پچھلے کچھ دنوں سے حسن کو ہانیہ کا رویہ بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا… وہ اس کے سب کام تو سر انجام دیتی تھی لیکن بہت کم بات کرتی تھی… اکثر اس کی موجودگی میں بھی وہ نہ جانے کن خیالوں میں گم رہتی… حسن جب بھی اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا اچانک ہانیہ کی کمر میں شدید درد اٹھنے لگتا… حسن اس سب سے جھنجھلانے لگا تھا… کچھ کام سے فرصت ہی نہ ملتی تھی… اور کبھی قسمت سے فراغت نصیب ہوتی بھی تو ہانیہ کے پاس بیٹھنے, اس کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرنے کی خواہش کو دل میں ہی دبانا پڑتا… نہ جانے کس نہج پر جا رہا تھا ان کا یہ رشتہ…
وہ دن بہت خاص تھا غالباً ہانیہ کے لیے… تبھی تو مسکان اس کے لبوں سے جدا ہی نہ ہو رہی تھی… حسن بغور اس کی حرکتیں اور اس کے انداز سے جھلکتی سرشاری نوٹ کر رہا تھا… آج معمول سے تھوڑا ہٹ کر وہ تیار بھی ہوئ تھی… پچھلے تین دن سے ان کے درمیان بول چال بھی بند تھی… غلطی بھی ہانیہ کی تھی… لیکن اس بار اپنی غلطی ہونے کے باوجود ہانیہ نے نہ تو اس سے معذرت کا ایک لفظ تک کہنا گوارا کیا اور نہ ہی اسے خود بلانے کی ذحمت کی… آج ہانیہ کے یوں تیار ہونے پر حسن کا موڈ بھی کچھ خوشگوار ہوا کہ شاید اسے منانے کی غرض سے ہی یہ اہتمام کیا گیا ہے لیکن حسن کے تعریف کرنے پر نہ تو اس کے گالوں پر کوئ سرخی چھائ… نہ ہی چہرے پر شرم اور جھجھک کے کوئ آثار نظر آۓ… یہاں تک کہ حسن کے تعریف کرنے پر اس نے اپنی خوشی تک کا اظہار نہ کیا… وہی سرد مہری اس کے وجود کا حصہ بنی رہی جو آج کل اس کا خاصہ تھی…حسن جو اس خیال میں خوش ہو رہا تھا کہ شاید اس کی خاطر آج ہانیہ سجی سنوری ہے وہ الجھتا چلا گیا… ہانیہ کی اس خوشی کا تعلق کس چیز سے, یا کس بات سے تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا…
کھانا کھاتے ہوۓ بھی وہ بغور ہانیہ کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ کسی انجانی خوشی کے احساس سے دمک رہا تھا…
“خیریت ہے…؟؟ بڑی خوش دکھائ دے رہی ہو آج…” بالآخر حسن نے پوچھ ہی لیا… ہانیہ جو سر جھکاۓ کسی گہری سوچ میں ڈوبی تھی وہ چونکی…
“نن… نہیں تو… ” حسن کی بات پر ایک دم بوکھلا سی گئ تھی وہ… جیسے کوئ چوری پکڑی گئ ہو… حسن اس کے انداز پر چونکا… لیکن مزید کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا… یہی سوچ کر خاموش ہو گیا کہ شاید گھر بات کی ہو اس نے تبھی یوں سرشار سی ہے…
برتن سمیٹتے ہوۓ ہانیہ کی نگاہیں بار بار وال کلاک کی جانب اٹھ رہی تھیں… اس کی بے چینی اور اضطراب کو حسن نے واضح محسوس کیا تھا… لیکن وہ اس سے کچھ پوچھ بھی نہیں سکتا تھا… جانتا تھا وہ اسے کچھ بتاۓ گی ہی نہیں…
ساڑھے دس بجے کے قریب وہ کمرے میں آیا… آ کر فقط وقت گزاری کے لیے ٹی وی آن کیا اور ہانیہ کا انتظار کرنے لگا… گیارہ بجے کے قریب ہانیہ کمرے میں آئ…
“کب سے انتظار کر رہا ہوں یار… کہاں رہ گئ تھی تم…” حسن کی جھنجھلائ ہوئ سی آواز ابھری…
“مم…میں کچن سمیٹ رہی تھی… ” حسن کے انتظار کرنے کا مطلب سمجھتے ہوۓ وہ گڑبڑائ…
“اچھا… چلو ادھر آؤ…” حسن نے اپنے پہلو میں آنے کا اشارہ کیا… ہانیہ چند لمحے انگلیاں مروڑتی شش و پنج میں مبتلا وہیں کھڑی رہی… حسن کے دوبارہ ٹوکنے پر وہ بیڈ کی جانب بڑھنے لگی… اس کے قریب بیٹھ تو گئ تھی لیکن حسن کو نہ جانے کیوں وہ سہمی ہوئ سی لگی…
“ہانی… کیا ہوا ہے یار…؟؟ اتنا دور کیوں بھاگتی ہو مجھ سے… پچھلے کافی دنوں سے تمہارا رویہ بہت عجیب محسوس ہو رہا ہے مجھے… کوئ بات ہے دل میں تو کھل کر بیان کرو… ” اس کا ہاتھ تھام کر وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے تک رہا تھا…
“کک…کچھ بھی تو نہیں… مم… مجھے کیا ہونا ہے بھلا…” نگاہیں چراتی وہ اپنا ہاتھ بھی اس کی گرفت سے آزاد کروا گئ… اس پل اس کے وجود کا اضطراب حسن نے واضح محسوس کیا تھا…
“تو پھر اس گریز کی وجہ پوچھ سکتا ہوں…؟؟ جب بھی تمہارے نزدیک ہونے کی کوشش کرتا ہوں تبھی تم کوئ نہ کوئ بہانہ بنا دیتی ہو… آخر کوئ ریزن تو ہو گی اس سب کی… اس بی ہیوئیر کی…” اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوۓ سوال کیا تھا… جواب میں وہ لب کاٹتی خاموش ہو گئ… چند پل اس کی طرف سے جواب کا انتظار کرنے کے بعد حسن لب بھینچتا پیچھے ہو گیا… ہانیہ کا یہ سرد رویہ کبھی کبھی اسے شدید غصہ دلاتا تھا… اور ابھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس غصے کے عالم میں ہانیہ کو کوئ دل دکھانے والا جملہ کہہ جاۓ… تبھی خود پر قابو پاتا چادر تان کر لیٹ گیا… ہانیہ بجاۓ اسے منانے کے چند پل اس کی پشت تکے گئ اور پھر ٹی وی اور لائٹ بند کرتی خود بھی لیٹ گئ…
رات بارہ بجنے میں دس منٹ تھے جب وہ اٹھی… محتاط سی نگاہ برابر سوۓ حسن پر ڈالی… پھر چادر ہٹاتی اٹھ گئ… کچھ ہی دیر بعد وہ پرانی حویلی کی جانب جا رہی تھی… یوں لگ رہا تھا جیسے وہ نیند میں ہی چل رہی ہو… جیسے اس کے حواس سلامت نہ ہوں… اس کا دل و دماغ کسی انجانی قوت کے زیر اثر تھا… حویلی کے سامنے جا کر جب اس کے حواس بیدار ہوۓ تو وہ حیران رہ گئ…
وہ پرانی حویلی تو نہ تھی… یوں لگ رہا تھا جیسے چند دن پہلے ہی اس حویلی کو مکمل کیا گیا ہو… نیا رنگ و روغن… دیواروں کا خوبصورت پینٹ… اور حویلی کے چاروں طرف سجے برقی قمقمے… جو اس جگہ کو روشن کرتے انتہائ خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے…
وہ سرخوشی کے عالم میں قدم بڑھاتی داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئ… قدم اندر رکھتے ہی اس پر پھولوں کی برسات شروع ہو گئ… ہانیہ نے چمکتی نگاہوں سے اوپر کی جانب دیکھا… جہاں سے ہوا میں تیرتے پھول اس پر نچھاور ہو رہے تھے… تبھی ایک دم اسے اپنے ساتھ کسی کی موجودگی کا احساس ہوا… چونک کر سامنے دیکھا تو اس سے کچھ ہی فاصلے پر اشھب کھڑا تھا…
“جنم دن مبارک ہو ہانیہ…” سرگوشی نما آواز میں کہا گیا تھا… ہانیہ کے لب خوبصورت مسکان میں ڈھلے… اشھب نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا جسے چند پل کا توقف کرنے کے بعد ہانیہ نے تھام لیا…
“چلیں…؟؟” اجازت طلب کی گئ تھی… اور دوسری جانب سے سر اثبات میں ہلاتے ہوۓ بخوشی اجازت دے دی گئ…
اشھب کے کہنے پر ہانیہ نے آنکھیں بند کیں… اور جب آنکھیں کھولیں تو منظر بالکل بدلا ہوا تھا… سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا… جس کی لہریں آ کر ان کے قدموں کو چوم رہی تھیں… اوپر بہت سے رنگ برنگے غبارے اڑتے پھر رہے تھے جن سے نکلتی خوبصورت روشنیاں فضا کو خوابناک سا بنا رہی تھیں… لہروں کی قید سے اپنے قدموں کو آزاد کرواتی وہ اشھب کے سنگ گیلی ریت پر قدم جماتی آگے بڑھتی چلی گئ… کافی فاصلے پر لائٹنگ کر کے ایک دائرہ بنایا گیا تھا جس کے اندر ایک میز اور دو کرسیاں لگی تھیں… حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی قسم کا کوئ بلب, کوئ روشنی کا ماخذ وہاں موجود نہ تھا اس کے باوجود وہ ٹیبل روشن تھا.. اشھب نے کرسی گھسیٹ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا… ہانیہ کے بیٹھنے کے بعد وہ خود بیٹھا… پھر کچھ اشارہ کیا تو سامنے ٹیبل پر ایک بڑا اور خوبصورت کیک نظر آنے لگا… کیک کے اوپر لگی موم بیتیاں خود بخود جل اٹھیں…
“شروع کرو…” اشھب کے کہنے پر وہ اٹھی… صرف ایک پھونک ماری تھی کہ تمام موم بتیاں بجھ گئیں… اشھب کی خوبصورت آواز گونجنے لگی جو اسے برتھ ڈے وِش کر رہا تھا… عجیب بات تھی کہ شادی کے بعد اپنی پہلی سالگرہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ منانے کی بجاۓ ایک جن ذادے کے ساتھ منا رہی تھی… اور اسے کوئ پچھتاوا بھی نہ تھا… بلکہ مطمئین تھی وہ…
وہ رات اس کی ذندگی کی خوبصورت ترین رات تھی… اور یہ دن یادگار دن… اشھب کے ساتھ گزارے لمحات اس کے لیے انمول تھے… کہ اتنی اہمیت کا احساس کبھی حسن نے نہ دلایا تھا اسے… اور انسان کی خصلت ہے یہ کہ اس کا جھکاؤ ہمیشہ اسی کی جانب ہوتا ہے جو اس کی اہمیت کو تسلیم کرے… جو اس کی انفرادی حیثیت کو مانے…
صبح چار بجے کے قریب وہ گھر آئ تھی… اور آتے ہی لاؤنج میں حسن سے ٹکراؤ ہو گیا جو شعلہ بار نگاہوں سے اسے تک رہا تھا…
“کہاں سے آئ ہو تم…؟؟” قہر بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ وہ قدم قدم چلتا اس کی طرف بڑھنے لگا…
“وہ… مم… میں…” ہانیہ کے چہرے کا رنگ سفید پڑنے لگا… بولنے کی کوشش میں وہ ہکلا کر رہ گئ…
“کچھ پوچھ رہا ہوں میں تم سے… کہاں سے آ رہی ہو تم اس وقت…؟؟” انتہائ سخت لہجے میں کہتے ہوۓ اس کی کلائ کو اپنی گرفت میں جکڑا تھا… ہانیہ کے منہ سے سسکی برآمد ہوئ…
“حسن… میرا بازو…” وہ فقط اتنا ہی کہہ پائ…
“خاموش… بالکل خاموش…” اس کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا تھا حسن نے… وہ اوندھے منہ نیچے فرش پر گری… ہونٹوں کے کنارے سے خون بہنے لگا تھا…
“میری نظروں میں دھول جھونک کر, میری غیر موجودگی میں یہ سب کارنامے کرتی پھر رہی ہو تم… اور تو اور میرے ہوتے ہوۓ بھی کوئ ڈر, کوئ خوف نہیں رہا تمہارے دل میں…؟؟ یوں آدھی رات کو اٹھ کر کس سے ملنے گئ تھیں تم…؟؟ ذرا سی بھی حیا نہیں آئ تمہیں…؟؟ محبت کی شادی کی تھی نا مجھ سے تم نے…؟؟ کیسی محبت تھی تمہاری… جو اتنی جلدی مر بھی گئ… اگر کسی اور سے عشق لڑانے کی, یوں راتوں کو اس سے ملنے کی اتنی ہی چاہ ہو رہی تھی تو بتا دیا ہوتا مجھے… فارغ کر دیتا میں تمہیں… پھر جہاں چاہتی منہ کالا کرتی میری بلا سے… میں ہی پاگل تھا جو تمہارے گریز کو وقتی سمجھتا رہا… یہ سوچ ہی نہیں سکا کہ مجھے خود سے دور رکھنے کے پیچھے یہ وجہ تھی… میرا دل چاہ رہا ہے جان لے لوں تمہاری…” وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا… بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے جان سے مار دے… یہ خیال ہی جان لیوا تھا کہ اس کی بیوی اس کے نکاح میں ہوتے ہوۓ یوں آدھی رات کو کسی سے ملنے گئ ہے… اس کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی وہ جاگ گیا تھا… کمرے میں اسے موجود نہ پا کر وہ چونکا اور سارے گھر میں ڈھونڈنے کے باوجود ہانیہ نہ ملی تو وہ پریشان ہو اٹھا تھا… یہ چند گھنٹے اس نے جس پریشانی کے عالم میں گزارے یہ وہی جانتا تھا… اور پھر آج ہانیہ کی خصوصی تیاری… اس کا باہر سے آنا… پوچھنے پر اس کا بوکھلا جانا… ان سب چیزوں نے حسن کے شک کو مزید پختہ کر دیا… تبھی وہ برس پڑا تھا اس پر…
ہانیہ نیچے گری رو رہی تھی… حسن کا یہ روپ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے… تبھی وہ بے تحاشا خوفزدہ ہو گئ تھی… حسن بکتا جھکتا گھر سے ہی نکل گیا… ہانیہ اکیلی وہاں پڑی سسکتی رہی…
آفس ٹائم پر حسن چند منٹوں کے لیے گھر آیا… تیاری کرتا گاڑی کی چابی اٹھاتا وہ اسے بغیر دیکھے اور بغیر ناشتہ کیے لب بھینچے آفس کے لیے نکل گیا… ابھی پارکنگ میں پہنچا ہی تھا… گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگا تھا جب کسی انجانی طاقت کے زیر اثر گاڑی کا دروازہ زور سے بند ہوا اور درمیان میں حسن کا ہاتھ آ گیا… وہی ہاتھ جس سے اس نے ہانیہ کو تھپڑ مارا تھا…
“آہ…” وہ کراہ کر رہ گیا… تکلیف سے دہرے ہوتے ہوۓ دوسرے ہاتھ سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا… ہاتھ کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی.. دروازے کے دباؤ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا… پھر اچانک خود بخود دروازہ کھل گیا… حسن نے تیزی سے ہاتھ پیچھے کیا… جب ہتھیلی دیکھی تو وہاں سے جلد چھل سی گئ تھی… خون بھی بہہ رہا تھا… بریف کیس گاڑی میں پٹختا وہ اندر کی جانب بڑھا… ہاتھ سے خون بہتا فرش کو رنگین کر رہا تھا… ہانیہ جو واش بیسن کے سامنے کھڑی منہ پر چھینٹے مارتی سسکیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی آہٹ پر باہر نکلی…. سامنے حسن کو موجود پایا جو مختلف دراز کھنگال رہا تھا اور انہیں زور زور سے بند کر رہا تھا… ہانیہ کی نگاہ اس کے ہاتھ سے بہتے خون پر پڑی… نہ جانے کیوں دل میں کہیں تکلیف کا احساس جاگا تھا… وہ کچھ گھنٹے پہلے کی سب باتیں اور اپنی اذیت بھولتی تڑپ کر اس کی جانب بڑھی…
” یہ کیا ہوا آپ کو…؟؟” اس کے لہجے میں بھی تکلیف کا عنصر نمایاں تھا… حسن نے تلخ نگاہ اس کے وجود پر ڈالی…
“تمہیں ضرورت نہیں میری فکر کرنے کی…” بیگانگی سے بھرپور انداز میں کہا گیا تھا… فرسٹ ایڈ باکس مل چکا تھا اسے… بیڈ پر بیٹھتا وہ خود ہی ہاتھ پر بینڈیج کرنے لگا… ایک ہاتھ سے بینڈیج کرنا مشکل ثابت ہو رہا تھا…
“لائیں میں کر دیتی ہوں…” آنسو ضبط کرتے ہوۓ وہ اس کے سامنے بیٹھی… اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا…
“کہا نا… ضرورت نہیں تمہاری نوازشوں کی مجھے… دور ہی رہو اب مجھ سے تو بہتر ہے…” اس کے ہاتھ کو زور سے جھٹکتا وہ اپنے اور اس کے درمیان کے فاصلے کو بڑھا گیا… وہ خاموشی سے نم آنکھیں لیے اسے دیکھے گئ…
“حسن… کیا ہو گیا ہے آپ کو… کیوں اتنے بدگمان… ” وہ کمزور سی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی جب حسن نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروا دیا…
“بس کر دو… میرے سامنے اب زیادہ معصوم بننے کا ڈھونگ مت کرو… تمہاری اصلیت کیا ہے جان چکا ہوں میں…” سرد و سپاٹ لہجے میں کہا گیا تھا… ہانیہ لب کاٹتی چپ ہو گئ… جانتی تھی اس سے اس وقت کچھ کہنے سننے کا فائدہ ہی نہیں…
کچھ دیر بعد جیسے تیسے کر کے بینڈیج کرتا وہ پھر سے جا چکا تھا… کچھ دیر بعد گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائ دی… ہانیہ اٹھ کر باہر آئ تو حسن کی گاڑی گیٹ سے نکل رہی تھی… وہ بے بس نگاہوں سے گیٹ کو تکتی رہ گئ…
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...