میری آنکھیں بھی کب میری آنکھیں ہوئیں
ندیوں کی طرح اس کا پانی کبھی
پتھروں سے الجھتا ہوا،سر پٹختا ہوا
اور کبھی جیسے خاموش سی جھیل ہو
پھر کبھی ان میں دریاؤں جیسا سکوں
اور کبھی چودھویں رات میں
جیسے کوئی سمندر ہمکتا ہوا
میری آنکھوں کے اِن پانیوں سے
نکل کر کوئی جل پری
کوئی ننھی سی، پیاری سی گڑیا
مِری سمت آئی
تو میں اپنی ننھی ہتھیلی پہ اُس کو اُٹھائے ہوئے
دوسرے ہاتھ سے اُس کو تھامے ہوئے
یونہی تکتا رہا
اس کے چہرے پہ معصومیت کی چمک
اور شرارت سے مہکا ہوا نُور تھا
میں اسے دیکھتے دیکھتے کھو گیا
(آج تک خود سے کھویا ہوا ہی تو ہوں)
اور پھر جانے کب
وہ مِری آنکھ کے پانیوں میں کہیں چھپ گئی
تب میں اپنے کنارے پہ ہی،
اپنے جنگل میں ہی
جوگ لے کے یوں بیٹھا
کہ ہر پل میں صدیاں گزرتی گئیں
کتنی صدیوں کے بعد ایک دن
پھر مری آنکھ کے پانیوں سے اچھلتی ہوئی
اور چھینٹے اڑاتی ہوئی وہ مرے پاس آئی
اس کے چہرے پہ معصومیت اور شرارت کا نور
اور بھی بڑھ گیا تھا، مگر میرا دل تو بجھا تھا
میں گہرے دکھوں اور اداسی کے سایوں میں
جوگی بنا یونہی بیٹھا رہا
تب بالآخر اُسی نے مجھے گدگداتے ہوئے
اپنے ننھے سے ہاتھوں سے تھاما تو ایسے لگا
میں جو صدیوں سے کھویا ہوا تھا
میں
خود کو پھر مل گیا ہوں
یہی خواب
بس اک یہی خواب ہے حاصلِ زندگی!