹھا۔ میری بنائی گئی نئی طرز کو سراہنے کے بجائے گروجی مجھے پیٹتے جا رہے تھے۔ میں کھسیانا ہو گیا۔ اس نظم کو میں بار بار اور ہر بار ایک دم نئی طرز میں سنانے لگا۔ گروجی جھلاً اٹھے۔
’’مورکھ! میرا مذاق اڑاتے ہو؟ تمھاری یہ مجال؟‘‘
کہتے کہتے وہ دہاڑنے لگے اور ساتھ ہی مجھ پر بینتیں برساتے گئے۔ آخر ان کا ہاتھ رکا۔ شاید انھوں نے سوچا ہو گا کہ بہت پیٹ چکے اسے۔ پھر بھی ہاتھ میں بینت نچا کر انھوں نے پوچھا، ’’کیوں، اور چاہیے یا کافی ہو گیا؟‘‘
میں نے جبراً کہہ دیا، ’’کافی ہے۔‘‘ میں نے پٹائی سے ڈر کر ’’کافی ہے‘‘ نہیں کہا پر اس وقت مجھے چوتھی طرز نہیں سوجھی اس لیے میں چپ بیٹھ گیا۔ وہ بینتوں کی مار نا قابلِ برداشت ہو چکی تھی۔ میں کراہنے لگا۔
اس دن ساٹھے گروجی کے سامنے میں ہار گیا، لیکن آج جب اس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو ضرور لگتا ہے کہ لکیر سے ہٹ کر کچھ نئی بَکُوات کر دکھانے کا نظریہ وہیں سےتو نہیں پھوٹا تھا؟
دن میں تارے دکھانے کی حدتک دھنائی پٹائی کرنے والے سخت مزاج ساٹھے گروجی کی طرح اَکّو گوالن کی یاد بھی من میں اتنی ہی تازہ ہو جاتی ہے۔ اَکّو گوالن بےسبب ہی میرے ساتھ ممتا بھرا سلوک کرتی تھی۔ اس کی ممتا بھری مورت آج بھی میری آنکھوں کے سامنے بیدار ہو جاتی ہے۔
ہماری کرانے کی دکان کا پہلا دن تھا۔ باپو نے پان سپاری کی چھوٹی سی تقریب کی تیاری کی تھی۔ ہم سب لوگ اس دن دکان پر گئے۔ تقریب ختم ہونے کے بعدمیں اکیلا ہی آرام سے ٹہلتا ہوا گھر لوٹ رہا تھا۔ تین چار مکان آگے جانے کے بعد میں نے دیکھا، چبوترا نما اونچی جگہ پر ایک چھوٹی سی دکان بنی ہے۔ اس میں ایک ادھیڑعمر عورت بیٹھی ہے۔ گول چہرہ، ماتھے پر روپے کی شکل سے بھی بڑے گول آکار کا خوبصوت سیندور، کالی سانولی، بھاری بھرکم جسم، سر پر پلاّ، یہ تھا اس ادھیڑعمر عورت کا روپ۔ اس کے سامنے ہی ایک مٹی کا بڑا سا برتن رکھا تھا۔ اس میں دہی تھا۔ کوئی گاہک آتا تو دہی بیچنے کے لیے اس گھڑے کا ڈھکنا کھولنے کی اس کی ایک خاص ادا تھی۔ وہ جھول کر ڈھکنا ہٹاتی، لکڑی کی کرچھی سے دہی نکالتی، گاہک کے برتن میں اسے ڈالتی، پیسے لیتی، چھنن کھنن آواز کرتی ہوئی اسے اپنے گلّے کے بکسے میں پھینکتی، اور پھر ڈھکنا گھڑے پر سِرکا دیتی۔ اسے دیکھ کر میں ریجھ گیا۔ بڑا مزہ آتا رہا۔ پتا نہیں کتنی دیر میں اس کی وہی ادا دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا دھیان میری طرف ہوا۔ وہ ہنسی۔ سر ہلا کر اس نے مجھے پاس بلا لیا۔ پاس جاتے ہی اس نے پوچھا، ’’دے(دہی)کھاؤ گے؟‘‘
میں چپ ہی رہا۔ اس نے گھڑے میں سے کرچھی سے دہی نکالا اور بولی، ’’لیجو،بڑھاو ہاتھ۔ کاہے سرماتے ہو؟ لیجو بہوت بڑھیا دے (دہی) رہن ہمار۔‘‘(لو ہاتھ بڑھاو کیوں شرماتے ہو؟ لو بہت بڑھیا دہی ہے ہمارا۔)
شرماتے لجاتے میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ اتنا گاڑھا دہی تھا جیسے پنیر کا ٹکڑا کاٹ کر ہتھیلی پر رکھ دیا ہو۔ میری پوری ہتھیلی بھر گئی۔ میں سارا دہی منٹوں میں چاٹ گیا۔ گھڑے کی کوری مٹی کی خستہ خوشبو سے دہی میں ایسا مزے دار ذائقہ آ گیا تھا کہ میں ہتھیلی چاٹتا ہی رہا۔ پھر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بڑی ممتا دکھائی دی۔ اس نے ہنس کر پھر سے پوچھا:
’’اچھا لگا؟‘‘
’’جی ہاں، بہت اچھا تھا۔‘‘
میں خوشی کے مارے اچھلتا کودتا پھاندتا گھر کی طرف دوڑا۔
دوسرے دن سکول جاتے وقت ہاتھ میں سلیٹ اور بستہ لیے میں اس کی دکان کے سامنے زبردستی کھڑا ہو گیا۔ اچھا ہو کہ اس کے اس گھڑے میں رکھا دہی پھر سے کھانے کو مل جائے۔ سامنے والا گاہک چلا گیا اور اس نے میری طرف دیکھا۔ اب تو میں بن بلائے ہی اس کے پاس گیا اور ہاتھ بھی پھیلا دیا۔ اس نے میری ہتھیلی پر دہی رکھا۔ میں نے دہی کھانا شروع کیا۔ ابھی ابھی جو گاہک چلا گیا تھا، اس کے منھ سے میں نے اس کا نام سن لیا تھا۔ لوگ اسے اَکّو گوالن کہا کرتے تھے۔ دہی کھا چکنے کے بعد قمیض کی آستین سے منھ پونچھتے ہوئے میں نے کہا:
’’آج تو دہی بہت ہی مزیدار تھا، اَکّو موسی!‘‘
موسی لفظ سنتے ہی اس نے فوراً مڑ کر میر طرف بڑے پیار سے دیکھا اور بولی:
’’کے نام ہے تمہارا، بچھوا؟‘‘ (تمہارا کیا نام ہے ،بچے ؟)
’’شانتارام۔‘‘
’’شانتارام، ہر روج یہاں آتے رہیو، بھلا؟‘‘ (شانتا رام ، روز یہاں آتے رہنا، ٹھیک ہے؟)
’’اچھا‘‘ کہتا ہوا میں سکول کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے بعد ہر روز اَکّو موسی کے اس کالے گھڑے کا مزیدار دہی میں کھاتا۔ اب تو ہچکچاہٹ اور لحاظ بھی جاتا رہا۔ دکان پر کبھی بھیڑ ہو اور سکول جانے کے لیے مجھے دیر ہو رہی ہو تو میں ویسے ہی بغیر دہی کھائے بھاگتا۔ لیکن اَکّو موسی مجھے فوراً آواز دیتی اور اس جلدبازی میں بھی مجھے دہی کھلاتے بغیر چین نہ پاتی۔ آگے چل کر تو میں خود ہی اس کے سامنے ہتھیلی پھیلا کر دہی مانگتا جیسے وہ میرا حق ہو۔
ایک دن مجھے لگا، باقی سارے لوگ پیسے دے کر اَکّو موسی سے دہی لیتے ہیں، ایک میں ہی ایسا ہوں جو مفت میں دہی کھاتا ہوں۔ یہ غلط بات ہے۔ اس دن جمعہ تھا۔ باپو نے ہمیشہ کی طرح مجھے بھنا چنا کھانے کے لیے ایک پیسہ دے دیا تھا۔ اس دن بھنے چنے میں نے نہیں لیے۔ اَکّو ماسی کی دکان پر گیا اور ہتھیلی پر وہ ایک پیسہ رکھ کر اس کے سامنے کر دیا۔
’’ای کا کرت ہو بچھوا؟‘‘
’’اَکّو موسی، میں تم سے ہر روز دہی جو کھاتا ہوں، یہ لو پیسہ اس کا۔‘‘
وہ میری طرف نظریں گاڑ کر بولی، ’’تم ہم کا کس نام پکارت رہن؟‘‘ (تم ہمیں کس نام سے پکارتے ہو؟)
’’اَکّو موسی۔‘‘
’’تو اپنی موسی کے اِی ہاں کھانے پینے جاوت ہو نا؟ تب وا کو پیسہ دیہی ہو کا؟‘‘ (تو اپنی خالہ کے ہاں کھانے پینے جاتے ہو نا؟تب اس کو پیسے دیتے ہو کیا؟)
’’نہیں۔‘‘
’’تو ہمے کو پیسہ کاہے دیت ہو بچھوا؟ ہم کا بھی موسی کہت ہو نا؟‘‘ ( تو ہمیں پیسہ کیوں دیتے ہو، بچے ہمیں بھی تو خالہ کہتے ہو نا؟)
میں دیکھتا ہی رہا۔ وہ بولی:
’’چل بھاگ جا پگلے کہیں کو! موسی کو پیسہ دیوت ہے چھورو۔ اسی پیسے کا بھونا چنا لئی جیا جاؤ، بھاگو۔ ‘‘ (چل بھاگ جا پاگل کہیں کا!خالہ کو پیسے دیتا ہے لڑکا۔ اسی پیسے کا بھونا چنا لو اور کھا جاؤ، بھاگو!)
میں بھنا چنا خریدنے کے لیے چلا گیا۔ واپس اس کے پاس جا کر میں نے کہا:
’’ہوں، یہ لو دیوی بھگوتی کا پرساد!‘‘
اور دونوں مٹھی بھر بھنے چنے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ اس نے صرف ایک ہی چنا اٹھا لیا اور ماتا بھگوتی کا نام لے کر اسے ماتھے پر لگا کر منھ میں ڈال لیا۔ اس کے بعد ہر جمعے کو میں اسے اپنے بھنے چنے میں سے کچھ چنے پرساد کہہ کر دیتا رہا۔
ایسی تھی وہ ممتا بھری اَکّو موسی! اس عورت نے مجھے پتا نہیں کیوں، بےسبب اتنا پیار دیا! وہ میری کون لگتی تھی؟ کیا لگتی تھی؟ رشتہ نہ ناتا، پھر بھی کتنی محبت بھری تھی اس کی ممتا۔ کتنی ممتا سے ہنستی تھی وہ۔ اس کا دیا وہ میٹھا، سفید پنیر جیسا گاڑھا دہی! اس کے دہی سے میری پوری ہتھیلی بھر جاتی تھی۔ کہتے ہیں سفر پر نکلے راہی کی ہتھیلی پر تھوڑا سا دہی دیتے ہیں، اس لیے کہ اس کی یاترا سپھل ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیون کے سفر کی شروعات کرتے وقت اَکّو موسی نے اتنے پیار اور ممتا سے میری ہتھیلی پر دہی رکھ کر میری لمبی جیون یاترا کا مبارک آرمبھ کر دیا تھا!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...