(خاکہ)
ادیب الہندی
(مولانا مجتبیٰ علی خاں )
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی تھے
مصنف مدّبر مفکر مذہبی رہنما۔ مولانا مجتبیٰ علی خاں، ایک ایسی باکمال ہستی تھے جو برسوں میں پیدا ہوتی ہے۔
نام لیتے ہی آواز بھرّانے لگتی ہے، قلم تھر تھرانے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسا نام ہے جو ہر لمحہ دل سے لپٹا ہوا ہے۔ اب تو برس نکل گئے پر لگتا ہے ابھی کی بات ہے۔ ’’سچ بتائیے کیا ہوا ہے ‘‘؟
’’کیا بتاؤں ‘‘؟ ایسے ہی گھومتے گھومتے دل بھر گیا تو پل بھر کو اسپتال میں ٹھہر گیا۔ ۔ ۔ لکھنؤ سنجے گاندھی انسٹی ٹیوٹ والے بھیج رہے ہیں دہلی‘‘ وہ ادھر فون پر ہنس رہے تھے۔ ۔ کھو کھلی ہنسی۔ ۔ پھر ایک دن اچانک آ گئے۔ صبح صبح۔
’’ بتائیے۔ ۔ دہلی کیوں آئے ہیں ؟؟؟‘‘
’’بس یونہیں گھومنے۔ ۔ ۔ تجھ سے لڑنے کا دل چاہ رہا تھا۔ وہ صوفے پر لیٹے گھونٹ گھونٹ پانی پی رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ قطب مینار نہیں دیکھا ہے ابھی تک‘‘ وہ میری با توں کو ایسے ہی اڑا دیا کرتے تھے میں ان کی صورت دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔ ایک دم کمزور ہو گئے تھے۔ ۔ چہرے ازلی چمک غائب تھی آنکھوں میں ایک انجانی تھکن اتر آئی تھی۔ ۔ ‘‘ میں چائے کا پانی چڑھا کر واپس کمرے میں آئی۔ ۔ وہ سارے کمرے میں گھوم کر بچّوں کی تصویریں دیکھ رہے تھے۔ سارے کے سارے غائب ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘؟
’’ہاں بھئی اسکول سے آتے ہی ہوں گے تینوں۔ ۔ گاجر کا حلوہ کھائیں گے ؟؟‘‘
’’ہاں۔ ۔ جیو۔ ۔ ‘‘ انھوں نے کود کر نعرہ لگایا۔ ۔ میں نے باول لا کر رکھا اور تشتری لینے پھر باورچی خانے چلی گئی۔ واپس آئی تو وہ صوفے پر آرام سے پالتھی مار کر بیٹھے تھے اور باول سے ہی کھانا شروع کر چکے تھے۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ ان کی مسکراہٹ جھوٹی تھی۔ ۔ ۔
کیا ہوا ہے ؟؟ بتاتے کیوں نہیں ؟؟‘‘ میرے اندر اچانک خوف امنڈ آیا۔ میں نے ان کا سر سینے سے لگا لیا۔ ۔ ۔ اور وہ ساکت ہو گئے۔ ۔ وہ روئے نہیں آواز بھاری ہو گئی ’’یار۔ ۔ ۔ لوگ کہتے ہیں گردہ خراب ہو رہا ہے ‘‘ انھوں نے سر چھپائے چھپائے جواب دیا۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ ۔ ‘‘ میرا ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھا لیا۔
جلدی سے ا ٹھ کر بیگ کھولا ایک کتاب مجھے دی اور ایک کیسٹ نکالا۔ میری طرف دیکھا میں پھٹی پھٹی نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔
’’ارے ٹھیک ہو جاؤں گا۔ ۔ مت گھبراؤ۔ ۔ ٹرانسپلانٹ ہو جائے گا نا؟؟ بالکل صحیح ہو جاؤں گا۔ ۔ ‘‘
’’میرا گردہ لے لو بھیّا۔ ۔ ٹھیک ہو جاؤ۔ ۔ ‘‘ میری چیخیں نکلنے لگیں تھیں۔ ۔
ضرورت پڑی تو وہ بھی کروں گا۔ ۔ اب پلیز میری بات تو سنو۔ ۔ دیکھو اس کیسٹ میں کیا ہے۔ ۔ ‘‘ کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی اور ایک کونے میں رکھا ٹیپ ریکارڈر اٹھا لائے۔ کیسٹ لگا دیا کمرے میں ایک غزل کے بول سر سرانے لگے۔ ۔ آواز میری تھی۔ ۔ ’’یہ کب ٹیپ کی آپ نے۔ ۔ ‘‘میں نے آنسو انھیں کی استین سے پونچھے۔ ۔ ’’دیکھا۔ ۔ دیکھا۔ ‘‘ وہ خوب خوش ہوئے۔
’’یاد نہیں جب دو سال پہلے میرے پاس تھیں تو بچّوں کو غزل سنا رہی تھیں میں نے ٹیپ کر لی۔ ۔ ‘‘ وہ اپنے کارنامے پر خوش تھے۔
غزل ختم ہوئی تو اٹھ کر کیسٹ نکالا اور اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ ۔ میں پھر رونے لگی۔ ۔ ’’آج مت جاؤ پلیز۔ ۔ ‘‘ میں نے لاڈ سے گلے لگ کر کہا۔ ۔ ۔
’’جانے دو۔ ۔ ایک دوست بھی ہے ساتھ۔ ۔ ۔ اب تو آتا رہوں گا دہلی۔ ۔ چکر لگتے رہیں گے۔ ۔ ۔ میرا جانا مشکل مت کرو‘‘ اپنی ہتھیلیوں سے میرے آنسو صاف کئیے اور بولے ’’کھانا وانا نہیں کھلاؤ گی؟؟‘ میں نے باول پر نظر ڈالی سارا حلوا۔ ویسا کا ویسا رکھا تھا۔ ۔ ‘‘ کھایا کیوں نہیں ؟؟‘
’’بس بھوک نہیں لگتی۔ ۔ ‘ وہ تھک کر لیٹ گئے۔ کھانے کا اتنا شوقین میرا بھائی۔ ۔ ایسی بات کہہ رہا تھا۔ ۔ میرا دل چاہا اسپر قربان ہو جاؤں۔ ۔ ۔ پھر کچھ دنوں بعد سنا کہ آپالو میں اڈمیٹ ہیں۔ فون پر بات بھی ہوئی۔ ’’کیا ہو گیا ہے ؟؟؟ کیوں اسپتال میں ہیں آپ؟؟‘‘
’’یہاں کے ڈاکٹر بڑے مہربان ہیں۔ ۔ اچھا لگتا ہے ان کے درمیان رہنا۔ ۔ تم کب آؤ گی ملنے ؟؟‘‘ وہ بات کرتے کرتے ہنس رہے تھے یہاں میری آنکھوں سے جھڑی لگی تھی۔
کس قدر ہر دل عزیز تھے۔ ۔ کیرم کھیلتے تو خوب بے ایمانی کرتے اپنی گوٹیں پار کر دیتے۔ ۔ اور ہم سب چلاتے رہ جاتے۔ کیرم کے بورڈ پر سجی ہوئی نو گوٹیں تھے ہم لوگ۔ ۔ وہ تو بہار تھے گھر کی۔ ۔
چاہے سردیاں ہوں یا گرمیاں برسات ہو یا کڑکتی دھوپ۔ ۔ ان کے ساتھ زندگی ہمیشہ سترنگی رہی۔ ۔ ۔ آدھی رات کو اٹھ کر حلوہ کھانے کو دل چاہنے لگتا ان کا۔ ۔ چلو اٹھو سب۔ ۔ حلوہ بناؤ بھوک لگی ہے۔ آج میٹھی ٹکیاں کھانی ہیں۔ ۔ ۔ بھینس کے دودھ کے پتیلے سے ساری بالائی اتار کر پیالہ بھر لیتے۔ ۔ ۔ اور کسی کو ایک چمچہ نہ کھانے دیتے۔ ۔ بچپن میں تو سب بتاتے ہیں کہ شکر کے بورے میں گھس جایا کرتے تھے۔ ۔ اور بیٹھے شکر کھایا کرتے۔ ۔ ۔
صبح صبح سب کو اٹھا کر آنگن میں ہی کرکٹ شروع ہو جاتا۔ ۔ کڑاکے کی سردی میں لحاف کھینچ کر اٹھا دیتے ’’چلو چلو۔ ۔ ۔ کھیل شروع ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
مجھے لگتا تھا کہ انھیں دیکھے بنا توسورج بھی نہیں نکلے گا یکایک سرسبز و شاداب ہنستا کھیلتا جسم یوں اندر سے ایک پرزہ ٹوٹ جانے سے تباہی کی طرف مائل ہو گا کسی نے سوچا بھی نہ تھا مگر سورج آج بھی نکلا ہے دھوپ کڑی ہے۔ پتہ چلا گردے خراب ہو گئے ہیں۔ ۔ سارے بہن بھائی گردہ دینے کے لئیے ٹسٹ کروا رہے ہیں۔ ۔ ۔ میچ نہیں مل رہا۔ ۔ ۔ 18 برس کا بیٹا سامنے آ گیا۔ ۔ ۔ ’’ڈاکٹر صاحب۔ ۔ میرا ٹسٹ کر لیجئے۔ ۔ میرے ابّو کو بچا لیجئے۔ نرم چہرے پر بیقراری رقم تھی۔ ۔ ۔ وہ تو اولاد ہے۔ ۔ ۔ یہاں تو غیر اسپتال کے باہر کھڑے ہیں قطار میں میں ان کے پاس بیٹھی تھی۔ ۔ ۔ آنسو روکنا مشکل تھا۔ ۔ بے حد کمزور ہو گئے تھے۔ ان کی ساری نسیں دکھائی دے رہی تھیں۔ گول طباق سا چہرہ ایک دم پتلا اور کمزور ہو گیا تھا۔ ’’بچّوں کو بھی لے آتیں۔ ۔ ۔ دیکھ لیتا۔ ۔ ۔ ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ تھی۔ ۔ ۔ ‘‘ آئیں گے نا بچّے۔ ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں آپ کے پاس۔ ۔ بہت دن رہیں گے۔ ’’اچھا۔ ۔ ۔ ‘‘۔ سب کو پوچھ رہے تھے۔ ۔ ۔ اپنی کمزور زرد انگلیوں سے میرے آنسو پوچھ دیے۔ ۔ ۔ ’’ابھی۔ ۔ تو مت روؤ۔ ۔ ‘‘ میری آنکھیں سوج رہی ہیں کچھ ٹھیک سے دیکھائی بھی نہیں دے رہا ہے۔ ان کا کھانا پینا کم ہو گیا۔ پوچھا تو بولے۔ ۔
’’اپنے حصّے کا کھا چکا ہوں ‘‘ ہونٹوں پر بھر بھی مسکراہٹ قائم۔ ۔ میں نے پلیٹ میں سر جھکا لیا۔ ۔ لقمہ حلق میں اٹک رہا ہے۔ ۔ وہ کیسے تھے کیا تھے لکھوں گی تو ورق کے ورق سیاہ کر دوں گی۔ ۔ ۔ اور پھر بھی بات پوری نہ ہو گی۔ ۔ ۔ ایک عالم تھے۔ ۔ ۔ سیکڑوں کتابوں کے مصنّف تھے۔ ۔ کئی اسکول ان کی وجہ سے چلتے تھے۔ ۔ کیا کیا لکھ سکتی ہوں ؟ میں صرف جدائی لمحہ رقم کرتی ہوں۔ وہ وقت بھی بیت گیا اور ابھی ایک فون آیا ہے۔ ۔ ۔ سب ختم ہو گیا۔ ۔ کچھ نہیں بچا۔
کیرم کا اسٹائیکر گم ہو گیا۔ ۔ ۔ سارے کھیل رک گئے۔ ۔ ۔ یہ کسنے میرے پیروں میں انگارے باند ھ دئیے ہیں۔ ۔ ۔ میرے دل کے قریب آگ سلگ رہی ہے۔ ۔ ۔ میرا پیارا میرا لاڈلا بھائی۔ ۔ ۔ میرا ماں جایا۔ ۔ ۔ سب کو ہراتا ہوا سب سے آگے نکل گیا ہے۔ ۔ ۔ مگر مجھے لگتا ہے وہ ہر وقت آس پاس ہیں۔ ۔ یہیں کہیں ہیں۔ میرے قریب ہیں۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
٭٭٭