مشرف عالم ذوقی عصر حاضر کے ایک ممتاز و مشہور فکشن نگار ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔انھوں نے ریاست بہار کے ضلع آرہ میں ایک علمی و ادبی خاندان میں آنکھیں کھولیں۔بچپن میں گھر والے پیار سے انھیں ـ’منا‘بلایا کرتے۔ان کے والد مشکور عالم ایک تعلیم یافتہ ،مہذب اور عزت دار شخص تھے وہ محکمہ تعلیم میںڈپٹی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کے عہدہ پر فائز تھے اس کے علاوہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کی کوششوں سے گھر میں مشاعروں کا اہتمام کیا جاتااور اس طرح ذوقی نے ایک علمی و ادبی ماحول میں پرورش پائی یہیں سے ان کو ادب سے دوستی ہوگئی اور وہ مدہم آواز میں اشعار گنگنانے لگے اس کے علاوہ ادب خصوصاًناول اور افسانوں وغیرہ کا مطالعہ بھی شروع کردیاوالد کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے بزرگ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہے جو ان کے لئے کارآمد ثابت ہوا۔
ذوقی کا بچپن اپنے آبائی گاؤں میں ہی گزرا ۔وہ سنجیدہ اور کم شرارتی تھے عام بچوں کی طرح کھیل کود میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن ایک خاص بات کہ وہ ہر کھیل میں اپنے ساتھی بچوں سے ہار جایا کرتے تھے انھیں بہت برا لگتا تھا کیونکہ ہارنا ان کو پسند نہیں تھااس لئے وہ بار بار کھیلتے تھے لیکن پھر ہار جایا کرتے۔ان کے دماغ میں ایک Ideaآیا اور انھوں نے قلم سے کھیلنے کا ارادہ کیا اس طرح بچپن کے کھیل اورشرارتوں کو ترک کرتے ہوئے سات سال کی عمر میںہی انھوں نے اپنے ہاتھ میں قلم تھام لیا اور یہ عہد کرلیا کہ اب اس کھیل میں کبھی نہیں ہاروں گا ۔انھوں نے بچپن میں اپنے ہم عمر بچوں سے دوستی کرنے کے بجائے قلم کو اپنا دوست بنا لیا اور آج تک ان کی یہ دوستی قائم ودائم ہے۔ ذوقی کو چونکہ شروع سے ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اس لئے بچپن میں ہی یہ طے کرلیا تھا کہ وہ بڑے ہوکر کہانی کار بنیں گے اوران کی زندگی کا یہ مقصد پورا بھی ہوگیا۔
ذوقی کی ابتدائی تعلیم گھر سے ہی شروع ہوئی ان کی تعلیم کا آغاز قرآن شریف سے ہوا ۔اس کے بعد ایچ ۔پی۔بی جین اسکول سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پاس کئے۔مہاراجہ کالج سے بی۔اے اور پھر مگدھ یونیورسٹی سے ایم۔اے تاریخ میں کیا اردو کے ساتھ ساتھ وہ ہندی،انگریزی اور فارسی زبانوں کی بھی اچھی معلومات رکھتے ہیں۔مشرف عالم ذوقی نے ادب کی شروعات شاعری سے کی ۔وہ اکثر میرؔ،غالبؔاور ذوقؔ کے اشعار گنگنایا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں ان کو اپنے والد کی طرف سے ذوقی کا خطاب ملا ۔ابتداء میں انھوں نے بہت سی نظمیں لکھیں لیکن وہ ان کو شائع نہیں کروا پائے البتہ ان کی ایک طویل نثری نظم ’لیپروسی کیمپ‘۲۰۰۰ میں شائع ہوئی لیکن ان کو شاعری سے زیادہ فکشن میں دلچسپی تھی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز محض تیرہ سال کی عمر میں ’’لمحہ رشتوں کی صلیب‘‘کہانی سے کیا ۔ان کا پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ہے جو سترہ سال کی عمر میں لکھا گیایکے بعد دیگرے ذوقی کے افسانوی مجموعے اورناول منظر عام پر آتے گئے اور وہ شہرت کی بلندیوںپر چڑھتے گئے۔’’بھوکا ایتھوپیا‘‘،’’منڈی‘‘،’’غلام بخش‘‘،’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘،’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘،’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘اور’’نفرت کے دنوںمیں‘‘ان کے اب تک شائع شدہ افسانوی مجموعے ہیں۔ذوقی نے جو ناول لکھے ان میں ’’عقاب کی آنکھیں‘‘،’’شہر چپ ہے‘‘،’’لمحہ آئندہ‘‘،’’نیلام گھر‘‘،’’بیان‘‘،’’مسلمان‘‘،’’ذبح‘‘،’’پو کے مان کی دنیا‘‘،’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘،’’لے سانس بھی آہستہ‘‘،’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘،’’نالہ شب گیر‘‘،’’اردو‘‘،’’اڑنے دو ذرا‘‘،’’سب سازندے‘‘اور’’سرحدی جناح‘‘شامل ہیں۔انھوں نے ڈرامے بھی لکھے ہیں جن میں ’’گڈ بائے راج نیتی‘‘،’’چار ڈرامے‘‘،’’آخری بیان‘‘اور’’ایک سڑک ایودھیا تک‘‘شامل ہیںمیں نے اپنے مقالہ میں اس بات کا بھی ذکر کردیا ہے کہ ذوقی نے بحیثیت پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی کام کیا ہے انھوں نے جو سیریلس بنائے ان میں ’’ورق ورق چہرہ‘‘،’’ابروئے غزل‘‘،’’جوالہ مکھی‘‘،’’ملت‘‘،’’رنجشیں‘‘،’’نشیمن‘‘،’’دوسرا رخ‘‘،’’مذہب نہیں سکھاتا‘‘،’’مقصد‘‘،’’الجھن‘‘،’’عجیب داستاں ہے یہ‘‘،’’رات،چاند اور چور‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیںجن مشہور ٹیلی فلموں کے لئے ذوقی نے کام کیا ان میں ’’پربت‘‘،’’دکھاوا‘‘،’’انجام‘‘،’’بندش‘‘،’’اک نیا موڑ‘‘،’’نصبن‘‘،’’سورج کا سفر‘‘وغیرہ اہم ہیں۔اس کے علاوہ ذوقی نے چند ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں ’’باپو کے سپنوں کا شہر‘‘،’’سنگیت ناٹک اکیڈمی‘‘،’’نیشنل اسکول آ ف ڈرامہ ‘‘وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ماس میڈیا کے لئے انھوں نے ایک کتاب ’’ٹیلی اسکرپٹ‘‘کے نام سے لکھی جو ابھی زیر طبع ہے ۔تنقید کے حوالے سے ذوقی کی دو کتابیں’’آب روان کبیر‘‘اور’’سلسہ روز وشب‘‘شائع ہوچکی ہیںاس کے علاوہ صحافت کے لئے بھی انھوں نے بہت کام کیا ۔ماہنامہ’’یوک دارا‘‘اور’’اردو جگت‘‘کے لئے ذوقی نے بطور ایسسٹنٹ ایڈیٹر کام کیا مختلف اخبارات اور رسائل میں ذوقی کے مضامین لگاتار شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں سیاسی،سماجی اور عصری ماحول کے علاوہ ادبی نوعیت کے مضامین بھی شامل ہوتے ہیں۔
ذوقی نے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے ہجرت بھی کی ۔۱۹۸۵ء میں وہ اپنا گھر بار اور آرہ چھوڑ کر دہلی چلے گئے وہاں شروع شروع میں ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور بہت کم عرصہ میں اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہوئے۔دوردرشن سے وابستہ ہوئے اور اس وقت کے مشہور رسائل میں لکھنا شروع کیا پھر آہستہ آہستہ ترقی کے زینے چڑھتے گئے اور شہرت بھی ملنے لگی اس طرح وہ ایک عمدہ فکشن نگار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ذوقی اپنے والد کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو اپنا Idealبنا لیا اپنے ابا کے کہانی کہنے کا انداز ان کو بہت پسند تھا اس کے علاوہ روسی ادیبوں سے بھی وہ کافی متاثر نظر آتے ہیںچونکہ روسی ادب ان کے مطالعہ کا حصہ رہا یہی وجہ ہے کہ الیگزینڈر دوستوفسکی،لیو تالستائے،ورجینا ولف،میکسم گورکی وغیرہ ادیبوں کا اثر ان کے ادب میں دیکھنے کو ملتا ہے ان کی تخلیقات میں جو فلسفیانہ رنگ پایا جاتا ہے وہ روسی ادیبوں کی ہی دین ہے اس کے علاوہ اقبالؔاور غالبؔکی شاعری سے بھی ذوقی حد درجہ متاثر ہیں تاہم یہ بھی درست ہے کہ انھوں نے ادبی مقصد کے لئے اپنے لئے ایک الگ راستہ چنا وہ کسی کے دباؤ میں آکر نہیں لکھتے بلکہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا تحریری پیرایہ میں اظہار کرتے ہیں اور وہ آج بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کا شمار ۱۹۸۰ء کے بعد کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے ۔۸۰ کے آس پاس کہانی کی واپسی ہوئی اور جدیدیت اپنا وجود کھونے لگی۔تا ہم کچھ ادیب جدیدیت کی روش پر قائم رہے اور کچھ خود کو جدیدیت کے دائرے میں نہیں رکھ پائے اور کہانی کی طرف لوٹ آئے۔ان تمام ادیبوں نے اپنے عہد کے مسائل کو کس طرح سمجھا اور پھر کیسے فن کے پیرایہ میں پرویا یہ ایک دلچسپ مسئلہ ہے ۔چنانچہ ذوقی کے فن کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے اس دور کے مسائل کے علاوہ ان کے معاصرین کا مطالعہ بھی ضروری ہوجاتا ہے تاکہ ذوقی کے فن کی انفرادیت کا پتہ چل سکے۔اس حوالے سے فکشن نگاروں کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے تاہم میں نے ان میں سے چند اہم ادیبوں کی تخلیقات اوران کے فن پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ان میں شموئل احمد کے افسانوی مجموعے ’بگولے‘اور’سنگھاردان‘اور ان کے دو ناول’ندی‘اور’مہاماری‘کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔رحمٰن عباس کے ناولوں میں ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘اور’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘خصوصی اہمیت کے حامل ہیںان کا شماراکیسویں صدی کے بلند پایہ ناولوں میں آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔الیاس احمد گدی کے ناول ’’فائر ایریا‘‘کو کافی شہرت ملی۔اس ناول کو مقبول بنانے میں کردارنگاری،زبان اور تکنیک کا بہت بڑا رول ہے۔اس سلسلے میں نورالحسنین کا افسانوی مجموعہ’’گڑھی میں اترتی شام‘‘اور ان کا ناول ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
اقبال مجید نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی۔’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘اور’’ تماشاگھر‘‘ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔ناول نگاری میں ان کو زیادہ شہرت ملی۔’’کسی دن‘‘اور’’نمک‘‘ان کے دو کامیاب ناول ہیں جن میں انھوں نے اپنے عہد کے مسائل پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔اس ضمن میں اشرف شاد کے تین ناول’’بے وطن‘‘،’’وزیر اعظم‘‘اور’’صدراعلٰی‘‘بھی اہمیت کے حامل ہیں انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ پاکستانی معاشرہ کے مسائل کو اجاگر کیا ہے لہٰذا اگر کسی کو آج کے پاکستان کا چہرہ دیکھنا ہو تو وہ ان ناولوں کا مطالعہ ضرور کرے۔پیغام آفاقی ذوقی کے ہم عصروں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔انھوں نے ناول ’’مکان‘‘لکھ کر شہرت دوام حاصل کی۔اس کے علاوہ ’’پلیتہ‘‘بھی ان کا ایک کامیاب ناول ہے۔عبدالصمد عصر حاضرمیں ایک کامیاب فکشن نگارکے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ان کے پانچ سے زائد افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں ’’بارہ رنگوں والا کمرہ‘‘،’’پس دیوار‘‘ اور’’سیاہ کاغذ کی دھجیاں‘‘وغیرہ شامل ہیں ناول نگاری میں ان کو ’’دو گز زمین‘‘ کی وجہ سے شہرت ملی۔اس ناول کے لئے انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا۔یہ تحریک آزادی اور تقسیم کے المیہ پر مبنی ایک فکر انگیز ناول ہے جو ذات پات کی ہولناکیوں کا درد بھرا تجزیہ پیش کرتا ہے اس کے علاوہ ’’مہاتما‘‘،’’خوابوں کا سویرا‘‘،’’دھمک‘‘اور’’مہا ساگر‘‘وغیرہ بھی عبدالصمد کے اہم ناول ہیں ۔حسین الحق عصر حاضر کے ایک اور فکشن نگار ہیں ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’پس پردہ شب‘‘،’’گھنے جنگلوں میں ‘‘،’’مطلع‘‘اور’’سوئی کی نوک پر رکا لمحہ‘‘منظر عام پر آکر داد تحسین وصول کرچکے ہیں۔ان کے افسانوں میں کا ایک بڑا حصہ تاریخی حقائق پر مبنی ہے وہ اپنی کہانیوں میں تاریخی سچائیوں کو ادھیڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کے دو ناول ’’بولو مت چپ رہو‘‘اور’’فرات‘‘ہے۔ان میں ’’فرات‘‘کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔اس ناول میں تقسیم ملک ،فسادات اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے حوالے سے تلخ حقائق اور مسائل کو بڑی فنکاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں غضنفر کا نام بھی اہم ہے ۔’’خالد کا ختنہ‘‘،’’سانڈ‘‘ اور’’دل کی دیوار‘‘ان کے مشہور افسانے ہیں انھوں نے کئی ناول لکھے جن میں ’’پانی‘‘،’’کینچلی‘‘،’’کہانی انکل‘‘اور ’’دویہ بانی‘‘کافی مشہور ہوئے۔’’دویہ بانی‘‘غضنفرکے دیگر ناولوں سے موضوع ،زبان اور قصہ کی گہرائی اور انفرادیت کی بنا پربالکل الگ ہے اس ناول میں ہندوستان کے عصری ثقافتی منظر نامے کو تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔۱۹۸۰ء کے بعد کے فکشن نگاروں میں شفق کا مقام بھی کافی بلند ہے ۔’’سمٹتی ہوئی زمین‘‘،’’شناخت‘‘اور’’وراثت‘‘ان کے افسانوی مجموعے ہیں ۔’’کانچ کا بازیگر‘‘ان کا پہلا ناول ہے اس کے علاوہ ’’بادل‘‘اور’’کابوس‘‘بھی ان کے اہم ناول ہیں۔ترنم ریاض ر یاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی ممتاز فکشن نگار ہیں افسانہ اور ناول کے علاوہ صحافت،تنقید اور شاعری کے میدان میں بھی وہ اپنی ادبی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکی ہیں ۔’’یہ تنگ زمین‘‘،’’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘‘،’’یمبرزل‘‘اور ’’مرا رخت سفر‘‘ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں ان کے افسانوں میں نئی بدلتی ہوئی عورت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ان کے دو ناول ’’مورتی‘‘اور’’برف آشنا پرندے‘‘منظر عام پر آچکے ہیں۔ترنم کے ناولوں میں ہندی،پنجابی اور انگریزی کے الفاظ کا حسین امتزاج ملتا ہے۔اس سلسلے میں آنند لہر ؔ کا نام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے ’’سرحدوں کے بیچ‘‘ان کا پہلا ناول ہے اس میں انھوں نے ہندوستان کی تقسیم اور سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والے لوگوں کی پریشانیوں کا خلاصہ پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ ’’اگلی عید سے پہلے‘‘،’’مجھ سے کہا ہوتا‘‘اور’’یہی سچ ہے‘‘ان کے اہم ناول ہیں ۔ان کے یہاں فلسفیانہ انداز و اسلوب کی فراوانی ہے انھوں نے زندگی کی سچائیوں کی بھرپور ترجمانی کی ہے ۔مذکورہ فکشن نگاروں کے علاوہ ابن کنول،طارق چھتاری،ساجدہ زیدی،شائستہ فاخری،انور خان،انجم عثمانی وغیرہ بھی کئی اہم نام ہیں جنھوں نے اردو فکشن کی آبیاری کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
۱۹۸۰ء کے بعداردو ناول نگاری میں ذوقی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی ناول لکھ کر اردو ادب کے خزانے میں ایک گراں قدر اضافہ کیا ہے ۔’’عقاب کی آنکھیں‘‘ان کا پہلا ناول ہے اس کے بعد ’’شہر چپ ہے‘‘،’’لمحہ آئندہ‘‘اور’’نیلام گھر‘‘ان کے ابتدائی دور کے ناول ہیں جو اس وقت شائع نہیں ہوسکے۔ ۱۹۹۲ء میں ان کاناول’’مسلمان‘‘شائع ہوا جس کی وجہ سے وہ ادبی حلقے میں بطور ناول نگار اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔’’مسلمان‘‘ایک ایسا ناول ہے جس میں ذوقی نے ایک طوائف کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کیا ہے ۔تقسیم ملک کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو جس طرح زد و کوب کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ان کو اپنے ہی ملک میں جینے مرنے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے وہ لاکھ صفائی پیش کریں لیکن پھر بھی شک کے گھیرے میں ہیں ۔آج صورت حال یہ ہے کہ ان کی زندگی کو اتنا تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ سانس لینے سے بھی گھبراتے ہیں ۔ذوقی نے انھیں مسائل اور امور پر قارئین کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے ۔افروز اس ناول کا ایک زندہ کردار ہے ۔کہانی پڑھنے کے بعد قاری کو اس لڑکی کے حوصلہ اور ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کیونکہ جن حالات کا سامنا کرتے ہوئے وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچتی ہے ایک دلیر مرد کے بھی بس کی بات نہیں۔ایک لڑکی ہونے کے باوجود اس نے کئی جوکھم اٹھائے وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر گناہ گاروں کو انصاف کے کٹہرے تک لے آتی ہے اور یہ یقیناً ایک بڑی بات ہے ۔دوسری طرف ذوقی نے مسلم مردوں کی بزدلی کو بھی صاف طور پر عیاں کردیا ہے ۔یہ دراصل جاگیردارانہ نظام کے زوال کا اثر ہے جس نے اس معاشرے کے افراد کو کاہل،بے کار اوربے حس بنادیا ۔عورتوں کا پردے سے باہر نکل کر بغاوت کا راستہ اختیار کرنا بھی اسی زوال پذیر معاشرے کی دین ہے ۔اس ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ذوقی نے اس میں سیکولرازم کی موت کا المیہ پیش کیا ہے ۔گویا انھوں نے دو سیکولر پسند دوستوں کے تعلق سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم چاہے سیکولر ہونے کا کتنا ہی دعوہ کرلیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اندر سے ہم سب مذہبی کٹر واد کے کیڑے ہیں ۔شعیب اور ونئے گہرے دوست ہیں ۔دونوں سیکولر سوچ رکھتے ہیںفرقہ وارانہ فسادات کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ایک ہی روم میں رہتے ہیںلیکن پھر بھی ایک دوسرے سے اندر ہی اندر خوفزدہ ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میں سے ایک ہندو اور دوسرا مسلمان ہے اسی کشمکش میں شعیب ونئے کا قتل کرکے سیکولرازم کو موت کی نیند سلا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں اسے نہیں مارتا تو وہ مجھے ماردیتا ۔ پلاٹ،کردارنگاری اور زبان و بیان کے حوالے سے یہ ایک نہایت ہی اہم ناول ہے اس کے مکالمے بھی قاری کو کافی متاثر کرتے ہیں۔ذوقی کا ایک اور ناول ’’بیان‘‘بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔اس ناول کے شائع ہونے سے ذوقی کو کافی شہرت ملی۔یہ ناول سلگتے ہوئے ہندوستان کی روداد ہے ۔’’بیان‘‘۶دسمبر ۱۹۹۲ء کے شرمناک اور گھناؤنے واقعہ کی تصویر کشی کرتا ہے۔اس میں بیک وقت کئی اہم اور بڑے مسائل کی طرف قارئین کو متوجہ کیا گیا ہے۔ذوقی نے اپنے اس ناول میں دیگر مسائل کے علاوہ فرقہ پرستی کے مسئلے کو بھی ابھارنے کی کوشش کی ہے اور نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ انتہائی بولڈ انداز میں سچ کو سامنے لایا ہے ۔اس ناول کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں آزادی سے لے کر بابری مسجد کے شہید ہونے کے قبل تک کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور سیاسی ماحول کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوانات کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’بیان‘‘میں کئی راز فاش کئے گئے ہیں مثلاً فساد کون کرتا ہے؟کیوں کراتا ہے؟کس کس طرح سے کراتا ہے یا ان کے کیا مقاصد ہوتے ہیں؟ان سب سوالوں کی ذوقی نے بھرپور وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے انجام سے بے پرواہ ہو کر ایک مجاہد کی طرح ہاتھ میں قلم اٹھا کر فرقہ پرست اور دھوکے باز پارٹیوں کے نام لے کر ان کے چہروں سے جھوٹ کا نقاب اتارا ہے اور ان کی اصلیت کو سب کے سامنے لایا ہے۔فنی اعتبار سے ’’بیان‘‘ذوقی کے شاہکار ناولوں میں سے ایک ہے۔
’’پوکے مان کی دنیا‘‘جدید دور میں سائنس اور ٹکنالوجی سے پیدا شدہ مسائل کی ترجمانی کرتا ہے ۔اس ناول میں سائبر کرائم اور انٹرنیٹ کے منفی اثرات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔آج بچے وقت سے پہلے جوان ہورہے ہیں وہ ایک خطرناک اڑان بھر رہے ہیں اور تباہی کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں ۔سلونی اور روی کنچن کے ساتھ جو ہوا وہ انٹرنیٹ کی ہی دین ہے ۔ناول میں جنریشن گیپ اور اخلاقیات کے المیہ کو نہایت ہی موثر طریقہ سے پیش کیا گیا ہے ۔دلت اور نچلے طبقہ کے لوگوں کو ہندوستان میں جس طرح استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اس ناول میں صاف طور پر عیاں ہوجاتا ہے ۔آج کا میڈیا سیاست کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر جھوٹ اور غلط بیانی کا جو گھٹیا اور گھناؤنا کام انجام دے رہا ہے مصنف نے اس سے بھی قارئین کو با خبر کردیا ہے ۔پلاٹ،کہانی اور کردارنگاری کے اعتبار سے یہ ایک عمدہ ناول ہے جو نئی صدی کے مسائل سے قارئین کو آگاہ کرانے میں کامیاب نظر آتا ہے۔
’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ایک طویل ناول ہے ۔اس میں سونامی کو علامت بنا کر بہت سے مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ناول کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ نئی صدی میں انسان کی حیثیت محض ایک شے کی سی ہے جس کو کوئی بھی طاقتور جب ،جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے ۔پروفیسر ایس کے کردار کے ذریعہ ذوقی نے جس طرح Ultra humanکا Conceptپیش کیا ہے وہ ایک زندہ حقیقت ہے ۔مصنف نے ادبی مافیا کا بھی پردہ فاش کیا ہے جو ادب کو ایک کاروبار کی طرح خریدنے اور بیچنے کا کام انجام دے رہا ہے ۔پروفیسر ایس کا کردار ہی اس ناول کی پہچان ہے یہ ایک سفاک ،مغرور اور جذبات و احساسات سے عاری کردار ہے اس میں خامیاں ہی خامیاں ہیں ۔ذوقی نے اس کردار میں بیک وقت کئی برائیاں جمع کردی ہیں جس کی وجہ سے قاری کو اس سے سخت نفرت ہوجاتی ہے ۔لیکن مطالعہ کے بعد یہی کردار ہے جو قاری کے ذہن پر نقش کرجاتا ہے ۔پروفیسر ایس کی شخصیت اوراس کے حرکات و اعمال کے بیان پر ذوقی کے قلم کی پکڑ بہت مضبوط ہے ۔اس کردار کو تراشنے اور بنانے میں ذوقی نے خوب محنت کی ہے لہٰذا میرے خیال میں پروفیسر ایس ذوقی کا ہی نہیں بلکہ اردو ادب کا ایک بے مثال کردار ہے۔سونامی کے بیان پر ذوقی نے کافی طوالت سے کام لیا ہے اور کئی بار تو ا س پر رپورٹنگ کا گمان ہونے لگتا ہے اس سے بلاشبہ ناول کا فن مجروح ہوتا ہے ۔طویل ناول ہونے کی وجہ سے اس کا پلاٹ بھی کمزور ہے اس پر مصنف کو غور کرنے کی ضرورت تھی۔زبان وبیان ،منظر نگاری اور کرداروں کی پیشکش کے اعتبار سے یہ ایک اچھا ناول ہے۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘بنیادی طور پر باپ اور بیٹی کے جنسی رشتے کی ایک بھیانک اور المناک داستان ہے۔اس کے علاوہ یہ ناول اپنے اندر کئی سطحیں رکھتا ہے اس میں تقسیم ہند کا المیہ،تہذیبوں کا تصادم،جاگیردارانہ نظام کا زوال،توہم پرستی،وقت اور قدرت کا جبر،انسانی رشتوں کا ماتم،قدروں کی پامالی،انٹرنیٹ اور گلوبلائزیشن کے مضر اثرات وغیرہ کو مصنف نے بڑی باریکی سے فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔یہ ناول پلاٹ اور کردارنگاری کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔نور محمد کا کرداراس ناول کی روح ہے ذوقی نے اس کردار کو تراشنے میںاپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے۔نور محمد بلاشبہ موجودہ اردو فکشن کا ایک نمائندہ کردار کہا جاسکتا ہے ۔اس ناول میں انگریزی مکالموں کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کچھ پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے اور انگریزی نہ جاننے والے قاری کو ناول پڑھتے وقت مشکل پیش آتی ہے۔ناول میں محاورے کا برمحل استعمال کیا گیا ہے بعض محاورے اور الفاظ غلط اور بے معنی بھی ہیں۔تاہم ناول کو مقبول بنانے میں ذوقی کے داستانوی اسلوب،صاف،سادہ اور دلکش نثر اور اسلوب بیان کی پاکیزگی اور سادگی کو بڑا دخل ہے۔
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ہندوستانی مسلمانوں کی درد ناک داستان ہے جس میں ان کی زندگی کے ایسے خوفناک مسائل پیش کئے گئے ہیں کہ انسان جینے سے توبہ کرنے لگتا ہے ۔ہندوستانی حکومت اور فرقہ پرست تنظیمیں مل کر جس طرح کے حربے استعمال کرکے مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں اس بات کا اندازہ یہ ناول پڑھنے کے بعد بخوبی ہوجاتا ہے۔اس سے پیشتر مسلمانوں کے زمینی مسائل کو اس قدر نڈرتا سے شاید ہی کسی ناول میں بیان کیا گیا ہو۔دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔گھر،مسجد،اسکول،کالج،بازار،پولیس اسٹیشن،ریلوے اسٹیشن ہو یا کوئی اور جگہ انھیں مختلف طریقوں سے حراساں اور زد و کوب کیا جاتا ہے ۔چاہے وہ بچہ ہو،جوان ،عورت یا بزرگ فرقہ پرست طاقتیں ان کو اذیت دینے اور پریشان کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔اس ناول کی کہانی ایک سولہ سال کے نوجوان لڑکے اسامہ کے اردگرد گھومتی ہے جو نماز پڑھنے کے لئے اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے مسجد جاتا ہے اور راستہ میں ایک شریر پولیس کرمچاری ان پر فقرے بازی کرتا ہے اور یہیں سے ان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر معاملے کو طول دے کرراشد اور منیر کو ایک فرضی انکاؤنٹر میں موت کے گھاٹ اتار کر انھیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔علوی کو گرفتار کرکے جیل میں دردناک تکلیفیں دی جاتی ہیں اور اسامہ ڈر کے مارے گھر چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے اسی طرح کئی مسائل سے پردہ اٹھاتے ہوئے یہ ناول اختتام کو پہنچتا ہے اور قاری کو جھنجھوڑکر رکھ دیتا ہے۔لیکن ناول پڑھنے کے بعد قاری سوالات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے ۔مصنف نے جس خوبصورتی سے کہانی کی ابتداء کی تھی اس کو انجام تک پہنچانے میں چونک جاتے ہیں۔بہت سی باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں شاید وہ اس کو قارئین پر چھوڑ دینا چاہتے ہوں کہ وہ ان کا جواز خود ڈھونڈیں۔دیگر ناولوں کے مقابلہ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘پلاٹ کے اعتبار سے بھی ایک کمزور ناول نظر آتا ہے کیونکہ یہ ایک طویل ناول ہے اور واقعات زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ترتیب میں کہیں نہ کہیں جھول پیدا ہوا ہے جس سے قاری کو اصل کہانی سمجھنے میں تھوڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کو دوسری بار مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اس ناول میں کردار اتنے زیادہ ہیں کہ قاری Confuseہوجاتا ہے وہ سمجھ نہیں پاتا کہ کون سا کردار کس کردار کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے ۔پھر بھی کچھ کرداروں پر مصنف نے محنت کرکے ان کو فعال اور متحرک بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے اور وہ کردار قاری کے ذہن پر نقش کرجاتے ہیں ۔اسامہ ہندوستانی مسلم نوجوانوں کا نمائندہ کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے جو ذہنی اور نفسیاتی طور پر ظالم اور فرقہ پرست سسٹم سے سخت نفرت کرتا ہے لیکن اس کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے گھر سے بھاگ کر فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔آج زیادہ تر مسلم نوجوان اسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں۔ارشد پاشا ایک باپ ہے اور وہ ان ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے جوان ہوتے بیٹوں کی وجہ سے اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کو کبھی بھی ان سے جدا کیا جاسکتا ہے اور یہ صدمہ ان کو اندر ہی اندر اتنا کمزور کردیتا ہے کہ وہ مختلف طرح کے ذہنی انتشار سے دوچار ہوجاتے ہیں۔اسی طرح ذوقی نے اجے سنگھ تھاپڑ کے کردار کو پیش کیا ہے جو دوستی کی آڑ میں سنگھ کے گھناؤنے کام کو انجام دیتا ہے ۔بظاہر ایک سچا دوست،ہمدرد اورہر موڑ پر ساتھ دینے والا شخص اتنا نیچ اور گھٹیا ہوسکتا ہے انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ذوقی نے اس کردار کے ذریعہ ایسے ہی پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔یہ ناول اپنے موضوع کی وجہ سے ادبی حلقے میں بحث کی وجہ بنا ہوا ہے۔’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘مسلمانوں کے مسائل پر لکھا گیا ایک عمدہ ناول ہے ۔مسلمانوں کے مسائل اور شناخت پر اتنے بڑے کینوس پر کسی ناول کا لکھا جانا حیران کن بات ہے۔ صحیح معنوں میں یہ ناول آزادی کے ۶۷ برسوں کی درد ناک داستان ہے۔ اس المیہ کا لکھ پانا ایک مشکل ترین کام ہے جو ہر کسی ادیب کے بس کی بات نہیں۔لیکن ذوقی جیسا فنکار اس طرح کی تخلیقات لکھنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ ناول وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے اور نہ صرف سنجیدہ مطالعہ کی مانگ کرتا ہے بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک تحریک ہے ۔جب بھی بڑے مسائل پر لکھے گئے بڑے ناولوں کا ذکر ہوگا تو ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘کو ضرور یاد کیا جائے گا۔
مشرف عالم ذوقی کو اردو افسانہ نگاری میں ایک خاص مقام حاصل ہے ۔بے شمار کہانیاں اور چھ افسانوی مجموعے ان کے نام سے منسوب ہیں انھوں نے گیارہ سال کی چھوٹی عمر سے ہی افسانے لکھنا شروع کردیا تھا ۔ان کا پہلا افسانہ’’لمحہ رشتوں کی صلیب‘‘ہے یہ کہکشاں ممبئی میں۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ذوقی اپنی کہانیوں کو شروع سے ہی اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے بدلتے رہے ہیں ۔۱۹۸۰ء سے پہلے لکھی گئی کہانیوں کے مطالعہ سے ذوقی کے جذبات اور ان کی حساس طبیعت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان کہانیوں میں ذوقی کا گھر ،آنگن،بیوی،بچے اور ان کا شہر آرہ بھی موجود ہے اس کے علاوہ انھوں نے کچھ افسانوں میں اپنے گاؤں کی منظر کشی بھی کی ہے ۔ان افسانوں میں ’’وحشت کا بائیسواں سال‘‘،’’مجھے موسم بننے سے روکو‘‘،’’سات کمروں والا مکان‘‘،’’پینتالیس سال کا سفرنامہ‘‘،’’اللہ ایک ہے،پاک اور بے عیب ہے‘‘،’’چوپال کا قصہّ‘‘وغیرہ شامل ہیںجن میں ذوقی کی حساس طبیعت اور جذبات کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتاہے۔مشرف عالم ذوقی کی ۱۹۸۵ء سے۱۹۹۵ء تک کی کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب ہے۔ان کی افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز’’بھوکا ایتھوپیا‘‘(۱۹۹۳)کی اشاعت سے سے ہوا۔یہ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔’’بھوکا ایتھوپیا‘‘کی تمام کہانیوں میں اس دور کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کا عکس بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے یہ کہانیاں تقسیم کے بطن سے جنمی ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ ذوقی نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں سے غلامی،آزادی اور تقسیم کی مختلف داستانیں سنتے آئے تھے۔حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے غلامی کا تصور بھی ان کے لئے کسی اذیت سے کم نہ تھا اور چونکہ آزادی کے بعد ہونے والے دنگوں اور فسادات نے بھی ان کو ہلاکر رکھ دیا تھا اس لئے یہی درد اور احساس ان کے افسانوں میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس مجموعے کی بیشتر کہانیاں فسادات کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں جو آگ اگلتی ہوئی نظر آتی ہیں اس کے علاوہ سماج،سیاست اور شہری زندگی کے مسائل پر مبنی کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو قاری کو حد درجہ متاثر کرتی ہیں ۔’’مت رو سالک رام‘‘،’’ہجرت‘‘،’’ہندوستانی‘‘،’’سورباڑی‘‘،’’بھوکا ایتھوپیا‘‘،’’بچھو گھاٹی‘‘اور ’’جلا وطن‘‘اس مجموعے کی بہترین کہانیاں ہیں۔
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘کے بعد ’’منڈی‘‘(۱۹۹۷ء)مشرف عالم ذوقی کے افسانوی سفر کا دوسرا اہم پڑاؤ تھااس طرح چار سال کے درمیانی وقفے نے ذوقی کے سوچنے کے انداز کو بھی بدل ڈالا جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک نظریاتی بدلاؤ پیدا ہوگیا۔’’منڈی‘‘کی شروعاتی دس کہانیاں ذوقی کے مزاج اور آئیڈیالوجی کے اعتبار سے کافی مختلف ہیں۔اس مجموعے میں ذوقی نے اپنے اسلوب کو بھی کافی حد تک بدل دیا۔’’منڈی‘‘میں ہمیں ذوقی کا باغی چہرہ نظر آتا ہے وہ ادب کے بازار میں سجائی گئی منڈی کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور ان بیوپاریوں(ناقدوں)کی کڑے الفاظ میں مذمت کی ہے جو شر عام ادب کی بولی لگاکر اس کا سودا کرتے ہیں ۔موضوعی اعتبار سے اس مجموعے کی تمام کہانیاں مختلف ہیں بعض کہانیاں جذبات کے شعلے اگلتی ہوئی نظر آتی ہیں تو بعض شبنمی ٹھنڈک کا احساس جگاتی ہیں ۔یہ بھی صحیح ہے کہ یہ کہانیاں ترقی پسندی کی زمین پر جدیدیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے کی کچھ کہانیوں کو ذوقی نے رد کردیا۔ذوقی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کسی نظرے یا ازم کی نمائندگی نہیں کرتے جبکہ ’’منڈی‘‘میں ان کی بیشتر کہانیاں جدیدیت سے وابستہ ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ انھوں نے کبھی اس رحجان سے وابستہ موضوعات مثلاًبے چارگی،تنہائی،کرب ذات اور فرد کے وجودی مسائل وغیرہ کو مقلدانہ طور پر نہیں برتا۔مختلف علامتوں کے سہارے انھوں نے ان موضوعات کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس سے نئے زمانے کی المناک حقیقتوں کے اہم پہلوؤں کا پتہ چلتا ہے۔’’ٹیلی فون‘‘،’’حیران مت ہو سنگی مترا‘‘،’’بھنور میں ایلس‘‘،’’بچھونا‘‘ اور ’’لیپروسی کیمپ‘‘اس مجموعے کی مشہور ومقبول کہانیاں ہیں۔
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ اور’’منڈی‘‘کے بعد ’’غلام بخش‘‘،’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘اور’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘تک فن،فکر اور اسلوب کے اعتبار سے ذوقی کی کہانیوں میں اور بھی نکھار پیدا ہونے لگا ۔’’منڈی‘‘میں جہاں اسلوب اور احساس کی زیریں لہریں حاوی تھیں وہیں ’’غلام بخش‘‘میں کردار اور واقعات پر زور دیا گیا۔اس مجموعے کی کہانیاں تقسیم ہند کے واقعات پر لکھی گئی ہیں ان افسانوں میں تقسیم کے بعد عوام کی بدحالی اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات کے ذریعہ انسانی برادری کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مجموعے میں شامل بیشتر کہانیاں ترقی پسند رحجان کی عکاسی کرتی ہیں۔دراصل ذوقی اپنے ملک کے سیاسی،سماجی اور مذہبی حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اس سلسلے میں ان کا مشاہدہ کافی تیز ہے۔ وہ ہر طبقہ کے عوام کے ذہنی و نفسیاتی کیفیات کو بخوبی سمجھتے ہیں مذکورہ افسانوی مجموعہ کچھ اسی طرح کے حقائق پر مبنی کہانیوں پر مشتمل ہے جن کو پڑھنے کے بعد قاری متاثر ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔’’غلام بخش‘‘،’’بٹوارہ‘‘،’’حادثہ‘‘،’’اقبالیہ بیان‘‘،’’لاش گھر‘‘اور ’’حد‘‘ا س مجموعے کی بڑی اوراہم کہانیاں ہیںیہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ’’غلام بخش‘‘کی کہانیاں گھسی پٹی ترقی پسند کہانیاں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک بھیانک Ideologyکی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔’کہانی’اقبالیہ بیان‘‘ہندوستان کے ایک بھیانک دور کا المیہ ہے جب TADAکے تحت مسلمانوں کو گرفتار کیا جارہا تھا اور ان سے زبردستی دہشت گرد ہونے کا اقبالیہ بیان لئے جارہے تھے ۔TADAجیسے حساس موضوع پر اس سے بھیانک کہانی نہیں لکھی جاسکتی۔یہ کہانی قاری کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے ذوقی نے ایک گھنونے سچ کا پردہ فاش کیا ہے ۔’’غلام بخش‘‘کی دوسری کہانیاں بھی سچ کے اسی پل صراط سے گزرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘ذوقی کا شاہکار افسانوی مجموعہ ہے جس میں مصنف نے سماج اور معاشرے کو آئندہ پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی ایک قابل ستائش کوشش کی ہے۔دراصل یہ کہانیاں اکیسویںصدی کے مسائل اور Challengesپر محیط ہیں۔یہ مجموعہ صارفی کلچر،صنعتی نظام،انٹرنیٹ،گلوبلائزیشن،سائنس اور ٹکنالوجی کی ہولناکی کا ہلکا سا عکس ہے ۔یہ تہذیب وتمدن کی پامالی،اخلاقیات کا المیہ اور رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے کی کہانیاں ہیں جہاں پاکیزہ رشتوں کا آئے دن خون ہوتا ہے۔’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘ کی کہانیاں سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک ایسا ارتعاش پیدا کرتی ہیںجس سے سارے رشتے چیتھڑے چیتھڑے ہوکر محض جسم بن کر رہ جاتے ہیں۔ذوقی نے اپنے قارئین کو جانگھوں اور ناف سے نیچے والے حصوں کے لرزہ خیز واقعات کی زیراکس کاپی دکھائی ہے اور حیرت انگیز نتائج کو سامنے لایا ہے ۔یہ ایک تلخ سچائی ہے جس کی داغ بیل پڑ چکی ہے لیکن ہمارے سماجی نظام میں ان حقائق کا ذکر کرنا بھی غیر مہذب اورممنوع سمجھا جاتا ہے پھر اس طرح کے گناہوں میں ملوث قصورواروں کو سزا دینے کی بات تو بہت دور کی ہے ۔ذوقی کے اس افسانوی مجموعے کے مطالعہ کے بعد یہ بات پوری طرح صاف ہوجاتی ہے کہ انھوں نے تیزی سے بدلتی دنیا کے تمام تر تاثرات کو بڑی شدت سے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ انسانی وراثت کی گمشدگی کا اپنی کہانیوں کے ذریعہ چیخ چیخ کر اعلان کیا ہے۔’’باپ بیٹا‘‘،’’دادا اور پوتا‘‘،’’کاتیائین بہنیں ‘‘،’’بوڑھے جاگ سکتے ہیں‘‘اور’’اصل واقعہ کی زیراکس کاپی‘‘اس مجموعے کی انتہائی حساس اور حیرت انگیز کہانیاں ہیں جو قارئین کو نہ صرف غور وفکر کی طرف راغب کرتی ہیں بلکہ انہیں کافی عرصہ تک اپنی گرفت میںلیے رکھتی ہیں۔
ذوقی کا ایک اور افسانوی مجموعہ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘ہے اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے بیشتر افسانے نئے موضوعات اور نئی کیفیات کو اجاگر کرتے ہیں ۔یہ بات میں نے اس لئے کہی کیونکہ اسی موضوع پر لکھی گئی کسی اور مصنف کی کہانی پڑھتے ہوئے میں خود کو اتنا حیران یا دہشت زدہ ،اتنا جذباتی اور بدلا ہوا محسوس نہیں کرتا جتنا کہ ذوقی کے افسانے کوپڑھتے ہوئے۔ان کی کہانی ’’فزکس،کیمسٹری ،الجبرا‘‘اس بات کا پختہ ثبوت ہے۔یہ کہانی قاری کو صرف متاثر ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی آنکھوں کے سامنے کی حقیقت کو دکھا کر ہکا بکا ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔کہنا پڑے گا کہ ذوقی اپنی کہانیوں کے ذریعہ ایسی ایسی دنیائیں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔عورت کے کردار کے مختلف رنگ اس مجموعے میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہانی در کہانی وہ ایک نیا روپ لے کر اپنے وجود اور اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔اور پہلے سے بڑھ کراپنے جادوئی جلوؤں سے قاری کو مسحور کرنے میں کامیاب نظرآتی ہے۔ذوقی نے عورت کو مختلف زاویوں سے دیکھنے،پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے ان کے یہاں عورت کا تصورایک نئے اندازمیں جلوہ نما ہے ۔اس کے علاوہ اس مجموعے کے چند گجرات کی تباہی کے پس منظر میں بھی لکھے گئے ہیں جو حساس انسانوں کے دلوں پر کاری ضرب لگانے کا کام کرتے ہیں کیونکہ جتنے بھی لوگ گجرات حادثے کا شکار ہوئے ان کو طرح طرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا۔بہر حال اس مجموعے کے افسانے زندہ،متحرک اور باکردار ہیں جن سے قارئین متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے اور یہی ایک اچھے افسانہ نگار کی دلیل ہے۔’’فزکس ،کیمسٹری،الجبرا‘‘،’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘،’’انکیوبیٹر‘‘،’’بیٹی‘‘اور’’بھورے بالوں والی لڑکی‘‘اس مجموعے کی بہترین کہانیاں ہیں۔
’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘ذوقی کا چھٹا افسانوی مجموعہ ہے اس کے عنوان سے ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس میں شامل کئی کہانیاں خوف و ہراس اور دہشت پر مبنی ہیں ۔ان افسانوں میںمسلمانوں کے مسائل کو نہایت ہی فنکارانہ طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس مجموعے میں تاریخی،سیاسی اور رومانی نوعیت کے افسانے بھی شامل ہیں جو قاری کو متاثر کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے اس مجموعے کی کہانیاں یاد رکھے جانے کے لائق ہیں ۔’’واپس لوٹتے ہوئے‘‘،’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘،’’ڈراکیولا‘‘،’’شاہی گلدان‘‘،’’ٹیشو پیپر‘‘ اور ’’فدائین کی ماں‘‘اس مجموعے کی عمدہ اور بے مثال کہانیاں ہیں جن میں مصنف کا تخلیقی جوہر کھل کر سامنے آتا ہے۔
موضوع کے اعتبار سے ذوقی کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کے افسانوں کے موضوعات اتنے نرالے اور انوکھے ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ایسا تو ہم بھی سوچ رہے تھے یہ تو با لکل سامنے کی کہانی ہے ۔دراصل ذوقی اپنے مطالعہ اور وژن سے ایک نئی دنیا ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔بہت سے نقاد تو ذوقی کی کہانیوں کو آنے والی صدی کی کہانیاں بتا کر فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ تجزیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جو کہانیاں ذوقی تحریر کر رہے ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے کی دنیا میں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں۔گلوبلائزیشن،گلوبل وارمنگ،سائبر ورلڈ،بدلتی ہوئی تہذیب و معاشرت،جنسی بے راہ روی۔یہ سارے قصے ہمارے سامنے کے ہی تو ہیں۔ذوقی اپنے افسانوں میں اسی نئی دنیا کی ترجمانی کرتے ہیںایک طرف ان کی کہانیاں جہاں تہذیبوں کی کشمکش اور ثقافت و تمدن کے عروج و زوال کو اپنا موضوع بناتی ہیں وہیں ان کی کہانیوں میں تاریخ و فلسفے کا خوبصورت امتزاج بھی نظر آتا ہے۔سائنس،ٹکنالوجی اور تیزی سے کروٹ لیتی ہوئی سیاست ذوقی کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔وہ نہایت ہی بولڈ اور سنگین سے سنگین ترین موضوع پر افسانے لکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔نئے صارف سماج اور ایڈوانس کلچرل سوسائٹی میں جس قسم کے مسائل جنم لیتے ہیںوہ مسائل عموماًاولیت کے ساتھ ذوقی کے افسانوں میں ہی جگہ پاتے ہیں ۔ذوقی نے اپنے افسانوں میں زندگی کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کو موضوع بنانے کی کوشش کی ہے۔انسانی جذبات،شہری اور دیہاتی زندگی،سماج کی عکاسی،سیاسی مکر وفریب،سچائی،چالاکی،وطن پرستی وغیرہ موضوعات کو ذوقی نے نہایت ہی فنکارانہ طور پر اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے وہ ہر مرتبہ قاری کے سامنے ایک نیا موضوع لاکر اس کو الگ ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کو پڑھتے وقت قاری کی دلچسپی مسلسل قائم رہتی ہے ۔کرداروں کی پیشکش کے حوالے سے بھی ذوقی کو بڑی مہارت حاصل ہے ان کے کردار اپنے زندہ ہونے کا یقین دلاتے ہیں وہ چلتے پھرتے اور ہنستے روتے عام زندگی کے معاملات سے تصادم کرتے نظر آتے ہیں اور قاری کے ذہن پر دیر تک اپنے تاثرات چھوڑ جاتے ہیں۔سالک رام(مت رو سالک رام)،مرگ نینی(مرگ نینی نے کہا)،غلام بخش(غلام بخش)،رشید انصاری اور بھوانی(اقبالیہ بیان)،صوفیہ مشتاق احمد(ڈراکیولا)،سنگی مترا(حیران مت ہو سنگی مترا)،ایلس(بھنور میں ایلس)،مسٹر پرکاش(بچھو گھاٹی)،ریا(صدی کو الوداع کہتے ہوئے)وغیرہ اور بھی کئی ایسے کردار ہیں جو پڑھنے کے وقت تک اور پڑھنے کے بہت بعد تک اس طرح قاری کے ذہن پر حاوی رہتے ہیں کہ ان کا نام بھولنا نا ممکن سا ہوجاتا ہے۔
ذوقی نے اپنے افسانوں میں زبان وبیان کے استعمال میں بھی نیا پن لانے کی کوشش کی ہے وہ کردار کے مرتبے اور اس کے وقار کے اعتبار سے زبان استعمال کرتے ہیں۔انھوں نے انگریزی،ہندی اور عام بول چال کی زبان کو بڑی بے تکلفی سے برتا ہے ۔ذوقی کی کہانیوں میں ایک مخصوص مکالماتی اور ڈرامائی اسلوب بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ ان کی کہانی پر ڈرامہ حاوی ہے تو مضائقہ نہیں۔وہ ڈرامے کے ہر سین کے منظر نامے کی طرح اپنی کہانی کے ہر حصے کو سرخیوں سے سجاتے ہیں ہر کہانی کا ایک ابتدائیہ اور اختتامیہ تحریر کرتے ہیں۔یہ ذوقی کا اپنا انداز ہے اور ان کے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ پہلے جملے سے ہی قاری کہانی کی گرفت میں آجاتا ہے پھر آخر تک ذوقی اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیتے اور جب کہانی ختم ہوجاتی ہے تو جیسے فلسفے سے لے کر نئی دنیا کے ایسے ایسے پہلو قاری کے سامنے آتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔کہنا چاہئے کہ ترقی پسندی سے جدیدیت اور جدیدیت کے مختصر مراقبے کے بعد ذوقی نے نہ صرف اپنے اسلوب،مزاج اور اپنے رنگ و آہنگ میں تبدیلیاں پیدا کیں بلکہ ان کی ہر کہانی ایک نئے وژن اور ایک نئی فکر کے ساتھ قارئین کے سامنے آتی رہی۔ذوقی کی کہانیوں میں اتنے ڈائمنشن اور رنگ ہیں جو بہت کم افسانہ نگاروں کے یہاں ملتے ہیں ۔وہ اپنے افسانوںمیں نئے نئے تجربے بھی کرتے ہیںان کے یہاں علامتیں بھی ہیں خوبصورت بیانیہ بھی اور فنٹاسی بھی۔ذوقی کا مقابلہ دراصل اپنی ہی کہانیوں سے ہے ان کی ہر نئی کہانی فکر اور اسلوب کی سطح پر دوسری کہانیوں سے بہت آگے نکل جاتی ہے ۔ان کے افسانوں کی مجموعی فضا میں اتنی ان دیکھی دنیائیں آبادہیں کہ حساب لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ذوقی کے قلم میں روانی ہے وہ کبھی ٹھہرتے یا رکتے نہیں ہیں ۔وہ ایک جاندار قلمکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت فکر مند اور چوکنے رہتے ہیں ۔جب بھی کوئی نیا واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے فوراً ہی لکھنا شروع کردیتے ہیں ۔جہاں ہمارے دوسرے افسانہ نگار تھک ہار کر سال میں دوایک کہانیوں پر اکتفا کر لیتے ہیں وہیں ذوقی کا قلم ہر برس اتنی شاہکار کہانیاں اردو ادب کو سونپ دیتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔اکثر ناقدین ذوقی پر بسیار نویسی کا الزام بھی لگاتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ذوقی ایک نہایت ہی حساس ادیب ہیں ان کا دل،ذہن اور قلم ہمیشہ متحرک رہتے ہیں ۔میرا ماننا یہ ہے کہ کوئی بھی حساس تخلیق کار جب اپنے عہد کے مسائل پر غور کرے گا تو وہ ضرور لکھے گا۔لہٰذا ذوقی کے سامنے جب بھی کوئی موضوع آتا ہے وہ فوراًقلم اٹھا کر لکھنا شروع کردیتے ہیںاور قارئین کو نت نئے مسائل سے آگاہ کرنے کی ذمہ دار ی نبھانے کی بخوبی کوشش کرتے ہیں ۔افسانہ نگاری میں فن اور فکر کے لحاظ سے ذوقی نے جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ بہت کم افسانہ نگاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ذوقی کو یہ سب کچھ بہت آسانی سے مل گیا بلکہ اس کے لئے ان کی برسوں کی ادبی مشقت اور کاوش شامل رہی ہے ۔ذوقی صحیح معنوں میں ایسے جینوئن فنکار ہیں جو صرف اپنے ملک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے مسائل کے بارے میں بھی مسلسل غور وفکر کرتے رہتے ہیں ۔ذوقی کا ایک بڑا کمال ان کی کہانیوں کی Readabilityہے یہی وجہ ہے کہ ایک ادنیٰ اور معمولی درجہ کے قاری کو بھی ذوقی کی فکر تک رسائی کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔اور یہ بات ذوقی کے نقاد بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ذوقی میں پڑھوالینے کی صلاحیت اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ ہے۔ویسے تو ذوقی اپنے ادبی کیرئیرمیں بہت سے ادیبوں سے متاثر رہے لیکن انھوں نے ان ادیبوں کا تاثر صرف ایک حد تک قبول کیا۔ذوقی نے کبھی بھی ان کے ادب کو اپنے ادب میں Imposeکرنے کی کوشش نہیں کی۔چنانچہ ذوقی نہ تو کسی سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور نہ مرعوب۔ان کا اپنا انداز اور اپنا رنگ و آہنگ ہے کہانی کہنے کے ہنر میں ذوقی کا کوئی ثانی نہیں ۔بلا شک و شبہ آج ذوقی کے قلم سے جو کہانیاں جنم لے رہی ہیں انھیں کسی بھی عالمی معیار کے سامنے رکھا جاسکتا ہے ۔اس بات کو قبول کرنے میں ذوقی خود بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ عالمی ادب کے مطالعے سے انھوں نے اپنا ایک الگ مقام بنانے کی کوشش کی ہے۔
ذوقی اردو ادب میں ناول اور افسانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے ڈرامانگاری کے حوالے سے بھی چند کارنامے انجام دیے ہیں ۔گو کہ ان کو اس صنف میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوپائی مگر پھر بھی ان کے کچھ ڈرامے اردو ڈرامانگاری کے اس زوال پذیر دور میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ذوقی کو شروع سے ہی ڈرامے میں دلچسپی تھی اور اس سلسلے میں وہ اس وقت کے کئی چھوٹے بڑے تھیٹرز سے بھی جڑے ہوئے تھے جہاں انھوں نے ڈرامے کے فنی سانچے اور اسٹیج کے تقاضوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کی بھرپور کوشش کی اور پھر خود ڈرامے لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔’’رمبھا رمبھا‘‘ذوقی کا پہلا ڈراما ہے یہ۱۹۷۹ء میں گیا سے نکلنے والے ادبی رسالہ ’’آہنگ‘‘میں شائع ہوا۔ذوقی کو ڈرامانگاری کی طرف مائل کرنے میں اردو کے مشہور ناقد اور’عصری ادب‘کے مدیر ڈاکٹر محمد حسن کا بہت بڑا ہاتھ ہے انھوں نے ایک خط کے ذریعہ ذوقی سے ڈراما لکھنے کی فرمائش کی تھی ۔لہٰذاذوقی نے ان کی رائے کا پاس رکھتے ہوئے کچھ اور ڈرامے بھی تخلیق کئے۔ہندو مسلم فسادات سے متاثر ہوکر ذوقی نے ’’ایک اور شہادت‘‘کے نام سے ڈراما لکھا جو ’عصری ادب‘میں شائع ہوا۔اس ڈرامے میں روشنی اور صوت کے تجربے کئے گئے ۔یہ ڈراما کافی مشہور ہوا بلکہ آرہ اور پٹنہ میں اسٹیج بھی کیا
گیا۔۱۹۸۵ء میں جب ذوقی دہلی آئے تو ان کی ملاقات رسالہ’آج کل‘کے مدیر راج نرائن رازؔسے ہوئی ۔انھوں نے بھی ذوقی کو ڈرامے لکھنے کے لئے کہا ۔چنانچہ جب ’آج کل‘کا ایک شمارہ’ڈراما نمبر‘سامنے آیا تو اس میں ذوقی کا ڈراما’’ایک ہارے ہوئے آدمی کا کنفشن‘‘بھی شائع ہوا۔یہ ڈراما ملک کی مجموعی صورت حال اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر مبنی تھا یہ بھی کافی مشہور ہوااور دہلی میں کئی مقامات پر اس کو اسٹیج بھی کیا گیا۔
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد شہید کردی گئی ۔اس واقعہ نے ذوقی کو نچوڑ کر رکھ دیا ۔وہ اس قدر جذباتی ہوگئے کہ اپنے EmotionsاورFeelingsکے اظہار کے لئے اس حادثے کے فوراً بعد ایک ناول’’بیان‘‘لکھ ڈالا۔حالانکہ اس ناول کے ذریعہ انھوں نے ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن نہیں تھے چنانچہ’’بیان‘‘لکھنے کے بعد جلد ہی انھوں نے اس موضوع پر ایک ڈراما ’’گڈبائے راجنیتی‘‘بھی لکھ دیاجس میں سیاست کی گمشدگی کی رودادبیان کی گئی۔مصنف نے کھل کر بھاجپا اور کانگریس کی گندی اور گھناؤنی سیاست کے چہرے کو بے نقاب کیا۔جو کہیں کھل کر اور کہیں منہ چھپائے اپنی گھٹیا چالوں کو سر انجام دے رہی تھیں۔اس ڈرامے میں سیاست سے متعلق تمام چھوٹی بڑی باتوں کو بروئے کارلایا گیا ہے ساتھ ہی ہندوستان میں سیاست کے جنم،اس کے ارتقاء اور زوال کی پوری کہانی پیش کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔
ذوقی کے ڈراموں کا ایک مجموعہ’’چار ڈرامے‘‘کے عنوان سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔اس مجموعے میں ’’رمبھا رمبھا‘‘،’’ایک اور شہادت‘‘،’’سب سے اچھا انسان‘‘اور’’ایک ہارے ہوئے آدمی کا کنفشن‘‘شامل ہیںاس کے علاوہ’’نفرت کے دنوں میں‘‘اور ’’ایک سڑک ایودھیا
تک‘‘ذوقی کے ہندی ڈرامے ہیں۔ذوقی نے صرف اسٹیج ڈرامے ہی نہیں لکھے بلکہ انھوں نے چھوٹے پردے یعنی ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے اور ٹیلی فلمیں بھی پروڈیوس کیں۔انھوں نے باقاعدہ طور پر ’’ذوقی فلمز‘‘کے نام سے پروگرام بنانے کا آغاز کیا۔ ۱۹۹۱ء میں وہ ’’ارم پروڈکشنز‘‘کے ساتھ جڑ گئے جس کے تحت دور درشن اور منسٹریز کے لئے ڈرامے اور ٹیلی فلمیں بنانے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔’’پربت‘‘،’’دکھاوا‘‘،’’رنجش‘‘،’’انجام‘‘اور’’بوڑھے جاگ سکتے ہیں‘‘وغیرہ ان کی مشہور ٹیلی فلمیں ہیں۔ان کا پہلا سیریل’’الجھن‘‘ ہے جو انھوں نے ایک اڑیہ پروڈیوسرکے لئے لکھا تھا ۔ وہ لگ بھگ تیس کہانیوں پر سیریل بھی کرچکے ہیں۔بلونت سنگھ کے مشہور ناول ’’رات،چور اور چاند ‘‘پر ای ٹی وی اردو کے لئے ذوقی نے ایک سیریل بنایا جو بہت مشہور ہوا۔اسی طرح انھوں نے سہیل عظیم آبادی کے ناول’’بے جڑ کے پودے‘‘پر بھی ایک سیریل بنایا۔اس کے علاوہ ۲۰۱۴ء میں ذوقی کی کہانیوں کے مجموعوں ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘اور’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘پر ڈی ڈی اردو پر بھی سیریل دکھائے گئے۔اب تک تقریباً۱۰۰ سے زیادہ ڈکیومنٹری فلمیں ذوقی کے نام سے منسوب ہیں ۔اردو کی چند مشہور ادبی شخصیات پر بھی ذوقی نے ٹیلی فلمیں بنائی ہیں جن میں قراۃالعین حیدر،جوگندر پال اور
ڈاکٹر محمد حسن جیسی مایہ ناز ہستیاںبھی شامل ہیں۔ٹی وی چینلز کے علاوہ ذوقی نے ریڈیو کے لئے بھی کام کیا ان کے بہت سے سیریل ریڈیو پر نشر ہوچکے ہیں۔ریڈیو کے لئے لکھا گیا ان کا سیریل’’عجیب داستاں ہے یہ‘‘کافی مشہور ہوا۔ذوقی اپنے سیریل اور ٹیلی فلموں کی اسکرپٹ اور نغمے بھی خود ہی لکھتے ہیں اسکرپٹ پر مبنی ان کی ایک کتاب’’ٹیلی اسکرپٹ‘‘کے عنوان سے بہت جلد شائع ہونے والی ہے ۔اس طرح ذوقی کے ادبی سفر میں الیکٹرانک میڈیا کے
پروگراموں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔القصہ مختصر ایک ڈرامانگار کی حیثیت سے ذوقی نے اردو ادب میں اپنا نام پیدا کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ہے ۔انھوں نے ا س حوالے سے جتنا بھی لکھا ہے وہ کافی تو نہیں ہے مگر ان کی کاوشوں کا اعتراف ضرور ہونا چاہئے کیونکہ آج کی تاریخ میں ڈرامے پر بہت کم لوگ لکھ رہے ہیں اور ایسے میں اگر کوئی فنکار سامنے آتا ہے تو اس کی ستائش اورحوصلہ افزائی ہونی چاہئے تاکہ وہ اس زوال پذیر صنف کو ترقی کی ایک نئی اڑان دینے میں اپنے قلم کا بھرپور استعمال کرسکے۔یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ ذوقی ایک ایسے قلمکار ہیں جن کے لئے کچھ بھی لکھنا مشکل یا ناممکن نہیں ۔وہ بے باک اور نڈر ہیں اور کسی بھی چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرتے ہیں ۔آج اردو ڈراما ایک ایسی اسٹیج پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے ذوقی جیسے باصلاحیت اور تجربہ کار فنکاروں کی ضرورت ہے جو اسے ترقی کی نئی منزلوں سے ہمکنار کرنے میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تاکہ یہ صنف مزید تنزلی کا شکار ہونے سے بچ جائے اور اردو ڈراما ایک سنہرے مستقبل کی جانب گامزن ہوسکے۔
ذوقی صرف فکشن یعنی ناول،افسانہ اور ڈرامے کے ہی رائٹر نہیں ہیں بلکہ وہ بیک وقت دیگر اصناف پر بھی لکھنے کی سعی کرتے رہتے ہیں مثلاًشاعری۔’’لیپروسی کیمپ‘‘ذوقی کی ایک طویل نثری نظم ہے ۔یہ ان کی تمام نثری نظموں کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے ۔ذوقی نے کوڑھ کے مریضوں سے متاثر ہوکر یہ نظمیں لکھی ہیں۔دراصل انھوں نے اس مرض میں مبتلا لوگوں کے ایک قافلے کوبہت قریب سے دیکھا اور ان کا بطور خود مشاہدہ کیا۔وہ ان کی حالت زار سے اس قدر غم گین اور متاثر ہوئے کہ ان پر نظمیں لکھنے کی ٹھان لی۔’’لیپروسی کیمپ‘‘میں تیرہ نظمیں شامل ہیںجو عنوان کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن موضوع سب کا ایک ہی ہے۔ان نظموں میں مصنف نے کوڑھ کے مریضوں کے روز مرہ زندگی کے مسائل،ان کے رہن سہن اور سراپا کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اندرونی کیفیات کو بھی اجاگر کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔’’لیپروسی کیمپ‘‘ملی جلی زبان میں لکھی گئی ہے اس میں اردو اور ہندی نثری نظم کا ایک نئے سرے سے سنگم ہوتا دکھائی دیتا ہے ڈکشن اور اسلوب کے لحاظ سے یہ نظم ہندی کی نثری نظموں سے بے حد قریب معلوم ہوتی ہے کیونکہ جس طرح ذوقی نے جملوں یا سطروں کو نحوی اعتبار سے ترتیب دیا ہے وہ ہندی نثری شاعری کا خاصہ ہے ۔ذوقی نظم کی ظاہری حسن کاری پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے۔البتہ نثر کے اجزاء کی بے جا بہتات نظم کی جمالیاتی اثر انگیزی کو محدود کردیتی ہے گویا نظم کے خارجی محرکات کے بجائے انھوں نے داخلی کیفیات اور جزیا ت پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔’’لیپروسی کیمپ‘‘کی اہمیت اس لئے ہے کہ اس میں ذوقی نے ایک ایسے طبقے کو موضوع بنایا ہے جو معاشرے میں ایک دھبہ تصور کیا جاتا ہے اور جن کو لوگ حقارت بھری نظروں سے دیکھ کر ان سے دور ہٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن ذوقی کے دل میں ان کے لئے ایک خاص جگہ ہے اور انھوں نے اس کامیابی کے ساتھ ان کی تصویر کشی کی ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کے لئے زحمت نہیں بلکہ رحمت ثابت ہوئے ہیںاور یہی مصنف کا کمال ہے۔ذوقی نے ابتداء میں چند آزاد نظمیں بھی لکھی جو ان کی منظوم خود نوشت’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘میں شامل ہیں یہ کتاب ابھی نامکمل اور غیر مطبوعہ ہے۔نظموں کے علاوہ ذوقی نے مختلف نوعیت کے بے شمار مضامین بھی لکھے ہیں اورآج تک لکھ رہے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں ۔تحقیقی و تنقیدی مضامین کے حوالے سے ان کی دو اہم کتابیں بھی چھپ کر سامنے آئی ہیں۔۲۰۱۴ء میں ان کی ایک کتاب’’آب روان کبیر‘‘کے نام سے شائع ہوئی ۔اس کتاب کے زیادہ تر مضامین افسانے سے متعلق ہیں جن میں مصنف نے اردو افسانے کی حقیقت ،موجودہ صورت حال،نئے امکانات اور نئے افسانہ نگاروں کے بارے میں نہایت ہی مفید اور تحقیقی مواد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اس کے علاوہ اس کتاب میں چند پرانے افسانہ نگاروں کی وفات پر لکھے گئے مضامین بھی شامل ہیں جن میں مصنف نے ان کی وفات پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اچھے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کی عظمت اور کارناموں کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ساتھ ہی ذوقی نے اپنی حیات اور ادبی زندگی کے اہم واقعات بیان کئے ہیں ۔’اردوکہانی:ایک نیا مکالمہ‘،’اردو فکشن:تیس برس‘،’عالمی مسائل اور ہماری کہانیاں‘،’نئی صدی اور اردو فکشن‘،’اظہارالاسلام:عہد جدید کا باغی افسانہ نگار‘،’وہ یہیں کہیں آس پاس ہے‘اور’کبیر گنج والا کانچ کا بازیگر‘وغیرہ بہترین اور عمدہ مضامین ہیں جو اردو طلباء اور اسکالرز کو افسانے سے متعلق تحقیقی مواد فراہم کرنے میں مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔’’سلسلہ روز وشب‘‘ذوقی کی ایک اور اہم تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے اس میں اردو ناولوں سے متعلق مضامین شامل کئے گئے ہیں اس کے علاوہ چند دیگر موضوعات پر مشتمل مضامین اور ذوقی کی حیات اور ادبی زندگی کے بارے میں اہم معلومات بھی درج ہیں ۔’اردو ناول کی گم ہوتی ہوئی دنیا‘اس کتاب کا پہلا مضمون ہے جس میں مصنف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ناول بے شک اردو ادب کا ایک عظیم ورثہ ہے اور اب تک بے شمار قلمکار اس صنف میں اپنے تجربے اور فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں لیکن انھوں نے اس بات کا افسوس کیا ہے کہ کئی اہم اور بڑے ناول نگاروں کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔اور اس کے ذمہ دار وہ ناقد ہیں جنھوں نے صرف وہی ناول پڑھے جو ان کو تحفے میں دیے گئے یا پھر جو انھیں آسانی سے میسر ہوئے۔
’بلونت سنگھ کا پنجاب‘ایک اور اہم مضمون ہے جس میں ان کے دو مشہور ناولوں ’’کالے کوس‘‘اور’’رات،چاند اور چور‘‘کے حوالے سے پنجاب کی تصویر کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں ناولوں کا مختصر مگر نہایت ہی موثر انداز میں تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔اسی طرح انھوں نے پیغام آفاقی کے ناول’’پلیتہ‘‘رحمٰن عباس کے ناول’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘اور حیات اللہ انصاری کے ناول’’لہو کے پھول‘‘پر بھی مضامین لکھ کر ان کے فن پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔’’سلسلہ روز وشب‘‘میں ذوقی کے مختلف انٹرویوز بھی شامل ہیں ۔ڈاکٹر مشتاق احمد،سمیہ بشیر،نعمان قیصر اور رضی احمد تنہا وغیرہ نے ذوقی کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے جو سوالات پوچھے مصنف نے ان کو کتاب کی شکل میں سامنے لایا ۔اور یہ بلا شبہ ایک کارآمد عمل ہے کیونکہ اس سے ریسرچ اسکالرز کو ذوقی کے بارے میں مستند اور بنیادی معلومات مل سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ’ہم جنگ نہیں چاہتے‘،’نئی صدی،ڈش انٹینا کی یلغار اور ادب‘اور’تخلیقی تجربوں کا عہد‘بھی اہم مضامین ہیں ۔’نئی صدی اور اردو شاعری‘،’نئی صدی میں نثری شاعری‘اور’نئی صدی میں اردو ڈراما‘غالباًایک ہی نوعیت کے مضامین ہیں جن میں ذوقی نے نئی صدی میں ان تصانیف کے منظر نامے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔
’’کنگن‘‘ذوقی کی ایک اور اہم کتاب ہے جس میں بچوں کے بچپن اور ان کی زندگی کے بنیادی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اس کے علاوہ اسکرپٹ پر مبنی ذوقی کی ایک کتاب’’ٹیلی اسکرپٹ‘‘بہت جلد قومی اردو کونسل سے شائع ہونے والی ہے۔