جمال نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں ایک شخص اسے سامنے سے آتا دکھائی دیا تو اس نے ان لوگوں کی بابت اس سے پوچھا۔۔
” یہ لوگ کہاں ہیں ان کے دروازے پہ تالا کیوں لگا ہوا ہے؟؟ اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔۔
"یہ لوگ؟؟ یہ تو کب کے یہاں سے جا چکے ہیں” وہ شخص اس کی سماعت میں صور پھونکتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور جمال بے جان قدموں سے خود کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
کسی کو کھو دینا کیا ہوتا ہے حقیقی معنوں میں اسے آج اس کا اسے اس کا ادراک ہوا تھا ۔۔۔
کھلی ہوا میں بھی اس کو سانس کھینچ کھینچ کر لینا پڑ رہا تھا۔۔
"کہاں ڈھونڈوں اسے؟؟ ” وہ گاڑی میں بیٹھا اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے بیٹھا تھا۔۔
ہر راستے کے سامنے ایک اندیکھی دیوار حائل ہوچکی تھی اور وہ محض اندھیرے میں ہاتھ پاؤں ہی مار رہا تھا۔۔۔
بے اعتباری کی سزا اس نے حسینہ کے ساتھ خود کو بھی دی تھی جس کی تپش میں اسے ناجانے کب تک جلنا تھا۔۔۔
واپسی کا سفر ہمیشہ ہی تکلیف دہ ہوتا ہے یادوں کی کرچیوں پہ چل کہ ہی یہ فاصلہ عبور ہوتا ہے ۔۔
سارے راستے خود کو دلاسوں اور تسلیوں سے بہلاتا وہ گھر تک پہنچا جہاں ایک اور امتحان اس کا منتظر تھا۔۔
زندگی کو اتنا ہی آسان ہونا چاہیے جتنا بندہ باآسانی جھیل سکے باوجود یقین دہانی کے کہ بندے کی سکت کے مطابق ہی اس پہ مشکل ڈالی جاتی ہے پر وہ مشکل اسے ہمیشہ پہاڑ ہی لگتی ہے۔۔
سارا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا ۔کون کہہ سکتا تھا کہ یہ شادی والا گھر ہے ۔۔۔
جمال نے خالی دل اور اپنے ٹوٹے وجود کے ساتھ اپنےکمرے کی طرف قدم بڑھائے ۔ پلوشہ روایتی دلہنوں کی طرح اس کے انتظار میں نہیں بیٹھی تھی بلکہ وہ عروسی لباس بدل کے نیند کی وادیوں میں گم تھی ۔۔
” چلو یہ بھی ایک طرح سے اچھا ہی ہوا” اس نے ایک گہری سانس بھرتے ہوئے خود کلامی کی ۔۔
وقت سرکتے سرکتے سرک ہی گیا اور صبح کا سورج نئے دن کا پیغام لیے روشن تھا۔۔
جمال کی آنکھ کمرے میں ہونے والی کھٹر پٹر کی آواز سے کھلی ۔۔۔
پلوشہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی ۔جمال نے اسے دیکھنا چاہا لیکن اس کی آنکھیں اس کے چہرے میں کوئی دوسرا چہرہ تلاشنا چاہتی تھی ۔۔
کتنا اذیت ناک ہے نا کہ آپ جسے دیکھنا چاہیں اسکی جگہ کوئی دوسرا ہو اور آپ اندر ہوتے بین کو دبائے لبوں پہ مسکراہٹ سجائے دنیا کو "سب ٹھیک ہے” دکھائیں ۔۔۔
پلوشہ نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اس پہ ڈالی اس ہی لمحے دروازے پہ دستک ہونے لگی تو جمال نے اٹھ کے دروازہ کھولا سامنے اس کی ماما تھیں۔۔
ان کا دل اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر بے طرح دکھا وہ اس سے نظریں چراتیں کمرے میں داخل ہوئیں ۔۔
پلوشہ نے ان کو مسکرا کے سلام کیا ۔۔
"جلدی سے ناشتے کے لیے آجاؤ تمھاری ماما بھی آچکی ہیں” وہ دونوں کو کہہ کر کمرے سے نکل گئیں۔۔
جمال حتی الامکان پلوشہ سے نظریں ملانے سے احتراز کر رہا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت اپنی عادت کے عین مطابق تیز رفتاری سے گزر رہا تھا ۔ پلوشہ شادی کے بعد امریکہ وآپس چلی گئی ۔ جمال اس کے پاس کچھ مہینوں کے لیے چلا جاتا اور پھر وآپس آجایا کرتا کیونکہ کاروبار کی بھی ذمیداری اس کے کاندھوں پہ تھی ۔۔۔
دیکھا جائے تو ان کی زندگی میں سب کچھ تھا لیکن چین اور سکون ان کی دسترس سے دور تھا ۔۔
جمال کے والدین پوتے پوتی کی حسرت لیے دن کاٹ رہے تھے لیکن یہ خوشی شاید ان کے نصیب میں نا تھی ۔۔
امریکہ سے لے کر پاکستان تک انھوں نے کوئی ڈاکٹر نا چھوڑا لیکن کوئی بھی ان کو بامراد نا کرسکا۔۔
دونوں کی ساری رپوٹس بالکل ٹھیک تھیں لیکن ان کا آنگن پھر بھی خالی تھا۔۔
پلوشہ باہر کی ہنگامہ خیز زندگی میں بھی اپنا آپ ادھورا پاتی تھی اور جمال ابھی بھی حسینہ کی یاد اور تلاش میں گم تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کب کون سی کروٹ لے لے یہ کوئی نہیں جانتا پلوشہ بھی آنے والے وقت سے بے خبر ہی تھی ۔۔
جمال کی پہلی شادی اس کے علم میں تھی اور حسینہ کا ملکوتی حسن آج بھی اس کی یاداشت میں محفوظ تھا۔۔
جمال کے دل پہ کس کا قبضہ تھا وہ یہ بات بخوبی جانتی تھی ۔ آج کل وہ پاکستان آئی ہوئی تھی۔ وقت گزاری کے لیے اس نے بازار کا رخ کیا ۔۔
ایک بوتیک کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے قدم وہیں رک گئے ۔ انتہائی مہارت اور بہترین انداز کے سلے ہوئے ملبوسات وہاں شیشے کے اندر لگے ہوئے تھے۔۔
پلوشہ دروازے کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوئی ۔ دکان کے اندر رکھا ہر جوڑا نفاست اور خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔۔
پلوشہ نے جب اپنی نظریں لباس سے اٹھائیں تو سامنے دکھنے والے چہرے نے اسے پتھر ہی کردیا ۔۔
اس کے سامنے حسینہ کھڑی ہوئی تھی ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھیں ۔۔
” جی آپ کیا پوچھ رہی تھیں؟؟ حسینہ نے اس کو ایک معمول کی گاہک سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا ۔۔
پلوشہ کو اس کی آنکھوں میں اپنے لیے کسی بھی قسم کی پہچان نہیں دکھائی دی ۔۔
اس نے کچھ جوڑوں کی طرف اشارہ کیا اور ان کو پیک کرنے کے لیے کہا ۔۔
وہ پیسوں کی ادائیگی کر ہی رہی تھی کہ اس کی سماعت نے ایک آواز سنی ۔۔۔
"امی امی یہ دیکھیں میں نے کیا بنایا؟؟ ایک تین سالہ بچہ اپنی بنائی تصویر حسینہ کو دکھا رہا تھا۔۔
پلوشہ نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس کو اپنا آپ برف سا بنتا محسوس ہوا ۔
آج کا دن اسے شاید چونکانے کے لیے آیا تھا ۔ بچہ ہو بہو جمال کی تصویر تھا وہی ناک نقشہ وہی آنکھیں رتی بھر بھی فرق موجود نا تھا ۔۔
پلوشہ نے اپنے پیروں میں لرزش سی محسوس کی وہ جلد از جلد وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی ۔۔
جب وہ وہاں سے نکلی تو اسے لگا کہ جیسے کوئی بھاری بوجھ اس کے کاندھوں پہ ڈال دیا گیا ہو ۔۔
جمال کو اس نے شادی کے بعد ایک ان دیکھی آگ میں جھلستے دیکھا تھا۔۔
پچھتاوے کا احساس اس کی آنکھوں میں باآسانی محسوس کیا جاسکتا تھا۔۔
سوالوں کا ایک طوفان تھا جو اس کے اندر بپا تھا ۔۔
"کیا مجھے جمال کو حقیقت سے آگاہ کر دینا چاہیئے؟ اوراگر نا بتاؤں تو کیا ہو؟؟ وہ خود ہی سوال کررہی تھی اور خود ہی جواب دے رہی تھی ۔۔
اے سی والی گاڑی میں بھی اسے شدید گھٹن کا احساس ہو رہا تھا ۔۔
حسینہ کے بارے میں جمال کو پتا لگ جانے پہ اس کی کیا حیثیت رہ جائے گی ؟؟ یہ سوالات اس کے حواس مختل کر رہے تھے ۔۔
گھر پہچنے پہ بھی اس کی حالت میں کوئی سدھار نا آیا اسے شدید بے چینی اور گھبراہٹ نے گھیر رکھا تھا ۔ آنے والے وقت نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔۔
وہ بہت سے رازوں سے واقف تھی کس طرح اس کے ماموں نے سازش رچی اور جمال کی خوشیاں چھین لیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے اندر اتنی اخلاقی جرات نا پیدا کر سکی کہ جمال کو سچائی سے آگاہ کر پاتی ۔۔
پہلے ہی ایک راز اسے کچوکے لگاتا تھا اور اب یہ ایک اور بوجھ اس کے کاندھوں پہ آگیا تھا اس کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی اسے شدید گھٹن کااحساس ہو رہا تھا ۔۔۔
جمال جب آفس سے واپسی پہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے پلوشہ کو زمین پہ گرا ہوا پایا وہ دوڑ کے اس کے قریب آیا ۔۔
"پلوشہ !! کیا ہوا؟؟ وہ اس کا گال تھپتھپانے لگا
ایمرجنسی میں اسے اسپتال پہنچایا گیا ۔۔
” آپ بروقت انھیں اسپتال لے آئے یہ ان کے لیے بہت اچھا رہا” ڈاکٹر نے جمال سے کہا ۔۔
"ہوا کیا اچانک سے” اس نے پوچھا
"مریضہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھیں اور اس وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا” ڈاکٹر نے تفصیل بتائی
"میں کب تک مل سکوں گا؟؟” جمال نے پوچھا
"وہ ہوش میں آگئیں ہیں تھوڑی دیر میں آپ ان سے مل سکیں گے” ڈاکٹر اس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے چلا گیا۔۔
پلوشہ نے اس کی زندگی کے خلا کو بھرنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن وہ خود ہی اپنے زخموں کو ادھیڑ دیا کرتا تھا ۔۔
ماضی سے تعلق توڑنا اس کے شاید بس سے باہر کی بات تھی وہ ان ماہ و سال میں لگاتار حسینہ کی تلاش میں سرگرداں رہا تھا پر وہ اس کی گرد تک نا پاسکا تھا۔۔
اندر کمرے میں داخل ہوا تو پلوشہ اسے برسوں کی بیمار دکھائی دی ۔ رازوں کے بوجھ نے اسے بوجھل کر رکھا تھا ۔۔
"کیا ہو گیا یہ اچانک سے ے تم کو ؟؟” وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
پلوشہ کے لب کانپنے لگے اس نے ہاتھ بڑھا کہ جمال کے ہاتھوں کو تھام لیا۔۔
"مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے” اس نے نخیف سی آواز میں کہا
"گھر چل کے بات کریں گے ابھی تم آرام کرو ” اس نے اسے کہا اور باہر کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگا
"میں حسینہ سے مل کے آئی ہوں” یہ الفاظ سن کر جمال پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اسے تکنے لگا اسے اپنی سماعت پہ شبہ گزرا۔۔۔۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...