ہاشم کا دودھ لینے کے لیے وہ جیسے ہی کیچن میں داخل ہوئی سامنے ہی عالم اور جلیس بڑے زور وشور سے کچھ بنانے میں مصروف تھے ۔وہ تعجب سے دروازے پر کھڑے ہو کر ان کا جائیزہ لینے لگی پر وہ دونوں اس کی موجودگی محسوس نا کر سکے تھے ۔وہ بھی دھیما سا مسکرا کر اندر داخل ہوئی ۔
نو بج رہے تھے رات کا کھانا سب ہی کھا چکے تھے۔۔
ملازم بھی اپنے اپنے کواٹرز میں چلے گئے تھے ۔
” مرد حضرات یہاں کیا ہورہا ہے ؟؟ ”
مسکاتے لہجے میں خوشگواریت سے بولی ۔اس کی مخصوص دیھمی پروقار آواز پر دونوں ہی چونک کر مڑے تھے ۔جہاں وہ اب کیبن سے ہاشم کے پاوڈر دودھ کا ڈبہ نکال رہی تھی ۔
” ہم اپنی اپنی بیویوں کے لیے کافی بنا رہے ہیں ۔آپ پینا چاہیں گی ۔؟؟”
عالم ہنس کر شوخ پن سے مزے سے بولے۔ وہ عالم کی فضا سے محبت پر مسکرا کر نفی میں سر ہلا کر فیڈر دھو کر پانی ڈالنے لگی وہ بہت کم کافی پیتی تھی جبکہ چائے اس کو زیادہ پسند تھی ۔۔جلیس اس کو دیکھ کر اب دانت نکال کر ہنس رہا تھا ۔
” تمہارے دانت کیوں نکل رہے ہیں اندر کر لو ہدا نے دیکھ لیے تو توڑ دے گی ۔”
وہ بڑی سنجیدگی سے اس کے بے وجہ ہنسنے پر چوٹ کرکے ملک پاوڈر چمچ سے فیڈر میں ڈالنے لگی ۔عالم کا بے ساختہ قہقہا کیچن میں گونجا تھا ۔
” مس اسیسٹینٹ کمیشنر صاحبہ آپ کے شوہر سے میں پھر بھی بہت اچھا ہوں اس نے کبھی تمہارے لیے کافی بنائی ہے ؟؟ مجھے دیکھو جب بھی ہدا کہتی ہے میں اس کی ایک ہی آواز پر لبیک کہہ کر کافی بنانے کے لیے حاضر ہو جاتا ہوں ۔”
وہ بھی منہ بسور کر بڑی شان سے اپنی تعریف کرتے ہوئے بولا وہ ایسے ہی جب موڈ میں ہوتا تو روفہ کو اس کے عہدے سے پکارتا تھا ۔روفہ مسکراہٹ دبا کر عالم کو دیکھنے لگی جنہوں نے جلیس کے سر پر چیت لگائی تھی ۔
” میرا شوہر جو کرتا ہے نا وہ تم اگلے جنم میں بھی نہیں کرسکتے ۔؟؟ ”
وہ بھی مسکرا کر چلینچ والے انداز میں تپانے کو بولی تھی ۔عالم نے آبرو اچکا کر اپنی اکلوتی لاڈلی بیٹی کو داد والے انداز میں دیکھا ۔جس پر وہ بھی کندھے اچکا کر فیڈر کو ہاتھ میں پکڑ کر شیک کرنے لگے ۔
” ایسا کیا کرتا ہے تمہارا صحافی شوہر ؟؟ ایسا تو کوئی کام نہیں جو جلیس عالم نا کرسکے ۔”
اس کے گردن اکڑا کر غرور سے کہنے پر روفہ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔دودھ کا ڈبہ واپس کیبن میں رکھا اس کی طرف دیکھ کر سینے پر بازو لپیٹ کر آنکھیں سکیوڑ کر اس کو دیکھنی لگی ۔
” میں جب سے گھر واپس آئی ہوں تب سے فودیل ہی ہاشم کا ڈائیپر چینج کرتے ہیں ۔وہ رات کو جب بھی اٹھتا ہے تو خود ہی دودھ بنا کر دیتے ہیں اب بتاو تم کرو گے ایسا ؟؟؟ ”
کمر پر ہاتھ ٹکا کر دل جلانے والی مسکراہٹ سے بولی ۔وہ حقیقتا تپ اٹھا تھا ۔خفگی سے عالم کو دیکھنے لگا جو اب قہقہے لگا کر کافی کو کپوں میں ڈال رہے تھے ۔
” جب پتا ہے میری گڑیا سے لفظوں کے مقابلے میں کوئی نہیں جیت سکتا تو پنگے کیوں لیتے ہوں ۔”
روفہ کو سینے سے لگا کر محبت سے اس کی پیشانی چوم کر بولے ۔جلیس منہ پھلا کر سر آہ بھر کر کپ ٹرے میں رکھنے لگا ۔
” میری تو حسرت ہی رہنی کبھی میں اس چڑیل سے جیت سکوں ۔ہمیشہ مجھے تپا کر رکھ دیتی ہے بالکہ مجھے کیا کسی کو چھوڑتی ہی نہیں ہے ۔”
مصنوعی گھوری سے نواز کر منہ چڑا کر زور سے روفہ کا ناک کھینچ کر ٹرے اٹھا کر کہنے لگا ۔۔
” بیٹا کمرے میں چلے جاو نہیں تو ہدا ضرور چنڈال کا روپ اختیار کر لے گی ۔”
” بتاو گا میں ہدا کو تم اس کو کیا بول رہی تھی ۔”
اس کے کہنے پر وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بدلہ لینے کو بولا ۔روفہ نے لاپروائی سے عالم کے سینے سے سر اٹھایا ۔
” بتا دو میں تمہاری طرح ڈرتی تھوڑی ہوں اس سے ۔”
روفہ کی عالم کے سامنے عزت افرائی کرنے پر وہ اس کو گھور کر جلدی سے کیچن سے باہر نکل گیا ورنہ عالم ضرور اس بات کو پکڑ کر اس کو شغل لگاتے ۔روفہ بھی مسکراہٹ دبا کر اس کے پیچھے ہی چلی گئی عالم مسکرا کر نفی میں سر ہلا کر فضا کے لیے کافی ٹرے میں رکھنے لگے ۔۔
کیچن سے نکل کر وہ جیسے ہی گلاس ڈور کھول کر اندر داخل ہوئی بیک گارڈن (جس کو ایک چھوٹے سے باغ کی شکل دی گئی تھی ۔جہاں پھولوں کے ساتھ پھلوں کے درخت بھی لگے ہوئے تھے ) سے ہائیسم اور ترتیل کے قہقہے کی آواز گونج رہی تھی ۔جن کو سن کو وہ پل بھر کو ٹھٹھک کر استعجاب کے عالم میں رکی ضرور تھی مگر پھر دل میں طمانیت کی لہر محسوس کر کے اپنے قدم سیڑھیوں کی جانب بڑھا دئیے ۔۔
اب اس کا دماغ ہاشم میں اور اپنی صبح فارن آفیسر سے ہونے والے مینٹنگ میں الجھ کر تانے بانے بننے لگا تھا ۔۔
ان ہی سوچوں کے حصار میں وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی ۔سامنے کا منظر اس کی روح قبض کر گیا تھا ۔ہاتھ میں پکڑا فیڈر انگلیوں کی گرفت کے ڈھیلے پڑنے سے ” ٹک ” کی آواز سے زمین پر گر پڑا تھا ۔ فیڈر گول گول گھوم کر متوازن رفتار سے کسی کالی چیز میں موجود چپچپاہٹ سے لگ کر رک کر ساکت ہوچکا تھا
دودھ کی بوندیں ٹپ ٹپ کی آواز کے ساتھ سفید ٹائیولوں پر گر رہا تھا ۔کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کی سوئیاں اس کے ساکت بدن میں جنبش پیدا کرنے کو ناکافی تھی ۔
کوئی محلول اس کے سلیپرز کو رنگین کرنے لگا تھا ۔وہ زلزلے کی زد میں آتی کسی ربورٹ کی طرح سر جھکا کر اپنے پاوں کی سمت دیکھنے لگی ۔۔اگلے ہی پل اس کی وحشت ناک چینخیں پورے کمرے کی در و دیواروں کو لرزا گئیں تھیں ۔۔
سامنے ہی چھوٹا سا بے جان وجود بے سدھ آنکھیں موندیں خون کے جھرنے میں نہائے لت پت ایک جانب کو زمین پر چت پڑا تھا ۔
وہ اس کا جان جگر ہی تو تھا ۔اس کے سینے میں دھڑکتے لوتھڑے کا وہ حصہ جس کو دیکھ دیکھ کر وہ سانسیں بھرا کرتی تھی ۔
جس کو نو ماہ اپنی اندر محسوس کرکے سب کچھ فراموش کیا تھا ۔جس کے پل پل کو جی کر وہ خود کو بھی بھول بیٹھی تھی ۔۔
سینے میں دل پھڑپھڑا اٹھا تھا ۔وہ بھاگنا چاہتی تھی پر بھاگنے کی سکت اس چور ہوئے وجود نے چھین ہی تو لی تھی ۔وہ چینچ اٹھی تھی ۔جس کی آواز ایک حد سے اونچی کبھی کسی ذی روح نے سنی نا تھی آج وہ تڑپ کر بین کرتی دہل اٹھی تھی ۔
وہ دیوانوں کی طرح اس ڈوپٹے کو جو اس کے سر کی زینت بنا رہتا تھا پیروں میں روند کر بھاگی تھی ۔زمین پر کھٹنوں کے بل ڈھے کر بدحواس میں ہاشم کے لال رنگیں وجود کو اٹھا کر سینے میں بھینجا تھا ۔
تکلیف سے پیٹ میں پل پڑ گئے تھے ۔وہ گڈا آنکھیں موندیں ساکت سا اپنی ماں کے لیے سراپے امتحان بن بیٹھا تھا ۔۔
اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو اس کے سندور مانند پانی سے بھرے گال پر رکھ کر ہلایا۔ اندر کوئی تیز دھاری سے ہر ہر عضو کو باریک باریک حصے میں کاٹنے لگا تھا ۔تکلیف سے رگیں جلنے لگیں تھیں ۔۔
” ہاشم ”
ہونٹوں نے بے آواز آس سے پکارا تھا ۔وہ مدھم سی آس اگلے پل ہی دم توڑ گئی تھی ۔۔اولاد کا دکھ جیتے جی مار دیتا ہے روفہ اس پل ہزار موت مری تھی ۔ہاشم کی ننھی کلائی اپنے جھٹکے کھاتے ہاتھوں میں تھامی ۔۔
ہر ہر سانس دعا میں سجدہ ریز ہوئی ۔کوئی اس کی دھڑکنوں کے عوض اس گل گوتھنے کے سینے میں جان بھر دے ۔
نبض کی جلد کے اندر زندگی کی رمق باقی تھی ۔اندر بہت اندر ابھی کچھ باقی تھا ۔ادھوری دھڑکنیں باقی تھیں ۔ٹوٹی سانس آخری سہارے کی منتظر تھیں ۔
وہ مر کر پھر سے جی اٹھی تھی ۔قبر کے اندھیروں سے نکال کر کوئی سورج کی کرنوں سے نواز گیا تھا وہ بلاشبہ اللہ تھا ۔
خون سے رنگے فرش کو دیکھ کر وہ اپنے دل کے ٹوٹے کو کلیجے سے لگا کر اٹھی ۔۔فودیل کہیں نہیں تھا۔۔مگر دو سکینڈ بعد ہی وہ باتھ روم کے دروازے سے نکل کر باہر آیا تھا ۔شاید روفہ کی آہیں چینخیں اس کو کھینچ لائیں تھیں ۔
سامنے ہی روفہ کو لٹی پٹی حالت میں بےسدھ سے ہاشم کو اٹھائے دیکھ کر پیروں تلے زمین نکل گئی تھی ۔
اس سے پہلے وہ ہوش میں آکر آگے بڑھ کر کچھ جانتا روفہ کمرے سے بھاگی تھی ۔۔وہ جیسے بھیانک خواب سے جاگ کر اذیت ناک حقیقت میں لوٹا تھا ۔روفہ کے قدموں کا پیچھا کرکے وہ بھی تولیہ فرش پر جابجا بگھرے خون پر پھینک کر اندھا دھند بھاگا تھا ۔۔
” کیا ہوا ہے اسے ۔”
وہ زور سے بولنا چاہتا ہے مگر جانے کیوں حلق سے آواز ہی نہیں نکل سکی تھی ۔اس کا چشم اس کی زندگی کی میں گود میں بےجان سا تھا ۔
” دور رہو اس سے ۔ اسے کچھ ہوا میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔”
وہ حلق کے بل بھوکی تڑپتی شیرنی کی طرح دھاڑی ۔فودیل کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔جن دو محبوب وجود کو ابھی محسوس بھی کیے ابھی چند دن ہی بیتے تھے کیا وہ اتنی جلدی بچھڑنے کو تھی ۔۔
اپنے ایک ہاتھ سے فودیل کے ہاشم کی طرف بڑھے ہاتھ کو بے دردی سے نوچ کر دور پھینکتی وہ سیڑھیوں کی طرف بےحال سی آگے بڑھی ۔
وہ ہاتھ اٹھائے جہاں تھا وہیں کھڑا رہا ۔خالی ہاتھوں کو خالی نظروں سے دیکھ کر اپنے بازو پر لگے اپنے خون کے خون کو دیکھنے لگا ۔سینے میں دم نکل رہا تھا ۔
اس کی چھ منٹ کی اپنے بیٹے سے غفلت کیا رنگ لے لائی تھی ۔۔
روفہ نے کمرے سے جانے سے پہلے کہا تھا ہاشم کا دیھان رکھنا مگر وہ کہاں رکھ پایا تھا ۔وہ تو بس کپڑے بدلنے کو باتھ روم جانے کی غلطی کر بیٹھا تھا ۔پیچھے سے ہاشم بیڈ سے گر چکا تھا ۔سائیڈ ٹیبل کا کونہ نازک جان بچے کے سر پر لگنے کے باعث سر بری طرح پھٹا تھا ۔وہ گرنے کے ساتھ ہی بے ہوش ہو گیا تھا تبھی اس کے رونے کی آواز بھی فودیل کو باتھ روم میں نا آسکی تھی ۔
آنکھوں کے کنارے میں محسوس ہوتی نمی کو بازو سے رگڑ کر وہ بھی سیڑھیوں کی طرف اپنی پوری رفتار سے بھاگا تھا ۔
” بابا ہائیسم جلیس ۔۔بابا ”
وہ اپنی پوری آواز کے ساتھ لاونج کے بیچ وبیچ سب کو پکارنے لگی تھی ۔جیسے آج ابھی وہ چپ رہی تو پھر بولنے کے قابل رہے گی نہیں۔۔
ہاشم کو دیکھ دیکھ وہ ہر گرزتے پل کے ساتھ مر رہی تھی ۔اس کی گونج پر سب ہی تعجب و نافہم تاثرات سے پریشانی کے عالم میں باہر آئے تھے ۔ روفہ کو ہاشم کو سینے میں بھینجے دیکھ کر سب کی آنکھوں کے سامنے زمین و آسمان گھوم گئے تھے ۔
بابا میرا بچہ ۔۔میرا بچہ ۔ڈاکٹر کو ۔۔۔ڈکٹر لاو ۔۔میرا بچہ ۔۔۔”
اس سے زیادہ وہ بول نا سکی تھی اس سے آگے عالم سن نا پائے تھے۔ وہ تڑپ کر ہاشم کو اس سے لے کر باہر کو بغیر کچھ سوچے سمجھے ایک بھی پل ضائع کیے بھاگے تھے ۔ہائیسم اور جلیس بھی اڑی رنگت مفلوج ذہن لیے ان دونوں کے پیچھے بھاگے تھے ۔فودیل ہانپتا ہوا گاڑی لے کر ہائیسم اور جلیس کی گاڑی کے پیچھے لگا چک تھا ۔
عالم نہیں جانتے تھے وہ کس طرح ہستپال پہنچے تھے ۔بس دماغ میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی ۔خون سے بھرے اس چھوٹے سے طوطے میں روفہ کی جان قید تھی ۔اور ان کی اپنی بیٹی میں ان کی خود کی۔۔اس گڈے میں جان ڈالنا اس وقت سب سے اہم تھا ۔۔
بدحواسی میں وہ ہاشم کو روفہ سے چھین کر ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھاگے تھے ۔۔
روفہ پنچرے میں قید پنچھی کی طرح پھڑ پھڑا کر ان کے پیچھے ڈگمگاتے قدموں سے بڑھی تھی ۔
عالم ایم این اے تھے ۔اگلے دس منٹ میں ہاشم کے دنیا سے غافل گہری نیند سوئے وجود کو سٹیچر پر ڈال کر آپریشن ٹھیٹر میں لے جایا جا چکا تھا ۔۔
روفہ ایک جھٹکے سے او ٹی کی لال بتی پر نظریں جمائے کرسی پر ڈھے گئی تھی ۔۔اس لال بتی کی چمکتی روشنی سے اس کے روم روم میں وحشت سی پھیل رہی تھی ۔۔ہاشم کے خون سے اس کی پوری قمیض بھر چکی تھی ۔۔ڈوپٹا شاید کہیں گھر میں ہی رہ گیا تھا ۔۔عالم کے گھر میں ڈوپٹا صرف روفہ ہی لیتی تبھی انہوں سے زیادہ دیھان نا دیا ۔۔
عالم مضطرب انداز میں ٹہل رہے تھے فل وقت تو ان کے پاس روفہ کو تسلی دینے کی بھی ہمت نا تھی۔
فون کی چنگھاڑتی آواز پر عالم نے چونک کر روفہ کے ستے چہرے سے نظریں اٹھائیں ۔
” ہاں ہم جنرل ہوسپیٹل ہیں ٹھیک ہے ۔۔اچھا ۔۔ڈرائیور سے بولو فضا کو بھی لے آئے ۔۔روفہ صحیح نہیں ہے اس وقت فضا ہی اس کو کچھ حوصلہ دے سکتی ہیں مجھ میں تو ہمت نہیں پڑ رہی ۔۔”
وہ نڈھال سے کرسی پر بیٹھ کر تھک کر بولے ۔۔روفہ اگر اپنی اولاد کے لیے مچل رہی تھی تو وہ اپنی بیٹی کے غم میں ہلکان ہوئے جارہے تھے ۔۔
ہائیسم کو کہہ کر وہ فون رکھ کر روفہ کے پاس جا کر بیٹھے ۔۔آہستہ سے اس کا سر خود سے لگا کر تسلی والے انداز میں سر تھپتھپانے لگے ۔۔اس سے زیادہ ان میں اور ہمت نا تھی ۔۔
” بابا میرا بیٹا ۔۔”
وہ نمناک لہجے میں اذیت سے بولی ۔۔اس وقت اس کو اپنی خشک آنکھوں کو نوچنے کا جی کر رہا تھا جو آج بھی خشک تھیں ۔۔اتنے بڑے حادثے پر دل خاموش اشک بہا رہا تھا مگر دیدوں کی پتلیاں خشک بنجر ہی تھیں ۔
آنکھوں کے کنارے سوزش سے سرخ ہو کر سوج گئے تھے ۔مگر ایک بھی آنسو ان کو نم نا کر سکا تھا ۔
” وہ پاک ذات بڑی رحمت والی ہے ۔۔اس کی رحمت سے مایوس مت ہونا روفہ ۔۔”
فقط اتنا کہہ کر وہ سینے سے لگائے ہی غم زدہ آنکھوں بوند کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے ۔۔
تھوڑی ہی دیر میں جلیس اور ہائیسم بھی آچکے تھے ۔ڈاکٹر سے وقفے وقفے سے وہ دونوں ہی پوچھ گچھ کر رہے تھے ۔۔جن کا کہنا تھا سر کی چوٹ بہت زیادہ گہری تو نا تھی مگر خون بہت بہہ گیا تھا ۔اور محض چار ماہ کے بچے کو خون لگانا رسکی تھا ۔۔تبھی اس کی حالت ابھی تشویش ناک تھی ۔
ہاشم کا بلڈ گروپ بی پوزیٹو تھا مگر ان سب کا اے پوزیٹو تھا سوائے ترتیل اور فودیل کے ۔۔
” اب خون کا کیا کرنا ہے ہائیسم ۔جلدی سے بلڈ بینک جاو یا پھر ترتیل کو لے آو جلدی سے جا کر ۔۔”
عالم کے کہنے پر روفہ امید سے ہائیسم کو دیکھنے لگی کہ وہ ابھی جا کر ترتیل کو لے آئے گا۔
” خون تو ہاشم کو لگ بھی چکا ہے ۔بابا آپ بس دعا کریں بلڈ سے کوئی سائیڈفیکٹ نا ہو ۔ابھی وہ بہت چھوٹا ہے۔ ”
روفہ کے پاس بیٹھ کر عالم کو تسلی والے انداز میں نرمی سے کہا ۔فضا ابھی تک نہیں آئی تھیں ۔وہ تینوں ہی وقفے وقفے سے اس کو تسلی دے رہے تھے ۔روفہ کی حالت ہی قابل رحم و توجہ تھی ۔ان سب نے اس کی ایسی تشویش ناک ترحم بھری حالت تصور بھی نا کی تھی۔۔وہ کیا تھی مگر اولاد کے غم میں شکست خوردہ سی بے حس و حرکت آئی سی یو پر نگاہیں جمائیں بیٹھی تھی ۔۔
نظروں کی تپش بھری حرارت پر وہ یوں ہی رخ موڑ کر دیکھنے لگی سامنے ہی فودیل آنکھوں کے سرخ پیپٹوں سے اس کو ندامت اور حسرت سے دیکھ رہا تھا ۔وہ اپنے بچے سے چھ منٹ کی غفلت برت گیا تھا یہ بات زہر کی طرح اندر ہی اندر اسے کھائے جا رہی تھی ۔۔
روفہ کسی خیال کے تحت چونک کر ہائیسم کی طرف دیکھنے لگی ۔ہائیسم اس کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلانے لگا ۔۔اپنے خدشے کی تصدیق ہونے کی بات روفہ کو اس وقت بالکل برداشت نا ہوئی تھی ۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس کے روبرو کھڑی ہوئی اگلے ہی پل زور دار تھپڑ کی گونج ہوسپٹل کے کوری ڈور میں گونج اٹھی تھی ۔۔ہائیسم اور جلیس آنکھوں کی پتلیوں کو پھیلائے دم بخودہ ہو کر روفہ کا عمل دیکھ رہے تھے ۔۔عالم ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھ کر پریشانی سے کھڑے ہوئے تھے ان کی تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔
وہاں فودیل کے سوا کسی کو بھی روفہ سے اس طرح کے عمل کی توقع ہر گز بھی نا تھی ۔فودیل اس کے برہم نافہم تاثرات بھانپ چکا تھا تبھی آنکھیں میچ کر چپ چاپ تھپڑ کھا کر بھی سر اٹھا کر اس کو دیکھا نہیں سرخ تپتے گال سمیت سلگتی آنکھوں کو بند کر کے تلکیف کا گھونٹ صبر سے پی گیا ۔۔وہ تو اپنے ہی پچھتاوے میں جل رہا تھا اس کو روفہ کا ردعمل بالکل حق بجانب لگا تھا ۔۔
آس پاس سے گزرتی نرسیزز اور مریضوں کے ساتھ آئے لوگوں نے حیرت سے اس بکھرے بالوں والی غصے کی شدت سے کڑھتی لڑکی کو ایک خوبرو سر جھکائے مرد کو تپھڑ مارتے دیکھا تھا ۔۔کچھ لوگ رک کر تماشہ دیکھنے لگے تھے تو کچھ آپس میں چہ مگوئیاں کر کے چلے گئے ۔۔
ان تینوں نے آج تک روفہ کا غصہ نہیں دیکھا تھا مگر آج اس کو اشتعیال سے کانپتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔
” کیا لینے آئے ہوں یہاں ۔میرے بچے کو موت کے منہ میں بھینج کر سکون نہیں ملا تمہیں ۔اگر اس کو کچھ ہوا نا قسم ہے مجھے میرے اللہ کی یہ ماں تمہارا نام و نشان مٹا دے گی ۔۔”
طیش سے آواز کانپ رہی تھی ۔پریشانی سے آتی فضا بھی روفہ کا فودیل کو تپھڑ مارنا دیکھ چکی تھیں تبھی منہ پر ہاتھ رکھے استعجاب کے عالم میں جہاں تھیں وہاں ہی کھڑی رہ گئیں ۔۔
” پہلے خون نچوڑ لیا اور اب اپنا ہی خون دے کر اس کو بچانا چاہتے ہو کیوں دیا اپنا خون ۔میرے ہاشم کو تمہارے خون کی ضروت نہیں ہے ۔”
بولتے بولتے گلا رندھ گیا تھا ۔آنسو کا گولہ گلے میں پھانس کی طرح چبھنے لگا تھا۔ مگر ستم یہ کہ آنکھوں کے راستے وہ گولہ اب بھی بہنے سے قاصر تھا ۔
فودیل نے سرخ انگارہ نگاہوں سے اس کی بروان آنکھوں کے سوجے پیپٹے دیکھے ۔۔
ہائیسم آگے بڑھ کر روفہ کو ڈھنڈا کرنا چاہتا تھا مگر عالم نے اس کا بازو تھام کر نفی میں سر ہلا کر اس کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔جلیس گہرا سانس بھر کر ڈاکٹر کے کمرے کی طرف چلا گیا تھا ۔۔
فودیل نے لبوں کو سختی سے بھینج کر ضبط سے بغیر اردگرد کی پرواہ کیے آگے بڑھ کر روفہ کو اپنی سخت گرفت میں قید کرکے سینے میں بھینج لیا ۔اپنی کمر پر مضبوط بازو کا حصار اس کو حوصلہ دے رہا تھا ۔وہ بھی سب کچھ بھلائے فودیل کی شرٹ کی جیب کو مٹھی میں زور سے پکڑ کر دانت پر دانت سختی سے جمائے رگوں میں دھوڑتی تکلیف کو سہنے کی کوشش میں تھی ۔۔وہ دونوں ماں باپ تھے جن کا جیتا جاگتا حصہ اس وقت انتہائی نگہداشت میں تھا ۔دونوں کو سہارے کی ضرورت اور اس وقت وہ ایک دوسرے کا سب سے مضبوط عٹوٹ سہارا تھے ۔۔
فضا روتے ہوئے عالم کے پاس آکر ہاشم کے بارے میں پوچھنے لگیں تھیں ۔جن کو عالم آہستہ آواز میں تسلیاں دے کر چپ کروارہے تھے ۔ہائیسم ایک نظر روفہ کو فودیل کے حصار میں دیکھ کر ماں کے لیے پانی لینے چلا گیا ۔۔
” ہاشم ہمارے بیچ پل کا کام کرتا ہے وہ پل ٹوٹ گیا تو یہ رشتہ بھی اپنی بےساکھی کھو بیٹھے گا ۔۔”
فودیل نے اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دبا کر اس کو خود سے زرا سا الگ کیا ۔روفہ کی کمر پر موجود گرفت مزید سخت ہوچکی تھی ۔۔وہ بھی سرد نگاہوں سے اس کو دیکھنے لگی ۔۔
” ہمارے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا ۔وہ بالکل صحت یاب ہو جائے گا جو بھی ہوا وہ حادثہ تھا ۔۔اگر تم نے دوبارہ مجھ سے الگ ہونے کی بات کی تو میں ہاشم کو تم سے بہت دور کردوں گا روفہ ۔”
اس کی دھمکی پر روفہ آپے سے باہر ہوتے خود کو اس سے دور کرنے کے لیے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکیلنے لگی ۔۔
فودیل نے اپنا دائیاں بازو اس کے سر کے پیچھے رکھ کر زبردستی بغیر اس کے احتجاج کی پرواہ کیے اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔وہ بھی تھک کر نڈھال ہوتی اس کے سینے سے ماتھا ٹکا کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی ۔
” میرا وعدہ ہے ہاشم بالکل ٹھیک ہوجائے گا ۔میں جانتا ہوں تمہیں ہاشم اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے ۔میں دعا کروں گا میری محبت کی چاہت کو رب لمبی زندگی دے ۔۔”
اس کی میٹھی سرگوشی پر روفہ نے اپنی کپکپاتی تھوڑی پر قابو پاکر آنکھیں موند لیں ۔۔
ہاشم روفہ کی محبت تھا اور روفہ اس کی محبت ۔فودیل اب ہر گزرتے پل کے ساتھ اپنی روفہ کی محبت کے لیے دعا گو تھا ۔۔۔