گزشتہ پانچ برس کے عرصہ میں ماہیے کی بحث کے نتیجہ میں ماہیے کے خدوخال نمایاں ہوئے ہیں اور اس کے مزاج کے مسئلہ کو سمجھنے کی مخلصانہ کوششیں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور پر افتخار احمد، ناصر عباس نیئر، پروفیسر عرش صدیقی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، سعید شباب، ریاض احمد، خاور اعجاز، ایم اے تنویر، نثار ترابی اور غزالہ طلعت کے ذریعے ماہیے کی بحث نے جو سفر طے کیا ہے، اس سے صورت حال کافی نکھر کر سامنے آ گئی ہے ۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی، ڈاکٹر انور سدید اور حمایت علی شاعر کے مختصر تاثرات نے بھی درست وزن کے ماہیے کو تقویت پہنچائی ہے۔ ماہیے کے وزن کے بارے میں اب پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ تین یکساں وزن کے مصرعوں والے ”ماہیے“ حقیتقتا ماہیے نہیں ہیں ۔ ماہیے کی پنجابی اورعوامی دھن سے یہ وزن اردو ماہیے کے لئے بالکل واضح ہو چکا ہے۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
اس کی رو سے ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ یعنی دو حروف کا کم ہونا ضروری ہے۔ اس وزن میں ماہیا پنجابی دھن کے مطابق پوری طرح رواں دواں ہو جاتا ہے۔ یہ دوسرا وزن بھی ماہیے کے لئے قابل قبول ہے:
مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
یہ وزن اس لئے روا ہے کہ اپنی روانی میں اگلے حروف میں ضم ہوتا ہوا، یہ وزن بھی اول الذکر وزن میں ڈھل جاتے ہے یعنی:
مفعولمفاعیلن
فعلم فاعی لن
مفعولمفاعیلن
اس کے باوجود واضح الفاظ میں ہمارا موقف یہی ہے کہ جو اردو ماہیا ۔۔۔۔ پنجابی ماہیے کی مخصوص دھن پر سہولت اور روانی کے ساتھ گایا/گنگنایا جا سکتاہے وہ ماہیا ہے اور جسے ماہیے کی دھن پر گاتے/گنگناتے ہوئے جھٹکا لگتا ہے وہ ماہیا نہیں کوئی اور چیز ہے۔ ماہیے کی مخصوص دھن کے سلسلے میں دو ماہیا گیتوں کو بنیادی حوالہ بنایا جا سکتا ہے۔
پنجابی میں مسرت نذیر کے گائے ہوئے غیر فلمی ماہیا گیت:
چٹا ککڑ بنیرے تے
کاسنی دوپٹے والیے
منڈا صدقے تیرے تے
اور اردو میں قمر جلال آبادی کے لکھے، فلم ”پھاگن“ میں محمد رفیع اور آشا بھونسلے کے گائے ہوئے ماہیا گیت:
تم روٹھ کے مت جانا
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
ماہیے کی اصل دھن وہ بنیادی نکتہ ہے جس سے اس کے وزن کو بخوبی اور آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ماہیے کے وزن اور اس کے دوسرے مصرعہ میں فرق کی نزاکت پر اردو میں یہ اتنا اہم نوعیت کا کام ہوا ہے جس سے پنجابی ادب کے دانشور بھی بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں۔
جہاں تک ماہیے کے مزاج کے مسئلے کا تعلق ہے اس کے بارے میں وزن کی طرح کوئی حتمی اور دوٹوک بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزن کو ماہیے کا جسم سمجھ لیں تو مزاج اس کی روح ہے۔ جسم کی حد معین ہوتی ہے جبکہ روح کا مختلف حوالوں سے صرف احساس کیا جا سکتا ہے۔ اس مثال سے قطع نظرمزاج کا معاملہ زیادہ تر قاری یا سامع کے ذوق پر منحصر ہے پنجابی میں کئی ایسے ماہیے ملتے ہیں جنہیں مزاج کی کسی خاص حد میں لانا مشکل ہے۔
باگے وچ دریاں نیں
اﷲ میاں پاس کرے
اساں فیساں بھریاں نیں
حمدیہ، نعتیہ ماہیے، ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج والے ماہیے بھی پنجابی ماہیے کے اس عمومی مزاج سے بالکل مختلف ہیں جو عام طور پر پنجابی ماہیے کی شناخت ہے۔ جس طرح ماہیے کے مزاج کا زیادہ تر انحصار قاری یا سامع کے ذوق اور مزاج پر ہے ویسے ہی ماہیانگار کا ذاتی ذوق او رمزاج بھی اس کے ماہیوں میں فطری طور پر آئے گا۔ کوئی نظم نگار شاعر جب ماہیے کہے گا تو ان میں نظم کے اثرات آئیں گے۔ کوئی غزل گو شاعر ماہیے کہے گا تو اس کے ماہیے میں غزل کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ضرور آئیں گے۔ اسی طرح اردو کے گیت نگار اگر ماہیے کہیں گے تو گیت کی ہندی روایت بھی اپنا اثر دکھائے گی۔ نظم، غزل اور گیت کے اثرات اردو ماہیے کے تشخص کو ختم نہیں کریں گے بلکہ اسے تازہ خون فراہم کریں گے۔ ان اثرات سے ماہیے کا مزاج مزید بہتر ہو گا۔
اس میں شک نہیں کہ پنجاب کی زمین سے تعلق رکھنے والے شعرا جب ماہیے کہیں گے تو ان کے ہاں ماہیے کی مٹھاس اور خوشبو از خود آتی جائے گی بہ نسبت ان شعراءکے جو پنجاب کی زمین سے دور ہیں لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پنجاب کی زمین سے جڑے ہوئے بعض شاعروں نے بڑے ہی بے رس اور پھیکے ماہیے بھی کہے ہیں اور دوسری طرف بہار، کرناٹک، مہاراشٹر اور راجستھان جیسے دور دراز علاقوں کے شعراءنے ماہیے کو محبت کی نظر سے دیکھا، اس کے وزن اور مزاج کو سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کی اور ماہیے سے اپنی گہری وابستگی کے باعث بعض ایسے خوبصورت ماہیے کہے جو پنجابی ماہیے کی روایت سے جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس تخلیقی عمل کے دوران اردو اور پنجابی کے لسانی سسٹم کا وہ حصہ ان کا لاشعوری طور پر ممد ہوا ہو جو دونوں زبانوں میں مشترکہ طور پر موجود ہے۔ لہٰذا یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ چونکہ فلاں شاعر پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کے تمام ماہیے مزاجاً اچھے ہیں اور فلاں شاعر پنجاب سے تعلق نہیں رکھتا اس لئے وہ ماہیے کہہ ہی نہیں سکتا۔ یہ ماہیے سے اپنی اپنی وابستگی پر منحصر ہے۔ قصیدے سے نکلی ہوئی غزل عربی اور فارسی سے ہوتی ہوئی اردو شاعری کی جان بن سکتی ہے تو پنجابی اور اردو میں لسانی قربت کے باعث پنجابی ماہیا بھی کسی تخصیص کے بغیر اردو شاعروں میں مقبول ہو کر اردو شاعری میں اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ پھر جس طرح غزل عورتوں کی باتیں کرنے اور عورتوں سے باتیں کرنے کا بنیادی مزاج رکھنے کے باوجود اپنے ارتقا میںکتنے ہی عالمی، کائناتی اور مابعد الطبیعاتی موضوعات کا خوبصورتی سے ذکر کر چکی ہے اور یوں اپنے دامن کو وسیع تر کر چکی ہے۔ ویسے ہی یہ ممکن ہے کہ ماہیا محبت اور دھرتی سے منسلک رہتے ہوئے ارتقا کی منزلیں سر کرے اور لگے بندھے موضوعات سے آگے کے موضوعات بھی اس کے دامن میں سماتے جائیں ۔ ماہیے کے مزاج کے نام پر اس کے موضوعات کو محدود کرکے اسے تکرار کا شکار بنانے سے بہتر ہے کہ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا کی جائے ۔ موضوعات میں وسعت کے باعث اگر بعض نئے تجربے کچے رہ جائیں یا نامانوس سے لگیں تو انہیں اس لئے برداشت کر لینا چاہئے کہ آگے چل کر ان ادھورے یا کچے تجربات سے نئے اور کامیاب تجربات کی راہیں ضرور نکلیں گی۔
اپنے تمام محبت کرنے والے اور خوبصورت ماہیا نگاروں کے ساتھ اردو ماہیے کو ایک لمبا سفر کرنا ہے۔
اور ابھی سفر کی ابتداہے۔
٭٭٭٭