نعیم صاحب رات ہونے کو آئی ہے بچی کا رو رو کے برا حال ہو گیا ہے آپ کال کریں نا عرفان بھائی کو” مسز نعیم کو عجیب وہم ستا رہے تھے
“کیا ہوگیا ہے آپکو کوئی بھی اپنے بچے کو ایسے بھول تھوڑی جاتا ہے آجائیں گے-” نعیم صاحب اپنی بیوی کو تسلی دے رہے تھے-
ان کی کوئی بیٹی نہیں تھی اسیلیے ان کو اس بچی سے بھی پیار تھا ہر آئے دن مسز نعیم فاطمہ کے پاس آکر اسے تھوڑی دیر کیلئے لے جاتی تھیں- ابھی وہ سوچوں میں ہی گوم تھیں کہ ﮈور بیل بجی-
نعیم صاحب دیکھیں بھائی، بھابھی ہونگے-
انکی بات صیح تھی بھائی،بھابھی ہی تھے پر انکی بس لاش تھی خود وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے-
مسز نعیم کے اوپر تو سکتہ طاری ہوگیا تھا
نعیم صاحب نے ہی ان کو ہوش دلایا تو وہ رونے لگیں اور اندر جا کر بچی کو لے آئیں تھیں-
ممی۔۔ممی منی رورہی ہے- 12 سالہ حسن اپنی ماں کو ہلا کر بلا رہا تھا-
مسز نعیم نے بچی کو ارسلان کو پکڑادیا جو کہ انکا بڑا بیٹا تھا اور ننھی بچی سے پیار بھی کرتا تھا-
نعیم صاحب عرفان اور فاطمہ کو دفن کر آئے تھے-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“داجی۔۔داجی اٹھیں نا مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔کھانا بنائیں” اس نے داجی کو جھنجوڑ ﮈالا تھا-
“رک جا پتر۔۔۔صبر نہیں ہوتا لڑکی” داجی پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں-
“داجی آپکو پتا ہے ٹیچر نے مجھے سٹار دیا بہت بڑا والا- وہ خوشی خوشی اپنے سارے کارنامے داجی کو سنا رہی تھی اور وہ سنتی گئیں- انکو اس سے بہت پیار تھا انکی کوئی اولاد نہیں تھی اور یہ بچی انکو پانچ سال پہلے ملی تھی جب وہ نعیم صاحب کے بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں تب انھوں نے اس بچی کو دیکھا تھا اور مسز نعیم جو کہ کینسر کی مریضہ تھیں انھوں نے داجی کو اپنے ساتھ بچی لے جانے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ انکو اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا- اسکے بعد سے وہ داجی کے ساتھ ان کے گاؤں میں رہتی تھی-
داجی۔۔جلدی کریں پھر میں نے کھیلنے جانا ہے- وہ چیخی تو داجی ماضی سے واپس حال میں آگئیں-
“یہ دیکھ میں نے اپنی پتری کی پسند کے آلو کے پراٹھے بنائے ہیں” داجی اپنے اور اسکے لیئے پلیٹ میں ﮈال کر لے آئیں تھیں-
بس داجی۔۔۔بہت کھالیا میں جارہی ہوں کھیلنے- وہ ہاتھ دھوتے ہوئے بولی-
اللہ حافظ داجی۔۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“اسلام علیکم داجی!! ارسلان اور حسن داجی کے پاس آئے تھے اور داجی حیران ہوگئیں تھیں-
“وعلیکم اسلام!! بیٹھو پترو آرام سے بیٹھو-”
“داجی میں حسن کو آپکے پاس اسلیے لایا ہوں کہ یہ آپ سے قرآن پڑھنا سیکھے اور نمازوں کا پابند بنے۔۔۔”
“ماشاءاللہ بیٹا۔۔اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے!! میں ضرور اپنے پتر کو پڑھاؤں گی۔۔”داجی خوش ہوگئیں تھیں
“میں روز ﮈرائیور کے ساتھ اسے بھیج دیا کروں گا اسی وقت ٹھیک ہے۔۔داجی؟؟
“ہاں بیٹا جب چاہے آجائے۔۔۔داجی گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں تھیں جہاں سے روئی روئی بچی اندر آئی تھی-
“داجی۔۔داجی- وہ بہت گندے بچے ہیں۔۔میکو مارتے ہیں!” حسن کو اب بھی وہ چھوٹی منی یاد تھی-
“منی۔۔بھائی دیکھیں منی مل گئی!۔” حسن بیتابی سے اپنے بھائی کو بول رہا تھا اور ارسلان خاموش بیٹھا تھا کیونکہ وہ حسن کا پیار اور محبت نہیں بھولا تھا جو اسنے منی کو دیا تھا-
“منی مجھے پہچانا!!” حسن اسکے پاس آکر اس سے پوچھ رہا تھا اور وہ نفی میں سر ہلا گئی-
“حسن۔۔یہ کیسے پہچانے گی تمہیں۔۔یہ اس وقت دو سال کی بچی تھی-” ارسلان حسن کو بتا رہا تھا اور اسے یاد آگیا کہ وہ تو چھوٹی سی تھی وہ کیسے اسے پہچان لیتی۔۔۔۔۔۔!!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
اس دن کے بعد منی روز اس لڑکے کو اپنے گھر آتے دیکھتی تھی آہستہ آہستہ دونوں کی دوستی بھی ہوگئی تھی۔۔حسن اب جلدی آجاتا تھا تاکہ اسکے ساتھ کھیل سکے اور روز اسکے لیئے چاکلیٹ آتی تھیں اب وہ چاکلیٹ کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ ایک دن حسن نہیں آیا اور نہ چاکلیٹ آئیں۔۔۔ساری رات رو رو کے جب صبح اٹھی تو بخار میں پھنک رہی تھی-
“میری پتری کو کیا ھوگیا ہے۔۔ داجی اسکے لیئے سوپ لے کر آئیں تھیں-
داجی حسن بھیا آج بھی نہیں آئیں گے کیا؟ وہ روتے ہوئے پوچھ رہی تھی-
آج آئے گا وہ میری گڑیا۔۔اگر ٹھیک نہیں ہوگی تو چاکلیٹ نہی ملے گی۔۔جلدی سے سوپ پیلو پھر تیار ہوجانا! وہ اسکا ماتھا چوم رہیں تھیں-
اسنے جلدی جلدی سوپ ختم کیا اور تیار ہوکر بیٹھ گئی- آخر کار 4 بج گئے اور حسن آگیا۔۔!
حسن بھیا میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔آپ کل نہیں آئے- آپکو پتہ میں سارا دن روتی رہی ہوں- وہ ایسے بتا رہی تھی جیسے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو-
“اچھا۔۔۔میری منی کی یہ رہیں ﮈھیر ساری چاکلیٹ۔۔۔وہ اسے پکڑاتے ہوئے بولا اور اسکے ہاتھ کی حدت سے ہی اسکو پتہ چل گیا کہ اسکو بہت تیز بخار ہے۔!
یار اسکو تو بہت تیز بخار ہے کیا کریں؟ حسن اب اپنے دوست سے پوچھ رہا تھا جو اسکے ساتھ ہی آیا تھا داجی سے ملنے۔۔!
اسکی داجی کہاں ہے؟حسن کا دوست اس سے پوچھ رہا تھا-
مجھے کیا پتہ۔۔میں خود تیرے ساتھ آیا ہوں-
وہ اسکو بتانے کے ساتھ ہی منی کی طرف مڑا۔۔۔منی تم کو پتہ ہے داجی کہاں ہیں؟
منی جو ریپر اتار رہی تھی چاکلیٹ کے اوپر سے اسکی بات پہ رک گئی
“ہاں وہ اندر نماز پڑھ رہی ہیں۔۔۔حسن بھیا ہم بھی پڑھ لیتے ہیں پھر کھیلیں گے۔! وہ واش بیسن کی طرف بھاگ گئی اور وضو کرنے لگی-
حسن کا دوست حیران رہ گیا کہ اتنی چھوٹی سی بچی کتنے اچھے طریقے سے وضو کر رہی تھی-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“داجی اسکو بہت تیز بخار ہورہا ہے- آپ اسے ﮈاکٹر کے پاس لے گئیں؟” حسن اپنے دوست کا تعارف کرواکے اب منی کے متعلق پوچھ رہا تھا
“نہیں پتر میری خود کی ٹانگیں ختم ہوگئی ہیں۔۔بچی کو لے کر کہاں کہاں جاؤں- میں نےاسے سوپ پلایا تھا ساتھ دوائی بھی دی تھی اب بہتر ہے۔۔
“نہیں داجی ابھی میں نے خود دیکھا اسکا ہاتھ اتنا گرم ہے۔۔۔ بخار سے پھنک رہا ہے۔۔آپ کہیں تو میں اسے ﮈاکٹر کے پاس لے جاؤں؟
“نہیں پتر۔۔تیرا دوست بھی ہے- کہاں لے لے کے پھرا گا اسکو۔۔۔۔”داجی دوست کی وجہ سے بول رہیں تھیں ورنہ وہ حسن کو اچھے سے جانتی تھیں-
“داجی آپ فکر نہ کریں- میرا دوست بھی پولیس آفیسر ہے- ہم منی کو باحفاظت واپس لائیں گے-”
آخر کار داجی کو اجازت دینی پڑی کیونکہ حسن مان ہی نہیں رہا تھا منی کو بخار میں چھوڑ کر جانے کیلیئے۔۔۔اور اب وہ دونوں کے ساتھ بیٹھی کلینک میں اپنے بلاوے کا انتظار کر رہی تھی-
“حسن بھیا۔۔ان بھیا کا نام مجھے یاد نہیں ہوتا-” منی اتنی معصوم شکل بنا کر بولی تھی کہ حسن کو ہنسی آگئی-
“کیوں نہیں یاد ہورہا منی۔۔۔انگلش نہیں آتی تم کو؟” اب کی بار حسن کا دوست ہی اس سے سوال کر رہا تھا اور حسن کی کھی کھی نہیں بند ہورہی تھی-
“نہیں بھیا۔۔وہ کیا ہوتی ہے؟” حسن کا دوست بھی ہنس رہا تھا جو ہنسنا بھول چکا تھا- حسن کیلئے یہ بات حیران کن تھی کہ جب سے وہ اس شخص سے ملا تھا کبھی اسے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آج وہ پہلی بار اسکی ہنسی دیکھ رہا تھا وہ بھی ایک چھوٹی سی بچی کی باتوں پر۔۔۔۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...