حیدر قریشی کااصل نام قریشی غلام حیدر ارشد ہے تاہم ادبی دنیا میں وہ ’’حیدر قریشی‘‘ کے قلمی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کا آبائی علاقہ خانپور (رحیم یار خان) ہے۔ آپ نے ۱۹۶۸ء میں میٹرک، ۱۹۷۰ء میں ایف اے، ۱۹۷۲ء میں بی اے اور ۱۹۷۵ء میں ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا۔ دورانِ تعلیم وہ ملازمت بھی کرتے رہے۔ ۱۹۹۲ء میں وہ پاکستان سے ہجرت کر کے جرمنی چلے گئے اور تاحال جرمنی کے ایک خوبصورت شہر ہیئرس ہائم میں مستقل سکونت پذیر ہیں۔
حیدر قریشی جتناعرصہ پاکستان میں رہے اُس دوران ادبی سطح پر اپنی ایک منفرد شناخت قائم کرچکے تھے۔ اس دور میں اُن کی ادبی تخلیقات ’’اوراق ‘‘ (لاہور) روزنامہ نوائے وقت(راولپنڈی) روزنامہ جنگ (راولپنڈی) اور امروز (ملتان) میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ جرمنی جانے کے بعد یہ تمام ادبی سرگرمیاں اپنے جوبن پر نظر آتی ہیں۔ایک ہمہ جہت ادیب ہونے کی حیثیت سے ادب کی مختلف اصناف مثلاً افسانہ، خاکہ، انشائیہ، سفر نامہ، غزل، نظم، ماہیا، یادنگاری اور تنقید وتحقیق میں معیاری تصانیف کا اضافہ کیا ہے۔
حیدر قریشی کی تخلیقی نثر میں افسانہ نگاری کو خاص مقام حاصل ہے۔ اُنھوں نے اب تک کل ۲۷افسانے تحریر کیے ہیں جو دو مجموعوں کی صورت میں طبع ہوچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’روشنی کی بشارت‘‘ تجدید اشاعت گھر ، اسلام آباد نے ۱۹۹۲ء میں شائع کیا جبکہ دوسرامجموعہ ’’قصے کہانیاں‘‘ الگ کتابی شکل میں تو سامنے نہیں آیا البتہ انٹرنیٹ پر موجود رہا جسے کچھ عرصہ گذر جانے کے بعد ’’افسانے‘‘ کے زیرِ عنوان بصورت کتاب شائع کردیا گیا تھا۔ ’’افسانے‘‘ کی اشاعت ۱۹۹۹ء میں معیار پبلی کیشنر، دہلی نے کی تھی ،ان کے اہم اور نمائندہ افسانوں کے تراجم ہندی اور انگریزی میں ہوچکے ہیں۔
اُنھوں نے جدید اور منفرد اُسلوب میں افسانے لکھے ہیں جن کا بیش تر مواد حقیقی اور معروضی دنیا سے اخذ کیا گیا ہے۔ اردگردکے روزمرہ مشاہدات وتجزیات کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے کے علاوہ علمی مسائل کو بھی اپنے فکر وفن میں خصوصی جگہ دی ہے۔ عالمی مسائل وعوارض کے تناظر میں تین افسانے لائقِ توجہ ہیں:
۱۔حوّا کی تلاش (مشمولہ:روشنی کی بشارت)
۲۔گلاب شہزادے کی کہانی (مشمولہ:روشنی کی بشارت)
۳۔ کاکروچ (مشمولہ: قصے کہانیاں)
یہ تینوں افسانے عالمی جنگوں کے حوالے سے لکھے گئے ہیں اور انسانوں کے مشترکہ مفادات ، تنازعات اور خود غرضانہ مقاصد پر سیر حاصل روشنی ڈالتے ہیں۔ حیدر قریشی کے فکری نظام میں اس نوع کے مسائل روپ بدل بدل کر ظاہر ہوتے ہیں اور قاری کے فکر ونظر کو متحرک کرتے ہیں۔ اِن افسانوں کا نقطۂ ماسکہ یہ ہے کہ عالمی جنگ چاہے دنیا کے کسی بھی حصے سے آغاز کرے اُس کے پس منظر میں مشرق اور مغرب دونوں کی سیاسی غلطیاں لازماً کارفرما ہوں گی۔
بہر حال اِن جنگ ناموں کا انجام رجائیت پر مبنی ہے اور حیدر قریشی مستقبل کے منظر نامے سے پُر اُمید نظر آتے ہیں۔یہ افسانے اجتماعی شعور کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں۔
حیدر قریشی کے ہاں موضوعات کا تنوع متاثر کرتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں حیات وکائنات کے اہم مظاہر مثلاً فلسفۂ تقدیر، رومانیت ،عشق ومحبت ، قومی شعور، اصلاح اور صوفیانہ تجربات کو کامیابی سے بیان کرتے ہیں ۔ پاک وہند کی تقسیم کے حوالے سے بھی اُن کے افسانے متاثرنظر آتے ہیں۔ ان المیوں سے دوچار لوگوں کا احوال پڑھنے والوں پر خاص کیفیت مرتب کرتا ہے، البتہ ایک افسانہ ’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ قدرے مختلف موضوع پر مشتمل ہے اس میں اُن لوگوں کا تذکرہ ہے جو جھوٹ سچ بول کر جرمنی حکومت کو محض اس لیے دھوکا دیتے ہیں کہ اُن کو جرمنی میں مستقل سکونت کا موقع مل جائے۔
حیدر قریشی نے جہاں فکری عناصر کو فکشنی پیرائے میں بیان کیا وہاں فنی اور اُسلوبیاتی نزاکتوں کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ اِن کے پیش کردہ کردار نامیاتی وحدت کا عمدہ نمونہ بن کر اپنے بھرپور وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ پلاٹ کی بندش کسی حد تک پیچیدگی کی طرف مائل ہے لیکن حسبِ ضرورت سادہ پلاٹ کا برتاؤ چندجگہوں پر ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔
زبان وبیان کی صفات جگہ جگہ پر روپ بدلتی رہتی ہیں۔ شاعرانہ اندازِ بیان کے متوازی روایتی سنجیدہ اظہاریہ بھی موجود ہے۔ کہیں کہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنی بات منوانے کے لیے تمام حدیں پار کرسکتے ہیں، ایسے نازک مقام پر وہ تاریخی حکایات اور اقوالِ زریں کا استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اِن عناصر کی موجودگی افسانے کے بعض مقامات ضرورت سے زیادہ سنجیدہ بناتی ہے۔
حقیقت نگاری کا فن کارانہ اظہار اُن کے ادبی مقاصد کا حصہ ہے اور اس کے حصول کی خاطر وہ علامت اور خیال افروزی کا سہارا لیتے ہیں۔ اخفاوتحیر کا یہ عمل افسانے کی مجموعی فضا بہتر بناتا ہے۔ ڈرامائیت اِن کے افسانوں کا اہم عنصر ہے۔جس کے باعث افسانوں کے ظاہری اورباطنی تحریکات نئی توانائی حاصل کرتی ہیں۔ حیدرقریشی کے اُسلوب کا ایک نمایاں وصف ایجاز واختصار ہے۔ جو اُن کے موضوعات میں آفاقی تاثر پیدا کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِن کے تمام افسانے سماجی فلاح وبہبود اور اجتماعی مقاصد کا بلیغ اشاریہ ہیں۔
حیدر قریشی کی تخلیقی نثر پر جب بات ہوگی تو اُن کی خاکہ نگاری کا ذکر لازماً آئے گا۔خاکہ نگاری کی صنف پر اُن کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘ ادبی حلقوں میں مقبول ہے۔ یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل یہ، حصہ اول میں اہل خانہ مثلاً والد،والدہ ، دادا، نانا، تایا ، ماموں اور بہن پر یادگار خاکے قلم بند کیے ہیں جبکہ دوسرے حصے میں ادبی احباب جیسا کہ میرزاادیب ، فیض احمدفیض، ڈاکٹر وزیر آغا، اکبر حمیدی اور خانپور کے قریشی دوستوں کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ ’’میری محبتیں‘‘ کے تقریباً تمام خاکے ماضی پرستی کی کیفیت میں ڈوب کر لکھے گئے ہیں۔ حیدر قریشی جرمنی جانے کے بعد اپنے قریبی رشتہ داروں کی شدید کمی محسوس کررہے تھے اور اِن خاکوں کے ذریعے یاد ماضی کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی کاوش نظر آتی ہے۔ خاکہ نگار کو انسانی نفسیات سے گہری دلچسپی ہے اسی لیے جگہ جگہ گہرے شخصی تجزیات نظر آتے ہیں۔ خاکہ چاہے گھر کے کسی قریبی فرد کا ہو یا دوست کا اِن دونوں میں شخصیت کی باطنی اور فطری خوبیوں اور خامیوں کا بھرپور جائزہ ملتا ہے۔ ہر شخصیت کے حوالے سے ایسے ایسے نفسیاتی نکتے بیان کردیئے گئے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو اُس شخصیت کے قریب محسوس کرتا ہے۔
ان خاکوں میں کئی مقامات پر مافوق الفطرت عناصر چھائے نظر آتے ہیں ، بہت ممکن ہے کہ قاری اُن کو شک کی نگاہ سے دیکھے اور یقین نہ کرے لیکن حیدر قریشی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ دل کی بات پر عمل کرتے ہوئے ہر بات بے تکلف لکھ دیتے ہیں۔طنز ومزاح کا برمحل استعمال ان خاکوں کی دل چسپی بڑھاتا ہے۔ وہ طنز مزاح کے تمام حربے اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے برتنے کے قائل ہیں ان کے مزاج میں شائستگی اور جمالیاتی اُسلوب کے گہرے رنگ موجود ہیں۔حیدر قریشی نے جس طرح افسانوں میں شاعرانہ اُسلوب کو برتا ہے بالکل وہی طریقہ خاکوں میں آزماتے نظرآتے ہیں۔ خاکوں میں یہ شعری وسائل لطف پیدا کرتے ہیں اور زیرِمطالعہ شخصیت کی تفہیم میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ شعری زبان وبیان ہی کا کرشمہ ہے کہ وہ اپنے ہر خاکے کا آغاز شعر سے کرتے ہیں۔ یہ شعر بظاہر دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن خاکے میں پیش کی جانے والی شخصیت کے کئی پوشیدہ پرتیں کھول دیتا ہے۔ یہ تمام اشعار حیدر قریشی کے طبع زاد ہیں اور شخصیت کے ظاہر وباطن کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ شعر کی زبان سے کچھ ایسی اَن کہی باتیں کہہ دی گئی ہیں جن کا نثری اظہار شاید ممکن نہ تھا۔ یہ شعر ایک ایسا ذریعہ ہے جسے سہارا بنا کر خاکے میں موجود شخصیت کے باطن میں جھانکا جاسکتا ہے۔
حیدرقریشی نے سوانحی ادب کی طرف توجہ دی اور اس ضمن میں یادنگاری کے توسط سے اپنی زندگی کی تلخ وشیریں یادیں محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یاد نگاری کا تمام ذخیرہ ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کے زیرِ عنوان طبع ہوا اور جلد ہی ادبی حلقوں میں مقبول ہوگیا۔ یاد نگاری کی صنف اُردو ادب میں نئی ہے تاہم انگریزی اور دیگر زبانوں میں اس کا چلن عام ہے۔ یہ صنف سوانح عمری، خودنوشت ، خاکہ نگاری ، رپورتاژ اور سوانحی مضمون سے یکسرجداگانہ مزاج رکھتی ہے۔ یہ خالصتاً شخصی اور نجی واقعات پر مشتمل بیانیہ ہوتا ہے جو زمانی ترتیب یا شعور کی رو کے زیرِ اثر لکھا جاسکتا ہے۔ اس کا بڑا مقصد اُن یادوں کو سمیٹنا ہے جو بالعموم فراموش کردی جاتی ہیں۔ انگریزی میں یادنگاری کے لیے “Reminiscence“کی اصطلاح برتی جاتی ہے۔
اُردو ادب میں حیدر قریشی نے اس صنف کو اپنی تمام تر تکنیکی خوب صورتی کے ساتھ برتا ہے۔ اُن کی کتاب ’’کٹھی میٹھی یادیں‘‘اُن دوستوں ، عزیزوں ، شناساؤں اور تعلق دارں کے واقعات پر مبنی ہے جن کا ذکر خاکوں میں نہیں آسکا تھا یا اگر ذکر آیا بھی تو اُن کے حوالے سے کئی باتیں ہونے سے رہ گئی تھیں۔ اِس کمی کو پورا کرنے کی خاطر یادنگاری کا قرینہ برتا گیا ہے۔ یہ کتاب بظاہر قلم برداشتہ لکھی گئی ہے لیکن واقعات کا چناؤ اور اُن کی تفہیم وترسیل کو ہر ممکن طریقے سے پُر کشش بنایا گیا ہے۔ کرداروں کی تحلیلِ نفسی کے ساتھ اپنی زندگی کے اہم اور غیر اہم واقعات کو خاص معنویت اور مقصدیت کے تحت ابھارا گیا ہے۔ اس کتاب میں افسانوی رنگ نمایاں ہے اور انشائی اُسلوب میں خاکہ نگاری کے نقوش بھی جلوہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔حیدر قریشی کو روحانیت سے جو خاص لگاؤ ہے اُسے افسانوں میں بآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اس روحانیت کے مزید واقعات یادنگاری کے پیرائے میں بیان کر کے قاری کے شوق کومہمیز لگائی گئی ہے۔
حیدر قریشی کی ادبی زندگی بڑی ہنگامہ خیز رہی ہے اس پہلو کو اگر قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو وہ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ ہی ہے۔ یہاں اُن کی ادبی کائنات چمکتی دمکتی نظر آتی ہے۔ پاک وہند کے علاوہ وہ ادیب جو دیگر مغربی ممالک میں آباد ہیں اور حیدر قریشی اُن سے مل چکے ہیں۔ ان کا حال جاننے کے لیے اس کتاب سے رجوع ضروری ہے۔ قریبی احباب کا ذکر بااندازِ دگر آیا ہے جو پڑھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔ حیدر قریشی نے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ یادنگاری کے ضمن میں جو کچھ لکھا گیا اُس کا تعلق سچ کے ساتھ ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو اُن پر بیتا ہے، دیکھا ہے یا سناہے۔ وہ اپنے اس انکشافی سچ کو تخلیق کار کی سوغات قرار دیتے ہیں۔
اُردو ادب میں یادنگاری کی یہ کتاب انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ حیدر قریشی نے اس صنف کے حوالے سے بانی یا موجد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن اُن کا شمار ایسے اولین بنیادگذاروں میں لازماً ہوگا جنھوں نے شعوری سطح پر اس صنف کو برتا ہے۔ اُن سے قبل کسی اور کتاب کا حوالہ نظر نہیں آتا جس میں یادنگاری کی ہیئت میں کاروبارِ زیست محفوظ کرنے کی کاوش کی گئی ہو۔ یہ کتاب مستقبل میں کئی نئے مباحث پیدا کرے گی۔
حیدرقریشی نے انشائیہ نگاری میں بھی اپنی قابلیت اور تخلیقی جوہر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے کم انشائیے لکھے لیکن اس کے باوجود اُن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔دس انشائیوں پر مشتمل مجموعہ ’’فاصلے قربتیں‘‘ الگ کتابی صورت میں شائع تو نہیں ہوا تاہم اُن کے کلیات ’’ عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘میں شامل ہے۔ مستقبل قریب میں یہ مجموعہ الگ کتاب کے طور پر دستیاب ہو گا، ابھی طباعت کے مراحل سے گذر رہا ہے۔
حیدرقریشی کے انشائیوں کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ہر انشائیے کا آغاز ہر ایک شعر سے کرتے ہیں۔ یہ شعر انشائیے کے مرکزی دھارے سے کچھ اس طرح جڑا ہوتا ہے کہ جیسے اُسی شعر کو پھیلا کر انشائیہ بنا دیا گیا ہے یا اپنے خیالات کو سمیٹ کر شعر کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ بہر حال انشائیے کی قرأت مکمل کرلینے کے بعد قاری جب دوبارہ اُس شعر کو پڑھتا ہے تو ایک نیاجہانِ معنی نئے نئے حقائق منکشف کرتا دکھاتی دیتا ہے۔
انشائیے کا فن اُسلوبیاتی سطح پر بڑے وسیع امکانات کا حامل ہے اور ہر تخلیق کار اپنی اپنی اُفتاد طبع کے مطابق انشائیے کو مختلف سانچوں میں ڈھال سکتا ہے۔ حیدر قریشی کے ہاں اشیاء اور رویوں کو فلسفیانے کا عام رجحان ملتا ہے۔ یہی وصف اُن کے انشائیوں میں موجزن ہے۔ انشائیے کے تکنیکی امور کو ذہن میں تازہ رکھتے ہوئے فکریاتی مسائل سے تعرض کیا ہے اور جہاں کہیں اُنھیں محسوس ہوا کہ تفکر کا آہنگ ذرا بلند ہوگیا ہے تو وہ فوراً اُسے دھیما کرلیتے ہیں تاکہ انشائی لطافتیں اپنی جگہ برقرار رہیں۔
فکری موضوعات پر بات کرتے ہوئے وہ ہرقسم کے ابہام اور پیچیدگی سے دامن بچاتے ہیں۔ گہری سنجیدگی اور تلخی کو امکان بھر کم رکھتے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں ان کی پرچھائیاں نظر آجاتی ہیں۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکریات کا ایک پورا نظام فعال صورت میں موجود ہے۔ ان فکری منطقوں کی جڑیں سماجیات میں پیوست ہیں۔ جن کا کام سماجی اقدار کے کھوکھلے پن کو منکشف کرنا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں کذب وافترا اور منافقت کے رویے عام ہے۔ ایک سچا تخلیق کار بسا اوقات اِن مسائل کو اپنی تحریروں کا حصہ بنا لیتا ہے۔ تاکہ اجتماعی شعور کی تربیت کی جائے، حیدر قریشی نے انشائیوں کے ذریعے یہ فریضہ انجام دینے کی سعی کی ہے۔ اگرچہ انشائیہ نگاری کا یہ منصب نہیں ہوتا تاہم حیدر قریشی نے کمال احتیاط سے اپنے دل کی بات انشائی اُسلوب میں کہہ ڈالی ہے۔
حیدر قریشی کے انشائیوں میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ زیرِ بحث مسئلہ کے ممکنہ پہلوؤں پر بات کرنے کے دوران فکری اور منطقی اصول بھی اخذ کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اخذ کردہ اُصول نہ صرف سیاق وسباق کے حوالے سے دل چسپی بڑھاتے ہیں بلکہ اِن سے ہٹ کر بھی پڑھنے والوں کو متاثر کرتے تھے یہ اُصول بڑی حد تک خود مکتفی ہیں اور اِن کی حیثیت اقوال زریں جیسی بن جاتی ہے۔
حیدر قریشی کی تخلیقات پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ سائنسی علوم خصوصاً حیاتیات ، نفسیات اور طبیعیات میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ یہ اُن کے نظام فکر کی خاصیت ہے کہ شعری اور نثری تخلیقات میں یہی سائنسی علوم کسی نہ کسی حوالے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ’’قربتیں اور فاصلے‘‘ میں موجود کچھ انشائیے طبیعیات کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ خالص تخلیقی اصناف میں سائنسی علوم کا داخلہ ممنوع تو نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تخلیقی لوازم اُس کی وجہ سے متاثر نہ ہوں۔ حیدرقریشی نے اگرچہ اپنی جانب سے پوری پوری احتیاط برتی ہے، پھر بھی بعض مقامات پر انشائیہ غیر ضروری سائنسی بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔
حیدر قریشی کے انشائیوں میں روز مرہ زندگی کے واقعات کے بکھرے نظر آتے ہیں بلکہ اُن کی ادبی زندگی کے تلخ وشیریں واقعات کا عکس بھی ملتا ہے۔ اُن کی انشائیوں میں ادبی گروہ بندی اور خود ساختہ ادیبوں پر گہرے طنز ملتے ہیں۔ یہ تلخی اور طنزیہ اُسلوب اتنا واضح اور براہِ راست ہے کہ انشائیہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ طنز، مزاح اور تلخی کی لہریں انشائی اُسلوب میں اُس وقت قابل قبول ہوں گی جب اِن کی مقدار اور شدت کو ہزار پردوں میں لپیٹ کر پیش کیا گیا ہو۔انشائیے کا فن بہت نازک ہے اگر ذرا سی آنچ تیز ہوجائے تو اچھا بھلا انشائیہ مضمون بن کر رہ جاتا ہے۔ انشائی حدود سے تجاوز کرنا اس صنف کے ساتھ زیادتی ہے۔ حیدر قریشی نے محض چند ایک انشائیوں میں اپنے قلم کو زیادہ آزادی دی ہے وگرنہ زیادہ تر اُن کے ہاں توازن کی کیفیت ملتی ہے۔
انشائیہ کی صنف میں شخصی زاویہ ء نظر اور داخلیت کے جوہر دکھانے کی خاصی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ حیدرقریشی نے اس صنف سے بھرپور فائدہ اُٹھایا ہے۔ اور اپنے انشائیوں میں مشاہدۂ باطن کے جوہر دکھائے ہیں اُن کے ہاں فرد کی داخلی اور نفسی زندگی کی خاص اہمیت ہے جسے وہ اپنے تخلیقی وجدان کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باطن میں چھپے راز اور رویے انشائی اُسلوب میں منکشف کرنا اُن کا خاص کمال ہے۔ حیدر قریشی کے انشائیے نفسیاتی اور روحانی حوالوں سے اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہیں۔
حیدر قریشی کی تخلیقی جہت کا اظہار سفر نامہ نگاری کے ذریعے بھی ہوا ہے۔اُنھوں نے ۱۹۹۶ء میں عمرے اور ۲۰۰۳ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ یہ دونوں اسفار کتابی صورت میں بعنوان ’’سوئے حجاز‘‘ شائع ہوئے تھے۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس مذہبی سفر کے دوران فکری اور روحانی سطح پر مزید کئی سفر مکمل کیے ہیں۔ قاری کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حیدر قریشی نے اس سفر نامے میں نہایت عمدگی کے ساتھ اپنی باطنی تبدیلیوں ک کا اظہارکیا ہے۔ ’’سوئے حجاز‘‘میں ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے غیر شعوری طور پر کہانی پن کا عنصر اس میں شامل کردیا ہے۔ جس کے باعث کتاب کی دل چسپی بڑھ گئی ہے۔
حیدرقریشی نے جس طرح اپنی تخلیقی نثر کے دیگر مظاہر میں طبع زاد اشعاردرج کیے ہیں بالکل اُسی انداز کو ’’سوئے حجاز‘‘ میں بھی قائم رکھاہے، البتہ کچھ جگہوں پر دوسرے شاعروں کا کلام بھی نظر آجاتا ہے۔ اِن تمام اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیدر قریشی بہت سی ایسی باتیں جو نثر میں لکھنے کے خواہش مند تھے اُنھیں بوجوہ شعری پیرائے میں لکھ دیا ہے۔ خوفِ فسادِ خلق کے باعث شعری اظہاریے کو ترجیح دی ہے۔
’’سوئے حجاز‘‘میں فکری عناصر کی شمولیت متاثر کن ہے۔ مناسکِ عمرہ یا حج کے دوران وہ ارد گردکی تمام اشیا پر گہری نظر رکھتے ہیں اور روزمرہ کی عام اشیا کو تاریخی ، سماجی اور ثقافتی حوالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ احرام کا تجزیہ کرتے ہیں تو اُنھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سفید کپڑے کا یہ اَن سلا پارچہ مکمل برہنگی اور مکمل لباس کے درمیان کڑی ہے، ساتھ ہی وہ یہ اُصول بھی اخذ کر لیتے ہیں کہ جہاں دینِ اسلام نے برہنگی کی ممانعت کی وہاں مکمل لباس پہننے سے بھی روک دیا ہے اور انسانوں کے لیے لباس کے درمیانی صورت پیدا کر کے دکھا دی ہے۔ یہ سوچنے کا ایک منفرد انداز ہے۔
حیدرقریشی نے ’’سوئے حجاز‘‘ میں تصورِ توحید پر عالمانہ اور فاضلانہ مباحث اٹھائے ہیں اور شرک کی حدود واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ الٰہیاتی مسائل سے اُن کی گہری دل چسپی کا اظہار سفر نامے میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ معروف انشائیہ نگار اور نقاد اکبر حمیدی نے ’’سوئے حجاز‘‘کو روحانی سفرنامہ قرار دیا ہے۔ یہ سفرنامہ تاریخی اور مذہبی حوالوں سے بھی ہماری معلومات میں خاصا اضافہ کرتا ہے۔
مکہ اور مدینہ منورہ کے تاریحی اور مقدس مقامات پر تفصیلاً بات کی ہے۔ وہ اس بات کاافسوس بھی کرتے ہیں کہ سعودی حکومت نے اتنی اہم جگہوں کو ضائع کر کے اُن پر نئی تعمیرات کرالی ہیں۔ ’’سوئے حجاز‘‘ کا پورا ایک باب ’’مکہ کے تاریخی اور مقدس مقامات‘‘ عہدِ رسالتؐ کی یادگاروں پر لکھا گیا ہے۔
اس سفر نامے میں تصوف کے حوالے سے بھی گراں قدر نکات پیش کئے گئے ہیں۔ سوئے حجاز میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ تصوف میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں اور صوفیائے کرام اور مقبروں سے بھی اُن کو خاص قلبی لگاؤ ہے۔ یہ تصوف برائے شعرگفتن یا خانقایت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا بلکہ اس میں اجتماعیت کا گہرا شعور نظرآتا ہے جس میں ایک ایسی حرکی قوت پائی جاتی ہے جو انسان کو بلند مقام پر فائز دیکھنے کی خواہش مند ہے۔
یہ سفرنامہ اسی موضوع کے دوسروں سفر ناموں سے اس طرح منفرد ہوجاتا ہے کہ عموماً اس موضوع پر لکھے گئے سفرناموں میں یکسانیت بھر مار ہوتی ہے اور قاری محض چند صفحے پڑھ کر اُکتاہت کا شکار ہوجاتا ہے۔’’سوئے حجاز‘‘ میں موضوع اور اُسلوب کی رنگا رنگی نے محفل آرائی کا سماں پیدا کردیا ہے۔ ہر قسم کا قاری حسب ضرورت اس محفل سے مستفید ہوسکتا ہے۔ اس سفرنامے میں مذہب بیزار لوگوں پر خصوصاً توجہ صرف کی گئی ہے۔ اُن کی ذہنی حالت اور تشکیک پسندی کو نئے زاویے سے سمجھنے کی کوشش ملتی ہے۔ ایسے ملحد اور بے دین لوگوں کے نظریات کی نفی عقلیت ہی کی سطح پر کردی گئی ہے۔ حیدر قریشی کے نزدیک لادینیت محض فیشن کے طور پر اُبھری تھی اور لوگوں نے خود کو دانشور کہلانے کے شوق میں بے دینی کو خود پر طاری کرلیا تھا۔ اس نوع کی موضوعاتی وسعت اور فلسفیانہ تفکر نے ’’سوئے حجاز‘‘ کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔
’’سوئے حجاز‘‘کا موضوعاتی کینوس خاصا وسیع ہے اس میں ایک عہد کی تاریخ بند ہے اورجن مسائل پر بات کی گئی ہے اُن کا براہِ راست تعلق تاریخ، ثقافت، عمرانیات ، نفسیات، الٰہیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے ساتھ ہے۔ وہ جس حوالے سے بات کرتے ہیں اُس میں سنجیدگی اور گہرائی پائی جاتی ہے جذباتیت کا اُن کے ہاں گذر نہیں ہے۔ اپنی بات کو نرم آہنگ اُسلوب میں کہنے کا فن جانتے ہیں اور اُسلوب نگارش بھی ایسا اپناتے ہیں کہ دل کی بات دل پر اثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہے۔ دین سے سچی نسبت اور حضور اکرمؐ سے گہرا قلبی لگاؤ اُن کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ یہی عقیدت اور محبت ’’سوئے حجاز‘میں رنگ بدل بدل کر ظاہر ہوتی ہے۔ حیدرقریشی نے عمرے کا سفر جتنی سہولت اور خوشی کی حالت میں طے کیا تھا اور اپنے قیام کے دوران جن لطافتوں سے فیض یاب ہوئے تھے اُس کا ذکر کھل کر کیا ہے اور پڑھنے والا بھی اُس خوش گوار تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس حج کا سفرنامہ ذرا بدلا ہوا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ اب ہجوم بڑا ہے، ہر جگہ رش کا عالم، ایسی حالت میں جب ارد گرد کا ماحول دیکھا تو اُس میں انتشار اور بدنظمی کے گہرے بادل منڈلاتے نظر آئے۔ بدنظمی کا بڑا واقعہ اُس وقت پیش جب وہ جدہ ایئر پورٹ پر اُترے اور اُن کا بیش تر سامان افراتفری کے عالم میں گُم ہوگیا ،صرف کندھے کا وہ بیگ سلامت رہا جس میں نقدی اور سفری کاغذات پڑے ہوئے تھے۔ یہ سامان اُن کو نہ مل سکا بہر حال سفر کے دیگر مراحل طے کیے اور ہوٹل پہنچ گئے۔
حیدر قریشی کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے ہجوم کوحکومت نے کتنے بہترین طریقوں سے منظم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے مقامات پر ہنگامے کا سامان پیدا ہوگیا تھا۔ حج کے مقدس موقع پر جہاں اور مسائل تشویش ناک تھے وہاں گداگری کے باعث بھی خاصی پریشانی تھی۔ یہ گداگر حرم شریف کے اندر بھی موجود تھے اور جدید طرز اپنا کر پیسے بٹورنے میں لگے ہوئے تھے۔ موبائل فون کی وجہ سے تمام فقیروں کا مضبوط نیٹ ورک بنا ہوا تھا اور جہاں کہیں لوگ زیادہ پیسے تقسیم کرتے موبائل کے ذریعے دوسروں دوستوں کو اُس جگہ بلوا لیتے تاکہ اُن کی بھی چاندی ہوجائے۔
یہ بظاہر وہ واقعات ہیں جو روزمرہ کے معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور عموماً سفرنامہ نگار انھیں نظرانداز بھی کر جاتا ہے، لیکن حیدرقریشی نے یہ سب کچھ ایک بچے کی نظر سے دیکھا ہے جس کے لیے ہر منظر ، ہر واقعہ، ہر ہنگامہ ، ہر حرکت اور ہر رویہ نیا ہے۔’’سوئے حجاز‘‘کی مطالعہ پذیری کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ یہاں پڑھنے والوں کو اپنی پسند کے مطابق ہر شے مل جاتی ہے۔
حیدر قریشی نے ’’سوئے حجاز‘‘کے آخری باب میں کچھ تجاویز پیش کی ہیں جن کو اگر سنجیدگی سے سمجھا جائے تو اُن تمام بدانتظامیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے جو آئے دن لوگوں کو پیش آتی ہیں۔ اِن تجاویز کا تعلق عملی مسائل کے ساتھ ہے۔ یہ سفرنامہ اپنے موضوع ،فکر، اُسلوب، وژن اور افادیت کے اعتبار سے دل چسپی سے پڑھا جاتا رہے گا۔
حیدرقریشی کا شعری سرمایہ لایق توجہ ہے۔ اُ نھوں نے غزل، ماہیا اور آزاد نظم کے حوالے سے پانچ شعری مجموعے تخلیق کیے ہیں جو خانپور، لاہور اور اسلام آباد سے شائع ہوئے، انہی کتابوں پر مشتمل کلیات’’غزلیں، نظمیں، ماہیے‘‘ سرور اکادمی ، جرمنی نے ۱۹۹۸ء میں شائع کردی تھی یہ کلیات آنے کے بعد بھی شعروشاعری کا سلسلہ چلتا رہا لہٰذا اس سرمائے کو ایک اور نئے کلیات ’’قفس کے اندر‘‘شامل کردیا گیا ہے، یہ کلیات عکاس انٹرنیشنل اور نایاب پبلی کیشنز خانپور کے مشترکہ تعاون سے ۲۰۱۳ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ حیدر قریشی کا کلیات ِنظم و نثر ’’عمرلاحاصل کا حاصل‘‘ میں بھی پانچ شعری مجموعے شامل ہیں۔
حیدر قریشی نے جدید غزل کہی ہے جو عصریت کے اہم تقاضوں سے عہدہ برآ ہوتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی غزل میں تخیل کی پھلجھڑی نہیں چھوڑتے بلکہ حیات وکائنات کے جیتے جاگتے مسائل کو شعری زبان اور شعری اُسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ غزلیں سماجیات سے خاصا مواد حاصل کرتی ہیں اور اردگرد موجود قدروں کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا شعور عطا کرتی ہیں۔
حقائق کی تصویر کشی کرنا اور داخلی وخارجی دنیاؤں کی سیر کرانا اُن کی شاعری کا خاصہ ہے۔ اُن کی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ سماجی پہلوؤں کے ممکنہ گوشوں کو اپنے شعروں میں محفوظ کردیں۔ شعور کی پختگی نے اُن کے قلم کا رُخ ادب برائے زندگی کی طرف موڑ دیا ہے، اس عملی کے دوران جہاں زندگی کے صحت من رجحانات شاعری میں اپنی جگہ بناتے نظر آتے ہیں وہاں تلخ مسائل کی جھلکیاں بھی تخلیقی سفر کا حصہ بن جاتی ہیں۔زندگی کا حقیقت پسندانہ طرزعمل اُن کی شعری فضا کا ناگزیر جزہے۔ سماجی اقدار کی شکست وریخت اور بے اطمینانی جس طرح ہرحسّاس شخص کو پریشان کرتی ہے اس طرح حیدرقریشی جیسا زودرنج شاعراِن مسائل پر زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ سماجیات کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ اُن کا محبوب مشغلہ ہے اور پھر اِن تمام ثمرات کو شاعری کا حصہ بنالینا اُن کا کمالِ فن بھی ہے۔ اُن کی باریک بین نظر قطرے میں دجلہ دیکھنے اور دکھانے پر قادر ہے۔
حیدر قریشی نے جذبۂ محبت اور اس کے متعلقات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ اِن موضوعات پر ہونے والی شاعری اثر آفرینی اور دل نشینی کی خصوصیات سے مزین ہے۔ اُن کی غزل میں غم جہاں اور غم دوراں کے ذائقے منفردانداز میں قاری کے دل ودماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ رومانوی عناصر، رجائیت ، تصوف، ذاتی، تجربات ومشاہدات ، دنیا کی بے ثباتی، جمالیاتی رنگ وآہنگ اور فنی لوازم کا سلجھا ہوا استعمال متاثر کن ہے۔ لفظی تکلفات اور فارسیت کا چلن اُن کی غزل میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اُن کاطریق یہی رہا ہے کہ احساس کی ترجمانی کا حق سیدھے سبھاؤ ادا ہوجائے، یہی سادہ اُسلوب روح کی ترجمانی کا فریضہ پورا کردیتا ہے۔
حیدر قریشی نے اپنی غزل کو حسین ولطیف جذبات کی ترسیل کا مضبوط زینہ بنایا ہے۔ اُن کا رنگِ سخن معاصر غزل گو شعرا میں خاص امتیاز رکھتا ہے ۔اُنھوں نے اپنی شاعری کو مقدور بھر آرائشی خود فریبی سے پاک رکھا ہے۔ غزل کی ایمائیت ، اشاریت اور رمزیت کا خاص اہتمام ملتا ہے۔اُن کی غزل کا ہر شعر جذبات کی صداقت، سوز گدازاور جذب وسرور کا دل کش بیانیہ ہے۔
حیدرقریشی کی غزل میں کسی خیالی یا تخیلی محبوب کی تلاش بیکار ہے۔ اُن کا محبوب اس مادی دنیا کا باسی ہے۔ جو گوشت پوست کا بنا ہوا ہے اور بشر ہے۔ وہ اپنی غزل میں محبوب سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ شکوہ شکایت کرتے ہیں اور کہیں کہیں قدرے ناراضی اور برہمی کااظہار بھی کرجاتے ہیں۔
اُن کی غزل میں کچھ مقامات پر بے نیازی اور استغناکا عنصربھی ملتا ہے یہ اصل میں اُن کی بے ریا زندگی کا حقیقی عکس ہے۔ اُن کی شخصیت ہرقسم کے تصنع سے دور ہے اور یہی وصف اُن کی شاعری کا حوالہ بھی بن جاتا ہے، اگر وہ کسی جگہ اظہارِ شکست بھی کریں تو اپنی شخصیت کا توازن ضرور برقرار رکھتے ہیں۔ حیدر قریشی کی شخصیت اور اُسلوب میں گہرا ربط ہے، اگرچہ اُن کے شعروں کی مثال فارسی ضرب المثل ’’ہرگلے را رنگ وبوئے دیگراست‘‘ جیسی ہے تاہم ہر شعر کے باطن میں شخصیت کا اصلی آہنگ موجود ہے اور قاری کو اپنے وجود کا بار بار احساس دلاتا رہتا ہے۔ یہ اُن کی ریاضت کا کمال ہے کہ اُن کی شخصیت کا نکھار اور اُسلوب کا وقار ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔
حیدرقریشی کا مخصوص فکری نظام اُن کی تمام اصناف میں محسوس کیا جاسکتا ہے، اس نظام کا کلیدی نقطہ تصورِ خدا کے گرد گھومتا ہے۔ غزل میں تصورِ خدا اور فلسفۂ توحید کے مضامین سمونا آسان بات نہیں، اس کے باوجود حیدر قریشی نے اس موہنی صنف میں اپنے دل کی باتیں بیان کردی ہیں۔
دورِ جدید میں جہاں ہمارے دانشور ادیب اپنی روشن خیالی کا ثبوت فراہم کرنے کیلئے لادینی کی طرف مائل ہوتے ہیں اس کے برعکس حیدر قریشی خداپرستی پر قائم رہ کر فعال ادبی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی رومزہ گفت گو اور انٹرویوز میں بار بار اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ خدا کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں بلکہ اس یقین کے کئی ذاتی تجربات سے بھی گزر چکے ہیں۔ یقین کی اس قوت نے اُن کے اندر خود اعتمادی پیدا کردی ہے۔
حیدر قریشی کی غزل میں فنی محاسن کا خاص التزام ملتا ہے ، جس میں تلمیحات ، تشبیہات، استعارات کے عمدہ قرینوں کے ساتھ تغزل، صنعتِ تضاد، تکرارِ لفظی، مجاز مرسل، سہل ممتع، دولفظی، سہ لفظی اور چہار لفظی تراکیب کا استعمال اور ہندی الفاظ اور ہندی روایت کا اتباع بھی نظر آتا ہے۔ یہ غزلیں ایک بڑے ادیب کے قلم سے نکلی ہیں اور اِن کا مطالعہ ادبی دنیا میں کئے نئے سوال اٹھائے گا۔ حیدر قریشی کی غزل فکر ونظر اور اپنے برتاؤکے باعث جدید حسّیت کی نمائندگی کرتی ہے۔
حیدر قریشی نے صنفِ ماہیا پر خاصا کام کیا ہے۔ اس صنف کے ساتھ اُن کی دل چسپی تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی تینوں سطح پر نظر آتی ہے۔ اُن کے تمام ماہیے مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔ ان کی دستیابی کتابوں کے ذریعے بھی ممکن ہے اور انٹرنیٹ پر بھی اِن کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ماہیا ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس کا اظہار وبیان کے حوالے سے کینوس بہت وسیع ہے۔ حیدر قریشی نے اس صنف کی وسعت سے ممکنہ حد تک فائدہ اٹھایا ہے، اگر اُن کے پیش کردہ ماہیوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حیات وکائنات کے اہم موضوعات پر معیاری ماہیے موزوں کیے گئے ہیں۔ حیدرقریشی کوحضوراکرمؐ کے ساتھ جو گہری عقیدت اور والہانہ محبت ہے اُس کااظہار اُن کی تقریباً ہر صنف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ عشق ومحبت کا یہی رویہ ماہیے کے توسط سے بھی اظہار پاتا ہے۔نعتیہ موضوع کے ماہیے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ حیدر قریشی نے اپنے فکر وفن کے چراغ روشن کرنے کے خاطر حبِ رسولؐ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا ہے۔ نعتیہ ماہیوں کے علاوہ حمدیہ ماہیے بھی اپنا جادوجگاتے نظر آتے ہیں۔حیدر قریشی نے ۱۹۹۶ء میں روضۂ رسول اور ۲۰۰۳ء میں خانۂ خدا میں حاضری کا شرف حاصل کیا تھا۔ یہ اسفار بالآخر روحانی کیفیات کا موجب بھی ثابت ہوئے۔ حیدر قریشی نے اپنی اُن نادر کیفیات کو ماہیے کے ذریعے ہی محفوظ کیا ہے۔
شاعرانہ کیفیت چاہے کسی بھی قسم کی ہو اُس کا دورانیہ کم ہوتا ہے اور یہ بات تو طے ہے کہ ایسی کیفیات کا اظہار نثری بیانات میں اگر محال نہیں تومشکل ضرور ہے تاہم شعری اسالیب میں ان نادر الوقوع جذبات واحساسات کو کسی حد تک ضرور محفوظ کیا جاسکتا ہے اور خصوصاً ماہیا جیسی مختصر سہ مصرعی صنف تو شاعر کے لئے کئی طرح کی آسانیاں بھی پیدا کردیتی ہے۔ حیدر قریشی نے اس حوالے سے جو ماہیے تخلیق کیے وہ اُن کے سفر نامے ’’سوئے حجاز‘‘ میں شامل ہونے کے علاوہ کلیات میں بھی موجود ہیں۔
آپ نے حمدیہ اور نعتیہ ماہیے تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت علیؓ کے فرمودات سے اکتساب کرتے ہوئے کئی ماہیے لکھے ہیں اور پھر صوفیائے کرام سے نیاز مندی کی وجہ سے بھی ایسے خوبصورت اور دل پذیر ماہیے موزوں کیے جو توجہ کے مستحق ہیں۔ حیدر قریشی کا قاری اپنی پسند اور ذوق کے مطابق اس شعری منظر ناموں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ان ماہیوں میں تہذیبی اور ثقافتی موضوعات پر بھی کافی کچھ ملتا ہے۔
حیدر قریشی نے شاعری میں آزاد نظم کے کئی تجربے کیے ہیں، ان تجربات کا زیادہ تر تعلق موضوعاتی حوالے سے بنتا ہے۔ اُن کے ہاں فطرت پسندی کے نقوش خاصے گہرے ہیں بیش تر نظموں میں یہی مظاہر فطرت قاری کی توجہ اپنی جانب جذب کرتے نظر آتے ہیں۔
فطرت پسندی کے باعث وہ کئی سائنسی تصورات کو اپنی نظموں میں سہولت سے استعمال کرجاتے ہیں مثلاً اُن کی نظم’’ خلا ‘‘کا موضوع بگ بینک(Big Bang)ہے جسے پڑھ کر آزاد نظم کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر دیگر بڑے بڑے موضوعات کو دیکھا جائے تو حیدر قریشی کی نظموں میں ثقافتی تصورات فلسفیانہ جہات، دین اسلام سے لگاؤ ، رومانیت اور عشق وسرمستی کے عناصر سے واسطہ پڑتا ہے۔ اگر فنی اور اُسلوبیاتی سطح پر ان کی نظموں پر توجہ کی جائے تو وہاں خود کلامی ، تجرید وتجسیم ، علامت ،تلمیحات، سوزدگداز، محاکات، منظر کشی، ایمائیت ، امیجری جیسے اعلیٰ عناصر ان نظموں کے معنوی حسن کو نکھارتے دکھائی دیتے ہیں۔
حیدر قریشی نے اپنے ادبی سفر کے دوران تحقیقی موضوعات کی طرف بھی توجہ دی ہے۔ جس عرصے میں ماہیا نگاری کی تحریک عروج پر تھی اُس دوران اس صنف کے کئی مسائل ایسے سامنے آئے جو تحقیق طلب تھے لیکن اُس وقت تک کسی اور ادیب اور محقق نے اُن مسائل پر تحقیق نہیں کی تھی۔ حیدر قریشی نے ماہیے کی ابتدا ، اوزان اور تحریری ہیئت کے خدوخال واضح کرنے کے لیے پاک وہند کے معیاری ادبی جرائد میں تحقیقی مضامین کا سلسلہ شروع کردیا جو بعد ازاں پانچ کتابوں کی صورت میں جمع کردیا گیا تھا اور اِن کتابوں کا کلیات بعنوان ’’اُردوماہیا: تحقیق وتنقید‘‘ بھی چھپ کر سامنے آگیا تھا۔
حیدر قریشی یک موضوعی محقق ہیں کیونکہ اُن کی تمام تر تحقیقات کا مرکز ومحور صرف ماہیا ہے۔ اس صنف کے بنیادی موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے جس کی وجہ سے اب یہ صنف اردو ادب میں اپنی الگ اور منفرد شناخت کے باعث خاص مقام رکھتی ہے ، اگر ماہیے کی صنف پر تحقیقی حوالے سے نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اپنے ابتدائی سفر میں یہ صنف ہیئت کے اعتبار سے اُلجھاؤ کا شکار رہی ہے۔ حیدر قریشی نے جدید تحقیقی اصولوں کو کام میں لاتے ہوئے ماہیے کے آغاز واتقا، اصل اوزان، تحریری ہیئت، موضوعات، اسالیب ، مزاج اور تکنیکی حوالوں کو واضح کردیا ہے۔ اس ضمن میں دستاویزی تحقیق کا سہارا لیتے ہوئے ہمت رائے شرما کو اُردو ادب کا پہلا ماہیا نگار قرار دیا، لیکن اُن کی تحقیقات مزید آگے چلتی ہیں اور ماہیے کے فروغ میں خواتین کا حصہ اور ادبی رسائل وجرائد میں ماہیے کی اشاعت اور مقبولیت پر بھی نئے تحقیقی زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں۔
حیدر قریشی نے اگرچہ اپنی تحقیقات میں کافی لوگوں سے اختلاف کیا لیکن یہ علمی اختلاف ذاتی اختلاف کا رنگ اختیار نہیں کرتا۔ اُن کی تحقیق میں توازن ، غیر جانبداری ، معتدل تحقیقی روش، مستقل مزاجی، وضاحتی اُسلوب اور بے لاگ تجزیات دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ حوالوں کے اندراج میں خاص احتیاط کا مظاہرہ اُن کا نمایاں تحقیقی وصف ہے۔ اپنی تحقیقی غلطی کو کشادہ دلی سے قبول کرنے کا رجحان بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ عروض سے واقفیت کی وجہ سے اُن کا طرز استدلال محکم اور مدلل ہوجاتا ہے ، اپنی تحقیق کے دوران جتنے دعوے کیے اُن کو مضبوط علمی دلائل سے مزین بھی کیاہے۔
حیدر قریشی بطور فعال ادبی نقاد منفرد شناخت قائم کرچکے ہیں، تنقید کی طرف اُن کا میلان اور رجحان اُن کی ابتدائی ادبی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ ان کی تنقیدی سر گرمیوں کا دائرہ ہمہ گیر ہے۔ وہ اپنے اولین تنقیدی سفر میں ماہیے کے حوالے سے نئی نئی باتیں متعارف کراتے ہیں اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ افسانہ، ناول، شاعری ، سفرنامے اور دیگر بڑے بڑے ادبی اور نظری مسائل پر اُن کے تنقیدی مضامین پاک وہند اور یورپی رسائل میں پڑھنے کو ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اُن کی تنقید اس خصوص میں لائق توجہ ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ امریکہ، کینیڈااور یورپ میں لکھے جانے والے اردو ادب پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ حیدر قریشی کے مطابق مغربی ممالک میں جہاں اچھے ادیب کم تعداد میں اُردو کی خدمت کررہے ہیں وہاں بڑی تعداد اُن جعل ساز ادیبوں (مردوخواتین) کی موجود ہے جو محض روپے پیسے کی فراوانی کے زور پر ادیب بن گئے ہیں اور پاک وہند کے پیشہ ورشاعروں سے مجموعے لکھوا کر اپنے نام شائع کرارہے ہیں۔ اس ادبی کاروبار نے مغرب میں مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ دھندا کامیابی سے پھلتا پھولتا جارہا ہے۔
یہ درحقیقت بہت جرأت کی بات ہے۔ اس جرأت رندانہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے یورپ کے پیش تر لکھاری اُن سے ناراضی کا اظہار کرچکے ہیں۔ حیدرقریشی نے کئی کتابوں کے تنقیدی دیباچے تحریر کیے ہیں اوروہ جب کسی کتاب پر لکھتے ہیں تو پھر پوری ایمان داری سے اُس کے محاسن و معائب بیان کرتے ہیں ۔حیدر قریشی نے اپنی تمام تنقیدات میں کفایت لفظی اور سادگی کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ بات کھرے اور دوٹوک لہجے میں کرتے ہیں، اگر کسی کی کمزوری کو نمایاں کرنا مقصود ہو تو اخلاقیات کے تمام تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حقیقت پسندی اور معروضیت اُن کی تنقید کے نمایاں اوصاف ہیں۔ اُن کا تنقیدی طریقِ کار تشریحی اور توضیحی ہے۔ وہ اپنے تنقیدی عمل میں ایسے فکری عناصر کی طرف بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والوں کی تربیت ہوتی ہے۔
حیدر قریشی کا تنقیدی اُسلوب تخلیقی عناصر سے مملو ہے وہ بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے مبہم نہیں بناتے بلکہ نہایت سادگی سے جو محسوس کرتے ہیں اُس سادہ علمی انداز میں صفحۂ قرطاس پر بکھیردیتے ہیں۔ تنقید کے جدید اسالیب اُن کے پیش نظر ہیں اور وہ اُن سے حسب ِضرورت استفادہ کرتے ہیں۔
حیدر قریشی کا تمام ادبی سرمایہ فنی اور فکری حوالے سے نئے مباحث پیدا کرتا ہے۔ نئے لکھنے والوں پر اُن کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماہیے کی صنف پر اُنھوں نے جن بنیادی لوازم کو متعارف کرایا تھا اب اُسی کی پیروی کی جارہی ہے۔ اُردو ادب میں ماہیے کی ہیئت ، وزن اور مزاج پر اُن کی تحقیقات اور تنقیدات کو اہمیت دی جاتی ہے۔
افسانہ نگاری میں اُن کے منفرد تجربات کا دائرہ خاصا وسیع ہے اور آنے والا محقق اِن کے افسانوں پر مزید نئے سوال اٹھا ئے گا۔ حیدرقریشی نے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے فکشن کے جدید اسالیب متعارف کرائے جن میں تنوع اور وسعتِ فکر کے کئی امکانات پوشیدہ ہیں۔
حیدرقریشی کی ادبی خدمات پر اُردو ادب کے سنجیدہ قلم کاروں نے اپنے تاثرات کااظہار کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے وقیع ادبی کام کی بدولت سنجیدہ ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔ آپ کثیر الجہات ادیب ہونے کے ناطے اُردو ادب کی صحت مند روایت کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں، اور یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ جدید عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے فکری اور احساساتی سطحوں پر حسبِ مقدور حصہ ڈالا ہے۔ حیدرقریشی کا مخصوص فکری نظام اُن کی ہر صنف میں انفرادیت کے جوہر رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابیات
(بنیادی مآخذ)
(۱) حیدر قریشی، افسانے(’’روشنی کی بشارت‘‘ اور’’ قصے کہانیاں‘‘ ایک جلد میں)معیار پبلی کیشنز دہلی، ۱۹۹۹ء
(۲) حیدر قریشی ، روشنی کی بشارت(افسانے)تجدید اشاعت گھر،اسلام آباد،لاہور۔۱۹۹۲ء
(۳) حیدر قریشی ،فاصلے ،قربتیں(انشائیے) مشمولہ عمرِ لاحاصل کا حاصل(کلیات ِ نظم و نثر)ایجوکیشنل پبلشنگ ،ہاؤس،دہلی،۲۰۰۹ء
(۴) حیدر قریشی، سُوئے حجاز(سفر نامہ) معیار پبلی کیشنز،دہلی، ۲۰۰۰ء
(۵) حیدر قریشی، سُوئے حجاز(سفر نامہ،سفرِحج کے اضافہ کے ساتھ) سرور ادبی اکادمی جرمنی، ۲۰۰۴ء
(۶) حیدر قریشی ،کھٹی میٹھی یادیں(یاد نگاری)عکاس انٹر نیشنل،اسلام آباد،۲۰۱۳ء
(۷) حیدر قریشی ،میری محبتیں (خاکے)‘ناشر: نایاب پبلی کیشنز۔خانپور۔ مطبوعہ ۱۹۹۶ء
(۸) حیدر قریشی ،میری محبتیں (خاکے)،ناشر:معیار پبلی کیشنز،دہلی۔مطبوعہ ۱۹۹۸ئ (۹) حیدر قریشی،درد سمندر(غزلیں ،نظمیں اور ماہیے) مشمولہ عمرِ لاحاصل کا حاصل(کلیات ِ نظم و نثر)ایجوکیشنل پبلشنگ ،ہاؤس،دہلی،۲۰۰۹ء
(۱۰) حیدر قریشی ،دعائے دل(غزلیں‘نظمیں)ناشر:نصرت پبلشرز لاہور، ۱۹۹۷ء۔
(۱۱) حیدر قریشی ،سلگتے خواب(غزلیں)‘ناشر:تجدیداشاعت گھر۔لاہور،اسلام آباد،مطبوعہ ۱۹۹۱ء
(۱۲) حیدر قریشی ،عمرِ گریزاں(غزلیں‘نظمیں اورماہیے)تجدید اشاعت گھر لاہور،اسلام آباد، ۱۹۹۶ ء
(۱۳) حیدر قریشی ،غزلیں‘نظمیں‘ماہیے (چار مجموعوں کا مجموعہ )ناشر:سرور ادبی اکادمی،جرمنی ، ۱۹۹۸ء
(۱۴) حیدر قریشی ،محبت کے پھول(ماہیے)‘ناشر:نایاب پبلی کیشنز۔خانپور،مطبوعہ ۱۹۹۶ء
(۱۵) حیدر قریشی ،اردو میں ماہیا نگاری(تحقیق و تنقید)ناشر: فرہاد پبلی کیشنز،اسلام آباد، ۱۹۹۷ء
(۱۶) حیدر قریشی ،اردو ماہیے کی تحریک(مضامین)ناشر:فرہاد پبلی کیشنز۔راولپنڈی، ۱۹۹۹ء
(۱۷) حیدر قریشی ،اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما( تحقیقی مضامین)
ناشر:معیار پبلی کیشنزدہلی۔۱۹۹۹ء
(۱۸) حیدر قریشی اردو ماہیا(ماہیے کے مجموعوں کے پیش لفظ۔یہ کتاب ’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید ‘‘میں شامل ہے)
(۱۹) حیدر قریشی ،اردو ماہیا تحقیق و تنقید(ماہیے کی تحقیق و تنقید پر پانچ یکجا کتابیں ) الوقارپبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۰ء
(۲۰) حیدر قریشی ،تاثرات (تنقیدی مضامین )ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی، ۲۰۱۲ء
(۲۱) حیدر قریشی ،حاصلِ مطالعہ (تنقیدی مضامین) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی ،۲۰۰۸ء
(۲۲) حیدر قریشی ،عمرِ لاحاصل کا حاصل، (گیارہ کتابیں یکجا ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۹ء
(۲۳) حیدر قریشی ،قفس کے اندر(چھے یکجاشعری مجموعے ) نایاب پبلی کیشنز خانپور، ۲۰۱۳ء
(ثانوی مآخذ)
(۱) آل احمد سرور ’’ ادب اور نظریہ‘‘ ادارہ فروغِ اُردو، لکھنٔو ، طبع(دوم)۱۹۵۴ء
(۲) آل احمد سرور’’ فکرِ روشن‘‘ ، ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ ،طبع(اول)۱۹۹۵ء
(۳) آل احمد سرور’’ نظریہ اور نظریے ‘‘ ، اُردو اکیڈمی،سندھ، کراچی ،طبع (اول)۱۹۸۷ ء
(۴) ابو سلمان شاہ جہان پوری، ’’ خواجہ حسن نظامی خاکے اور خاکہ نگاری ‘‘ پورب اکادمی، اسلام آباد، طبع(اول)۲۰۰۷ ء
(۵) ابو الکلام قاسمی ’’ مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت ‘‘ ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ،طبع(اول) ۱۹۹۲ء
(۶) ابو اللیث صدیقی ، ڈاکٹر ، غزل اور متغزلین، اردو مرکز ،لاہور،طبع(اول)۱۹۵۴ء
(۷) احتشام حسین ، سید ’’ ذوق ادب اور شعور ‘‘ لکھنٔو ، فروغِ اُردو، طبع (اول)۱۹۷۵ء
(۸) احمد ندیم قاسمی، ’’ میرے ہم سفر‘‘ ، اسا طیر ، لاہور ،طبع (اول)۲۰۰۲ ء
(۹) احمد ندیم قاسمی، ’’ میرے ہم قدم ‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور(اول)طبع، ۲۰۰۷ء
(۱۰) احمد انصاری ’’ غزل اور غزل کی تعلیم ‘‘،مکتبہ عالیہ، لاہور،طبع (اول)۱۹۸۷ء
(۱۱) اخلاق احمد دہلوی ’’ اور پھر بیان اپنا ‘‘ ، اردو مرکز، لاہورطبع (اول)۱۹۵۷ ء
(۱۲) اعجاز راہی ، ڈاکٹر ’’ اردو افسانہ میں علامت نگاری ‘‘، ، ریز پبلی کیشنز ،راولپنڈی ،طبع(اول)۲۰۰۲ء
(۱۳) اکبر حمیدی ’ ’ جدید اردو انشائیہ ‘‘اکادمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد ، طبع(اول)۱۹۹۱ء
(۱۴) انوار احمد ، ڈاکٹر، ’’ اردو افسانہ تحقیق و تنقید ‘‘ ، بیکن بکس ، ملتان ،طبع(اول)۱۹۸۸ء
(۱۵) انور سدید ، ڈاکٹر ’’ اردو ادب کی تحریکیں ‘‘ ، ، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، طبع(سوم)۱۹۹۶ء
(۱۶) اے حمید، ’’ سنگ دوستاں ‘‘ ، جودت پبلی کیشنز ، لاہورطبع (اول)۱۹۸۴ء
(۱۷) بشیر سیفی ، ڈاکٹر ’’ اردو میں انشائیہ نگاری ‘‘ ، نذیر سنز ، لاہورطبع (اول)۱۹۸۹ء
(۱۸) بشیر سیفی ، ڈاکٹر ’’ خاکہ نگاری ، فین اور تنقید ‘‘ نذیر سنز ، لاہور، طبع ،ن د
(۱۹) تبسم کاشمیری ، ڈاکٹر ’’ ادبی تحقیق کے اصول ‘‘ ،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد،طبع(اول)۱۹۹۲ء
(۲۰) جمیل جالبی، ڈاکٹر ’’ ارسطوسے ایلیٹ تک ‘‘ ،نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد ،طبع(سوم)۱۹۸۵ء
(۲۱) جمیل جالبی ، ڈاکٹر ’’ادب، کلچر اور مسائل ‘‘ ، رائل بک کمپنی ،کراچی، طبع(اول)۱۹۸۶ء
(۲۲) جمیل جالبی ، ڈاکٹر ’’ادبی تحقیق ‘‘ مجلس ترقی ادب، طبع (اول)لاہور۱۹۹۴ء
(۲۳) جمیل جالبی ، ڈاکٹر ’’ ایلیٹ کے مضامین ‘ سنگ میل پبلی کیشنز ، ‘ لاہورطبع(اول)۱۹۸۹ء
(۲۴) جمیل جالبی ، ڈاکٹر ’’معاصر ادب ‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،طبع (اول)۱۹۹۱ء
(۲۵) جمیل جالبی ، ڈاکٹر ’’ نئی تنقید ‘‘ رائل بک کمپنی ، کراچی ، طبع (اول)۱۹۸۵ء
(۲۶) جیلانی کامران ’’ تنقید کا نیا پس منظر ‘‘مکتبہ عالیہ، لاہو طبع ،ن د
(۲۷) جیلانی کامران ’’ ہمارا ادبی و فکر ی سفر ‘‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور، طبع(اول)۱۹۸۷ ،
(۲۸) چراغ حسن حسرت، ’’ مردم دیدم ‘‘ دارا لاشاعت،لاہور (طبعاول)۱۹۳۹ء
(۲۹) حامد اللہ افسر ’’ تنقید ی اصول اور نظریے ‘‘ ، کوہ نور پبلی کیشنز ، لاہور، طبع(اول)۱۹۶۴ء
(۳۰) حامد بیگ مرزا، ڈاکٹر ،’’ اردو افسانے کی روایت ‘‘ ، پاکستان اکادی ادبیات پاکستان،
اسلام آباد،طبع(اول)۱۹۹۱ء
(۳۱) خلیق انجم ’’ متنی تنقید ‘‘ سنگت پبلی کیشنز ، ، لاہور،طبع(دوم)۲۰۰۴ ء
(۳۲) خورشید جہاں، ڈاکٹر ’’ جدید اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات ‘‘ ، منشا پبلی کیشنز ، انڈیا طبع(اول)۱۹۸۹ء
(۳۳) رشید احمد صدیقی ’’ گنج ہائے گراں مایہ ‘‘،، آئینہ ادب، لاہورطبع (اول)۱۹۶۴ء
(۳۴) رشید حسن خان ’’ ادبی تحقیقی ، مسائل اور تجزیہ ‘‘، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ طبع(اول)۱۹۷۹ء
(۳۵) رفاقت علی شاہد، مرتب ’’ تحقیقی شناسی ‘‘ ، القمر انٹر پرائز ، لاہور ، طبع(اول)۲۰۰۳ ء
(۳۶) ریاض احمد ’’ تنقیدی مسائل ‘‘، بک سٹال ،لاہورطبع(اول)۱۹۶۱ء
(۳۷) سجاد باقر رضوی ، ڈاکٹر ’’ مغرب کے تنقیدی اصول ‘‘، مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد ،طبع(اول)۲۰۰۵ ء
(۳۸) سلطانہ بخش ، ڈاکٹر ’’ اردو میں اصول تحقیق ‘‘ ( حصہ اول ) مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد طبع(اول)۱۹۸۶ ء
(۲۹) سلطانہ بخش ، ڈاکٹر ’’ اردو میں اصول تحقیق ‘‘ (حصہ دوم ) ورڈ ویژن پبلشرز ،اسلام آباد طبع(دوم)۲۰۰۱ء
(۴۰) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہورطبع( پچیس)۲۰۰۴ ء
(۴۱) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’ افسانہ حقیقت سے علامت تک ‘‘ ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہورطبع(اول)۱۹۷۱ء
(۴۲) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’انشائیہ کی بنیاد ‘‘ ،سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ،طبع(اول)۱۹۸۶ء
(۴۳) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’پاکستانی ادب ‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد، طبع(اول)۱۹۹۵ء
(۴۴) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’تخلیق شخصیات اور تنقید سنگ میل پبلی کیشنز ، ‘ لاہورطبع(اول) ۱۹۸۹ء
(۴۵) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’داستان اور ناول کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہورطبع(اول)۱۹۹۱ء
(۴۶) سلیم اختر ، ڈاکٹر ’’نفسیاتی تنقید ‘‘ مجلس ترقی اردو، ، لاہورطبع(اول)۱۹۸۶ء
(۴۷) سعید شباب ’’ حیدر قریشی سے لئے گئے انٹرویو ‘‘ نظامیہ آرٹ اکیڈمی، ہالینڈ طبع(اول)۲۰۰۴ ء
(۴۸) شاہد احمد دہلوی ’’ گنجیۂ گوہر ‘‘ ، مکتبہ نیا دور، کراچی طبع(اول)۱۹۶۲ء
(۴۹) شاہد احمد دہلوی ’’ بزم خوش نفساں ‘‘ ڈاکٹر جمیل جا لبی ( مرتبہ ) مکتبہ اُسلوب ،کراچی ،طبع(اول)۱۹۸۵ء
(۵۰) شجاع احمد زیبا ’’ اردو میں قلمی خاکے ‘‘ اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ ، ، کراچی طبع(اول)۱۹۹۳ء
(۵۱) شمس الرحمن فاروقی ’’ افسانے کی حمایت میں ‘‘ ، مکتبہ جامعہ دہلی ،طبع،(دوم)۱۹۸۱ء
(۵۲) شمس الرحمن فاروقی ’’ تعبیر کی شرح ‘‘ ، اکادمی بازیافت کراچی ،طبع(اول)۲۰۰۴ء
(۵۳) شہزاد منظر ، ’’ رد عمل ‘‘ ، منظر پبلی کیشنز ، لاہورطبع(اول)۱۹۸۵ء
(۵۴) صدیق کلیم ’’ نئی تنقید ‘‘ ، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد طبع (اول)۲۰۰۷ ء
(۵۵) ضمیر علی بد ایونی ’’ جدید اور بعد جدیدیت ‘‘ اختر مطبوعات لاہور ، طبع(اول)۱۹۹۹ء
(۵۶) ضمیر علی بد ایونی ’’ ما بعد جدیدیت کا دوسرا رخ ‘‘ ، مکتبہ شہر زاد ، طبع،کراچی(اول)۲۰۰۶ ء
(۵۷) ضیاء الحسن ، ڈاکٹر ’’ اردو ‘‘ تنقید کا عمرانی دبستان‘‘ ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ، لاہور،ن د
(۵۸) طارق سعید ’’ اردوطنزیات و مضحکات کے نمائندہ اسالیب ‘‘ ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ،طبع(اول)۱۹۹۶ء
(۵۹) طائرہ اقبال ’’ منٹو کا اسلوب ‘‘ فکشن ہاؤس ، لاہورطبع(اول)۲۱۰۲ء
(۶۰) عابد علی عابد، سید ’’ اُسلوب ‘‘ ، سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہورطبع (دوم)۲۰۰۱ء
(۶۱) عابد علی عابد ، سید ’’ اُصول انتقادِ ادبیات ‘‘ مجلس ِترقی ٔ ادب، لاہورطبع،۱۹۶۰ء
(۶۲) عبادت بریلوی ’’ تنقیدی زاویے ‘‘ ، مکتبہ اردو، لاہور طبع (اول)۱۹۵۱ء
(۶۳) عبد الحق مولوی ’’ چند ہم عصر ‘‘ ، اردو اکیڈمی سندھ ،کراچی،طبع (دوم)۱۹۶۱ء
(۶۴) عبد الرحمان ، مولانا ’’ مرۃ الشعر ، لاہور بک ایمپوریم ،طبع،ن د ،
(۶۵) عبد القادر، قاضی، ڈاکٹر ’’ تصنیف و تحقیق کے اصول ‘‘ ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد ،طبع(اول)۲۰۰۳ء
(۶۶) عطش درانی، ڈاکٹر ’’ اردو تحقیق ، ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد طبع (اول)۲۰۰۳ ء
(۶۷) فارغ بخاری’’ البم‘‘ فنون پبلشرز ، ،لاہوطبع (اول)۱۹۷۸،
(۶۸) فرحت اللہ بیگ، مرزا ’’ نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی میری زبانی ‘‘ ، اردو اکیڈمی ، کراچی ،طبع(پنجم)۱۹۷۹ء
(۶۹) فردوس انور ، قاضی ، ڈاکٹر ، ’’ اردو افسانہ نگاری کے رجحانات ‘‘ ، مکتبہ عالیہ ،لاہور ، طبع(اول)۱۹۹۰ ء
(۷۰) فضل الحق ، پروفیسر ’’ تنقیدی مضامین ‘‘ ،شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی طبع(اول)۱۹۹۲ء
(۷۱) فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ’’ اردو افسانہ اور افسانہ نگار ‘‘ ،مکتبہ جامعہ، دہلی طبع(اول)۱۹۸۱ء
(۷۲) فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر ’’ اردو شاعری کا فنی ارتقاء ‘‘ ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ،طبع(اول)۱۹۹۴ء
(۷۳) فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ’’ اردو فکشن کی مختصر تاریخ ‘‘ ، بیکن بکس ملتان طبع (اول)،۲۰۰۶ء
(۷۴) فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر ’’ اردو نثر کا فنی ارتقا ‘‘ ، الو قار پبلی کیشنز لاہورطبع(دوم) ۱۹۹۷ء
(۷۵) قمر رئیس پروفیسر ، ’’ نیا افسانہ، مسائل اور میلا نات ‘‘ ، ، اردو اکادمی، دہلی،طبع(اول)۱۹۹۲ء
(۷۶ ) کلیم الدین احمد ’’ اردو تنقید پر ایک نظر ‘‘ ،ا پورب اکادمی سلام آباد،طبع(دوم)۲۱۰۲ء
(۷۷ گوپی چند نارنگ، ’’ ادبی تنقید اور اسلوبیات ‘‘ ،سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور طبع (دوم)،۲۰۰۸ء
(۷۸) گوپی چند نارنگ ’’ اردو افسانہ، روایت و مسائل ‘‘ ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ،طبع(دوم)۱۹۸۶ء
(۷۹) گیان چند، ڈاکٹر ’’ تحقیق کا فن ‘‘ ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آبادطبع(سوم)۱۹۹۴ء
(۸۰) مبین مرزا، ’’ اردو کے بہترین شخصی خاکے ‘‘ ( جلد اول )، الحمرا پبلشنگ ، طبع(اول)۲۰۰۲ء
(۸۱) محمد افضال، ڈاکٹر ، ’’ اردو ناول میں سماجی شعور ‘‘ ، اسلام آباد ، پورب اکادمی، طبع (اول)۲۰۰۹ء
(۸۲) محمد حسن عسکری، ’’ کلیات ‘‘ ، لاہور سنگ میل پبلی کیشنز ، طبع(اول)۱۹۹۴ء
(۸۳) محمد حسین، ڈاکٹر ’’ ادبی تنقید ‘‘ ،لکھنو ، فروغ اردو ، طبع،(اول)۱۹۷۳ء
(۸۴) محمد طفیل، ’’ آپ‘‘، لاہور، ادارہ فروغِ اردو، طبع(اول)۱۹۶۷ء
(۸۵) محمد طفیل ،’’ صاحب‘‘ ، لاہور ، ادارہ فروغ اردو، طبع(اول)۱۹۵۵ء
(۸۶) محمد طفیل ’’ محبی‘‘ ، لاہور ادارہ فروغ اردو طبع،(اول)۱۹۸۱ء
(۸۷) محمد طفیل ’’ محترم ‘‘ ، لاہور، ادارہ فروغ اردو ، طبع(اول)۱۹۶۸ء
(۸۸) محمد طفیل ’’ مکرم ‘‘ ،لاہور ادارہ فرغ اردو، طبع،(اول)۱۹۷۰ء
(۸۹) محمد عقیل ، سید، ’’ غزل کے نئے جہات ‘‘ مکتبہ جدید،دہلی، طبع(اول)۱۹۸۹ء
(۹۰) محمد عمر رضا، ڈاکٹر ’’ اردو میں سوانحی ادب ، فن اور روایت ‘‘ ، فکشن ہاؤس ، لاہور، طبع(اول)۲۰۱۲ء
(۹۱) محمد وسیم انجم ’’ حیدر قریشی ، فکر و فن ‘‘ ، انجم پبلشرز ،راولپنڈی ،طبع(اول)۱۹۹۹ء
(۹۲) محی الدین قادری زور ’’ روحِ تنقید ‘‘، مکتبہ معین الا دب، لاہور، طبع(اول)،۱۹۵۵ء
(۹۳) ممتاز حسین، ’’ ادب اور شعور ‘‘ ، کراچی ، اردو اکیڈمی ، طبع(اول)۱۹۶۱ء
(۹۴) ممتاز شیریں، منٹو نہ نوری نہ ناری ، مکتبہ شہرزاد، کراچی ،طبع(سوم)۱۹۸۵ء
(۹۵) ممتاز مفتی ’’ اوراوکھے لوگ‘‘ ، فیروز سنز ،لاہور، طبع(دوم)۱۹۹۱ء
(۹۶) منزہ یاسمین ’’ حیدر قریشی ، شخصیت اور فن ، خانپور میاں محمد بخش پبلشرز ، طبع(اول)۲۰۰۳ء
(۹۷) میرا جی’’ مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘ ، لاہور، اکادمی پنجاب طبع (اول)۱۹۵۸ء
(۹۸) میمونہ انصاری، ڈاکٹر ’’ تنقیدی رویے ،لاہور، مکتبہ میری لائبریری، طبع(اول)۱۹۸۹ء
(۹۹) ناصر عباس نیئر، ڈاکٹر ’’ لسانیات اور تنقید ‘‘ ، اسلام آباد پورب اکادمی طبع،۲۰۰۹ء
(۱۰۰) نجیبہ عارف، ڈاکٹر ’’ رفتہ و آئندہ ‘‘ ، پورب اکادمی ، ، طبع،(اول)۲۰۰۸ئ
(۱۰۱) نذر خلیق، ڈاکٹر ’’ حیدر قریشی کی ادبی خدمات ‘‘، خانپور ، میاں محمد بخش پبلشرز طبع(اول)۲۰۰۳ء
(۱۰۲) نذیر فتح پور، سنجئے گوڑ بولے حیدر قریشی ، فن اور شخصیت ،پونا انڈیا، اسباق پبلی کیشنز ، س ن
(۱۰۳) نور الحسن نقوی ’’ فن تنقید اور تنقید نگاری ‘‘ ،، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ،طبع(اول) ۱۹۹۰ء
(۱۰۴) وزیر آغا ، ڈاکٹر ’’ اردو شاعری کا مزاج ‘‘ ، جدید ناشرین ،طبع ،لاہو(اول)۱۹۶۵ء
(۱۰۵) وزیر آغا ، ڈاکٹر ’’ تنقید اور جدید اردو تنقید ، انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی ، طبع (اول)۱۹۸۹ء
(۱۰۶) وزیر آغا، ڈاکٹر ’’ نئے مکالمات‘‘ مرتبین ، شاہد شیدائی، عابد خورشید ، لاہور جمہور پبلی کیشنز طبع،۲۰۱۰ء
(۱۰۷) وقار احمد رضوی ، سید ڈاکٹر، ’’ تاریخ ِنقد ، نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد، طبع (اول)۲۰۰۴ء
(۱۰۸) وقار عظیم ، سید ’’ داستان سے افسانے تک ‘‘ اردو اکیڈمی کراچی، طبع (اول)۱۹۶۶ء
(۱۰۹) وقار عظیم ،سید ’’ فن اور فنکار ‘‘ ، اردو مرکز، لاہور،طبع (اول)۱۹۹۶ء
(۱۱۰) یونس خان ’’ لسانی فلسفہ اور فکشن کی شعریات ، لاہور دارالشعور، طبع،۲۰۰۱ء
ادبی رسائل اور تحقیقی جرائد
(۱) ’’الماس ‘‘ (تحقیقی مجلہ ) شمارہ نمبر ۴،۳، ۲۰۰۲ء شعبہ اردو، شاہ عبد الطیف یونیورسٹی ، خیر پور ،سندھ
(۲) ’’ الماس‘‘ (تحقیقی مجلہ ) شمارہ نمبر ۷،۲۰۰۴ ء شعبہ اردو، شاہ عبد الطیف یونیورسٹی خیر،پور سندھ
(۳) ’’ اوراق‘‘ ( سہ ماہی) (افسانہ ، انشائیہ نمبر) مارچ ، اپریل ۱۹۷۲، لاہور
(۴) ’’ اوراق‘‘ (افسانہ نمبر) جنوری ، فروری ۱۹۷۷ ء لاہور
(۵) ’’ اوراق‘‘ ( جدید نظم نمبر ) جولائی، اگست ۱۹۷۷ء لاہور
(۶) ’’ اوراق‘‘ (سالنامہ) جنوری ، فروری، ۱۹۸۰ء لاہور
(۷) ’’ اوراق‘‘ ( بہار نمبر) اپریل ، مئی ۱۹۸۲، لاہور
(۸) ’’ اوراق‘‘ (انشائیہ نمبر ) اپریل ، مئی ۱۹۸۵ء لاہور
(۹) ’’ اوراق‘‘ (خاص شمارہ) اپریل، مئی ۱۹۸۷، لاہور
(۱۰) ’’ اوراق‘‘ (سالنامہ) نومبر، دسمبر ۱۹۸۷ ، لاہور
(۱۱) ’’ اوراق‘‘ (خاص نمبر) جون، جولائی، ۱۹۸۹، لاہور
(۱۲) ’’ اوراق‘‘ (سالنامہ) جنوری، فروری ۱۹۹۰ ، لاہور
(۱۳) ’’ اوراق‘‘ (خاص شمارہ)جون ، جولائی ۱۹۹۲، لاہور
(۱۴ ) ’’ اوراق‘‘ (خاص شمارہ) جولائی، اگست ، ۱۹۹۴، لاہور
(۱۵) ’’ اوراق‘‘ (سالنامہ) فروری، مارچ ۱۹۹۵، لاہور
(۱۶) ’’ اوراق‘‘ (سالنامہ) جنوری، فروری۱۹۹۶، لاہور
(۱۷) ’’ اوراق‘‘ (سالنامہ) جنوری، فروری ۱۹۹۷، لاہور
(۱۸) ’’ اوراق‘‘ (خاص نمبر) فروری، مارچ ۲۰۰۳ ، لاہور
(۱۹) ’’ اوراق‘‘ (خاص نمبر) نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ ، لاہور
(۲۰) ’’ بازیافت‘‘ (تحقیقی مجلہ) شمارہ ۱۴ ، جنوری تا جون۲۰۰۹ ء شعبہ اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور
(۲۱) ’’بازیافت ( تحقیق مجلہ) شمارہ ۱۵، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۹ ء شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
(۲۲) ’’ تحقیق ‘‘ (تحقیقی مجلہ) شمارہ ۱۴، ۲۰۰۶ شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی ، جام شورو
(۲۳) ’’ تحقیق (تحقیقی مجلہ) شمارہ ۱۵،۲۰۰۷ شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی ، جام شورو
(۲۴) ’’ تحقیق ‘‘ (تحقیقی مجلہ ) شمارہ ۱۶، ۲۰۰۸ شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی ، جام شورو
(۲۵) ’’تحقیق ‘‘( تحقیقی مجلہ) شمارہ ۱ ( طبع ثانی) ۲۰۰۹ شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی ، جام شورو
(۲۶) ’’تحقیق‘‘(تحقیقی مجلہ) جلد ۱۸، شمارہ ۲، ۲۰۱۰، شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی ، جام شورو
(۲۷) ’’ تحقیق ‘‘ ( تحقیقی مجلہ) جلد ۱۹، شمارہ ۱، ۲۰۱۱ء، شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو
(۲۸) ’’ خیابان ‘‘ (اضاف سخن نمبر) ۲۰۰۱ء، شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی
(۲۹) ’’ خیابان‘‘ (اضاف سخن نمبر) ۹۵، ۱۹۹۴، شعبہ اردو، پشاور یونیورسٹی
(۳۰) ’’ذہن جدید‘‘ ( سہ ماہی ) جلد ۱۷، شمارہ ۵۰، دسمبر تا فروری ۲۰۰۸ ء ، نئی دہلی
(۳۱) ’’ذہن جدید‘‘ ( سہ ماہی) جلد ۱۸، شمارہ ۵۱، مارچ تا اگست ، ۲۰۰۸ ء نئی دہلی
(۳۲) ’’ ذہن جدید‘‘ ( سہ ماہی) جلد ۱۹، شمارہ ۵۲، ستمبر ۲۰۰۸ تا فروری ۲۰۰۹ ء ، نئی دہلی
(۳۳) ’’ ذہن جدید‘‘ ( سہ ماہی) جلد ۱۹، شمارہ ۵۳، مارچ تا مئی ۲۰۰۹، نئی دہلی
(۳۴) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) شمارہ ۱۴۱، جولائی ، ستمبر ۱۹۹۴، لاہور
(۳۵) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) شمارہ ۱۴۵، جولائی ، دسمبر ۱۹۹۵، لاہور
(۳۶) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) شمارہ ۱۴۳، جنوری ، مارچ ۱۹۹۵، لاہور
(۳۷) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) ا۵ا، اپریل، جون ، ۱۹۹۷، لاہور
(۳۸) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) شمارہ ۱۴۹، اکتو بر ، دسمبر ۲۰۰۱، لاہور
(۳۹) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) ۱۷۱، اپریل، جون، ۲۰۰۲ ، لاہور
(۴۰) ’’ صحیفہ‘‘ ( سہ ماہی) شمارہ ۱۸۷، جنوری، مارچ، ۲۰۰۶، لاہور
(۴۱) ’’عکاس ‘‘( حیدر قریشی نمبر) شمارہ ۴، اکتوبر، ۲۰۰۵ ء اسلام آباد
(۴۲) ’’عکاس ‘‘( گوپی چند نارنگ نمبر) شمارہ ۹، مئی، ۲۰۰۹، اسلام آباد
(۴۳) ’’عکاس ‘‘ شمارہ ۱۰، جنوری ، ۲۰۱۰ء اسلام آباد
(۴۴) ’’عکاس ‘‘شمارہ ۱۱، مئی، ۲۰۱۰، اسلام آباد
(۴۵) ’’عکاس ‘‘شمارہ ۱۳، مارچ ۲۰۱۱، اسلام آباد
(۴۶) ’’عکاس ‘‘شمارہ ۱۵، اگست ، ۲۰۱۲ ، اسلام آباد
(۴۷) ’’عکاس ‘‘شمارہ ۱۷، مارچ ۲۰۱۳، اسلام آباد
(۴۸) ’’عکاس ‘‘شمارہ ۱۸، جولائی ۲۰۱۳، اسلام آباد
(۴۹) ’’فکر و تحقیق ‘‘( سہ ماہی )جلد۱۱، شمارہ ۱، جنوری ، فروری مارچ ۲۰۰۸، نئی دہلی
(۵۰) ’’فکر و تحقیق‘‘ ( سہ ماہی) جلد ۱۱، شمارہ ۴، اکتو بر ، نومبر، دسمبر ۲۰۰۸ نئی دہلی
(۵۱) ’’معیار‘‘ (تحقیق مجلہ) شعبہ اردو، بین الاقوامی یونیورسٹی جلد ۱، شمارہ ۲، جولائی ، دسمبر ، ۲۰۰۹ اسلام آباد
(۵۲) ’’معیار‘‘ (تحقیق مجلہ) شعبہ اردو، بین الا قوامی یونیورسٹی ، جلد ۲، شمارہ۱، جنوری ، جون ۲۰۱۰، اسلام آباد
(۵۳) ’’معیار‘‘ ( تحقیق مجلہ)شعبہ اردو، بین الا قوامی یونیورسٹی جلد ۲، شمارہ ۲، جولائی، دسمبر ، ۲۰۱۰ ، اسلام آباد
(۵۴) ’’معیار‘‘ ( تحقیق مجلہ) شعبہ اردو، بین الا قوامی یونیورسٹی شمارہ ۴، جولائی، دسمبر ۲۰۱۱
(۵۵) ’’معیار‘‘ ( تحقیق مجلہ) شعبہ اردو، بین الا قوامی یونیورسٹی شمارہ ۷، جنوری، جون، ۲۰۱۲، اسلام آباد
(۵۶) ’’معیار‘‘ ( تحقیق مجلہ) شعبہ اردو ، بین الا قوامی یونیورسٹی شمارہ ۸، جولائی ، دسمبر ، ۲۰۱۲، اسلام آباد
(۵۷) ’’معیار ‘‘( تحقیق مجلہ)شعبہ اردو، بین الا قوامی یونیورسٹی شمارہ ۹، جنوری ، جون، ۲۰۱۳ ، اسلام آباد
لغات
(۱) اُردو لغت (تاریخی اُصولوں پر) ( اُردو لغت بورڈ،کراچی۱۹۸۷ء)
(۲) تشریحی لغت ( مرتبین،اُردو سائنس بور،لاہورڈ،۲۰۰۱ء)
(۳) علمی اُردو لغت (وارث سر ہندی،علمی کتاب خانہ ،،لاہور۱۹۹۰ء)
( ۴) فرہنگ ِ آصفیہ (مولوی سید احمد دہلوی،ترقی اُردو بورڈ ،نئی دہلی۱۹۹۰ء)
(۵) قومی اُردو لغت ( ڈاکٹر جمیل جالبی، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد۲۰۰۲ء)
(۶ ) نور اللغات ( مولوی نور الحسن نیر،نیشنل بک فاونڈیشن،راولپنڈی۱۹۸۹ء)
(۷) ہندی اُردو لغت ( راجہ جیسور راؤ،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد۱۹۸۸ء)
فرہنگ ِ اصطلاحات (اُردو)
( ۸) فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ ( ڈاکٹر جمیل جالبی ،جامعہ عثمانیہ، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۱۹۹۱ء )
(۹) کشاف تنقیدی اصطلاحات (ابوالا عجاز حفیط صدیقی ،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد۱۹۸۵ء)
(۱۰) تنقیدی اصطلاحات (ڈاکٹر سلیم اختر،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور طبع ِ اول (۲۰۱۱ء)
اُصول ِ تحقیق
(۱) ابن ِکنول،تحقیق و تدوین۔کتابی دنیا،دہلی،مئی،۲۰۰۶ء
(۲) اسد فیض،اُردو تحقیق،مسائل و معیار،ہم عصر پبلی کیشنز،ملتان،۲۰۰۱ء
(۳) اعجاز راہی،ڈاکٹر،تحقیق اور اصولِ وضعِ اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۱۹۸۷ء
(۴) تبسم کاشمیری،ڈاکٹر،ادبی تحقیق کے اُصول،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۱۹۹۲ء
(۵) خلیق انجم،ڈاکٹر،متنی تنقید،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،۲۰۰۶ء،
(۶) رشید حسن خان،ادبی تحقیق،مسائل اور تجزیہ،علی گڑھ،ایجو کیشنل بک ہاؤس،نئی دہلی،طبع اول،۱۹۶۷ء
(۷) رفاقت علی شاہد،تحقیق شناسی،القمر انٹر پرائز ز،لاہور،۲۰۰۳ء
(۸) عطش درانی،ڈاکٹر،اُصول ِادبی تحقیق،نذیر سنز ایجوکیشنل پبلشرز،لاہور،۲۰۱۱ء
(۹) گیان چند،ڈاکٹر،تحقیق کا فن،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۲۰۰۲ء