پھر وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ’’ہر انسان برابر ہے خدا نے سب کو یکساں بنایا ہے ہر شخص کے اعضائے بدن ایک سے ہیں۔ ایک ہی طرح جنم لیتا ہے، ایک ہی طرح کھاتا پیتا ہے ایک ہی انداز سے موت کے آغوش میں سو جاتا ہے۔ پھر ہم سب میں اتنا فرق کیوں ہے کیوں ہم نے انسانوں کی اس برادری کو طبقوں میں تقسیم کر لیا ہے؟ کس لیے یہاں کوئی چھوٹا ہے کوئی بڑا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہماری قوم پچھڑی ہوئی کیوں ہے ․․․․․․․ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے خود کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر لیا ہے۔ یہی تقسیم ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے کیوں کہ ہم ہر فرقے کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ اس سوسائٹی میں ہر طبقے کا حق برابر ہے۔ آج سے پسماندہ طبقے کے افراد کو ہر شعبے میں برابر کا درجہ حاصل ہو گا۔‘‘
وزیر اعظم کا یہ تاریخی اعلان برفتار برق پورے ملک میں پھیل گیا او پھر ہوا یوں کہ وہ بھی جو صدیوں سے اعلیٰ ذات کے افراد کے قدموں کے نیچے دبے رہنے کی وجہ سے ہنسنا بھول گیا تھا، بہت خوش ہوا، سب نے اپنے گھروں میں مستقبل کے تابناک خوابوں سے چراغاں کیا۔ وہ سب سوچنے لگے کہ اب ہمارے بچے ہماری طرح اَن پڑھ نہیں رہیں گے اور نہ نوکری کے لیے جگہ جگہ ٹھوکریں کھائیں گے۔ اب ہمیں نیچ ذات کہہ کر دھُتکار انہیں جائے گا۔ ہم ایک عام عزّت دار شہری کی طرح سر اُٹھا کر چلیں گے۔ انہی دبے کچلے لوگوں کی بستی میں ایک گھر رام پیارے کا بھی تھا۔ رام پیارے نے تمام زندگی شہر کو صاف کرنے میں گزاری تھی لیکن اپنی زندگی کے میل کو صاف نہیں کر سکا تھا، زندگی کے اسی میل کی صفائی کے لیے اس نے اپنے چاروں بچوں کو تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا تھا جس سے وہ خود محروم تھا۔ اس کی خواہش اور کوشش کا نتیجہ ہی تھا کہ اس کا بڑا بیٹا رتن لال بی اے تک پہنچ گیا تھا۔ رام پیارے کو رتن لال سے بہت اُمیدیں وابستہ تھیں اور اب وزیر اعظم کے اعلان کے بعد اسے اپنے خوابوں میں سچائی کی چمک دکھائی دینے لگی تھی ․․․․․․․․ لیکن دوسری طرف اعلیٰ ذات کے افراد یہ اعلان سن کر تڑپ اٹھے تھے۔ ان کے درمیان کھلبلی مچ گئی تھی۔ ہر شخص پریشان تھا کہ اس کی انا کو ٹھیس لگی تھی۔ انہیں یہ سوچ کر ہی گھن آ رہی تھی کہ سماج کا وہ طبقہ جو صدیوں سے ہماری خدمت کرتا آیا ہے، اب ہمارے قریب بیٹھے گا بلکہ بعض مقامات پر ہم سے بلندی پر پہنچے گا اور ہم اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے۔ سماج میں ہماری انفرادیت اور حیثیت ختم ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ زمانے میں یہی طبقہ ہمارے اوپر حکومت کرنے لگے اور ہماری حیثیت پسماندہ طبقے کی ہو جائے۔ وہ سب ہی متفکر تھے اور سوچ رہے تھی کہ وزیر اعظم کے اس حکم کے نفاذ کو روکنے کے لیے کون سی تدابیر کی جائیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں موجود اعلیٰ ذات کے افراد نے ایک دوسرے سے مشورے شروع کر دیے، پھر یہ طے پایا کہ سب مل کر احتجاج کریں گے۔ حکومت کے اس اعلان کے خلاف مظاہر کریں گے کہ ہماری حیثیت سماج میں سب سے رجوع کیا۔ انہیں نے کہا کہ اگر اس وقت تم لوگوں نے خاموشی سے اس کو قبول کر لیا تو سماج میں اسی طرح با عزّت بنے رہو گے۔ ان ہی مذہبی رہنماؤں کے مشورے سے اعلیٰ ذات کے افراد نے بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کیا جن میں کہا گیا کہ:
’’یہ حکومت ناستک ہے، دھرم کو بھرشٹ کر رہی ہے ہماری صدیوں سے چلی آ رہی پرمپرا کو ختم کر رہی ہے۔ کوئی بھی آدمی چھوٹا بڑا ہمارے بنانے سے نہیں بنتا بلکہ بھگوان اسے چھوٹا بڑا بناتے ہیں۔ یہ سب آدمی کے کرموں کا پھل ہوتا ہے۔ سنسار میں جو اچھے کام کرتا ہے اس کا جنم اُچیہ کوٹی میں ہوتا ہے اور جو برے کرم کر کے یہاں سے جاتا ہے، اسے نچلی جاتوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ سب ایشور کی مایا ہے کہ کس کا جنم کہاں ہو گا۔ انسان کا اس میں دخل دینا ایشور کو للکارنا ہے۔ دھرم کا ورودھ کرنا ہے۔ ہمارا اتہاس کہتا ہے کہ شودر کو بستی سے باہر بساؤ لیکن یہ سرکار انہیں ایوانوں میں بلا رہی ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ کسی شودر کو بھگوان کے درشن کے لیے مندر میں پرویش کی اجازت نہیں ہے۔ مندر میں اس کے داخلے سے مندر اَپوتر ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی ہمارے اتہاس میں لکھی ہے کہ پوترا شلوکوں کی آواز شودر کے کانوں میں چلی جائے تو ان کی پوترتا ختم ہو جاتی ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جب کوئی شودر پوتر اشلوک سن لیتا تھا تو اس کے کانوں میں گرم سیسہ ڈالا جاتا تھا کہ ان اشلوکوں کی اپوترتا ختم ہو جائے اور نہ کوئی شودر کسی اشلوک کو یاد کر سکے۔‘‘
پورے ملک میں اس طرح کی سبھاؤں کا اہتمام کیا گیا اور دھرم کے نام پر انسانی برادری کی طبقاتی قسم کو جائز قرار دیا گیا تاکہ وہ مٹّھی بھر افراد جو سماج کے ہر شعبے میں اپنی اجارہ داری جمائے ہوئے ہیں، مشتعل ہوں اور ان کے اشتعال سے خوفزدہ ہو کر وزیر اعظم اپنا حکم واپس لے لے۔ لیکن وزیر اعظم اپنے فیصلے پر قائم تھا۔ وزیر اعظم کے اس عزم و ارادہ کو دیکھ کر غم و غصہ کی لہر سے چنگاریاں نکلنے لگیں اور ان چنگاریوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہچانا شروع کیا۔ ملک گیر پیمانے پر ہڑتالیں کی گئیں۔ ریلوں اور بسوں کو نذر آتش کیا گیا۔ عوام کو ستایا گیا تاکہ حکومت وقت تنگ آ کر اپنا فیصلہ و اپس لے لے، لیکن نہ وزیر اعظم اپنا فیصلہ بدلنے کو تیار تھے اور نہ اعلیٰ طبقے کے افراد بچھڑے ہوئے لوگوں کو اپنے برابر بٹھانے کے لیے آمادہ تھے۔ انہیں اس بات کے تصور سے ہی ذلّت کا احساس ہوتا تھا۔
ایسا نہیں تھا کہ رام پیارے کو ملک میں ہونے والے ان ہنگاموں کا پتہ نہ ہو، اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اعلیٰ ذات کے افراد اس حکم کے نفاذ کو روکنے کے لیے ہر طرح سے کوشاں ہیں۔ وہ ہر روز شام کو چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر خبریں ضرور سنتا تھا اور پھر کافی دیر تک ملک کی موجودہ صورت حال پر لوگوں کے درمیان ہونے والے تبصرے میں شرکت کرتا تھا۔ پسماندہ طبقے کی بستی کے لوگ مستقبل کی خوشیوں اور اندیشوں پر اس طرح گفتگو کرتے جیسے ملک کے اہم سیاسی اور سماجی فیصلے انہی کے مشوروں کو مدّ نظر رکھ کر کئے جائیں گے۔ چائے کی چُسکی لیتے ہوئے کوئی وزیر اعظم کی بے بسی پر اس طرح رائے دیتا:
’’بھیا جی ․․․․․․․․ ہمارا پردھان منتری تو اس وقت مصیبت میں پھنس گیا ہے ابھی مسجد مندر کا رگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ آرکچھنڑ کا آن پھنسا۔۔ ۔۔ بے چارے کی سانپ کے منہ میں چھچھوندر جیسی حالت ہو رہی ہے۔‘‘
کوئی اور کہتا:
’’یار یہ مجت مندر کا جھگڑا بھی لمبا کھنچ گیا، سالا روز کئیں نہ کئیں اس بات پر فساد ہو جاوے ہے۔ ستیانس کر دیا اس دیس کا جھگڑے نے ․․․․ سالے لڑوانے والے تو بیٹھے رہ ویں بنگلوں میں ․․․․․․․ مارا جاوے غریب آدمی ․․․․․․․․․ کبھی سنا کوئی لیڈر پولیس کی گولی سے مارا گیا۔ وہ تو بھاشن دے کر لڑوانا جانیں بس لڑوانا۔‘‘ تیسرا اپنی بات اس طرح شروع کرتا:
’’ارے یار سب کرسی کا چکّر ہے۔ سب اپنی اپنی لیڈری چمکا رئے ہیں۔ نہ کوئی وہاں رام کی پوجا کرنے جا ریا اور نہ نماج پڑھنے ․․․․․․․․ یہ سب ہمارے لیڈروں نے انگریجوں سے سیکھا ہے۔ مندر بن گیا تو پبلک کو کس بات پر لڑوائیں گے اور کس بات کی دہائی دے کر ہمدردی اور ووٹ مانگیں گے۔ ورنہ مندر بنانا ہوتا تو محت کے پاس اِتّی جگہ پڑی ہے بنا لیتے۔ ہجاروں سال پرانی بات ہے کیا پتہ ہے کسی کو کہ رام جی اسی مجّت میں پیدا ہوئے تھے۔ جا کے ان لیڈروں سے پوچھا جائے کہ ان کا جنم استھان کون سا ہے تو سیدھے اپنی ماتا جی کے پاس پوچھنے جائیں گے۔ ارے بھیا آج کل اپنا جنم استھان یاد نہیں ہوتا۔ ہجاروں سال پہلے کی بات پکّی مالُم ہے ․․․․․․․ کیوں رام پیارے تجھے مالّم ہے اپنا جنم استھان۔ کون سی جھگّی میں پیدا ہوا تھا۔‘‘
لیکن رام پیارے اس وقت ان باتوں میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ وہ تو مستقل اسی جوڑ توڑ میں لگا ہوا تھا کہ آرکچھنڑ سے اس کے پریوار کو کتنا فائدہ پہنچے گا۔ وہ کہنے لگا۔ ’’چھوڑو یار اس مجّت مندر کے جھگڑے کو․․․․․․․ اپنا دھرم تو پیٹ پوجا ہے۔ یہ بتاؤ یہ آرکچھنڑ والا کانون کب سے لاگو ہو گا۔‘‘
’’ہاں بھیاں تیرا لونڈا تو اب بی۔ اے پاس ہونے والا ہے۔ تجھے تو اس کے ڈپٹی کلکٹر بنانے کی فکر ہو گی۔‘‘
رام پیارے کو یقین تھا کہ اس کا بیٹا رتن لال ضرور کلکٹر بنے گا اور اس کی بقیہ زندگی آرام اور عزت سے گزرے گی۔
’’ہاں بھئی سوچا تو یہی ہے کہ اگر رتنے نے بی۔ اے پاس کر لیا تو کلکٹری کی پریکچھا میں بٹھاؤں گا۔‘‘
’’لیکن یار ابھی تو لگتا نہیں کہ یہ کانون لاگو ہو جائے گا۔ ان اونچی جات برادری والوں نے بڑا ہنگامہ کر رکھا ہے۔ پورے دیس میں آرکچھنڑ ورودھی آندولن ہو رہے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کب سرکار کا ارادہ بدل جائے۔ ہیں تو سب ایک ہی تھیلے کے چٹّے بٹّے‘‘
’’ابے یہ سب ووٹوں کا چکّر ہے ہر نیتا چاہ رہا ہے کہ غریب لوگوں کے ووٹ کسی نہ کسی طرح اس کے ہاتھ میں رہیں۔ آندولن کروانے والے بھی لیڈر ہی ہیں۔‘‘
لیکن یار ان لیڈروں کے جھگڑے میں اپنا تو لابھ ہو گا۔ آرکچھنڑ والا کا نون چاہے کوئی لاگو کرے، فائدہ تو ہم لوگوں کا ہی ہو گا۔ رام پیارے کو اپنے بیٹے کے مستقبل کی فکر تھی۔‘‘
’’ہاں پھائدہ تو ہو گا لیکن ہو گا جب ․․․․ جب کانون لاگو ہو گا ․․․․․․ اس وخت تو خود پردھان منتری کی لٹیا ڈوبتی نظر آری ہے۔ اب تو دیس کے چھاتروں نے آندولن شروع کر دیا ہے۔ سنا نہیں کہ ایک بس اڈے پر ڈیڑھ سو بسوں میں آگ لگا دی۔ پندرہ بیس کروڑ میں آگے لگ گئی۔‘‘
’’ار تم بسوں میں آگ لگانے کی بات کر رہے ہو۔ یہ لونڈے تو اپنے شریر پر تیل چھڑک کر آگ لگا رہے ہیں۔ جندہ جل رہے ہیں۔‘‘
’’ارے یہ سب ڈرامہ باجی ہے۔ کوئی آگ واگ نہیں لگاتا ․․․․․ آتم ہتیا کرنی ہو گی۔ سوچا چلو ایسے جل مرو۔ نام ہو گا۔ اکھبار میں کبھر آئے گی۔‘‘
’’تو کیا ایسے آندولنوں سے ڈر کر سرکار اپنا حکم واپس لے گی؟‘‘ رام پیارے نے سوالیہ بات کی۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر حکومت نے اپنے فیصلے کو بدل دیا تو اس کے خوابوں کا محل چکنا چور ہو جائے گا۔
’’بھیا کچھ نہیں کہا جا سکتا کس کل اونٹ بیٹھے ․․․․․․․ غریبوں کا حک کس نے دیا ہے۔ کسی کی ترکّی ورکّی نہیں ہو گی جو جہاں ہے وہیں رہے گا ․․․․․․ غریب کو کوئی سوئیکار نہیں کرتا۔ مہابھارت میں دکھایا نہیں تھا کہ گرو درونا چاریہ شودر پُتر کو شکچھا دینے سے منع کر دیا تھا اور کرن کو شودر پتر سمجھ کر کسی نے عجت (عزت) نہیں دی۔ جو پرمپرا یگوں سے چلی آ رہی ہے اسے بدلنا آسان نہیں ہے۔‘‘
وہ سب ان باتوں میں محو تھے کہ ٹرانسسٹر پرچار کا اعلان ہوا، سب کی توجّہ ادھر مبذول ہوئی۔ ٹرانسسٹر سے آواز آ رہی تھی۔
’’دیش میں آج بھی آرکچھنڑ وردھی آندولن جاری رہا۔ کئی چھاتروں نے آتم داہ کی کوشش کی جگہ جگہ ٹرینوں کی روکا گیا اور بسوں میں آگ لگائی گئی جس سے یاتریوں کو کافی دشواری پیش آئی ․․․․․․․․ آج تیسرے پہر ایک نوجوان نے پردھان منتری پر قاتلانہ حملہ کیا۔ نوجوان کو فوراً گرفتار کر لیا گیا۔ رتن لال نام کا یہ نوجوان بی۔ اے کا چھاتر ہے پوچھ تاچھ کے دوران اس نوجوان نے بیان دیا کہ میں پردھان منتری کے آدرشوں کی قدر کرتا ہوں لیکن انہیں اس لیے مارنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ایشور کی نیتی میں ہستک چھیپ کیا ہے۔ جب ایشور ہی نے ہمیں نچلی جاتی میں پیدا کیا ہے کسی ویکتی کو کیا ادھیکار ہے کہ ہماری جاتی کو بدلے ․․․․․․‘‘
ٹرانسسٹر سے خبریں نشر ہوتی رہیں لیکن رام پیارے وہاں سے اٹھ کر آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی اسے آنگن میں پڑی ہوئی اپنی جھاڑو نظر آئی۔ اس نے بڑے احترام سے اسے اٹھایا اور گھر کی سب سے اونچی جگہ ڈھونڈنے لگا جہاں اسے رکھ سکے۔
٭٭٭
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...