میں بنیادی طور پر تخلیق کار ہوں۔ تنقید کو ہمارے ہاں سکہ بند نقادوں کا فریضہ بنا کر نقاد کو ادب میں کسی مذہبی پیشوا سے ملتی جلتی حیثیت دے دی گئی ہے۔ رہی سہی کسر ان مابعد جدید شارحین / سارقین نے پوری کر دی جنہوں نے مختلف حیلوں سے مصنف اور متن دونوں کو بے وقعت قرار دے کر اپنی تشریحات اور سرقوں ہی کو ادبِ عالیہ قرار دلوانا چاہا۔ میں یہاں کسی لمبی چوڑی بحث میں گئے بغیر مختصراَ َاتنا عرض کروں گا کہ میرے نزدیک تنقید، تخلیقی عمل کا ایک جزوی حصہ ہے۔ کسی فن پارے کی تخلیق کے دوران جب تخلیق کار اپنے فن پارے کے اظہار کے ساتھ اس کے الفاظ کے استعمال اور ان کی پیشکش کے انداز کو دیکھتا ہے تو در اصل ایسا دیکھنا، اس کی تنقیدی نگاہ بھی ہوتی ہے۔ تخلیق کار کی یہ تنقیدی نظر اپنی تخلیق کے اظہار کے دوران اس کے حسن و قبح کا جائزہ لیتی ہے، تاکہ اسے خوب سے خوب تر صورت میں پیش کیا جا سکے۔ اپنے فن پارے کو خوب سے خوب تر صورت میں پیش کرنے والی نظر ہی کسی تخلیق کار کی تنقیدی نظر ہوتی ہے، اور اسی کے نتیجہ میں کسی تخلیق کار کا فن پارہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ یوں تنقید، تخلیق سے ہٹ کر کوئی الگ چیز نہیں رہتی۔ کوئی تخلیق کار، تخلیقی طور پر جتنا اچھا ہو گا، اس کی تنقیدی سوجھ بوجھ یا تنقیدی بصیرت بھی اسی طرح لازماً عمدہ ہو گی، کیونکہ اسی کی بنا پر وہ اپنے تخلیقی تجربے کو بہتر طور پر اظہار کی صورت دے رہا ہے۔
ایک تخلیق کار کی یہی تنقیدی نگاہ دوسرے تخلیق کاروں کے فن پاروں کو بھی اسی انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر چند دوسروں کی تخلیقات کے مطالعہ کے دوران اتنی وابستگی تو نہیں ہوتی جتنی اپنے تخلیقی عمل کے دوران اپنی تخلیق کے ساتھ ہوتی ہے۔ تاہم وہ سوجھ بوجھ کسی نہ کسی طور دوسروں کے مطالعہ میں بھی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ سو اس زاویے سے آپ میرے ان مضامین کو تنقیدی مضامین کہہ سکتے ہیں۔ میں نے زندگی بھر جو کتابیں پڑھیں، ان سب پر رائے دینا تو ممکن نہ تھا۔ تاہم جن کے بارے میں رائے لکھنے کا موقعہ ملا وہ مضامین /تبصرے اس حاصلِ مطالعہ میں پیش ہیں۔