صدف ٹی وی لائونج میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی، مجبوراً صدف نے فون اٹھایا۔ ’’کومل، تمھارا فون ہے۔‘‘ اس نے اپنی بہو کو آواز لگائی، اور فون کو ہولڈ پر رکھ کر دوبارہ اخبار پڑھنے لگی۔
کومل آئی، فون لے کر چلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی حسان بھی آیا اور بولا:
’’امی! آپ فون کیوں اٹھاتی ہیں جس کا فون ہوگا اٹھا لے گا، اگر آپ کا فون ہوگا تو آپ کو دے دیا جائے گا۔‘‘
صدف نے اخبار پر سے نظریں ہٹائیں، بیٹے کو دیکھا، اس کے سامنے وہ ننھا سا حسان آگیا جو اس کو بیٹھے دیکھ کر گود میں سوار ہو جاتا تھا اور دونوں ہاتھ اس کے گرد لپیٹ لیتا تھا اور کہتا تھا، ’’مجھے آپ کی گود میں لیٹنا ہے۔‘‘
یا پھر اس کی قمیص پکڑے اس کے ساتھ ساتھ لگا رہتا تھا۔ اور ایسی ہی بہت سی ننھی منی محبتیں اس کی آنکھوں کے سامنے جھلملا گئیں۔ اس کے چہرے پر غم کے سائے پھیل گئے۔ اس سے پہلے تو حسان نے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی۔ اس نے سوچا۔
’’ٹھیک ہے۔ آئندہ خیال رکھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوبارہ بظاہر اخبار پڑھنے لگی۔ نظریں اخبار پر تھیں لیکن اسے تو اخبار کی حروف بھی صاف نظر نہیں آرہے تھے۔
حسان نے محسوس کر لیا کہ اُس کا اِس طرح بات کرنا ماں کو پسند نہیں آیا۔ وہ ماں کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا،صدف کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولا:
’’امی! میں آپ سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ اس طرح فون اٹھائیں گی، اور اگر گر پڑیں تو کیا ہوگا—؟
آپ کم زور ہوگئی ہیں، آپ کے لیے چلنا مشکل ہوتا ہے۔ فون اٹھانا، گیٹ پر جانا، یہ سب کام کومل کے ہیں۔ اب آپ ان تمام ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جائیے اور آرام کیجیے۔‘‘
’’امی آپ اتنی اونچی آواز سے ٹی وی چلا رہی ہیں، آپ کو پتا ہے بچوں کے امتحانات ہیں، وہ پڑھائی کر رہے ہیں۔‘‘
حسان نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی کی آواز دھیمی کر دی۔ صدف نے ٹی وی لائونج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا۔ وہ اپنے کمرے میں ہی ٹی وی دیکھتی۔
ایک دن صدف نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت بہتر ہے تو اس نے کچے گوشت کی بریانی بنائی، سب کو بہت پسند تھی، خاص طور پر حسان کو۔ وہ سوچ رہی تھی حسان بہت خوش ہوگا— مگر الٹا ہوا—
’’امی! اب آپ پکوان کا خیال چھوڑ دیں، آپ کے بس کی بات نہیں رہی۔‘‘ حسان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اسے بڑی حیرت ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ بریانی تو بہت مزے دار بنی تھی۔ کومل کو بھی چکھائی تھی، وہ بھی بہت تعریف کر رہی تھی، کہہ رہی تھی، ’’امی بہت زبردست بنی ہے۔‘‘
’’امی یہ کمرہ آپ کے لیے بہت بڑا ہے، آپ زینا کے کمرے میں شفٹ ہو جائیے، زینا یہاں آجائے گی۔‘‘ حسان نے ایک نیا حکم صادر کر دیا۔
’’اِس کمرے، اور اِس کمرے کی ایک ایک چیز سے میری یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ میں یہ کمرہ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
صدف نے بمشکل کہا۔
’’امی! پلیز اب آپ ان دقیانوسی سوچوں سے باہر نکلیں۔ کل میں آفس سے آدمی بھیجوں گا وہ آپ کا سامان شفٹ کر دے گا۔‘‘
حسان سرد لہجے میں کہہ کر چلا گیا۔
صدف جانتی تھی حسان کے دماغ میں آگئی ہے، اب وہ یہ کمرہ زینا کو دے کر ہی مانے گا۔
صدف گھر کے ماحول میں اپنے لیے یہ تبدیلی دیکھ کر حیران تھی۔
ایسا لگتا تھا وہ ایک بے جان ربوٹ ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کومل اور حسان امی، امی کہتے نہ تھکتے تھے۔ ہر بات میں پوچھنا، ہر کام میں مشورہ— بچے بھی ہر کام دادی سے ہی کرواتے۔ ماں سے زیادہ دادی کو بچوں کی ہر چیز کا پتا تھا۔ ہر طرف محبتیں ہی محبتیں— روشنیاں ہی روشنیاںبکھری ہوئی تھیں۔
اور اب تو جیسے سب کچھ بدل گیا تھا۔ کومل آفس سے آنے کے بعد زیادہ تر اپنے کمرے میں ہوتی یا فون کرتی نظر آتی۔ بچے بھی مصروف رہتے۔ بچوں کا اپنے نانا، نانی کے گھر آنا جانا زیادہ ہوگیا تھا۔ اکثر چھٹی کے دن یا تو نانا نانی کے گھر گزارتے یا پھر سیر و تفریح میں۔ صدف پورا پورا دن اکیلی گھر میں پڑی رہتی۔ اس سے چلنے کے لیے اخلاقاً بھی نہیں کہا جاتا۔
اس دن وہ اپنے کمرے میں بیٹھی ٹالسٹائی کا ناول ’’اینا کرینا‘‘ پڑھ رہی تھی صائم اور افروز آگئے، صدف نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور بولی:
’’آئو بیٹا! کیسے ہو تم لوگ—؟‘‘
’’امی آپ اکیلی بیٹھی ہیں، اوپر آجائیں ہمارے پاس۔‘‘ افروز بولی۔
’’افروز، تم امی کو کیوں تنگ کر رہی ہو۔ انھیں سیڑھیاں چڑھنے میں مشکل ہوگی۔ تم خود امی کے پاس آجایا کرو۔‘‘ صائم ایک دم بول پڑا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صائم بھی نہیں چاہتا کہ میں اس کے پاس آئوں۔ صدف کے دماغ کو دھچکا سا لگا مگر دوسرے لمحے ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔
’’تم لوگ بیٹھو، میں چائے بناتی ہوں پھر سب مل کر پییں گے۔‘‘ صدف نے اٹھتے ہوئے کہا۔
افروز نے چائے بنائی، تینوں نے مل کر چائے پی، گپ شپ کی— پھر افروز اور صائم اوپر چلے گئے۔ وہ دوبارہ کتاب پڑھنے لگی مگر اس کا دل نہیں لگا۔ اس نے کتاب بند کر دی اور گائو تکیے کے سہارے بیٹھ گئی۔ وقت اسے ماضی کی طرف لے گیا۔
صدف اسلام آباد سے اپنی دوست رابعہ کی شادی میں آئی تھی۔ حسن نے اسے وہیں دیکھا تھا۔
’’امی! بلیک اور اورنج کلر کا جو لڑکی سوٹ پہنے تھی، رابعہ کی شادی والے دن اور زیادہ تر رابعہ کی امی کے ساتھ ساتھ تھی، کیا آپ اسے جانتی ہیں۔‘‘ حسن نے ماں سے پوچھا۔
’’اچھا تو آپ لڑکیوں کو اس قدر غور سے دیکھتے ہیں۔‘‘ حسن کے بھائی حاشر نے جملہ کسا۔
’’لڑکیوں کو نہیں، صرف ایک لڑکی کو ہی دیکھا ہے۔‘‘ حسن بولا۔
’’نہیں، میں نہیں جانتی۔ شاید رابعہ کی دوست ہے۔ ’صدف‘ نام ہے اس کا۔‘‘ حسن کی امی نے جواب دیا۔
’’امی! آپ اس کے متعلق معلوم کیجیے۔ میں شادی کروں گا تو اسی سے ورنہ نہیں کروں گا۔‘‘ حسن نے نہایت جذباتی انداز میں کہا۔
’’زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اس لڑکی کو جانتے ہیں اور نہ اس کے خاندان سے واقف ہیں۔ فرض کرو وہ شادی شدہ ہے، یا اس کی منگنی ہوگئی ہے، یا نکاح ہوچکا ہے وغیرہ وغیرہ—‘‘ ماں نے ہلکا سا دھمکایا۔
اور پھر حسن اور صدف کی شادی ہوگئی۔ حسن نے اپنی ’’پہلی نظر‘‘ کی محبت کو نبھایا۔ تمام زندگی صدف سے دل و جان سے محبت کرتا رہا۔
شادی کے بعد صدف نے حسن سے جاب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حسن نے نہ صرف اسے اجازت دے دی بلکہ جاب کے سلسلے میں اس کی مدد کی۔ صدف کو ایک مقامی کالج میں لکچرر شپ مل گئی۔ اس نے انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کیا تھا اس لیے بھی جاب ملنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ اس کے دو بیٹے ہوئے حسان اور صائم۔
صدف نے اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت بہت اچھے طریقے سے کی، کبھی جاب کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے بیچ میں نہیں آنے دیا۔
ایک دن حسن، صدف کو لے کر گھر سے باہر نکلا۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد صدف نے حسن سے پوچھا، ’’ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’تھوڑا صبر کرو۔‘‘ حسن نے کہا۔
پھر ایک خوب صورت گھر کے سامنے گاڑی روکی اور دروازہ کھول کر صدف کو اترنے کے لیے کہا۔ چوکی دار نے گیٹ کھولا۔ حسن ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے گیا۔
’’یہ گھر میں نے تمھارے لیے خریدا ہے۔‘‘ حسن نے اسے لپٹاتے ہوئے کہا۔
’’حسن! یہ تو بہت خوب صورت دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ اس نے پورے گھر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
پھر حسن اور صدف نے پورے گھر کا چکر لگایا۔ ’’اوپر کی منزل صائم کے لیے ہے۔ نیچے حسان اور ہم دونوں بھی حسان کے ساتھ نیچے رہیں گے۔ اور یہ دیکھو یہ ہمارا بیڈروم، اس کی ایک کھڑکی باغ میں کھلتی ہے۔ پھولوں کی مہک ہمارے کمرے کو معطر کرتی رہے گی۔‘‘ حسن بے حد خوش نظر آرہے تھے۔
’’اب تم پر بہت بڑی ذمہ داری آگئی ہے۔ آہستہ آہستہ اسے فرنشڈ کرنا ہے۔‘‘ حسن نے کہا۔
’’ہاں ضرور۔ ہم دونوں مل کر یہ کام کریں گے۔ ان شاء اﷲ۔‘‘
صدف نے حسن کو یقین دلایا۔
’’کہتے ہیں، اچھا وقت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ ہم لوگ اس گھر میں آگئے، بچے بڑے ہوگئے۔ حسان کی شادی ہوگئی، اس کے تین بچے بھی ہوگئے۔ زندگی اور وقت مزید تیز رو ہوگئے۔ حسن کے ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا۔‘‘
’’اڑا لیجیے آپ بھی ہمارا مذاق۔‘‘ حسن نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔
’’یہ سب سوچتے ہوئے صدف کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔‘‘ وہ دوبارہ ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئی۔
’’صدف! تم کالج چلی جاتی ہو، میں اکیلا بور ہوتا رہتا ہوں کتنا اخبار پڑھوں، ٹی وی بھی تمھارے بغیر دیکھنے میں مزہ نہیں آتا۔ پودوں کے ساتھ بھی کچھ وقت گزار لیتا ہوں۔ پھر بھی وقت نہیں کٹتا—‘‘
پھر کچھ لمحے کے بعد دوبارہ بولے۔ ’’تمھاری ریٹائرمنٹ میں کتنا وقت ہے؟‘‘
’’حسن میری ریٹائرمنٹ میں ابھی چار سال باقی ہیں۔‘‘ صدف نے جواب دیا۔
’’زندگی ہم دونوں کی مستقل بھاگ دوڑ میں گزر گئی۔ پتا ہی نہیں چلا زندگی کے اتنے برس کیسے گزر گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھو تو سب ’خواب‘ سا لگتا ہے۔ میں نے سوچا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ہم دونوں خوب گھومیں پھریں گے، یورپ کا ٹور کریں گے۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ کبھی باہر وقت تو گزارا ہی نہیں۔‘‘ حسن نے محبت سے صدف کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
’’حسن! میں چھہ ماہ کی چھٹی لے لیتی ہوں۔ مجھے آسانی سے مل جائے گی۔ پھر ہم پلان کر سکتے ہیں۔‘‘ صدف نے حسن سے کہا۔
’’ابھی ہماری ایک ذمہ داری باقی ہے۔ ‘‘صائم کی شادی۔
’’تو سب سے پہلے صائم کی شادی کا سوچو، اس کے بعد ہم دونوں عمرہ ادا کرنے چلیں گے۔ اور پھر یورپ جانے کی تیاری کریں گے۔‘‘ حسن نے کیا۔
صائم کی شادی میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ حسن کی بھتیجی افروز سے صائم کی شادی طے ہوگئی۔ صائم اور افروز نے بھی ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔
’’صائم کی شادی کے بعد ہم دونوں عمرہ کرنے چلے گئے۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد حسن نے کہا اب ہم ایک دو ماہ آرام کریں گے، پھر یورپ کا پلان بنائیں گے۔
عمرے سے واپس آنے کے ایک ہفتے کے بعد حسن کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ صدف کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
حسن کی موت کے بعد صدف کی دنیا اجڑ گئی۔ وہ تو بالکل بکھر گئی تھی مگر اس کے دونوں بیٹوں اور بہوئوں نے بہت محبت دی اور وہ آہستہ آہستہ زندگی کی جانب لوٹنے لگی۔
اس کے ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آگیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے گھر کی تمام تر ذمہ داری سنبھال لی۔ کومل تھوڑی بہت اس کی مدد کر دیتی تھی۔ بچے بھی اپنے ہر کام کے لیے دادی کے پاس ہی آتے۔ گھر کے ہر کام میں حسان اور کومل، صدف سے مشورہ لیتے۔ بہت عزت اور خوشی سے زندگی گزر رہی تھی۔
بڑھاپا دبے پائوں آرہا تھا۔ کام کرنے میں بھی وہ مستعدی نہیں رہی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔
گھر کے کام کاج کیا چھٹے کہ نظامِ ہستی ہی بدل گیا۔ بچے، بڑے آہستہ آہستہ سب دور ہوتے چلے گئے۔ بعض اوقات وہ سارا سارا دن اپنے کمرے میں اکیلی پڑی رہتی۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن۔
ایک دن اس کی طبیعت خراب ہوگئی، فیملی ڈاکٹر نے گھر آکر چیک کیا۔ بلڈ پریشر ہائی تھا۔ ڈاکٹر نے دوائیں تجویز کیں اور خیال رکھنے کے لیے کہا، دن میں دو مرتبہ بلڈ پریشر چیک کرنے کے لیے تاکید کی۔
ڈاکٹر کے جانے کے بعد حسان اور صائم ماں کے پاس آئے اور بیڈ کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔ ماں سے اس کی طبیعت خرابی کے حوالے بات کرنے لگے۔ پھر حسان، صدف سے مخاطب ہوا:
’’امی ہم دعا کرتے ہیں آپ لمبی عمر تک زندہ رہیں، آپ سے ایک بات کہنا چاہ رہے ہیں، اگر آپ اجازت دیں تو۔‘‘
’’ہاں بیٹا بولو۔‘‘ صدف نے محبت سے کہا۔
’’ہم دونوں یہ چاہتے ہیں کہ آپ یہ گھر میرے اور صائم کے نام کر دیں۔ آپ تایا ابو کے بیٹوں صفدر اور عاصم کو تو جانتی ہی ہیں، ان کی نظریں شروع ہی سے ہمارے گھر پر ہیں۔‘‘
’’صدف! ایک بات میری اچھی طرح اپنے پلے باندھ لو، اپنی زندگی میں یہ گھر بیٹوں کے نام نہ کرنا۔‘‘
صدف کے سامنے حسن کا چہرہ آگیا۔
’’حسن! مجھے معاف کر دینا تمھاری بات کے خلاف جارہی ہوں۔‘‘
صدف کی آنکھیں آنسوئوں سے بھیگ گئیں۔ اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔
’’ٹھیک ہے، میں تیار ہوں۔‘‘ صدف نے کہا۔
گھر، حسان اور صائم کے نام ہوگیا۔ لمحات کا ایک سلسلہ وقت کی صورت میں گزرتا جارہا تھا— زندگی کے کچھ اور برس گزر گئے۔
کبھی کبھی وہ سوچتی، یہ وقت بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ زندگی کے ایک حصے میں یہ ایک تیز رفتار پرندے کی صورت اڑان بھرتا رہتا ہے۔ روکنا بھی چاہو تو قابو میں نہیں آتا۔ اور پھر زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس ’وقت‘ میں کوئی اتار چڑھائو، عروج و زوال، آغاز و انجام کچھ نہیں ہوتا۔ سست رفتاری سے چلتا رہتا ہے، فکر اور جذبے کے عوامل سے بے نیاز۔
پھر ایک دن حسان، صدف کے پاس آیا بیڈ کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’امی! کیسی طبیعت ہے آپ کی؟‘‘ حسان نے پوچھا۔
’’بہت اچھی ہوں۔ اﷲ کا شکر ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے صدف اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’امی آپ لیٹی رہیں۔‘‘ حسان نے کہا۔
’’میں ٹھیک ہوں، تم بتائو سب خیریت ہے۔‘‘ صدف نے پوچھا۔
’’امی، دراصل آپ کو یہ بتانا تھا کہ ہم یہ گھر بیچ رہے ہیں۔‘‘
حسان نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن آخر کیوں؟‘‘ صدف کے دماغ کو ایک دھچکا سا لگا۔ وہ یہ کہتے ہوئے بیڈ سے اتر کر حسان کے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔
’’صائم کو معلوم ہے یہ بات؟‘‘ صدف نے حسان سے سوال کیا۔
’’جی امی، ہم دونوں نے مل کر ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اتنے میں صائم بھی آگیا۔
’’یہ صائم بھی آگیا ہے، آپ چاہیں تو اس سے بھی پوچھ لیں۔‘‘
حسان نے صائم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی امی، یہ ہم دونوں ہی کا فیصلہ ہے۔‘‘ صائم بولا۔
’’امی میرے پیپرز آگئے ہیں۔ ہمیں ویزا مل گیا ہے۔ میں، کومل اور بچے امریکا جارہے ہیں۔ یہاں گھر رکھنا فضول ہے۔ کسی نے قبضہ کر لیا تو کون عدالت کے چکر کاٹے گا۔ یہاں کے حالات سے تو آپ واقف ہی ہیں۔‘‘ حسان نے ماں سے نرمی سے کہا۔
تم لوگ امریکا جائو۔ صائم تو ہے گھر بیچنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اور صائم یہاں رہیں گے۔‘‘ صدف نے کہا۔
اس گھر کے لیے اس نے اور حسن نے کتنے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے کہ ہم نہیں ہوں گے تو ہمارے بچوں کے، پوتے پوتیوں کے، نواسے نواسیوں کے قہقہوں اور خوشیوں سے یہ گھر منور رہے گا۔ اس گھر میں ان کی شادیاں ہوں گی۔ بیٹیاں رخصت ہو کر نئی دنیا بسائیں گی، بہوئیں آکر اس گھر میں روشنی پھیلائیں گی۔
’’امی! آپ کیا سوچنے لگیں— میں آپ سے یہ کہہ رہا تھا کہ صائم کی دبئی میں جاب ہوگئی ہے۔ صائم دبئی جارہا ہے۔‘‘ حسان نے ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
حسان کی آواز پر صدف اپنے خیالات سے واپس آئی۔ یہ سن کر ’صائم دبئی جارہا ہے۔‘ اسے بہت دکھ ہوا۔
مجھے بتایا تک نہیں دونوں نے کہ وہ پاکستان سے باہر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدف نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’میں کس کے ساتھ جائوں گی؟‘‘ صدف نے سوال کیا۔
’’ارے امی، آپ کہاں امریکا، دبئی جیسے ملکوں میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرتی اور خوار ہوتی پھریں گی، اور وہ بھی اس عمر میں۔ ہم آپ کو اسلام آباد بھیج رہے ہیں، آپ اپنے مائیکے میں آرام سے رہیے گا۔‘‘
’’مجھے اسلام آباد نہیں جانا ہے۔ مائیکے اور سسرال کا معاملہ میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مجھے تمھارے ساتھ رہنا ہے۔ جینا ہے، مرنا ہے اپنے بیٹوں کے ساتھ۔ دونوں نہیں تو کسی ایک کے ساتھ۔ جو دل سے رکھے۔‘‘
صدف نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’امی! یہ صرف میرا نہیں، آپ کے دونوں بیٹوں کا فیصلہ ہے۔‘‘
بڑا بیٹا (حسان) حکم دینے کے لہجے میں بولا۔
’’امی! یہ ہماری مجبوری ہے۔ اس کا خیال کریں اور ہمیں معاف کر دیں۔‘‘ چھوٹا بیٹا (صائم) بولا۔
’’کل شام چار بجے کی آپ کی فلائٹ بک ہے۔‘‘ حسان نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور مزید بات چیت کیے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
چہار جانب ایک الم ناک سکوت طاری ہوگیا۔ صدف نے چھوٹے بیٹے کی جانب نظریں جما دیں، لیکن وہ بھی ماں سے نظریں چراتے ہوئے اٹھا او رمنظر سے غائب ہوگیا۔ صدف بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
دوسرے دن صبح جب خادمہ صدف کے کمرے میں پہنچی تو دیکھا صدف کمرے میں نہیں تھی، باتھ روم میں بھی سناٹا تھا۔ خادمہ نے سب سے پہلے کومل کو اطلاع دی۔
’’تو میں کیا کر سکتی ہوں۔‘‘ بڑے بیٹے کی بیوی کومل نے نوکرانی کو جھڑک دیا۔
نوکرانی نے صدف کے غائب ہونے کی اطلاع گھر کے چھوٹے بڑے تمام لوگوں کو پہنچا دی۔
اسلام آباد کی فلائٹ کینسل کروا دی گئی۔ حسان اور صائم گاڑی لے کر جگہ جگہ ماں کو تلاش کرتے پھرے۔ تھک ہار کر پولیس سے مدد مانگی، میڈیا سے بھی مدد لی، مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ صدف کا پتا نہ چل سکا۔
صدف کے ساتھ گھر پر لگی ہوئی تختی ’’حسن لاج‘‘ غائب تھی مگر اس پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔
مکان فروخت ہوگیا۔ امریکا جانے والے امریکا چلے گئے۔ دبئی جانے والے دبئی چلے گئے۔
ماں کا مکان فروخت کرنے اور ماں کو ساتھ لیے بغیر ملک چھوڑنے والے بیٹوں کا دھیان ماں کے بینک اکائونٹ کی جانب نہیں گیا تھا۔ وہ مکان بیچنے کے ساتھ اپنی بوڑھی ہوتی ہوئی ماں سے بھی جان چھڑا رہے تھے۔ ان کی بیگمات بھی ایک بوجھ سے چھٹکارا پا رہی تھیں اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔
دبئی میں صائم کو ملازمت تو اچھی مل گئی، تنخواہ بھی اچھی تھی لیکن اس کی بیگم نے یہ محسوس کر لیا کہ یہاں زندگی گزاری نہیں جاسکتی۔ ان دونوں نے بھی حسان کے پاس نیویارک جانے کا ارادہ کر لیا۔
نیویارک میں حسان کو اس کے اپنے فیلڈ میں مناسب جاب ملنے میں بہت دقت پیش آئی۔
انجینئرنگ کے جس شعبے میں وہ سند یافتہ تھا، اس میں اس کے اسٹینڈرڈ کے مطابق اسے جاب نہیں مل رہی تھی۔ بالآخر اس نے یہی فیصلہ کیا کہ فی الحال جو بھی جاب ملے، کرنا ہے۔ کومل ابتدا میں بہت خوش تھی مگر جب بچوں اور گھر کی ذمہ داری تنہا اس پر پڑی اور ساتھ میں جاب، تو اسے اپنا ملک بہت یاد آیا کیوں کہ اسے تو نوکر چاکر کی عادت تھی۔
صدف ان کی زندگی سے ہی نہیں ان کی یادوں سے بھی نکل چکی تھی۔ ایسے میں حسان نے ٹی وی پر ایک پاکستانی چینل پر اپنی ماں (صدف) کو دیکھا۔ اس نے کومل کو آواز دی۔ دونوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے صدف کو دیکھنے لگے۔ صدف ان کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس کی آواز میں دھیرج اور خود اعتمادی تھی۔ وہ بول رہی تھی۔
’’پہلے میں اپنے اور اپنے اولاد کے سوا کسی اور کے بارے میں سوچتی ہی نہیں تھی۔ میری دنیا مجھ پر اور میرے بچوں پر مشتمل تھی۔ پھر یہ ہوا کہ میں اپنی ایک کالج کی ساتھی کے ساتھ اس کے آبائی گائوں گئی۔ وہاں چند روز رہنے کے بعد میری سوچ بدل گئی۔ میں نے محسوس کیا اس چھوٹے سے گائوں اور گائوں میں رہنے والوں کو میری ضرورت ہے۔ میں اس گائوں اور گائوں کے رہنے والوں کی ہوگئی۔ اور آج بھی اپنے فیصلے پر پوری طرح مطمئن ہوں۔‘‘
اب اینکر خاتون مخاطب تھیں:
’’آپ نے بیگم صدف حسن کو دیکھا، ان کی باتیں سنیں۔ بیگم صدف حسن نے بہت کم عرصے میں ایک ادارے کی تشکیل کی۔ ’حسن میموریل انسٹی ٹیوٹ اوف ولیج ویلفیئر‘ Hassan Memorial Institute of Village Welfare اس کی شاخیں دیگر دیہاتوں میں بھی قائم کیں۔‘‘
’’بیگم صاحبہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس ’انسٹی ٹیوٹ‘ کے بارے میں ہمارے ناظرین کو کچھ بتائیں۔‘‘
اینکر خاتون نے صدف حسن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’اس ادارے کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تحت گائوں کی خواتین ’اپنی مدد آپ‘ کے اصول پر سب کچھ کرتی ہیں۔ گائوں کے باسی اپنا تھوڑا تھوڑا وقت دیتے ہیں اور میں اور میری رفیق خواتین ان کو سکھاتی ہیں، ان کی رہبری کرتی ہیں۔ ان میں تعلیم، تدریس، سلائی، کڑھائی، کاٹیج انڈسٹری اور دیگر شعبہ ہائے حیات سے متعلق شعبے شامل ہیں۔ اب اس گائوں کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ آپ زیادہ تر خواتین کو پڑھا لکھا اور خود اعتماد پائیں گی۔‘‘
’’مرد حضرات کو اس پروجیکٹ سے دور رکھا گیا ہے؟‘‘
اینکر خاتون نے ہنستے ہوئے سوال کیا۔
’’جی ہاں— یہ خواتین کا ادارہ ہے، لیکن مرد حضرات نے بھی اس طرف توجہ دینی شروع کی ہے۔ وہ بھی اپنے طور پر ادارے قائم کر رہے ہیں۔‘‘ صدف نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا۔
اینکر خاتون نے بیگم صدف حسن کے بارے میں مزید تحسین سے معمور فقرے کہے اور بتایا بیگم صدف حسن اس انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ہی اپنے ایک چھوٹے سے خوب صورت گھر میں تنہا رہتی ہیں۔‘‘ اور جاتے جاتے یہ کہا، ’’میں آپ کو ان کے اس خوب صورت گھر کی ایک جھلک دکھاتی ہوں۔‘‘
گیٹ پر ’’حسن لاج‘‘ کی تختی دیکھ کر کومل کے منہ سے ایک دم نکلا:
’’حسان یہ تو اپنے گھر والی تختی ہے۔‘‘
ٹی وی کھلا رہ گیا، اگلا پروگرام شروع ہوگیا۔ دونوں میاں بیوی بت بنے بیٹھے رہے۔ دونوں سے اٹھا نہیں جارہا تھا۔ ان کے بدن بوجھل ہوگئے تھے۔ دونوں اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہے تھے۔ ان کی آنکھوں کے آگے صدف کھڑی تھی، ان دونوں سے بلند و بالا اور بے نیاز۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...